کورونا جنگجو (انگریزی: corona warriors) سے مراد وہ تمام ڈاکٹر، نیم طبی افراد، پولیس اہل کار، صفائی ستھرائی کے ملازمین اور وہ تمام لوگ جو کورونا وائرس یا کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں شریک رہے ہیں۔[2] یہ بطور خاص ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اس جد و جہد میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔

Thumb
عظیم تر بلدیہ حیدرآباد کے زیر اہتمام کورونا وائرس کی عالمی وبا کے ضمن میں رواں ایک گشتی گاڑی۔ اس طرح کی گاڑیوں کئی بار ڈاکٹروں اور تیمار داروں کا عملہ شامل ہوتا ہے۔ اس میں دیگر بلدیہ کے عہدیدار بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کا مقصد عوام میں کورونا وائرس سے بیداری، وبا سے مقابلہ اور عوام کی صحت کا حفظان ہے۔ تلنگانہ میں پائے جانے والے اواخر اپریل 2020ء کے 1196 کورونا وائرس کے متاثرین میں بڑی تعداد کا تعلق شہر حیدرآباد سے رہا ہے اور مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد میں پائے جانے والے مصدقہ مریضوں کے متعلق محکمہ صحت کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ جملہ مصدقہ مریضوں میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے مریضوں کا فیصد 59.3 ہے۔ جبکہ ما بقی مریضوں کا تعلق ریاست کے دیگر اضلاع سے ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کی جانے والی تفصیلات کے مطابق ریاست تلنگانہ میں پہلے کورونا وائرس کے مریض کی نشان دہی 2 مارچ کو کی گئی تھی اور دبئی سے بنگلورو اور بنگلورو سے بہ ذریعہ بس حیدر آباد پہنچنے والے مہندرا ہلز کے نوجوان کی شناخت پہلے مصدقہ مریض کی حیثیت سے کی گئی تھی جن کا گاندھی ہاسپٹل میں علاج کیا گیا۔ اس کے بعد سے ریاست میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔[1]

بھارت میں کورونا جنگ جو

ڈاکٹر

Thumb
بھارتی ڈاکٹر شبیر نیلی کوڈے مجلس تعاون برائے خلیجی عرب ممالک اور بھارت کے ساتھ ساتھ کئی ممالک میں صحت کے شعبے میں رفاہ عام کی خدمات کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کے 2 اکتوبر 2020ء کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 515 ڈاکٹر کورونا وائرس سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔[3]

ملک کے کئی حصوں میں ایسے بھی واقعات منظر عام پر آئے ہیں کہ ڈاکٹروں کو کورونا وائرس پھیلانے والوں کے طور پر سمجھ کر انھیں ہراساں بھی کیا گیا ہے اور کچھ جگہوں پر ان کی مار پیٹ بھی کی گئی۔ ایک واقعہ بہ طور خاص ذرائع ابلاغ میں چرچا کا موضوع بنا، جس میں مدھیہ پردیش کے دار الحکومت بھوپال میں واقع آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنس کے ہسپتال کے دو ڈاکٹروں پر ان کے شناختی کارڈ دیکھنے کے باوجود پولیس اہل کاروں نے انھیں کورونا وائرس پھیلانے والے قرار دیتے ہوئے ان کی شدید پٹائی کی۔ ان ڈاکٹروں میں ایک کا ہاتھ ٹوٹ گیا اور دوسرے کے پاؤں زخمی ہوئے۔[4] اس طرح کے واقعات کے مد نظر حکومت ہند نے وبائی امراض قانون 1897ء میں ترمیم 22 اپریل 2020ء کو کی، جس کی رو سے ڈاکٹروں پر تشدد پر آمادہ افراد پر سات سال تک کی قید اور 500,000 روپے تک کے جرمانے کی اضافی گنجائش شامل کی۔[5]

تیمار دار طبقہ

ٹرینڈ نرسیز ایسوسی ایشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق وسط اگست 2020ء تک کم از کم 20 نرسیں کورونا وائرس کی وجہ سے اپنی جان گنوا چکی ہیں جب کہ 509 نرسیں رپورٹ فراہمی کے وقت اسی وجہ سے بیمار رہی ہیں۔[6]

پولیس اہل کار

جون 2020ء تک 788 پولیس اہل کار کورونا وائرس سے متاثر بتائے گئے تھے۔ جب کہ اسی دوران 300 متاثرہ شخص صحت یاب بھی ہو گئے اور دوبارہ ملازمت میں شامل ہو گئے۔ متذکرہ دور میں 248 پولیس اہل کار ادارہ جاتی قرنطینہ میں بتائے گئے جب کہ 216 گھریلو قرنطینہ میں بتائے گئے۔ کئی متوفی پولیس اہل کاروں کی سرکاری اعزاز کے ساتھ آخری رسومات انجام دی گئی ہیں۔[7]

دنیا بھر میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے وقت پولیس اہل کاروں ان کی کئی مثبت خدمات کے لیے یاد کیا جاتا ہے، وہیں کئی مقامات پر پولیس پر دست درازی کا بھی الزام عائد ہوا ہے اور کچھ سنگین معاملات بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک ایسا ہی معاملہ بھارت کی ریاست تامل ناڈو کے توتوکوڈی ضلع کے ستان کولم شہر میں پیش آیا جب وہاں حکومت کے نافذ کردہ سخت تالا بندی کے دوران زائد از اجازت وقت کے لیے اپنی موبائل سامان کی دکان کھلی رکھنے کی وجہ سے ایک باپ بیٹے کو پولیس اہل کاروں کے گرفتار کر کے اس قدر پیٹا کے دونوں ہی انتقال کر گئے۔[8] اس سلسلے میں ریاستی حکومت نے چار پولیس اہل کاروں کو گرفتار کیا اور ان کا معاملہ ملک کے مرکزی تحقیقاتی ادارے سی بی آئی کے حوالے کیا۔[9] اس واقعے کو پولیس کی سختی کی وجہ سے ملزمین کی بے وقت موت کی وجہ سے کئی ذرائع ابلاغ کے حلقوں نے بھارت کے جارج فلائڈ کا معاملہ قرار دیا۔[10] [11]

اسی طرح سے ملک میں پولیس نے کئی نقل مقام کرنے والے مزدوروں، ڈاکٹروں، سڑک پر فروخت کرنے والوں اور دیگر عام شہریوں پر تشدد کرنے کے کئی واقعات رو نما ہوئے، جن کی ذرائع ابلاغ نے سرخیوں میں خبر دی۔[12]

صفائی ستھرائی کے ملازمین

صفائی ستھرائی کے ملازمین کئی اہم خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ ان میں سڑکوں کی صفائی، کچرے کی نکاسی، پانی کی ٹنکیوں کی صفائی، انسانی اور تجربہ گاہوں کے ناقص مادوں کی صفائی وغیرہ اس میں شامل ہیں۔ اس کے لیے کئی بار ان لوگوں کے پاس نہ تو سینی ٹائزر ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے پاس چہرے کا ماسک ہوتا ہے۔ ان تمام لوگوں کے اعداد و شمار فوری طور پر دست یاب نہیں ہے۔ بھنگی یا بیت الخلا سے جڑے صفائی ملازمین کے اعداد کے اندازے میں صحیح تعین کافی مشکل ہے۔ سرکاری اعداد کے مطابق 182,000 لوگ اس پیشے سے وابستہ ہے، جب کہ انسانی حقوق سے جڑے لوگوں کے مطابق 770,000 لوگ اس پیشے سے جڑے ہیں۔[13]

حمل و نقل سے جڑے لوگوں کی ہلاکت

کورونا وائرس کے زور شور کے دور میں کئی حمل و نقل سے جڑے لوگ بھی اس عالمی وبا کی وجہ سے اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ ان کی زندگی اس پورے دور میں کافی تکلیف دہ رہی ہے۔ ایک کافی مشہور واقعہ ٹیکسی ڈرائیور عارف خان کا رہا جو شمال مشرقی دہلی کے سیلم پور کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ ایک غیر سرکاری ادارے کے لیے کام کرتا تھا۔ کورونا کے دور میں چھ مہینے تک وہ کورونا کے مریضوں اور اس سے متاثرہ متوفی اشخاص کی منتقلی کا کام رات دن کر رہا تھا۔ اس وجہ سے وہ اپنے گھر کی بجائے ایمبولنس ہی میں سو رہا تھا اور اہل خانہ سے بہت کم تعلق رکھ رہا تھا۔ بالآخر 14 اکتوبر 2020ء کو وہ خود کورونا کی وجہ سے فوت ہو گیا۔[14] کئی دیگر ڈرائیور اسی طرح اپنی جان گنوا چکے ہیں جن کے الگ سے اعداد و شمار کسی ادارے نے جاری نہیں کیے گئے ہیں۔

متاثرہ جنگ جوؤں کے بچوں کے لیے تعلیمی تحفظات

حکومت ہند نے تعلیمی سال 2020ء-2021ء کے دوران ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کورسوں میں ملک کی ہر جامعہ کے مرکزی کوٹے میں متوفی کورونا جنگ جوؤں کے بچوں کے لیے پانچ نشستوں کے مختص کیے جانے کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ کئی سرکاری اور غیر سرکاری ادارہ جات نے ان افراد کے لیے خصوصی رعایتوں کا اعلان کیا۔ چنڈی گڑھ یونیورسٹی میں کورونا جنگ جوؤں کی اولاد کے لیے فیس میں 10 فی صد کمی اور 5 فی صد نشستوں کے تحفظ کا اعلان کیا۔[15]

خراج

ملک میں کئی حلقوں سے کورونا جنگ جوؤں کی خدمات کو سراہا گیا اور ان کی خدمات کو سلام پیش کیا گیا۔ ان میں انٹرنیٹ پر بھارت تبت سرحد پولیس کے سپاہی وکرم جیت سنگھ کا نغمہ ہمت نہ ہار کافی مقبول ہوا۔ [16]

پاکستان میں کورونا جنگ جو

Thumb
ایکسپو سینٹر لاہور پاکستان میں ایک عارضی ہسپتال میں تبدیل گیا تھا جہاں ڈاکٹر کورونا وائرس کی وبا کے عام ہو جانے کے وقت لوگوں کے علاج و معالجہ پر توجہ دے رہے تھے۔

پاکستان میں نوول کورونا وائرس کا پہلا کیس 26 فروری 2020ء کو رپورٹ ہوا۔

ڈاکٹر

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس مرض کا سب سے آسان شکار طبی عملہ ہے۔کورونا وائرس سے 9 دسمبر 2020 تک 135 ڈاکٹر وفات پا چکے ہیں[17]۔کورونا کی دوسری لہر میں صرف پانچ دنوں میں 10 ڈاکٹروں نے وفات پائی[18]۔

پولیس

کورونا کی وبا کی پہلی لہر میں حکومت پاکستان نے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا۔ پولیس نے ا س لاک ڈاؤن کو موثر بنانے میں کافی اہم کردار ادا کیا۔کورونا وائرس کی دوسری لہر کے دوران ملک بھر میں سیاسی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ اپوزیشن کی 11 جماعتوں پر مشتمل اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے ملک بھر میں جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیا۔ پولیس نے جلسے اور جلوسوں کے دوران کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی پر ہزاروں افراد کے خلاف مقدمات قائم کیے[19]۔تاہم اپوزیشن کی جماعتوں نے اسے سیاسی ہتھکنڈے قرار دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ جلسوں کے دوران پی ڈی ایم کے سوا دوسری جلسہ کرنے والی جماعتوں جیسے جماعت اسلامی کے جلسوں پر کورونا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی کارروائی نہیں کی گئی۔اپوزیشن کا موقف تھا کہ حکومت خود 15 نومبر تک گلگت بلتستان اسمبلی کے الیکشن کے موقع پر جلسے جلوس کرتی رہی ہے اس لیے ان کے خلاف مقدمات سیاسی ہیں۔

سیاسی جماعتوں کا کردار

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے نوجوانوں پر مشتمل ٹائیگر ریلیف فورس قائم کی۔وزیر اعظم نے مارچ میں ٹائیگر فورس کے قیام کا اعلان کیا اور اپریل میں اس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کر لیا گی۔ اس فورس کا مقصد نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی یعنی این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کے گھروں تک راشن اور خوراک پہنچانا تھا۔ اس کے علاوہ انتظامیہ اپنی ضرورت کے مطابق ان کی خدمات حاصل کر سکتی تھی۔تاہم کورونا کی وبا کے دوران ٹائیگر فورس کی فعالیت پر بھی بہت سے سوالا ت اٹھائے گئے[20]

ریاستہائے متحدہ امریکا میں کورونا جنگ جو

Thumb
ریاستہائے متحدہ امریکا میں اسکول میں قائم ایک صحت کی دیکھ ریکھ کے لیے مطب۔

ریاستہائے متحدہ امریکا میں 2020ء کے اواخر تک دنیا بھر میں سب سے کورونا وائرس سے افراد متاثر ہوئے۔ امیریکن کالج آف ایمرجنسی نے مارچ اپریل 2020ء تک دو اولین ڈاکٹروں کی ہلاکت کی اطلاع دی۔ ان میں ایک ہنگامی ڈاکٹر فرینک گابین (Frank Gabin) اور ایک گمنام چالیس سالہ ڈاکٹر کے انتقال کی اطلاع تھی۔ یہ ڈاکٹر ایک ہی طبی ماسک ایک ہفتے تک پہنتے رہے تھے جس سے اس کی انفیکشن سے دفاع کی صلاحیت ختم ہو چکی تھی اور وہ متاثر ہوئے تھے۔[21]

صدارتی اعزاز اور طلبہ کا جذبہ

ملک کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ نے اپریل 2020ء میں کئی کورونا جنگ جوؤں کو صدارتی اعزاز سے نوازا۔ ان میں ایک بھارتی نژاد اسکولی لڑکی اور اس کے دو ساتھیوں کو انعامات سے نوازا جو لگاتار ڈاکٹروں، نرسوں اور آتش فرو دستوں کو گریٹنگ کارڈ اور کوکیز بھیچ رہی تھیں۔[22]

عوام کا جذبہ

کیلی فورنیا اور مشی گن کے لوگ ایک انوکھے طریقے سے طبی عملوں کی مدد کر رہے ہیں۔ یہ ڈاکٹر، نرس اور طبی عملہ اپنی لگژری یعنی تفریحی وین مفت میں استعمال کے لیے دے رہے ہیں، تاکہ انھیں گھر جیسی سہولتیں اور آرام ملے اور ان کے اہل خانہ کو انفیکشن سے بچایا جا سکے۔ اس مہم میں 15 ہزار سے زیادہ لوگ جڑ چکے ہیں اور مارچ 2020ء تک 2,500 سے زیادہ ڈاکٹر، نرسوں اور صحت کے عملے کو یہ وین دی جا چکی ہیں۔ قریب 50 لاکھ سے ایک کروڑ رپئے قیمت والی ان گاڑیوں میں باورچی خانہ، فرج، بیت الخلاء، ٹی وی، خواب گاہ، صوفہ جیسی سہولتیں بھی ہیں۔ ان کی چھت اٹھاکر اونچی بھی کی جا سکتی ہے۔ انھیں موٹرہوم، کیمپر (camper) یا کاروان بھی کہا جاتا ہے۔[23]

نیپال میں کورونا جنگ جو

Thumb
کورونا تالا بندی کے دوران ایک ڈاکٹر کے نسخے سے ایک نیپالی خاتون دوا فروش سے ادویہ حاصل کرتی ہوئی۔

نیپال میں اکتوبر 2020ء کے اوائل تک کورونا وائرس کے 98,617 معاملے اور 590 اموات کی خبروں کی تصدیق کی گئی۔ ایسے میں کئی منفی پہلو بھی منظر عام پر آئے، جن میں ملک میں ڈاکٹروں اور صحت سے جڑے ملازمین اور حفاظتی آلات کی کمی کافی نمایاں طور ذرائع ابلاغ میں چرچا کا موضوع بنے۔ تاہم ملک کے ایک ڈاکٹر بِشال ڈھکال جو ایک غیر سرکاری ادارے نیپال وینٹی لیٹر سروسیز کے بانی بھی ہیں، اس ضمن میں مثبت بات یہ بیان کر چکے ہیں کہ:

ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ حکومت غیر شفاف ہے اور اشتراک پسند نہیں کرتی۔ مگر ہماری صحت کا نظام خراب نہیں ہے۔ ہماری معاملات کو سلجھانے کی صلاحیت اب بھی اچھی ہے اور ہمارے صحت سے جڑے پیشے ور اپنے کام میں پوری لگن سے جڑے ہوئے ہیں۔[24]

ہلاکتیں

خبروں کے پورٹل آن لائن خبر کی اطلاع کے مطابق نیپال میں کورونا وائرس کی وجہ سے سب سے پہلے ڈاکٹر کی ہلاکت سر کھیت کے کرنالی ہسپال میں ایک 58 سالہ ڈاکٹر کی موت ہے جو یکم اکتوبر 2020ء کو ہوئی۔ متوفی ڈاکٹر دو ہفتے قبل کووڈ 19 سے متاثر ہوئے اور سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہے تھے۔ انھیں نیپال گنج کے بھیری ہسپتال لے جایا گیا اور وینٹی لیٹر پر رکھا گیا، جہاں ان کی حالت تشویش ناک ہوئی اور جاں بر نہ رہ سکے۔[25] 3 جولائی، 2020ء تک کم از کم 91 صحت سے جڑے ملازمین، جن میں ڈاکٹر، نرسیں، نیم طبی عملے اور تجربہ گاہی ٹیکنیشن متاثر پائے گئے تھے۔ جب کہ ملک میں کسی کورونا جنگ جو کی اگر ہلاکت ہوئی ہے تو وہ در حقیقت سب سے پہلے ایک صحت کی دیکھ ریکھ کے ایک معاون کی کووڈ 19 کی وجہ سے 26 اگست 2020ء کو ہوئی تھی۔ [26] ملک میں کئی اور بھی ہلاکتیں واقع ہوئے ہیں، تاہم وہاں کی حکومت نے فوری طور اعداد و شمار جاری نہیں کی ہے۔

صحت کی دیکھ ریکھ سے جڑے لوگوں کے مسائل

نیپال میں ڈاکٹروں اور نرسوں کو حفاظتی آلات کی کمی بہت متاثر کر رہی ہے۔ کئی بار انھیں اس کے لیے خود انتظام کرنا ہوتا ہے۔ کئی بار حفاظتی آلات کی کمی کی وجہ سے یہ لوگ گھنٹوں وہی ماسک، فیس شیلڈ اور دستانے گھنٹوں پہنے ہوتے ہیں اور چونکہ انھیں نکالنے کے بعد انھیں دوبارہ نہیں پہنا جاتا، اس وجہ سے یہ دن دن بھر کچھ کھائے، پیے اور بیت الخلاء سے فارغ نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ کئی صحت کے پیشہ ور مرض کے معتدی ہونے کی وجہ سے اپنے گھر خاندان سے الگ زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنے مکان مالک، پڑوسی، عوام، میڈیا اور یہاں تک کہ پولیس سے کئی بار حملوں سے بچنا پڑا ہے۔ کھٹمنڈو کے نیو بانیشور علاقے میں وہاں رہنے والوں نے ایک ہاسٹل کے رو بہ رو احتجاج درج کیا جہاں سیول ہسپتال کے ڈاکٹر اور ملازمین رہا کرتے تھے کیوں کہ ان سے یہ معتدی مرض کے پھیلنے کا خطرہ تصور کیا گیا۔ تری بھوون یونیورسٹی کے تین ڈاکٹروں پر اسی وجہ سے پولیس نے حملہ بھی کیا تھا۔ اس طرح کے کئی واقعات رو نما ہو چکے ہیں اور اس زمرے کے لوگ اس سے کافی عاجز بھی ہوئے ہیں۔[26]

عام شہریوں کی جانب سے امداد

جہاں نیپال میں کئی دیگر ممالک کی طرح کورونا جنگ جوؤں سے کے ساتھ منفی رویے، انھیں سب و شتم بنانے، ان پر لعن طعن کرنے اور ان کے ساتھ تشدد اور نازیبا سلوک روا رکھنے کے واقعات پیش آئے ہیں، وہیں ان جنگ جوؤں کے ساتھ انسانی ہمدردی اور مثبت روہے سے بھی لوگوں کے پیش آنے کی خبریں بھی آئی ہیں۔ ان اصحاب میں سب سے نمایاں اور قابل ذکر نام بِکرم بھادیل کا ہے جو کورونا وائرس اور اس کی وجہ سے اپنے ملک میں نافذ دو تالا بندیوں سے پہلے تری بھوون یونیورسٹی ٹیچنگ ہاسپٹل کے قریب ایک دواؤں کی دکان چلاتے تھے۔ اپنے ملک میں عام و خاص شہریوں کے مصائب کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی خاندانی جمع پونجی سے دس لاکھ روپے الگ کر کے ایک باورچی خانے کی سہولت قائم کی جہاں اس جامعے سے منسلک ہسپتال میں شریک 200 سے زائد مریض، ڈاکٹر، نرس اور دیگر ہسپتالی عملے کو دن میں تین بار سبز خواری پر مبنی تین وقت کھانا فراہم کیا جانے لگا۔ اس خدمت گاہ کے عملے کو وقتًا فوقتًا کورونا کے لیے جانچنے کی بھی سہولت شامل کی گئی، تاکہ جہاں یہ خدمت جاری و ساری رہے، وہیں کسی معتدی مرض کے اخذ کرنے یا اس کے پھیلانے کا شائبہ کسی کار خیر کی انجام دہی میں مانع نہ ہو۔[27]

مزید دیکھیے

حوالہ جات

Wikiwand in your browser!

Seamless Wikipedia browsing. On steroids.

Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.

Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.