From Wikipedia, the free encyclopedia
مہ جبیں بانو[3] عرف مینا کماری (1 اگست 1933ء[4][5]-31 مارچ 1972ء) بالی ووڈ کی فلم اداکارہ تھی۔ انھوں نے ہندی سنیما کومتعدد کلاسیکی فلمیں دیں۔ انھیں دی ٹریجڈی کوئین اور چائنیز ڈول' بھی کہا جاتا ہے۔[6] ان کی شخصیت اور اداکاری کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے گرودت کا نسوانی اوتار اور بالی ووڈ کی سنڈریلا بھی کہا جاتا تھا۔[7][8]ان کا فلمی کیرئر 1939ء تا 1972ء رہا۔[9][10] مینا کماری کی سوانح عمری کے مصنف ونود مہتا کو کسی ڈائریکٹر نے بتایا کہ “ ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار بھی ان کے سامنے سنجیدگی برقرار نہیں رکھ پاتے تھے۔“[11] راج کمار اکثر ان کے سامنے اپنے ڈائلاگ بھول جاے ا کرتے تھے۔[12] مدھوبالا بھی مینا کماری کی مداح تھی اور کہا کرتی تھی کہ “مینا کماری کی جیسی آواز کسی کی نہیں ہے۔“[13] ستیہ جیت رائے نے مینا کماری کی یوں تعریف کی “بلا شبہ وہ سب سے زیادہ ذہین اداکارہ تھی۔“ امیتابھ بچن نے کہا “مینا کماری جس طرح ڈائلاگ بولتی تھی اس طرح کوئی بھی کبھی نہیں بول سکتا ہے، آج تک کوئی نہیں بول سکا ہے اور شاید کبھی کوئی بول نہیں سکتا ہے“۔[14] موسیقار نوشاد نے کہا “اب شاید ہندی سنیما میں کوئی دوسری مینا کماری پیدا نہ ہو سکے“[15] میریلن مونرو کو مینا کماری سے بہت ہمدردی تھی کیونکہ میلرین کے شوہر آرتھر ملر کو مینا کے شوہر کمال امروہی سے بہت مشابہت تھی۔[16] ایسا کہا جاتا ہے کہ مینا کماری نے ہمیشہ فلموں سے محبت نہیں کی بلکہ کبھی کبھار انھیں فلموں سے نفرت بھی ہوتی تھی۔[17]
مینا کماری | |
---|---|
(ہندی میں: मीना कुमारी) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (ہندی میں: महजबी बानो) |
پیدائش | 1 اگست 1933ء [1][2] دادر |
وفات | 31 مارچ 1972ء (39 سال)[1][2] ممبئی |
وجہ وفات | تشمع |
مدفن | ممبئی |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | برطانوی ہند (–15 اگست 1947) بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
شریک حیات | کمال امروہی (14 فروری 1952–31 مارچ 1972) |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | ادکارہ ، شاعر ، کاسٹیوم ڈیزائنر ، گلو کارہ |
پیشہ ورانہ زبان | ہندی |
شعبۂ عمل | شاعری ، فلم اداکار |
اعزازات | |
بنگال فلم جرنلسٹ ایسوسی ایشن ایوارڈ (برائے:شاردا (1957ء فلم) ، آرتی ، دل ایک مندر اور پاکیزہ ) (1958) فلم فیئر اعزاز برائے بہترین اداکارہ (برائے:بیجو باورا ، پرینیتا (1953ء فلم) ، صاحب بی بی اور غلام اور کاجل ) (1954) | |
دستخط | |
IMDB پر صفحہ | |
درستی - ترمیم |
مینا کماری بہترین اداکارہ کے طور چار مرتبہ فلم فیئر اعزازات سے نوازا گیا۔ انھیں 1954ء میں فلم بیجو باورا کے لیے فلم فیئر کا افتتاحی فیل فیئر اعزازات برائے بہترین اداکارہ ملا اور اس کے اگلے سال یہی اعزاز فلم پرینیتا کے لیے ملا۔ 1963ء میں 10ویں فلم فیئر اعزاز میں مینا کماری نے تمام نامزدگیاں اپنے نام تاریخ رقم کر دی لیکن انھیں یہ اعزاز فلم صاحب بیوی غلام کے لیے ملا۔[18] 13ویں فلم فیئر اعزاز میں فلم کاجل کے لیے انھیں آخری مرتبہ بہترین اداکارہ کا اعزاز ملا۔
مینا کماری کی اصل پہچان 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں بھارت کی خواتین کے حالات کی عکاسی کے لیے ان کی اداکاری ہے۔ بھارتی سنیما برادری کے بڑے نام جیسے محمد ظہور خیام اور جاوید اختر کا ماننا ہے کہ مینا کماری اسکرین پر ایک مکمل بھارتی ناری کو پیش کرتی ہیں۔ ان سے بہتر اب تک کوئی اداکارہ بھارتی کو مکمل روپ میں پیش نہیں کرسکی ہے۔[19] [فلم [پاکیزہ]] میں انھوں نے “صاحب جان“ کا کردار ادا کیا جو اچھی دل کی مالک ایک شوخ چنچل لڑکی ہے۔ مینا کماری نے اس کردار کو اپنی اداکاری کے ذریعے تاریخی بنادیا اور کمال امروہری کی یہ فلم ایک تاریخی دستاویز بن گئی۔[20] Rediff.com |accessdate= 25 جولائی 2016}}</ref> وہ پارسی تھیٹر کے ماہر تھے، ہارمونیم بجاتے تھے۔ وہ موسیقی کی تعلیم دیتے تھے۔ انھوں نے اردو زبان میں شاعری بھی کی جسے فلم شاہی لٹیرے میں گایا گیا۔[21] مینا کماری کی والدہ کا نام پربھاوتی دیوی ایک عیسائی خاتوں تھی جو بعد میں مسلمان ہو کر اقبال بیگم بن گئی تھیں۔ اقبال بیگم علی بخش کی دوسری بیوی تھیں۔[21] ان کا تعلق بنگال کے مشہور ٹیگور خاندان سے تھا۔ علی بخش کے ملنے اور ان سے شادی سے قبل وہ کامینی تھیٹر کے لیے اسٹیج پر پرفارم کیا کرتی تھیں۔[21]
مینا کماری کے والد سنی مسلمان تھے جن کا نام ماسٹر علی بخش تھا۔ انھوں نے تقسیم کے بعد پاکستان کے بھیرہ کی طرف ہجرت کرلی تھی۔ وہ بڑے پارسی تھیٹر آرٹسٹ تھے اور ہارمونیم بجایا کرتے تھے۔ انھوں نے کچھ دن موسیقی کی تعلیم دی۔ کچھ نغمے لکھے اور فلم عید کا چاند میں ایک چھوٹا سا کردار ادا کیا۔ انھوں نے فلم شاہی لٹیرے کے لیے موسیقی کمپوز کی۔[21] مینا کی والدہ اقبال بیگم کا اصل نام پربھاوتی دیوی تھا اور وہ بنگالی مسیحی خاتون تھیں جنھوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور اقبال بیگم نام رکھا۔ شادی سے قبل اقبال بیگم کامنی نامی اسٹیج کے لیے کام کرتی تھی اور وہ رقاصہ تھیں۔ ن کا تعلق بنگال کے مشہور ٹیگور خاندان سے تھا۔[21]
مینا کماری کی نانی کا نام ہیم سندری ٹیگور تھا جن کی شادی جادو نندن ٹیگور (1840ء-1862ء) ہوئی۔ وہ درپن ناراین ٹیگور کے پوتے تھے اور رابندرناتھ ٹیگور کے دور کے بھائی تھے۔[22] شوہر کی وفات کے بعد ہیم سندری اہل خانہ کے دباو میں آکر میرٹھ چلی گئیں اور وہاں نرس بن گئی اور ایک مسیحی شخص پیارے لال شنکر میرٹھی سے شادی کرلی۔ وہ اردو زبان کے صحافی تھے اور مسیحی بن گئے تھے۔[22] ہیم سندری کو دو بیٹیاں ہوئیں جن میں ایک پربھاوتی تھی جو مینا کماری کی ماں ہوئی۔[16]
مینا کماری کی ولادت 1 اگست 1933ء کو ایک غریب تھیٹر کرنے والے خاندان میں ہوئی۔[4][5] ان کا نام مہ جبیں رکھا گیا۔ والد علی بخش تھیٹر آرٹسٹ تھے۔ والدہ اقبال بیگم رقاصہ تھیں۔ ان کی ولادت پر علی بخش بہت مایوس ہوئے تھے کیونکہ وہ بیٹے کی آس لگائے بیٹھے تھے۔[16] گھر پر سب انھیں منا کہ کر بلاتے تھے۔[17] چونکہ گھر میں ان کی ولادت کے لیے ڈاکٹر کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے لہذا والد نے انھیں یتیم خانہ میں چھوڑ دیا مگر چند گھنٹوں کے بعد واپس گحر لے آئے۔ ان کی بہن کا نام مہلقہ تھا کو مدھو کے نام سے جانی جاتی تھیں اور جنھوں نے اداکار محمود علی سے شادی کی تھی۔[23][24] مہ جبیں کو شروع میں اداکاری کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ اسکول کانا چاہتی تھی۔[25] مگر ان کے والد انھیں شروع سے ہی اسٹوڈیو لے جایا کرتے تھے تاکہ انھیں کوئی کام مل سکے۔ ان کی پہلی فلم لیدرفیس تھی جس کے لیے ہدایتکار وجے بھٹ نے انھیں 25 روپئے دیے تھے۔ لیدرفیس 1939ء میں جاری ہوئی۔[26] اور اس طرح وہ عمری میں ہی اہل خانہ کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرنے لگی۔ 1962ء میں ایک انٹرویو میں مینا کماری نے کہا کہ 4 سال کی عمر سے ہی وہ خاندان والوں کا خرچہ چلارہی ہے اور اسے انھیں بہت سکون ملتا ہے۔[16] مہ جبیں نے ایک اسکول میں داخلہ لیا مگر وہ تعلیم جاری نہیں رکھ سکی کیونکہ کام کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا۔ البتہ انھوں نے بغیر تعلیم کے ہی بہت کچھ سیکھا اور کسی بھی میدان مات نہیں کھاتی تھیں۔ انھیں اردو زبان سے بہت لگاو تھا حالانکہ ہندی اور انگریزی بھی جانتی تھی۔ انھیں کتابی کیڑا کہا جاتا تھا کیونکہ وہ فلم سیٹ پر بھی کتاب لے کر آیا کرتی تھی۔[16]
انھوں نے 4 برس کی عمر میں وجے بھٹ کی فلم لیدر فیس (1939ء) میں کام کیا۔ اس کے بعد ادھوری کہانی (1939ء)، پوجا (فلم) (1940ء) اور ایک ہی بھول (1940ء) میں اداکاری کی۔ فلم ایک ہی بھول کے دوران میں وجے بھٹ نے انھیں “بے بی مینا“ کہ کر بلانا شروع کر دیا۔[27] بے بی مینا نے مزید فلمیں کی جیسے نئی روشنی (1941ء)، کسوٹی (فلم) (1941ء)، وجے (فلم) (1942ء)، غریب (فلم) (1942ء) وغیرہ۔ 1941ء میں ہدایتکار محبوب خان نے انھیں بہن میں سائن کیا اور یہ ان دونوں کی اکلوتی کامیاب فلم ہے۔ بعد میں محبوب نے انھیں امر (فلم) میں لیا مگر بعد میں یہ کرداد مدھو بالا کے دے دیا گیا جس کے بعد مینا کماری نے کبھی محبوب کے ساتھ کام نہیں کیا۔
اس دور میں مہ جبیں مینا کماری بن چکی تھی اور اسی نام سے فلمی دنیا میں کما کرنے لگی۔ انھوں نے رنمیک پروڈکشن کی فلم بچوں کا کھیل (1946ء) میں کام کیا۔ مینا کماری نے باندرا، ممبئی میں ایک گھر لیا اور اہل خانہ کا وہیں منتقل کر دیا مگر اس کے 18 ماہ بعد ہی والدہ کا انتقال ہو گیا جس سے مینا کماری کو بہت صدمہ ہوا۔ مینا کماری نے فلموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ نغمے بھی گائے جیسے دنیا ایک سرائے (1946ء)، پیا گھر آجا (1948ء) اور بچھڑے بلم (1948ء)۔ 1940ء کے اواخر میں انھوں نے خرافات (میتھولوجی) اور تصور جیسے موضوعات پر فلمیں بنانا شروع کی جیسے ویر گھاٹوکچ، شری گنیش مہیما، لکشمی نارائن، ہنومان پتل وجے اور علاوالدین اور جادوئی چراغ وغیرہ۔ یہ فلمیں کامیاب رہیں۔ مگر ان سب سے مینا کماری کو وہ شہرت نہیں مل رہی تھی جس سے وہ خود کو بالی ووڈ کی اداکارہ کہلواسکیں۔ بالآکر ان کے رہبر و رہنما وجے بھٹ نے ان کی مشہور فلم بائیجو بوارا میں کام دیا۔ یہ موسیقی والی بہترین فلم تھی۔
یہ دور مینا کماری کا عروج کا زمانہ ہے جس میں ان کا کیرئر بحیثیت اداکارہ بائیجو بوارا سے شروع ہوتا ہے اور لگاتار کئی فلمیں بالی ووڈ کے پردوں پر یکے بعد دیگرے کامیاب ہوتی چلی جاتی ہیں۔
اس فلم کے دوران میں ایسے کئی حادثے ہوئے جن سے مینا کماری ہمیشہ خبروں میں رہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.