پاکستان کے پہلے وزیراعظم From Wikipedia, the free encyclopedia
لیاقت علی خان (1 اکتوبر 1895 – 16 اکتوبر 1951) ایک پاکستانی وکیل، سیاستدان اور ریاستدان تھے جنہوں نے 1947 سے 1951 میں اپنی شہادت تک پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ پاکستان کے استحکام کے لیے اتنے ہی اہم تھے جتنے قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کے قیام کے لیے مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ تحریک پاکستان کے اہم رہنماؤں میں سے ایک تھے اور انہیں قائد ملت ("قوم کے رہنما") اور بعد میں "شہید ملت" کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔
لیاقت علی خان | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
مناصب | |||||||
وزیر خزانہ | |||||||
برسر عہدہ 29 اکتوبر 1946 – 14 اگست 1947 | |||||||
وزارت ریاستی و سرحدی امور | |||||||
برسر عہدہ 15 اگست 1947 – 16 اکتوبر 1951 | |||||||
وزیر خارجہ پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 15 اگست 1947 – 27 دسمبر 1949 | |||||||
| |||||||
وزیر دفاع پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 15 اگست 1947 – 16 اکتوبر 1951 | |||||||
| |||||||
وزیر اعظم پاکستان | |||||||
برسر عہدہ 15 اگست 1947 – 16 اکتوبر 1951 | |||||||
| |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 1 اکتوبر 1895ء [1][2] کرنال | ||||||
وفات | 16 اکتوبر 1951ء (56 سال)[1][2][3] راولپنڈی ، مغربی پاکستان | ||||||
مدفن | مزار قائد | ||||||
طرز وفات | قتل | ||||||
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) پاکستان (15 اگست 1947–) | ||||||
جماعت | مسلم لیگ آل انڈیا مسلم لیگ | ||||||
زوجہ | بیگم رعنا لیاقت علی (دسمبر 1932–16 اکتوبر 1951) | ||||||
عملی زندگی | |||||||
مادر علمی | محمدن اینگلو اورینٹل کالج (–1918) ایگزیٹر کالج (1919–1921) شعبہ قانون، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی | ||||||
تعلیمی اسناد | ایم اے قانون | ||||||
پیشہ | سیاست دان [4]، سفارت کار ، وکیل | ||||||
مادری زبان | اردو | ||||||
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی ، اردو | ||||||
درستی - ترمیم |
لیاقت مشرقی پنجاب کے کرنال میں ایک امیر خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا نواب احمد علی نے 1857-1858 کی بغاوت کے دوران برطانوی حکومت کی بھرپور حمایت کی، جس کے نتیجے میں انہیں معزز اعزازات اور مکمل کرایہ معافی کی صورت میں بڑے انعامات ملے۔ خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ پہلے انہیں انڈین نیشنل کانگریس میں مدعو کیا گیا، لیکن بعد میں انہوں نے محمد علی جناح کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، جو ایک بھارتی آزادی کے کارکن تھے اور بعد میں ہندو اکثریتی بھارت سے ایک علیحدہ مسلم ریاست کے حامی بن گئے۔ خان نے جناح کی پاکستان تحریک کی مہم میں مدد کی اور انہیں جناح کا 'دایاں ہاتھ' کہا جاتا تھا۔ وہ ایک جمہوری سیاسی نظریہ دان تھے جو برطانوی بھارت میں پارلیمنٹاریزم کو فروغ دیتے تھے۔
لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران سرد جنگ کا آغاز ہوا، جس میں خان کی خارجہ پالیسی نے سوویت یونین کی قیادت والے مشرقی بلاک کے مقابلے میں امریکہ کی قیادت والے مغربی بلاک کا ساتھ دیا۔ انہوں نے 1949 میں مقاصد قرارداد جاری کی، جس میں پاکستان کو ایک اسلامی جمہوریت قرار دیا گیا۔ انہوں نے 1947 سے 1951 میں اپنی شہادت تک پہلے وزیر خارجہ، وزیر دفاع اور وزیر سرحدی علاقوں کے طور پر کابینہ کے عہدے بھی سنبھالے۔ اس سے قبل، خان نے برطانوی بھارت کے عبوری حکومت میں مختصر طور پر وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دیں، جس نے پاکستان اور بھارت کی آزادی کو عملی جامہ پہنایا، جس کی قیادت اس وقت کے وائسرائے بھارت، لوئس ماؤنٹ بیٹن نے کی۔
مارچ 1951 میں، انہوں نے بائیں بازو کے سیاسی مخالفین اور پاکستانی فوج کے کچھ حصوں کی جانب سے ایک ناکام بغاوت سے بچ گئے۔ راولپنڈی کے کمپنی باغ میں تقریر کرتے ہوئے، خان کو ایک افغان جنگجو سید اکبر نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ خان کو بعد از مرگ "شہید ملت" کا خطاب دیا گیا اور انہیں پاکستان کے عظیم ترین وزرائے اعظم میں شمار کیا جاتا ہے۔
آپ کرنال کے ایک نامور نواب جاٹ خاندان میں پیدا ہوئے۔ نواب زادہ لیاقت علی خان، نواب رستم علی خان کے دوسرے بیٹے تھے۔ آپ 2 اکتوبر، 1896ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ محمودہ بیگم نے گھر پر آپ کے لیے قرآن اور احادیث کی تعلیم کا انتظام کروایا۔ 1918ء میں آپ نے ایم اے او کالج علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ 1918ء میں ہی آپ نے جہانگیر بیگم سے شادی کی۔ شادی کے بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔
1923ء میں برطانیہ سے واپس آنے کے بعد آپ نے اپنے ملک کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کروانے کے لیے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ 1924ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی زیر قیادت مسلم لیگ کا اجلاس لاہور میں ہوا۔ اس اس اجلاس کا مقصد مسلم لیگ کو دربارہ منظم کرنا تھا۔ اس اجلاس میں لیاقت علی خان نے بھی شرکت کی۔
1926ء میں آپ اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔
1932ء میں آپ نے دوسری شادی کی۔ آپ کی دوسری بیگم بیگم رعنا لیاقت علی ایک ماہر تعلیم اور معیشت دان تھیں۔ آپ لیاقت علی خان کے سیاسی زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔
لیاقت علی خان کی کابینہ | ||
---|---|---|
وزارتی دفتر | وزیر | مدت |
وزیر اعظم | لیاقت علی خان | 1947–1951 |
گورنر جنرل | محمد علی جناح خواجہ ناظم الدین | 1947–1948 1948–1951 |
خارجہ | محمد ظفر اللہ خان | 1947–1954 |
خزانہ، اقتصادی | ملک غلام محمد | 1947–1954 |
قانون و انصاف، مزدوری | جوگيندرا ناتھ ماندل | 1947–1951 |
داخلہ | فضل الرحمٰن خواجہ شہاب الدین | 1947–1948 1948–1951 |
دفاع | اسکندر مرزا | 1947–1954 |
سائنس و ٹیکنالوجی | سلیم الزماں صدیقی | 1951–1959 |
تعلیم، صحت | فضل الہی چوہدری | 1947–1956 |
مالیات، ادارہ شماریات پاکستان | سر وکٹر ٹرنر | 1947–1951 |
اقلیتی امور، نسواں | بیگم رعنا لیاقت علی | 1947–1951 |
وزیر مواصلات | سردار عبدالرب نشتر | 1947–1951 |
16 اکتوبر 1951ء کی اس شام کمپنی باغ راولپنڈی میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں لیاقت علی خاں کے قتل کو ایک انفرادی جرم قرار دینا مشکل ہے۔ وزیر اعظم پر قاتلانہ حملے کے فوراً بعد کمپنی باغ میں ہونے والے واقعات پر ان گنت سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔
وزیر اعظم کے جلسے میں صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ اور آئی جی پولیس تو موجود تھے مگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ، آئی جی پولیس قربان علی خاں اور ڈی آئی جی، سی آئی ڈی انور علی غائب تھے۔ درحقیقت جلسہ گاہ میں فرائضِ منصبی پر مامور پولیس کا اعلی ترین عہدیدار راولپنڈی کا ایس پی نجف خاں تھا۔ پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل یوسف خٹک پنڈی میں تھے مگر جلسہ گاہ میں موجود نہیں تھے۔
گولی کی آواز سنتے ہی نجف خاں نے پشتو میں چلا کر کہا، ’اسے مارو‘۔ نجف خاں نے پنڈی (پنجاب) کے جلسے میں پنجابی کی بجائے پشتو کیوں استعمال کی؟ کیا انھیں معلوم تھا کہ قاتل افغانی ہے؟ ان کے حکم پر سید اکبر کو ہلاک کرنے والا انسپکٹر محمد شاہ بھی پشتو بولنے والا تھا۔ کیا پولیس کا ضلعی سربراہ اضطراری حالت میں یاد رکھ سکتا ہے کہ اس کے درجنوں ماتحت تھانیدار کون کون سی زبان بولتے ہیں؟ کیا تجربہ کار پولیس افسر نجف خاں کو معلوم نہیں تھا کہ وزیر اعظم پر حملہ کرنے والے کو زندہ گرفتار کرنا ضروری ہے؟
جب انسپکٹر شاہ محمد نے سید اکبر خان ببرک پر ایک دو نہیں، پانچ گولیاں چلائیں، اس وقت سفید پوش انسپکٹر ابرار احمد نے حاضرینِ جلسہ سے مل کر قاتل سے پستول چھین لیا تھا اور اسے قابو کر رکھا تھا۔ کیا انسپکٹر شاہ محمد قاتل پر قابو پانے کی بجائے اسے ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے؟
لیاقت علی کے صاحبزادے اکبر لیاقت علی کا کہنا ہے کہ سید اکبر کو تو خواہ مخواہ نشانہ بنایا گیا، اصل قاتل کوئی اور تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ لیاقت علی خاں کو گولی سامنے سے نہیں، عقب سے ماری گئی تھی۔ جلسہ گاہ میں موجود مسلم لیگ گارڈ بھالوں سے سید اکبر پر ٹوٹ پڑے۔ اس کے جسم پر بھالوں کے درجنوں زخم تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم کے آس پاس بہت سے مسلح افراد موجود تھے جس سے ناقص حفاظتی انتظامات کی نشان دہی ہوتی ہے۔
نجف خاں کے حکم پر حفاظتی گارڈ نے ہوا میں فائرنگ شروع کر دی جس سے جلسہ گاہ میں افراتفری پھیل گئی اور زخمی وزیر اعظم کو طبی امداد پہنچانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس ہوائی فائرنگ کا مقصد واضح نہیں ہو سکا۔
ایس پی نجف خاں نے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ انھوں نے اپنے ماتحتوں کو ہوائی فائرنگ کا حکم نہیں دیا بلکہ ایس پی نے اپنے ماتحتوں سے جواب طلبی کر لی۔ انکوائری کمیشن کے سامنے اس ضمن میں پیش کیا جانے والا حکم 29 اکتوبر کا تھا۔ تاہم عدالت نے رائے دی کہ ریکارڈ میں تحریف کی گئی تھی۔ اصل تاریخ 20 نومبر کو بدل کر 29 اکتوبر بنایا گیا مگر اس کے نیچے اصل تاریخ 20 نومبر صاف دکھائی دیتی تھی۔ ظاہر ہے کہ نجف خاں نے فائرنگ کا حکم دینے کے الزام کی تردید کا فیصلہ 20 نومبر کو کیا۔ سرکاری کاغذات میں ردوبدل ایس پی نجف خاں کے سازش میں ملوث ہونے یا کم از کم پیشہ وارانہ بددیانتی کا پختہ ثبوت تھا۔
انکوائری کمیشن کے مطابق نجف خاں نے ایک ذمہ دار پولیس افسر کے طور پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی تھی۔ اس عدالتی رائے کی روشنی میں نجف خان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوئی لیکن انھیں باعزت بحال کر دیا گیا۔ وزیر اعظم کے جلسے میں ممکنہ ہنگامی صورت حال کے لیے طبی امداد کا کوئی انتظام نہیں تھا حتٰی کہ کسی زخمی کو ہسپتال لے جانے کے لیے ایمبولنس تک موجود نہیں تھی۔
چاروں طرف اندھا دھند گولیاں چل رہی تھیں اور چند افراد اس بھگڈر میں سید اکبر کو ختم کرنے میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ ایک وزنی آرائشی گملا اٹھا لائے اور اسے سید اکبر پر دے مارا جس سے اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس افراتفری میں سید اکبر پر حملہ کرنے والوں کا اطمینان حیران کن تھا۔
سید اکبر نے زرد رنگ کی شلوار قمیص پر اچکن پہن رکھی تھی۔ یہ خاکسار تحریک کی وردی نہیں تھی۔ واردات کے فوراً بعد یہ افواہ کیسے پھیلی کہ قاتل خاکسار تھا بلکہ صوبہ بھر میں خاکساروں کی گرفتاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ کیا یہ عوام کے اشتعال کو کسی خاص سمت موڑنے کی سوچی سمجھی کوشش تھی؟
خواجہ ناظم الدین نتھیا گلی میں تھے جب کہ غلام محمد پنڈی ہی میں تھے۔ دونوں نے جلسے میں شرکت کی زحمت نہیں کی۔ البتہ وزیر اعظم کے قتل کی خبر پاتے ہی یہ اصحاب صلاح مشورے کے لیے جمع ہو گئے۔ مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں اس وقت پہنچی جب نیم مردہ وزیر اعظم کو جلسہ گاہ سے باہر لایا جا رہا تھا۔ وزیر اعظم کی موت کی تصدیق ہوتے ہی گورمانی صاحب ان کے جسد خاکی کو ہسپتال چھوڑ کر اپنے گھر چلے گئے اور اگلے روز کراچی میں تدفین تک منظرِ عام پر نہیں آئے۔
اس سازش کے ڈانڈوں پر غور و فکر کرنے والوں نے تین اہم کرداروں کی راولپنڈی سے بیک وقت دُوری کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سیکرٹری دفاع سکندر مرزا کراچی میں ٹینس کھیل رہے تھے۔ فوج کے سربراہ ایوب خان لندن کے ہسپتال میں تھے اور سیکرٹری خارجہ اکرام اللہ ایک خاص مشن پر ہالینڈ میں بیٹھے اگلے احکامات کے منتظر تھے۔
غلام نبی پٹھان (تب جوائنٹ سیکرٹری مسلم لیگ) کے مطابق لیاقت علی کے قتل کی نہ تو ایف آئی آر درج ہوئی اور نہ تفتیش کی گئی، چالان پیش کیا گیا اور نہ مقدمہ چلایا گیا۔
جسٹس منیر اور اختر حسین پر مشتمل ایک جوڈیشل انکوائری ہوئی مگر اس انکوائری کا مقصد لیاقت علی خان کے قاتلوں کا تعین کرنے کی بجائے قتل سے متعلقہ انتظامی غفلت کا جائزہ لینا تھا۔ بیگم لیاقت علی کے مطابق کمیشن کا تقرر حکومت کی دانستہ یا نا دانستہ غلطی تھی۔ اس کے نتیجے میں پنجاب اور سرحد کے پولیس افسر قتل کی تفتیش پر توجہ دینے کی بجائے غفلت کے الزامات کی صفائی پیش کرنے میں مصروف ہو گئے۔
انکوائری کمیشن کے نتائج نہایت مبہم اور بڑی حد تک بے معنی تھے۔ مثال کے طور پر :
الف) ہم بیان کردہ واقعات کی بنا پر کوئی نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے۔ معاملہ زیرِ تفتیش ہے۔ تحقیقات کرنے والے افسر کئی نظریات پر غور و فکر کر رہے ہیں۔
ب) اس ضمن میں تین سازشوں کا سراغ ملا ہے جن میں سے دو کا ایک دوسرے سے تعلق ہے اور تیسری کے متعلق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان میں خط کتابت ہو رہی ہے۔ ہم نے ان سازشوں کی تفصیل بتانے سے گریز کیا ہے کیونکہ ان کا انکشاف مفاد عامہ میں نہیں ہے۔
ج) سید اکبر کا کسی سازش سے تعلق معلوم نہیں ہو سکا، بہرحال ایک قابل پولیس افسر مصروفِ تفتیش ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ایک یا دو سازشوں سے سید اکبر کے تعلق کا پتہ مل جائے گا۔
د) اگر سید اکبر زندہ مل جاتا تو ہمیں یقین تھا کہ ہم ایسے بھیانک جرم کے سازشیوں کا اتا پتا معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاتے۔
سید اکبر کی موت کے متعلق پولیس رپورٹ میں سب انسپکٹر محمد شاہ کی فائرنگ کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس چشم پوشی کا مقصد پولیس کی غفلت یا ملی بھگت پر پردہ ڈالنا تھا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.