ہندوستانی مسلمان عالم (1922–2023ء) From Wikipedia, the free encyclopedia
عبد الغنی ازہری (جو عبد الغنی شاہ الشاشی کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں [2] ۔1914ء – 2023ء) ایک بھارتی مسلمان عالم و مؤرخ تھے، جنھوں نے جامعہ کشمیر کے عربی شعبہ کے صدر پروفیسر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور اور جامعہ الازہر کے فاضل تھے۔ انھوں نے "قدیم تاریخ گجر" کے نام سے ایک کتاب لکھی، جو گجروں کی تاریخ بیان کرتی ہے۔
حضرت مولانا مفتی عبد الغنی ازہری 1914ء میں پونچھ، جموں و کشمیر میں پیدا ہوئے۔[3] انھوں نے دار العلوم دیوبند، مظاہر علوم سہارنپور اور جامعہ الازہر سے تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے امامِ مسلم پر الامام المسلم و منھجہ فی الحدیث روایۃً و درایۃً کے نام سے اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔[3] ان کے اساتذۂ دار العلوم دیوبند میں حسین احمد مدنی، محمد ابراہیم بلیاوی، اعزاز علی امروہی، محمد طیب قاسمی اور سید فخر الدین احمد اور اساتذۂ مظاہر علوم سہارنپور میں محمد زکریا کاندھلوی شامل ہیں۔[4] جامعہ الازہر میں، انھوں نے عبد الحلیم محمود سمیت دیگر علما سے اکتسابِ فیض کیا۔[4]
ازہری ایک کشمیری گجر تھے اور وہ اپنے گجر ہونے پر فخر کرتے تھے۔[5] انھوں نے گجر بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 1980 میں پہلا مدرسہ دارالعلوم ازہریہ مرکز اہلسنت والجماعت وہاب نگر پلوامہ کشمیر میں قائم کیا اس کے بعد بادشاہی باغ (نزد سہارنپور) میں دار العلوم نظامیہ مگن پورہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔[6] انھوں نے کشمیر میں بھی بعض دینی مدارس قائم کیے، جن میں مکتبہ انوار العلوم، کوکر ناگ اور دار العلوم کوثریہ، نزد داچھی گام نیشنل پارک شامل ہیں۔[7] ،حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے [[ضلع اننت ناگ اوراسکےعلاوہ مختلف علاقوں میں] میں بھی دیگر کئی مدارس قائم فرمائے ۔[4] شیخ محمد عبد اللہ کی دعوت پر، ازہری صاحب رح نے کشمیر یونیورسٹی میں آنے سے پہلے مدینۃ العلوم، حضرت بل، سری نگر میں عربی کے پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔[8]
ازہری کشمیر میں ایک سینئر عالم دین کی حیثیت سے معروف ہیں۔ انھوں نے کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں صدر پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیں۔[9] وہ تصوف میں قادریہ سلسلہ کے بزرگ تھے مگر انھوں نے نقشبندیہ سلسلے پر بھی کتابیں لکھی ہیں۔[5] ان کا انتقال 19 جنوری 2023ء کو سہارنپور میں ہوا۔[10] ان کی وفات پر جموں و کشمیر کے موجودہ ریاستی مفتی اعظم ناصر الاسلام نے تعزیت پیش کی۔[11] وائس چانسلر نیلوفر خان اور رجسٹرار نثار اے میر سمیت کشمیر یونیورسٹی کے ماہرین تعلیم نے ان کی وفات پر افسوس کا اظہار کیا۔[12] یونیورسٹی نے اپنے شعبہ عربی میں ایک تعزیتی اجلاس منعقد کیا، جس میں شعبہ کے موجودہ صدر پروفیسر صلاح الدین ٹاک نے ازہری کو ’’ایک نامور استاد، ایک عظیم ماہر تعلیم اور مذہبی علوم میں اعلیٰ مہارت رکھنے والا‘‘ قرار دیا۔[12] ان کی وفات پر الطاف بخاری سمیت کئی سیاست دانوں نے رنج کا اظہار کیا۔[12] علامہ مفتی عبد الغنی ازہری رح کے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں جو الحمد للہ سب مدارس میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں الحمد للہ پانچوں عالم دین ہیں1۔نظام الدین رفاعی ندوی2۔عبد الحلیم ضیاءمظاہری3۔فرید محمود قاسمی4۔محمد طیب قاسمی5۔علی صابر شاشی نظامی
ازہری کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:[13][14][15]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.