From Wikipedia, the free encyclopedia
سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ انصاری صحابی اور اپنے قبیلے کے سردار تھے ،آپ کی کُنیت، ابو محمد، ابو رواحہ اور ابو عمرو ہے۔آپ نے بیعتِ عقبہ اولیٰ کے بعد ہی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی مدینہ منورہ میں تبلیغِ اسلام کے نتیجے میں دعوتِ حق قبول کر لی تھی ،آپ پڑھنا لکھنا جانتے تھے ، آپ بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے والے اور مدینہ منورہ کے بارہ نقیبوں میں سے ایک نقیب ہیں۔ آپ نے اعلانِ نبوت کے تیرھویں سال حج کے موقع پر منٰی کی گھاٹی میں بیعت عقبہ ثانیہ میں مدینہ منورہ کے تقریباً 70 لوگوں کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست ِ مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کی۔آپ تجربہ کار شاعر بھی تھے ، اسی لیے مشرف با اسلام ہونے کے بعد اپنی شاعری کا رُخ مدحت ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کفار کی مذمت کی جانب موڑ دیا تھا۔ آپ نے غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ احزاب اور غزوہ خیبر سے جنگِ موتہ تک تمام غزوات میں شرکت کی۔ غزوہ سویق میں جانے سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو مدینہ منورہ کا امیر مقرر فرمایا۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو تیس صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ اسیر بن عوام کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا۔آپ ہر معرکے میں روانگی کے وقت سب سے آگے ہوتے لیکن جب محاذ سے واپسی ہوتی تو سب سے پیچھے رہ جاتے ۔6ھ میں آپ صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود تھے ، اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ کے چودہ سو مجاہدین ِاسلام کو ’’اصحاب الشجرۃ‘‘ کے مبارک لقب سے سرفراز فرمایا۔ 7ھ میں جب خیبر فتح ہوا تو بہت سا مالِ غنیمت، زرعی زمینیں، کھیت کھلیان اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ آئے۔اس موقع پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے تمام مالی وسائل کا تخمینہ لگانے کی ذمہ داری آپ ہی کو سونپی جوآپ نے اچھے طریقے سے سر انجام دی۔جب خیبر کی اجناس پک جاتیں اور غلہ تیار ہو جاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو خیبر بھیج دیتے ۔ آپ کھجور اور اناج کے ڈھیر کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیتے ، پھر اختیار دیتے ہوئے فرماتے : اے یہودیو! جو حصہ تم کو پسند ہو، وہ لے لو۔ ایک مرتبہ یہودیوں نے اپنی عورتوں کے زیورات جمع کیے اور آپ کو دیتے ہوئے کہا: ہمارے ساتھ نرمی کا معاملہ کریں اور تقسیم میں ہاتھ ہلکا رکھیں، یہ سن کر آپ جلال میں آگئے اور فرمایا:’’ اے یہودیو! جو (زیورات) تم دے رہے ہو وہ رشوت ہے اور رشوت مالِ حرام ہے جس کو ہم مسلمان نہیں کھاتے ۔‘‘ ذوالقعدہ سن 7ھ میں عمرہ کے موقع پر مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کی مہار تھامے ہوئے اشعار پڑھ رہے تھے ، سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے منع کیا تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عمر! انھیں کہنے دو، یہ اشعار کفار پر تلوار کے وار سے زیادہ سخت اورکاری ہیں۔‘‘ سن 8ھ جمادی الاولیٰ میں جنگِ موتہ کے موقع پر ایک(یا دو) لاکھ سے زیادہ رُومی افواج کے مقابلے میں 3000 مسلمانوں کی مختصر سی فوج نے اپنی جان پر کھیل کر ایسی معرکہ آرائی کی کہ تاریخ اس کی مثال بیان کرنے سے قاصر ہے۔جنگ سے پہلے آپ کے جذبات یہ تھے : ’’اے لوگو! ہم شہید ہونے کے لیے نکلے ہیں، ہم دشمن کی کثرت اور طاقت دیکھ کر جنگ نہیں کرتے ، ہم اُس دین کی خاطر لڑتے ہیں جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت عطا فرمائی،اب دو اچھی باتوں میں سے ایک ہوگی فتح یا شہادت!‘‘ جنگ شروع ہوئی تو سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے پرچمِ اسلام تھام لیا اور اس دوران جام ِ شہادت نوش کر لیا، اس وقت سیدنا عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ لشکر میں دوسری جانب تھے اور تین دن سے کھانا نہیں کھایا تھا، آپ کے چچا زاد بھائی نے گوشت سے بھری ہوئی ہڈی پیش کی تو ایک لقمہ ہی کھایا تھا کہ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آگئی، فوراً پرچم ِاسلام تھامے لشکر ِ اسلام کی کمان سنبھال کر بے جگری سے دشمنوں پر ٹوٹ پڑے او ر بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے ۔[1][2][3][4][5]
عبداللہ بن رواحہ عَبْد ٱللَّٰه ٱبْن رَوَاحَة | |
---|---|
(عربی میں: عبد الله بن رواحة) | |
آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ خدا عبد اللہ بن رواحہؓ پر رحم کرے وہ انہی مجلسوں کو پسند کرتے تھے جن پر فرشتے فخر کرتے ہیں | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | مدینہ |
وفات | 629 عیسوی غزوہ مؤتہ, بازنطینی سلطنت |
وجہ وفات | لڑائی میں مارا گیا |
والدین | رواحہ بن ثعلبہ (والد) کبثہ بنت واقد (والدہ) |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | انس بن مالک |
پیشہ | شاعر ، فوجی |
وجہ شہرت | محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا ساتھی ہونا |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | غزوۂ بدر ، غزوہ احد ، غزوہ خندق ، غزوہ خیبر ، جنگ موتہ |
درستی - ترمیم |
عبد اللہ بن رواحہ نام، ابو محمد کنیت شاعر رسول اللہ ﷺ لقب، سلسلہ نسب یہ ہے، عبد اللہ بن رواحہ بن ثعلبہ بن امرؤ القیس بن عمروبن امرؤ القیس اکبر بن مالک اغر بن ثعلبہ بن کعب بن خزرج بن حارث بن خزرج اکبر، والدہ کا نام کبشہ بنت واقد بن عمرو بن اطنابہ تھا اور خاندان حارث بن خزرج سے تھیں جو حضرت عبد اللہؓ کا پدر اعلیٰ تھا۔ حضرت عبد اللہؓ بڑے رتبہ کے شخص تھے ان کے تذکرے میں ہے۔ کان عظیم القدر فی الجاہلیت والاسلام یعنی وہ جاہلیت اور اسلام دونوں میں کبیر المنزلت ہے۔ [4][5]
حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیلۃ العقبہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور بنو حارثہ کے نقیب بنائے گئے۔
حضرت مقدادؓ بن اسود کندی سے رشتۂ اخوت قائم ہوا۔ بدر میں شریک تھے اور غزوہ ختم ہونے کے بعد اہل مدینہ کو فتح کی بشارت انہی نے سنائی تھی، غزوہ خندق میں آنحضرت ﷺ ان کے رجز کے اشعار پڑھ رہے تھے ۔ اللھم لو لا انت مااھتدینا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا خدا وندا! اگر تیری مدد نہ ہوتی تو ہم ہدایت نہ پاتے اور نہ زکوٰۃ دیتے اور نہ نماز پڑہتے فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا تو تو ہم پر اپنی تسکین نازل فرما اورمعرکہ میں ہم کو ثابت قدم رکھ إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا جن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے جب وہ فتنہ کا ارادہ کریں گے تو ہم اس کا انکار کریں گے اسیر بن زارم یہودی ابو رافع کے بعد خیبر کا حاکم بنایا گیا تھا اور اسلام کی عداوت میں اس کا پورا جانشین تھا، چنانچہ اس نے غطفان میں دورہ کرکے تمام قبائل کو آمادہ کیا، آنحضرت ﷺ کو ان واقعات کی خبر ہوئی تو رمضان 6ھ میں عبد اللہ بنؓ رواحہ کو 30 آدمیوں کے ساتھ خیبر روانہ فرمایا، عبد اللہ ؓ نے خفیہ طور سے اسیر کے تمام حالات معلوم کیے اور آنحضرت ﷺ کو آکر خبر دی، آپ نے اس کے قتل کے لیے حضرت عبد اللہ بنؓ رواحہ کو مقرر فرمایا اور 20 آدمی ان کی ماتحتی میں دیے۔ حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ اسیر سے ملے تو کہا کہ ہم کو امان دو ،تم سے ایک بات کہنے آئے ہیں بولا کہو، حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو تمھارے پاس بھیجا ہے اور آپ کا ارادہ ہے کہ تم کو خیبر کا رئیس بنادیں ،لیکن اس کے لیے خود تمھارا مدینہ چلنا ضروری ہے، وہ باتوں میں آگیا اور 30 یہودیوں کو لے کر ان کے ساتھ ہوا، راستہ میں انھوں نے ہر یہودی پر ایک مسلمان کو متعین کیا اسیر کو کچھ شک ہوا اور اس نے پلٹنے کا ارادہ ظاہر کیا، مسلمانوں نے دھوکا بازی کے جرم میں سب کی گردنیں اڑادیں اور یہ اٹھتا ہوا طوفان وہیں دب کر رہ گیا۔ [6] خیبر فتح ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ نے پھلوں کا تخمینہ کرنے کے لیے انہی کو روانہ کیا تھا۔ عمرۃ القضا میں آنحضرتﷺ مکہ تشریف لے گئے تو وہ اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تھے اور یہ شعر پڑھ رہے تھے: خلوا بني الكفار عن سبيله خلوا فكل الخير مع رسوله ان کے راستہ سے ہٹ جاؤ کیونکہ تمام بھلائیاں انہی کے ساتھ ہیں نحن ضربناكم على تأويله كما ضربناكم على تنزيله ہم نے تم کو قرآن کی تاویل اور تنزیل پر مارا ہے جس سے سر دھڑ سے الگ ہو گئے ہیں ضربا يزيل الهام عن مقيله ويذهل الخليل عن خليله يا رب إني مؤمن بقيله اور دوست دوستی بھول گئے ہیں خدایا میں آنحضرت ﷺ کے اقوال پر ایمان رکھتا ہوں۔ حضرت عمرؓ نے کہا !خدا کے حرم اور رسول اللہ ﷺ کے روبرو شعر پڑھتے ہو، آنحضرت ﷺ بولے عمر! میں سن رہا ہوں، خدا کی قسم ان کا کلام کفار پر تیر ونشتر کا کام کرتا ہے، اس کے بعد ان سے فرمایا کہ تم کہو ، لا الہ الا اللہ وحدہ نصر عبدہ واعز جندہ وھزم الاحزاب وحدہ عبد اللہ ابن رواحہؓ نے اس کو کہا تو تمام صحابہ نے آواز ملا کر اس کو ادا کیا جس سے مکہ کی پہاڑیاں گونج اٹھیں۔ [7] [3][8] وكان ابن رواحة يُكنى بأبي عمرو، وقيل أبي محمد، وقيل أبي رواحة،[4][5][8][9]
جمادی الاولیٰ 8ھ میں غزوہ موتہ ہوا، آنحضرت ﷺ نے بصری کے رئیس کے پاس ایک نامہ بھیجا تھا، راستہ میں موتہ ایک مقام ہے وہاں ایک غسانی نے نامہ بر (سفیر ) کو قتل کر دیا، سفیر کا قتل اعلان جنگ کا پیش خیمہ ہوتا ہے،اس بنا پر آنحضرتﷺ کو خبر ہوئی تو تین ہزار آدمی زید بنؓ حارثہ کی زیر امارت موتہ روانہ کیے اور یہ فرمایا کہ زید قتل ہو جائیں تو جعفرؓ امیر لشکر ہیں اور ان کے بعد عبداللہ ابن رواحہؓ سردار ہیں اور اگر وہ بھی قتل ہوجائیں تو جس کو مسلمان مناسب سمجھیں امیر بنالیں۔ لشکر تیار ہوا تو ثنیۃ الوداع تک آنحضرت ﷺ نے خود مشایعت کی، رخصت کے وقت اہل مدینہ نے ایک زبان ہوکر کہا کہ خدا آپ لوگوں کو صحیح سالم اور کامیاب واپس لائے،حضرت عبد اللہ ابن رواحہؓ کی یہ آخری ملاقات تھی رونے لگے،لوگوں نے کہا رونے کی کیا بات ہے؟ کہا مجھے دنیا کی محبت نہیں ،لیکن رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ ان منکم الاواردھا، کان علی ربک حتما مقضیا (یعنی ہر شخص کو جہنم میں جانا ہے) اس بنا پر یہ فکر ہے کہ میں جہنم میں داخل ہوکر نکل بھی سکوں گا؟ سب نے تسکین دی اور کہا کہ خدا آپ سے پھر ملا دے گا، اس وقت حضرت عبد اللہ ابن رواحہؓ نے فرمایا: لكنني أسأل الرحمن مغفرة وضربة ذات فرغ تقذف الزبدا لیکن میں خدا سے مغفرت اورایک وار کا طالب ہوں جو کاری لگے۔ اوطعنۃ بیدی حران بجھزۃ بحربۃ تنقذ الاحشاء والکبدا یا ایک نیزہ جو جگر تک چبھ جائے حتی یقولوا اذا مرو اعلی جدتی یا ارشد اللہ من غاز وقد رشدا یہاں تک کہ قبر پر گذرنے والے پکار اٹھیں کہ کیسا اچھا غازی تھا۔ اس کے بعد آنحضرت ﷺ سے ملنے آئے،آپ نے الوداع کہا ادھر مدینہ سے مسلمان روانہ ہوئے ادھر دشمن کو خبر ہو گئی، اس نے ہر قل کو خبر کرکے 2 لاکھ آدمی جمع کرلئے، مسلمانوں نے شام پہنچ کر معان میں دو رات قیام کیا اور یہ رائے قرار پائی کہ رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دینی چاہیے ،عبد اللہ بن رواحہؓ نے نہایت دلیری سے کہا کہ کچھ پروانہ نہیں، ہم کو لڑنا چاہیے،چنانچہ معان سے چل کر موتہ میں پڑاؤ ڈالا اور یہاں مشرکین سے مقابلہ ہو گیا، مسلمان صرف 3 ہزار تھے اور مشرکین کی طرف آدمیوں کا جنگل نظر آتا تھا میدان کارزار گرم ہوا، پہلے زید بنؓ حارثہ نے گھوڑے سے اتر کر آتشِ جنگ مشتعل کی اور نہایت جانبازی سے مارے گئے، پھر جعفرؓ نے علم اٹھایا اور نہایت بہادری سے شہادت حاصل کی اس کے بعد عبد اللہ بن رواحہؓ رجز پڑہتے ہوئے بڑھے۔ یا نفس ان لم تقتلی تموتی ان تسلمی الیوم فلن تفوتی اے نفس اگر قتل نہ ہوا تو بھی مرے گا اگر آج باقی ہے تو آئندہ فوت ہوگا اوتبتلی فطال ماعوفت یا عافیت کی درازی میں تیری آزمائش ہوگی۔ ھذی حیاض الموت فقد خلت وما تمنیت فقد اعطیت اس لیے موت کے حوض خالی ہو رہے ہیں اور جو تیری تمنا تھی مل رہی ہے پھر کہا اے نفس !بیوی بچے اور مکان کا خیال فضول ہے وہ سب آزاد ہیں، مکان اللہ اور رسول کا ہے دل کو سمجھا کر جھنڈا اٹھایا اور حسبِ ذیل رجز پڑہتے ہوئے میدان میں آئے: یا نفس مالک تکر ھین الجنتہ اقسم باللہ لتنزلنہ اے نفس جنت میں جانے سے کراہت کیوں ہے خدا کی قسم تو ضرور اس میں داخل ہوگا۔ طائعۃ اولتک ھنہ فطالما قد کنت مطمئنہ خواہ برضا اوررغبت خواہ جبر سے تو نہایت مطئن تھا،حالانکہ ھل انت الانطفتہ فی شنہ قنا جلب الناس وشدد الہ نہ تو مشک کا صاف پانی ہے (جو لوگوں کی پیاس کھانے کے لیے ہے) اب لوگ پیاسے ہیں اور چیخ چیخ کر فریاد کر رہے ہیں۔ نیزہ لے کر حملہ کیا اسی اثنا میں ایک کافر نے اس زور سے نیزہ مارا کہ دونوں لشکروں کے درمیان پچھڑ گئے، خون چہرہ پر ملا اور پکارے "مسلمانو! اپنے بھائی کے گوشت کو بچاؤ " یہ سن کر تمام مسلمان ان کو گھیرے میں لے کر مشرکین پر ٹوٹ پڑے اور روح مطہر ملاء اعلی کو پرواز کر گئی، إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ۔ شہادت سے قبل موتہ میں ایک شب یہ اشعار پڑھ رہے تھے إذا أدنيتني وحملت رحلي مسيرة أربع بعد الحساء فشأنك فانعمي وخلاك ذم ولا أرجع إلى أهلي ورائي وجاء المؤمنون وغادروني بأرض الشام مشهور الثواء وردك كل ذي نسب قريب إلى الرحمن منقطع الإخاء هنالك لا أبالي طلع بعل ولا نخل أسافلها رواء زید بن ارقم نے سنا تو رونے لگے،انھوں نے درہ اٹھایا اورکہا اس میں تمھارا کیا نقصان ؟ خدا مجھ کو شہادت نصیب کریگا، تو تم آرام سے گھر جانا۔ آنحضرت ﷺ کو وحی کے ذریعہ دم دم کی خبریں مل رہی تھیں اور آپ مجمع کے سامنے بیان کر رہے تھے، حضرت جعفرؓ کی خبر بیان کرکے خاموش ہو گئے ،انصار آپ کی خاموشی سے سمجھ گئے کہ شائد حضرت ابن رواحہؓ شہید ہوئے ، تھوڑی دیر سکوت کے بعد بادیدۂ پر نم فرمایا کہ پھر عبد اللہ ابن رواحہؓ نے شہادت پائی، انصار اس خبر کے کب متحمل ہو سکتے تھے،تاہم آہ وزاری اورنالۂ وفریاد کی بجائے صرف حقیقی حزن و ملال پر اکتفا کیا گیا کہ یہ بھی اس شہید ملت کی وصیت تھی۔ ایک مرتبہ بیہوش ہو گئے تھے، بہن نے جن کا نام عمرہ تھا نوحہ کیا کہ ہائے میرا پہاڑ ہائے ایسا، ہائے ویسا، افاقہ ہوا تو فرمایا کہ جو کچھ تم کہہ رہی تھیں مجھ سے اس کی تصدیق کرائی جاتی تھی کہ کیا تم ویسی تھے؟ اس بنا پر وفات کے وقت سب نے صبر کیا،صحیح بخاری میں ہے، فلما مات لم تبک علیہ یعنی جب انھوں نے شہادت پائی تو نوحہ اور بین نہیں کیا گیا۔ [10] [3][4] :[11]
جیسا کہ اوپر گذرچکا ،موتہ روانہ ہوتے وقت بیوی بچے موجود تھے،لیکن صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں،فقتل ولم یعقب یعنی ان سے نسل نہیں چلی۔ [12] ان کی بیوی کے متعلق استیعاب میں عجیب قصہ منقول ہے،انھوں نے ایک خاص بات پر عبد اللہ ابن رواحہ سے کہا کہ تم اگر پاک ہو تو قرآن پڑھو، اس وقت عبد اللہ ابن رواحہ ؓ کو عجیب چال سوجھی اور بروقت چند اشعار پڑھے، جن کا ترجمہ یہ ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کا وعدہ سچا ہے اور کافروں کا ٹھکانا دوزخ ہے اور عرش پانی کے اوپر تھا اور عرش پر جہاں کا پروردگار اور اس عرش کو خدا کے مضبوط فرشتے اٹھاتے ہیں۔ چونکہ وہ قرآن نہیں پڑھی تھیں ،سمجھیں کہ آیتیں پڑھ رہے ہیں، بولیں کہ خدا سچا ہے اور میری نظر نے غلطی کی تھی میں نے ناحق تم کو تہمت لگائی، زن و شوئی کے تعلقات بھی کیسے عجیب ہوتے ہیں ، لونڈی سے ہم بستری کرنے پر بیوی کے غیظ و غضب سے بچنے کا حضرت عبد اللہؓ بن رواحہ نے یہ طرز اختیار کیا۔ [13] [14]
اس عنوان میں دو چیزیں قابل ذکر ہیں، کتابت اور شاعری۔ آنحضرتﷺ کے کاتب تھے ،لیکن یہ معلوم نہیں کہ لکھنا کب سیکھا تھا؟شاعری میں مشہور تھے اور دربارِ رسالت کے شاعر تھے،کفر پر مشرکین کو عار دلانا ان کاموضوع تھا صاحب اسد الغابہ لکھتے ہیں۔ دربار نبوی کے شعرا حسان بن ثابتؓ، کعب بن ؓ مالک اور عبد اللہ بن رواحہؓ تھے، تو حضرت کعب بن ؓ مالک کافروں کو لڑائی سے ڈراتے تھے اورحسان بن ثابت حسب نسب پر چوٹ کرتے تھے اور حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ ان کو کفر کا عار دلایا کرتے تھے۔ [15] یعنی آنحضرت ﷺ کے تین شاعر تھے، حضرت حسانؓ ،حضرت کعبؓ، حضرت ابن رواحہؓ، اول الذکر نسب پر طعن کرتے تھے دوسرے لڑائی سے دھمکاتے اور تیسرے کفر پر غیر ت دلاتے تھے۔ شعر فی البدیہہ کہہ سکتے تھے،ایک روز مسجد نبوی کی طرف نکلے، آنحضرت ﷺ صحابہؓ کی جماعت کیساتھ تشریف فرما تھے،ان کو بلایا اور فرمایا مشرکین پر کچھ کہو انھوں نے اس مجمع میں کچھ اشعار کہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنا تو مسکرائے اور فرمایا خدا تم کو ثابت قدم رکھے۔ [16] حدیث میں چند روایتیں ہیں جو حضرت ابن عباسؓ،حضرت اسامہ بنؓ زید حضرت انسؓ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت نعمان بن بشیرؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کے واسطہ سے مروی ہیں، خود آنحضرت ﷺ اور حضرت بلالؓ سے روایتیں کیں۔ [8]
نہایت زاہد، عابد اور مرتاض تھے، آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ خدا عبد اللہ بن رواحہؓ پر رحم کرے وہ انہی مجلسوں کو پسند کرتے تھے جن پر فرشتے فخر کرتے ہیں، یعنی خدا کی رحمت ہو ابن رواحہؓ پر وہ ایسی مجلسیں پسند کرتا ہے جس پر فرشتے بھی فخر کرتے ہیں۔ [17] حضرت ابو درداءؓ کہتے ہیں کہ کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جس میں عبد اللہ ابن رواحہؓ کو یاد نہ کرتا ہوں، وہ مجھ سے ملتے تو کہتے کہ آؤ تھوڑی دیر کے لیے مسلمان بن جائیں، پھر بیٹھ کر ذکر کرتے اور کہتے یہ ایمان کی مجلس تھی۔ [18] ان کی بیوی کا بیان ہے کہ جب گھر سے نکلتے دورکعت نماز پڑہتے اور واپس آتے اس وقت بھی ایسا ہی کرتے تھے، اس میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ ایک سفر میں اتنی شدید گرمی تھی کہ آفتاب کی تمازت سے لوگ سروں پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ایسی حالت میں روزہ کون رکھ سکتا ہے؟ لیکن آنحضرت ﷺ اور حضرت ابن رواحہؓ اس حالت میں بھی صائم تھے۔ [19] جہاد کا نہایت شوق تھا، بدر سے لے کر موتہ تک ایک غزوہ بھی ترک نہ ہوا تھا، اسماء الرجال کے مصنفین اس ذوق و شوق کا ان الفاظ میں تذکرہ کرتے ہیں۔ یعنی عبد اللہؓ غزوہ میں سب سے پیشتر جاتے اور سب سے پیچھے واپس ہوتے تھے۔ [20] احکام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر ذیل کا واقعہ شاہد ہے۔ آنحضرت ﷺ خطبہ دے رہے تھے حضرت ابن رواحہؓ پہنچے تو یہ ارشاد زبان پر تھا کہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ،مسجد کے باہر تھے، اسی مقام پر بیٹھ گئے، آنحضرت ﷺ خطبہ سے فارغ ہوئے تو کسی نے یہ خبر پہنچادی فرمایا:خدا اور رسول کی اطاعت میں خدا ان کی حرص اور زیادہ کرے،آنحضرت ﷺ سے نہایت محبت تھی اور آپ کو بھی ان سے انس تھا،بیمار پڑے اور ایک دن بے ہوش ہو گئے تو سرور عالم ﷺ عیادت کو تشریف لائے اور فرمایا خدا یا اگر ان کی موت آئی ہو تو آسانی کر ورنہ شفا عطا فرما۔ [21] آنحضرت ﷺ کی نعت میں شعر کہا کرتے تھے اور یہ بھی حبِ رسول کا کرشمہ تھا ایک شعر بہت ہی اچھا کہا ہے اور وہ یہ ہے: [22] اگر آپ میں کھلی ہوئی نشانیاں نہ بھی ہوں، جب بھی آپ کی صورت خبر (رسالت) دینے کے لیے کافی تھی۔ جوش ایمان کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ عبد اللہ بن ابی کی مجلس میں بیٹھے تھے آنحضرت ﷺ ادھر سے گذرے تو سواری کی گرد اڑکر اہل مجلس پر پڑی ابن ابی نے کہا کہ گرد نہ اڑاؤ، آپ وہیں اتر پڑے اور توحید پر ایک مختصر تقریر کی ،ابن ابی اب تک مشرک تھا، بولا یہ بات تو ٹھیک نہیں، جو کچھ آپ کہتے ہیں،اگر حق ہے تو یہاں آکر ہم کو پریشان کرنے کی ضرورت نہیں، البتہ جو آپ کے پاس جائے،اس کو خوشی سے ایمان کی دعوت دے سکتے ہیں، حضرت عبد اللہ بن رواحہؓ کو جوش آگیا ،بولے یا رسول اللہﷺ !آپ ضرور فرمائیں، ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں۔ [23] [24] .[8] [25]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.