شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این آر پی کے خلاف شاہین باغ احتجاج From Wikipedia, the free encyclopedia
شاہین باغ احتجاج نئی دہلی کے علاقہ شاہین باغ میں جاری ہے جو شہریت ترمیمی بل 2019ء کے بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور ہو جانے کے بعد شروع ہوا تھا۔ لوک سبھا سے منظور ہو جانے کے بعد 11 دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھا میں یہ مسودہ قانون پیش ہوا اور طویل بحث اور زبردست مخالفت کے باوجود عددی برتری کے باعث منظور ہو گیا۔ چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاج شروع کیا تو دہلی پولیس نے جواباً ان پر وحشیانہ کارروائی کر دی۔ پولس کی اس بربریت کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کا آغاز کیا جو تاحال بلا توقف جاری ہے۔[1][2][3] یہ دراصل ایک احتجاجی مارچ اور سول نافرمانی ہے جس کے بیشتر شرکا شاہین باغ کی مسلم خواتین ہیں۔ یہ مظاہرے 15 دسمبر 2019ء[4] سے شروع ہوئے۔ اس کا محل وقوع کالندی کنج شاہین باغ نامی شاہراہ عام ہے جو نوئیڈا کو فریدآباد سے جوڑتی ہے۔ مظاہرین نے اس شاہراہ کو 15 دسمبر سے ہی بند کر رکھا ہے۔[5]
Shaheen Bagh protests | |||
---|---|---|---|
Shaheen Bagh anti-CAA protests بسلسلہ شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے | |||
شاہین باغ میں خواتین مظاہرین نے ایک بڑی سڑک پر آمد رفت کو روک دیا (کلندی کنج علاقہ)، نئی دہلی | |||
تاریخ | 15 دسمبر 2019 – 24 مارچ 2020 (101 دن) | ||
مقام | |||
وجہ | شہریت ترمیمی بل 2019ء کی منظوری اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی مداخلت | ||
مقاصد | سی اے اے کی منظوری ، پولیس تشدد اور حکومتی ذہنیت کے خلاف برہمی کا اظہار۔ این آر سی این پی آر کو چلانے سے روکنے کی مانگ۔ | ||
طریقہ کار | احتجاج، دھرنا، احتجاجی مارچ، سول نافرمانی، فن (Graffiti، شاعری) | ||
صورتحال | لاک ڈاؤن کی وجہ سے موقوف | ||
مرکزی رہنما | |||
| |||
متاثرین | |||
اموات | 0 | ||
زخمی | 1 | ||
گرفتار | 10 | ||
Detained | 0 | ||
جرمانہ | 0 |
ابتدا میں یہ مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولس کی بربریت اور بلا اجازت یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر لڑکوں اور لڑکیوں کو زدوکوب کرنے، ان پر بے رحمی سے لاٹھیاں برسانے اور دار المطالعہ میں آنسو گیس چھوڑنے کے خلاف شروع ہوئے تھے مگر بہت جلد یہ ایک احتجاج کی شکل اختیار کر گئے اور شہریت ترمیمی بل اور قومی شہری رجسٹر کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ شاہین باغ کے علاوہ ملک بھر میں ہو رہے احتجاجات میں اس بل کے خلاف اور آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کر کے این پی آر کو نافذ کرنے کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کو کوسا جا رہا ہے اور ان دونوں فیصلوں کو واپس لینے کی اپیلیں ہو رہی ہیں۔[5] شاہین باغ کے مظاہرین نے ان یونینوں کی حمایت میں بھی آوازیں بلند کیں جو مزدور مخالف پالیسی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ نیز 2020ء جے این یو حملہ کے خلاف بھی شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کیا۔[6] مذکورہ شاہراہ پر مظاہرین نے خیمے نصب کر دیے ہیں اور دونوں طرف سے سڑک کو بند کر دیا ہے۔ دی وائر کی خبر کے مطابق دن بھر میں وہاں لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔[7]
احتجاج کو روکنے اور سڑک کھلوانے کے لیے دہلی عدالت عالیہ میں دو پٹیشن داخل کی جا چکی ہیں لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اپیل سننے سے انکار کر دیا۔ 14 جنوری 2020ء کو عدالت نے کہا کہ یہ پولس کا معاملہ ہے۔ دہلی پولس کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کو سڑک کھلوانے پر راضی کرلے گی مگر کسی بھی طرح کی طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ احتجاج پولیس کے تشدد اور حکومت کی بے حسی کے خلاف بھی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے میں مدد کریں گے مگر احتجاج ختم نہیں ہوگا تا آنکہ حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرلے۔ اس احتجاج کی وجہ سے تقریباً 100,000 گاڑیاں متاثر ہیں اور 20-30 منٹ کی مسافت 2-3 گھنٹوں میں پوری ہو رہی ہے مگر حکومت اپنے موقف پر بضد ہے اور ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں۔ وہیں مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایک ملی میٹر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حزب اقتدار بی جے پی کے صدر نے بھی مظاہرین سے اپنا احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔
14 دسمبر 2019ء کی دوپہر کو 10 تا 15 علاقائی خواتین نے شاہین باغ میں احتجاج شروع کیا۔ بعد میں مزید لوگ اس میں شامل ہوئے اور اس طرح یہ 24/7 احتجاج ہو گیا۔ لوگ رات دن یہاں رہتے ہیں۔[8] ان میں اکثریت با حجاب اور برقع پوش مسلم خواتین کی ہیں جو عموما گھریلو عورتیں ہیں۔[9] اتوار کے دن یہاں لاکھوں کا مجمع ہو جاتا ہے۔ جدید بھارت کا یہ سب سے زیادہ دنوں ے ک چلنے والا احتجاج ہے جسے دنیا بھر کی میڈیا اپنے اخباروں اور ٹی وی چنیلوں میں جگہ دے رہی ہے۔[8][7] سی این این کی خبر کے مطابق بہر النسا نام کی خاتون نے یہ کہتے ہوئے احتجاج میں شرکت کرنے کے لیے اپنی نوکری چھوڑ دی کہ ‘‘انھوں نے ہمارے بچوں کی آواز دبانے کی کوشش کی لہذا ہم ماوں نے احتجاجی پرچم اپنے ہاتھ میں اٹھا لیا ہے۔[10]
31 دسمبر 2019ء کی رات کو جب ساری دنیا سال نو کا جشن منا رہی تھی، شاہین باغ کی احتجاجی خواتین نے بھارت کے قومی گیت جن گن من نے سال نو کا استقبال کیا تھا۔[11][12] وہ رات گذشتہ 100 برسوں میں دہلی کی سب سے ٹھنڈی رات تھی۔[1][2][13] 12 جنوری 2020ء کو شاہین باغ کے احتجاج میں سب سے مظاہرہن نے شرکت کی اور ایک نئی تاریخ رقم کردی۔[14] شاہین باغ کا حتجاج بے انتہا مقبول ہوا اور اسی کے طرز پر اب ملک بھر میں احتجاجات کا سلسلہ شروع ہو گیا جیسے الہ آباد، گیا، ناگپور[15]، کولکاتا[16] (پارک سرکس)[17]، حیدراباد[18] اور لکھنؤ۔[19]
جائے احتجاج مکمل طور پر بینر، پوستر اور نقش و نگار سے مزین ہے۔[20][5][21] اسی جگہ ایک کھلا مطالعہ گاہ بنایا گیا ہے جس میں ہزاروں لوگوں نے کتابیں اور دیگر اسٹیشنری کی اشیا بطور تحفہ دی ہیں۔[22][4] اپنی ماوں کے ساتھ احتجاج میں شامل ہونے والے بچوں نے آسٹریلیا آتشدزگی، 2010ء، دیپیکا پڈوکون، اسپائیڈر مین اور ڈزنی کی شہزادیاں کو اپنے نقوش میں ابھارا ہے اور ان کے متعلق نظمیں اور کہانیاں لکھی ہیں۔[4] کچھ بچے مائک پر ہم کاغذ نہیں دکھائیں گے گاتے رہتے ہیں۔[4] کچھ بچوں نے قومی پرچم کا نقش بنایا تھا جو سرخیوں میں آیا تھا۔[4] شاہین باغ کی مسلم خواتین کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں سے لوگ آتے رہتے ہیں اور احتجاج میں شامل ہوتے ہیں۔ یہاں اردو شاعری[23] گنگنائی جاتی ہے۔ تقریری ہوتی ہے۔ محمد اقبال[2]، فیض احمد فیض اور حبیب جالب کی نظمین پڑھی جاتی ہیں۔ بین المذاہب عبادتیں ہوتی ہیں۔[24][25] بھگود گیتا، بائیبل، قران کی تلاوتیں مسلسل ہورہی ہیں اور گربانی بھی ادا کی جاتی ہے۔[24] 15 جنوری 2020ء کو ایک صحافی سنجیو گویل کی ایک ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا احتجاجیوں کو 1200 روہئے تقسیم کیے جا رہے ہیں۔[26] چند ڈاکٹروں نے مفت علاج کے لیے بطی کیمپ کھول دیا ہے۔[27] سکھ برادی کے کسانوں نے وہاں مفت لنگر کا انتطام کر دیا ہے۔[19]
احتجاج گاہ میں کئی بڑی شخصیتیں بھی آئیں جیسے کانگریس کے لیڈر ششی تھرور اور [[منی شنکر ایئر۔[28][24] ان کے علاوہ فلمی اداکار محمد ذیشان ایوب بھی یہاں آچکے ہیں۔[12]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.