بھارتی کرکٹ کھلاڑی From Wikipedia, the free encyclopedia
سوربھ چنڈی داس گانگولی (پیدائش:8 جولائی 1972ء) جو پیار سے دادا (بنگالی زبان میں بڑے بھائی کو کہتے ہیں) کے نام سے جانے جاتے ہیں بھارتی کرکٹ کھلاڑی مبصر اور منتظم ہیں۔ وہ بائیں ہاتھ اور بھارت قومی کرکٹ ٹیم کے لیے اوپنر بلے باز تھے۔ وہ بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے 39ویں صدر تھے۔[1][2] اور وزڈن بھارت کے ادارتی بورڈ کے صدر ہیں۔[3] بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے صدر نامزد ہونے سے قبل وہ بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر تھے۔ بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن بنگال کرکٹ کی انتظامی اکائی ہے۔ سورائیو گانگولی کرکٹ دنیا کے بہترین کپتانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جب وہ کرکٹ کھیل رہے تھے تب انھوں نے خود کو دنیا کے بہترین بلے باز کے طور پر پیش کیا۔ ان کا شمار دنیا بھر میں جارح بلے باز کے طور ہوتا تھا اور اسی کے ساتھ انھوں نے بھارتی قومی کرکٹ ٹیم کی بہترین کپتانی کرتے ہوئے خود کو دنیا کے بہترین کپتانوں کی فہرست میں شامل کرایا۔[4][5][6] وہ دنیا کے ان کرکٹ کھلاڑیوں کی فہرست میں بھی شامل ہوتے ہیں جو آف سائڈ میں شاٹ کھیلنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے ان میں بھی بالخصوص گانگولی کو گاڈ آف آف سائڈ کہا جاتا تھا۔ آف سائڈ کے دیگر کرکٹ کھلاڑیوں میں سچن تندولکر، کرس گیل، کمار سنگاکارا۔ ویریندر سہواگ اور روہت شرما جیسے کھلاڑی شامل ہیں۔ ان کا پسندیدہ شاٹ وکٹ کے اسکوائر میں کورز کی طرف سے شاٹ کھیلنا تھا۔[7] گانگولی کو ان کے بڑے بھائی اسنیہاسش گانگولی نے کرکٹ دنیا میں متعارف کرایا۔ انھوں نے اسکول کی کرکٹ ٹیم میں حصہ لینا شروع کیا۔ گھریلو کرکٹ کی کئی ٹیموں جیسے رنجی ٹرافی، دلیپ ٹرافی وغیرہ کھیلنے کے بعد سارو گانگولی کو بھارتی قومی کرکٹ ٹیم میں منتخب کیا گیا۔ بھارتی ٹیم انگلینڈ کے دورہ پر جا رہی تھی۔ انھوں نے 131 رن بنائے اور ٹیم میں اپنی جگہ مضبوط کرلی۔ اس کے بعد انھوں نے سری لنکا، پاکستان اور آسٹریلیا کے خلاف میچوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور مین آف دی میچ کے کئی اعزازات اپنے نام کیے۔ کرکٹ عالمی کپ 1999ء میں انھوں نے راہول ڈریوڈ کے ساتھ 318 رنوں کی مشترکہ پاری کھیلی جو ایک روزہ کرکٹ عالمی کپ کی تاریخ میں اب تک ایک ریکارڈ ہے۔ 2000ء میں بھارتی کرکٹ میں میچ فکسنگ کا تنازع ہوا اور اس وقت سچن ٹنڈولکر بھارتی ٹیم کے کپتان تھے۔ انھوں نے میچ فکسنگ اور اپنی خرابی صحت کی وجہ سے کپتانی سے استعفی دے دیا اور گانگولی کو ان کی جگہ کپتان بنایا گیا۔ گانگولی الگ طرح کے کپتان ثابت ہوئے۔ وہ اس وقت میڈیا کی تنقید کا نشانہ جب کاونٹی کرکٹ ٹیم درہم کے لیے انھوں نے کچھ خاص نہیں کیا۔ اس کے بعد 2002ء کی نیٹ ویسٹ سیریز کے فائنل مقابلہ میں انھوں نے اپنی شرٹ اتار دی جس کی وجہ وہ میڈیا میں خوب چھائے اور زبردست تنقید ہوئی۔ کرکٹ عالمی کپ 2003ء میں گانگولی قیادت میں بھارتی ٹیم فائنل میں گئی جہاں آسٹریلیا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے اگلے سال ان کی خراب کارکردگی کی وجہ سے ٹیم سے نکال دیے گئے۔ 2006ء میں انھوں نے ٹیم میں پھر واپسی کی اور بہترین بلے کا مظاہرہ کیا۔ اسی دوران میں وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے کوچ گریگ چیپل کے ساتھ تنازع میں پھر سرخیوں میں آئے۔ دونوں کے درمیان میں کئی ساری غلط فہمیاں قائم ہوگئیں اور نتیجتاً انھیں ٹیم سے نکال دیا گیا۔ البتہ کرکٹ عالمی کپ 2007ء کے لیے انھیں ٹیم میں جگہ ملی۔ وہ دور جدید کے بہترین کرکٹ کپتان رہے۔[8] اور ایک روزہ کرکٹ کے ایک بہترین بلے باز بھی۔[9][10][11] وہ ایک روزہ کرکٹ میں کرکٹ کی تاریخ میں بہترین بلے باز شمار ہوتے ہیں۔ وہ فی الحال رنوں کے معاملے میں 8ویں نمبر پر ہیں۔ 10000 رنوں کا سنگ میل عبور کرنے والے وہ تیسرے بلے باز تھے۔ ان سے قبل سچن ٹندولکر اور پاکستان کے سابق کپتان انضمام الحق یہ کارنامہ کر چکے تھے۔ 2002ء میں وزڈن کرکٹ میگزین نے انھیں کرکٹ کی تاریخ کا چھٹا بہترین بلے باز قرار دیا تھا۔ ان کے بہترین پانچ بلے باز ویوین رچرڈز، سچن ٹنڈولکر، برائن لارا، ڈین جونز اور مائیکل بیون تھے۔[9] 2008ء میں بھارت میں انڈین پریمیئر لیگ کا آغاز ہوا اور سارو گانگولی کولکاتا نائٹ رائیڈرز کے کپتان مقرر ہوئے۔ اسی سال آسٹریلیا کے خلاف ایک ٹیسٹ کھیلنے کے بعد انھوں نے بین الاقوامی کرکٹ سے استعفی کا اعلان کر دیا۔ وہ بنگال کرکٹ ٹیم کے لیے بدستور کھیلتے رہے۔ انھیں کرکٹ ایسوسی ایشن آف بنگال کی ڈولپ کمیٹی کا صدر نشین نامزد کیا گیا۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز سارو گانگولی اایک روزہ کرکٹ کے بہتیرین کھلاڑی تھے۔ ان کے کھاتہ میں 11000 سے زیادہ رن ہیں۔ وہ اب تک کے بہترین بھارتی ٹیسٹ کرکٹ کے کپتان ہیں۔ انھوں نے 49 میں سے کل 21 مقابلے جیتے ہیں۔ ملک کے باہر انھوں نے 11 ٹیسٹ مقابلے جیتے ہیں اور اس طرح وہ بہترین کپتان ہیں۔[12] بھارتی کرکٹ ٹیم کی کمان سنبھالنے سے قبل بھارتی ٹیم آئی سی سی کی درجہ بندی میں 8ویں مقام پر ہوا کرتی تھی مگر ان کے کپتان بننے کے بعد ٹیم دوسرے درجہ پر رہنے لگی۔ وہ ایک جارحانہ بلے باز کے ساتھ ساتھ سخت فیصلہ لینے والے کپتان بھی تھے اور انھوں نے کئی نوجوان کرکٹروں کو موقع دیا جو بعد میں بڑے کرکٹ کھلاڑی بنے اور اس طرح وہ ایک مضبوط ٹیم بنا پائے۔ 2004ء میں حکومت ہند نے انھیں پدم شری اعزاز سے نوازا۔[13] 20 مئی 2013ء کو حکومت مغربی بنگال نے انھیں بنگا ببھوشن اعزاز سے نوازا۔[14] گانگولی بھارتی عدالت عظمیٰ کی جسٹس مودگل کمیٹی کا حصہ ہیں جو آئی پی ایل کی اسپاٹ فکسنگ کی تحقیقات کررہی ہے۔[15]
![]() | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ذاتی معلومات | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
مکمل نام | سوربھ چنڈی داس گانگولی | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پیدائش | بہالا، کلکتہ، مغربی بنگال، بھارت | 8 جولائی 1972|||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرف | دادا، کلکتہ کا شہزادہ، مہاراج | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قد | 5 فٹ 11 انچ (1.80 میٹر) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بلے بازی | بائیں ہاتھ کا بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
گیند بازی | دائیں ہاتھ کا میڈیم گیند باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
حیثیت | بلے باز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
تعلقات | ڈونا گانگولی (شادی. 1997) سنیہایش گانگولی (بھائی) | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ویب سائٹ | souravganguly | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بین الاقوامی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
قومی ٹیم |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ٹیسٹ (کیپ 206) | 20 جون 1996 بمقابلہ انگلینڈ | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ٹیسٹ | 6 نومبر 2008 بمقابلہ آسٹریلیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
پہلا ایک روزہ (کیپ 84) | 11 جنوری 1992 بمقابلہ ویسٹ انڈیز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
آخری ایک روزہ | 15 نومبر 2007 بمقابلہ پاکستان | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ملکی کرکٹ | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
عرصہ | ٹیمیں | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
1990–2010 | بنگال | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2000 | لنکا شائر | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2005 | گلیمورگن | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2006 | نارتھمپٹن شائر | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2008–2010 | کولکاتا نائٹ رائیڈرز | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
2011–2012 | پونے واریئرز انڈیا | |||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
کیریئر اعداد و شمار | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ کے عبوری صدر | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
دفتر میں | ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
30 جنوری 2017ء | –||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||||
ماخذ: کرک انفو، 2 جنوری 2013 |
سوربھ گانگولی کی ولادت 8 جولائی 1972ء کو کولکاتا میں ہوئی۔ وہ چنڈی داس اور نیروپا گانگولی کی سب سے چھوٹی اولاد ہیں۔[16][17] چنڈی داس کا ایک چھاپہ خانہ تھا اور وہ شہر کے امیر ترین لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ گانگولی کا بچپن بہت شاہی گذرا تھا۔ انھیں مہاراجا کہا جاتا تھا۔ ان کے والد 21 فروری 2013ء کو طویل علالت کے بعد بعمر 73 برس انتقال ہو گیا۔[18] کولکاتا میں فٹ بال زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ ابتدا میں گانگولی بھی اسی میں دلچسپی لیتے تھے۔ مگر پڑھائی کی وجہ سے زیادہ توجہ نہ دے سکے۔ خود ان کی والدہ گانگولی کے کھیل کی طرف رغبت سے خوش نہیں تھیں۔[19][20] البتہ ان کے بڑے بھائی اس وقت بنگال کرکٹ ٹیم میں اپنی جگہ مضبوط کر چکے تھے۔ انھوں نے گانگولی کے خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے میں اپنا پورا تعاون دیا اور والد سے درخواست کی کہ موسم گرما کی چھٹیوں میں سارو کو کسی کرکٹ کیمپ میں داخل کروا دیں۔ اس وقت گانگولی دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔ [21] گانگولی اپنے سارے کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں مگر انھوں نے بائیں ہاتھ سے کھیلنا شروع کیا تاکہ وہ اپنے بڑے بھائی کے کرکٹ کے سامان استعمال کر سکیں۔[19] ان کی بلے بازی میں نکھار کو دیکھتے ہوئے انھیں کرکٹ اکیڈمی میں داخل کرا دیا گیا۔ ان کے گھر میں ہی ایک اندرونی ملٹی جم خانہ اور کانکریٹ کا وکٹ بنایا گیا تاکہ دونوں بھائی مشق کرسکیں۔ دونوں بھائی گھر پو کرکٹ کے ویڈیو دیکھا کرتے تھے بالخصوص ڈیوڈ گاور کو سارو بہت پسند کرتے تھے۔ [22] انھوں نے انڈر-15 میں اوڈیشا کے خلاف سنچری بنائی اور اس کے بعد انھیں سینٹ زیویر اسکول ٹیم کا کپتان نامزد کیا گیا۔ مگر ان کے کئی ساتھی کھلاڑیوں نے ان کی انا، ضد اور غصہ کی شکایت کی۔ [19][23] جونیر ٹیم کے ساتھ ان کا انتخاب ہوا مگر انھوں نے 12واں کھلاڑی بننے سے انکار کر دیا جس کو کھلاڑیوں کے لیے پانی لے جانا، کرکٹ کے آلات کو منظم کرنا پڑتا تھا۔ یہ سب کام سارو گانگولی کی کے معیار زندگی سے کم درجہ کے تھے۔ [24] گانگولی کی زندگی ایسی شاہانہ گذری تھی کہ اس طرح کے کام انھیں پسند نہ تھے۔[25] مگر چونکہ وہ کھلاڑی زبردست تھے لہذا فرسٹ کلاس کرکٹ میں ان کا انتخاب ہو گیا۔ انھوں نے 1989ء میں بنگال کے لیے پہلا میچ کھیلا مگر اسی سال ان کے بھائی کو ٹیم سے نکال دیا گیا۔[19][26]
1991ء کے رنجی ٹرافی ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی[27] کی وجہ سے قومی ٹیم میں انھیں لے لیا گیا مگر 1992ء میں اپنے پہلے ایک روزہ بین الاقوامی مقابلہ میں ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے خلاف انھوں نے 3 رن بنائے۔[16][28] اس کے بعد انھیں ٹیم سے نکال دیا گیا اور ان پر گھمنڈی ہونے کا الزام بھی لگایا گیا۔ یہ خبر بھی باہر آئی کہ انھوں نے ساتھی کھلاڑیوں کے لیے پانی لے جانے کو بھی منع کر دیا تھا مگر انھوں نے اس الزام کو بے بنیاد قرار دیا۔[19][25] انھوں نے پھر سے گھریلو کرکٹ کا رخ کیا اور 1993ء-94ء اور 1994ء-95ء کے رانجی سیزن میں بہترین بلے بازی کی۔[29][30] دلیپ ٹرافی کے ایک مقابلہ میں 1995ء96ء میں 171 رن کی پاری کھیلنے کے بعد انھیں 1996ء میں انگلیڈ کے دورے کے لیے قومی ٹیم میں جگہ ملی۔ مگر میڈیا ان کے انتخاب پر نہایت نالاں تھا۔ [31] انھیں محض ایک مقابلہ کھیلنے کا موقع ملا اور ٹیسٹ کرکٹ ٹیم سے بھی ان کا نام خارج کر دیا گیا۔ البتہ نوجوت سنگھ سدھو نے اس وقت کے کپتان محمد اظہر الدین کے خراب برتاو کا حوالہ دیتے ہوئے ٹیم سے اپنا نام واپس لے لیا اسی ٹیسٹ سیریز کے پہلے مقابلے میں ان کا نام خارج ہوا تھا مگر سدھو کی جگہ دوسرے مقابلہ میں انھیں کھیلنے کا موقع ملا۔ لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کا تاریخی میدان تھا اور ساتھی کھلاڑی راہول ڈریوڈ، اس طرح دادا نے ٹیسٹ کرکٹ کا اپنا پہلا میچ کھیلا۔ تین مقابلوں کی اس سیریز میں انگلیڈ پہلا مقابلہ جیت چکی تھی۔ دوسرا مقابلہ گانگولی کا افتتاحی میچ تھا اور انھوں نے اس میں سنچری لگائی اور لاڈز کے میدان میں اپنے پہلے ہی مقابلے میں سنچری لگانے والے تیسرے بلے باز بن گئے۔ دیگر دو بلے باز ہیری گراہم اور جان ہیمسفائر تھے۔ گانگولی کے بعد میٹ پرایر اور اینڈریو اسٹراس نے بھی یہی کارنامہ انجام دیا مگر گانگولی کی 131 رنزوں کی پاری افتتاحی مقابلوں میں اس میدان پر اب تک کی بڑی پاری ہے۔ [32] بھارت کو دوسری پاری میں بلے بازی کا موقع نہیں ملا اور مقابلہ بلا نتیجہ ختم ہوا۔[33] اگلا مقابلہ ٹرینٹ برج میں کھیلا گیا اور گانگولی نے شاندار 136 بنائے اور لاورینس رووے اور الوین کالیچرن کے بعد تیسرے کھلاڑی بن گئے جنھوں نے شروعاتی دو مقابلوں میں دو سنچریاں بنائی ہوں۔ انھوں نے اس مقابلہ میں سچن ٹنڈولکر کے ساتھ 255 رنزوں کی شراکت داری کی یہ اس وقت تک بھارت کی طرف سے بھارت کے باہر کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی شراکت داری تھی۔ تیسرا ٹیسٹ بھی بلا نتیجہ رہا اور انگلیڈ 1-0 سے سیریز جیت گیا۔ دوسری پاری میں گانگولی نے 48 رنز سکور کیے تھے۔[34][35]
انگلینڈ کا سفر بہرحال کامیاب رہا اور اس کے فوراً بعد ان کی محبوبہ ڈونا روئے کے عشق نے انھیں اپنی محبت میں مزید گرفتار کر لیا۔ دونوں کے خاندان والے ایک دوسرے کے دشمن تھے اور دونوں کی اس محبت کی وجہ سے ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا۔ مگر عشق کرنے والے اس جوڑے کے عزم و حوصلہ کے سامنے دونوں خاندانوں کی دشمنی ماند پڑ گئی اور فروری 1997ء میں گانگولی اور ڈونا کی شادی ہو گئی۔[19][36] اسی سال گانگولی نے ایک روزہ کرکٹ کی پہلی سنچری بنائی۔ انھوں نے سری لنکا قومی کرکٹ ٹیم کے 238 رنزوں کے جواب میں اکیلے 113 رن بنائے۔ اگلے سال انھوں نے سہارا کپ میں پاکستان قومی کرکٹ ٹیم کے خلاف لگاتار چار مرتبہ مین آف دی میچ کا اعزاز جیتا۔ ان چاروں میں سے دوسرا مین آف دی میچ 10 اوور میں 16 دے کر 5 وکٹ لینے کے عوض ملا تھا۔ یہی ان کی بہترین گیندبازی کا ریکارڈ ہے۔ ایک روزہ میں کامیابی کے بعد سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز ہوئی۔ گانگولی نے چار ٹیسٹوں میں 3 سنچریاں بنائیں جن میں سے دو مقابلوں میں سچن ٹنڈولکر کے ساتھ 250 سے زیادہ رنزوں کی شراکت داری نبھائی۔[16] جنوری 1998ء میں بنگلہ دیش میں انڈیپینڈینس کپ کے فائنل میں بھارت نے 315 رنز کا ہدف 48 اوور میں حاصل کر لیا اور گانگولی کو مین آف دی میچ کا انعام ملا۔[37] مارچ 1998ء میں بھارت نے آسٹریلیا قومی کرکٹ ٹیم کو کولکاتا میں شکست دی۔ اس میں گانگولی نے گیندبازی کی شروعات کی تھی اور 3 وکٹ لیے تھے۔[38] کرکٹ عالمی کپ 1999ء میں بھارتی ٹیم میں گانگولی بھی شامل تھے۔ ایک مقابلہ سری لنکا کے ساتھ ٹانٹن میں تھا۔ بھارت نے ٹاس جیت کر پہلے بلے بازی کا فیصلہ کیا اور گانگولی نے 158 گیندوں سامنا کرتے ہوئے 183 رنزوں کی پاری کھیلی جس میں 17 چوکے اور 7 چھکے لگائے۔ عالمی کپ میں یہ دوسرا بڑا اسکور تھا اور کسی بھارتی کی جانب سے سب سے بڑا اسکور۔ راہول ڈریوڈ کے ساتھ انھوں نے 318 رنزوں کی شراکت داری نبھائی جو عالمی کب میں سے سب سے بڑی اور کل ایک روزہ مقابلوں میں دوسری بڑی شراکت داری ہے۔ [39][40] 1999ء-2000ء میں بھارت نے آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کرکٹ ٹیم کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچ ہار گئی۔[41][42] گانگولی نے بمشکل 22۔4 کی اوسط سے محض 224 رن بنائے لیکن ان کی ایک روزہ کرکٹ کی فارم زبردست تھی اور انھوں نے اس سیزن میں 5 سنچری بنائی اور پرائس واٹر ہاؤس کوپتز کی بلے بازی کی درجہ بندی میں وہ سر فہرست ہو گئے۔[43] اسی موقع پر یہ افواہ اڑنے لگی کہ گانگولی اور جنوبی ہند کی اداکارہ نگما کے مابین رومانی تعلقات ہیں۔ گانگولی نے ان الزامات کو بے بنیاد بتایا۔[44][45]
سارو گانگولی میڈیا کومخاطب کرتے ہوئے
2000ء میں بھارتی کرکٹ کے کچھ کھلاڑیوں پر میچ فکسنگ کے الزامات لگے۔[46] گانگولی کو بھارتی کرکٹ ٹیم کا کپتان نامزد کیا گیا۔ گانگولی کا کپتان بننا اس لیے بھی سرخیوں میں کیونکہ سچن ٹنڈولکر کپتانی چھوڑ رہے تھے۔ اس وقت گانگولی نائب کپتان تھے۔[19] ان کی کپتانی کا آغاز بھی بڑے دھماکا دار طریقے سے ہوا۔ جنوبی افریقہ کو پانچ ایک روزہ میچ کی سیریز میں شکست دی اور آئی سی سی ناک آؤٹ ٹرافی، 2000ء میں ٹیم فائنل میں گئی۔[19] اس دوران میں انھوں نے دو سنچریاں لگائیں جس میں ایک فائنل میں تھی مگر نیوزی لینڈ قومی کرکٹ ٹیم چار وکٹوں سے میچ جیت گئی۔[47] اسی سال گانگولی نے انگلینڈ میں کاونٹی کرکٹ میں ہاتھ آزمایا مگر ناکام رہے۔ [48] دی وزڈن کرکٹر کے نامہ نگار اسٹیو پٹارڈ اور جان سٹرن نے گانگولی کو “دی امپیریس انڈین (مفتخر بھارتی)‘‘ کہا۔ انھوں نے کہا:
“کریز پر کبھی لگتا تھا کہ ان کا ساتھی آیا بلے باز ہے یا بیٹمین ہے جس کو ان کی اتاری ہوئی جرسی یا کٹ بیگ کو پریلین سے لانے لے جانے کے لیے رکھا گیا ہے۔ البتہ پچھلو بلے بازوں کو یہ رویہ کھلنے لگا تھا۔ ایک میچ میں جب گانگولی نے اپنی نصف سنچری مکمل کی تب انھوں نے اپنا بلا اپنی ٹیم کی بالکونی کی طرف لہرایا گویا یہ کارنامہ بس وہی کرتے ہیں۔ وہ گلیمورگن اور نارتھیمٹونشایر میں کچھ خاص نہیں کر سکے۔ 2006ء کے اخیر میں چار فرسٹ کلاس میچوں وہ محض 4.80 کے اوسط سے رن بنا سکے تھے“۔[49]
ان کے لانکشایر کے ساتھی کھلاڑی اینڈریوفلنٹوف نے ان سے کنارہ کشی میں ہی عافیت سمجھی اور ان کے رویہ کو چارلس، پرنس آف ویلز کے رویہ کے مساوی قرار دیا۔[23] 2001ء میں آسٹریلیا میں 5 ایک روزہ اور 3 ٹیسٹ میچوں کی سیریز ہوئی جن میں گانگولی نے چار موقعوں پر ٹاس میں دیر سے پہنچے اور ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا۔ ان کے اس رویہ سے مخالف ٹیم کے کپتان اسٹیوواہ نے سخت ناراضی کا مظاہرہ کیا۔[50] پانچویں ایک روزہ میچ میں ٹاس کے دوران میں وہ ٹیم کے لباس میں نظر نہیں آئے بلکہ سادہ لباس میں گئے جس سے چہار طرف سے ان پر تنقیدوں کی بارش ہونے لگی۔ کرکٹ کے ماحول ایسا رویہ سخت ناپسندیدگی کی نطر سے دیکھا جاتا ہے۔ [51] البتہ اس دوران میں گانگولی کے ذاتی رویہ کی زیادہ تنقید نہیں ہوئی کیونکہ بھارت نے ٹیسٹ سیریز 2–1 سے جیت لی اور دوسرے ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے لگاتار 16 ٹیسٹ جیت کو روک دیا[52] بھارت وہ مقابلہ ہارنے کے کگار پر تھا کیونکہ پہلی پاری میں بھارت محض 274 رنوں پر آل آؤٹ ہو گیا۔ اسٹیو وا نے بھارت کو فالو آن کھیلنے کو مجبور کیا مگر دوسری پاری میں وی وی ایس لکشمن نے اپنا تاریخی کارنامہ کرتے ہوئے 281 رنوں کی پاری کھیلی اور راہل ڈریوڈ نے 180 رن بنائے۔ دونوں دن بھر بلے بازی کرتے ہیں اور چوتھا دن ان دونوں کے نام رہا۔ بھارت نے آسٹریلیا کو 384 رنوں کا ہدف دیا۔ وکٹ بھی دھول والی اور اسپن کے لائق تھی۔ آسٹریلیا بھارتی گیندبازوں کے سامنے ٹک نہیں پائی اور فالو آن کھلانے کے باوجود شکست کحانے والی تیسری ٹیم بن گئی۔[53][54][55] نومبر 2001ء میں گانگولی کی اہلیہ نے بیٹی سارہ کو جنم دیا۔[19] 2002ء میں نیٹ ویسٹ سیریز 2002ء میں یووراج سنگھ اور محمد کیف کی بہترین کارکردگی کو دیکھ کر گانگولی اپنا جوش برقرار نہ رکھ پائے اور عوام کے سامنے ہی اپنی جرسی اتار کر ہوا میں لہرا دی اور بھارت کی جیت کا جشن منانے لگے۔[56] بعد میں کرکٹ بحیثیت سلجھے لوگوں کا کھیل ہونے کی وجہ سے اور لارڈز کے پروٹوکول کی خلاف روزی کرنے کی وجہ گانگولی کا تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ گانگولی نے یہ کہ کر اپنا دفاع کیا کہ بھارت میں سیریز کے دوران میں انگلیڈ کے کھلاڑی اینڈریوفلنٹوف نے ایسی ہی حرکت کی تھی، انھوں نے بس اس کو دوہرایا ہے۔ [57] 2003ء میں بھارت کرکٹ عالمی کپ 2003ء کے فائنل میں پہنچا۔ 1983ء کے بعد بھارت پہلی بار عالمی کپ کے فائنل میں پہنچا تھا مگر آسٹریلیا سے ہار گیا۔[58] وہ ٹورنامنٹ گانگولی کے لیے ذاتی طور بھی اچھا رہا تھا۔ انھوں نے کل 58۔12 کی اوسط سے 465 رن بنائے تھے جس میں 3 سنچریاں شامل تھیں۔[59]
2004ء تک، وہ بطور کپتان نمایاں کامیابی حاصل کر چکے تھے اور میڈیا کے کچھ حلقوں کی جانب سے بھارت کے سب سے کامیاب کرکٹ کپتانوں میں شمار کیے جانے لگے۔ تاہم، ان کی انفرادی کارکردگی ان کی کپتانی کے دوران خاص طور پر عالمی کپ 2003ء میں آسٹریلیا کے دورے اور 2004ء میں پاکستان سیریز کے بعد خراب ہونے لگی۔[60] 2004ء میں آسٹریلیا نے بھارت میں 1969ء کے بعد پہلی مرتبہ ٹیسٹ سیریز جیتی۔ یہ قیاس کیا گیا کہ گانگولی ناگپور میں تیسرے ٹیسٹ کے لیے استعمال ہونے والی پچ کی نوعیت پر کرکٹ کے اعلیٰ حکام سے اختلاف کر رہے تھے۔ گراونڈ مین نے گانگولی کی بات کے برخلاف پچ پر گھاس چھوڑ دی۔ کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ عمل بھارتی کپتان کے خلاف "انتقام یا مخالفت" کی وجہ سے کیا گیا۔ جب آسٹریلیا کے قائم مقام کپتان ایڈم گلکرسٹ ٹاس کے لیے پہنچے تو انھوں نے گانگولی کی جگہ راہول ڈریوڈ کو پایا اور ڈریوڈ سے گانگولی کے بارے میں پوچھا۔ ڈریوڈ نے حتمی جواب نہیں دیا اور کہا: "اوہ، کون جانتا ہے؟"[61][62]
2004ء میں غیر مستقل کارکردگی اور 2005ء میں خراب فارم کے بعد، انھیں اکتوبر 2005ء میں ٹیم سے نکال دیا گیا۔[63] 2000ء میں، جب میچ فکسنگ اسکینڈلز کے باعث کھیل کی ساکھ متاثر ہوئی، گانگولی کو کپتانی کے لیے نامزد کیا گیا لیکن انھیں مسترد کر دیا گیا۔[64] اس کے بعد کپتانی ان کے سابق نائب، راہول ڈریوڈ، کے سپرد کی گئی۔ گانگولی نے ریٹائرمنٹ لینے سے انکار کیا اور ٹیم میں واپسی کی کوشش کی۔[65] گانگولی کو 2004ء میں کھیلوں کے میدان میں نمایاں خدمات کے اعتراف میں بھارت کے چوتھے سب سے بڑے شہری اعزاز، پدم شری، سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ انھیں 30 جون 2004ء کو بھارت کے اس وقت کے صدر، ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نے پیش کیا۔[66][67]
ستمبر 2005ء میں، گریگ چیپل زمبابوے کے دورے کے لیے بھارت کے کوچ مقرر ہوئے۔ گانگولی کے ساتھ ان کے تنازع نے میڈیا میں کئی سرخیاں بنائیں۔ چیپل نے بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا کو ایک ای میل بھیجی، جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ گانگولی "جسمانی اور ذہنی طور پر" بھارت کی قیادت کے قابل نہیں ہیں اور ان کے "تقسیم کرو اور حکومت کرو" کے رویے سے ٹیم کو نقصان پہنچ رہا ہے۔[68] یہ ای میل میڈیا کو لیک ہو گئی، جس کے بعد گانگولی کے مداحوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا۔[69] گانگولی نے بھارتی میڈیا سے حمایت حاصل کی اور بالآخر بورڈ کو مداخلت کر کے دونوں کے درمیان مصالحت کا حکم دینا پڑا۔[70]
بی سی سی آئی کے صدر رنبیر سنگھ مہندرا نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا:
"کرکٹ کو آگے بڑھانے کے فیصلے کی روشنی میں، کوچ اور کپتان دونوں کو پیشہ ورانہ تعلقات قائم کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس کے لیے کارکردگی معیار ہوگی، جو کپتان، کوچ اور کھلاڑیوں پر نافذ ہوگی۔ [...] یقیناً، کپتان کھیل کو کنٹرول کرتا ہے، کوچ اپنا کام انجام دیتا ہے۔ باہمی اعتماد اہم ہے۔ آئندہ کوئی کھلاڑی/کپتان/کوچ میڈیا سے رابطہ نہیں کرے گا یا کوئی بیان جاری نہیں کرے گا۔ میڈیا سے رجوع کرنے پر تادیبی کارروائی کی جائے گی۔"[71]
گانگولی، چیپل اور زمبابوے کے دورے کے لیے بھارتی ٹیم کے مینیجر امیتابھ چودھری کو بی سی سی آئی کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا گیا، جہاں یہ رپورٹ کیا گیا کہ ان کی جانب سے ساتھ کام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔[72] نتیجتاً، خراب فارم اور کوچ کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے، گانگولی کو ٹیم کی کپتانی سے ہٹا دیا گیا اور ان کی جگہ راہول ڈریوڈ کو کپتان مقرر کیا گیا۔[73]
دی ٹائمز آف انڈیا کے چیف رپورٹر چندریش نارائن نے تبصرہ کیا کہ "گریگ چیپل کے ساتھ تنازع نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا، لیکن اس وقت وہ واقعی خراب فارم سے گذر رہے تھے۔ ان کا واحد نمایاں اسکور زمبابوے کے خلاف ایک سنچری تھا، جو زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا۔"[74]
دس ماہ بعد، بھارت کے جنوبی افریقہ کے دورے کے دوران، گانگولی کو دوبارہ ٹیم میں شامل کیا گیا کیونکہ ان کے مڈل آرڈر متبادل، سریش رائنا اور محمد کیف خراب فارم کا شکار تھے۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2006ء میں بھارت کی ناقص بیٹنگ کارکردگی[75] اور جنوبی افریقہ میں ایک روزہ سیریز، جس میں بھارت 4-0 سے وائٹ واش ہوا،[76] کے بعد گانگولی کو ٹیسٹ ٹیم میں دوبارہ شامل کیا گیا۔[77] وسیم جعفر، ظہیر خان اور انیل کمبلے کو ایک روزہ اسکواڈ میں منتخب کیا گیا تھا، حالانکہ ان کی حالیہ کارکردگی اچھی نہیں رہی تھی۔[78] کئی ماہرین نے اسے کوچ گریگ چیپل کی "پہلے نوجوان" پالیسی پر تنقید کے طور پر دیکھا۔[79]
گانگولی نے جنوبی افریقہ کے خلاف ٹور میچ میں، جب ٹیم 37/4 کے اسکور پر تھی، اپنی اصل بیٹنگ تکنیک میں ترمیم کرتے ہوئے 83 رنز بنائے اور مڈل اسٹمپ گارڈ لیا۔[80] اس اننگز کے باعث بھارت نے میچ جیتا۔[81] اپنے کم بیک کے بعد پہلے ٹیسٹ میں، جوہانسبرگ وانڈررزاسٹیڈیم، جوہانسبرگ میں جنوبی افریقہ کے خلاف، گانگولی نے 51 رنز بنائے، جس سے بھارت کو فتح حاصل ہوئی۔ یہ جنوبی افریقہ میں بھارت کی پہلی ٹیسٹ میچ جیت تھی۔[82][83]
اگرچہ بھارت سیریز ہار گیا، لیکن گانگولی سیریز کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بنے۔[84] کامیاب ٹیسٹ واپسی کے بعد، انھیں ایک روزہ بین الاقوامی ٹیم میں بھی دوبارہ شامل کیا گیا۔ بھارت نےویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم[85] سری لنکا قومی کرکٹ ٹیم[86] کے خلاف مسلسل ایک روزہ سیریز کی میزبانی کی۔ تقریباً دو سال بعد اپنے پہلے ایک روزہ اننگز میں، انھوں نے میچ جتوانے والے 98 رنز بنائے۔[87] انھوں نے دونوں سیریز میں شاندار کارکردگی دکھائی، تقریباً 70 کی اوسط سے رنز بنائے،[88] اور سری لنکا کے خلاف مین آف دی سیریز کا ایوارڈ جیتا۔[89] 2007ء کے کرکٹ عالمی کپ 2007ء کے لیے گانگولی کو ٹیم میں شامل کیا گیا۔[90] بنگلہ دیش قومی کرکٹ ٹیم کے خلاف پہلے مرحلے کی شکست میں بھارت کے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تھے۔[91] جب بھارت ٹورنامنٹ کے گروپ مرحلے میں ہی باہر ہو گیا، تو ٹیم کے کچھ اراکین اور کوچ گریگ چیپل کے درمیان تنازعات کی اطلاعات سامنے آئیں۔ گانگولی پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ٹیم مینجمنٹ کی ہدایات کو نظر انداز کرتے ہوئے تیزی سے رنز بنانے سے گریز کیا۔[92]
سچن تندولکر کے اس بیان کے بعد کہ "جو چیز ٹیم کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی وہ یہ تھی کہ کوچ نے ہمارے رویے پر سوال اٹھایا"، چیپل نے ذاتی اور خاندانی وجوہات کا حوالہ دیتے ہوئے اپنا معاہدہ تجدید نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور کوچنگ چھوڑ دی۔[93]
12 دسمبر 2007ء کو گانگولی نے اپنے کیریئر کی پہلی ڈبل سنچری اسکور کی، جب وہ پاکستان کے خلاف کھیل رہے تھے۔ انھوں نے سیریز کے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ کی پہلی اننگز میں 239 رنز بنائے اور یوراج سنگھ کے ساتھ پانچویں وکٹ کے لیے 300 رنز کی شراکت کی۔[94]
2007ء میں گانگولی نے ٹیسٹ اورایک روزہ بین الاقوامی دونوں کرکٹ میں شاندار کارکردگی دکھائی۔ انھوں نے ٹیسٹ میں 1106 رنز 61.44 کی اوسط سے بنائے، جس میں تین سنچریاں اور چار نصف سنچریاں شامل تھیں اور وہ اس سال[[جیک کیلس کے بعد دوسرے سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تھے۔[95] ایک روزہ میچوں میں بھی وہ پانچویں سب سے زیادہ رنز بنانے والے بلے باز تھے، جہاں انھوں نے 1240 رنز 44.28 کی اوسط سے اسکور کیے۔[96]
گانگولی کی 2007ء کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے، انھیں ESPNcricinfo کی جانب سے ورلڈ ٹیسٹ XI میں شامل کیا گیا۔[97]
2008ء کے جنوری میں آسٹریلیا کے خلاف متنازع ٹیسٹ میں، سوربھ گانگولی نے دونوں اننگز میں نصف سنچریاں اسکور کیں، تاہم اس مقابلہ میں بھارت کو شکست ملی۔ فروری 2008ء میں، گانگولی نے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے تحت بننے والی کولکاتا نائٹ رائیڈرز (کے کے آر) ٹیم کے کپتان کے طور پر شمولیت اختیار کی۔ یہ ٹیم بالی وڈ اداکار شاہ رخ خان کی ملکیت ہے۔[98]
18 اپریل 2008ء کو، گانگولی نے کے کے آر کی قیادت کی اور آئی پی ایل کے ایک ٹوئنٹی 20 میچ میںرائل چیلنجرز بنگلور کے خلاف 140 رنز کی فتح حاصل کی۔ بنگلور کی ٹیم کی قیادت راہول ڈریوڈ کر رہے تھے اور یہ ٹیم وجے مالیا کی ملکیت تھی۔ اس میچ میں، گانگولی نے برینڈن میکولم کے ساتھ اننگز کا آغاز کیا اور 10 رنز بنائے، جبکہ میک کولم 73 گیندوں پر 158 رنز کے ساتھ ناٹ آؤٹ رہے۔[99]
1 مئی 2008ء کو، کولکتہ نائٹ رائیڈرز اور راجستھان رائلز کے درمیان ہونے والے میچ میں، گانگولی نے اپنا دوسرا ٹی 20 نصف سنچری اسکور کیا۔ انھوں نے 39 گیندوں پر 130.76 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ 51 رنز بنائے۔ اپنی اننگز میں، گانگولی نے چار چوکے اور دو چھکے لگائے اور اپنی ٹیم کے لیے سب سے زیادہ رنز اسکور کرنے والے بلے باز رہے۔[100]
7 جولائی 2008 کو، میڈیا نے اطلاع دی کہ گنگولی کو بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن (CAB) کے صدر کے عہدے کے لیے اپنے سابق سرپرست جگموہن ڈالمیا کے خلاف امیدوار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ اطلاعات یہ بھی تھیں کہ وہ 2014 میں مشرقی زون کے نمائندے کے طور پر بی سی سی آئی کے صدر کے عہدے کے لیے انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ گنگولی نے ان خبروں کی تردید نہیں کی اور کسی بھی ایسی حرکت کو مسترد نہیں کیا۔[101][102]
اسی سال اکتوبر میں، گنگولی نے اعلان کیا کہ آسٹریلیا کے خلاف اکتوبر 2008 میں شروع ہونے والی ٹیسٹ سیریز ان کی آخری سیریز ہوگی اور کہا: "[درحقیقت، مجھے توقع نہیں تھی کہ اس سیریز کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ یہاں آنے سے پہلے، [کانفرنس میں] میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کی اور امید ہے کہ میں ایک فتح کن اننگز کے ساتھ رخصت ہوں گا۔"[103]
گنگولی نے چار ٹیسٹ میچز کی سیریز کے تمام میچز کھیلے اور 54.00 کی اوسط سے 324 رنز بنائے۔[104][105]
سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ میں، موہالی میں کھیلتے ہوئے، گنگولی نے اپنا آخری ٹیسٹ سنچری بنائی۔ ناگپور میں آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گئے آخری ٹیسٹ میچ میں، انھوں نے پہلی اننگز میں 85 اور دوسری اننگز میں 0 رنز بنائے۔[106]
چوتھے اور آخری ٹیسٹ میں، بھارت کو فتح کے لیے ایک وکٹ درکار تھی، تو بھارتی کپتان مہندرسنگھ دھونی نے گنگولی کو فیلڈ میں آخری بار ٹیم کی قیادت کرنے کا موقع دیا۔ بھارت نے بارڈر-گواسکر ٹرافی دوبارہ حاصل کرلی، سیریز 2–0 سے جیت لی۔[107][108]
Test Match Career Performance By Opposition | Batting Statistics[109] | ||||
---|---|---|---|---|---|
Opposition | Matches | Runs | Average | High Score | 100 / 50 |
![]() |
24 | 1403 | 35.07 | 144 | 2 / 7 |
![]() |
5 | 371 | 61.83 | 100 | 1 / 3 |
![]() |
12 | 983 | 57.82 | 136 | 3 / 5 |
![]() |
8 | 563 | 46.91 | 125 | 3 / 2 |
![]() |
12 | 902 | 47.47 | 239 | 2 / 4 |
![]() |
17 | 947 | 33.82 | 87 | 0 / 7 |
![]() |
14 | 1064 | 46.26 | 173 | 3 / 4 |
![]() |
12 | 449 | 32.07 | 75* | 0 / 2 |
![]() |
9 | 530 | 44.16 | 136 | 2 / 1 |
Overall figures | 113 | 7212 | 42.17 | 239 | 16 / 35 |
ODI Career Performance By Opposition | Batting Statistics[110] | ||||
---|---|---|---|---|---|
Opposition | Matches | Runs | Average | High Score | 100 / 50 |
![]() |
35 | 774 | 23.45 | 100 | 1 / 5 |
![]() |
10 | 459 | 57.37 | 135* | 1 / 4 |
![]() |
26 | 975 | 39.00 | 117* | 1 / 7 |
![]() |
32 | 1079 | 35.96 | 153* | 3 / 6 |
![]() |
53 | 1652 | 35.14 | 141 | 2 / 9 |
![]() |
29 | 1313 | 50.50 | 141* | 3 / 8 |
![]() |
44 | 1534 | 40.36 | 183 | 4 / 9 |
![]() |
27 | 1142 | 47.58 | 98 | 0 / 11 |
![]() |
36 | 1367 | 42.71 | 144 | 3 / 7 |
عالمی کرکٹ سونامی اپیل | 1 | 22 | 22.00 | 22 | 0 / 0 |
Africa XI | 2 | 120 | 60.00 | 88 | 0 / 1 |
![]() |
1 | 89 | 89.00 | 89 | 0 / 1 |
![]() |
1 | 73 | – | 73* | 0 / 1 |
![]() |
11 | 588 | 73.50 | 111* | 3 / 2 |
![]() |
1 | 112 | – | 112* | 1 / 0 |
![]() |
1 | 8 | 8.00 | 8 | 0 / 0 |
![]() |
1 | 56 | 56.00 | 56 | 0 / 1 |
Overall figures | 311 | 11363 | 41.02 | 183 | 22 / 72 |
Opposition | Test | ODI |
---|---|---|
![]() |
3 | 4 |
![]() |
3 | 3 |
![]() |
2 | 3 |
![]() |
3 | 1 |
![]() |
2 | 2 |
![]() |
2 | 1 |
![]() |
– | 3 |
![]() |
1 | 1 |
![]() |
NA | 3 |
![]() |
NA | 1 |
Total | 16 | 22 |
Career summary as Captain in One Day Internationals | ||||||||||||
Venue | Span | Matches | Runs | HS | Bat Avg | 100 | Wkts | BBI | Bowl Avg | 5 | Ct | St |
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
Home | 2000–2005 | 36 | 1463 | 144 | 43.02 | 2 | 16 | 5/34 | 30.87 | 1 | 14 | 0[120] |
Away | 2000–2005 | 51 | 1545 | 135 | 32.18 | 2 | 15 | 3/22 | 39.26 | 0 | 23 | 0[120] |
Neutral | 2000–2005 | 60 | 2096 | 141 | 41.92 | 7 | 15 | 3/32 | 43.20 | 0 | 24 | 0[120] |
Total | 2000–2005 | 147 | 5104 | 144 | 38.66 | 11 | 46 | 5/34 | 37.63 | 1 | 61 | 0[120] |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.