افریقی ملک جو انگریزی میں کموروس کہلاتا ہے From Wikipedia, the free encyclopedia
اتحاد القمری (عربی: الاتحاد القمري یا جزر القمر، انگریزی: Comoros) نامی ملک جسے سرکاری طور پر یونین آف دی کوموروس کہا جاتا ہے، بحر ہند میں واقع ایک جزیرہ نما ملک ہے۔ یہ ملک افریقہ کے شمالی ساحل پر آبنائے موزمبیق کے شمالی سرے پر واقع ہے۔ یہ مقام شمالی مشرقی موزمبیق اور شمال مغربی مڈغاسکر کے درمیان ہے۔ اتحاد القمری کے ہمسائیہ ممالک میں تنزانیہ شمال مغرب جبکہ سیشلز شمال مشرق میں ہے۔ اس کا دار الحکومت مورونی ہے۔
اتحاد القمری | |
---|---|
پرچم | نشان |
شعار(عربی میں: وحدة، تضامن، تنمية) | |
ترانہ: | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 12°18′S 43°42′E [1] |
بلند مقام | جبل القرطلہ (2361 میٹر )[2] |
پست مقام | بحر ہند (0 میٹر ) |
رقبہ | 2034 مربع کلومیٹر |
دارالحکومت | مورونی |
سرکاری زبان | قمری زبان [3]، عربی [3]، فرانسیسی [3] |
آبادی | 902348 (1 جنوری 2022)[4] |
|
397126 (2019)[5] 404903 (2020)[5] 412703 (2021)[5] 420357 (2022)[5] سانچہ:مسافة |
|
393860 (2019)[5] 401263 (2020)[5] 408923 (2021)[5] 416416 (2022)[5] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | وفاقی جمہوریہ |
اعلی ترین منصب | عزالی عثمانی (2016–) |
سربراہ حکومت | عزالی عثمانی (26 مئی 2016–) |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 6 جولائی 1975 |
عمر کی حدبندیاں | |
شرح بے روزگاری | 6 فیصد (2014)[6] |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+03:00 |
ٹریفک سمت | دائیں [7] |
ڈومین نیم | km. |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ |
آیزو 3166-1 الفا-2 | KM |
بین الاقوامی فون کوڈ | +269 |
درستی - ترمیم |
اس ملک کا کل رقبہ 1٫862 مربع کلومیٹر ہے جو افریقہ کا تیسرا چھوٹا ملک ہے۔ اس کی کل آبادی اندازہً 7٫98٫000 ہے جو افریقہ میں چھٹے نمبر پر سب سے کم ہے۔ تاہم آبادی کی گنجانی کے لحاظ سے افریقہ کے گنجان آباد ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کا نام عربی کے لفظ قمر یعنی چاند سے نکلا ہے۔ یہ جزیرہ نما اپنی ثقافتی تنوع اور تاریخ کے حوالے سے مشہور ہے۔ یہاں تین سرکاری زبانیں ہیں جو فرانسیسی، عربی اور کمورین ہیں۔
سرکاری طور پر ملک میں چار بڑے اور کئی چھوٹے جزائر ہیں جو اتحاد القمری کے آتش فشانی جزیرہ نما کا حصہ ہیں۔
یونین آف کموروز یعنی اتحاد القمری افریقی یونین، فرانسیسی بولنے والے ممالک، اسلامی کانفرنس کی تنظیم، عرب لیگ اور بحرِ ہند کمیشن کا رکن ہے۔ 2008 کے اعداد و شمار کے مطابق نصف آبادی غربت کی شرح کے نیچے رہ رہی ہے۔
پہلی بار ان جزائر میں انسانی آبادی کا اندازہ افریقی اور آسٹرنیشن لوگوں کا لگایا گیا ہے جو کشتیوں کے ذریعے یہاں آن آباد ہوئے تھے۔ یہ لوگ چھٹی صدی عیسوی میں آئے تھے جو آثارِ قدیمہ سے ثابت ہے۔ سواحلی آباد کار بنٹو قبائل کے پھیلاؤ کے دور میں ادھر آتے رہے تھے۔
قبل از اسلام کی داستان کے مطابق ایک جن نے یہاں ایک موتی گرایا تھا جو ایک بہت بڑا آتشیں حلقہ بن گیا تھا۔ بعد میں یہ آتشیں حلقہ آتش فشاں بنا۔ یہاں کے قدیم آباد کار مظاہرِ فطرت کی پرستش کرتے تھے جن میں چاند نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ ان کے عقائد کے مطابق چاند سمندری موجوں کا ملک تھا۔ انہی عقائد نے ان جزائر کو اکھٹا کیا تھا۔
اتحاد القمری کی ترقی کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سواحلی اثرات اور ڈم بینی مرحلہ اہم ہیں۔ ان ادوار میں ہر جزیرے میں ایک مرکزی گاؤں تھا۔ 11ویں سے 15ویں صدی کے دوران مڈغاسکر کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے اور مشرقِ وسطٰی کے تاجر یہاں آتے تھے۔ مختلف چھوٹے دیہات بسنے لگے اور پہلے سے موجود شہروں نے ترقی کی۔
933 عیسوی میں المسعودی عمانی ملاحوں کا تذکرہ کرتا ہے جو ان جزائر کو خوشبو کے جزائر کہتے تھے۔
1154 میں عرب جغرافیہ دان الادریسی نے پہلی بار نقشے پر جزائر القمر کو ظاہر کیا اور اس بات کا بھی ذکر کیا کہ کیسے ان جازئر کے افراد سونے اور ہاتھی دانت کے بدلے مشرقی افریقہ کو دھاتی اوزار بیچتے تھے۔ 15ویں صدی عیسوی میں عرب جہاز راں احمد ابنِ ماجد نے ان جزائر کے الگ الگ راستوں کا نقشہ بنایا۔
روایات کے مطابق 632 عیسوی میں اسلام کا سن کر اہلِ جزائر نے ایک جہاز راں کو مکہ بھیجا۔ تاہم اس کے مکہ پہنچنے تک حضرت محمد ﷺ کا انتقال ہو چکا تھا۔ کچھ عرصہ مکہ میں رکنے کے بعد وہ واپس لوٹا اور لوگوں کو بتدریج مسلمان کرنے لگا۔
اگرچہ یہ عرب ہی تھے جو یہاں پہلے پہل عرب اور اسلامی ثقافت کو لے کر آئے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ عربوں ہی نے یہاں سے افریقی غلاموں کی تجارت شروع کی اور عرب ثقافت کو پھیلایا۔ جوں جوں ان کا مذہب پھیلتا گیا، چھوٹی اور بڑی مساجد بننے لگیں۔ دیگر علاقوں کی طرح اتحاد القمری بھی ابتدائی اسلامی تجارت کا اہم راستہ تھا۔ ساحل سے دوری کے باوجود یہ جزائر مشرقی افریقہ کے ساحل پر موجود ہیں۔ اس زمانے میں یہ اہم تجارتی مرکز اور بحری راستہ تھا۔
عرب آباد کاری اس علاقے میں اس وقت بڑھنے لگی جب زنجبار پر عمانی قبضہ ہو گیا۔ قمری ثقافت بالخصوص طرزِ تعمیر اور مذہب بھی عربوں کے زیرِ اثر آ گیا۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے دوران یہاں کئی سلطانوں نے اپنے تسلط جمائے۔
جب یورپیوں نے ان جزائر میں توجہ لینی شروع کی تو مقامی باشندوں کو ان کی اپنی مقامی ثقافت پر عربوں کے غلبے کا احساس ہوا۔
پرتگالیوں نے اس جزیرہ نما کا سفر پہلی بار 1505 میں کیا۔
1506 میں پرتگالی یہاں جزیرے پر اترے اور مقامی باجوں یعنی بنٹو قبائل کے مسلمان سرداروں اور فنیوں یعنی چھوٹے سرداروں کے لیے مسائل پیدا کرنے شروع کر دیے۔ آئندہ برسوں میں پرتگالیوں نے یہاں قبضہ کرنا شروع کر دیا اور 1514 تک پرتگالی یہاں پوری طرح قابض ہو چکے تھے۔ مسلمانوں کا سردار ایک پرانے آتش فشاں کے سوراخ میں گھس کر بمشکل اپنی جان بچا سکا۔ اس طرح پرتگالی اسے تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ 1648 میں یہاں مالاگاسی قذاقوں نے حملہ کیا اور اکونی پر قبضہ کر لیا۔
1793 میں مڈغاسکر کے مالاگاسی حملہ آوروں نے غلاموں کی تلاش میں ان جزائر پر حملے شروع کر دیے۔ تاہم بعد ازاں وہ یہاں رُک کر رہنا شروع ہو گئے۔ فرانس نے 1841 میں یہاں اپنی پہلی نوآبادی قائم کی۔
1886 میں موہیلی کو فرانس کی ذمہ داری بنا دیا گیا۔ اسی سال اتحاد القمری کے سلطان سعید علی نے اپنے جزیرے کو فرانس کی پناہ میں دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ تاہم 1909 تک سلطان اس جزیرے پر حکمرانے کرتے رہے۔ 1909 میں انجوان کے سلطان سعید محمد نے اس علاقے کو فرانس کے حوالے کر دیا۔ 1912 میں اسے باقاعدہ فرانس کی نوآبادی بنا دیا گیا۔
ہندوستان اور مشرقِ بعید کی طرف جانے والے تاجروں کے لیے اتحاد القمری پڑاؤ کا کام دیتا تھا۔ تاہم نہرِ سوئیز کے کھلنے کے بعد یہاں سے تجارتی آمد و رفت بہت کم ہو گئی۔ اتحاد القمری کی اپنی پیداوار میں ناریل، مویشی اور کچھوؤں کے خول شامل تھے۔ فرانسیسی آبادکاروں، فرانسیسی ملکیت والی کمپنیوں اور امیر عربوں نے یہاں کاشتکاری پر توجہ دی اور اب یہاں کی زمین کا ایک تہائی حصہ برآمدی فصلوں سے متعلق ہے۔
فرانس کا حصہ بننے کے بعد یہاں گنا وغیرہ کاشت ہونے لگا۔ دیگر جزیروں پر بھی کاشتکاری شروع ہو گئی اور اہم فصلوں میں یلانگ یلانگ، ونیلا، کافی، کوکا بین اور سیسل متعارف کرائے گئے۔
1973 میں فرانس سے ہونے والے معاہدے کے تحت اتحاد القمری کو 1978 میں آزادی مل جانی تھی۔ چاروں جزیروں پر رائے شماری کرائی گئی۔ تین جزیروں سے آزادی کے حق میں بہت بڑی اکثریت نے ووٹ ڈالا جبکہ چوتھے جزیرے نے فرانس کے ماتحت رہنے کو ترجیح دی۔ تاہم 6 جولائی 1975 کو اتحاد القمری کی پارلیمان نے فرانس سے آزادی کے حق میں قرارداد منظور کی۔ احمد عبد للہ نے آزادی کا باقاعدہ اعلان کیا اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
اگلے 30 سال کا عرصہ سیاسی طور پر طوائف الملوکی کا شکار رہا۔ 3 اگست 1975 کو فرانسیسی حکومت کی حمایت سے باب ڈینارڈ نے صدر احمد عبد للہ کو فوجی بغاوت کے ذریعے عہدے سے ہٹا دیا۔ ان کی جگہ یونائیٹڈ نیشنل فرنٹ آف کمروز کے رکن شہزادہ سعید محمد جعفر کو صدر بنایا گیا۔ 1976 میں چند ماہ بعد انھیں ہٹا کر وزیر دفاع کو صدر بنا دیا گیا۔
13 مئی 1978 کو باب ڈینارڈ نے ایک بار پھر فوجی بغاوت سے صدر کو ہٹا کر عبد للہ کو دوبارہ صدر بنا دیا۔ سابقہ صدر کے دور میں کم از کم سات مرتبہ بغاوتیں کی گئیں اور بالاخر انھیں عہدے سے معزول کر کے قتل کر دیا گیا۔
صدر عبد للہ کا جھکاؤ واضح طور پر اسلام کی طرف تھا اور انھوں نے ملک کا نام بدل کر وفاقی اسلامی جمہوریہ اتحاد القمری رکھ دیا۔ صدر عبد للہ 1989 تک صدر رہے اور اس وقت فوجی بغاوت کے خطرے کے پیشِ نظر انھوں نے صدارتی حکم نامے پر دستخط کیے جس کے تحت فوج کو غیر مسلح کیا جانا تھا۔ اس معاہدے کے فوراً بعد ایک مایوس فوجی افسر نے گولی چلا کر صدر کو ہلاک کر دیا۔ بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ بکتر شکن میزائل ان کی خوابگاہ میں مارا گیا جس سے صدر کی ہلاکت ہوئی۔ باب ڈینارڈ صدارتی محافظ دستے کا سربراہ تھا اور اس حملے میں زخمی ہوا۔ تاہم یہ مانا جاتا ہے کہ صدر کی ہلاکت میں اس کا عمل دخل تھا۔
کچھ دن بعد فرانسیسی چھاتہ برداروں نے باب ڈینارڈ کو اتحاد القمری سے نکال کر جنوبی افریقا بھیج دیا۔ سعید محمد جوہر کو صدر بنا دیا گیا جو ستمبر 1995 تک صدر رہے۔ باب ڈینارڈ واپس لوٹا اور اس نے پھر بغاوت کی کوشش کی۔ تاہم اس بار فرانسیسی حکومت نے اس کی حمایت کی بجائے اس کی مخالفت میں چھاتہ بردار فوجی بھیجے اور ڈینارڈ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا۔
اپریل 1997 میں ہونے والی ایک اور فوجی بغاوت کے نتیجے میں عبوری صدر کو ہٹا کر فوجی جنرل نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1975 میں آزاد ہونے کے بعد سے اب تک کمروز میں یہ 18ویں فوجی بغاوت تھی۔
یہ فوجی جنرل جن کا نام عزالی تھا، 2002 میں اقتدار سے الگ ہوئے اور نئے صدر کا انتخاب عمل میں آیا۔ اس بار صدارتی انتخاب اسی فوجی جنرل عزالی نے جیتا۔ تاہم یہ صدر جمہوری کی بجائے آمرانہ مزاج رکھتے تھے۔
2006 کے انتخابات میں سنی مسلمان احمد عبد اللہ محمد صمبی کو نیا صدر چن لیا گیا۔ یہ صدر ساری زندگی ایران میں اسلام کی تعلیم حاصل کرتے رہے اور انھیں آیت اللہ کہا جاتا تھا۔ عزالی نے انتخابات کے نتائج کو خوش دلی سے قبول کیا اور اس جزیرہ نما میں پہلی بار پرامن انتقالِ اقتدار ہوا۔
فرانس سے آزادی کے بعد سے اب تک اتحاد القمری میں 20 سے زیادہ فوجی بغاوتیں ہو چکی ہیں۔
اتحاد القمری کل چار بڑے اور بے شمار چھوٹے جزائر پر مشتمل ہے۔ ملک کے اندر ان جزائر کو ان کے مقامی ناموں سے جبکہ بین الاقوامی طور پر ان کے فرانسیسی ناموں سے انھیں پکارا جاتا ہے۔ اتحاد القمری کا سب سے بڑا شہر مورونی ہے۔ یہ ملک بحرِ ہند میں آبنائے موزمبیق پر افریقی ساحل اور مڈغاسکر کے درمیان موجود ہے۔
2٫235 مربع کلومیٹر کے کل رقبے کے ساتھ اسے دنیا کے مختصر ترین ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اتحاد القمری 320 مربع کلومیٹر جتنے سمندر پر اپنے حقوق رکھتا ہے۔ جزائر کی سطح نشیبی میدانوں سے لے کر کم بلند پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ یہاں کا موسم استوائی اور معتدل نوعیت کا ہے۔ سال میں دو موسم تر اور خشک ہوتے ہیں۔ مارچ سب سے گرم مہینہ ہے جس میں اوسط درجہ حرارت 29 سے 30 ڈگری تک رہتا ہے۔ اوسط کم درجہ حرارت 19 ڈگری رہتا ہے۔ ان جزائر میں شاذ و نادر ہی سائیکلون آتے ہیں۔
اتحاد القمری کے یہ جزائر آتش فشانی عمل سے پیدا ہوئے ہیں۔
وفاقی صدارتی جمہوریہ ہونے کے اصولوں کے مطابق اتحاد القمری کا کام چلتا ہے۔ اتحاد القمری کے صدر کو حکومت اور ملک کے سربراہ کی حیثیت ملی ہوتی ہے۔ ملک میں کثیر الجماعتی نظام ہے۔
حکومت کے پاس انتظامی اختیارات ہوتے ہیں۔ وفاقی قانون سازی کا حق حکومت اور پارلیمان دونوں کو ملا ہوا ہے۔ آئین کے مطابق حکومت میں اسلامی اثر غالب ہے۔ انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور جمہوریت وغیرہ پر زور دیا گیا ہے۔ اس اتحاد کے اندر ہر جزیرے کو خاصی حد تک خود مختاری ملی ہوتی ہے۔ ان کے اپنے آئین، صدور اور پارلیمان ہیں۔ ملک کے صدر کا عہدہ باری باری تمام جزائر کے پاس رہتا ہے۔
اتحاد القمری کا قانونی نظام اسلامی، فرانسیسی اور ریاست کے اپنے بنائے گئے قوانین پر مبنی ہے۔ گاؤں کے بڑے یا سرپنج زیادہ تر جھگڑوں کو خود ہی حل کر لیتے ہیں۔ عدلیہ مقننہ اور انتظامیہ سے آزاد رہ کر کام کرتی ہے۔ سپریم کورٹ آئینی کونسل کا کام بھی کرتی ہے۔ حکومتی کوتاہیوں کی صورت میں سپریم کورٹ اس کی تحقیق کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے دو اراکین کو ملک کا صدر، دو اراکین کو وفاقی اسمبلی جبکہ ایک ایک رکن ہر جزیرے کی کونسل چنتی ہے۔
2008 میں فریڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق عرب دنیا میں اتحاد القمری اور ماریطانیہ ہی حقیقی جمہوریتیں ہیں۔
اتحاد القمری کی فوجی طاقت ایک چھوٹی فوج، 500 اراکینِ پولیس اور دفاعی فوج کے 500 اراکین پر مشتمل ہے۔ فرانس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت فرانس اتحاد القمری کی بحری اور فضائی حوالے سے حفاظت اور فوجوں کی تربیت کا کام کرتا ہے۔
نومبر 1975 میں اتحاد القمری اقوامِ متحدہ کا 143واں رکن بنا۔
اتحاد القمری افریقی یونین، عرب لیگ، یورپی ترقیاتی فنڈ، عالمی بینک، عالمی مالیاتی ادارہ، بحرِ ہند کے کمیشن اور افریقی ترقیاتی بینک کا بھی رکن ہے۔ 10 اپریل 2008 کو اتحاد القمری ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ہونے والے کیوٹو پروٹول کا 179واں رکن بنا ہے۔
اتحاد القمری دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ ہر حکومت کی ترجیحات میں معاشی ترقی اور غربت میں کمی سرِ فہرست ہوتی ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 14.3 فیصد ہے۔ زراعت بشمول ماہی گیری، شکار اور جنگلات وغیرہ سب سے اہم معاشی شعبہ ہے۔ کم ہوتی ہوئی جی ڈی پی، سرمایہ کاری میں کمی، بڑھتی ہوئی افراطِ زر کی شرح اور تجارتی خسارے جیسے مسائل سے اتحاد القمری کی معیشت اس وقت دوچار ہے۔
اتحاد القمری میں نقل و حمل کا کوئی خاص نظام نہیں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ کم تعلیم کی وجہ سے نوکریوں کے حصول میں مشکل ہوتی ہے اور دوسرے ملکوں پر انحصار بڑھتا جاتا ہے۔ زراعت معیشت کا 40 فیصد پیدا کرتی ہے اور اس میں 80 فیصد افراد کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر برآمدات اسی شعبے سے ہوتی ہیں۔ کمروز دنیا بھر میں سب سے زیادہ یلانگ یلانگ پیدا کرتا ہے۔ ونیلا اہم برآمدات میں شمار ہوتی ہے۔
دس لاکھ سے بھی کم آبادی رکھنے کی وجہ سے اتحاد القمری کو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھوٹے ملکوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم آبادی کی گنجانیت بہت زیادہ ہے جو 275 افراد فی مربع کلومیٹر ہے۔
اتحاد القمری میں زیادہ تر افریقی عربی النسل افراد رہتے ہیں۔ سنی اسلام اہم مذہب ہے جو کل آبادی کے 98 فیصد سے زیادہ افراد مانتے ہیں۔
کمورن عام زبان ہے اور اس کے چار مختلف لہجے ملتے ہیں۔ فرانسیسی اور عربی بھی سرکاری زبانیں ہیں اور انھیں عام بولا جاتا ہے۔ قرآنی تعلیم عربی زبان میں جبکہ دیگر تمام تعلیم فرانسیسی میں دی جاتی ہے۔
ایک لاکھ افراد کے لیے 15 ڈاکٹر موجود ہیں۔ پیدائش کے وقت مردوں کی عمر کی حد 62 سال جبکہ خواتین کی عمر کی حد 67 سال ہے۔
تقریباً سارے ہی خواندہ افراد قرآنی اسکولوں سے پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ بچوں اور بچیوں کو قرآن حفظ بھی کرایا جاتا ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.