Remove ads
بھارت کا آئین و دستور From Wikipedia, the free encyclopedia
آئین ہند (ہندی: भारत का संविधान زبان) جمہوریہ بھارت کا دستور اعلیٰ ہے۔[3] اس ضخیم قانونی دستاویز میں جمہوریت کے بنیادی سیاسی نکات اور حکومتی اداروں کے ڈھانچہ، طریقہ کار، اختیارات اور ذمہ داریوں نیز بھارتی شہریوں کے بنیادی حقوق، رہنما اصول اور ان کی ذمہ داریوں کو بیان کیا گیا ہے۔ آئین ہند دنیا کا سب سے اچھا تحریری دستور ہے[4][5][6] اور آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کے صدر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر کو عموماً اس کا معمار اعظم کہا جاتا ہے۔[7]
آئین ہند | |
---|---|
آئین ہند کی تمہید کا متن | |
اصل عنوان | भारतीय संविधान (سنسکرت: Bhāratīya Saṃvidhāna)[ا] |
جغرافیائی علاقہ | بھارت |
منظوری آئین | 26 نومبر 1949 |
تاریخ نفاز | 26 جنوری 1950 |
حکومت | آئینی پارلیمانی سماج وادی غیر مذہبی جمہوریہ |
شعبہ جات | تین (عاملہ، مقننہ اور عدلیہ) |
چیمبر | بھارتی پارلیمان (راجیہ سبھا اور لوک سبھا) |
عاملہ | وزیر اعظم بھارت-led cabinet responsible to the لوک سبھا، بھارتی پارلیمان |
عدلیہ | بھارتی عدالت عظمیٰ، بھارتی عدالت ہائے عالیہ کی فہرست اور ضلعی عدالتیں |
حکومتی تقسیم | Unitary (Quasi-federal) |
منتخب کنندگان | ہاں، براے صدارتی و نائب صدارتی انتخابات |
انٹرینچمنٹ | 2 |
ترامیم | 103 |
آخری ترمیم | 12 جنوری 2019 (103rd) |
مقام | سنسد بھون، نئی دہلی، بھارت |
مصنف | Dr بھیم راؤ رام جی امبیڈکر Chairman of Drafting Committee سر Benegal Narsing Rau |
دستخط | مجلس آئین ساز کے 284 اراکین |
سابقہ | Government of India Act 1935 قانون آزادی ہند 1947ء |
آئین ہند کے مطابق بھارت میں دستور کو پارلیمان پر فوقیت حاصل ہے کیونکہ اسے مجلس دستور سازو نے بنایا تھا نہ کہ بھارتی پارلیمان نے۔ آئین ہند کی تمہید کے مطابق بھارتی عوام نے اسے وضع اور تسلیم کیا ہے۔[8] پارلیمان آئین کو معطل نہیں کر سکتی ہے۔
آئین ہند کو مجلس دستور ساز نے 26 نومبر 1949ء کو تسلیم کیا تھا اور 26 جنوری 1950ء کو نافذ کیا تھا۔[9] آئین ہند گورنمٹ آف انڈیا ایکٹ، 1935ء کو بدل کر ملک کا بنیادی سرکاری دستاویز بنا اور بھارت ڈومینین جمہوریہ ہند بن گیا۔ آئینی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین ہند کے معماروں نے برطانوی پارلیمان کی دفعات کو آئین ہند کی دفعہ 395 میں کالعدم قرار دے دیا۔[10] آئین ہند کے نفاذ کو بھارت بطور یوم جمہوریہ بھارت کو مناتا ہے۔[11]
آئین ہند بھارت کو آزاد، سماجی، سیکیولر [12][13] اور جمہوری ملک بناتا ہے جہاں عوام کے لیے انصاف، مساوات اور حقوق کو یقینی بناتا ہے اور سب مذہبی برادری کو فروغ دینے پر ابھارتا ہے۔[14]
برصغیر 1857ء سے 1947ء تک برطانوی راج کے زیر نگیں تھا۔ آئین ہند نے 26 جنوری 1947ء کو نافذ ہونے کے بعد قانون آزادی ہند ایکٹ، 1947ء کو کالعدم قرار دے دیا۔ آئین کے نفاذ کے ساتھ ہی بھارت اب تاج برطانیہ کا ڈومینین نہیں رہا اور ایک آزاد جمہوری ملک کہلایا۔ دفعات 5، 6، 7، 8، 9، 60، 324، 366، 367، 379، 380، 388، 391، 392، 393 اور 394 26 نومبر 1949ء کو ہی نافذ ہو گئی تھیں جبکہ مکمل دستور 26 جنوری 1950ء کو نافذ ہوا۔[15]
آئین ہند کے کئی ماخذ ہیں۔بھارت کی حالات اور ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے آئین کے معماروں نے سابق دستوروں اور ایکٹوں سے بہت کچھ مدد لی ہے جیسے حکومت ہندوستان ایکٹ 1858، قانون مجالس ہند، 1861ء، قانون مجالس ہند، 1892ء، منٹو مارلے اصلاحات 1909ء، حکومت ہند ایکٹ 1919ء، حکومت ہند ایکٹ،1935ء اور قانون آزادی ہند 1947ء۔ قانون آزادی ہند نے سابق مجلس دستور ساز کو دو حصوں میں منقسم کر دیا۔ ان میں سے ہر ایک کے الگ الگ ملکوں کے لیے دستور سازی کے آزاد اختیارات تھے۔[16]
آئین ہند کا مسودہ مجلس دستور ساز نے تیار کیا۔مجلس دستور ساز کے ارکان کو صوبائی اسبملیوں کے منتخب ارکان نے منتخب کیا۔[17] اولا مجلس کے ارکان کی تعداد 389 تھی لیکن تقسیم ہند کے بعد ان کی تعداد 299 کردی گئی۔آئین کو بننے میں کل تین سال لگے اور اس دوران میں 165 ایام پر محیط 11 اجلاس منعقد کیے گئے۔[4][16]
مجلس دستور ساز کے اہم ارکان میں بھیم راو امبیڈکر، سنجے فاکے، جواہر لعل نہرو، چکرورتی راجگوپال آچاریہ، راجندر پرساد، ولبھ بھائی پٹیل، کنہیا لال مانیک لال منشی، گنیش واسودیو ماوالانکار، سندیپ کمار پٹیل، ابو الکلام آزاد، شیاما پرساد مکھرجی، نینی رنجن گھوش اور بلونت رائے مہتا تھے۔[4][16] مجلس دستور ساز کے ارکان میں کل 30 نمائندے درج فہرست طبقات و درج فہرست قبائل کے تھے۔ اینگلو انڈین کی نمائندگی فرینک انتھونی کر رہے تھے۔[4] پارسی کی نمائندگی پی ایچ مودی کر رہے تھے،[4] کرچین اسمبلی کے نائب صدر ہریندر کمار مکرجی غیر اینگلو انڈین عیسائیوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ گورکھا قبیلے کی نمائندگی اری بہادر گورنگ کر رہے تھے۔ ججوں میں اللادی کرشن سوامی ایر، بینیگال نرسنگ راو، کے ایم منشی اور گنیش ماولنکر بھی اسمبلی کے رکن تھے۔[4] خواتین میں سروجنی نائیڈو، ہرشا مہتا، درگا بائی دیش مکھ، امرت کور اور وجیا لکشمی پنڈت اسبمبلی کی رکن تھیں۔[4] مجلس کے پہلے صدر سچندا نند صرف دو دن کے لیے منتخب ہوئے تھے۔ بعد میں راجندر پرساد صدر مقرر ہوئے۔ مجلس کا پہلا اجلاس 9 دسمبر 1946ء کو منعقد ہوا۔[4][17][18]
ایک سول ملازم ، بین الاقوامی عدالت انصاف کے پہلے بھارتی جج اور اقوام متحدہ سلامتی کونسل کے صدر بینیگال نرسنگ راو 1946ء میں مجلس کے قانونی مشیر منتضب کیے گئے۔[19] انھوں نے فروری 1948ء میں ابتدائی مسودہ تیار کیا۔ وہی آئین ہند کے بنیادی دھانچے کے بانی کہلائے۔[19][20][21]
14 اگست 1947ء کو ایک اجلاس رکھا گیا۔[17] راو کے مسودہ کو زیر غور لایا گیا، اس پر بحث کی گئی اور آٹھ رکنی ٹیم نے اس میں ترمیم کی۔ 29 اگست 1947ء کو بنی اس ٹیم کے صدر بھیم راو امبیڈکر تھے۔[4][18] 4 نومبر 1947ء کو کمیٹی نے مجلس کو نظر ثانی شدہ مسودہ پیش کیا۔[18] مودہ پر غور کرتے ہوئے مجلس نے اس میں ہوئی 7,635 ترامیم میں سے 2,473 ترامیم کر رد کر دیا۔[16][22] آئین کو نافذ کرنے سے قبل 165 دنوں کی مدت میں مجلس نے 11 اجلاس منعقد کیے۔[4][16] 26 نومبر 1949ء کو آئین کو تسلیم کر لیا گیا،[4][16][18][21][23] اور 284 ارکان نے دستخط کیے۔،[4][16][18][21][23] اسی دن کو قومی یوم قانون کے طور پر منایا جاتا ہے۔[4][24] اسے یوم آئین ہند بھی کہا جاتا ہے۔[4][25] اس دن کو آئین کی اہمیت اور امبیڈکر کے خیالات کی تشہیر کے لیے بھی منایا جاتا ہے۔[26]
مجلس کا حتمی اجلاس 24 جنوری 1950ء کو منعقد ہوا۔ تمام ارکان سے آئین کے دونوں نسخوں (ایک ہندی، ایک انگریزی) پر دستخط کیے۔[4][16][21] اصلی نسخہ ہاتھ سے لکھا ہوا ہے جس کا ہر صفحہ شانتی نکیتن کے کلاکاروں کے نقش و نگار سے مزین ہے۔ ان میں بیو ہر رام منوہر سنہا اور نند لال بوس شامل ہیں۔[18][21] اس میں] پریم بہاری نارائن رائیزادہ نے اپنے فن خطاطی کا مظاہرہ کیا۔[18] اس کی طباعت دہرہ دون میں ہوئی اور سروے آف انڈیا نے فوٹو لتھروگرافی کی۔ اصلی نسخہ کے پروڈکشن میں پانچ برس لگ گئے۔ دو دن کے بعد 26 جنوری 1950ء کو یہ نسخہ بھارت کا قانون بن گیا۔[18][27] مجلس دستور ساز کا خرچ تقریباً ₹6.3 کروڑ ( 63 ملین) بتایا گیا ہے۔[16] نفاذ کے بعد دستور مین کئی دفعہ ترمیم کی جا چکی ہے۔[28] آئین کا اصلی نسخہ سنسد بھون نئی دہلی میں ہیلیم سے بھرے ڈبے میں محفوظ رکھا گیا ہے۔[18]
بھارت کا آئین کسی بھی آزاد ملک کا سب سے بڑا دستور ہے۔[4][5][6] نفاذ کے وقت اس میں 22 ابواب، 8 درج فہرستیں اور 395 دفعات تھیں۔[16] کل 145000 الفاظ کے ساتھ دنیا کا دوسرا بڑا تحریری دستور تھا۔ سب سے بڑا تحریری دستور آئین البانیا تھا۔[29][30] آئین ہند میں تمہید اور 448 دفعات ہیں۔[18] تمام دفعات 25 حصوں میں منقسم ہیں۔[18] کل 12 درج فہرستیں ہیں [18] اور 5 زائدے ہیں۔[18][31] اب تک کل 103 ترامیم کی جا چکی ہیں۔ حالیہ ترمیم 14 جنوری 2019ء کو ہوئی تھی۔[32]
آئین کی دفعات کو درج ذیل 25 حصوں میں منقسم کیا گیا ہے:
فہرست بند میں وہ امور بین کیے گئے ہیں جو افسر شاہی سرگرمی اور حکومتی پالیسیوں سے متعلق ہیں۔
بھارت کی عاملہ، مقننہ اور عدلیہ اپنا اختیار آئین سے حاصل کرتی ہیں اور آئین کے ہی پابند ہیں۔[46] حکومت بھارت کا پارلیمانی نظام آئین کی مدد سے چلتا ہے جہاں عاملہ براہ راست مقننہ کو جواب دہ ہے۔صدر بھارت آئین کی دفعہ 52 اور 53 کے تحت عاملہ کا سربراہ ہے۔ دفعہ 60 صدر کو آئین کی حفاظت کرنے، دیکھ بھال کرنے اور دفاع کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ دفعہ 74 وزیر اعظم بھارت کو کابینہ بھارت کا سربراہ نامزد کرتی ہے اور وہی صدر کو اس کے آئینی فرائض کی انجام دہی میں مشورہ دیتا ہے۔ دفعہ 75(3) کے تحت کابینہ لوک سبھا کو جواب دہ ہے۔
آئین ہند فطری طور پر فیڈرل ہے اور روحانی طور پر وحدانی ریاست ہے۔ یہ تحریری آئین فیڈریشن، دستور عظمی، سہ درجے والا حکومتی ڈھانچہ (مرکز، ریاست اور علاقائی)، اختیارات کی تقسیم، دو ایوانیت، آزاد عدلیہ اور وحدانی خصوصیات جیسے ایک دستور، ایک شہریت، منظم عدلیہ، قابل ترمیم دستور، مضبوط مرکزہ حکومت، مرکزی حکومت کے زیر نگرانی ریاستی گورنر کی نامزدگی، آل انڈیا سول سروسز جیسی خصوصیات کا حامل ہے۔ ان تمام خصوصیات کا یہ مجموعہ بھارت کو نیم فیڈرل حکومت بنایا ہے۔[47]
آئین ریاست اور یونین علاقہ کو حکومت بنانے کا جواز فراہم کرتا ہے۔ آئین صرف مرکزی حکومت صدر اور وزیر اعظم کو عہدہ دیتا ہے، باقی ریاسوں اور یونین علاقہ میں سے ہر ایک کو گورنر، لیفٹنینٹ گورنر اور وزیر اعلیٰ کا عہدہ فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی ریاست میں ہنگامی حالات پیدا ہوجائیں اور ریاستی حکومت آئین کے مطابق حکومت کرنے میں ناکام رہے تو آئین کی دفعہ 356 صدر کو ریاستی حکومت کو برخواست کرنے اور براہ راست وہاں کی حکومت اپنی ذمہ لینے کا اختیار دیتی ہے۔ اس اختیار کو صدر راج کہا جاتا ہے۔حالانکہ ماضی میں صدر کا غلط استعمال بھی ہوا ہے جب بہت ہی معمولی وجہ کی بنیاد پر ریاست کی حکومت کو برخواست کر دیا گیا تھا۔ پھر ایس آر بومائی برخلاف یونین آف انڈیا معاملہ کے بعد دعالت نے صدر راج کو تھوڑا مشکل بنا دیا ہے کیونکہ ریاست کو جائزہ کا حق دے دیا ہے۔[48][49][50] آئین کی 73ویں اور 74ویں ترمیم سے دیہی علاقوں میں پنچایت راج او شہری علاقوں میں نگر پالیکا کا تعارف کرایا گیا۔[18] بھاتیی آئین کی دفعہ 370 جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیتی ہے۔
آئین کے کسی حصہ میں اضافہ کرنے، کچھ حذف کرنے یا تبدیلی کرنے کے لیے پارلیمان کو ترمیم کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔[51] دفعہ 368 میں ترمیم کی تفصیل درج ہے۔ترمیمی بل دونوں ایوانوں سے کل ارکان میں سے دو تہائی ارکان کی منظوری ضروری ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ دو تہائی ارکان ایوان میں حاضر ہوں۔ دستور کے فیڈرل طبیعت والی دفعات میں ترمیم کے لیے بھی صوبائی مققنہ کی اکثریت کا ووٹ ضروری ہے۔ دفعہ 245 اور (مالی بل) کے علاوہ کسی بھی بل کے لیے لوک سبھا اور راجیہ سبھا کا مشترک اجلاس ضروری نہیں ہے۔ جب پارلیمان کا کام کاج نہیں چل رہا ہو تب صدر کسی بھی بل کو دفعہ 123، باب 3، آئین میں ضروری ترامیم کے تحت اپنے مقننہ اختیار کو حاصل کر کے ممتاز نہیں کر سکتا ہے۔ صدر کو یہ اختیار 24ویں ترمیم میں دفعہ 368 الف میں دیا گیا ہے۔[51] جولائی 2018ء تک آئین میں 124 ترامیم پارلیمان میں پیش کی جا چکی ہیں جن میں 103 ترمیمی قانون بنے ہیں۔252 ترمیم کے اتنے سخت قوانین کے بعد بھی آئین ہند دنیا کے سب سے زیادہ ترمیم کیے جانے والے دستوروں میں سے ایک ہے۔[52] 2000ء میں جسٹس مانے پلی راو وینکٹا چلیا کمیشن بنائی گئی جس کا مقصد آئین کو اپڈیٹ کرنا تھا۔[53] حکومت ہند قانونی اصلاحات کے لیے مختصر مدتی قانونی کمیشن کو متعین کرتی رہتی ہے تاکہ حکومت قانون کے مطابق چلتی رہے۔
کیشو نند بھارتی بمقابلہ ریاست کیرلا معاملہ میں بھارتی عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سنایا کہ ترمیم کے ذریعے آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو نہیں بدلا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی کوئی بھی ترمیم کالعدم قرار دی جائے گی۔حالانکہ آئین کا کائی بھی حصہ ناقابل ترمیم نہیں ہے: بنیادی ڈکٹرائن آئین کے کسی بھی پروویزن کو محفوظ نہیں کرتا ہے۔ڈاکٹرائن کے مطابق آئین کی بنیادی خصوصیات کو ختم یا کمزور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آئین کی بنیادی خصوصیات کو پوری طرح سے متعارف نہیں کرایا جا سکا ہے۔[46] اور یہ بھی متعین نہیں ہے کہ آیا عدالت عظمی آئین کے بنیادی ڈھانچہ یا بنیادی خصوصیات میں کوئی فیصلہ کے سکتا ہے۔[54] کیشو نند اور ریاست کیرلا میں مندرجہ آئین ہند کی ذیل خصوصیات قرار پائیں:[55]
اس سے صاف واضح ہوتا ہے کہ پارلیمان اس کے بنیادی ڈھانچہ میں ترمیم نہیں کرسکتی ہے۔ ایسی کسی بھی ترمیم کو عدالت عظمی یا کوئی عدالت عالیہ کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ایسا صرف ان حکومتوں میں ممکن ہے جہاں پارلیمانی نظام حکومت ہو اور عدالت پارلیمان کے اختیارات میں محاسب کا کام کرتی ہے۔ کولگ ناتھ بمقابلہ ریاست پنجاب قضیہ میں عدالت عظمی نے کہا کہ ریاست پنجاب آئین کے بنیادی ڈھانچہ نے جو بنیادی حقوق متعین کردئے ہیں ریاست پنجاب ان سے کسی کو محروم نہیں کرسکتی ہے۔[56] اسی ضمن میں زمینی ملکیت اور اختیار پیشہ بنیادی حقوق قرار پائے۔[57] بعد میں 1971ء میں 24ویں ترمیم کر کے اس فیصلے کو بدل دیا گیا۔[57]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.