سلطنت عثمانیہ کا چوبیسواں سلطان جس نے 1730ء سے 1754ء تک حکومت کی۔ From Wikipedia, the free encyclopedia
سلطان محمود اول (پیدائش: 2 اگست 1696ء – وفات: 13 دسمبر 1754ء ) سلطنت عثمانیہ کے چوبیسویں حکمران تھے جنھوں نے 1730ء سے 1754ء تک حکمرانی کی۔
محمود اول | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 2 اگست 1696ء ادرنہ | ||||||
وفات | 13 دسمبر 1754ء (58 سال) قسطنطنیہ | ||||||
مدفن | استنبول | ||||||
شہریت | سلطنت عثمانیہ | ||||||
والد | مصطفی ثانی | ||||||
والدہ | صالحہ سلطان | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | عثمانی خاندان | ||||||
مناصب | |||||||
سلطان سلطنت عثمانیہ | |||||||
برسر عہدہ 20 ستمبر 1730 – 13 دسمبر 1754 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
پیشہ | حاکم | ||||||
درستی - ترمیم |
سلطان محمود اول کی پیدائش 2 اگست 1696ء کو ادرنہ محل میں ہوئی۔سلطان محمود کی والدہ صالحہ سلطان اور والد سلطان مصطفیٰ ثانی تھے۔
انکشاریہ کے ہنگاموں کے سبب جو افراتفری پھیلی، اُس کے بعد جب حالات سازگار ہوئے تو سلطان محمود اول نے فوجی معاملات کے لیے فرانس سے اپنے لیے ایک مشیر منگوایا جس کا نام کسندر کاؤنٹ ڈی بونفال تھا۔ سلطان نے اُس کی یہ ذمہ داری لگائی کہ وہ توپ خانہ کی ایک یونٹ کو نئے سرے سے تشکیل دے اور فوج کو فرانسیسی اور آسٹریا کے فوجی خطوط پر نئے سرے سے منظم کرے تاکہ عسکری ملازمت ایک دفعہ پھر حقیقی پیشہ بن جائے۔ اُس کے لیے بھاری تنخواہوں اور مالی اِمداد کی ضرورت تھی۔سلطان نے یہ بھی تجویز پیش کی کہ انکشاریہ کو چھوٹی چھوٹی یونٹوں میں تقسیم کر دیا جائے جن کی قیادت ایک جوان افسر کے ہاتھ میں ہو۔ لیکن انکشاریہ نے اِس پروگرام کے نفاذ سے اِختلاف کیا اور اِس پر انھوں نے عمل درآمد روک دیا جس کی وجہ سے بونفال کی ساری توجہ توپ خانہ پر مرکوز ہوکر رہ گئی۔ اُس نے توپ سازی کے کارخانوں، بارود، بندوقوں اور بارودی سرنگوں اور توپوں کے لیے چھکڑوں کی تیاری کی طرف خاص توجہ دی۔ ایک اسکول کھولا جس میں عسکری انجنئیرنگ کی تعلیم دی جاتی تھی لیکن انکشاریہ نے اِن تمام سکیموں کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرکے اِن کو ناقابل عمل بنا دیا۔ اِن تمام چیزوں کے علاوہ کاغذ سازی کے لیے بھی ایک فیکٹری لگائی گئی، لیکن بالآخر یہ تمام اصلاحات تباہ ہوکر رہ گئیں۔[1][2]
سلطنت عثمانیہ صفوی شیعوں سے جنگ کرنے کی طرف متوجہ ہوئی اور طہماسپ دؤمپر غلبہ حاصل کر لیا جس نے 1731ء میں صلح کا مطالبہ کیا اور یوں عثمانی تبریز، ہمدان اور لورستان سے دستبردار ہو گئے لیکن خراسان کے حاکم نادر شاہ نے اِس معاہدہ کو قبول نہ کیا۔ نادر شاہ اصفہان کی طرف چلا گیا اور شاہ طہماسپ دؤم کو تخت سے معزول کر دیا اور اُس کی جگہ شاہ عباس سوم کو حاکم مقرر کرکے اُس پر مجلس وصایہ قائم کی۔[3] اِس کے بعد عثمانیوں سے جنگ کی خاطر آگے بڑھا۔ فروری 1733ء سے جولائی 1733ء تک جنگ جاری رہی جس میں عثمانیوں کو شکست ہوئی۔ نادر شاہ نے آگے بڑھتے ہوئے بغداد کا محاصرہ کر لیا۔ عثمانی حکومت نے صلح کی درخواست کی۔ 1736ء میں تفلیس نامی شہر میں صلح کا معاہدہ ہوا جہاں نادر شاہ نے ایران پر اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کیا اور اِس بات پر اتفاق ہوا کہ جتنے علاقے عثمانیوں نے ایرانی شیعوں سے لیے ہیں‘ وہ انھیں واپس کردیے جائیں گے۔[4][5]
10 اکتوبر 1733ء کو روس اور آسٹریا نے پولینڈ کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا اور روس نے پولینڈ پر قبضہ کر لیا۔فرانس نے دولت عثمانیہ سے ایک معاہدہ کر لیا تاکہ پولینڈ کو آسٹریا اور روس یعنی ہردو ملکوں سے آزادی دلوائی جائے۔ آسٹریا نے فرانس کو ورغلایا، جس کے نتیجے میں 18 نومبر 1738ء کو ویانا کا معاہدہ عمل میں آیا۔ دوسری طرف اِن دونوں کے درمیان اِس بات پر اتفاق ہوا کہ دولت عثمانیہ کے ساتھ جنگ کی جائے۔ روس نے دولت عثمانیہ کے خلاف جنگ چھیڑدی۔ عثمانی فوجوں نے روس کو صوبہ بغدان کی طرف بڑھنے سے روک دیا۔ اِسی طرح بوسنیا، سرب اور افلاق کی طرف آسٹریا کو بڑھنے سے روک دیا اور سربوں اور آسٹریا پر فتح حاصل کرلی۔ نتیجتاً آسٹریا نے جنگ سے دستبرداری کا اعلان کردیااور فرانس کی وساطت سے صلح کا مطالبہ کر دیا۔ بالآخر 1739ء میں بلغراد میں صلح کے معاہدہ پر دستخط ہو گئے۔ آسڑیا بلغراد کے شہر اور سربیا و افلاق کے علاقوں سے دستبردار ہو گیا اور روس نے عہد کیا کہ وہ بحر اسود میں کوئی جہاز نہیں بھیجے گا۔ روس نے معاہدہ کے مطابق آزوف کی بندرگاہ پر جتنے بھی قلعے تعمیر کیے تھے‘ وہ گرا دیے۔[6][7]
سلطان محمود کی وفات 13 دسمبر 1754ء کو توپ قاپی محل میں ہوئی۔ بوقت وفات سلطان کی عمر 58 سال تھی۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.