ضلع کرم
From Wikipedia, the free encyclopedia
ضلع کرم (سابقہ نام کرم ایجنسی) خیبر پختونخوا میں ایک ضلع ہے۔ یہاں پر اکثریت اورکزئی، چمکنی، منگل،ح اجی ،خوجل خیل وزیر اور طورى قبائل آباد ہیں۔ ارض پاکستان کی جنت نظیر وادی اور اسٹرٹیجک و جغرافیائی اہمیت کا حامل انتہائی اہم علاقہ پاراچنار افغانستان کے تین صوبوں (ننگرہار، خوست اور پکتیا) کے علاوہ دیگر تین قبائلی علاقوں خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان کے ساتھ ساتھ ضلع ہنگو سے بھی متصل ہے۔ کئی دہائیوں سے یہ علاقہ اپنی جغرافیائی اہمیت و اسٹرٹیجک خدوخال کی وجہ سے بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان میں کشمکش کی وجہ سے میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ افغانستان کا مشہور پہاڑی علاقہ تورہ بورہ سپین غر [کوہ سفید] کے پہاڑی سلسلے کے اندر ایک طرف سے صوبہ ننگرہار اور دوسری طرف سے پاراچنار کے مضافاتی گاؤں زیڑان سے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ پاکستان کے کسی بھی علاقے بشمول تمام قبائلی علاقوں کے افغان دار الحکومت کابل سے نزدیک ترین اور کم ترین فاصلے پر واقع ہے۔ اور اس علاقے کی شکل ایک مثلت کی سی ہے، چنانچہ بین الاقوامی اسٹرٹیجک اصطلاحات میں کرم ایجنسی کے صدر مقام پاراچنار کو طوطے کی چونچ "Parrots Beak" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
(اردو کرم (پشتو: كرمه) | |
---|---|
ایجنسی | |
ضلع کرم | |
ملک | پاکستان |
تحصیل | فہرست ..
|
حکومت | |
• کمشنر | 1 |
رقبہ | |
• کل | 3,310 کلومیٹر2 (1,280 میل مربع) |
آبادی (1998) | |
• کل | 448,310 |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
اہم (زبانیں | پشتو، اردو اور انگریزی۔ |
پراچین زمانے سے گندھارا تہذیب اور تمدن جب اپنے عروج پر تھا تو یہ علاقہ گھنے جنگلات کا ایک حصہ تھا اور ایک دریا کرم کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا جس کا ذکر سنسکرت کی کتاب جو ہندوؤں کی مقدس کتاب ہے (رگ وید )میں بھی آیا ہے۔
550 قبل مسیح چندر گپت موریا خاندان نے جب ٹیکسلا کو اپنا دار الحکومت بنایا اور اپنے تہذیب اور تمدن کو ترقی دیں تو ان کی توجہ کا خاص مرکز پاکستان کے یہ علاقے آبادکاری کی جانب متوجہ ہوئے اپنے سحرانگیز آب و ہوا کی وجہ سے اس علاقے کے پہاڑوں میں مختلف قبائل آ کر آباد ہونا شروع ہوئے جس کا سہرا تاریخ کے لازوال ہیرو مہاراجا اشوک کے سر جاتا ہے۔جس کی آباد کردہ درجنووں چھوٹی بڑی آبادیاں اور دیہات جو آج صرف کھنڈر کی شکل میں موجود ہے جن میں قابل ذکر بین الاقوامی ورثاء یونیسکو اور نیشنل ہیرٹیچ سائیٹ جن میں قابل ذکر تخت بھائی کے کھنڈر سوا ت کے کھنڈر مینادم کے کھنڈر اور دیگر پتھروں پہ کندھا کی گئی بدھ مذہب کی تصاویر اس بات کی دلیل ہے کہ عیسی علیہ السلام سے قبل بھی پاکستان کا یہ خوبصورت علاقہ انسانی دسترس کا حصہ تھا