سید احمد خان
برطانوی ہند کے ماہر تعلیم، مصنف اور اصلاح پسند (1898-1817) / From Wikipedia, the free encyclopedia
احمد خان متقی بن محمد متقی (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) المعروف سر سید، سر سید احمد خان انیسویں صدی کے ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کے حامل [3]، مصلح [4][5] اور فلسفی تھے۔ ان کو برصغیر میں مسلم قوم پرستی کا سرخیل مانا جاتا ہے اور دو قومی نظریہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے، جو آگے چل کر تحریک پاکستان کی بنیاد بنا۔[6][7][8]
اس مضمون میں ویکیپیڈیا کے معیار کے مطابق صفائی کی ضرورت ہے، |
خان بہادر ،سر [1] | |
---|---|
سر سید احمد خان | |
سر سید احمد خان (1817–1898) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 17 اکتوبر 1817(1817-10-17) دہلی، مغلیہ سلطنت |
وفات | 27 مارچ 1898(1898-30-27) (عمر 80 سال) علی گڑھ، برطانوی راج |
مدفن | علی گڑھ |
رہائش | علی گڑھ |
قومیت | برطانوی ہند |
دیگر نام | سر سید |
عملی زندگی | |
مادر علمی | یونیورسٹی آف ایڈنبرا ایسٹ انڈیا کمپنی کالج |
استاذ | مملوک علی نانوتوی |
پیشہ | منصف ، فلسفی ، شہہ سوار ، وکیل ، سیاست دان ، الٰہیات دان |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [2]، انگریزی |
کارہائے نمایاں | The Mohammadan Commentary on the Holy Bible Reasons for the Indian Revolt of 1857 |
اعزازات | |
سٹار آف انڈیا | |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
1838ء میں اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت اختیار کی اور 1867ء وہ چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوئے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے دوران میں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا وفادار رہے اور یورپیوں کی جانیں بچانے میں اس کے کردار کی سلطنت برطانیہ کی طرف سے ستائش کی گئی۔[4] بغاوت ختم ہونے کے بعد انھوں نے اسباب بغاوت ہند پر ایک رسالہ لکھا جس میں ہندوستان کی رعایا کو اور خاص کر مسلمانوں کو بغاوت کے الزام سے بری کیا۔ اس رسالہ کا فائدہ سلطنت برطانیہ کو ہوا جس نے اس کی بنیاد پر ایسٹ انڈیا کمپنی سے برصغیر کا تمام قبضہ لے لیا اور ہندوستان کے تمام معاملات براہ راست اپنے قبضہ میں لے لیے۔ مسلمانوں کے راسخ الاعتقاد طرز کو ان کے مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے سرسید نے مغربی طرز کی سائنسی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جدید اسکولوں اور جرائد کا اجرا کیا اپنے کلامی مکتبِ فکر کی بنیاد ڈالی جو معتزلہ کے افکار کا چربہ تھا مگر اس کے کلامی نظریات مقبول نہ ہو سکے اس لیے صرف سائنسی علوم کی اشاعت تک محدود رہا۔
1859ء میں سر سید نے مرادآباد میں گلشن اسکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ اسکول اور 1864ء میں سائنسی سوسائٹی برائے مسلمانان قائم کی۔ 1875ء میں محمدن اینگلو اورینٹل کالج جو جنوبی ایشیا میں پہلی مسلم یونیورسٹی بنا۔[9] اپنے کردار کے دوران میں سر سید نے بار بار مسلمانوں کو سلطنت برطانیہ سے وفاداری پر زور دیا اور تمام ہندوستانی مسلمانوں کو اردو کو بطور زبانِ رابطۂ عامہ اپنانے کی کوشش کی۔۔ وہ اپنی برطانوی وفاداریوں کے سبب انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے گہری تنقید کا نشانہ بنا۔[10]
سر سید کو پاکستان اور بھارتی مسلمانوں میں ایک موثر شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اکثر دو قومی نظریہ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں اور تاریخی بددیانتی کرتے ہوئے دوقومی نظریے کو سترہویں صدی کے غیر اہم کردار حضرت مجدد الف ثانی کے سرمنڈھ دیتے ہیں۔ جس کا کوئی ٹھوس علمی ثبوت موجود نہیں ہے بلکہ اثر اور متاثر کی اتنی نسبت ہے جتنی کہ سکندراعظم اور نپولین میں موجود ہو سکتی ہے۔ سر سید کی اسلام کو سائنس اور جدیدیت کے ساتھ ہم آہنگ بنانے کے لیے عقلیت پسند (معتزلہ) روایت کی وکالت نے عالمی طور پر اسلامی اصلاح پسندی کو متاثر کیا اور ناقابل تلافی نقصان دیا۔[11] پاکستان میں کئی سرکاری عمارتوں اور جامعات اور تدریسی اداروں کے نام سر سید کے نام پر ہیں۔[12]