جونس سالک
From Wikipedia, the free encyclopedia
جونس ایڈورڈ سالک(جوناس ایڈورڈ سالک) (28 اکتوبر 1914 - 23 جون 1995 لا ہویا میں) (انگریزی: Jonas Edward Salk) ایک امریکی طبی محقق اور وائرالوجسٹ تھا۔ اس نے پولیو کے خلاف پہلی کامیاب ویکسین دریافت کر کے ٹیکہ بنایا۔ اس کی پیدائش نیویارک شہر میں یہودی والدین کے ہاں ہوئی۔ اگرچہ اس کے والدین کی رسمی تعلیم واجبی سی تھی لیکن انھوں نے اپنے بچوں کو کامیاب بنانے کی ہرممکن کوشش کی۔ نیویارک یونیورسٹی اسکول آف میڈیسن میں تعلیم کے دوران سالک اپنے ہم عصروں سے الگ روش پر چل نکلا کیونکہ اس نے اپنی تعلیم کو کمائی کا ذریعہ بنانے کی بجائے تحقیق کا شعبہ اپنایا۔
جونس سالک | |
---|---|
(انگریزی میں: Jonas Salk) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (انگریزی میں: Jonas Salk) |
پیدائش | 28 اکتوبر 1914ء [1][2][3][4][5][6][7] نیویارک شہر [8] |
وفات | 23 جون 1995ء (81 سال)[1][2][3][4][5][6][7] لاہویا |
وجہ وفات | عَجزِ قلب |
مدفن | لاس اینجلس |
رہائش | New York, New York پٹسبرگ, پنسلوانیا لاہویا, کیلی فورنیا |
شہریت | ریاستہائے متحدہ امریکا |
رکن | امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون ، فی بیٹا کاپا سوسائٹی |
عملی زندگی | |
مقام_تدریس | University of Pittsburgh Salk Institute یونیورسٹی آف مشی گن |
مادر علمی | مشی گن یونیورسٹی نیویارک سٹی کالج جامعہ نیور یارک |
ڈاکٹری مشیر | Thomas Francis, Jr. |
پیشہ | طبیب ، ماہر حیاتیات ، ماہر وبائیات ، موجد ، ماہر سمیات ، ماہر مناعیات |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [9] |
شعبۂ عمل | علم الوائرس ، وبائیات |
ملازمت | پٹزبرگ یونیورسٹی |
اعزازات | |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
1957 میں سالک کی ویکسین متعارف کرائے جانے سے قبل پولیو اس وقت کے ریاست ہائے متحدہ امریکا کی عوامی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ تھا۔ ہر سال پولیو کی وبائیں زیادہ سے زیادہ جان لیوا ہوتی جا رہی تھیں۔ امریکی تاریخ میں 1952 کی وباء سب سے تباہ کن ثابت ہوئی۔ اس سال تقریباً 58،000 مریضوں میں پولیو کا مرض پایا گیا جن میں سے 3145 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 21،269 افراد مختلف نوعیت کی معذوریوں کا شکار ہوئے، جن کی اکثریت بچوں کی تھی۔ عوام میں اس کی دہشت ایسی پھیلی جیسے یہ طاعون کا مرض ہو۔ 2009 کی ایک ڈاکومنٹری (دستاویزی فلم) کے مطابق امریکیوں کا سب سے بڑا خوف ایٹم بم جبکہ پولیو دوسرے نمبر پر تھا۔ نتیجتاً سائنس دان اس سے بچاؤ یا علاج کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے۔ امریکی صدر فرینکلن روز ویلٹ پولیو کے سب سے مشہور شکار تھے۔ انھوں نے "مارچ آف ڈائمز" نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جس نے پولیو کے خلاف ویکسین کی تیاری کے لیے امداد مہیا کی۔
1947 میں سالک نے یونیورسٹی آف پٹز برگ کے اسکول آف میڈیسن میں ملازمت اختیار کی۔ 1948 میں اس نے ایک منصوبے کی نگرانی شروع کی جس کے لیے امداد ایک قومی ادارے نے مہیا کی تھی۔ اس منصوبے میں پولیو وائرس کی مختلف اقسام کا پتہ لگانا تھا۔ اس منصوبے سے دوہرا فائدہ اٹھانے کے لیے سالک نے پولیو کی ویکسین بنانے کا بھی سوچا۔ قابل ترین محققین کی جماعت بنا کر سالک نے سات سال تک تحقیق جاری رکھی۔ اس پروگرام کے آخری مرحلے کو امریکی تاریخ کا سب سے بڑا امتحان کہا جاتا ہے جس میں لگ بھگ 20،000 ڈاکٹروں اور صحتِ عامہ کے افسران، 64،000 اسکول اور 2،20،000 رضاکار شامل ہوئے۔ اس امتحان میں کل 18،00،000 بچوں نے حصہ لیا۔ 12 اپریل 1955 کو جب اس ویکسین کی کامیابی کی خبر شائع ہوئی تو سالک ایک قومی ہیرو بن کر سامنے آیا اور پورے ملک میں جشن منائے گئے۔ سالک کا منصوبہ پولیو کے خلاف قابلِ عمل اور تیز ویکسین کی تیاری تھی جس سے اس نے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا۔ جب سالک سے اس کے حقوق محفوظ کرنے کی بات ہوئی تو سالک کا جواب تھا کہ "اس کا کوئی پیٹنٹ نہیں۔ کیا آپ سورج کا پیٹنٹ کرا سکتے ہیں؟" اندازہ ہے کہ اگر اس ویکسین کو پیٹنٹ کرایا جاتا تو اس سے لگ بھگ 7 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی۔
1960 میں سالک نے لا جولا (لا ہویا)، کیلیفورنیا میں سالک انسٹی ٹیوٹ فار بائیولوجیکل سٹڈیز کی بنیاد رکھی جو آج طبی اور سائنسی تحقیق کا مرکز ہے۔ اس نے اپنی تحقیق جاری رکھی اور کتابیں بھی لکھیں۔ آخری سالوں میں سالک نے ایڈز کے خلاف ویکسین کی تیاری کی کوششیں جاری رکھیں۔ اس کے ذاتی مسودات یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی سان ڈیئگو لائبریری میں محفوظ ہیں۔