بنگالی زبان کی تحریک
From Wikipedia, the free encyclopedia
بنگالی زبان کی تحریک (بنگالی: বাংলা ভাষা আন্দোলন بھاشا آندولن۔ لفظی معنی لسانی تحریک) مشرقی بنگال (اب بنگلہ دیش ) میں چلائی گئی ایک سیاسی تحریک تھی جس کا مقصد بنگالی زبان کو بطور دفتری زبان کے طور پر اپنانا تھا تاکہ سرکاری معاملات میں اسے استعمال میں لایا جاسکے، نیز یہ بنگالی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم، ذرائع ابلاغ، کرنسی، ڈاک ٹکٹو ں میں بھی استعمال کرنے کی تحریک تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کا مقصد بنگالی رسم الخط کا فروغ بھی تھا۔
1947ء میں تقسیم ہند کے بعد قیام پاکستان ہوا جو کثیر نسلی، لسانی اور جغرافیائی خطوں پر مشتمل تھا۔ اسی طرح اس کا مشرقی بنگال صوبہ (جسے 1956ء میں مشرقی پاکستان کہا گیا) میں بنگالی لوگ اکثریت میں بستے تھے۔ 1948ء میں حکومت پاکستان نے اردو کو بطور واحد سرکاری زبان کے طور پر پورے ملک میں نافذ کیا، متبادل طور پر بنگالی کو عربی رسم الخط[1] یا عربی میں پورے پاکستان کی سرکاری زبان کے طور پر لکھنے کی بھی تجویز دی گئی تھی،[2] جس کے سبب مشرقی بنگال کے عوام میں بے چینی پھیلی اور وہاں بڑے بڑے عوامی جلسے اس فیصلے کے خلاف میں نکالے گئے۔کیے بڑے مسئلوں جس میں مہاجرین، نئے قانون کے مسائل، فرقہ وارانہ فسادات شامل تھے اس نوزائیدہ مملکت نے ایسے تمام جلسے جلوسوں اور عوامی میٹنگوں کو غیر قانونی قرار دیا۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبہ اور چند دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اس فیصلے کے خلاف 21 فروری 1952ء کو ایک احتجاج کا کیا۔ اس تحریک نے اس وقت عروج پائی جب اس دن پولیس نے مظاہرین طلبہ پر گولیاں چلائیں جس سے کئی اموات ہوئیں۔ ان ہلاکتوں نے عوام میں وسیع طور پر اشتعال انگیزی پھیلائی۔ ان تنازعات کے کئی سال بعد مرکزی حکومت نے 1956ء میں بنگالی زبان کو دفتری زبان قرار دیا۔ 21 فروری 1999ء کو یونیسکو نے اس دن کو زبان کے عالمی دن کے طور پر منانے کو فیصلہ کیا تاکہ اس تحریک کے کارکنان اور دنیا میں زبان کے حق کے سلسلے میں بیداری پیدا کی جاسکے۔[3] اس تحریک نے مشرقی بنگال کے لوگوں میں بنگالی قومی تشخص کو بیدار کیا جس نے آگے چل کر بنگالی قوم پرستی کی شکل حاصل کی اور یہیں سے چھ نکات پھر بنگلہ دیشی آزادی تحریک، پاک بھارت 1971ء کی جنگ جیسے واقعات کی ابتدا اور نفاذ بنگالی زبان ایکٹ،1987 کے نفاذ کا باعث بنی۔ 21 فروری (ایکوشے فروری) کو بنگلہ دیش میں عام تعطیل ہوتی ہے اور اس دن کوقومی لسانی تحریک کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ڈھاکہ میڈیکل کالج کے قریب شہید مینار، یادگار اس تحریک اور اس کے متاثرین کے یاد میں تعمیر کیا گیا ہے۔