![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/3/31/Flag_of_Equatorial_Guinea.svg/langur-640px-Flag_of_Equatorial_Guinea.svg.png&w=640&q=50)
استوائی گنی
From Wikipedia, the free encyclopedia
استوائی گنی وسطی افریقہ کا ایک ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ 28٫000 مربع کلومیٹر ہے اور براعظم افریقہ کے چھوٹے ملکوں میں سے ایک ہے۔ تاہم یہ براعظم کے متمول ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ دولت کا ارتکاز حکومت اور طبقہ اشرافیہ تک محدود ہے اور 70 فیصد سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے یعنی 2 ڈالر روزانہ سے کم کماتی ہے۔ اس کی کل آبادی 6٫50٫702 ہے۔
استوائی گنی | |
---|---|
![]() |
![]() |
![]() | |
شعار(ہسپانوی میں: Unidad, Paz, Justicia) ![]() | |
ترانہ: | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 1°30′N 10°00′E ![]() |
پست مقام | |
رقبہ | |
دارالحکومت | ملابو ![]() |
سرکاری زبان | ہسپانوی [2]، فرانسیسی [2]، پرتگالی [2] ![]() |
آبادی | |
حکمران | |
اعلی ترین منصب | تئودورو اوبیانگ نگیما مباسوگو ![]() |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 12 اکتوبر 1968 ![]() |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | |
شرح بے روزگاری | |
دیگر اعداد و شمار | |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+01:00 [3] ![]() |
ٹریفک سمت | دائیں [4] ![]() |
ڈومین نیم | gq. ![]() |
سرکاری ویب سائٹ | باضابطہ ویب سائٹ ![]() |
آیزو 3166-1 الفا-2 | GQ ![]() |
بین الاقوامی فون کوڈ | +240 ![]() |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
استوائی گنی دو حصوں پر مشتمل ہے، ایک غير منسلک اور ایک سرزمین کا علاقہ۔ غير منسلک خطہ خلیج گنی میں بائیوکو (سابقہ فرنانڈو پو) کے جزیروں پر مشتمل ہے اور ایک چھوٹا آتش فشاں جزیرہ انوبون (Annobón) ہے جو خط استوا کے جنوب میں ملک کا واحد حصہ ہے۔ بائیوکو (Bioko) جزیرہ استوائی گنی کا شمالی ترین حصہ ہے اور یہ ملک کے دار الحکومت ملابو کا مقام ہے۔ پرتگالی بولنے والی جزیرے کی قوم سائو توم اور پرنسپے بائیوکو اور انوبون کے درمیان واقع ہے۔
استوائی گنی کے شمال میں کیمرون، جنوب اور مشرق میں گبون اور مغرب میں خلیج گنی ہے۔
آبادی کے اعتبار سے برِاعظم افریقہ کا تیسرا چھوٹا ملک ہے۔ مناسب مقدار میں ملنے والے تیل کے ذخائر کے بعد حالیہ برسوں میں ملک کی معاشی اور سیاسی حالت بدلی ہے۔ استوائی گنی کی فی کس آمدنی کی اوسط دنیا بھر میں 28ویں نمبر پر ہے تاہم سارے کا سارا تیل چند ہی افراد کی ملکیت ہے۔
انسانی حقوق کے حوالے سے اسے بد ترین ممالک میں شمار کیا جاتا ہے۔