ابو الکلام آزاد
بھارتی سیاست دان، مصنف اور بھارت کے پہلے وزیر تعلیم (1958-1888) / From Wikipedia, the free encyclopedia
ابوالکلام محی الدین احمد آزاد (پیدائش 11 نومبر1888ء - وفات 22 فروری 1958ء) ((بنگالی: আবুল কালাম মুহিয়ুদ্দিন আহমেদ আজাদ)) آزاد ہند کے پہلے وزیرِ تعلیم اور قومی رہنما تھے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ مولانا 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین افغانی سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کرلی۔
ابو الکلام آزاد | |
---|---|
مناصب | |
رکن مجلس دستور ساز بھارت | |
برسر عہدہ 6 جولائی 1946 – 24 جنوری 1950 | |
رکن ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی کی اسٹیئرنگ کمیٹی | |
آغاز منصب 21 جنوری 1947 | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 11 نومبر 1888ء [1] مکہ [2] |
وفات | 22 فروری 1958ء (70 سال)[3][1][4] دہلی [5] |
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) بھارت (26 جنوری 1950–) |
مذہب | اسلام |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس |
زوجہ | زلیخا بیگم |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | اردو [6] |
اعزازات | |
دستخط | |
IMDB پر صفحات | |
درستی - ترمیم |
1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انھوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی- 1912 میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
مولانا بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔