From Wikipedia, the free encyclopedia
آسٹریا ((جرمنی: Österreich)) جسے سرکاری طور پر جمہوریہ آسٹریا بھی کہتے ہیں، برِ اعظم یورپ کے وسط میں واقع خشکی سے گھڑا ہوا ایک ملک ہے۔ اس کی کل آبادی 83 لاکھ ہے۔ اس کے شمال میں جرمنی اور چیک ریپبلک، مشرق میں سلواکیا اور ہنگری، جنوب میں سلوانیا اور اٹلی جبکہ مغرب میں سوئٹزرلینڈ اور لیچٹنسٹائن کے ممالک واقع ہیں۔ آسٹریا کا کل رقبہ 83٫872 مربع کلومیٹر ہے۔ آسٹریا کی سرزمین بلند پہاڑوں پر مشتمل ہے اور یہاں ایلپس پہاڑی سلسلہ واقع ہے۔ ملک کا 32 فیصد رقبہ سطح سمندر سے 500 میٹر سے کم بلند ہے۔ اس کا بلند ترین مقام 3٫797 میٹر بلند ہے۔ آبادی کی اکثریت جرمن زبان بولتی ہے اور اسے ملک کی سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ دیگر مقامی زبانوں میں کروشین، ہنگری اور سلوین ہیں۔
آسٹریا | |
---|---|
پرچم | نشان |
شعار(انگریزی میں: Arrive and revive) | |
ترانہ: | |
زمین و آبادی | |
متناسقات | 48°N 14°E [1] |
رقبہ | 83878.99 مربع کلومیٹر (1 جنوری 2014)[2] |
دارالحکومت | ویانا [3] |
سرکاری زبان | جرمن [4] |
آبادی | 8979894 (2022)[5] |
|
4367938 (2019)[6] 4387322 (2020)[6] 4407703 (2021)[6] 4451539 (2022)[6] سانچہ:مسافة |
|
4511982 (2019)[6] 4529542 (2020)[6] 4548093 (2021)[6] 4590312 (2022)[6] سانچہ:مسافة |
حکمران | |
طرز حکمرانی | وفاقی پارلیمانی جمہوریہ ، پارلیمانی جمہوریہ [7] |
قیام اور اقتدار | |
تاریخ | |
یوم تاسیس | 12 نومبر 1918 |
عمر کی حدبندیاں | |
شادی کی کم از کم عمر | 18 سال |
شرح بے روزگاری | 5 فیصد (2014)[8] |
دیگر اعداد و شمار | |
کرنسی | یورو |
منطقۂ وقت | متناسق عالمی وقت+01:00 (معیاری وقت )[9] |
ٹریفک سمت | دائیں |
ڈومین نیم | at. |
آیزو 3166-1 الفا-2 | AT |
بین الاقوامی فون کوڈ | +43 |
درستی - ترمیم |
آسٹریا کی بنیادیں ہمیں رومن دور سے ملتی ہیں۔ جب 15 ق م میں سیلٹک سلطنت پر رومنوں نے قبضہ کیا تو اسے ایک صوبہ بنا دیا۔ پہلی صدی عیسوی میں یہ سارا علاقہ آج کے آسٹریا کے زیادہ تر حصوں پر مشتمل تھا۔ 788 عیسوی میں یہاں مسیحیت متعارف کرائی گئی۔ ہپسبرگ شہنشاہیت کے دوران میں آسٹریا کو یورپ کی بڑی طاقتوں میں سے ایک شمار کیا جانے لگا۔ 1867ء میں آسٹرین سلطنت کی جگہ آسٹریا-ہنگری نے لے لی۔
پہلی جنگِ عظیم کے اختتام پر 1918ء میں آسٹرو- ہنگرین سلطنت کا زوال ہوا۔ 1919ء میں پہلی آسٹرین جمہوریہ قائم ہوئی۔ 1938ء میں نازی جرمنی نے اس پر قبضہ کر کے اپنے اندر شامل کر لیا۔ یہ قبضہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام تک یعنی 1945 تک جاری رہا جس کے بعد آسٹریا پر اتحادیوں کا قبضہ ہو گیا اور انھوں نے آسٹریا کی خود مختار جمہوری حیثیت بحال کر دی۔ اسی سال آسٹریا کی پارلیمان نے ایک اعلان جاری کیا جس کے تحت آسٹریا کو مستقل طور پر غیر جانبدار ملک قرار دے دیا گیا۔
آج آسٹریا پارلیمانی جمہوریہ ہے جس میں 9 وفاقی ریاستیں شامل ہیں۔ اس کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر ویانا ہے جس کی آبادی 16 لاکھ سے زیادہ ہے۔ آسٹریا کو دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ایک مانا جاتا ہے اور فی کس آمدنی 43٫723 ڈالر سالانہ ہے۔ آسٹریا میں معیارِ زندگی بہت بلند ہے اور 2010ء میں اسے دنیا بھر میں انسانی ترقی کے اعشاریے کے مطابق 25واں درجہ دیا گیا۔ آسٹریا 1955 سے اقوامِ متحدہ کا رکن ہے۔ 1995ء میں یہ یورپی یونین کا رکن بنا۔ 1995ء ہی میں آسٹریا نے شینجن معاہدے پر دستخط کیے اور 1999ء میں یورو کو اپنا لیا۔
جرمن زبان میں آسٹریا کو آسٹریچ کہتے ہیں۔ یہ لفظ پہلی بار 966 عیسوی میں استعمال کیا گیا۔ یہ لفظ مقامی زبان باویرین میں "مشرقی سرحدی علاقے " کو ظاہر کرتا ہے۔ لفظ آسٹریا دراصل اسی جرمن لفظ کو لاطینی بنانے سے وجود میں آیا ہے۔ یہ لفظ پہلے پہل 12ویں صدی عیسوی میں استعمال ہوا۔
قدیم زمانے سے آباد وسطی یورپ کی سرزمین جو آج آسٹریا کہلاتی ہے، دراصل رومن دور سے قبل مقامی سیلٹک قبائل کی آماج گاہ تھی۔ سیلٹک سلطنت پر بعد ازاں رومنوں نے قبضہ کر لیا اور اسے اپنی سلطنت میں بطور صوبہ شامل کر لیا۔
رومن بادشاہت کے زوال پر اس علاقے پر باویری، سلاویس اور آوارس قبائل نے حملے جاری رکھے۔ سلاویک قبائل پہاڑوں میں منتقل ہو گئے جو مشرقی اور وسطی آسٹریا میں موجود ہیں۔ 788 عیسوی میں یہاں مسیحیت متعارف کرائی گئی۔
14ویں اور 15ویں صدی عیسوی میں ہیسپ برگ بادشاہوں نے آسٹریا میں آس پاس کے دیگر علاقے بھی شامل کرنا شروع کر دیے۔ 1438ء میں نواب البرٹ پنجم آف آسٹریا کو ان کے سُسر کی جگہ بادشاہ بنا دیا گیا۔
بعد ازاں آسٹریا نے فرانس کے ساتھ جنگ چھیڑ دی۔ نپولن کے ہاتھوں بتدریج شکستوں کے بعد 1806 میں رومن سلطنت زوال پزیر ہو گئی۔ دو سال قبل 1804ء میں آسٹریا کی سلطنت قائم ہوئی۔ 1814ء میں آسٹریا اتحادیوں کے ساتھ فرانس پر حملہ آور ہوا اور نپولن کو شکست دی۔
1815ء میں کانگریس آف ویانا کے بعد آسٹریا کو برِ اعظم کی چار بڑی طاقتوں میں شمار کیا جانے لگا۔ اسی سال آسٹریا کی سربراہی میں جرمنی کا الحاق ہوا۔
1864ء میں آسٹریا اور پروشیا نے مل کر ڈنمارک سے جنگ کی اور اس سے بعض علاقے آزاد کرا لیے۔ تاہم انہی علاقوں کی تقسیم میں اختلاف پر 1866ء میں آسٹریا اور پروشیا کی جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں شکست کے بعد آسٹریا جرمنی کی کنفیڈریشن سے نکل گیا۔
سراجیو کے مقام پر 1914ء میں شہزادہ فرانز فریڈینڈ کے قتل کو آسٹریا کے سیاست دانوں اور جنرلوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے شہنشاہ کو سربیا کے خلاف جنگ چھیڑنے پر مجبور کیا۔ نتیجتاً پہلی جنگِ عظیم شروع ہوئی اور آسٹریا-ہنگری کی سلطنت ختم ہو گئی۔ آسٹریا-ہنگری کے 10 لاکھ سے زیادہ فوجی اس جنگ میں مارے گئے۔
21 اکتوبر 1918ء کو آسٹریا کی پارلیمان کے منتخب شدہ جرمن نمائندے ویانا میں جرمن آسٹریا کی صوبائی قومی اسمبلی کے طور پر اکٹھے ہوئے۔ 30 اکتوبر کو اسمبلی نے جرمن آسٹریا کی ریاست اور اس کی حکومت بنائی۔ شہنشاہ نے نئی حکومت کو دعوت دی کہ وہ اٹلی کے ساتھ معاہدے کے لیے فیصلہ کریں۔ تاہم حکومت نے یہ ذمہ داری شہنشاہ پر چھوڑ دی۔ 11 نومبر کو شہنشاہ نے پرانی اور نئی حکومت کے وزراء کی مدد سے اعلان کیا کہ شہنشاہ کا امورِ حکومت میں عمل دخل یکسر ختم ہو گیا ہے۔ 12 نومبر کو جرمن آسٹریا نے خود کو عوامی جمہوریہ قرار دے دیا۔
سینٹ جرمین کے معاہدے کے تحت 1919ء میں وسطی یورپ کی تشکیلِ نو کی گئی۔ اس کے نتیجے میں نئی ریاستیں بنیں جبکہ پہلے سے موجود ریاستوں کی شکل بدلی گئی۔ 30 لاکھ سے زیادہ جرمنوں نے خود کو آسٹریا کی حدود سے باہر دیگر نئی ریاستوں جیسا کہ چیکو سلاویکیا، یوگوسلاویا، ہنگری اور اٹلی کی اقلتیں پایا۔ 1918ء اور 1919ء کے دوران میں آسٹریا کو جرمن آسٹریا کہا جاتا تھا۔ تاہم بعد ازاں اتحادی طاقتوں نے جرمن آسٹریا کو جرمنی کا حصہ بننے سے روکا اور اسے جمہوریہ آسٹریا بنا دیا۔
جنگ کے بعد افراطِ زر نے آسٹریا کی کرنسی کرون کی قیمت کو گھٹانا شروع کر دیا۔ 1922ء کے موسمِ خزاں میں لیگ آف نیشن کی زیرِ نگرانی آسٹریا کو بین الاقوامی قرضہ ملا۔ اس قرضے کا مقصد ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانا، کرنسی کی قیمت کو استحکام دینا اور عام معاشی صورت حال کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم اس قرضے کے نتیجے میں آسٹریا ایک آزاد ملک کی بجائے لیگ آف نیشن کے زیرِ انتظام چلا گیا۔ 1925ء میں کرون کی جگہ شلنگ نے لے لی۔ 10٫000 کرون ایک شلنگ کے برابر تھے۔ بعد ازاں اس کی مستحکم حالت کی وجہ سے اسے الپائن ڈالر کہا گیا۔ 1925ء سے 1929ء تک معیشت نے ترقی کی لیکن پھر بلیک فرائی ڈے آ گیا۔
آسٹریا کی پہلی جمہوریہ 1933ء تک چلی جس کے بعد چانسلر نے پارلیمان کو برطرف کر دیا۔ نتیجتاً اٹلی کے فاشسٹوں کی حامی حکومت بنی۔ اس وقت دو بڑی سیاسی جماعتیں کام کر رہی تھیں اور دونوں کی اپنی نیم فوجی ملیشیائیں تھیں۔ اس کے بعد خانہ جنگی شروع ہو گئی۔
بعد میں آسٹریا کی آزاد حیثیت ختم ہو گئی۔ آسٹریا کے یہودیوں کے خلاف قانون بنا دیا گیا جس کے تحت ان کے تمام اثاثے چھین لیے گئے۔ 13 اپریل 1945ء میں ویانا روس کے قبضے میں چلا گیا۔
27 اپریل 1945ء کو چند سیاست دانوں نے آسٹریا کی آزادی کا اعلان کر دیا۔ اس اعلان کو کامیاب روسی فوج اور سٹالن کی حمایت حاصل تھی۔ اپریل کے اختتام تک مغربی اور جنوبی آسٹریا نازی جرمنی کے قبضے میں تھا۔ یکم مئی 1945 میں 1929ء کا آئین بحال کر دیا گیا۔
1939ء تا 1945ء تک ہونے والی فوجی اموات کا اندازہ 2٫60٫000 لگایا گیا ہے۔ یہودی ہولوکاسٹ کے شکار افراد کی تعداد 65٫000 تھی۔ تقریباً 1٫40٫000 یہودی آسٹریا چھوڑ گئے تھے۔ 1992 میں آسٹریا کے چانسلر نے تسلیم کیا کہ ہزاروں آسٹریائی نازی جرمنی کے جرائم میں شریک تھے۔
جرمنی ہی کی طرح آسٹریا کے مختلف حصوں پر مختلف اتحادی ممالک قابض تھے۔
15 مئی 1955ء کو برسوں کی گفت و شنید کے بعد آسٹریا کو آزادی مل گئی۔ 26 اکتوبر 1955ء کو ساری غیر ملکی افواج ملکی سرزمین سے نکل گئی تھیں۔ اس کے بعد پارلیمان کے ایکٹ کے تحت ملک کو ہمیشہ کے لیے غیر جانبدار بنا دیا۔ 1994ء کے ریفرنڈم میں دو تہائی اکثریت سے فیصلہ ہوا کہ یکم جنوری 1995ء کو آسٹریا یورپی یونین کا رکن بن گیا۔
آسٹریا کی پارلیمان ویانا میں ہے۔ یہ شہر ملک کا دار الحکومت اور سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ 1920ء کے ائین کے مطابق آسٹریا وفاقی، پارلیمانی، جمہوری ریاست ہے۔ ریاستی سربراہ وفاقی صدر ہوتا ہے جسے براہ راست منتخب کیا جاتا ہے۔ وفاقی حکومت کا سربراہ وفاقی چانسلر ہوتا ہے جسے صدر مقرر کرتا ہے۔ حکومت کو صدارتی حکم یا عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد ختم کیا جا سکتا ہے۔
آسٹریا کی پارلیمان دو چیمبروں پر مشتمل ہے۔ نینشلارٹ کی کل 183 نشستیں ہوتی ہیں اور عام طور پر ہر 5 سال بعد ان کا انتخاب ہوتا ہے۔ 2007ء سے قانونی طور پر ووٹر کی کم سے کم عمر 16 سال مقرر کی گئی ہے۔
نیشنلارٹ کو مقننہ کی حیثیت حاصل ہے تاہم ایوانِ بالا جسے بنڈسریٹ کہتے ہیں، کے پاس کسی قانون کو مسترد کرنے کا کسی حد تک اختیار ہوتا ہے۔
قانون ساز، ایگزیکٹو کے بعد ریاستی طاقت کا تیسرا ستون عدالت ہے۔ آئینی عدالت قوانین پر بڑی حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے یا انھیں مسترد کر سکتی ہے۔ 1995ء کے بعد سے یورپی عدالتِ انصاف اس عدالت کے احکامات کو یورپی یونین کے قوانین کی روشنی میں بدل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ آسٹریا میں یورپی یونین کے انسانی حقوق کی عدالت کا فیصلہ بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔
اکتوبر 2006ء کے انتخابات کے بعد سوشل ڈیموکریٹ سب سے زیادہ اکثریت والی جماعت بن کر ابھری۔ پیپلز پارٹی کو 8 فیصد کم ووٹ ملے۔ سیاسی مجبوریوں کی بنا پر دونوں ہی جماعتیں دیگر چھوٹی جماعتوں سے مل کر حکومت نہ بنا سکیں۔ جنوری 2007ء میں دونوں بڑی جماعتوں نے آپس میں اتحاد کر کے سوشل ڈیموکریٹ کے رکن کو چانسلر منتخب کر لیا۔ تاہم یہ اتحاد جون 2008ء میں ختم ہو گیا۔ ستمبر 2008ء کے انتخابات سے دونوں بڑی جماعتیں مزید کمزور ہوئیں تاہم دونوں نے مل کر نصف سے زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ ان کے اتحاد کی بنا پر ایک بار پھر سوشل ڈیموکریٹ کا رکن چانسلر بنے۔
1955ء کی آسٹریا کے ریاستی معاہدے کے تحت دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں کے قبضے کے خاتمے اور آزاد آسٹریا کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔ 26 اکتوبر 1955ء کو وفاقی اسمبلی نے آئینی شق منظور کی جس کے تحت آسٹریا نے اپنی مرضی سے خود کو مستقل بنیادوں پر غیر جانبدار قرار دے دیا۔ اسی قانون کی دوسری شق کے تحت آسٹریا مستقبل میں کسی فوجی اتحاد کا حصہ نہیں بنے گا اور نہ اس کی سرزمین پر کسی دوسری ملک کا فوجی اڈا بنایا جائے گا۔ اس وقت سے آسٹریا کی خارجہ پالیسی بناتے وقت اس کی غیر جانبدار حیثیت کو مدِنظر رکھا جاتا ہے۔
تاہم سویت یونین کے زوال کے بعد آسٹریا نے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت پر نظرِ ثانی کی ہے اور 1991ء میں عراق پر حملے کے لیے اپنی سرزمین پر سے غیر ملکی فوجی طیاروں کو گذرنے کی اجازت دی ہے۔ 1995ء میں بوسنیا میں اقوامِ متحدہ کے امن مشن کے لیے بھی آسٹریا نے حصہ لیا ہے۔ اس طرح غیر جانبداری کے قانون کی واحد شق جس پر ابھی تک عمل جاری ہے کے مطابق یہاں غیر ملکی فوجی اڈے نہیں بنے۔
آسٹریا کی مسلح افواج کی افرادی قوت کا زیادہ تر انحصار لازمی فوجی تربیت ہر پے۔ 18 سال کی عمر کے ہر صحت مند مرد پر چھ ماہ کی فوجی خدمات لازمی ہیں۔ اس کے بعد 8 سال تک انھیں ریزرو فوجی کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ 16 سال کی عمر کے ہر لڑکے اور لڑکی کو فوجی تربیت میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص لازمی فوجی تربیت نہ کرنا چاہے تو اسے اس کے بدلے نو ماہ کی دفتری خدمات سر انجام دینی ہوتی ہیں۔ 1998ء سے رضاکار لڑکیوں کو باقاعدہ فوج میں شامل کیا جانے لگا ہے۔
مسلح افواج دراصل مشترکہ افواج ہیں جن میں بری فوج، ہوائی فوج، بین الاقوامی مشن اور خصوصی دستے وغیرہ شامل ہیں۔ چونکہ آسٹریا ہر طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے، اس لیے اس کی بحری فوج نہیں ہے۔
2004ء میں آسٹریائی افواج میں کل 45٫000 فوجی تھے جن میں نصف تعداد رضاکاروں کی تھی۔ آسٹریا اپنے کل بجٹ کا 0.9 فیصد حصہ اپنے دفاع پر خرچ کرتا ہے۔ ملکی صدر کو مسلح افواج کے علامتی سربراہ کی حیثیت ملی ہوئی ہے۔ حقیقت میں مسلح افواج کی سربراہی وزیرِ دفاع کے ذمے ہوتی ہے۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد آسٹریا اور ہنگری کی سرحد سے فوجی دستوں کو ہٹانا بہت اہم تھا۔ آسٹرین فوجی دستے سرحدی محافظوں کی معاونت کرتے تھے تاکہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والوں کو روکا جا سکے۔ تاہم جب 2008ء میں ہنگری نے یورپی یونین کے شینجن معاہدے پر دستخط کیے تو ہر قسم کی سرحدیں ختم کر دی گئیں۔ کچھ سیاست دانوں نے تجویز دی کہ فوجی دستے سرحدوں کی نگرانی کا کام جاری رکھیں لیکن آسٹریا کے آئین کے مطابق فوج کو محدود مقدار میں اور مخصوص حالات جیسا کہ ملکی دفاع، ہنگامی حالات میں امدادی کارروائی وغیرہ کے لیے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دیگر کاموں کے لیے پولیس موجود ہے۔
اپنی بیان کردہ غیر جانبدارانہ حیثیت کے اندر رہتے ہوئے آسٹریا نے اقوامِ متحدہ کے بے شمار قیام امن کے مشنوں میں شمولیت اختیار کی ہے۔ اس وقت بھی بوسنیا، کوسوو اور گولان کی پہاڑیوں میں آسٹریا کے فوجی دستے قیامِ امن کے لیے موجود ہیں۔
وفاقی جمہوریہ کی حیثیت سے آسٹریا کو نو ریاستوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ ریاستیں آگے مزید ضلعوں اور شہروں میں منقسم ہیں۔ ضلعوں کو بلدیوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر ریاست کو ملک کے اندر رہتے ہوئے کسی حد تک خود مختار فیصلے کرنے کی اجازت ہے اور ثقافت، سوشل کیئر، نوجوانوں اور ماحول کے تحفظ، شکار، تعمیرات وغیرہ جیسے کام کے لیے ریاست کے پاس اختیارات ہوتے ہیں۔ تاہم اس بات پر بحث چل رہی ہے کہ آیا ایک اتنا چھوٹا سا ملک دس الگ الگ پارلیمانوں کے قابل ہے؟
آسٹریا کا زیادہ تر حصہ پہاڑی ہے۔ ان پہاڑوں میں سینٹرل ایسٹرن ایلپس، ناردرن لائم سٹون ایلپس ارو سدرن لائم سٹون ایلپس وغیرہ جزوی طور پر آسٹریا میں واقع ہیں۔ آسٹریا کا تقریباً چوتھائی حصہ ہی نسبتاً کم بلند ہے۔ پورے ملک کا تقریباً 32 فیصد حصہ ہی 500 میٹر سے کم بلند ہے۔ آسٹریا کے مغربی حصے کے پہاڑ بتدریج چھوٹے ہوتے ہوتے ملک کے مشرقی حصے میں میدان بن جاتے ہیں۔
آسٹریا کو پانچ بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑا حصہ مشرقی ایلپس کا ہے جو ملک کے 62 فیصد حصے پر پھیلا ہوا ہے۔ بلندی اور سطح مرتفع کے اعتبار سے دیگر حصے منقسم ہیں۔
آسٹریا کا زیادہ تر حصے کا موسم سرد رہتا ہے اور اس پر مغربی مرطوب ہواؤں کا اثر رہتا ہے۔ نصف سے زیادہ ملک پر ایلپس پہاڑ موجود ہیں۔ دیگر علاقوں میں نسبتاً کم بارش ہوتی ہے۔ اگرچہ آسٹریا کی سردیاں سرد ہوتی ہیں اور درجہ حرارت صفر سے منفی 10 تک رہتا ہے پھر بھی گرمیاں نسبتاً گرم تر ہوتی ہیں۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 20 ڈگری سے 37 ڈگری تک چلا جاتا ہے۔
آسٹریا کو فی کس آمدنی کے اعتبار سے دنیا کا 12واں امیر ترین ملک مانا جاتا ہے۔ یہاں معیارِ زندگی بہت بلند ہے۔ 1980ء کی دہائی تک آسٹریا کی زیادہ تر بڑی صنعتیں قومیا لی گئی تھیں تاہم آج کل ان کی دوبارہ نجکاری کی جا رہی ہے۔ یہاں مزدور تحاریک بالخصوص زوروں پر ہیں۔ صنعتوں کے بعد ملکی معیشت کا اہم ترین ستون سیاحت ہے۔
تاریخی اعتبار سے آسٹریا کے تجارتی روابط جرمنی کے ساتھ بہت گہرے ہیں۔ اسی وجہ سے جرمن معیشت میں ہونے والی تبدیلیوں کا اثر آسٹریا پر بہت گہرا ہوتا ہے۔ تاہم یورپی یونین کا رکن بننے کے بعد آسٹریا کے تجارتی روابط دیگر یورپی ریاستوں سے بڑھے ہیں اور جرمنی پر انحصار کم ہوا ہے۔ مزید براں یورپی یونین کے رکن کی حیثیت سے بیرونی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بھی بڑھی ہے۔ موجودہ برسوں میں جی ڈی پی کی شرح بڑھی ہے۔ 16 نومبر 2010ء میں آسٹریا نے یونان کو دیے جانے والے قرضے کی قسط روکنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ بقول آسٹریا، یونان نے ٹیکس کی وصولی کے وعدے پورے نہیں کیے۔
یکم جنوری 1999ء سے آسٹریا میں یورو کو اپنایا گیا ہے اور یکم جنوری 2002ء سے یہاں یورو کے سکے اور کاغذی نوٹ رائج ہیں۔ عام طور پر جب یورو کے سکے بنائے جاتے ہیں تو وہی سال ان پر لکھا جاتا ہے تاہم آسٹریا میں یورو کے سکے 1999ء میں بننے لگے اور 2002ء میں ان کو استعمال میں لایا گیا اور سکوں پر 2002ء ہی درج تھا۔ آٹھ مختلف سکوں کے لیے الگ الگ نمونے تیار کیے گئے ہیں۔
یورو سے قبل آسٹریا میں شلنگ رائج تھا۔
1972 میں آسٹریا میں پہلی بار ایٹمی توانائی کی مدد سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹ کی تعمیر شروع ہوئی۔ تاہم بعد ازاں 1978ء میں ایک نئے قانون کی رو سے آسٹریا میں ایٹمی توانائی سے بجلی کے حصول کو روک دیا گیا۔
اس وقت نصف سے زیادہ توانائی آبی ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔ قابلِ تجدید ذرائع جیسا کہ ہوا، شمسی اور حیاتیاتی ذرائع سے چلنے والے پاور پلانٹ دیگر ضروریات پوری کرتا ہے۔ قابلِ تجدید ذرائع سے کل 62.89 فیصد توانائی پیدا ہوتی ہے جبکہ باقی ضروریات تیل اور گیس سے چلنے والے پلانٹ پورا کرتے ہیں۔
جنوری 2009 میں آسٹریا کی کل آبادی 83٫56٫707 افراد تھی۔ دار الحکومت ویانا کی آبادی 16 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
ویانا کے بعد گراز نامی شہر دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہاں 2٫50٫099 افراد رہتے ہین۔ تیسرا بڑا شہر لنز ہے جہاں 1٫88٫968 افراد رہتے ہیں۔ سالزبرگ میں 1٫50٫000جبکہ انسبروک میں 1٫17٫346 افراد رہتے ہیں۔ دیگر تمام شہروں کی انفرادی آبادی ایک لاکھ سے کم ہے۔
جرمنی آسٹریا کی سرکاری زبان ہے اور 88.6 فیصد افراد جرمنی بولتے ہیں۔ ترکی زبان 2.3 فیصد، سربین 2.2، کروشین 1.6 فیصد، ہنگری 0.5 فیصد، بوسنین 0.4 فیصد جبکہ سلوانین زبان کو 0.3 فیصد افراد بولتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق 13٫000 سے 40٫000 سلوین اور 30٫000 کروٹ اور ہنگرین افراد بعض ریاستوں میں اقلیتوں کا درجہ رکھتے ہیں اور انھیں خصوصی مراعات حاصل ہیں۔ تاہم جن ریاستوں میں ان کی تعداد انتہائی کم ہے وہاں انھیں اقلیت نہیں مانا جاتا اور قوانین کے برعکس انھیں خصوصی مراعات حاصل نہیں۔
20ویں صدی کے اختتام تک 74 فیصد آبادی کا مذہب رومن کیتھولک تھا۔ 5 فیصد خود کو پروٹسٹنٹ مانتے ہیں۔ آسٹریا کے عیسائیوں کو کلیسا کے لیے مخصوص ممبرشپ فیس دینی پڑتی ہے۔
تقریباً 12 فیصد افراد خود کو لادین مانتے ہیں۔ 2001ء میں دیگر افراد میں 3،40،000 افراد خود کو مختلف مسلم گروہوں کے پیروکار مانتے ہیں۔ ان کی اکثریت ترکی، بوسنیا ہرزگووینیا اور کوسوو سے ہے۔ 1،80،000 افراد مشرقی آرتھوڈکس چرچ کے پیروکار ہیں جن کی اکثریت سرب النسل ہے۔ 20،000 سے زیادہ یہووا کے پیروکار جبکہ یہودیوں کی تعداد 8،100 ہے۔
آسٹریا میں اسلام سو سال سے سرکاری طور پر ایک تسلیم شدہ مذہب ہے۔ اس وقت آسٹریا میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان آباد ہیں جو ملک کی کل آبادی کا چھ فیصد ہیں۔ درالحکومت ویانا میں اسلام رومن کیتھولکس کے بعد دوسرا بڑا مذہب ہے۔ آسٹریا کی اسلامی برادری کے مطابق اس وقت ملک میں ساٹھ ہزار مسلمان بچے مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ تعلیم جرمن زبان میں فراہم کی جاتی ہے۔[10]
آسٹریا میں تعلیم جزوی طور پر ریاستی اور جزوی طور پر وفاقی ذمہ داری ہے۔ 9 سال تکاسکول جانا لازمی ہے جو عموماً 15 سال کی عمر میں ختم ہوتا ہے۔
3 سے 6 سال کے بچوں کے لیے زیادہ تر ریاستوں میں مفت کنڈرگارٹن موجود ہوتے ہیں جو لازمی تو نہیں لیکن بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔ ہر کلاس میں زیادہ سے زیادہ 30 طلبہ و طالبات ہوتے ہیں۔ ہر جماعت کی دیکھ بھال کے لیے ایک مدرس اور ایک مددگار ہوتے ہیں۔ عام طور پر صبح 8 بجے سے دوپہر 12 بجے تک یہ دیکھ بھال مفت اور اس کے بعد اضافی دیکھ بھال کے لیے رقم ادا کرنی ہوتی ہے۔
پرائمریاسکول 4 سال کے لیے ہوتا ہے اور چھ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں بھی جماعت میں 15 سے 30 تک بچے ہوتے ہیں۔ عموماً ہر جماعت کو ایک ہی مدرس 4 سال کے لیے پڑھاتا ہے۔ ہر بچے کو انفرادی کام دیا جاتا ہے اور وہ ایک ہی طریقے سے پڑھتے ہیں۔ صبح 8 بجے سے پڑھائی شروع ہوتی ہے اور 12 یا 1 بجے تک جاری رہتی *ہے۔ ہر گھنٹے بعد 5 یا 10 منٹ کا وقفہ ہوتا ہے۔ پہلے سال سے ہی بچوں کو گھر کا کام دیا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک بچے گھر واپس جا کر ہی کھانا کھاتے تھے لیکن چونکہ اب زیادہ عورتیں نوکریوں کی طرف مائل ہو رہی ہیں تو قبل اور بعد ازاسکول بچوں کو کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔
جرمنی کی طرح یہاں بھی ثانوی تعلیم کے لیے دو طرح کے مدرسے ہوتے ہیں۔ پہلی قسم کے مدرسوں میں زیادہ ذہین بچوں کو یونیورسٹی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے تیار کیا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم کے مدرسوں میں بچوں کو ووکیشنل تعلیم کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم دونوں مدرسوں کے اختتام پر امتحان ہوتا ہے جس میں کامیابی کی صورت میں یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔
پرائمریاسکول کی طرح ثانوی اسکولوں میں بھی 8 بجے صبح پڑھائی شروع ہوتی ہے اور دوپہر تک جاری رہتی ہے۔ زیادہ بڑے طلبہ کے لیے روز مدرسے کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہر سال کے اختتام پر اگر طالب علم کی کارکردگی اگر تسلی بخش ہو تو وہ اگلی جماعت میں چلے جاتے ہیں۔ اگر ان کی کارکردگی تسلی بخش نہ ہو تو وہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد دوبارہ امتحان دیتے ہیں۔ دوبارہ ناکامی کی صورت میں انھیں تعلیمی سال دوبارہ پڑھنا پڑتا ہے۔
طلبہ کے لیے ایک جماعت میں ایک سے زیادہ سال گذارنا عجیب بات نہیں۔ دو سال کی تعلیم کے بعد انھیں کسی ایک تعلیمی دھارے کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ ایک دھارے میں فنونِ لطیفہ جبکہ دوسرے میں سائنس پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔
ثانویاسکول پاس کرنے والے ہر طالب علم کے لیے یونیورسٹی کھلی ہوتی ہے۔ 2001ء سے لازمی فیس کا قانون لاگو ہوا ہے جس کے مطابق ہر تعلیمی سال کے لیے 363.36 یورو فی طالب علم ادا کرنے ہوتے ہیں۔ تاہم یورپی یونین کے طلبہ اس سے مستثنٰی ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.