اِمام الحافظ، اِمام جرح و تعدیل، شیخ المحدثین From Wikipedia, the free encyclopedia
یحییٰ بن معین (عربی: يحيى بن معين) مستند محدثین میں سے تھے[4] یحیی بن معین کا تعلق فارس[5] سے تھا۔
یحییٰ بن معین | |
---|---|
(عربی میں: يحيى بن معين) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 775ء [1][2][3] بغداد |
وفات | سنہ 848ء (72–73 سال)[1][2][3] بغداد |
وجہ وفات | طبعی موت |
شہریت | دولت عباسیہ |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
عملی زندگی | |
ابن حجر کی رائے | ثقہ ، امام ، الحافظ ، الشیخ ، امام الجراح و تعدیل |
ذہبی کی رائے | ثقہ ، امام ، الحافظ ، الشیخ ، امام الجراح و تعدیل |
استاد | سفیان بن عیینہ ، عبد اللہ ابن مبارک ، حسین بن علی الجعفی ، عبد الرحمن بن مہدی |
نمایاں شاگرد | احمد بن حنبل ، محمد بن اسماعیل بخاری ، ابن سعد البغدادی ، مسلم بن حجاج نیشاپور ، ابویعلیٰ الموصلی |
پیشہ | محدث |
شعبۂ عمل | روایت حدیث |
آجر | بصرہ |
درستی - ترمیم |
یہ احمد بن حنبل کے قریبی دوستوں میں سے تھے، جن کو علم اسماء الرجال کی کتابوں میں اکثر اس حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔[6] ابن حنبل کے ساتھ ساتھ، علی بن المدینی اور ابن ابی شیبہ، کے ساتھ چوتھے ابن معین ہیں جن کو علم حدیث کے میدان میں اولیت کا درجہ دیا جاتا ہے۔[7] فن حدیث کا ایک اہم شعبہ اسماء الرجال ہے، اس میں حدیث کے رواۃ پراس حدیث سے بحث ہوتی ہے کہ کون راوی قابل اعتماد ہے اور کون ناقبال اعتماد؟ راوی کی اخلاقی زندگی کیسی ہے؟ اس میں عقل وفہم کا ملکہ کس قدر ہے؟ اس کے علم اور قوت حافظہ کا کیا حال ہے؟ چونکہ ان ہی بحثوں پرحدیث کی صحت وعدم صحت کا فیصلہ ہوتا ہے اس لیے اس فن میں کلام کرنے کے یلے غیر معمولی علم و فضل اور عقل وبصیرت کے ساتھ ساتھ خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری کی بھی سخت ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کہ اگرکسی راوی کی جرح میں افراط کی گئی اور اس کی روایت ترک کردی گئی توحدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہوتی ہے اور اگر تعدیل میں تفریط کی گئی تو اقوالِ رسول میں غلط باتوں کے داخل ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحدیث وروایت کرنے والوں کی تعداد توآپ کوبیشمار ملے گی، مگرفن رجال کے جاننے والوں کی تعداد بہت کم ملے گی، یحییٰ بن معین اس فن کے امام ہی نہیں؛ بلکہ امام الائمہ سمجھے جاتے ہیں، ان کے عہد میں اس فن کے متعدد ائمہ تھے، مثلاً احمد بن حنبل، ابن مدینی، سعید القطان، ابن مہدی وغیرہ؛ مگرابن معین کوان سب بزرگوں میں ایک خاص امتیاز حاصل تھا۔ یحییٰ بن معین کے حالاتِ زندگی ان کے علم و فضل کے علاوہ اس حیثیت سے بھی قابل ذکر ہیں کہ ان کی زندگی اسلامی معاشرہ کی مساوات اور رفعت کا صحیح مرقع ہے۔
اسلامی معاشرہ میں خواہ وہ غلام ہویاآزاد ہرشخص کومساوی طور پرپروان چڑھنے اور ترقی کرنے کا موقع خالص ہوتا ہے اس لیے یحییٰ بن معین اگرچہ ایک غلام خاندان کے فرزند گھے؛ مگراسلامی معاشرہ کی مساوات پسندی نے ان کی فطری صلاحیتوں کوپورے طور پراُبھرنے کا موقع دیا یہاں تک کہ وہ بڑے بڑے آماد علمی خانوادوں کے ارباب فضل وکمال سے بھی سبقت لے گئے اور ان کی یہ غلامی ان کے اعزاز کی کسی راہ میں بھی مانع نہیں ہوئی، ایک بار کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ عرب خاندان سے ہیں؟ بڑی بے نیازی سے فرمایا کہ: میں عرب نہیں ہوں؛ بلکہ عربوں کا غلام ہوں۔ [8]
سنہ151ھ میں ولادت ہوئی، یحییٰ نام اور ابوزکریا کنیت تھی، ان کے والد کا نام معین تھا، ان کا وطن بغداد کے مضافات میں موضع نقیا میں تھا، یہ عباسی حکمران منصور کے عہد حکومت میں رے کے عامل تھے، دنیاوی اعزاز کے ساتھ انھوں نے دولت بھی کافی کمائی جوان کی وفات کے بعد یحییٰ بن معین کوترکہ میں ملی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے اپنی ساری توجہ علم حدیث کی تحصیل کی طرف مرکوز رکھی اور اُس کے لیے اپنی جان ومال کا پورا سرمایہ لگایا، خطیب بغدادی کا بیان ہے کہ اپنے والد کی تمام متروکہ رقم جس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ درہم تھی؛ انھوں نے علم حدیث پرصرف کرڈالی؛ یہاں تک کہ وہ اس قدرمفلس ہو گئے کہ پہننے کے لیے جوتے نہیں رہ گئے۔
کسی علم کے حاصل کرنے میں اس علم کے اساتذہ اور ماہرین کی صحبت اور اُن سے اکتساب فیض کوبھی بڑا دخل ہوتا ہے، یحییٰ بن معین کے شیوخِ حدیث پرنظرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس وقت کے تمام ائمہ علم وفن سے مستفید ہوئے تھے، چند مشاہیر کے نام یہاں درج کیے جاتے ہیں: عبد اللہ بن حرب، عبد اللہ بن مبارک، یحییٰ بن سعید القطان، وکیع بن جراح، عبد الرحمن بن مہدی، حفص بن غیاث، سفیان بن عیینہ، عبد الرزاق، ہشام بن یوسف وغیرہ۔
وہ صرف حدیث کے سماع پراکتفا نہیں کرتے تھے؛ بلکہ سنی ہوئی حدیثوں کولکھ لیا کرتے تھے، علی بن المدینی ذکر کرتے ہیں کہ حدیث کی جتنی کتابت یحییٰ بن معین نے کی کسی دوسرے محدث نے نہیں کی، خود ابن معین فرماتے تھے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے لاکھوں حدیثیں لکھی ہیں (بعض روایتوں میں چھ لاکھ، بعض روایتوں میں بارہ لاکھ اور بعض میں ایک لاکھ کی تعیین کی گئی ہے؛ مگراس طرح کی تعیین عموماً بالکل صحیح نہیں ہوتی، اس لیے ہم نے مجملاً لکھا ہے) پھریہی نہیں کہ سرسری طور پرجس حدیث کوسن لیتے لکھ لیتے بلکہ اس پرکافی غوروخوض کرتے، اس غوروخوض میں بعض وقت ایک ایک روایت کوپچاس پچاس مرتبہ لکھتے تھے اور اس کی وجہ یہ بیان کرتے کہ اگرہم کسی روایت کوبار بار لکھتے اور کاٹتے نہیں تواس کے مغز سخن کونہیں سمجھ پاتے [9] ابن سعد کا بیان ہے کہ یحییٰ بن معین کتابت حدیث میں معروف تھے۔
تحصیلِ علم کے بعد وہ اپنا بیشتر وقت رواۃ حدیث کی جرح و تعدیل اور متنِ حدیث کی صحت وعدمِ صحت پرغور کرنے میں صرف کرتے تھے، اس لیے خود ان کوتحدیثِ روایت کا موقع بہت کم ملتا تھا، ابن سعد کا بیان ہے کہ وہ قریب قریب حدیث کی روایت نہیں کرتے تھے [10] تاہم ان سے اہلِ علم کی ایک کثیر تعداد مستفیدہوئی، جن میں بڑے ائمہ شامل ہیں، مثلاً امام احمد بن حنبل، ابوزرعہ رازی، ابویعلی الموصلی، امام بخاری، امام مسلم اور امام ابوداؤد وغیرہ۔
حدیث نبوی کی تحدیث وروایت بڑی ذمہ داری کا کام تھا، اس لیے عہد صحابہ تک اس پرقانونی اور اخلاقی دونوں طرح کی پابندی عائد تھی، اس لیے ہرشخص اس کی جرأت نہیں کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے جب کوئی نئی حدیث بیان کی جاتی تووہ اکابر صحابہ تک سے شہادت طلب کرتے تھے، اس قانونی پابندی کے ساتھ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین تک روایتِ حدیث کی اہمتی اور اس کی ذمہ داری کا احساس بھی عام تھا، بعض جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم تک اس احساسِ ذمہ داری کی بنا پرتحدیث روایت سے گریز کرتے تھے کہ مبادا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات نہ منسوب ہوجائے (یہ احساسِ ذمہ داری اس ارشادِ نبوی کی بنا پرتھا کہ جوشخص میری طرف کوئی غلط بات منسوب کرے گا اس کا ٹھکانا جہنم ہے)۔ ان ہی اخلاقی اور قانونی بندشوں کا اثر یہ تھا کہ بہت کم لوگ روایتِ حدیث کی جرأت کرتے تھے؛ مگربعد میں نہ توقانونی گرفت باقی رہی اور نہ وہ پہلا سااخلاقی اثر ہی رہا؛ پھررواہِ حدیث کومعاشرہ میں ایک عزوشرف کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا تھا، اس لیے اہل اور صاحب کمال لوگوں کے ساتھ بہت سے نااہل بھی اس مجددشرف میں سہیم وشریک بننے کے لیے اس منصب پرمتمکن ہو گئے اور انھوں نے نہایت ہی غیر ذمہ دارانہ طور پرحدیثِ نبوی کی روایت شروع کردی، خصوصیت سے پیشہ ور واعظوں اور قصہ گویوں نے گرمئی مجلس کی خاطر نہ جانے کتنی بے سروپاروایتیں بیان کرنی شروع کر دیں، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیشمار غلط باتیں یاصحیح باتیں غلط طریقہ پررواج پاکرزبان زد خاص وعام ہوگئیں، یہ ایسا فتنہ تھا کہ اگرا سکے سدباب کی فوری طور پرفکر نہ کی جاتی تونہ جانے اس کے نتائج کتنے برے نمودار ہوتے، حکومتِ وقت اس فتنہ کوبڑی آسانی سے دباسکتی تھی؛ مگراس کواس کی بہت زیادہ فکر نہیں تھی، امت احمدیہ محدثین اور علما کے احسان سے کبھی سبکدوش نہیں ہو سکتی؛ جنھوں نے اپنی خداداد فہم وبصیرت سے اس فتنہ کی اہمت کوبروقت سمجھ لیا اور ہمت وجرأت کرکے مقابلہ کے لیے میدان میں آگئے، یہ کام پہلی صدی کے آخری ہی سے شروع ہو گیا تھا؛ مگردوسری صدی میں محدثین نے جس کے سرخیل ابن معین تھے، باقاعدہ ایک نئے فن کی بنیاد ڈال کراس فتنہ کا بڑی حد تک سدباب کر دیا؛ اسی فن کوفن اسماء الرجال کہتے ہیں، اس میں انھوں نے سند حدیث کے کچھ اصول وقوانین مرتب کیے، رواۃ کے لیے سیرت وکردار کا ایک معیار مقرر کیا، اب جولوگ اس پرپورے اُترتے تھے ان کی روایتیں قبول کی جاتی تھیں اور جولوگ اس میزان پرپورے نہیں اُترتے تھے ان کی روایتیں ردکردی جاتی تھیں
لیکن صرف اُصول وقوانین مرتب کردینے سے بھی اس فتنہ کا پورے طور پرسدباب نہیں ہو سکتا تھا، ضرورت تھی کہ ان غلط روایتوں کوجوعوام میں رواج پاچکی تھیں، ان میں سے ایک ایک روایت نیز اس کے راوی کوپرکھ کر دیکھا جائے کہ روایت کا کتنا حصہ صحیح اور کتنا غلط ہے، وہ راوی ذمہ دار ہے یاغیرذمہ دار، ظاہر بات ہے کہ یہ کام آسان نہ تھا، اس کے لیے غیر معمولی فہم وبصیرت اور قوتِ حافظہ کے علاوہ کتاب وسنت سے غیر معمولی ذوق وشغف کی بھی ضرورت تھی؛ چنانچہ خدا نے جب جن بزرگوں سے یہ کام لیا ان کوفہم وبصیر تکے ساتھ ایسا غیر معمولی حافظہ بھی بخشا تھا کہ ان کے حفظ کے واقعات سن کرحیرت ہوتی ہے ان ہی لوگوں میں ایک اہم شخصیت حضرت یحییٰ بن معین کی بھی تھی؛ انھوں نے اس سلسلہ میں جوغیرمعمولی محنت ومشقت کی ہے ا س کی تفصیل یہ ہے: انھوں نے صحیح اور عدم صحیح روایتوں کی تمیز اور رواۃ حدیث کے سیرت وکردار کے معلوم کرنے میں اپنی پوری ذہنی وعملی قوت صرف کردی تھی، وہ ایک حدیث کوپچاس پچاس بار اس لیے لکھتے تھے کہ اس کے عیوب ونقائص معلوم ہوجائیں (ایک ہی بات کوجب متعدد آدمی بیان کرتے ہیں تواس میں کچھ نہ کچھ اختلاف توضرور ہوجاتا ہے، جولوگ جتنے ذمہ دار ہوتے ہیں وہ اتنی ہی ذمہ داری سے روایت کرتے ہیں، اس لیے ہرشخص کا بیان جب سامنے آجاتا ہے توصحیح بات معلوم کرنے میں آسانی ہوتی ہے؛ اسی لیے یحییٰ بن معین یہ کرتے تھے کہ تمام روایتوں کے سلسلوں کولکھ لیتے تھے؛ پھرکتاب وسنت کی روشنی میں اپنی بصیرت سے صحیح وغلط ہونے کا فیصلہ کرتے تھے) وہ واعظوں، کاذب راویوں کی روایتوں کوبھی اس لیے لکھ لیا کرتے تھے کہ ان کی پھیلائی ہوئی غلط روایتوں کے انبار سے صحیح باتیں اخذ کرلی جائیں، خود فرماتے ہیں کہ میں کاذبین کی روایتوں کولکھ لیتا ہوں اور اُن کوتنور میں ڈال کران سے پکی پکائی روٹیاں نکال لیتا ہوں۔ [11] مقصد یہ ہے کہ روایت ودرایت کے معیار پران روایتوں کوپرکھتا ہوں، ان میں جوصحیح ہیں، انھیں لے لیتا ہوں اور جوغلط ہیں ان کی غلطی کوواضح کرکے ان کی حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت کوختم کردیتا ہوں، عجلی جوخود اس فن کے امام ہیں ان کا بیان ہے کہ ابنِ معین کے سامنے بہت سی ملتبس اور مختلط احادیث لائی جاتیں توسب کی حیثیت کوواضح کردیتے تھے۔ [12] جن روایتوں کی غلطی پربڑے بڑے ائمہ حدیث کی نظر نہیں جاتی تھی یہ یحییٰ بن معین بیک نظر ان کوپالیتے تھے، ابوسعید حداد کا بیان ہے کہ ہم لوگ جب کسی محدث کی خدمت میں جاتے توان کی کتابوں میں جواحادیث درج ہوتیں، ان کوصحیح سمجھ کر قبول کرلیتے؛ مگرجب وہی روایتیں ابنِ معین کے سامنے پیش کی جاتیں توان کی نظر فوراً غلطیوں پرپڑجاتی اور وہ غلطی اتنی باریک ہوتی تھی کہ وہ اگرتوجہ نہ دلاتے توہم کواس کا احساس بھی نہ ہوتا۔
ائمہ رجال کا کام بڑا اہم، نازک اور بڑی ذمہ داری کا ہے؛ اگروہ کہیں نقدوجرح میں افراط سے کام لیتے توایک طرف راوی پرناحق کذب بیانی اور افتراءپردازی کا الزام عائد ہوجاتا اور دوسری طرف بہت سی احادیث نبوی کی تکذیب یاکم ازکم ان کی صحت میں تشکیک پیدا ہوجاتی اور یہ دونوں باتیں دینی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں تھیں؛ اسی طرح اگرانہوں نے تعدیل وتوثیق میں نرمی اور تفریط سے کام لیا ہوتا توایک طرف بہت سے نااہلوں کوتحدیث روایت کے منصب پرمتمکن ہونے کا موقع مل جاتا تودوسری طرف ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بیشمار غلط باتوں کے شامل ہوجانے کا خطرہ تھا اور یہ دونوں باتیں دین کے حق میں مضرثابت ہوتیں؛ پھرجرح و تعدیل کی زد میں بسااوقات وہ علما ومشائخ تک آجاتے ہیں جن کی شہرت پرایک زمانہ کواعتماد ہوتا ہے، اس لیے اس منصب کے لیے جہاں غیر معمولی علم و فضل، فہم وبصیرت اور ہمت وجرأت کی ضروت تھی وہیں تقویٰ، خشیتِ الہٰی، احساسِ ذمہ داری اور بے نفسی کی بھی بہت زیادہ ضرورت تھی؛ ورنہ پھراس نازک ذمہ داری سے عہدہ برآ ہونا بہت مشکل تھا۔ امام یحییٰ بن معین میں دونوں طرح کے اوصاف بدرجۂ اتم موجود تھے، بڑے بڑے ائمہ سے بھی اگربیان ورورایت میں غلطی ہوجاتی تھی تووہ ان کی غلطی واضح کیے بغیر نہیں رہتے تھے، ابن الرومی کا بیان ہے کہ: شیوخ حدیث کے بارے میں، میں نے یحییٰ بن معین سے زیادہ حق بات کہنے والا نہیں دیکھا۔ [13] مگراس اظہارِ حق میں ذب عن حدیث الرسول کے علاوہ کوئی دوسرا نفسانی جذبہ نہیں ہوتا تھا اس لیے وہ دُعا فرماتے تھے کہ: بارِالہٰا اگرمیں نے کسی شخص کے اوپرتنقید وجرح کرکے اس کی کذب بیانی واضح کی ہو؛ مگراس میں وہ بات نہ ہوتومیری مغفرت نہ کرنا۔ [14] ظاہر ہے کہ اگروہ جرح و تعدیل میں احساسِ ذمہ داری کوپورے طور پرملحوظ نہ رکھتے توآخرت میں فلاح ومغفرت سے محروم ہوجانے کی دُعا بھی نہ کرتے؛ کیونکہ ایک مؤمن کا سب سے قیمتی سرمایہ یہی ہے، جس طرح دوسروں کی روایت قبول کرنے میں محتاط تطے؛ اسی طرح خود بھی روایت کرنے میں حددرجہ محتاط تھے، خود فرماتے ہیں کہ: میں ایک روایت بیان کردیتا ہوں؛ مگرپھراس خوف سے رات کی نیند حرام ہوجاتی ہے کہ شاید روایت میں غلطی نہ ہو گئی ہو۔ [15] فرماتے تھے کہ حدیث کے معاملہ میں آدمی کو سمح یعنی فیاض اور سیرچشم نہیں ہوگاتوکذب بیانی کرے گا، لوگوں نے پوچھا کہ حدیث میں آدمی کیسے سمح ہو؟ فرمایا کہ: إذَا شَكَّ فِي الْحَدِيثِ تَرَكَهُ۔ [16] ترجمہ: جب کسی حدیث میں شک ہو تواسے چھوڑ دے ۔ مقصد یہ ہے کہ حدیث کے قبول کرنے میں اگروہ بہت زیادہ محتاط نہیں رہے گا تواس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ نادانستہ طور پروہ بہت ہی غلط روایتوں کوصحیح سمجھ کران کی تحدیث کریگا اور اس طرح سے کذب بیانی کا مرتکب ہوجائے گا، قبولِ درایت میں حددرجہ محتاط ہونے کے باوجود کسی راوی کی کوئی غلطی دیکھتے تھے تواسے حتی الامکان چھپاتے تھے کہ وہ خود اس کومان لے؛ اگروہ نہیں مانتا تھا توپھر اس کی غلطی کوبرملا بیان کرتے تھے اور پھراس کی دوسرتی روایت قبول نہیں کرتے تھے، خود فرماتے ہیں کہ میں جب کسی شخص کی کوئی غلطی دیکھتا ہوں تواس کوپوشیدہ رکھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ حسن وخوبی سے اس کی غلطی اس پرواضح ہوجائے اور کبھی میں ایسے راوی سے ملتا ہوں جس کے چہرے سے مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی غلطی ایسی ہے جس کے اظہار کووہ پسند نہیں کرتا تومیں اس کی غلطی اس پرواضح کرتا ہوں؛ اگروہ اپنی غلطی تسلیم کرلیتا ہے تواُس کواپنے تک محدود رکھتا ہوں؛ ورنہ پھراس کومتروک قرار دیتا ہوں۔ ائمہ حدیث کی رائے ان کے ان ہی اوصاف وکمالات اور علم و فضل کی بنا پرتمام معاصر ائمہ حدیث ان کی جلالت شان کے قائل تھے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جوروایت یحییٰ بن معین کونہ معلوم ہو اس کی صحت مشکوک ہے۔ [17] ایک شخص نے احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کچھ احادیث بیان کیں اور ان سے پوچھا کہ ان میں کوئی غلطی ہو توبتادیجئے، فرمایا کہ: عَلَيْكَ بِأَبِيْ زَكرِياء فَإِنَّهُ يعْرِفُ الْخَطَأَ۔ [18] ترجمہ:ان احادیث کویحییٰ بن معین کے سامنے پیش کرو روایات کی غلطیوں کووہ خوب پہچانتے ہیں۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ یحییٰ بن معین کے ساتھ سماع حدیث کرنے میں یہ فائدہ ہوتا تھا کہ قلب میں جوکچھ خلش ہوتی تھی نکل جاتی تھی، فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی شخص پیدا کر دیا ہے جوکاذبوں کی کذب بیانی ظاہر کردیتا ہے، احم بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ غاجیت احترام میں اپنی مجلس میں اُن کے نام کی بجائے ان کی کنیت ابوزکریا سے ان کا ذکر کرتے تھے، ابوسعید حداد کہتے تھے کہ اگریحییٰ بن معین نہ ہوتے تومیں حدیث نہ لکھتا، مقصد یہ تھا کہ حدیث کی صحت اس زمانہ میں اس قدر مشتبہ ہو گئی تھی کہ صحیح اور غلط میں کوئی تمیز باقی نہیں رہ گئی تھی؛ مگریحییٰ بن معین نے اس میں حد فاصل قائم کردی ہے، اس لیے اب لکھنے میں کوئی حرج نہیں، علی بن المدینی جوخود امام جرح و تعدیل تھے فرماتے ہیں کہ میں بغداد میں چالیس سال تک مقیم تھا، اس مدت میں امام احمد سے مجھ سے برابر حدیث کا مذاکرہ ہوتا تھا، جب کسی حدیث کے بارے میں ہم دونوں میں اختلاف ہوتا تھا تواسے یحییٰ بن معین کے سامنے پیش کرتے تھے، وہ فوراً حدیث کے مالہ وماعلیہ کوبتادیتے تھے۔ [19] ان ہی کا قول ہے کہ یحییٰ بن آدم کے بعد علم کے مرکز یحییٰ بن معین ہیں، ابو عبید فرماتے تھے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، علی بن المدینی اور ابوبکر بن شیبہ اور یحییٰ بن معین پرعلم ختم ہو گیا؛ مگران چاروں میں حییٰ بن معین حدیث کی صحت وسقم کوسب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ [20] صالح بن محمد کا قول ہے کہ یحییٰ بن معین معاصر ائمہ حدیث میں سب سے زیادہ رجال سے واقف ہیں، یحییٰ بن معین نے بعض بڑے بڑے ائمہ پربھی جرح کردی ہے؛ مگراس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ ان کی جرح سے وہ ائمہ مجروح یامتروک قرار دے دیے جائیں گے؛ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اس زمانہ میں بعض ایسی احادیث رواج پاگئی تھیں کہ جوتھیں توواقعی ضعیف مگروہ چونکہ مشہور و معروف ہو گئی تھیں اور شرعی احکام کے خلاف بھی نہیں تھیں، اس لیے ان روایتوں میں بعض ائمہ نے زیادہ احتیاط نہیں کی یاانہوں نے ان کے قبول میں تسہیل سے کام لیا؛ مگرچونکہ دوسرے ائمہ کے نزدیک ان روایتوں کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف صحیح نہیں تھی اس لیے انھوں نے جرح وتنقید کرکے ان کی حیثیت کوواضح کیا اوربہرحال ائمہ بھی انسان ہی تھے معصوم نہ تھے، اس لیے ان کی اس غلطی پرجن لوگوں نے ٹوکا انھوں نے بہت ہی اہم کام انجام دیا، اس لیے کہ ان ائمہ پرجرح کرنا اس سے بہت کم درجہ کی بات تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی غلط بات منسوب ہوجائے؛ غرض یہ کہ ان پرجوجرح وتنقید کی گئی وہ اپنی جگہ صحیح تھی؛ مگراس کی وجہ سے ان کی امامت وجلالت پر کوئی حرف نہیں آتا اور نہ اس سے ان کی کوئی تنقیص ہوتی ہے اور نہ وہ متروک قرار پاتے ہیں، علامہ ابن عبد البر اور علامہ سبکی نے اس پربڑی لمبی گفتگو کی ہے یہاں ہم اس کا کچھ خلاصہ درج کرتے ہیں: جرح و تعدیل کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ جن لوگوں کی امامت وعدالت عام ہو چکی ہو اور ان کے ماوحین کی تعداد زیادہ اور جرح وقدح کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہو توایسے اشخاص پرجوجرح کی جائے گی وہ قابل التفات نہیں ہے؛ ورنہ اگریہ راستہ کھول دیا جائے توپھر ائمہ میں سے کوئی شخص بھی محفوظ نہیں رہ سکتا، محدثین کا یہ اصول کہ جرح و تعدیل پرمقدم ہے، علی الاطلاق صحیح نہیں ہے، خصوصیت سے ان لوگوں کے بارے میں جن کی امامت اور جالت علم پرایک دنیا کا اتفاق ہو، مثلاً: ابن ابی ذیب نے امام مالک پر اور ابن معین نے امام شافعی پراور امام نسائی نے احمد بن صالح وغیرہ پرجوجرح کی ہے، ظاہر ہے کہ ان ائمہ کے بارے میں یہ اُصول کہ جرح و تعدیل پرمقدم ہے؛ بالکل ہی غلط ہے ان کی طرف توجہ نہیں کی جا سکتی۔ [21]
وفات ایسی پائی کہ خدا ہرمسلمان کونصیب کرے، امام نے متعدد حج کیے تھے، حج سے فارغ ہوکرمدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام بھی ان کا معمول تھا سنہ233ھ میں آخری بار یہ موقع نصیب ہوا توحسب معمول حج سے فارغ ہوکر مدینہ منورہ کا رُخ کیا، دیارِ حبیب کی زیارت کے بعد واپس ہونا چاہتے تھے؛ مگرجوارِ نبی کا شرف ہمیشہ کے لیے ان کی قسمت میں مقدر تھا، اس لیے پھررُک گئے؛ ابھی چند ہی دن گذرے تھے کہ پیغامِ اجل آپہنچا، مدینہ میں جب آپ کے وفات کی خبر عام ہوئی توجنازہ میں شرکت کے لیے ایک مخلوق ٹوٹ پڑی۔ ، سب سے بڑی سعادت یہ نصیب ہوئی کہ آپ کا جنازہ اسی تابوت میں اُٹھایا گیا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ مبارک اُٹھایا گیا تھا، جس وقت آپ کا جنازہ اُٹھایا گیا تولوگوں کی زبان پرعام طور پریہ جملہ تھا کہ یہ اس شخص کا جنازہ ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کوکذب بیانی سے بچاتا تھا (سنہ وفات میں تو تمام اہلِ تذکرہ متفق ہیں؛ مگرعمر میں کچھ اختلاف ہے)۔ جنت البقیع جہاں ہزاروں گنج ہائے گراں مایہ مدفون تھے؛ اسی میں آپ بھی سپردِ خاک کیے گئے، رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعۃ۔ بہت سے لوگوں نے آپ کا مرثیہ کہا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.