پطرس کے مضامین
پطرس بخاری کے مزاحیہ مضامین / From Wikipedia, the free encyclopedia
مضامین پطرس سب سے پہلے 1930ء میں شائع ہوئی۔ "مضامین پطرس" گیارہ مزاحیہ مضامین پر مشتمل ہے۔ پطرس نے کتاب کے ابتداءمیں اپنے استاد پروفیسر محمد سعید کے نام انتساب کیا ہے۔ جنھوں نے اس کتاب پر نظر ثانی کی اور اسے غلطیوں سے پاک کیا۔ ایک سچے عالم اور تخلیق کار کی پہلی نشان دہی یہی ہے کہ وہ انکسار اور عاجزی کو اپنا وطیرا بنائے رکھتا ہے پطرس بڑی فراخ دلی سے اپنی کمزریوں کا اعتراف کرکے ایک عظیم انسان ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ انتساب کے بعد دیباچے سے مزاح کا باقاعدہ آغاز ہوجاتا ہے۔ اپنے دلچسپ دیباچے میں انھوں نے اختصار، حقیقت اور طنز و مزاح سبھی کچھ سمو دیا ہے دبیاچے میں پطرس کڑوی گولی شکر میں لپیٹ کر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دیباچے میں ہی خود اپنی کتاب اور اپنی ذات کو مزاح کے لیے پیش کردیتے ہیں:
![]() | اس کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
”اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے اب بہتر یہ ہے کہ آپ اسے اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کوحق بجانب ثابت کریں۔“
کتاب کے تقریباً سارے مضامین میں انھوں نے اسی روش کو برقرار رکھا ہے اور کہیں بھی کسی اور کو طنز کا نشانہ نہیں بنایا اس لیے وہ اردو ادب میں خالص مزاح نگاری کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر مضامین پطرس میں، پطرس نے انگریزی مزاح کے تقریباً سبھی حربوں سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ لیکن اُن کا پسندیدہ حربہ صورت واقعہ ہے۔ ہر مضمون اس حربے سے مزئین نظرآتا ہے مزاح میں صورت واقعہ ایک مشکل حربہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ فنکار کی ذرا سی شعوری کوشش بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے پطرس نہایت کامیاب مزاح نگار کہے جا سکتے ہیں کہ وہ کہیں بھی اپنا رشتہ قاری سے نہیں توڑتے اور ہر حربے کا استعمال خوبی اور غیر شعوری طور پر کر جاتے ہیں۔
پطرس خالص مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ فنکار بھی نظرآتے ہیں ایک خالص مزاح نگار کی حیثیت سے ہر مضمون میں مزاح کے لیے اپنی ذات کو پیش کرتے ہیں اور ایک متوازن فنکار کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے کتوں کاخوف ہو، ہاسٹل میں داخلہ ہو، سحر خیزی ہو، لیڈری میں انڈے کھانے ہوں، سینما کا عشق ہو، بیوی سے وفاداری والامعاملہ ہو، میبل سے کتاب بینی کا مقابلہ ہو۔ یا سائیکل پر سوار ہوکر گر پڑ نہ ہو وہ کہیں بھی اپنی ذات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ قاری اسے مسخرہ یا بانڈھ سمجھے۔ وہ زندگی کی ناہمواریوں کو یوں سامنے لاتے ہیں کہ قاری بھی اُسے ہمدردی سے دیکھنے لگتا ہے اور اس خوبی نے ان کی مزاح کواعلیٰ درجے کی ظرافت کا درجہ دیا ہے۔[1]