نظام الملک حیدرآباد جنہیں عموماً نظام دکن کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، 1724ء سے 1948ء تک قائم ریاست حیدرآباد کے حاکموں کو کہا جاتا تھا۔ یہ خطاب مملکت آصفیہ کے حکمرانوں کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ سطح مرتفع دکن میں یہ حکومت مغلوں کے زیر اثر مقامی نواب میر قمر الدین صدیقی نے قائم کی تھی جنھوں نے 1724ء میں آصف جاہ کا لقب اختیار کیا اور خود مختار ہو گئے۔ یہ 1707ء میں اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد تیموری سلطنت کو پہنچنے والا بہت بڑا دھچکا تھا۔
1798ء کے بعد سے ریاست حیدرآباد برطانوی ہند کے زیر اثر ریاستوں میں سے ایک تھی تاہم نظام داخلی امور خود حل کرتا تھا۔
1947ء میں تقسیم ہند تک دو صدیوں میں سات نظاموں نے حیدرآباد پر حکومت کی۔ تقریباً یہ تمام ہی آصف جاہی حکمران ادب، فن، طرز تعمیر، ثقافت، زیورات و جواہر کے بہت بڑے سرپرست و دلدادہ تھے۔
نظام حیدرآباد کی یہ حکومت 17 ستمبر 1948ء کو بھارت کی عسکری مہم کے خاتمے تک قائم رہی۔ اس کے نتیجے میں نظام کو بھارتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ اقوام متحدہ اور لندن میں حکومت برطانیہ کو بھیجے گئے وفد میں تاخیر کے باعث بھارت کی سرزمین پر اس آزاد ریاست کا وجود ختم ہو گیا۔ ابتدائی طور پر اسے ہندی اتحاد میں شامل کیا گیا اور 1956ء میں لسانی بنیادوں پر توڑ کر پڑوسی ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر میں تقسیم کر کے ختم کر دیا گیا۔
حیدراباد
حیدراباد ہندستان کی سب سے امیر اور بڑی ریاست تھی۔ اس کا کل رقبہ 82,698 مربع میل یعنی 214,190 مربع کلومیٹر تھا جس میں تقریباً 16.34 لوگ آباد تھے (بلحاظ 1941ء مردم شماری)۔ حیدراباد میں تقریباً 85 فیصد ہندو آباد تھے۔ ریاست حیدراباد کی اپنی فوج، فضائیہ، ٹیلی مواصلاتی نطام، ریل،ڈاک، کرنسی اور ریڈیو نشر و اشاعت کا انتظام تھا۔ حکومتی انتظام و انصرام، پولس اور فوج کی ہندووں کی بھی نمائندگی تھی۔[1]
تاریخ
نام
نظام اردو زبان کا لفظ ہے اور اردو زبان میں یہ لفظ عربی زبان سے آیا ہے جس کے معنی انتظام و انصرام کے ہیں۔[2] پہلی دفعہ نظام الملک خطاب کا استعمال 1960ء میں ہوا جس مے معنی ملک کا انتظام کرنے والا ہے۔
نسب اور آمد
سر روپر لیتھ برج نے اپنی کتاب دی گولڈن بک آف انڈیا (1893ء) میں لکھا ہے کہ نظام کا سلسلہ نسب پہلے خلیفہ راشد ابوبکر صدیق سے ملتا ہے۔[3] نطام حیداراباد کا خاندان سمر قند کے ترکمانی بزرگ عابد خان کی اولادیں ہیں جن کا سلسلہ نسب مشہور صوفی ابوحفص شہاب الدین سہروردی سے ملتا ہے۔ اپنے سفر حج کے دوران میں عابد خان دکن میں قیام پزیر ہوئے جہاں وہ نوجوان شاہزادہ اورنگزیب عالمگیر سے ملے جو اس وقت دکن کے گورنر تھے۔ 1657ء-58ء کی جنگ میں عابد خان اورنگزیب کے شانہ بشانہ لڑے ۔ اورنگزیب کو وہ بہت بھائے اور انھیں اپنا قریبی بنا لیا۔ ان کے بیٹے کی شادی شاہی وزیر اعظم سعد اللہ خان کی بیٹی صفیہ خانم سے ہوئی۔ زوجین سے میر قمرالدین پیدا ہوئے جو آگے چل نظام الملک آصف جاہ اول بنے۔ [4]
فہرست نظامین حیدرآباد
تصویر | خطابی نام | ذاتی نام | تاریخ پیدائش | تاریخ آغاز حکمرانی | تاریخ اختتام حکمرانی | تاریخ وفات |
---|---|---|---|---|---|---|
نظام الملک، آصف جاہ اول | میر قمر الدین خان | 20 اگست 1671ء | 31 جولائی 1720ء | 1 جون 1748ء | ||
نصیر جنگ | میر احمد علی خان | 26 فروری 1712ء | 1 جون 1748ء | 16 دسمبر 1750ء | ||
مظفر جنگ | میر ہدایت محی الدین سعد اللہ خان | ? | 16 دسمبر 1750ء | 13 فروری 1751ء | ||
صلابت جنگ | میر سعید محمد خان | 24 نومبر 1718ء | 13 فروری 1751ء | 8 جولائی 1762ء (برطرف کیا گیا) |
16 ستمبر 1763ء | |
نظام الملک، آصف جاہ دوم | میر نظام علی خان | 7 مارچ 1734ء | 8 جولائی 1762ء | 6 اگست 1803ء | ||
میر اکبر علی خان سکندر جاہ، آصف جاہ سوم | میر اکبر علی خان | 11 نومبر 1768ء | 6 اگست 1803ء | 21 مئی 1829ء | ||
نصیر الدولہ، آصف جاہ چہارم | میر فرقندہ علی خان | 25 اپریل 1794ء | 21 مئی 1829ء | 16 مئی 1857ء | ||
افضال الدولہ، آصف جاہ پنجم | میر تہنیت علی خان | 11 اکتوبر 1827ء | 16 مئی 1857ء | 26 فروری 1869ء | ||
آصف جاہ ششم | میر محبوب علی خان | 17 اگست 1866ء | 26 فروری 1869ء | 29 اگست 1911ء | ||
آصف جاہ ہفتم | نواب میر عثمان علی خان | 6 اپریل 1886ء | 29 اگست 1911ء | 17 ستمبر 1948ء (برطرف کیا گیا) |
24 فروری 1967 |
حوالہ جات
بیرونی روابط
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.