From Wikipedia, the free encyclopedia
حضرت عزیر (علیہ السلام) اسلام کے مطابق اللہ کے نبی تھے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایک سو سال بعد زندہ کیا تھا۔
ان کے والد اور سلسلہ نسب کے بعض دوسرے ناموں میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ حضرت ہارون بن عمران (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ ابن عساکر ان کے والد کا نام جروہ بتاتے ہیں اور بعض سوریق اور بعض سروخا بیان کرتے ہیں اور صحیفہ عزرا میں ہے کہ ان کا نام خلقیاہ تھا۔ [1]
عزیر (علیہ السلام) کے والد اور سلسلہ نسب کے بعض دوسرے ناموں میں مورخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ حضرت ہارون بن عمران (علیہ السلام) کی نسل سے ہیں۔ ابن عساکر ان کے والد کا نام جروہ بتاتے ہیں اور بعض سوریق اور بعض سروخا بیان کرتے ہیں اور صحیفہ عزرا میں ہے کہ ان کا نام خلقیاہ تھا۔
قرآن عزیز میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کا نام صرف ایک جگہ سورة توبہ میں مذکور ہے اور اس میں بھی صرف یہ کہا گیا ہے کہ یہود عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں جس طرح نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا مانتے ہیں۔ اس ایک جگہ کے سوا قرآن میں اور کسی مقام پر ان کا نام لے کر ان کے حالات و واقعات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللّهِ وَقَالَتْ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللّهِ ذَلِكَ قَوْلُهُم بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِؤُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُواْ مِن قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [2]
” اور یہودیوں نے کہا : عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہا ‘ مسیح اللہ کا بیٹا ہے ‘ یہ ان کی باتیں ہیں محض ان کی زبانوں سے نکالی ہوئی۔ ان لوگوں نے بھی انھی کی سی بات کہی جو اس سے پہلے کفر کی راہ اختیار کر چکے ہیں۔ ان پر اللہ کی لعنت ‘ یہ کدھر بھٹکے جا رہے ہیں۔ “
البتہ سورة بقرہ میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ ایک برگزیدہ ہستی کا اپنے گدھے پر سوار ایک ایسی بستی سے گذر ہوا جو بالکل تباہ و برباد اور کھنڈر ہو چکی تھی اور وہاں نہ کوئی مکین باقی رہا تھا اور نہ کوئی مکان ‘ مٹے ہوئے چند نقوش باقی تھے جو اس کی بربادی اور تباہی کے مرثیہ خواں تھے۔ ان بزرگ نے یہ دیکھا تو تعجب اور حیرت سے کہا کہ ایسا کھنڈر اور تباہ حال ویرانہ پھر کیسے آباد ہوگا اور یہ مردہ بستی کس طرح دوبارہ زندگی اختیار کرے گی۔ یہاں تو کوئی بھی ایسا سبب نظر نہیں آتا ؟ یہ ابھی اسی فکر میں غرق تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ ان کی روح قبض کرلی اور سو برس تک اسی حالت میں رکھا۔ یہ مدت گذر جانے کے بعد اب ان کو دوبارہ زندگی بخشی اور تب ان سے کہا : بتاؤ کتنا عرصہ اس حالت میں رہے ہو ؟ وہ جب تعجب کرنے پر موت کی آغوش میں سوئے تھے تو دن چڑھے کا وقت تھا اور جب دوبارہ زندگی پائی تو آفتاب غروب ہونے کا وقت قریب تھا۔ اس لیے انھوں نے جواب دیا : ایک دن یا اس سے بھی کم۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ایسا نہیں ہے بلکہ تم سو برس تک اسی حالت میں رہے ہو اور اب تمھارے تعجب اور حیرت کا یہ جواب ہے کہ تم ایک طرف اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ اس میں مطلق کوئی تغیر نہیں آیا اور دوسری جانب اپنے گدھے کو دیکھو کہ اس کا جسم گل سڑ کر صرف ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے اور پھر ہماری قدرت کا اندازہ کرو جس چیز کو چاہا کہ محفوظ رہے تو سو برس کے اس طویل عرصہ میں کسی بھی قسم کے موسمی تغیرات نے اثر نہ کیا اور محفوظ وسالم رہی اور جس چیز کے متعلق ارادہ کیا کہ اس کا جسم گل سڑ جائے تو وہ گل سڑ گیا اور اب تمھاری آنکھوں دیکھتے ہم اس کو دوبارہ زندگی بخش دیتے ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے کیا تاکہ ہم تم کو اور تمھارے واقعہ کو لوگوں کے لیے ” نشان “ بنادیں اور تاکہ تم یقین کے ساتھ مشاہدہ کر لو کہ خدائے تعالیٰ اس طرح مردہ کو زندگی بخش دیتا اور تباہ شدہ شے کو دوبارہ آباد کر دیتا ہے۔ چنانچہ جب اس برگزیدہ ہستی نے قدرت الٰہی کے یہ ” نشانات “ دیکھنے کے بعد شہر کی جانب نظر کی تو اس کو پہلے سے زیادہ آباد اور با رونق پایا۔ تب انھوں نے اظہار عبودیت کے بعد یہ اقرار کیا کہ بلاشبہ تیری قدرت کاملہ کے لیے یہ سب کچھ آسان ہے اور مجھ کو علم الیقین کے بعد عین الیقین کا درجہ حاصل ہو گیا :
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [3] ” اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا ‘ جس کا ایک بستی پر گذر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا اس بستی کی موت (تباہی ) کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا (آباد کرے گا) پس اللہ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سو برس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کر دیا۔ اللہ نے دریافت کیا : تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے۔ اس نے جواب دیا : ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ نے کہا : (ایسا نہیں ہے بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے پس تم اپنے کھانے پینے ( کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا ہے) اور (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لیے ” نشان “ بنائیں اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے اور آپس میں جوڑتے ہیں اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں۔ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہو گیا تو اس نے کہا : میں یقین کرتا ہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ “ ان آیات کی تفسیر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص کون تھا جس کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے جواب میں مشہور قول یہ ہے کہ یہ حضرت عزیر (علیہ السلام) تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا تھا کہ تم یروشلم جاؤ ‘ ہم اس کو دوبارہ آباد کریں گے ‘ جب یہ وہاں پہنچے اور شہر کو تباہ اور کھنڈر پایا تو بربنائے بشریت یہ کہہ اٹھے کہ اس مردہ بستی کو دوبارہ کیسے زندگی ملے گی ؟ اور ان کا یہ قول بہ شکل انکار نہیں تھا بلکہ تعجب اور حیرت کے ساتھ ان اسباب کے متلاشی تھے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کو پورا کرنے والا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو اپنے برگزیدہ بندے اور نبی کی یہ بات بھی پسند نہیں آئی کیونکہ ان کے لیے یہ کافی تھا کہ خدا نے دوبارہ اس بستی کی زندگی کا وعدہ فرما لیا ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ وہ معاملہ پیش آیا جس کا ذکر مسطورہ بالا آیات میں ہے اور جب وہ زندہ کیے گئے تو یروشلم (بیت المقدس) آباد ہو چکا تھا۔ حضرت علی ‘ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ‘ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اور قتادہ ‘ سلیمان ‘ حسن کا رجحان اسی جانب ہے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر (علیہ السلام) سے متعلق ہے۔ [4] اور وہب بن منبہ اور عبد اللہ بن عبید کا اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کا قول یہ ہے کہ یہ شخص حضرت ارمیا ( یرمیاہ) نبی تھے۔ ابن جریر طبری (علیہ السلام) نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہی قول راجح ہے۔ [5]
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: عبداللہ بن الزباری رضی اللہ عنہ(مسلمان ہونے سے پہلے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس نے کہا: آپ کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی: ﴿إِنَّكُمْ وَمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ أَنْتُمْ لَهَا وَارِدُونَ﴾اس نے کہا ابْنُ الزِّبَعْرَى: نے سورج، چاند، بادشاہی اور عزیر اور عیسیٰ ابن مریم کی عبادت کی ہے، یہ سب لوگ ہمارے معبودوں کے ساتھ آگ میں ہیں؟ تو وہ نیچے آیا : ﴿إِنَّ الَّذِينَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِنَّا الْحُسْنَى أُولَئِكَ عَنْهَا مُبْعَدُونَ﴾یعنی: عیسیٰ، عزیر، اور وہ لوگ جو نیک بندوں میں سے تھے جو خدا کی اطاعت کرتے رہے, وہ لوگوں کی وجہ سے جہنم میں داخل نہیں ہوں گے.[6]
ابن عباس کے اختیار پر، اس نے عبداللہ بن سلام سے خدا تعالیٰ کے الفاظ کے بارے میں پوچھا ﴿وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّه﴾: انہوں نے یہ کیوں کہا؟ ابن سلام نے اس سے تورات کی حفظ اور بنی اسرائیل کی کہاوت کے بارے میں بنی اسرائیل کے لیے جو کچھ لکھا تھا اس کا ذکر کیا: موسیٰ ہمارے پاس تورات کو کتاب کے علاوہ نہیں لا سکے اور عزیر اسے بغیر کسی کتاب کے ہمارے پاس لے آئے۔ ایک کتاب. ان کے گروہوں نے اسے پھینک دیا اور کہا: عزیر خدا کا بیٹا ہے۔[7]
کعب الاحبار نے کہا عزیر نے اپنے رب سے تورات حاصل کرنے کی دعا کی جیسا کہ موسیٰ پر اس کے دل میں نازل ہوا تھا، تو اللہ نے اسے ان پر نازل کیا، اور ا اس کے بعد بعض یہودیوں نے کہا: عزیر خدا کا بیٹا .[8]
وہب ابن منبیح نے کہا: ( عزیر کی کہانی مختصراً۔) عزیر ان قیدیوں میں سے ایک تھا جنہیں بخت نصر نے یروشلم سے اسیر کر لیا تھا، اس لیے وہ لیونٹ واپس آیا اور تورات کے نقصان پر رو پڑا۔ چنانچہ اس نے پیشین گوئی کی اور جب بخت نصر یروشلم میں داخل ہوا تو اس نے تورات کو جلایا اور بنی اسرائیل کو بابل لے گیا۔ پھر عزیر نے ان کو پڑھ کر سنایا اور وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ وہ خدا کا بیٹا ہے.[9]
الجاحز نے ذکر کیا کہ ان لوگوں کی باقیات کا ایک گروہ جو یہ مانتے تھے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے، وہ اس وقت بھی یمن، لیونٹ اور رومی سرزمین کے اندر موجود تھے۔ ابن حزم سے مروی ہے کہ وہ لوگ جو کہتے تھے کہ یمن میں صدوقی فرقہ ہے۔ اس کے اور اس کے ہم وطن ابن الغزیلا یہودی کے درمیان اس قسم کی بحثیں ہوئیں۔اس نے اپنی بات کا انکار کیوں نہیں کیا کہ یہودیوں کے ایک گروہ نے کہا کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے؟[10]
المقریزی نے اپنی کتاب سرمنز اینڈ کنسائیڈریشن میں ان منصوبوں اور اثرات کا ذکر کیا ہے جن میں انہوں نے مختلف ممالک کا سفر کرتے ہوئے جمع کی گئی معلومات لکھی تھیں: فلسطین کے یہودی کہتے تھے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے۔[11]
مفتی محمد رفیع العطمانی نے ذکر کیا: «، اور ہمارے کچھ قابل اعتماد بزرگوں نے مجھ سے کہا: یہ ہے: ہمارے خادم، حج امیر شاہ خان - خدا اس پر رحم کرے - اس کی تلاش میں مبالغہ آرائی کی جو اس کے زمانے کے یہودیوں نے دعوی کیا تھا یہودیوں کا یہ جملہ کہنے کے معاملے میں عزیر خدا کا بیٹا ہے اور اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی تو ہر یہودی نے اس گھناؤنے عقیدے سے انکار کیا یہاں تک کہ وہ یروشلم میں ان کے بعض علماء سے ملا اور ان سے پوچھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ ان میں ایک چھوٹا گروہ تھا جس کا دعویٰ تھا کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے اور وہ اب موجود ہیں اور ان کی تعداد دنیا میں ایک لاکھ سے زیادہ نہیں ہے، اس نے کہا: پھر میں اس گروہ کے بعض افراد سے ملا، اور میں نے انہیں دیکھا۔ ذلت اور چھوٹی سی کا خاتمہ، اور انہیں بلایا گیا: العزیریہ، اور ان میں سے ایک العزائری تھا، تو میں نے اس سے پوچھا۔ پس اس نے جو کچھ مجھے بتایا گیا اس کو تسلیم کیا اور کہا کہ ہم ایمان لائے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے جس میں کوئی شک اور ہچکچاہٹ نہیں اور اللہ ان کی باتوں سے بہت بلند ہے۔.[12]
گورڈن ڈارنل نیوبی نے تجویز کیا ہے کہ قرآنی اظہار حجاز کے یہودیوں کی طرف سے عزرا کو خدا کے بیٹوں میں سے ایک کے طور پر ممکنہ نام کی عکاسی کر سکتا ہے۔[13] اسکالر گورڈن ڈارنل نیوبی نے عزیر، فرشتہ میٹاٹرون، اور الوہیم کے بیٹے (لفظی طور پر "خدا کے بیٹے") کے موضوع پر درج ذیل کو نوٹ کیا:[14]
.. ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ محمد کے زمانے میں حجاز کے باشندے یہودیوں کے ساتھ مل کر حنوک کی تیسری کتاب کے کم از کم کچھ حصے جانتے تھے۔. وہ فرشتے جن پر میٹاٹرون حکمران بنا وہ حنوک کی روایت میں خدا کے فرزند، الوہیم کے بیٹے، مبصرین اور سیلاب کی وجوہات کے طور پر گرے ہوئے ہیں۔. حنوک کی پہلی کتاب اور عزرا کی چوتھی کتاب میں، خدا کے بیٹے کی اصطلاح کا اطلاق مسیح پر کیا جا سکتا ہے، لیکن اکثر اس کا اطلاق اچھے آدمیوں پر ہوتا ہے، جن میں ،سے یہودی روایت کا خیال ہے کہ ان سے زیادہ صالح کوئی نہیں جن میں سے یہودی روایت کا ماننا ہے کہ خدا کی طرف سے زندہ جنت میں لے جانے کے لیے چنے گئے لوگوں سے زیادہ کوئی راستباز نہیں ہے۔. پھر یہ تصور کرنا آسان ہے کہ حجاز کے یہودیوں میں جو بظاہر رتھ عزرا سے جڑی صوفیانہ قیاس آرائیوں میں اس کے ترجمے کی روایات اور اس کی تقویٰ کی وجہ سے اور خاص طور پر اس لیے کہ وہ برابر تھا۔ حنوک کو خدا کے مصنف کے طور پر، الوہیم کے بیٹوں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا جا سکتا ہے۔. یقینا، یہ یہودیوں کی طرف سے اٹھائے گئے مذہبی رہنما (قرآن کے ربیوں میں سے ایک 9:31) کی وضاحت کے مطابق ہے.
مارک لیڈزبارسکی اور مائیکل لوڈل نے بھی ایک عرب یہودی فرقے کا وجود سنبھالا جس کی عزرا کی تعظیم تقدیس کے قریب تھی.[15]
ربی ایلن مہلر نے ذکر کیا ہے کہ الترمذی مسجد میں ایک حدیث ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہودی اپنے ربیوں کی پوجا کرتے ہیں، کیونکہ وہ اس بات کو قبول کرتے ہیں جو ان کے ربی خدا کے کلام کے بارے میں کہتے ہیں۔.[16]وہ زور دے کر کہتا ہے کہ یہ سچ ہے کیونکہ آرتھوڈوکس یہودی زبانی تورات کی ربی کی تشریح کی بنیاد پر یہودیت پر عمل کرتے ہیں۔. اس نے یہ بھی حوالہ دیا کہ ابن عباس نے روایت کیا ہے کہ چار یہودیوں کا خیال تھا کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے۔.[17]
تقریباً ساتویں صدی قبل مسیح کا وسط تھا کہ بابل میں نبو کد نصر (بخت نصر) کا ظہور ہوا اور اس نے اپنی قاہرانہ اور جابرانہ طاقت سے قرب و جوار کی تمام حکومتوں کو مسخر اور زیر کر لیا اور تھوڑے عرصہ میں اس نے فلسطین پر پے بہ پے تین حملے کر کے بنی اسرائیل کو شکست فاش دے کر یروشلم اور فلسطین کے تمام علاقہ کو برباد کر ڈالا اور تمام بنی اسرائیل کو قید کر کے بھیڑ بکریوں کی طرح ہنکاتا ہوا بابل لے گیا اور توراۃ کے تمام نسخوں کو خاکستر کر دیا اور ایک نسخہ بھی اسرائیلیوں کے ہاتھ میں محفوظ باقی نہ رہا۔ جب بخت نصر اسرائیلی گھرانوں کو قید کر کے غلام بنا رہا تھا تو کسی شخص نے اس سے یہ کہا کہ یہاں ایک شخص یرمیاہ زندان میں قید ہے ‘ اس نے تیرے اس حملہ سے پہلے ان سب حالات کے متعلق پیشین گوئی کر کے بنی اسرائیل کو ڈرایا تھا ‘ مگر اس کی قوم نے اس کی بات پر کان نہ دھرا اور اس کو زندان میں ڈال دیا۔ بخت نصر نے یہ سنا تو یرمیاہ (علیہ السلام) کو قید خانہ سے باہر نکالا اور ان سے بات چیت کرتا رہا۔ یرمیاہ (علیہ السلام) کی علم و دانش سے معمور گفتگو سن کر اس نے خواہش کی کہ وہ بھی اس کے ساتھ بابل چلیں وہ ان کو احترام سے رکھے گا مگر حضرت یرمیاہ نے یہ کہہ کر اس کی خواہش کو رد کر دیا کہ جبکہ میری قوم اس ذلت کے ساتھ بابل جارہی ہو ‘ میں اس عزت کے مقابلہ میں اپنی موجودہ حالت کو ترجیح دیتا ہوں۔ [18]
چنانچہ انھوں نے یروشلم سے دور کسی جنگل میں بود و ماند اختیار کرلی اور یرمیاہ نبی کے صحیفہ میں ہے کہ انھوں نے وہیں بیٹھ کر بابل میں اسرائیلیوں کو یہ پیشین گوئی تحریر کے ذریعہ پہنچائی تھی کہ بنی اسرائیل ستر سال بابل میں اس ذلت و خواری کے ساتھ غلام رہیں گے اور اس کے بعد وہ پھر اپنے وطن میں آکر بسیں گے۔ [19] چنانچہ بخت نصر کی ہلاکت کے عرصہ دراز کے بعد جب تقریباً 539 ق م میں فارس کے بادشاہ سائرس (کیخسرو) نے بابل کے بادشاہ بیل شاہ زار کو شکست دے کر فارس کو اس کے بے پناہ مظالم سے نجات دلائی تو اسی زمانہ میں اس نے بنی اسرائیل کو بھی آزاد کیا اور یروشلم اور ہیکل کی تعمیر کے لیے ان کو اجازت دی۔ شاہ خورش (کیخسرو) فتح بابل کے بعد تقریباً دس برس اور زندہ رہا اور اسی دوران میں بنی اسرائیل آزاد ہو کر بیت المقدس کی تعمیر میں مشغول ہوئے مگر جیسا کہ عزرا کے صحیفہ سے معلوم ہوتا ہے یہ تعمیر اس کی زندگی میں مکمل نہیں ہو سکی اور درمیان میں بعض افسروں نے ایسی دراندازیاں کیں کہ دو مرتبہ اسرائیلیوں کو اس کی تعمیر کچھ مدت کے لیے روک دینی پڑی اور کیخسرو کے بعد دارا اور دارا کے بعد ارد شیر کے زمانے میں جاکر وہ اس کو دوبارہ مکمل کرسکے ١ ؎ اور یروشلم (بیت المقدس) پھر ایک مرتبہ پہلے سے زیادہ بارونق شہر نظر آنے لگا۔ ان تمام تفصیلات کا حاصل یہ ہے کہ بخت نصر کے یروشلم کو تباہ کرنے اور کیخسرو سے لے کر ارد شیر کے زمانے تک دوبارہ اس کے مکمل آباد ہوجانے کے درمیان جو ایک طویل مدت ہے وہی وہ وقفہ ہے جس پر یرمیاہ (علیہ السلام) کو وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر سورة بقرہ کی آیات میں کیا گیا ہے۔ قرائن سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ یرمیاہ (علیہ السلام) نے بخت نصر کے ساتھ بابل جانے سے انکار کر دیا اور وہ بیت المقدس کی اس تباہ حالی سے گھبرا کر دور کسی جنگل میں گوشہ گیر ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بذریعہ وحی یہ حکم دیا ہوگا کہ وہ اس ویرانہ میں جا کر رہیں جو آج اگرچہ بنی اسرائیل کی تباہ کاریوں کی بدولت تباہ حال ہے مگر ہمیشہ سے نبیوں کی مقدس سرزمین رہا ہے اور یہ کہ ہم دوبارہ اس کو آباد کریں گے اور جب حضرت یرمیاہ (علیہ السلام) خدا کے حکم سے وہاں پہنچے اور ان کی نگاہ میں اس کی بربادی کا پورا نقشہ پھر گیا تو انھوں نے حسرت و افسوس اور تعجب و حیرت کے ساتھ دل میں یا زبان سے کہا ہوگا کہ کون سے ایسے اسباب پیدا ہوں گے جن کے ذریعہ خدائے تعالیٰ اس مردہ بستی کو دوبارہ زندگی بخشے گا اور پھر وہ سب کچھ پیش آیا جو زیر بحث آیات میں مذکور ہے اور اگر ہم اس پر یہ اور اضافہ کر دیں تو بے جا نہ ہوگا کہ خدا کی حکمت و مصلحت کا یہ تقاضا ہوا کہ جبکہ ابھی یروشلم کی دوبارہ زندگی اور آبادی میں طویل مدت باقی ہے اور یرمیاہ (علیہ السلام) قوم سے الگ اس ویرانہ میں رہیں گے تو یہ ان کی زندگی کے لیے ناقابل برداشت سانحہ ہوگا ‘ لہٰذا رحمتِ حق نے ان کے اس متعجبانہ سوال کو بہانہ بنا کر اس عرصہ کے لیے ان کو موت کی آغوش میں سلا دیا اور اس وقت بیدار کیا جب کہ یروشلم پہلے کی طرح خوب آباد اور بارونق ہو چکا تھا۔ واقعات وحادثات کی اس پوری مدت میں حضرت یرمیاہ (علیہ السلام) کی عمر کا تخمینہ تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوتا ہے اور یہ مدت اس زمانہ کی عمر طبعی کے لحاظ سے کوئی تعجب خیز نہیں ہے۔ اس تحقیق کی تائید حضرت یسعیاہ (علیہ السلام) کی اس پیشین گوئی سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے سائرس نجات دہندہ بنی اسرائیل کے متعلق ڈیڑھ سو سال قبل کی تھی ‘ ٢ ؎ اس لیے کہ یسعیاہ (علیہ السلام) نبی کے انتقال سے متصل ہی یرمیاہ (علیہ السلام) کا ظہور ہوا۔ لہٰذا نجات بنی اسرائیل کی درمیانی مدت کا معاملہ انھی کے ساتھ پیش آسکتا ہے۔ [20] اس کے برعکس حضرت عزیر (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے متعلق جو تفصیلات توراۃ اور اسرائیلیات میں منقول ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بابل کی اسارت کے زمانہ میں وہ صغیر سن تھے اور اسرائیلیوں کے ساتھ بابل ہی میں رہے اور چالیس سال کی عمر میں ” فقیہ “ تسلیم کر لیے گئے اور وہیں منصب نبوت سے سرفراز ہوئے اور یروشلم کی تعمیر میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے خلاف دارا اور ارد شیر کے درباروں میں جس وفد نے کوششیں کیں ان میں بھی یہی پیش پیش رہے ہیں اور توراۃ کے ناپید ہوجانے کے بعد یروشلم میں اس کی تجدید انھی کے فیضان نبوت کا اثر تھا۔ غرض بنی اسرائیل کی اسیری بابل سے لے کر رہائی اور تعمیر و آبادی بیت المقدس تک کی درمیانی مدت میں حضرت عزیر (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ یہ ہیں وہ شواہد و قرائن جن کی وجہ سے ہم نے مفسرین کے راجح قول کو مرجوح اور مرجوح قول کو راجح کہنے کی جسارت کی ہے۔ واللّٰہ اعلم بحقیقۃ الحال۔
مسطورہ بالا ہر دو اقوال کے علاوہ ان آیات کے مصداق متعین کرنے میں بعض اور بھی اقوال ہیں ‘ مثلاً حزقیل (علیہ السلام) یا بنی اسرائیل میں سے کوئی غیر معلوم شخص۔ [21]
سورة کہف کے تفسیری فوائد سپرد قلم کرتے ہوئے مولانا آزاد نے ایک جگہ سورة بقرہ کے اس واقعہ کو حضرت حزقیل (علیہ السلام) کا مکاشفہ قرار دیا ہے جو صحیفہ حزقیل میں قریب قریب اسی طرح مذکور ہے۔ [22] ہم کو سخت تعجب ہے اور حیرت بھی کہ جب قرآن عزیز نے اس واقعہ کو صاف اور صریح طریقہ پر ایک شخص کے متعلق یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک معین مدت کے لیے موت کی آغوش میں سلا دیا اور پھر زندہ کر کے اس سے موت کی مدت کے بارے میں سوال کیا۔ جب وہ صحیح جواب نہ دے سکا تو خود اس کی تصحیح فرمائی اور اس سے متعلق شواہد کا مشاہدہ کرایا تو کس طرح مولانا آزاد نے حزقیل کے مکاشفہ کو اس واقعہ کی تفسیر یا تاویل قرار دیا ؟ غور کیجئے کہ ایک برگزیدہ ہستی کا ایک ایسی کھنڈر اور ویران بستی پر گذر ہوا جو کبھی بہت ہی بارونق آباد بستی تھی اور جہاں لاکھوں انسان بس رہے تھے { اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّ ھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا } [23] اس نے یہ دیکھا تو دل میں یہ سوچا یا زبان سے کہا کہ نہ معلوم کس طرح یہ مردہ بستی پھر زندہ ہوگی ۔ { قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا } [24] تب اللہ تعالیٰ نے اسی جگہ اس کی روح قبض کرلی اور سوبرس تک اسی حالت میں رکھ کر دوبارہ زندہ کر دیا { فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ } [25] اور زندگی بخشنے کے بعد اس ہستی سے دریافت فرمایا : بتاؤ تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے ؟ برگزیدہ ہستی نے جواب دیا : ایک دن یا دن کا بعض حصہ ۔ { قَالَ کَمْ لَبِثْتَط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ } [26] چونکہ جواب غلط تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی اصلاح اور حقیقت حال کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا : نہیں بلکہ سوبرس تک موت کی آغوش میں سوتے رہے ہو ۔ { قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ } [27] اور پھر اپنی قدرت کاملہ کے تصرفات کا مشاہدہ کرایا کہ ایک جانب اس طویل مدت کے باوجود کھانے پینے کی تمام چیزیں ترو تازہ اور موسمی اثرات سے محفوظ تھیں اور دوسری جانب ان کی سواری کا گدھا گل سڑ کر بوسیدہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیا تھا : { فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ } [28] اور پھر فرمایا کہ ہم نے یہ سب کچھ اس لیے کیا کہ تم کو دوسروں کے لیے اپنی قدرت کاملہ کا ایک ” نشان “ بنادیں { وَ لِنَجْعَلَکَ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ } [29] پھر ان تمام باتوں کے بعد اس بزرگ ہستی کو مشاہدہ کرایا کہ کس طرح ہڈیوں نے آپس میں ترتیب پائی پھر ان پر گوشت چڑھا اور پھر چمڑا اور ان کا گدھا زندہ کھڑا ہو گیا { وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْمًا } [30] یہ سب کچھ دیکھ لینے اور مشاہدہ کرلینے کے بعد جب علم الیقین نے عین الیقین کا درجہ حاصل کر لیا تو فوراً اس برگزیدہ ہستی نے اعتراف کیا کہ بیشک خدا کی قدرت کاملہ کے لیے اسباب و وسائل کی حاجت نہیں۔ وہ جس طرح چاہے بے روک ٹوک تصرف کرے کوئی اس کے لیے مانع نہیں ہے : { فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗلا قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} [31] اب ان صاف اور واضح آیات پر دوبارہ غور کیجئے اور سوچیئے کہ قرآن عزیز نے اس واقعہ کو ایک ” حقیقی واقعہ “ کی حیثیت سے بیان کیا ہے یا مجاز کے طور پر ایک ” مکاشفہ “ کی شکل میں ؟ نیز کیا حزقیل (علیہ السلام) کے مکاشفہ اور ان آیات میں ذکر کردہ واقعہ کے درمیان مشابہت کی وجہ سے دونوں کو ایک بتانا کسی طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ نہیں ہرگز نہیں۔ پس بلاشبہ مولانا آزاد کی یہ تاویل ” تاویل باطل “ ہے۔ البتہ یہ کہنا صحیح ہو سکتا ہے کہ اگر حضرت یرمیاہ (علیہ السلام) کو یہ واقعہ پیش آیا تو اس کے قریب قریب حضرت حزقیل (علیہ السلام) کا ایک مکاشفہ بھی ہے جو مجموعہ توراۃ کے صحیفہ حزقیل (علیہ السلام) میں مذکور ہے اس مکاشفہ میں انھوں نے بنی اسرائیل کی سوکھی ہوئی ہڈیوں کو دوبارہ زندہ ہوتے ہوئے دیکھا اور خدائے تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ اس سے یہ مراد ہے کہ بنی اسرائیل اب ناامید ہو چکے ہیں کہ ہم اس بربادی کے بعد کبھی یروشلم میں دوبارہ آباد ہوں گے مگر ہم تیرے ذریعہ سے ان کو خبردار کرتے ہیں کہ خدا کا فیصلہ ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ [32]
گذشتہ سطور میں آچکا ہے کہ جب بخت نصر نے بیت المقدس کو تباہ کر ڈالا اور بنی اسرائیل کے مردوں ‘ عورتوں اور بچوں کو بھیڑوں کی طرح ہنکا کرلے چلا تو توراۃ کے تمام نسخوں کو بھی جلا کر خاک کر دیا تھا اور بنی اسرائیل کے پاس نہ توراۃ کا کوئی نسخہ باقی بچا تھا اور نہ کوئی حافظ تھا جس کو اول سے آخر تک توراۃ محفوظ ہو۔ اسیری کے پورے دور میں وہ توراۃ سے قطعاً محروم ہو چکے تھے لیکن جب عرصہ دراز کے بعد ان کو بابل کی اسیری سے نجات ملی اور وہ بیت المقدس (یروشلم) میں دوبارہ آباد ہوئے تو اب ان کو یہ فکر ہوئی کہ خدا کی کتاب توراۃ کو کسی طرح حاصل کریں تب حضرت عزیر (علیہ السلام) (عزراہ) نبی نے سب اسرائیلیوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے توراۃ کو اول سے آخر تک پڑھا اور تحریر کرایا۔ بعض اسرائیلی روایات میں ہے جس وقت انھوں نے بنی اسرائیل کو جمع کیا تو سب کی موجودگی میں آسمان سے چمکتے ہوئے دو (شہاب) اترے اور عزیر (علیہ السلام) کے سینے میں سما گئے تب حضرت عزیر (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کو از سر نو توراۃ مرتب کر کے عطا فرمائی۔ چنانچہ جب حضرت عزیر (علیہ السلام) اس اہم کام سے فارغ ہوئے تو بنی اسرائیل نے نہایت مسرت کا اظہار کیا اور ان کے قلو ب میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کی قدرو منزلت سو گنا بڑھ گئی اور آہستہ آہستہ اس محبت نے گمرا ہی کی شکل اختیار کرلی کہ انھوں نے عزیر (علیہ السلام) کو اسی طرح خدا کا بیٹا مان لیا جس طرح نصاریٰ عیسیٰ (علیہ السلام) کو ابن اللہ تسلیم کرتے ہیں۔ اور بنی اسرائیل کی ایک جماعت نے اس عقیدے کے لیے یہ دلیل قائم کرلی کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ہمیں توراۃ لا کردی تھی تو الواح پر لکھی تھی مگر عزیر (علیہ السلام) نے تو کسی لوح یا قرطاس پر مکتوب لا کردینے کی بجائے حرف بحرف اپنے سینے کی لوح سے اس کو ہمارے سامنے نقل کر دیا اور عزیر (علیہ السلام) میں یہ قدرت جبھی ہوئی کہ وہ خدا کا بیٹا ہے۔ ٢ ؎ (العیاذ باللّٰہ) { سُبْحٰنَکَ ہٰذَا بُہْتَانٌ عَظِیْمٌ} [33] [34] [35]
قرآن عزیز کے اس اعلان پر کہ عزیر (علیہ السلام) کو یہود خدا کا بیٹا کہتے ہیں آج کے بعض یہودی عالم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو عزیر (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے اس لیے قرآن کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ مزید یہ کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے یہ بات نہ یہودیوں کی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے تھے۔ نہ آج کل کے یہودی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہودیوں کا کبھی یہ عقیدہ ہے۔
مگر یہ واضح رہے کہ جن روایات میں حضرت عزیر (علیہ السلام) کو آیات مسطورہ بالا کا مصداق قرار دیا گیا ہے ان میں یہ بھی تصریح ہے کہ عزیر (علیہ السلام) نبی نہیں تھے بلکہ مرد صالح تھے حالانکہ جمہور کا قول یہ ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) نبی تھے اور قرآن عزیز نے بھی جس انداز اور اسلوب سے ان کا ذکر کیا ہے وہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے کہ وہ خدا کے پیغمبر ہیں اور گمراہ یہودیوں نے ان کو اسی طرح ابن اللہ بنالیا جس طرح نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو۔ نیز توراۃ بھی ان کے نبی ہونے کا اقرار کرتی ہے۔ علاوہ ازیں جو حضرات ایک طرف سورة بقرہ کی زیر بحث آیات کا مصداق عزیر (علیہ السلام) کو بتاتے ہیں اور دوسری جانب ان کے نبی ہونے کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے یہ بات قابل توجہ ہے کہ بقرہ کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بلا واسطہ خطاب فرمایا ہے اور ان سے ہم کلام ہوا ہے اور یہ ان کے نبی ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ بہرحال عزیر (علیہ السلام) کے نبی ہونے کے متعلق دو قول ہیں اور راجح قول یہی ہے کہ وہ بلاشبہ خدا کے پیغمبر ہیں۔
ابن کثیر نے وہب بن منبہ ‘ کعب احبار اور عبداللہ بن سلام ؓ سے عزیر (علیہ السلام) کے متعلق جو طویل روایت نقل کی ہے اس میں ہے کہ عزیر (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل کے لیے توراۃ کی تجدید عراق کے اندر دیر حزقیل میں کی تھی اور اسی نواح کے ایک قریہ سائر آباد میں ان کی وفات ہوئی۔ اور دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ بعض آثار میں موجود ہے کہ ان کی قبر دمشق میں ہے۔ [39]
حضرت عزیر (علیہ السلام) کے واقعات کو جو حضرات قصہ کہانی کی بجائے تاریخی حقائق سمجھتے ہیں وہ بلاشبہ اس سے بہت اہم نتائج اخذ کرسکتے ہیں اور کیا عجب ہے کہ وہ حسب ذیل بصائر و عبر کو بھی اسی سلسلہ کی کڑی سمجھیں :
انسان کتنا ہی معراج ، ترقی اور بام رفعت پر پہنچ جائے اور خدائے تعالیٰ کے ساتھ اس کو زیادہ سے زیادہ بھی قرب حاصل ہوجائے تب بھی وہ خدا کا بندہ ہی رہتا ہے اور کسی بھی مقام بلند پر پہنچ کر وہ خدا یا خدا کا بیٹا نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس وحدہ لاشریک لہ باپ اور بیٹے کی نسبتوں سے پاک اور وراء الوراء ہے لہٰذا یہ انسان کی سب سے بڑی گمراہی ہے کہ وہ جب کسی برگزیدہ انسان سے ایسے امور صادر ہوتے دیکھتا ہے جو عام
طور پر عقل کے نزدیک حیرت زا اور تعجب خیز ہوں تو وہ رعب یا انتہائے عقیدت کی وجہ سے پکاراٹھتا ہے کہ یہ ہستی تو خدا کا اوتار (خدا بشکل انسان) یا اس کا بیٹا ہے اور وہ یہ نہیں سوچتا کہ بلاشبہ ان واقعات کا صدور خدا کی طاقت کے ذریعہ بطور ”نشان “ اس کے ہاتھوں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود نہ خدا ہے اور نہ خدا کا بیٹا بلکہ اس کا ایک مقرب بندہ ہے اور یہ امور خدا کے خاص قوانین کے ماتحت محض اس کی تائید اور اس کی صداقت کے لیے ظاہر ہوتے ہیں ورنہ تو یہ بھی خدا کے سامنے اسی طرح مجبور ہے جس طرح دوسری مخلوق۔ چنانچہ قرآن عزیز نے جگہ جگہ اس حقیقت کو واضح کر کے انسان کو اس گمراہ کن عقیدت سے سختی کے ساتھ باز رکھا ہے۔
1 اللہ تعالیٰ نے سورة بقرہ کے اس واقعہ کو ابراہیم (علیہ السلام) کے اس واقعہ سے متصل بیان فرمایا ہے جس میں مذکور ہے کہ انھوں نے بھی ایک مرتبہ خدائے تعالیٰ سے یہ دریافت کیا تھا کہ مجھ کو یہ بتا کہ تو کس طرح مردہ میں جان ڈال دیتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سوال کیا کہ ابراہیم ! کیا تم اس مسئلہ پر ایمان نہیں رکھتے ؟ تب ابراہیم (علیہ السلام) نے جواب میں عرض کیا : خدایا ! میں بیشک اس پر ایمان رکھتا ہوں کہ تو مردہ کو زندہ کردیتا ہے مگر میرے سوال کا مقصد قلبی اطمینان حاصل کرنا ہے
تو اللہ تعالیٰ نے پہلے واقعہ کو اس واقعہ کے ساتھ اس غرض سے بیان فرمایا ہے تاکہ یہ مسئلہ واضح اور روشن ہوجائے کہ انبیا (علیہم السلام) کی جانب سے ان سوالات کا پیش آنا اس لیے نہیں ہوتا کہ وہ احیائے موتیٰ کے بارے میں شک رکھتے اور اس کو دور کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان کے استفسارکا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ان کو اس کے بارے میں جو علم الیقین حاصل ہے وہ عین الیقین ١ ؎ اور حق الیقین کے درجہ تک پہنچ جائے یعنی وہ جس طرح دل سے اس پر یقین رکھتے ہیں اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ آنکھوں سے بھی مشاہدہ کر لیں کیونکہ وہ مخلوق خدا کی رشد و ہدایت پر مامور ہونے کی وجہ سے جن ذمہ داریوں کے حامل ہیں ان کی تبلیغ و دعوت کو با حسن وجوہ انجام دے سکیں اور یقین کا کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ ایسا باقی نہ رہے جو ان کو حاصل نہ ہو۔
2 دنیا دارالعمل ہے اور دارالجزاء ‘ ایک دوسرا عالم ہے جس کو دار آخرت کہا جاتا ہے لیکن عادت اللہ یہ جاری ہے کہ ظلم اور کبر دو ایسے عمل ہیں کہ ظالم اور متکبر کو اس دنیا میں بھی ضرور ذلت و رسوائی کا پھل چکھاتے ہیں خصوصاً جبکہ یہ دونوں اعمال بد افراد کی جگہ قوموں کا مزاج بن جائیں اور ان کی طبیعت کا جزو ہوجائیں۔
{ قُلْ سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ } [40]
لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ قوموں کی اجتماعی حیات کی بقا و فنا کی عمر انفرادی زندگی سے جدا ہوتی ہے اس لیے ان کے پاداش عمل کی تاخیر سے کبھی باہمت اور صاحب استقلال انسان کو گھبرانا اور مایوس ہونا نہیں چاہیے اس لیے کہ خدا کا بنایا ہوا قانون ” پاداش عمل “ اپنے معین وقت سے ٹل نہیں سکتا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.