عرفجہ بن ہرثمہ بارقی
From Wikipedia, the free encyclopedia
عرفجہ بن ہرثمہ بن عبد العزی بن زہیر بن ثعلبہ بارقی، مشہور صحابی اور خلافت راشدہ کے عسکری قائد، امیر، سیاسی شخصیت اور والی تھے، ایران و عراق میں ساسانی سلطنت کے خلاف ان کے معرکے اور فوجی حملے ان کے نمایاں کارناموں میں سے ہے۔[1]
| ||||
---|---|---|---|---|
معلومات شخصیت | ||||
پیدائش | سنہ 592ء بارق | |||
وفات | سنہ 654ء (61–62 سال) موصل | |||
عملی زندگی | ||||
پیشہ | عسکری قائد | |||
عسکری خدمات | ||||
وفاداری | خلافت راشدہ | |||
شاخ | ابوبکر وعمر وعثمان کے زمانے میں اسلامی فوج. | |||
عہدہ | کمانڈر | |||
کمانڈر | فتنہ ارتداد کی جنگیں، فارس کی مسلم فتوحات | |||
درستی - ترمیم |
عرفجہ بن ہرثمہ بارقی کا شمار عرب کے مشہور بہادروں اور جنگی تجربہ کاروں میں شمار ہوتا تھا، صائب الرائے قائد تھے، بہادر جلیل القدر صحابہ میں شمار ہوتا تھا، خلیفہ اول ابوبکر صدیق نے مرتدین کے خلاف جنگ کے لیے جن گیارہ اصحاب کو منتخب کیا تھا اور جن کے ہاتھوں میں جھنڈا دیا تھا ان میں سے ایک تھے۔[2] اسی طرح فارس میں پہلے اسلامی مجاہد اور پہلے سمندری محاذ کے غازی ہیں۔[3][4]
بویب، بصرہ، آبلہ، قادسیہ اور مدائن کے معرکوں میں امیر اور قائد تھے،[5][6] اسی طرح تکریت اور موصل کی فتح میں بھی گھڑسواروں کی قیادت انھیں کے ہاتھ میں تھی اور موصل و نینوا کی فتح کے بعد وہاں کے والی بھی مقرر ہوئے تھے۔[7] پھر عمر بن خطاب نے انھیں عتبہ بن غزوان کے جنوب عراق بھیج دیا اور وہاں بصرہ شہر قائم کرنے اور اس میں عرب مجاہدین کو بسانے کی ذمہ داری دی۔[8] پھر وہاں سے عتبہ بن غزوان نے انھیں فارس میں علاء الحضرمی کی فوج کے محاصرہ کو ختم کرنے کے بصرہ کے فوج کا قائد بنا کر بھیجا، اسی طرح عمر بن خطاب نے ہرمزان نے جنگ کا بھی حکم دیا تھا، چنانچہ اہواز میں فوجی چڑھائی کی اور تستر تک بڑھتے چلے گئے، ہرمزان کو شکست بھی دی۔[7]
عمر بن خطاب نے انھیں موصل کی ولایت کا امیر مقرر کیا تھا اور اپنی وفات سنہ 34ھ تک وہاں کے والی رہے۔[9] شہر بسانے اور آباد کاری میں مشہور تھے، انھیں کے موصل کو بسایا گیا اور انھوں نے ہی وہاں عرب قبائل کے بسنے کے لیے منصوبہ اور نقشہ تیار کیا تھا، ایک جامع مسجد بھی بنائی تھی۔[10] پھر دریائے دجلہ کے مشرق میں نیا موصل شہر بسایا، وہاں قلعہ تعمیر کیا اور ہزاروں فوجیوں کو بسایا۔ موصل کے لوگ انھیں ان کی حسن انتظام، عدل اور دوسرے انتظامی کاموں کی وجہ سے بہت پسند کرتے تھے، مؤرخین انھیں "موصل میں اسلامی عہد کا بانی" شمار کرتے ہیں۔[11]