From Wikipedia, the free encyclopedia
پروفیسر ستیندرا ناتھ بوس ایک بنگالی ریاضیاتی طبیعیات دان تھے جنھیں لندن کی رائل سوسائٹی سے فیلو Fellow of the Royal Society[11] کا اعزاز ملا تھا۔
ستیندرناتھ بوس | |
---|---|
(بنگالی میں: সত্যেন্দ্রনাথ) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جنوری 1894ء [1][2][3][4][5][6][7] کولکاتا [8] |
وفات | 4 فروری 1974ء (80 سال)[3][4][5][6][7] کولکاتا |
رہائش | ہندوستان |
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) بھارت (26 جنوری 1950–) |
مذہب | ہندو مت |
رکن | رائل سوسائٹی ، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی |
عملی زندگی | |
مقام_تدریس | یونیورسٹی آف کلکتہ اور یونیورسٹی آف ڈھاکہ |
مادر علمی | پریزیڈنسی یونیورسٹی، کولکاتا (1909–1915) |
استاذ | جگدیش چندر بوس |
تلمیذ خاص | اسیما چٹرجی |
پیشہ | طبیعیات دان ، ریاضی دان ، سیاست دان ، استاد جامعہ |
پیشہ ورانہ زبان | بنگلہ ، انگریزی [9]، جرمن ، فرانسیسی ، سنسکرت |
شعبۂ عمل | ریاضیاتی طبیعیات |
ملازمت | جامعہ ڈھاکہ ، جامعہ کلکتہ |
کارہائے نمایاں | بوسون |
مؤثر | آئن سٹائن |
اعزازات | |
نامزدگیاں | |
نوبل انعام برائے طبیعیات (1962)[10] نوبل انعام برائے طبیعیات (1959)[10] نوبل انعام برائے طبیعیات (1956)[10] | |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
وہ پہلی جنوری، 1894ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے تھے۔ 1920ء کی دہائی میں ان کے کیے ہوئے کام سے کوانٹم میکینکس بنانے میں بڑی مدد ملی اور Bose–Einstein Statistics اور Bose–Einstein Condensate کی بنیاد پڑی۔
1913ء میں انھوں نے۔B.Sc اور 1915ء میں۔M.Sc کے امتحان میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ۔M.Sc میں ان کے حاصل کردہ نمبروں کا ریکارڈ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا ہے۔
1918ء سے 1924ء کے درمیان میں بوس نے نظریاتی طبیعیات اور ریاضیات پر کئی مقالے لکھے۔ انھوں نے کلاسیکل طبیعیات کو نظر انداز کرتے ہوئے Planck's Quantum Radiation Law پر ایک مقالہ لکھا جس پر انھیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے مایوس ہو کر انھوں نے اپنا مقالہ آئین سٹائین کو بھیجا۔ آئین سٹائین اس مقالے کی اہمیت سمجھ گئے اور انھوں نے خود ست یندرا ناتھ بوس کے مقالہ کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور بوس کی طرف سے اسے چھپنے کے لیے بھیجا۔ یہ مقالہ جرمنی کے مشہور جرنل Zeitschrift für Physik میں چھپ گیا۔ اس کے بعد بوس کو یورپ کی تجربہ گاہوں میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں انھوں نے لوئی ڈی بروگلی، مادام کیوری اور آئین سٹائین کے ساتھ کام کیا۔
بوس کو خود کبھی نوبل انعام نہیں ملا کیونکہ نوبل انعام زندگی میں ہی دیا جا سکتا ہے اور مرنے کے بعد نہیں۔ لیکن بوسون، Bose–Einstein Statistics اور Bose–Einstein Condensate سے متعلق تصورات پر کئی نوبل انعام دیے جا چکے ہیں۔
بوسون نامی ایٹمی ذرے کا نام ستیندر ناتھ بوس کے نام پر ہی رکھا گیا ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.