بھگود گیتا
From Wikipedia, the free encyclopedia
بھگود گیتا یا شریمد بھگود گیتا (ہندی: श्रीमद्भगवद्गीता، لفظی ترجمہ: الوہی نغمہ) ہندو مت کا سب سے مقدس الہامی صحیفہ ہے۔ اٹھارہ ابواب اور سات سو شلوک پر مشتمل یہ کتاب دراصل مہا بھارت کے باب 23 تا 40 کا حصہ ہے۔
مہا بھارت کی مشہور جنگ میں جب کورو اور پانڈؤ اپنی اپنی فوج لے کر آمنے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں تو [[پانڈؤ] سپاہ سالار ارجن مخالف فوج پر ایک نگاہ ڈالتا ہے جہاں اسے اپنے بھائی بند اور عزیز و اقارب صف آراء نظر آتے ہیں۔ اپنے دادا، چچا، استاد اور دیگر قابلِ احترام ہستیوں کو مدِّ مقابل دیکھ کر ارجن جذباتی ہو جاتا ہے اور اپنے رتھ بان کرشن جی سے کہتا ہے کہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کے خون سے ہم ہاتھ کیسے رنگ سکتے ہیں۔ میں اس جنگ میں حصّہ نہیں لے سکتا۔ کرشن جی جواب دیتے ہیں کہ ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دینا ہمارا فرض ہے اور فرض میں کوتاہی نہیں کی جا سکتی۔ دونوں کا مکالمہ جاری رہتا ہے اور بالآخر ارجن جنگ پہ راضی ہو جاتا ہے اور اس بے جگری سے لڑتا ہے کہ ظالم کورؤں کو شکستِ فاش ہو جاتی ہے۔ کرشن جی اور ارجن کا یہ طویل مکالمہ ہی اصل میں بھگوت گیتا کا متن ہے۔ سنسکرت کی اس نظم کو ہندو دھرم میں ایک بنیادی صحیفے کا درجہ حاصل ہے لیکن ترجموں کے ذریعے اس کا متن دنیا کے ہر کونے میں پہنچا اور اس کے مداحوں میں بلا تفریقِ مذہب و ملت ہر قوم کے لوگ شامل ہیں۔ گیتا کے دنیا کی ہر معروف زبان میں تراجم ہو چکے ہیں۔[1]
کچ لوگوں کی کہنا ہیں کہ کلونیال ہندوستان کے دور میں وارن ہیسٹینز نے مہا بھارت کے 25 ویں باب سے 42 ویں باب تک مجموعی 18 باب کو الگ کیا اور یہ سب بابوں کوBhagvat Geeta or Dialogues of Kreeshna and Arjoon in Eighteen lectures with Note نام پر ایک بناکر سنہ 1785 میں لندن سے شائع کیا تھا۔ بعد میں اِس کتاب کو گیتا نام ملی. وارن ہیسٹینز کے پہلے گیتا کے نام پر کوئی الگ کتاب پُنتھی کی وقت میں دھرتی پر وجود میں نہیں تھے.[2][3]
گیتا کا اولّین ترجمہ فارسی میں ہوا تھا جو شہنشاہِ اکبر کے درباری دانش ور فیضی نے کیا تھا۔ اس کے بعد تو گویا دبستان کھُل گیا۔اردو میں اس نظم کے کم از کم پچاس ترجمے ہو چکے ہیں جن میں نظیر اکبر آبادی، مولانا حسرت موہانی، یگانہ چنگیزی، حکیم اجمل خان اور خواجہ دل محمد اور رئیس امروہوی کے تراجم بہت معروف ہیں۔