بحیرہ کیسپئن، بحیرہ خزر From Wikipedia, the free encyclopedia
بحیرہ قزوین (عربی) کو بحیرہ کاسپین(انگریزی) یا بحیرہ خزر(فارسی) بھی کہا جاتا ہے۔ بحیرہ قزوین کا نام ایران کے شہر قزوین کے نام سے موسوم ہے، جو اس کے جنوبی ساحل کے پاس واقع ہے۔
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
یہ سمندر دراصل رقبے اور حجم کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جھیل ہے، جس کا رقبہ 3 لاکھ 71 ہزار مربع کلومیٹر (ایک لاکھ 43 ہزار 244 مربع میل) جبکہ حجم 78 ہزار 200 مکعب کلومیٹر (18 ہزار 761 مکعب میل) ہے۔ یہ ایشیا اور یورپ کے درمیان چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہوا خطہ آب ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 1025 میٹر (3 ہزار 363 فٹ) ہے۔
بحیرہ قزوین کو سمندر اس لیے قرار دیا جاتا ہے کہ جب رومی پہلی مرتبہ اس کے ساحل تک پہنچے اور اس کا نمکین پانی چکھا تو انھوں نے اسے سمندر قرار دیا۔
بحیرہ قزوین کا ساحل روس، آذربائجان، ایران، ترکمانستان اور قازقستان سے لگتا ہے۔
بحیرہ قزوین منیچ اور وولگا ڈون نہر کے ذریعے بحیرہ ازوف سے منسلک ہے۔
آذربائجان کا دار الحکومت باکو اسی بحیرہ کے کنارے واقع ہے۔ بحیرہ کیسپیئن یا بحیرہ قزوین دنیا میں خشکی سے گھرا پانی کا سب سے بڑا وجود ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی جھیل یا پورا سمندر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ یورپ اور ایشیا کے درمیان واقع ہے۔ اس کے مغرب میں قفقاز، مشرق میں وسطی ایشیا کے کھلے میدان، شمال میں مشرقی یورپ میں واقع جنوبی روس کے زرخیز میدان اور جنوب میں مغربی ایشیائی ایرانی پہاڑی سطح مرتفع واقع ہیں۔ اس کا کل رقبہ 3،71،000 مربع کلومیٹر اور آبی حجم 78،200 مکعب کلومیٹر ہے۔ نمکیات کا تناسب 2ء1 فیصد ہے جو 12 گرام فی لیٹر بنتا ہے جو اوسط سمندری پانی کا ایک تہائی بتا ہے۔ اس کے شمال مشرق میں قازقستان، شمال مغرب میں روس، جنوب مغرب میں آذربائیجان، جنوب میں ایران اور جنوب مشرق میں ترکمانستان واقع ہیں۔
یہ بحیرہ شمالاً جنوباً 1،200 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی اوسط چوڑائی 320 کلومیٹر ہے۔ اس کا کل رقبہ تقریباً 3،86،000 مربع کلومیٹر ہے اور اس کی سطح سمندر کی سطح سے 27 میٹر نیچے ہے۔ اس میں آنے والے میٹھے پانی کا بڑا ذریعہ یورپ کا سب سے طویل دریا وولگا ہے جو اس کے شمالی سرے سے داخل ہوتا ہے۔ وسط اور جنوب میں دو گہرے طاس ہیں۔ اس وجہ سے جھیل میں گہرائی کے اعتبار سے درجہ حرارت، نمکیات کی مقدار اور ماحول فرق رہتا ہے۔ جنوب میں اس کی تہ سطح سمندر سے 1،023 میٹر نیچے ہے جو جھیل بیکال کے بعد دوسری ایسی گہری ترین تہ ہے جو سمندر میں واقع نہیں۔ اس کے کنارے واقع آبادیوں کی قدیم تواریخ میں اس کا تذکرہ بطور سمندر ملتا ہے جو شاید اس میں نمکیات کی مقدار اور اس کے ظاہری حجم کی وجہ سے ہو۔ اس کا رقبہ جھیل سپیریئر سے 5 گنا زیادہ ہے۔ بحیرہ قزوین میں بے شمار اقسام کے حیوانات پائے جاتے ہیں اور یہاں کا خاویار (مچھلیوں کے انڈے) دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ یہاں تیل کی صنعت کی وجہ سے کافی آلودگی پیدا ہوتی ہے اور دریاؤں پر بنے ڈیم اس کی حیاتیات میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ عالمگیر حدت اور صحرا پھیلنے کی وجہ سے 21ویں صدی کے دوران اس کی سطح 9 سے 18 میٹر تک کم ہو جائے گی۔
اس کا نام اس کے جنوب مغربی ساحل پر رہنے والے جنوبی قفقازی کیسپی قبائل کے نام سے نکلا ہے۔ اسٹرابو (وفات 24 عیسوی) نے لکھا، "البانیہ (موجودہ البانیہ نہیں، قفقازی البانیہ مراد ہے) کے ملک میں ایک علاقہ کیسپیانی کہلاتا ہے جو کیسپین قبیلے کے نام سے مشتق ہے اور اسی نام کا سمندر بھی وہاں پایا جاتا ہے، اگرچہ یہ قبیلہ اب معدوم ہو چکا ہے"۔ ایران کا شہر قزوین اس بحیرہ کے نام سے مماثل ہے۔ قدیمی اور قرونِ وسطیٰ کی عربی زبان میں اسے بحرِ خذر کہا جاتا تھا مگر موجودہ عربی میں اسے قزوین کہا جاتا ہے جو کیسپیئن کا عربی متبادل ہے۔ جدید روسی زبان میں اسے "کیسپیئسکوئی مورے" کہا جاتا ہے۔
کچھ ترک النسل قبائل اسے لفظ کیسپی سے نکلے ناموں سے پکارتے ہیں۔ قازق زبان میں کیسپی تینیزی، کرغیز زبان میں کیسپی دنیزی، ازبک میں کیسپی دنگیزی کہتے ہیں۔ دیگر ناموں میں اسے بحر خذر کہتے ہیں: ترکمان زبان میں حذر دنیزی، آذربائیجانی زبان میں خذر دنیزی، ترک زبان میں حذر دنیزی استعمال ہوتا ہے۔ ان سب زبانوں میں پہلا لفظ خذر دراصل خذر خانیت سے نکلا ہے جو 7ویں سے 10ویں صدی کے دوران بحیرہ قزوین کے شمال میں واقع ایک بڑی سلطنت تھی۔
ایران میں اسے بحرِ ماندران کہتے ہیں کہ اس کے جنوبی ساحل پر اس نام کا ایک قدیم ایرانی صوبہ واقع تھا۔
قدیم روسی زبان میں اسے خوالین یا خوالیس سمندر کہتے تھے جو خوارزم سے نکلا تھا۔
بحیرہ کیسپیئن جنوبی کیسپیئن طاس میں واقع اور قدیم سمندر پیراٹیتھیس کی باقیات ہے۔ اس کی تہ براعظمی گرینائٹ کی بجائے بحری بسالٹ سے بنی ہے۔ اندازہ ہے کہ 3 کروڑ سال قبل یہ تہ بنی تھی اور مائیوسین عہد کے اواخر یعنی 55 لاکھ سال قبل یہ سمندر خشکی سے گھر گیا تھا۔ اس کی وجہ ٹیکٹانک کا ابھرنا اور سمندر کی تہ کا نیچا ہونا تھا۔ گرم اور خشک موسی ادوار میں خشکی سے گھرا یہ سمندر لگ بھگ خشک ہو جاتا تھا اور پانی میں تحلیل شدہ نمکیات باقی بچتے تھے۔ شمال سے میٹھا پانی آنے سے اس کا پانی شمال میں میٹھا اور جنوب کی طرف جاتے ہوئے کھارا ہوتا جاتا ہے۔ ایران کے ساحل پر اس کا پانی سب سے زیادہ کھارا ہے۔ اس وقت بحیرہ کیسپیئن کے پانی کا کھارا پن سمندروں کا ایک تہائی ہے۔
بحیرہ کیسپیئن دنیا میں خشکی سے گھرا پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جو دنیا بھر میں جھیلوں کی کل مقدار کا 40 تا 44 فیصد بنتا ہے اور اس کا رقبہ جرمنی سے بڑا ہے۔ اس کے ساحلوں پر آذربائیجان، ایران، قزاقستان، روس اور ترکمانستان واقع ہیں۔ اس بحیرہ کے تین الگ الگ حصے ہیں جو شمالی، وسطی اور جنوبی کیسپیئن کہلاتے ہیں۔ ان تینوں حصوں میں کافی فرق ہے۔ شمالی کیسپیئن میں کیسپیئن شیلف واقع ہے اور یہ اتھلا ہے اور اس کی اوسط گہرائی 5 تا 6 میٹر بنتی ہے اور پانی کی کل مقدار کا ایک فیصد سے بھی کم اس میں واقع ہے۔ وسطی کیسپیئن کی طرف جاتے ہوئے اس کی گہرائی متواتر بڑھتی جاتی ہے اور وسطی علاقے میں اوسط گہرائی 190 میٹر ہے۔ جنوبی حصہ سب سے گہرا ہے اور گہرائی 1،000 میٹر سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے جو اس علاقے کے دیگر سمندروں مثلاً خلیج فارس سے کہیں زیادہ ہے۔ بحیرہ کیسپیئن کا وسطی علاقہ 33 فیصد جبکہ جنوبی حصہ 66 فیصد پانی رکھتا ہے۔ شمالی حصہ سردیوں میں جم جاتا ہے اور انتہائی شدید موسم سرما میں جنوبی حصہ بھی جم جاتا ہے۔ 130 سے زیادہ دریا اس میں گرتے ہیں جن میں وولگا سب سے بڑا ہے۔ ماضی میں وسطی ایشیا کا آمو دریا مشرق میں اور شمال میں سیر دریا بحیرہ کیسپیئن میں گرتے تھے۔ بحیرہ کیسپیئن میں کئی چھوٹے جزیرے ہیں جن کی اکثریت شمال میں واقع ہے اور ان کا مجموعی رقبہ 2،000 مربع کلومیٹر بنتا ہے۔ شمالی کیسپیئن کے ساتھ ہی کیسپیئن نشیب ہے جو سطح سمندر سے 27 میٹر نیچے واقع ہے۔ وسطی ایشیائی سٹیپ (گھاس کے میدان) اس کے شمال مشرقی کنارے پر پھیلے ہیں جبکہ کوہ قفقاز مغربی کنارے پر واقع ہے۔ شمال اور مشرق کے بائیوم سرد اور صحرائی قسم کے ہیں۔ جنوب مغرب اور جنوب میں زیادہ تر موسم گرم ہوتا ہے اور سطح مرتفع اور پہاڑی سلسلے ہیں جہاں بلندی اور درجہ حرارت ایک جیسا نہیں رہتا اور حیاتیاتی تنوع کافی زیادہ ہے۔
بحیرہ کیسیپیئن کے کناروں کے قریب بہتیرے جزائر ہیں مگر گہرے حصے میں کوئی جزیرہ نہیں پایا جاتا۔ اگورجا ادا سب سے بڑا جزیرہ ہے جو 37 کلومیٹر طویل ہے اور اس پر ہرن آزاد پھرتے ہیں۔ شمالی کیسیپئن میں زیادہ تر جزائر خالی اور چھوٹے ہیں۔
بحیرہ کیسپیئن کا موسم بدلتا رہتا ہے۔ کچھ حصے سرد صحرائی ہیں تو کچھ سرد اور نیم بارانی اور شمالی علاقوں میں مرطوب کانٹیننٹل ہے۔ جنوبی حصوں میں مرطوب نیم استوائی اور بحیرہ روم موسم پائے جاتے ہیں۔
بحیرہ کیسپیئن میں جھیل اور سمندر، دونوں کے خواص پائے جاتے ہیں۔ اکثر اسے دنیا کی سب سے بڑی نمکین جھیل کہا جاتا ہے۔
پانچوں عظیم امریکی جھیلوں کے مشترکہ پانی سے 5ء3 گنا زیادہ پانی بحیرہ کیسپیئن میں پایا جاتا ہے۔ دریائے وولگا (80 فیصد) اور دریائے یورال اس میں گرتے ہیں مگر آبی بخارات کے علاوہ اس سے پانی کے اخراج کا کوئی قدرتی ذریعہ نہیں۔ اس طرح بحیرہ کیسپیئن کا طاس بند نوعیت کا ہے۔
پچھلی کئی صدیوں سے بحیرہ کیسپیئن کی سطح کم و بیش ہوتی رہی ہے۔ بعض روسی مؤرخین کے مطابق قرونِ وسطیٰ میں اس کے پانی کی سطح کافی بلند تھی جو شاید آمو دریا کی وجہ سے ہو کہ یہ دریا 13ویں تا 16ویں صدی تک اس میں گرتا رہا تھا۔ 2004 میں اس میں پانی کی سطح سطح سمندر سے 28 میٹر نیچے تھی۔
صدیوں سے وولگا سے آنے والے پانی کی مقدار کی مناسبت سے بحیرہ کیسپیئن کی سطح کم و بیش ہوتی رہی ہے۔ دریائے وولگا میں چونکہ پانی کافی شمال میں ہونے والی بارشوں سے جمع ہوتا ہے، اس لیے بحیرہ کیسپیئن میں پانی کی سطح کا دارومدار اس سے کہیں شمال میں ہونے والے موسمی تغیر و تبدل پر منحصر ہوتا ہے۔
آذربائیجان اکیڈمی آف سائنس کے اندازے کے مطابق آبی بخارات کی وجہ سے بحیرہ کیپسیئن کی سطح میں ہر سال 6 سینٹی میٹر سے زیادہ کی کمی ہو رہی ہے۔
یورپ کا سب سے طویل دریا وولگا یورپ کے 20 فیصد زمینی رقبے سے پانی جمع کرتا ہے اور بحیرہ کیسپیئن میں گرنے والے پانی کا 80 فیصد مہیا کرتا ہے۔ اس کے نچلے علاقوں میں ہونے والی ترقی بہت سی کیمیائی اور حیاتیاتی آلودگیوں کا سبب بنی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام نے واضح کیا ہے کہ "بحیرہ کیسپیئن خام تیل کے نکالے جانے، دریائے وولگا میں تیل کی صفائی، جوہری فضلے، گندے پانی اور صنعتی آلودگیوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھا رہا ہے"۔
بحیرہ کیسپیئن سے خام تیل کے حصول اور منتقلی کی وجہ سے ماحول کو خطرہ لاحق ہے۔ باکو کے قریب ولف جزیرے کو پیٹروکیمیکل صنعت کی وجہ سے ماحولیاتی نقصان اٹھانا پڑا ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں بحری پرندوں کی تعداد کافی کم ہو گئی ہے۔ سمندر کے اندر سے گزرنے والی موجودہ اور مجوزہ تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی وجہ سے یہ خطرہ اور بھی شدید ہے۔
بحیرہ کیسپیئن میں مٹی کے آتش فشانوں کی کثرت ہے اور اندازہ ہے کہ باکو سے 75 کلومیٹر دور 5 جولائی 2021 کو لگنے والی آگ بھی انہی کی وجہ سے لگی ہوگی۔ آذربائیجان کی سرکاری تیل کمپنی کے مطابق مٹی کے آتش فشاں نے مٹی اور آتشگیر گیس اگلی جس کی وجہ سے آگ لگی۔
اندازہ ہے کہ 21ویں صدی میں عالمگیر حدت اور صحراؤں کے پھیلنے کی وجہ سے بحیرہ کیسپیئن کی سطح 9 سے 18 میٹر تک کم ہو جائے گی جو ماحولیاتی تباہی سے کم نہیں۔
23 اکتوبر 2021 کو قزاقستان کے صدر نے اپنے ملک میں بحیرہ کیسپیئن کو آلودگی سے بچانے کے لیے ایک منصوبے پر دستخط کیے۔
1995 تا 1996 کو جب بحیرہ کیسپیئن کی سطح میں اضافہ ہوا تو نایاب آبی پودوں کے مساکن گھٹ گئے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ نئے ساحلوں پر بننے والے آبی ذخائر میں ان پودوں کے اگنے کے لیے بیج میسر نہ ہو سکے ہوں۔ روس میں بہت سی اقسام کے نایاب مقامی پودے دریائے وولگا اور سامور دریا کے طاس میں پانی کی مقدار پر منحصر ہیں۔ ساحل پر ایسی نباتات پائی جاتی ہیں جو وسطی ایشیائی صحراؤں کی بھربھری ریت والی زمین پر اگتے ہیں۔ اکثر پودوں کو خاص مقدار میں پانی درکار ہوتا ہے اور بحیرہ کیسپیئن کی گھٹتی بڑھتی سطح اس کو مشکل بنا دیتی ہے۔
2019 میں یونیسکو نے ایران میں مزاندران کے ہیرکانی جنگلات کو (درجہ 9 کے تحت) عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ قرار دیا ہے۔
کیسپیئن کچھوے جو اس کے قریبی علاقوں میں پائے جاتے ہیں، میٹھے پانی کے کچھوے ہیں۔ زیبرا گھونگھے بحیرہ کیپسیئن اور بحر اسود کے طاس میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سمندری بگلے وغیرہ سمیت کئی انواع کے پرندوں کے نام کے ساتھ کیسپیئن لگتا ہے۔ کیسپیئن سیل (سمندری بچھڑے) بحیرہ کیسپیئن تک محدود واحد پستانیہ ہے اور خشکی سے گھرے پانیوں میں رہنے والی سیل کی چند انواع میں سے ایک ہے۔ ایک صدی قبل ان کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ تھی مگر اب دس فیصد سے بھی کم باقی بچی ہیں۔
ماہرینِ آثار نے گوبستان کے حجری آرٹ کے جائزے سے بتایا ہے کہ شاید 11،000 سال قبل تک بحیرہ کیسپیئن میں ڈولفن وغیرہ پائی جاتی تھیں۔
بحیرہ کیسپیئن اور اس کے معاون دریاؤں میں 160 اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جو مقامی ہیں اور 60 مختلف جنرا سے متعلق ہیں۔ بحیرہ کیسپیئن میں 115 مقامی انواع (بشمول 73 صرف یہاں پائی جاتی ہیں) کی مچھلیاں ملتی ہیں۔ سب سے عام قسم کی مچھلی گوبی کہلاتی ہے۔
سٹرجن نامی مچھلی کی چھ اقسام یہاں ملتی ہیں اور ان کے انڈے یعنی خاویار کی بہت مانگ ہے اور ایک کلو کی قیمت 880 ڈالر سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے مقامی ماہی گیر رشوت وغیرہ دے کر ضرورت سے زیادہ مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بقا کو خطرہ ہے۔
ایشیائی چیتا کبھی قفقاز اور وسطی ایشیا میں پایا جاتا تھا مگر اب صرف ایران میں باقی بچا ہے۔
ایشیائی ببرشیر قفقاز، ایران اور شاید (سابقہ) ترکستان کے جنوبی حصوں میں ملتا تھا۔
کیسپیئن شیر شمالی ایران، قفقاز اور وسطی ایشیا میں پایا جاتا تھا۔
معدومی کے خطرے کا شکار ایرانی تیندوا آج بھی ایران، قفقاز اور وسطی ایشیا میں ملتا ہے۔
مقامی جغرافیائی تاریخ دو حصوں میں منقسم ہے۔ پہلا حصہ مائیوسین کہلاتا ہے جو 2 کروڑ 30 لاکھ سال قبل سے شروع ہو کر 53 لاکھ سال قبل پر محیط تھا۔ دوسرا دور وسط حیاتی یعنی پلیئسٹوسین دور کہلاتا ہے جو 8ء25 لاکھ سال قبل سے 11،700 سال قل پر محیط ہے اور برفانی دور کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔
بحیرہ کیسپیئن کے علاقے میں اولین انسان نما مخلوق کی آبادیاں 18 لاکھ سال قبل کی ہیں اور ہومو ایرکٹس یا ہومو ارگاسٹر کے ڈھانچے بھی ملے ہیں۔ پھر ہمیں جارجیا اور آذربائیجان کے غاروں سے اولین انسانی آبادیوں کے آثار ملتے ہیں۔ ابتدائی قدیم سنگی دور (لوئر پیلیولیتھک) دور میں بحیرہ کیسپیئن کے جنوب اور مغربی البرز کے درمیانی علاقے میں انسان آباد تھے۔
جارجیا کی غار سے نینڈرتھل کی باقیات دریافت ہوئی ہیں۔ اندازہ ہے کہ 11،000 سال قبل سے یہاں انسان آباد ہونے لگے تھے۔
14ویں صدی میں سلطنت تیموریہ کے جغرافیہ دان حافظ آبرو نے دریائے آمو پر بنے ڈیم کی تباہی اور نہری نظام کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے بحیرہ ارال تقریباً غائب ہو گیا تھا۔
618 تا 907 عیسوی تک یہ علاقہ چینی سلطنت کی مغربی حد تھا۔
بحیرہ کیسپیئن کا علاقہ فاسل ایندھن سے بھرا ہے۔ 10ویں صدی سے ہی خام تیل کے لیے کنویں کھودے جا رہے تھے اور اس خام تیل کو ادویات سازی سے لے کر گھروں کو روشن اور گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ 16ویں صدی میں اہلِ یورپ کو بھی گیس اور تیل کی موجودگی کا علم ہو چکا تھا۔ مشہور برطانوی تاجر تھامس بینسٹر اور جیفری ڈکٹ نے باکو اور اس کے آس پاس کے علاقے کے بارے لکھا، "یہاں زمین سے عجیب قسم کا سیاہ مائع نکلتا ہے جو پورے ملک میں گھروں کو روشن اور گرم کرنے کے لیے جلایا جاتا ہے۔ اسے مقامی لوگ نفط کہتے ہیں۔ باکو کے علاقے سے ایک اور قسم کا مائع نکلتا ہے جو سفید رنگ کا اور بہت قیمتی تصور ہوتا ہے (پیٹرولیم)"۔
آج بحیرہ کیسپیئن کے اردگرد تیل اور گیس کے بے شمار کنویں ہیں۔
گرگان، ساری، انزالی، استارا، استرآباد، تمیشہ، اتیل، خزاراں، باکو، دربند، حاجی ترخان
ایران (علی آباد، آستانہ اشرفی، استارا، بابولسر، بندر انزلی، بندر گاز، بندر تورکمان، بہشہر، چلوس، فندرسک، گومیشان، گونبد کاوس، گرگان، جیوبر، کوردکی، لہی جان، لنگرود، محمود آباد، نیکا، نوشہر، نور، رامسر، رشت، رودبار، رودسر، ساری، دورخرد، تونیکابون)
آذربائیجان (استارا، باکو، گوبستان، خودات، خاشماز، لنکاران، مسللی، نبران، نفتچالا، شبران، سیازان، آئل راکس، سوم قیت)
قزاقستان (اتیراؤ، اقتاؤ)
روس (استراخان، داغستانسکی اوگنی، دربند، ازبرباش، کیسپیاسک، مخاچکلا)
ترکمانستان (تورکنمباشی، ہزار، حسن قلی، قرہ بغاز)
کیسپیئن علاقے کے ممالک بالخصوص آذربائیجان، قزاقستان اور ترکمانستان کی معیشتیں قدرتی وسائل پر منحصر کرتی ہیں اور ان کی جی ڈی پی کا 10 فیصد جبکہ برآمدات کا 40 فیصد حصہ تیل اور گیس پر مشتمل ہے۔
ان ممالک میں سورج بکثرت نکلتا ہے اور شمسی توانائی کے اعتبار سے یہ علاقہ کافی اچھا ہے۔
ایران میں معدنی ایندھن کی بہتات ہے۔ ایران کے پاس 137 ارب بیرل سے زیادہ خام تیل ہے جو دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے اور ایران روزانہ 40 لاکھ بیرل تیل نکالتا ہے۔ ایران کے پاس 988 کھرب مکعب فٹ سے زیادہ قدرتی گیس پائی جاتی ہے جو دنیا بھر میں قدرتی گیس کا 16 فیصد ہے۔
روس کی معیشت دنیا بھر میں جی ڈی پی کے اعتبار سے 12ویں جبکہ قوت خرید کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر ہے۔ روس کے پاس معدنیات اور توانائی کے قدرتی وسائل کی بہتات ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ روس قدرتی گیس اور خام تیل کا دوسرا سب سے بڑا پیدا کرنے والا ملک ہے۔
کیسپیئن ساحلی ممالک نے مل کر بنیادی ڈھانچے، سیاحت اور تجارت کو اس علاقے میں ترقی دینے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ پہلا کیسپیئن معاشی فورم 12 اگست 2019 میں ترکمانستان میں ہوا اور قزاقستان، روس، آذربائیجان اور ایران بھی شریک ہوئے۔ اس دوران ان ممالک کے مواصلات اور معاشی وزرا کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
کیسپیئن ممالک نے ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل شعبوں میں کافی ترقی کی ہے۔ اس منصوبے کی توسیع کے ساتھ یہ علاقہ یورپ اور ایشیا کے درمیان ڈیٹا کی منتقلی کا اہم ذریعہ بن گیا ہے اور اس منصوبے کے لیے برطانیہ سمیت دنیا بھر سے سرمایہ کاروں نے دلچسپی ظاہر کی ہے۔
بحیرہ کیسپیئن کا علاقہ دنیا بھر میں خام تیل کی فراہمی کے لیے اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس علاقے میں تقریباً 15 لاکھ بیرل روزانہ نکلتا ہے اور قدرتی گیس بھی، جو دنیا بھر کی کل پیداوار کا تقریباً دو فیصد بنتا ہے۔ سوویت دور میں تیل اور گیس کی پیداوار کافی زیادہ تھی جو سوویت یونین کے زوال کے بعد کم ہو گئی ہے۔ یہاں سے نکلنے والے تیل کا 55 فیصد قزاقستان اور 20 فیصد آذربائیجان سے آتا ہے۔
خلیج بی بی حیات میں دنیا کے پہلے سمندری (آف شور) اور مشین سے کھودے جانے والے کنویں باکو کے نزدیک آذربائیجان میں کھودے گئے۔ 1973 میں اس علاقے میں تیل کی دریافت اور کنوؤں کو ترویج دینے کا آغاز ہوا۔ اُس وقت تیل کے معلوم ذخائر کے اعتبار سے یہ علاقہ سب سے اہم تھا اور 50 کروڑ ٹن خام تیل موجود تھا۔1900 تک باکو میں 3،000 سے زیادہ کنویں کھودے جا چکے تھے جن میں سے 2،000 سے زیادہ کنوؤں سے خام تیل صنعتی پیمانے پر نکلتا تھا۔ 19ویں صدی کے اختتام تک باکو کو "سیاہ سونے کا دار الحکومت" کہا جانے لگا اور دنیا بھر سے سرمایہ کاروں نے یہاں کا رخ کیا۔
20ویں صدی کے اوائل میں باکو تیل کی صنعت کا بین الاقوامی مرکز بن گیا۔ 1920 میں جب بالشویک آذربائیجان پر قابض ہوئے تو تمام ذاتی املاک بشمول تیل کے کنویں اور فیکٹریاں سبھی قومیا لی گئیں اور تیل کی صنعت سوویت یونین کے ماتحت ہو گئی۔ 1941 میں آذربائیجان 2 کروڑ 30 لاکھ ٹن سالانہ تیل پیدا کر رہا تھا اور سوویت یونین کے تیل کی کل پیداوار کا 72 فیصد حصہ باکو کے علاقے سے آتا تھا۔
1994 میں ہونے والے "صدی کے معاہدے" کے تحت باکو تا تبلیسی تا جیحان" پائپ لائن بچھائی گئی جو آذری خام تیل ترکی تک لے جاتی ہے۔ اس کی تعمیر 2006 میں مکمل ہوئی۔
2005 میں ولادیمیر فیلانووسکی نامی آئل فیلڈ دریافت ہوئی جو بحیرہ کیسپیئن کے روسی علاقے میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ 25 سال میں دریاف ہونے والا تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ اکتوبر 2016 میں اعلان کیا گیا کہ لک آئل اس سے پیداوار شروع کرے گا۔
آذربائیجان میں باکو میں بڑے بحری جہازوں اور آئل ٹینکر لنگر انداز ہو سکتے ہیں اور بحیرہ کیسپیئن پر باکو سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ بحیرہ کیسپیئن تا وولگا تا ڈون نہر اور ڈون تا بحیرہ آزوف سے بحری جہاز اور آئل ٹینکر ڑے سمندروں تک جا سکتے ہیں۔ شمالی متبادل راستہ وولگا سے بالٹک تک بھی ہے۔
آذربائیجان کے ساحل کے ساتھ واقع جزائر کی جغرافیائی، سیاسی اور معاشی اہمیت بہت زیادہ ہے کہ یہاں تیل وافر ملتا ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد یہاں کی معیشت دنیا کے لیے کھول دی گئی۔ اس وجہ سے بین الاقوامی تیل کمپنیوں نے بہت زیادہ سرمایہ کاری کی۔ 1998 میں ڈک چینی نے کہا، "کیسپیئن کا علاقہ جس طرح اچانک تزویراتی اعتبار سے اہم بن کر سامنے آیا ہے، ایسا کہیں پہلے نہیں ہوا"۔
یہاں کا ایک اہم مسئلہ پانچوں ہمسایہ ممالک کی حدوں کا تعین ہے۔ آذربائیجان کے ایران اور ترکمانستان کے ساتھ موجودہ سرحدی تنازعے کے باعث علاقائی ترقی رکی ہوئی ہے۔
مجوزہ ٹرانس کیسپیئن آئل اور گیس پائپ لائن کا منصوبہ اس وقت تنازعات کا شکار ہے۔ ماحولیاتی وجوہات کی بنا پر روس اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ یہ پائپ لائن قازستانی تیل اور ازبکستانی اور ترکمانستانی گیس کے لیے بہت اہم ہے۔ اس کی مدد سے مغرب کو تیل اور گیس تک سستی رسائی ہو جائے گی جبکہ مشرق سے مغرب کو تیل اور گیس کی منتقلی پر روس کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔
امریکی خفیہ سفارتی تار کے افشا ہونے سے علم ہوا کہ ستمبر 2008 میں آذری چراغ گنیشی علاقے میں گیس کے اخراج اور دھماکے کو بی پی کمپنی نے کامیابی سے چھپا لیا تھا۔
پانچ ممالک اس کے 4،800 کلومیٹر ساحل بناتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
قزاقستان (1،422 کلومیٹر)، ترکمانستان (1،035 کلومیٹر)، آذربائیجان (813 کلومیٹر)، روس (747 کلومیٹر) اور ایران (728 کلومیٹر)
2000 میں پانچوں ہمسائیہ ریاستوں میں حدود کی نشان دہی پر بحث جاری تھی۔ اس کا اثر معدنی وسائل (تیل اور گیس)، ماہی گیری، بین الاقوامی پانیوں تک رسائی وغیرہ، سبھی اس کے نتیجے پر منحصر تھے۔ چونکہ آذربائیجان، قازقستان اور ترکمانستان کو براہ راست سمندر تک رسائی حاصل نہیں، سو دریائے وولگا تک رسائی ان سب کے لیے ا ہم ہے۔ روس کے لیے یہ بات اہم ہے کہ بعض تنگ گزرگاہوں پر بڑھتی ہوئی آمد و رفت کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں گے کہ دریائے وولگا ہر جگہ یکساں چوڑا نہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اگر کوئی آبی ذخیرہ سمندر یا بحیرہ ہو تو اس میں غیر ملکی بحری جہازوں کی آمد و رفت پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔ اگر ایسا آبی ذخیرہ جھیل شمار ہو تو پھر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔
بعض ماحولیاتی مسائل کے حل یا ان میں بہتری لانے کے لیے سرحدوں کا تعین بہت اہم ہے۔پانچوں ہمسایہ ممالک کی بحری افواج بحیرہ کیسپیئن میں موجود ہیں۔
سوویت یونین اور ایران کے درمیان ہوئے معاہدے کے تحت بحیرہ کیسپیئن کو جھیل مانا گیا ہے اور اس کے دو حصے تصور کیے گئے اور قدرتی وسائل (تب صرف ماہی گیری تھی) پر دونوں کا یکساں حق مانا گیا۔ دونوں حصوں کو الگ کرنے والی لکیر کو بین الاقوامی سرحد مانا گیا جیسا کہ جھیل البرٹ وغیرہ میں مانا جاتا ہے۔سوویت حصے کو چار مزید حصوں میں ہر انتظامی ریاست کو بانٹا گیا تھا۔
روس، قازقستان اور آذربائیجان کے باہمی معاہدے ہیں جن کے تحت ان کی حدیں مانی گئی ہیں۔ تاہم ایران محض ایک معاہدے پر اصرار کرتا ہے جو پانچوں ریاستوں میں برابری کی بنیاد پر ہو (یعنی ایران کو 20 فیصد حصہ ملے)۔ آذربائیجان کو ایران کے ساتھ تیل کے بعض کنوؤں پر اعتراض ہے اور ان کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔
2007 میں پانچوں ریاستوں نے معاہدہ کیا کہ محض ان کے جھنڈے والے بحری جہاز ہی بحیرہ کیسپیئن میں داخل ہو سکیں گے۔
کئی دریاؤں کے بارے مانا جاتا ہے کہ وہ بحیرہ کیسپیئن میں گرنے سے قبل مختلف ممالک سے گزرتے ہیں:
دریائے اتریک (ایران، ترکمانستان)
دریائے کورا (آرمینیا، آذربائیجان، جارجیا، ایران، ترکی)
یورال (قازقستان، روس)
دریائے سامور (آذربائیجان، روس)
دریائے سُلاک (جارجیا، روس)
دریائے تیریک (جارجیا، روس)
اگرچہ بحیرہ کیسپیئن خشکی سے گھرا ہے مگر دریائے وولگا کے راستے دریائے ڈون (اور بحیرہ اسود) اور بحیرہ بالٹک تک رسائی ممکن ہے۔
اس کے علاوہ دریائے کوما ایک نہر کے ذریعے ڈون سے ملا ہوا ہے۔
ترکمانستان میں تورکمنباشی سے باکو، قازقستان میں اکتاؤ سے باکو اور روس اور ایران کے شہروں کے درمیان کئی بحری جہاز اور بجرے چلتے ہیں جو سامان، مسافروں اور ٹرینوں کی منتقلی کرتے ہیں۔
ویکی ذخائر پر بحیرہ قزوین سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.