From Wikipedia, the free encyclopedia
سراج الملت خواجہ موید الدین محمد باقی باللہ قُدِّس سِرُّہٗ
971ھ۔۔۔۔25جمادی الثانی 1023ھ
1564ء۔۔۔۔1603ء
محمدباقی
عبد السلام
فخر اِسلام 1012، نقشبندِوقت 1012، واعلموا اِنَّ اللّٰہ معَ المُتَقین(الا ٓیہ) 1012
خواجگی اُمکنگی قدس سرہٗ
امامِ ربانی، مجدد الف ثانی، شَیخ احمد نقسبندی فارُوقی سرہندی قدس سرہٗ العزیز
اسمِ گرامی خواجہ محمد باقی عرف باقی باللہ اور والد ِمکرم کا اسمِ گرامی قاضی عبد السلام خلجی سمرقندی قریشی تھا، جو صاحب ِوجدو حال تھے اور کابل میں سکونت پزیر تھے۔ خواجہ محمد باقی باللہ کی وِلادت ِبا سعادت کابل میں 971ھ میں ہوئی۔ حضرت خواجہ، والدہ ماجدہ کی طرف سے حضرت شَیخ عمر یاغستانی قدس سرہٗ تک پہنچتے ہیں، جو خواجہ احرارقدس سرہٗ کے نانا تھے۔ حضرت خواجہ کی نانی صاحبہ خاندانِ سادات سے تھیں۔
بچپن ہی سے آپ پر تجرید و تفرید اور شوقِ خلوت،گوشتہ نشینی کے آثار غالب تھے۔
آپ نے علومِ ظاہری مولانا صادِق حلوائی رحمۃ اللہ علیہ(جو علما ئے عصر میں سے ممتاز اور اکابر تھے)سے حاصل کیے۔آپ مولانا کی رفاقت میں کابل سے ماورأ النہر چلے گئے اور تھوڑے عرصہ میں اپنی فطری ذہانت کی وجہ سے اپنے ہم عصروں میں ایک اِمتیازی مقام حاصل کر لیا۔
حضرت خواجہ کے علم کی یہ حالت تھی کہ آپ کے احباب مشکل کتاب اور دقیق سے دقیق سبق کو آپ کے پاس لاتے تو آپ فوراً وضاحت کے ساتھ اس کو سمجھا دیتے۔
حضرت خواجہ طالب ِعلمی کے زمانے میں بھی اولیائے وقت کی مجلسوں میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ تعلیم کے بعد ماورأالنہر میں بہت سے مشائخِ کبار کی خدمت میں حاضری دی اور بعض جگہ توبہ بھی کی مگر استقامت نصیب نہ ہوئی۔ طویل عرصہ اولیا اللہ کی تلاش میں ایسے حیران و سرگرداں رہے کہ بشری قوت سے باہر ہے، اسی تگ و دو میں آپ تمام ماورأ النہر، بلخ بدخشاں، سمر قند، لاہور وغیرہ میں اکابر مشائخ کی صحبت میں رہے۔ جس زمانہ میں آپ لاہور میں تھے، وہاں آپ کی ملاقات ایک مجذوب سے ہوئی اور جو آپ کو گالیا ں دیتا تھا اور پتھر مارتا تھا لیکن آپ نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا۔
آخر کار ایک روز اس کو آپ پر رحم آگیا اور آپ کے لیے بہت دُعا فرمائی۔
فرماتے ہیں، اُس زمانہ میں میری والدہ ماجدہ میری بے قراری، بیداری کی کثرت اور ناتوانی کو دیکھ کر بہت شکستہ دِل اور رنجیدہ ہوا کرتی تھیں اور نہایت گریہ زاری اور عجزو نیاز کے ساتھ بار گاہِ بے نیاز میں عرض کرتی تھیں؛ ”خدا وندا! میرے اس فرزند کی مراد کو پورا کر دے،جس نے تیری طلب میں سب سے اپنا تعلق منقطع کر لیا ہے۔“
اکثر اوقات رات اور سحری کے درمیان آپ ایسی ہی دعائیں بار گاہِ خداوندی میں کرتی تھیں پس میری والدہ ماجدہ کی دُعا و مناجات سے یہ مراتب مجھ کو نصیب ہوئے۔
آخر کار اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت سے آپ کو خواجہ نقشبند قدس سرہٗ کی زِیارت کا شرف حاصل ہوا اور خواب میں ہی توبہ کی توفیق بھی میسر آئی۔ بہت سے مشائخ سے معلوم ہوا تھا کہ بہتر طریقہ وہی ہے جو بہتر طور پر جنابِ رسالت مآبﷺ تک پہنچے، دو سال اسی مراقبہ اور ذکر کی پابندی میں رہے۔
آخر کارکشمیر میں حضرت شَیخ بابا والی قدس سرہٗ کی خدمت میں 999ھ میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا اور قبولیت کا دروازہ کھل گیا اور فیضانِ الٰہی پہنچنا شروع ہو گیا، لیکن حضرت شَیخ 15صفر 1001ھ کو انتقال فرما گئے تو خواجگانِ نقشبندیہ کی پاک رُوحیں طرح طرح کی تلقین کرنے لگیں اور ان کی وجہ سے نسبت میں قوت پیدا ہو گئی۔
حضرت خواجہ اویسی بھی تھے۔ آپ نے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ اورآپ کے خلفا ئ بلکہ جو جنابِ رسالت مآبﷺ کی رُوحانیت سے تربیت پائی تھی جیسا کہ آپ کی ابیات سے ظاہر ہوتا ہے ؎
شنیدم کاشفِ رازِ نہانی
ابو القاسم چراغِ گرگانی
کہ بودے وردِجاں نامِ اویسش
کہ باشد شربے از جامِ اویسش
کیم من کیں ہوس گیرد دماغم
نیاید نورِ ایں سودا چراغم
زبانم زیں تا نظر گرچہ بنداست
سرم بے خود است صیدایں کمنداست
(مَیں نے خفیہ رازوں سے پردے اُٹھانے والے ابو القاسم گرگانی سے سنا ہے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔)
صاحبِ حضرات القدس، حضرت علامہ بدر الدین سر ہندی قدس سرہٗ نے خواجہ محمد صدیق بدخشی قدس سرہٗ کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ کو دو مشکل مسئلے اِس راہ میں پیش آئے،جو کسی طرح حل نہیں ہوتے تھے۔ آپ نے خواجہ احرار قدس سرہٗ کو واقعہ حالت خواب میں فرماتے دیکھا کہ جو شخص ان دونومسئلوں کو حل کر ے گا، وہی تمھارا پیر ہو گا۔
جب بلخ بخارا کی طرف متوجہ ہوئے تو مولانا شیر غانی قدس سرہٗسے دونوں مسئلے دریافت کیے لیکن آپ نے فرمایا،یہ دونوں باتیں انتہا میں حاصل ہوتی ہیں۔
اِسی سفر میں ایک دن خواب میں حضرت خواجگی اُمکنگی تشریف لائے اور فرمانے لگے
اے فرزند! چشمِ ما بر سرراہِ شما است
(اے فرزند! ہماری آنکھیں تمھاری راہ دیکھ رہی ہیں)
حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ اس واقعہ سے بہت خوش ہوئے اور یہ شعر بے ساختہ آپ کی زبانِ اقدس پر جاری ہو گیا ؎
مے گزشتم زُ غمِ آسودہ کہ ناگاہ زکمیں
عالم آشوب نگاہے سرِ راہم بگرفت
(مَیں غم سے آسودہ جا رہا تھا کہ اچانک گھات میں سے ایک جہاں آشوب نگاہ نے مجھے راستے میں گھیر لیا)
جب آپ مولانا خواجگی اُمکنگی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہنچے تو انھوں نے آپ کو دیکھتے ہی فرمایا؛ ”آؤ! بیعت کریں“ اور ساتھ ہی ان دونوں مسائل کو بغیر آپ کے سوال کیے مولانا نے حل کر دیا۔
خواجہ اُمکنگی قدس سرہٗ نے آپ پر شفقت فرمائی اور اپنے مریدوں کو فرمایا کہ خواجہ کے لیے سردی کا انتظام کرو۔ آپ نے عرض کیا، مَیں سردی کا انتظام اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔ خواجہ امکنگی قدس سرہٗ نے فرمایا؛ ”ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں کہ تم ہر چیز رکھتے ہو، چراغ مہیا کر کے تیل اور بتی تیار کر کے لائے ہو بلکہ روشن کر کے۔“
حضرت خواجہ نے آپ کے احوال سن کر تین دن رات اپنی صحبت میں رکھا اور، بالکل خلوت میں مشغول رہے اور اعلیٰ و ارفع مقاماتِ باطنیہ سے سر فراز فرمایا۔ تمام کام بعنایت ِاِلٰہی اس سلسلہ عالیہ کے اکابر کی رُوحانیت کی تربیت برکت سے انجام کو پہنچا اور ساتھ ہی خلافت سے مشرف فرمایا تاکہ اُن کے ذریعہ یہ سلسلہ عالیہ وہاں پھلے پھولے اور ترقی کرے اور ہندوستان (پاک و ہند) جانے کی اِجازت مرحمت فرمائی لیکن خواجہ محمد باقی باللہ قدس سرہٗ نے اِنکسار اور تواضع سے عذر کیا۔ مولانا نے فرمایا؛ ”استخارہ کرو!“
حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ مَیں نے اِستخارہ میں دیکھا کہ ایک خوبصورت طوطی درخت پر بیٹھا ہے۔ مَیں نے دل میں خیال کیا کہ اگر وہ طوطی شاخ سے اُڑ کر میرے ہاتھ پر بیٹھ جائے تو میرے لیے اس سفر میں بہت فتوح ظاہر ہوں گے۔اِس خیال کا آنا تھا کہ وہ طوطی اڑ کر میرے ہاتھ پر آ بیٹھا اور مَیں نے اپنا لعاب ِدہن اُس کے منہ میں ڈالا اور اِس طوطی نے میرے منہ میں شکر ڈالی۔ دوسرے روز مَیں نے استخارہ کا حال خواجگی اُمکنگی سے عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ وہ طوطی ہندوستان کا پرندہ ہے، ہندوستان میں تمھارے دامن برکت سے ایک بزرگ کا ظہور ہو گا اور تم اس سے بہرہ ور ہو گے۔
حضرت خواجگی اُمکنگی کے بعض پُرانے حاضر باشوں اور مجلس نشینوں کو جب معلوم ہوا کہ خواجہ محمد باقی باللہ کو خلافت و اجازت دے کر ہندوستان بھیجا جا رہا ہے تو انھوں نے غیرت کے مارے شور مچایا۔ مولانا کو جب خبر ملی تو انھوں نے فرمایا؛
”یہ جوان تکمیل کو پہنچا ہوا تھا،ہم نے صرف اصلاحِ احوال کی ہے، جو شخص ایسا ہو کر آئے گا، اس کو اسی طرح جلدی رُخصت کیا جائے گا۔ اِس نوجوان سے ہندوستان میں ہمارے سلسلہ نقشبندیہ کی پوری رونق ہو گی اور بلند ہمت طالب اس کی مبارک تربیت سے مرتبہئ کمال اور تکمیل کو پہنچیں گے۔“
روانگی کے وقت خواجگی اُمکنگی قدس سرہٗ نے فرمایا کہ مجھ سے وعدہ کرو کہ اگر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمھیں درجہ قرب عطا فرمائے تو میرے لیے شفاعت کرو گے۔ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ نے ازراہِ تواضع عرض کی کہ یہ خواہش تو اِس فقیر کی ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا نے فرمایا، اچھا دونوں طرف سے یہی معاہدہ ہونا چاہیے چنانچہ دونوں طرف سے یہ معاہدہ قرار پایا۔اللہ! اللہ یہ تھی ان حضرات کی تواضع و اِنکساری۔
آپ ہندوستان پہنچ کر ایک سال کے قریب لاہور میں رہے اور وہاں بہت علما ئو فضلا ئ، آپ کے گرویدہ ہو گئے۔ اس کے بعد طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے بزرگوں کی بشارت کے موافق دہلی تشریف لائے جو مزارات اور بابرکات اولیا کا مرکز ہے۔آپ یہاں قلعہ فیروزی میں مقیم ہو گئے جو دریائے جمنا کے کنارے واقع ہے۔ اکثر اوقات نمازِ عشا کے بعد آپ مراقب ہوتے اور ایک ہی مراقبہ میں صبح کر دیتے۔
آپ کے تمام اصحاب دست بستہ سرجھکائے حلقہ کر کے نہایت ادب اور تواضع کے ساتھ آپ کے حضور کھڑے رہتے، کسی کو جرأت نہ ہوتی کہ آ پ کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے اور آنجناب بھی کسی کی طرف نظر نہ فرماتے، اگر اتفاقاً آپ کی نظر کسی پر پڑ جاتی تو وہ فوراً بے ہوش اور بے خبرہو جاتا۔ آپ کی گوشہ نشینی کے باوجود دہلی اور اطراف و اکناف کے مشائخ باوجود خلافت و مشیخیت اور سجادہ نشینی کے نیاز مندی کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔
آپ کا طریقہ شریفہ گمنامی، حالات کی پوشیدگی، انکسار اور دید قصور کا تھا۔ ضرورت کے سوا گفتگو نہیں فرماتے تھے۔
اگر کوئی بیعت کے لیے حاضر ہوتا تو عموماً ٹال دیا کرتے اور کہتے تم کسی اور جگہ رہبر تلاش کرو مگر صادق العقیدہ طالب آپ کے آستانہ کو نہ چھوڑتے تو ناچار قبول فرماتے۔
آپ کے خلیفہ حضرت حسام الدین قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ جب وہ خود پہلی دفعہ حضرت خواجہ محمد باقی اللہ قدس سرہٗ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اِس طرح معذرت کی کہ ناچار وہ مرشد کی تلاش میں نکل پڑے، آگرہ کی ایک گلی میں سے گذر رہے تھے کہ گانے کی آواز آئی۔ کوئی شَیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا شعر پڑھ رہا ہے ؎
تو خواہی آستین افشاں و خواہی دامن اندر کش
مگس ہر گز نخواہد رفت، از دکانِ حلوائی
(تو کتنا ہی آستین اور دامن سمیٹے،شہد کی مکھی ہرگز حلوائی کی دکان سے نہ جائے گی)
خواجہ حسام الدین قدس سرہٗ فرماتے ہیں،اس شعر کا سننا تھا کہ مَیں فوراً واپس دہلی آیا اورحضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ سے اصرار کر کے داخل سلسلہ نقشبندیہ ہوا۔
گو آپ کسی طالب کوفی الفور داخل سلسلہ نہ فرماتے لیکن جب امامِ ربانی، مجدد الف ثانی، شیخ احمد سر ہندی قدس سرہٗ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ نہایت لطف و مہربانی سے پیش آئے اور فی الفور بلکہ اصرار کر کے داخلِ سلسلہ ئعالیہ نقشبندیہ فرمایا۔
آپ کی عمر مبارک چالیس سال کے قریب ہوئی تو اپنی بی بی کو فرمایا ”جب میری عمر چالیس برس ہو گی تو مجھے ایک عظیم حادثہ پیش آئے گا۔“ پھر ایک دن فرمایا؛”مجھے خواب میں دِکھایا گیا ہے جس کام کے لیے تمھیں بھیجا گیا تھا وہ پورا ہو چکا ہے۔“ پھر ایک دِن فرمایا؛ ”تھوڑے دنوں میں سلسلہ نقشبندیہ کے کسی بزرگ کا انتقال ہو گا وہ قطب ِزمانہ ہو گا۔“
غرض ماہِ جمادی الثانی 1012ھ میں امراضِ جسمانی نے آپ پر غلبہ پا لیا اور 25 جمادی الثانی 1012ھ، 1603ء بروز ہفتہ اسمِ ذات کا وِرد کرتے ہوئے جاں بحقِ تسلیم کی۔ انا للّٰہ و انا الَیہ رَاجعون۔
مرقد ِاقدس بیرون شہر دہلی بجانب اجمیری دروازہ قریب ِقدمِ رسول اللہﷺ ہے۔ آپ کی وصیت مبارک کے مطابق مرقد شریف پر گنبد نہیں بنا یاگیا۔ صرف بلند چبوترا بنا دیا57گیا ہے، جو خواجہ حسام الدین قدس سرہٗ کی کوشش سے نہایت زینت سے تیار ہوا۔(1)
خواجہ باقی آں امامِ اولیأ
عارِف باللہ اسرار نہفت
نکہت بستان سرائے انبیأ
از نہال جعفری خوش گل شگفت
چوں بود مشرب فنا ئ اندر بقا ئ
محو حق گشتہ در اسرار سفت
سالِ تاریخِ وِصالش خسروے
فی البدیہہ نقشبندیہ وقت 1012ھ گفت
حضرت خواجہ محمد باقی اللہ قدس سرہٗ کے متعلقصاحبِ حضرات القدس علامہ بدر الدین سر ہندی قدس سرہٗ فرماتے ہیں؛
”آپ کا باطنی نور نہایت النہایت میں جس سے مقامِ قطبیت متعلق ہے پر اور منور ہوا چنانچہ اسی نور سے نے شَیخ ظاہر کی اجازت کے بعد آپ کے مقامِ ارشاد و تکمیل میں ایک شانِ عظیم پیدا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی ایک صحبت میں طالبوں کو اتنے فوائد حاصل ہوتے تھے،جو سالہا سال کے مجاہدوں اور ریاضتوں سے بھی کسی کو حاصل نہ ہو سکتے، اس کے ساتھ ہی آپ نے بارہ قطبوں کے مقام سے پورا حصہ حاصل فرمایا تھا۔“
نیز بطریقِ خاص حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے آپ متوجہ مقاماتِ فوق ہوئے اور سلوکِ فوقانی کو حاصل کر کے عام کر دیا۔ آپ اِس راہ سے اِس اسمِ الٰہی کی طرف متوجہ ہوئے اور اس اسمِ الٰہی تک پہنچ کر درجاتِ تقویٰ و شہادت اور صدیقیت میں ترقی کر کے اِسی راستہ سے غیب ِذات تک واصل ہوئے اور نقطہ نہایت النہایت میں پہنچ کر مستہلک ہوئے اور سعادتِ عظمیٰ سے مشرف ہوئے۔(1)
آپ کے زُہدو استغنا ئکا یہ عالم تھا کہ آپ کی محفل جنت آئین میں دُنیاوی کاموں کا کوئی ذکر نہ ہوتا تھا۔ درویشوں اور اپنے لوگوں کے لیے سوائے مسکینی اور فقر فاقہ اور زُہد و قناعت کے اور کچھ نہیں چاہتے تھے باوجود یکہ دولتمند اور مالدار عقیدت مند آپ کے فقرأ کا وظیفہ مقرر کرنا چاہتے تھے، لیکن آپ نے اور آپ کے ساتھ نسبت والے درویشوں نے کبھی قبول نہ فرمایا بلکہ فرماتے تھے،جس شخص کو ہمارے ذریعہ سے مالی اِمداد پہنچے تو اس کو یقین رکھنا چاہیے کہ ہمیں اس کے ساتھ دینی محبت میں کمی ہے۔
ایک دفعہ خانِ خاناں نے آپ کے درویشوں کے حج کے لیے آپ کے پاس ایک لاکھ روپیہ بھیجا لیکن آپ نے قبول نہ فرمایا اور واپس کر دیا۔ فرمایا؛
”مسلمانوں کی اتنی بڑی رقم ہم اپنے اوپر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔“
ایک خطیب صاحب منبر پر تھے اور حضرت خواجہ قدس سرہٗ سامنے تشریف فرما تھے۔ اچانک خطیب صاحب کی نگاہ آپ کے جمالِ مبارک پر پڑی۔ اُسی وقت اُس اُن کے اعضا میں لرزہ طاری ہو گیا اور اِس حالت کا اُن پر ایسا غلبہ ہوا کہ بولنے کی طاقت نہ رہی اور بے اِختیار ہو کر منبر سے زمین پر گر گیا۔گئے۔
ایک روز ایک فوجی افسر حضرت خواجہ قدس سرہٗ کی ملاقات کے لیے آیا، اِس کا نوکر اِس کا گھوڑا پکڑے ہوئے تھا کہ اچانک حضرت مسجد سے باہر تشریف لائے تو آپ کی کیمیا نظر اس خادِم پر پڑ گئی وہ بے چارہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔دوبارہ اُٹھا تو پھر گر گیا اور گیند کی طرح لڑھکتا رہا۔ رات کا ایک حصہ اِسی طرح بے قرار رہا پھر حالت ِجنوں میں جنگل کی طرف چلا گیا، دوبارہ اس کا سراغ نہ ملا۔
ایک چشتی شَیخ زادہ حضرت خواجہ کا مرید ہوا۔ اتفاقاً اُسے ایک مرض لاحق ہوا کہ زندگی کی اُمید باقی نہ رہی۔ کسی نے یہ معاملہ حضرت خواجہ سے بیان کیا۔آپ نے فرمایا، اس کے دل میں یہ خیال گذرا تھا کہ اِس طریقہ کو چھوڑ کر اپنے بزرگوں کی نسبت حاصل کرنی چاہیے اور یہ بات مجھ پر ظاہر ہو گئی اس لیے مجھے غیرت آئی اور یہی علالت کی وجہ ہے۔
اس شخص نے یہ بات شَیخ زادے سے بیان کی تو اس نے تصدیق کی اور توبہ و ندامت ظاہر کی، اس کو فوراً آرام آگیا۔
ایک مرتبہ نائب حاکم نے آپ کے ہمسایہ پر بہت ظلم کیا اور چاہا کہ گھر سے نکال دے، حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ نے بہت سمجھایا اور فرمایا کہ اس محلہ میں ایک فقیر رہتا ہے، اس سے در گذر کر لیکن وہ نہ مانا۔ آپ نے فرمایا؛ہمارے خواجگان بہت غیور ہیں، صرف تیری ہی نہیں بلکہ اوروں کی جانیں بھی جائیں گی لیکن اس نے کوئی پروا نہ کی۔
دو تین روز بعد اس پر چوری کا الزام لگا اور اس کو مع خویشاں قتل کر دیا گیا۔ غرض کہ آپ کے تصرُّفات نہایت قوی تھے۔
ایک دفعہ شیخ تاج الدین قدس سرہٗ (جو آپ کے جلیل القدر خلفا ئ میں تھے)سے فرمایا، تاج! مجھ پر اس قدر واردات و احوال اور فتوحات،انوار و اسرار و ارِد ہو رہے ہیں کہ اگر یہ دریا سیاہی ہو جائے تو ان کے لکھنے کے لیے کافی نہ ہو۔ مگر میرا مطلوب دیدو دانش سے دُور ہے ؎
طلب بے چوں و مطلب ہیچ گونہ
نہ آں را شبہ و ازیں را نمونہ
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
اس کے باوجود آپ پر تفرید اس قدر غالب تھی کہ مجلس میں اپنی بزرگی کا خیال نہ رکھتے۔ آپ صرف دو تین سال تربیت میں مشغول رہے،اس کے بعد سب سے کنارہ کش ہو گئے اور گوشہ نشینی اختیار کر لی۔ بجز نمازِ با جماعت کے کہیں تشریف نہ لے جاتے۔
لقمہ کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ آپ کسی ہدیہ کو بجنسہٖ مصرف میں نہ لاتے حالانکہ بحکم حدیث ”نَحْنُ لا تَردُّ الْہَدْیَۃ“ (ہم ہدیہ رد نہیں کرتے) آپ ہدیہ واپس نہ فرماتے۔ آپ نہایت تاکید فرماتے کہ کھانا پکانے والا باوضو ہو اور کھانا پکاتے وقت حضور و جمعیت میں مشغول رہے اور اس وقت دُنیاوی کلام میں مصروف نہ ہو۔
فرمایا کرتے، جو لقمہ بغیر حضور و احتیاط کے کھایا جائے اس سے ایک دُھواں پیدا ہوتا ہے جو فیض کے راستوں کو بند کر دیتا ہے۔
آپ جس کو داخلِ سلسلہ فرماتے تو ایک جماعت کو ذکر نفی اثبات اور بعضوں کو صرف اثبات یعنی ذکرِ اسمِ ذات عزشانہ ”اللّٰہ“ فرماتے اور اس کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی ہمت اور توجہ بھی شامل حال رکھتے تو اسی وقت اس کا دِل ذاکر ہو جاتا اور اسی حالت میں عالمِ امثال، عالمِ ارواح اور عالمِ معانی منکشف ہو جاتا اورسالک آپ کی توجہ کے کئی کئی دن بعد ہوش میں آتے۔ اِس طرح ”اَلشَّیْخ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ“(پیر زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے) کانظارہ دیکھنے میں آتا۔
آپ کی عظمت و رفعت اور کمال کو سمجھنے کے لیے یہی مثال کافی ہے کہ آپ دہلی میں دو تین سال مسندِاِرشاد پرفائز رہے اس قلیل عرصہ میں اس قدر عقیدت مند اور مخلص آپ سے وابستہ ہو گئے اور خصوصاً امامِ ربانی، حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ(جن کا سن وِلادت اور آپ کا سن وِلادت ایک ہی یعنی 971ھ ہے)نے آپ کی خاص عنایات کے اثر سے اس تیزی سے مقاماتِ سلوک طے کیے اور تکمیل و ارشاد کے مقام پر ایسے تھوڑے عرصے میں پہنچایا کہ شاید و باید،جن سے طریقہ نقشبندیہ کی ہندو پاکستان میں اس قدر ترویج ہوئی اور اس سلسلہ عالیہ کے بزرگوں نے ایسی دینی خدمات انجام دیں، جس نے تاریخ کا رُخ موڑ دیا اور دینِ حق کے لیے ان کی کوششیں آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
شاید قدرت نے آپ کو امام ربانی مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی تربیت و تکمیل کے لیے منتخب فرمایا تھا کیونکہ اِس کے بعد آپ نے مریدوں کی تربیت امام ربانی قدس سرہٗ کے سپرد کر دی اور خود چالیس سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔
تاریخِ سلاسلِ تصوف میں ایسی مثال شاید ہی ہو کہ اس کم عمری میں ایسے کمالات پر نہ صرف خود فائز ہوئے بلکہ اپنے مریدوں کو بھی عظیم مقامات پر پہنچا کر فارِغ ہو گئے ؎
چہ باداست کہ از نشہ اش جہاں مست است
زمانہ مست و زمین مست و آسمان مست است
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ ہمیشہ باوضو رہتے۔ نمازِ عشأ ادا فرما کر حجرہ میں چلے جاتے اور کچھ دیر مراقبہ میں چلے جاتے اور اِسی طرح پھر جب اعضا پر ضعف طاری ہونے لگتا تو اسی طرح کرتے عموماً رات اسی طرح گذر جاتی۔ تسلیم و رضا اس قدر غالب تھی کہ مکان کی صفائی مرمت اور روشنی کا کبھی ذِکر نہ کیا۔
1۔ توحید
فرمایا، توحید حاصل کرنی چاہیے اورتوحید محققین متکلمین کی یہ ہے…… لَا ُمؤَ ثّرِ فِی الْوَجُوْدِ اِلَّا اللّٰہُ…… (سوائے اللہ تعالیٰ کے وجود کے کوئی مؤثر نہیں) یعنی اپنی تمام قدرت کو حق تعالیٰ کے حوالے کرنا اور خود کو اس قدرت سے خالی پانا۔
بعض متاخرین علما ئقدرتِ مؤثرہ کو بندہ کے لیے بھی فی الجملہ ثابت کرتے ہیں اور ان کی توحید لَا مَعْبُوْدَ اِلَّا اللّٰہُ ہے مگر اصح مذہب وُہی ہے، لَا مُؤَثّرِ فِی الْوَجُوْدِ اِلَّا اللّٰہُ۔ اور صوفیہ جس طرح فعل اور قدرت کو منسوب بحق رکھتے ہیں بقیہ ساتوں صفاتِ الہیہ یعنی باقی، علم، حیات، سمع، بصر، ارادہ، کلام کو بھی حق تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔
فرمایا، اکثر محققین کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص خدائے بزرگ و برتر اور اس کے رسولﷺ پر ایمان تحقیقی لائے تو پھر اس کا ایمان کبھی رد نہیں ہوتا اور جو شخص ایمان لانے کے بعد مردُود ہو گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا ایمان تحقیقی نہ تھا اور تقلید کی حد تک تھا۔
فرمایا، اگر کسی کو ہمارے طریقہ کے درویش (جس میں اکابر طریقہ کے اوصاف موجود ہوں) سے محبت ہو جائے کہ ان کی غیبت (غیر موجودگی) میں بھی اس کی صورت حاضر رہتی ہو۔ تو طریقہ رابطہ اختیار کرنا چاہیے لیکن پھر طالب کو یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہو جس سے اس درویش کو اس کی جانب سے کراہت پیدا ہو۔ طالب کو چاہیے کہ اپنی مرادوں کو دل سے نکال کر اس مرشدکی مراد پر قائم رہے۔
فرمایا،بالجملہ اس طریق سے سلوک کا مدار جانبین کے اِرتباط پر ہے،جس طرح رُوئی آتشی شیشہ کے مقابل ہو کر آفتاب سے حرارت حاصل کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح باطن بوجہ اِرتباط حرارت آگاہی حق تعالیٰ کسب حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ طالب اور اس درویش کی مثال روئی اور آتشی شیشہ اور آفتاب کی ہے۔
یہ طریقہ حقیقت میں حضرت ابوبکر صدیقرضی اللہ عنہ کا ہے کہ ان کو جنابِ رسول اللہﷺ سے محبت بدرجہ کمال حاصل تھی اور اِسی راہ سے انھوں نے فیضِ عظیم حاصل کیا۔
فرمایا، طریقہ خواجگان قدس اللہ اسرارہم جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے۔ وہ اسی نسبت حُبی کے لحاظ سے ہے کیونکہ ان کا طریقہ اس نسبت کی نگہداشت ہے۔
فرمایا، ہمارے طریقہ ذکر سے جذبہ پیدا ہوتا ہے اور جذبہ کی مدد سے جمیع مقامات بسہولت و استقامت حاصل ہو جاتے ہیں۔
فرمایا، مراقبہ اپنے افعال و توانائی سے باہر آنے اور فیضانِ الٰہی کے منتظر رہنے کو کہتے ہیں۔
فرمایا، دوامِ مراقبہ بڑی دولت ہے۔ اس سے دِلوں میں قبولیت پیدا ہوتی ہے اور دلوں میں قبولیت اللہ تعالیٰ کی قبولیت کی نشانی ہے۔
فرمایا، ذکر ما سوأ اللہ کے ذکر سے باہر آنے کو کہتے ہیں اور کمالِ ذکر ہے کہ خود اپنے ذِکر سے باہر آجائے اور ظہو رِسر ہو الذاکر والمذکور ہو۔
فرمایا، ہمارے طریقہ کا دارومدار تین باتوں پر ہے اوّل عقائدِ اہل سنت و جماعت پر استقامت۔ دوم آگاہی اور سوم عبادت۔
اگر کسی شخص کی ان تینوں چیزوں میں سے ایک میں خلل اور فتور آجائے تو وہ ہمارے طریقہ سے خارِج ہے۔ ہم عزت کے بعد ذِلت اور قبول کے بعد ردّ سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔
فرمایا،توکل رویتِ اسباب سے باہر نکلنے کو کہتے ہیں اور کمال توکل یہ ہے کہ وجودِ اسباب سے باہر آجائے۔ فرمایا، قناعت ترکِ فضول واِکتفا بقدرِ حاجت اور عمدہ کھانے اور لباس اور مسکن سے پرہیز کو کہتے ہیں اور کمالِ قناعت یہ ہے کہ صرف ہستی اور محبت ِحق تعالیٰ پر اکتفا اور آرام پائے۔
نفس کی رضا کو ترک کرنا اور رضائے الٰہی میں مشغول رہنا۔
عزلت (گوشہ نشینی) مخلوق کے میل جول سے کنارہ کشی کو کہتے ہیں، اس کا کمال یہ ہے کہ خلق کو دیکھنے سے چھٹکارہ ہو جائے۔
تمام خواہشات سے نکل جانے اور پورے طور پر حق سبحانہ ٗکی طرف متوجہ ہونے کو کہتے ہیں۔
نفس کی لذتوں کو ترک کرنے اور اپنی پیاری اور محبوب اشیا سے باز رہنے کو کہتے ہیں۔
گناہ سے باز آنے کو کہتے ہیں چونکہ ہر ایک حجاب گناہ ہے اِس لیے خلق سے قلبی جدائی میں توبہ کا کمال ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.