اکاخیل قوم کی تاریخ اور شخصیات From Wikipedia, the free encyclopedia
(پشتو: اکاخیل، آقاخیل) پشتون قبیلے گلزئی کا ایک ذیلی قبیلہ ہے۔ آفریدی پشتون قبیلے کا بھی ایک قبیلہ اکا خیل ہے، 20ویں صدی کے اوائل میں، عام طور یہ قبیلہ پر پستورل (چراگاہ ) کے حصہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا۔ اکا خیل پشتون قبیلے گلزئی کا سب سے بڑا ذیلی قبیلہ ہے۔ اس قبیلے کی آبادی بنیادی طور پر پاکستان اور افغانستان میں رہتی ہے پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ (صوبہ سرحد) میں کثیر تعداد میں آباد ہیں جن میں قبائلی علاقہ جات بھی شامل ہیں اور افغانستان میں صوبہ پکتیا اور صوبہ پکتیکا میں زیادہ تعداد میں آباد ہیں اس کے علاوہ صوبہ زابل میں بھی اس قبیلے کے خاطر خواہ افراد آباد ہیں قندوز کے دشت ارچی اور دیگر مضافات میں بھی اکاخیل قبیلہ کے ذیلی شاخ سلیم خیل کے کا فی افراد رھائش پزیر ہیں کراچی سے تعلق رکھنے والی مشہور شخصیت جنت گل خان کے آبا و اجداد بھی قندوز سے نقل مکانی کرکے کراچی میں رھائش اختیار کی ہے افغانستان کے صدارتی ترجمان دوا خان مینہ پال کا تعلق بھی اکا خیل قبیلہ سے ہے اکاخیل قبیلہ کے بہت سی شاخیں ہیں بڑی شاخیں درج ﺫیل ہیں سلیم خیل لودک زئی سلیمان زئی شرسنی واضح رہے کہ شرسنئ اپنے آپ کو شیرانی بھی کہتے ہیں مردوزی لودگ زی اور شپیزری جو اپنے آپ کو دولت خیل بھی کہتے ہیں شپیزری شاخ کے اکثریت صدیوں سے بلوچستان کے بوستان اور کچلاغ ( کوچی راغہ) میں آباد ہیں اس قبیلہ کے افراد زوند کے تحصیل سمبازہ میں بھی آباد ہیں جو اکا خیل کی بجائے اپنے آپ کو سلیمان خیل ظاہر کرتے ہیں جن کا سر کردہ ملک درانئ اکاخیل ہے اور جو اکاخیل قبیلہ کے سربراہ ولی محمد عرف ولیگئ کا بھتیجا ہے،
اس مضمون میں کئی امور غور طلب ہیں۔ براہِ مہربانی اسے حل کرنے میں ہماری مدد کریں یا ان امور پر گفتگو کے لیے تبادلہ خیال صفحہاستعمال کریں۔ (ان پیامی اور انتظامی سانچوں کو کب اور کیسے نکالا جائے)
مشکلات بیان نہیں کی گئیں۔ براہ کرم انہیں درج کریں یا اس سانچہ کو حذف کر دیں۔ |
اکاخیل
اکاخیل کا ایک قبیلہ مردان کے ایک گاؤں مایار میں بھی آباد ہے جو علما کرام پر مشتمل تھاجس میں کثیر تعداد حفاظ کی بھی تھی اور یہ جنگجو قبیلہ مختلف ادوار میں افغانستان سے سوات کا سفر کرتے ہوئے مردان کے علاقے طورو اور مایار پہنچا تھا۔ ان کے سب سے بڑے بزرگ سلطان احمد اکاخیل تھے جن کی اولاد ایک سلسلہ نذرمحمد ، قاضی احمد سے ولی محمد ان کے بیٹے عطا محمد کے بیٹوں غلام محمد اور فضل محمد تک پہنچا ۔ فضل محمد کے دو بیٹوں سید محمود اور حسین احمد نے یہ سلسلہ نوشہرہ کے مقام گنڈیری بالا میں جاری رکھا جبکہ کراچی میں مقیم مولوی عبد القیوم اکاخیل نے اپنے بیٹوں عبد المطلب اکاخیل، عبد العزیز اکاخیل، سلطان محمود اور عبد الباسط اکاخیل سے یہ سلسلہ جاری رکھا اور نذیر احمد اکاخیل کے بیٹؤں طاہر احمد ، شفیع احمد ، منظور احمد اور منیر احمد سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔مایار مردان میں یہ سلسلہ بشیر احمد اکاخیل اور ان کے بیٹوں صالح محمد اور فیاض احمد اور فقیر احمد اکاخیل کے بیٹؤں زبیر احمد، نظار احمد، عبد اللہ، فواد احمد سے چل رہا ہے اور پھر انمیں مولوی غلام محمد کے بیٹوں مولوی عبد الصبور اور مولوی عبد القدوس فاضل دار العلوم دیوبند اور عبدالودو تک پہنچا عبد الصبور کی اولاد میں عبد الوکیل، عبدالکفیل، محمد عقیل الرحمن، محمد تحسین الرحمن اور محمد تفضیل الرحمن اور مولوی عبد القدوس کے دو بیٹے محمد جمیل الرحمٰن اور محمد عبدالسبوح ہیں ۔ مولوی عبد الرؤف سے ان کے بیٹوں عبدالمعبود، فضل معبود ، نورالمعبود، حسن المعبود اور سجاد سے سلسلہ چل رہا ہے جبکہ عبد الودود سے ان کے بیٹوں عبدالوحید، عبد الحفیظ، عبد الحسیب اور عبد العظیم سے چل رہا ہے ۔۔ اکاخیل کے آخری سب سے بڑے علماءدین جناب مولوی عبد الصبور اور مولوی عبد القدوس صاحب(فاضل دار العلوم دیوبند)تھے۔۔ طورو اور مایار میں یہ قبیلہ ایک کثیر تعداد میں ہے۔
اکاخیل کی اکثریت 1900 سے پاکستان کے خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب کے صوبوں سکندر آباد (جرہ کلے) چارسدہ، پشاور، سوات (بری کوٹ)، بونیر (ٹوپدرہ حصار) ایبٹ آباد، نوشہرہ، مردان، اٹک، راولپنڈی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، گوجرہ، فیصل آباد، لاہور، ملتان، حیدرآباد، کراچی اور کوئٹہ۔ اس قبیلے کی آبادی کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے۔ تاہم، پوری دنیا میں اس کا تخمینہ تقریباً 2 ملین ہے، اس قبیلے کی آبادی بنیادی طور پر پاکستان اور افغانستان میں رہتی ہے۔ 85% پاکستان میں رہتے ہیں اور تقریباً 1% یا 2% افغانستان میں رہتے ہیں اور باقی 13% انگلینڈ، جرمنی، متحدہ عرب امارات، چین، ملائیشیا، کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکا میں رہتے ہیں۔
اکا، سلیمان، احمد اور علی چار بھائی تھے، اکا خیل ذیلی قبیلہ اکاخیل سے، سلیمان ذیلی قبیلہ سلیمان خیل سے، احمد ذیلی قبیلہ احمدزی اور علی سے ذیلی قبیلہ علیزی جسے عرف عام میں آلوزی کہتے ہیں۔
اکا جو ایک صوفی بزرگ تھے اور ان کا مزار سروبی میں واقع ہے۔ آپ کے سات بیٹے تھے ان کے نام تور بابا، گاندر بابا، نور، سکندر، قوزئی، سلیم، مرزا اور حسن تھے۔ ان بیٹوں سے اکاخیل قبیلہ کو گاندر خیل، سکندر خیل، معین خیل یا معین خیل سلیم خیل اور حسن خیل میں تقسیم کیا گیا ہے۔
تور بابا کے آبا و اجداد پھر ان کے بیٹوں مومن اور معین کے ناموں پر معین خیل یا "معین خیل" اور مانی خیل میں تقسیم ہیں۔ اس کے بعد معین خیل اپنے بیٹوں عبد اللہ، نیازئی، صفت اور بدک کے ناموں پر عبداللہوال، نیازیوال صفتوال اور بدکوال میں تقسیم ہو گئے۔ نیازیوال قبیلے کو لے کر اسلموال، اعظموال، اکرموال اور نظام وال میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ اسلم کے اس وقت چار بیٹے جبار، الیاس، پاستا خان اور مصری تھے۔ مصری نے کبھی شادی نہیں کی تھی اس لیے ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ جبار کے تین بیٹے تھے جن کے نام جان نثار خان، محمد شاہ خان اور مغل خان تھے۔ پستہ خان کے دو بیٹے عبد اللہ جان اور شیر محمد تھے۔ الیاس کے دو بیٹے مرزا اور کریم تھے۔
گاندر بابا گاندر خیل کے چار بیٹے تھے جن کا نام احمد، بابا، بلند، نور محمد، احمد خاندان جو احمدوال کے نام سے جانا جاتا ہے، بابا خیل کے نام سے جانا جاتا ہے، بلند خاندان جو بلندوال کے نام سے جانا جاتا ہے اور نور محمد خاندان کو نورکوال احمدوال کے نام سے جانا جاتا ہے، جسے شنگیان بھی کہا جاتا ہے۔ تور بابا، گاندر بابا، نور، سکندر، قوزئی، مرزا اور حسن تنگی ضلع چارسدہ کے قریب جیندائی میں آباد تھے۔
1900 کے اوائل میں ان کا کاروبار افغانستان سے پاکستان اور سردیوں کے موسم میں اونٹ پر نئی دہلی تک خشک میوہ جات کا تھا، اپریل میں گرمیوں کے آغاز میں دہلی میں چھالیہ کا پان خرید کر لاہور کراچی لاتے تھے اور لاہور اور کراچی میں فروخت کرتے تھے۔ .
1947 میں طور بابا، گاندر بابا، نور، سکندر، قوزئی، مرزا اور حسن کے تمام خاندانوں کو 1947 میں پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم کے وقت دوسرے شہروں سکندر آباد (جسے پہلے جرا کلے کہا جاتا تھا) چارسدہ، منگورہ، منتقل کر دیا گیا تھا۔ بریکوٹ بلکہ بریکوٹ کے اکا خیل نے بھی 16ویں صدی کے اوائل میں چکسر شاگلہ وادی سے بڑی کوٹ سوات منتقل کیا (سوات) نوشہرہ، مردان، ایبٹ آباد، اٹک، راولپنڈی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، گوجرہ، فیصل آباد، لاہور، ملتان، حیدرآباد، کراچی اور کوئٹہ۔ ان میں سے زیادہ تر پشاور، مردان، چارسدہ، راولپنڈی، اسلام آباد اور کراچی میں آباد تھے۔ گاندر خیل کے زیادہ تر لوگ پشاور، راولپنڈی اور کراچی میں رہتے ہیں۔
سکندر خیل مزید چھوٹے قبائل میں بٹ گئے۔ ارسلوال ولد ارسلا خان سے، پائندہ خیل (یا پانڈہ خیل) ولد پایندہ محمد خان سے، ملک وال ولد ملک خان سے۔
خیبرپختونخوا، پاکستان کے قبائلی تحقیقی سیل، محکمہ داخلہ اور قبائلی امور نے اکاخیل قبیلے کے برطانوی دور یعنی 1932-34 کے بعد سے دستیاب پرانے/تاریخی ریکارڈ کی کاپیاں فراہم کی ہیں، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ: (اصل الفاظ 217۔ اکا خیل سچے غلزئی ہیں اور ان کا تعلق علی خیل اور سلیمان خیل سے ہے جن کے ساتھ وہ دوستی رکھتے ہیں۔ کٹواز کے اکا خیل اور علی خیل کا کٹواز کے سلیمان خیل سے تعلق اتنا قریب ہے کہ اکثر جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کا تعلق کس قبیلے سے ہے تو وہ کہتے ہیں کہ وہ سلیمان خیل ہیں، یہ قبیلہ تقریباً مکمل خانہ بدوش ہے، جو لوگ سردیوں میں کٹواز سے ڈیرہ اسماعیل خان کے دمام تک آتے ہیں، وہ گومل کا راستہ استعمال کرتے ہیں اور وہ نسبتاً چھوٹا ہی بنتے ہیں۔ آکا خیل کے بہت سے لوگ موسم گرما ہزارہ جات میں گزارتے ہیں اور خزاں میں اپنے خاندانوں کو کابل اور پشاور کے درمیان تجارت کرتے ہوئے ننگرہار لے جاتے ہیں۔
دنیا بھر میں اس قبیلے کی آبادی کا تخمینہ 1 ملین ہے۔ اکاخیل کی 70% آبادی افغانستان میں اور 25% پاکستان میں رہتی ہے۔ باقی انگلینڈ، جرمنی، متحدہ عرب امارات، چین، ملائیشیا، کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ امریکا میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں رہنے والے اکا خیل قبائل کے لوگ اپنی بنیادی جڑیں پاکستانی کمیونٹی میں رکھتے ہیں لیکن پھر بھی انھیں افغان عوام سے پشتو لہجے میں مشابہت کی وجہ سے اپنی شناخت اور شناخت کے حقوق کے مسائل کا سامنا ہے۔
شجرہ نسب ترتیب و تالیف بدست عبد المطلب اکاخیل
Bettani |
| ||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
Gharghashti |
| ||||||
Sarbani |
| ||||||
Karlani |
| ||||||
Allied tribes |
|
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.