اسلامی قرون وسطی میں ریاضی
From Wikipedia, the free encyclopedia
اسلامی عہد زریں بالخصوص نویں اور دسویں صدی میں علم ریاضی کی بنیاد یونانی ریاضی (اقلیدس، ارشمیدس اور اپولنیس) اور ہندوستانی ریاضی (آریہ بھٹ اور برہمگپت) پر استوار کی گئی تھی۔ اس دور میں علم ریاضی نئے موضوعات سے روشناس ہوا مثلاً کسر کا مقام تاکہ اعداد کو کسور میں ظاہر کیا جا سکے۔ نیز پہلی مرتبہ الجبرا کا باضابطہ مطالعہ کیا گیا (اس ضمن میں الخوارزمی کی الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلۃ خاصی اہمیت کی حامل ہے)، اس کے علاوہ علم ہندسہ اور مثلثیات کو بھی خوب ترویج دی گئی۔[1]
![Thumb image](http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/2/23/Image-Al-Kit%C4%81b_al-mu%E1%B8%ABta%E1%B9%A3ar_f%C4%AB_%E1%B8%A5is%C4%81b_al-%C4%9Fabr_wa-l-muq%C4%81bala.jpg/220px-Image-Al-Kit%C4%81b_al-mu%E1%B8%ABta%E1%B9%A3ar_f%C4%AB_%E1%B8%A5is%C4%81b_al-%C4%9Fabr_wa-l-muq%C4%81bala.jpg)
بعد ازاں دسویں سے بارہویں صدی کے دوران میں علمِ ریاضی عالم اسلام سے یورپ منتقل ہوا اور یورپی محققین نے عہد اسلامی کی تحقیقات کی مدد سے اس علم کو فروغ دینے میں اپنی کوششیں صرف کیں۔[2] اسلام کی سائنسی تاریخ کے مشہور مؤرخ ڈاکٹر سیلی رجپ کے مطابق دسیوں ہزار عرب مخطوطات کا جو ریاضی اور فلسفہ سے متعلق تھے، ابھی تک مطالعہ نہیں کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے ان علوم میں ہمارا انحصار معدودے چند عالموں اور مخطوطات تک محدود ہے۔[3]بقول علامہ اقبال:
مگر وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھے ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ