استقلال مارشی
From Wikipedia, the free encyclopedia
استقلال مارشی، یعنی ترانۂ آزادی، ترکی کا قومی ترانہ ہے جو جمہوریہ ترکی کے قیام (29 اکتوبر 1923ء) سے دو سال قبل 12 مارچ 1921ء کو ترک جنگ آزادی میں شریک افواج کے جذبات کو مہمیز دینے کے لیے عسکری نغمے اور بعد از قیامِ جمہوریہ قومی ترانے کی حیثیت سے باضابطہ طور پر اختیار کیا گیا۔
اردو: ترانۂ آزادی | |||||
---|---|---|---|---|---|
ترکی میں ایک کمرۂ جماعت کا منظر، جہاں استقلال مارشی (دائیں جانب)، اتاترک کی تصویر اور ان کی نوجوانوں سے کی گئی ایک تقریر آویزاں ہے | |||||
قومی ترانہ | ترکیہ ترک جمہوریہ شمالی قبرص | ||||
شاعری | محمد عاکف ارصوی | ||||
موسیقی | عثمان ذکی اونگور | ||||
اختیار کردہ | 12 مارچ 1921 | ||||
نمونۂ موسیقی | |||||
|
|||||
اس ترانے کے خالق ترکی کے شاعرِ اسلام محمد عاکف ارصوی ہیں جبکہ اس کی مروجہ دھن عثمانی ذکی اونگور نے تیار کی ہے۔ استقلال مارشی اس وقت تحریر کیا گیا جب جنگ عظیم اول کے بعد ملک پر بیرونی قوتیں قابض تھیں اور مصطفی کمال کی قیادت میں ملکی فوجیں اُن سے نبرد آزما تھیں۔ قومی ترانے کے انتخاب کے لیے جب ملک بھر میں ایک مقابلہ کرایا گیا جس میں کل 724 شعرا نے میں حصہ لیا۔ ان ترانوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شاندار ترانے موجود تھے لیکن قومی کمیٹی کو جو مطلوب تھا وہ ترانہ نہ مل سکا۔ اُس وقت کے ترک وزیر تعلیم حمد اللہ صبحی نے دیکھا کہ محمد عاکف نے اس مقابلے میں حصہ نہیں لیا۔ انھوں نے اس سلسلے میں عاکف سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ نہ مقابلے میں حصہ لینا پسند کرتے ہیں اور نہ 500 لیرا کا وہ انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں جو جیتنے والے کے لیے رکھا گیا تھا۔ انھیں بڑی مشکل سے ترانہ لکھنے پر آمادہ کیا گیا اور جب یکم مارچ 1921ء کو حمد اللہ صبحی نے یہ ترانہ مجلس کبیر ملی کے اجلاس میں پڑھ کر سنایا تو اراکین مجلس پر ایک جوش اور کیف طاری ہو گیا اور کمیٹی نے رائے دی کہ اب دوسرے ترانے سنے بغیر عاکف کے ترانے کو منتخب کر لیا جائے اور 12 مارچ 1921ء کو باضابطہ طور پر استقلال مارشی ترکی کا قومی ترانہ قرار دیا گیا۔
یہ ترانہ اور محمد عاکف کی تصویر 1983ء سے 1989ء تک رائج 100 ترک لیرا کے بینک نوٹ پر موجود تھی۔ ترانہ سرکاری و عسکری تقاریب، قومی نمائشوں، کھیلوں کے مواقع اور اسکولوں میں پڑھا جاتا ہے جہاں 10 بندوں پر مشتمل اس ترانے کے اولین دو بند ہی گائے جاتے ہیں۔
عاکف کے جذبات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں سے سخت ضرورت کے باوجود 500 لیرا کی انعامی رقم وصول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا جاتا ہے کہ یہ رقم انھوں نے ترک فوج کو ہدیہ کر دی تھی۔ انھوں نے اس ترانے کو اپنے مجموعۂ کلام “صفحات” میں بھی شایع نہیں کیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ میری نہیں بلکہ پورے ملک کی ملکیت ہے۔ عاکف کے مجموعۂ کلام میں یہ ترانہ ان کے انتقال کے بعد ہی شامل ہوا۔
عاکف نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ
” | اللہ اب اس ملت کے لیے پھر ترانۂ آزادی نہ لکھوائے! ہاں، نہ لکھوائے! اللہ اب پھر اس مملکت کو اور اس کی آزادی کو خطرے میں نہ ڈالے کہ وہ پھر ایک ترانۂ آزادی لکھنے پر مجبور ہو | “ |
استقلال مارشی کی پہلی دھن علی رفعت چغتائی نے ترتیب دی جو 1924ء سے 1930ء تک برقرار رہی۔ یہ دھن 24 دھنوں میں سے منتخب کی گئی تھی جس پر علی رفعت کو بھی 500 لیرا انعام دیا گیا۔ تاہم 1930ء میں شفیع ذکی اونگور کی بنائی ہوئی دھن اختیار کی گئی جو آج بھی رائج ہے۔
زبان کی چاشنی اور حسن بیان کے علاوہ جوش و جذبات کے لحاظ سے دنیا میں کم ترانے ہوں گے جو ترکی کے قومی ترانے کا مقابلہ کر سکیں [1]۔ 1928ء میں جب ترکی کو ایک سیکولر ریاست قرار دیا گیا تو لادینی نظام کے حامی عناصر نے ترانے پر سخت اعتراضات کیے اور اس کو بدلنا چاہا کیونکہ اس میں اسلامی جذبات نمایاں تھے لیکن اس ترانے کی غیر معمولی مقبولیت کے باعث یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور یوں استقلال مارشی آج بھی ترکی کا قومی ترانہ ہے۔[1]