استنجاء استنجاء سنت ہے اس لیے کہ نبی علیہ السلام اس پر ہمیشگی کی ہے۔
- استنجا نجو سے مشتق ہے، ا سکا ترجمہ ہے پاخانہ ا ور باب استفعال میں جا کر اس کا تر جمہ ہو گیا پاخانہ صا ف کر نا۔
- پاخانہ یا پیشاب پانی اور ڈھیلے سے صاف کیا جا سکتا ہے، البتہ ڈھیلے سے صاف کر نے کے بعد پانی سے صاف کر نا بہتر ہے اور دونوں کو نہ ملا سکے تو پانی سے صاف کر نا بہتر ہے اور پانی سے بھی صاف نہ کر سکے تو پھر ڈھیلا سے صاف کرے۔
- پانی سے صاف کر نا بہتر ہے اس کی دلیل یہ آیت ہے کہ اہل قباء پانی سے دھوتے تھے تو ان کی تعریف میں یہ آیت اتری۔ عن ابی ھریرة عن النبی قال:نزلت ھذہ الآیة فی اھل قباء (فیہ رجال یحبون أن یتطھروا ) قال کانوا یستنجون بالماء فنزلت فیہم ھذہ الآیة۔[1] اس حدیث میں ہے کہ پانی سے استنجا ء کر نے کی وجہ سے اہل قبا کی اللہ تعالی نے تعریف کی ہے۔ اس لیے پانی سے دھونا بہتر ہے۔ لیکن چونکہ جنگل اور صحراوں میں انسان کی مجبوری ہو تی ہے اس لیے پتھر سے بھی صاف کرے تو جائز ہے۔ استنجاء صحیح ہو نے کے لیے تین پتھر ہو نا واجب نہیں ہے اس سے کم میں بھی جائز ہو جائے گا، البتہ حدیث کی وجہ سے تین پتھر لینا سنت ہے۔[2]
( ابو داود شریف، باب فی الاستنجاء بالماء، ص 7، نمبر 44 سنن للبیھقی، باب الاستنجاء بالماء، ج اول ص 170، نمبر 511)
اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 1 - مؤلف : مولانا ثمیر الدین قاسمی جامعہ روضۃ العلوم جھار کھنڈ انڈیا