From Wikipedia, the free encyclopedia
ہمزہ اردو کی حروف تہجی کے پینتیسویں حرف ءکو کہتے ہیں۔ جسے بعض لوگ الگ حرف نہیں سمجھتے مگر حقیقت میں وہ دو طریقے سے اردو میں استعمال ہوتا ہے۔ حرف کے طور پر اور وقف مزمار (Glottal Stop) یعنی حلق سے ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ ادا کیے جانے والے لہجے کے طور پر[1]۔ حرف کے طور پر 'دائرہ' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ لہجے کے طور پر 'واؤ' یا 'مؤخر' جیسے الفاظ میں استعمال ہوتا ہے۔ جب یہ الگ حرف کے طور پر استعمال ہو تو حروفِ ابجد کے حساب سے اس کے اعداد الف کے برابر 1 شمار ہوتے ہیں۔ اسے عیسوی سال کے نشان کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہمزہ اصل میں آرامی زبان کے ابجد کی صوتیات سے عربی میں آیا جس میں کہ وقف مزمار کے لیے ایک حرف aleph استعمال ہوتا تھا جو عربی میں الف بنا اور چونکہ عربی میں الف سے وقف مزمار کے ساتھ ساتھ طویل مصوتہ (vowel) یعنی حرف علت کے طور پر بھی استعمال ہوتا تھا، جس کی وجہ سے اسے الگ شناخت دینے کے لیے یا یہ ظاہر کرنے کے لیے مذکورہ الف محض مصوتہ نہیں بلکہ وقف مزمار ہے اس کے ساتھ ء کا اضافہ کیا گیا۔ عربی میں یہ ہمزہ، الف کے اوپر بھی آ سکتا ہے اور نیچے کی جانب بھی جس میں بالترتیب اس کے ساتھ زبر اور زیر کے مصوتات (vowels) بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
لفظ میں مقام: | الگ | آخر میں | درمیان میں | شروع میں |
---|---|---|---|---|
شکل: | ء | (none) | (none) | (none) |
ابتدائییییہ میں دیے گئے حوالہ برائے وقف مزمار کی حیثیت ہمزہ کے استعمال کو سمجھنے کے لیے انتہائی اہم ہے؛ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمزہ بنیادی طور پر دو مصوتات (vowels) کو الگ کرنے کے مقام پر پیدا ہونے والی glottal stop کی آواز ہی کو کہا جاتا ہے۔ ہمزہ کا تعلق علم الصوتیات سے اس قدر گہرا ہے کہ اردو اور فارسی متکلمین ہی نہیں بلکہ اہل زبان عرب سے بھی اس کے درست استعمال میں غلطی کا امکان مکمل رد نہیں کیا جا سکتا۔ وقف مزمار عام طور پر اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب دو مصوتات المختصر یعنی short vowels (جن کو عربی اور اردو میں خصوصاً اعراب کہا جاتا ہے) ایک ساتھ آتے ہوں ؛ ایسی صورت میں انسانی حلق کی تشریح کے اعتبار سے لازم ہے کہ صوتی طنابیں (vocal cords) اپنے ارتعاش میں تبدیلی لے کر آئیں، اگر ایسا نہ ہو تو کبھی بھی دو مسلسل مصوتات المختصر (اعراب) ایک ساتھ ادا نہیں کیے جا سکتے اور وہ آپس میں مدغم ہوکر کسی بھی مصوتات الطویلہ (long vowels) کی آواز پیدا کریں گے جو الف بھی ہو سکتا ہے واؤ بھی اور یے بھی۔ مذکورہ بالا سطور میں آنے والے ایسے الفاظ جن میں اعراب ایک کے بعد ایک آتے ہوں ان کو دوتاخیری (bimoraic) کہا جاتا ہے۔ یہاں bi کا مطلب ہے دو اور moraic بنا ہے mora سے جس کی جمع تاخرات (morae) کی جاتی ہے، mora کا مطلب delay یا تاخیر ہوتا ہے یعنی وہ وقفہ یا تاخیر جو صوتی طنابوں کو دو ایک ساتھ آنے والے اعراب کی قابلِ شناخت آوازیں پیدا کرنے کے لیے درکار ہو۔[2] طویل مصوتات کو عام طور پر bimoraic ہی تسلیم کیا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر کسی مقطعیہ (syllable) میں دو مصوتات کو دوتاخیری کہا جاتا ہے۔ bimoraic کی صورت حال پیدا ہونے کو bimoraicity یا دوتاخریت کہا جاتا ہے۔ اس طرح کے دوتاخیری الفاظ تین اقسام کے ہوا کرتے ہیں؛
اس کے علاوہ بعض زبانوں میں بہت کم ایسے الفاظ جن میں تین اعراب (یا مصوتات) ایک روانی میں ہوں یا یوں کہہ لیں کہ ان میں تین یکساں مصوتات کی آوازیں ایک کے بعد ایک آتی ہوں تو ان کو سہ صوتی (triphthong) کہا جاتا ہے؛ جیسے انگریزی لفظ flower کی مثال جس کو درست صوتیات سے سمجھنے والا اگر کوئی واطن مکلم (native speaker) اگر درست تلفظ سے ادا کرے تو اس میں تین مصوتات owe آتے ہیں۔ ایسے الفاظ میں اگر glottal stop آتا ہو تو ہمزہ آئے گا۔
ہمزہ کی عربی میں دو اقسام ہوتی ہیں جن کا خیال قرآن کی قرائت کے دوران بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے۔
first | second | |||||
---|---|---|---|---|---|---|
i | u | a | ī | ū | ā | |
i | ṭiʾiṭ | ṭiʾuṭ | ṭiʾaṭ | ṭiʾīṭ | ṭiʾūṭ | ṭiʾāṭ |
طِئِط | طِئُط | طِئَط | طِئِيط | طِئُوط | طِئَاط | |
u | ṭuʾiṭ | ṭuʾuṭ | ṭuʾaṭ | ṭuʾīṭ | ṭuʾūṭ | ṭuʾāṭ |
طُئِط | طُؤُط | طُؤَط | طُئِيط | طُءُوط | طُؤَاط | |
a | ṭaʾiṭ | ṭaʾuṭ | ṭaʾaṭ | ṭaʾīṭ | ṭaʾūṭ | ṭaʾāṭ |
طَئِط | طَؤُط | طَأَط | طَئِيط | طَءُوط | طَآط | |
ī | ṭīʾiṭ | ṭīʾuṭ | ṭīʾaṭ | ṭīʾīṭ | ṭīʾūṭ | ṭīʾāṭ |
طِيئِط | طِيئُط | طِيئَط | طِيئِيط | طِيئُوط | طِيئَاط | |
ū | ṭūʾiṭ | ṭūʾuṭ | ṭūʾaṭ | ṭūʾīṭ | ṭūʾūṭ | ṭūʾāṭ |
طُوءِط | طُوءُط | طُوءَط | طُوءِيط | طُوءُوط | طُوءَاط | |
ā | ṭāʾiṭ | ṭāʾuṭ | ṭāʾaṭ | ṭāʾīṭ | ṭāʾūṭ | ṭāʾāṭ |
طَائِط | طَاؤُط | طَاءَط | طَائِيط | طَاءُوط | طَاءَاط | |
ay | ṭayʾiṭ | ṭayʾuṭ | ṭayʾaṭ | ṭayʾīṭ | ṭayʾūṭ | ṭayʾāṭ |
طَيْئِط | طَيْئُط | طَيْئَط | طَيْئِيط | طَيْئُوط | طَيْئَاط | |
aw | ṭawʾiṭ | ṭawʾuṭ | ṭawʾaṭ | ṭawʾīṭ | ṭawʾūṭ | ṭawʾāṭ |
طَوْئِط | طَوْؤُط | طَوْأَط | طَوْئِيط | طَوْءُوط | طَوْآط | |
طَوْءِط | طَوْءُط | طَوْءَط | طَوْءِيط | طَوْءَاط |
condition | vowel | |||||
---|---|---|---|---|---|---|
i | u | a | ī | ū | ā | |
#_VC | ʾiṭ | ʾuṭ | ʾaṭ | ʾīṭ | ʾūṭ | ʾāṭ |
إِط | أُط | أَط | إِيط | أُوط | آط | |
C_VC | ṭʾiṭ | ṭʾuṭ | ṭʾaṭ | ṭʾīṭ | ṭʾūṭ | ṭʾāṭ |
طْئِط | طْؤُط | طْأَط | طْئِيط | طْءُوط | طْآط | |
CV_C | ṭiʾṭ | ṭuʾṭ | ṭaʾṭ | ṭīʾṭ | ṭūʾṭ | ṭāʾṭ |
طِئْط | طُؤْط | طَأْط | طِيئْط | طُوءْط | طَاءْط | |
CV_# | ṭiʾ | ṭuʾ | ṭaʾ | ṭīʾ | ṭūʾ | ṭāʾ |
طِئ | طُؤ | طَأ | طِيء | طُوء | طَاء | |
طِء | طُء | طَء |
عام طور پر عربی اور اردو دونوں میں ہی ہمزہ کا لفظ (خواہ تنہا ہو یا حامل کے ساتھ) ایک چھوٹے سے عین کے ابتدائیییی سر کی طرح سے لکھا جاتا ہے جیسے ؤ یا ء لیکن بعض اوقات (بطور خاص اردو نستعلیق نویسہ میں اسے ایک مائلہ چھوٹے سے انگریزی s کی مانند بھی لکھا جاتا ہے۔
ہمزہ کا مقام ایک تحریر کے دوران کسی متعدد اشکال میں سامنے آتا ہے۔ اسے بطور انفرادی محرف (یعنی بطور حرف) بھی استعمال کیا جاتا ہے اور بسا اوقات یہ کسی حامل (carrier) پر ہی رکھا جاتا ہے۔ اگر وہ حامل کسی لفظ کی ابتدا میں ہو تو وہ الف ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ یہ ناقل و، ہ، ی اور ے بھی ہو سکتا ہے۔
مذکورہ بالا بیان میں الفاظ أَساس اور إِفَادَە میں گو کہ بالترتیب الف ہمزہ کے ساتھ زبر اور زیر لگائے گئے ہیں لیکن بسا اوقات ان حرکات کو تحریر سے موقوف کر کہ صرف الف پر اوپر یا نیچے ہمزہ دیا جانا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اردو میں ان ہی عربی الفاظ پر سے اس ہمزہ کو بھی موقوف کر دیا جاتا ہے اور بلا ہمزہ و حرکات صرف اساس اور افادہ ہی لکھ دیا جاتا ہے۔ اگر تلفظ میں دشواری ہونے کا اندیشہ ہو اور ان کا استعمال کیا بھی جائے تو عام طور پر زبر اور زیر کو لگا کر تلفظ میں آسانی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اردو میں الف ہمزہ (بطور ابتدائیییی حامل) کے ساتھ نہایت ہی کمیاب اور صرف مذہبی اور قرآنی الفاظ میں ہی ملتا ہے۔ فارسی میں ہمزہ طویل مصوتات یا حروف علت جیسے ا، و اور ی کے ساتھی ہی آتا ہے۔ جبکہ اردو میں بکثرت عربی قواعد موجود ہونے کی وجہ سے ہمزہ کا استعمال عربی سے نہایت ملتا جلتا ہے۔
اس مقام کا تعین کہ جہاں سے کوئی بھی لسانی آواز نکلتی ہے اسے مفصل (articulation) کہا جاتا ہے اسے بعض اوقات نطق بھی کہتے ہیں۔ جبکہ منہ، حلق اور ناک کا وہ حصہ (حصے) جو اس آواز کو پیدا کرتے ہیں انھیں مفصلہ (جمع:مفصلات) کہتے ہیں۔ ہمزہ کے مفصلہ کا موجودہ عام مقام گو مزمار (glottis) کو مانا جاتا ہے لیکن اس میں یہ بات ماہرین نحو میں تاریخی طور پر متنازع ہے کہ مزمار کے کس مقام سے ہمزہ کی تشکیل ہوتی ہے۔
عربی زبان میں بنیادی طور پر طے ہے کہ ہمزہ کی خود کوئی آواز نہیں ہوتی اور یہ صرف اپنے اردگرد موجود مصوتات اور حروف علت کی آوازوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے قواعد عربی زبان میں خاصے پیچیدہ ہیں اور بعض اوقات وہ افراد بھی اس کے استعمال میں غلطی کا ارتکاب کر جاتے ہیں کہ جن کی مادری زبان عربی ہے اور وہ عربی قواعد کی نزاکتوں سے مکمل آگاہ نا ہوں۔[7] لیکن اردو میں ایسے الفاظ کافی تعداد میں ملتے ہیں جن میں ہمزہ علاحدہ سے بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ اگر اردو کے نقطۂ نظر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمزہ کے قواعد ذکر کیے جائیں تو انھیں آسان انداز میں یوں لکھا جا سکتا ہے۔
اردو میں ایسے الفاظ کافی تعداد میں ملتے ہیں جن میں ہمزہ علاحدہ سے بطور حرف استعمال ہوتا ہے۔ اردو کی پرانی کتب میں ہمزہ کو علاحدہ حرف سمجھا جاتا تھا۔ ہمزہ سے انحراف کی ایک وجہ کمپیوٹر پر استعمال کی خودساختہ مشکل ہے۔ ایسے حرف جن میں ہمزہ علاحدہ حرف کے طور پر استعمال ہوتا ہے ان کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:
دائرہ، مشائخ، ایشیا، ماشاء اللہ، جائزہ، فائدہ، نوزائیدہ، آئینہ، رائتہ، جزائر، مسئلہ، بچائی، ہوئی، تحائف، طوائف، طوائف الملوکی، لطائف، خائف، فہمائش، فرمائش، آسائش، نمائش، ستائش، پیدائش،آرائش، رہائش، ستائیس، اٹھائیس، زائچہ، پائمال، صائب، نائب، سائل، مائل، گھائل، شمائل، وسائل، مسائل، رسائل، ملائم، دکھائیں، سنائیں، آئے، جائے، پائے، سوائے، آئیے، جائیے، پائیے، سمجھائیے، شائستہ، کمائی، نائی،قصائی، حلوائی، مٹھائی، دھلائی، سلائی، شہنائی، کڑھائی، بھائی، تائی، ڈھائی، بجھائی، روئی، کھوئی، گویائی، گہرائی، اونچائی، اترائی، جمائی، آرائی (ستم آرائی، انجمن آرائی، ہنگامہ آرائی)، لڑائی، اڑائی، دلجوئی،
کچھ نام جو اردو میں مستعمل ہیں: عائشہ، سائرہ، مائدہ، نائمہ، فائزہ، نائلہ، موجودہ زمانے میں ایسے الفاظ جن کے آخر میں ہمزہ بطور علاحدہ حرف کے آتا ہے اب عموماً انٹیرنیٹ پر ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں مگر ہمزہ ابھی بھی بعض لہجوں میں محسوس ہوتا ہے مثلاً غرباء، فقراء، صلحاء، اثناء وغیرہ۔
ایسے الفاظ بے شمار ہیں جن میں ہمزہ کسی لفظ پر استعمال ہوا ہو مگر بولتے ہوئے صاف علاحدہ سے محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر '''جرأت''' کو بغیر ہمزہ بول کر دیکھا جائے تو بالکل مختلف لفظ ہوگا۔ چند مزید مثالیں: مآرب، مآخذ، تأثر، مآل، تأسف، تأمل، بِئس، بأس، شأن؛ وغیرہ۔
مستند لغات اور ان پرانی کتب میں کہ جو اردو کے الفاظ کا ماخذ عربی زبان کی صوتیات کو سمجھنے والوں نے لکھی ہیں ان میں ہر اس مقام پر ہمزہ آتا ہے جہاں قواعد کی رو سے وقف مزمار پیدا ہو اور ضروری نہیں کہ اس وقف مزمار کا احساس عام بول چال میں اجاگر ہوتا ہو کیونکہ اردو میں تلفظ کی ادائیگی اس طرح قواعدی صوتیات کے مطابق عام بولنے والے نہیں کرتے۔ ایسی درست ادائیگی عموماً قرآن کی قرات یا پھر کسی بہت اہم محفل یا تقریر میں ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ عربی زبان کی صوتیات کا خیال رکھ کر لکھی جانے والی بیشتر کتب اسلامی موضوعات پر ہی ہیں کیونکہ اسلامی کتب لکھنے والے علما یقینی طور پر زبان صوتیات کا خیال رکھتے ہیں۔ متعدد لغات جو آن لائن دستیاب ہیں وہ عمومی لغات ہیں، یعنی وہ صوتیات یا کسی اور سائنس پر پیشہ ورانہ لحاظ سے نہیں بلکہ جو الفاظ دیگر اردو کتب میں جس طرح آئے ہیں ان کو اسی طرح درج کر دیتی ہیں اور اکثر اس کتاب کا حوالہ بھی دے دیا جاتا ہے۔[4] ایسی لغت کو کسی بھی طور پر صوتیات کے معاملات میں بطور حوالہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا خواہ وہ لغت کسی حکومت یا کسی ادارے کی سرپرستی میں ہی تیار کی گئی ہو؛ اس بات سے مقصد اس لغت پر اعتراض یا اس کی توہین ہرگز نہیں کیونکہ وہ لغت علم صوتیات کی پیشہ ورانہ لغت نہیں اور صرف دیگر کتب میں آنے والے ان الفاظ کو حوالہ جات کے ساتھ بیان کر رہی ہے جو اردو میں مستعمل ہیں، یعنی صرف اس کا ہدف جدا ہے۔ جیسا کہ ابتدا میں مذکور ہوا کہ ہمزہ کے درست استعمال میں اہل زبان عرب سے بھی غلطی کا احتمال ناممکنات میں سے نہیں ہے، اسی وجہ سے کوئی اردو دان عالم اس کے استعمال میں غلطی کر سکتا ہے۔ ایک مثال کے طور پر بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بیان، ہمزہ کے بارے میں درج کیا جا رہا ہے۔
” | ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں[8]۔ | “ |
یہ بیان ایک انتہائی فاش غلطی ہے؛ ہمزہ کبھی بھی مد کا کام نہیں کرتا بلکہ یہ bimoraic الفاظ کے مصوتات جدا کرنے اور یا پھر کسی عرب (عموماً الف) یا مصوتہ (ا و ی) کی کرسی پر آکر وقف مزمار کی شناخت کرواتا ہے یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ دو آوازوں یا الفاظ کو ایک دوسرے سے جداگانہ شناخت دیتا ہے۔[9] یعنی معاملہ الٹ کہ ہمزہ تو بذات خود بکثرت monophthong کو diphthong کی طویل آواز بننے سے روکنے کے لیے آتا ہے (دیکھیے قطعہ، صوتیاتِ لسانیات)۔ عرض مکرر ہے کہ یہاں مقصود کسی بھی شخصیت پر اعتراض نہیں بلکہ جو صورت حال ہے اس کو بیان کرنا ہے۔
اردو میں ایسے متعدد الفاظ ملتے ہیں کہ جن کو ہمزۃ القطع (cutting hamzah) کے ساتھ اور اس کے بغیر دونوں طرح لکھ دیا جاتا ہے، ایسا صرف آج کل شمارندی اردو پر ہی نہیں بلکہ اردو کی کتب میں بھی دیکھنے میں آتا ہے لہذا بنیادی طور پر اس کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ اردو میں عام تلفظ کی روانی میں جو الفاظ جاری ہوتے ہیں ان کا مفہوم سمجھنے کے لیے ہمزہ کے نا ہونے کی وجہ کوئی دشواری پیدا نہیں ہوتی؛ مثال کے طور پر لفظ ؛ کیے اور کیے دونوں طرح دیکھنے میں آتا ہے۔ اب صورت حال کچھ یوں ہے کہ وہ اشخاص جو اردو کے ایسے الفاظ کی صوتیات سے واقف ہیں یا کم از کم اس کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں وہ تو اردو کے ان الفاظ پر ہمزہ لگاتے ہیں اور جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جب ہمزہ نا لگانے سے مفہوم سمجھنے میں کوئی ابہام یا دشواری نہیں آتی تو پھر ہمزہ درج نا کر کے سادہ الفاظ اختیار کیے جا سکتے ہیں؛ اس مضمون کا مقصد کسی بھی ایک کی حمایت یا مخالفت نہیں بلکہ صرف صورت حال کو سامنے لانا ہے۔
اگر ایک عام سے لفظ ؛ لِئے کو دیکھا جائے مذکورہ بالا مضمون میں اب تک دی گئی صوتیات کی توجیہات کو اس مثال سے سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ لِئے کو اردو میں ل پر زیر کے ساتھ بڑی یے کو جوڑ کر liye یا liey ادا کیا جاتا ہے اور اگر اس میں موجود آوازوں کو صوتیات کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اس مقطعیہ (syllable) میں دو وتارہ (monophthong) موجود ہیں (1- لِ اور 2- ئے) یعنی یہ ایک دوتاخیری (bimoraic) لفظ ہے جس میں پہلا وتارہ، ل پر زیر یعنی عرب یا short vowel کے ذریعے لی کی چھوٹی آواز پیدا کر رہا ہے جبکہ دوسرا وتارہ بڑی یے یعنی مصوتہ یا vowel کے ذریعے سے طویل آواز پیدا کر رہا ہے۔ غور کرنے پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے دو مقطعیات (syllables) جس مقام پر الگ ہوتے ہیں وہاں وقف مزمار (جو عام طور پر غیر محسوس گذر جاتا ہے) آنا لازمی ہے اور اسی وجہ سے عربی تجوید کو جاننے اور اسلامی کتب لکھنے والے علما بکثرت لیے کو ہمزہ کے ساتھ لکھتے ہیں کیونکہ اگر لی ( li ) اور ے ( ye ) کی آواز کو ہمزہ سے الگ نا کیا جائے تو کس طرح ی کی آواز ے پر ختم ہوگی؟ اس لیے اردو میں اسی صورت حال کی وجہ سے بعض جگہ اس کو ل پر زیر کی بجائے مکمل مصوتہ ی کے ساتھ لی + ے لکھا جاتا ہے۔[10] لیے کی صورت میں آواز اور لیے کی صورت میں آواز ؛ دونوں میں ایک واضح فرق ہے اور دونوں انداز کے لہجے اردو میں سننے کو ملتے ہیں؛ بطور خاص ہندوستان کی پرانے انداز کی اردو میں۔
درج میں چند ایسے الفاظ دیے جا رہے ہیں کہ جن میں عموماً ہمزہ کے بارے میں غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ ان الفاظ کے لغوی ماخذ میں ابہام سے پیدا ہوتی ہے جس کی ایک مثال یوں ہے کہ لیے کے بارے میں سمجھا گیا کہ یہ لفظ لیا سے اخذ ہے اور بتائیے، بتائی سے بنا ہے اس لیے چونکہ لیا میں ہمزہ نہیں اور بتائی میں ہمزہ ہے اس وجہ سے لیے پر ہمزہ نہیں آ سکتا اور بتائی کی وجہ سے بتائیے پر ہمزہ درست ہے؛ یہاں پہلا ابہام تو ان کے ماخذات کے سلسلے میں ہے کہ بتائیے بھی بغیر ہمزہ کے لفظ بتا (بتانا) سے اخذ ہے نا کہ بتائی سے اور دوسرا ابہام یہاں یہ ہے کہ یہ سمجھنا کہ اگر اصل منبع لفظ میں ہمزہ ہے تو ہی ماخوذ لفظ پر ہمزہ آئے گا۔ یہ بات بھی درست نہیں کیونکہ اگر ماخذ پر ہمزہ نہ ہو لیکن اس سے ماخوذ کیے جانے والے لفظ پر وقف مزمار آتا ہو تو اردو قواعد کی رو سے ہمزہ لگایا جائے گا۔[1]
تاہم ایسے الفاظ میں اس امر کا اہتمام ہونا چاہیے کہ: (ی ء ے) یا (ء ی ے) کا اجماع نہ ہو؛ (ء ے) یا (ی ے) درست ہے۔ مثال کے طور پر: چاہیے، چاہیے (درست) اور چاہیے، چاہئیے (غلط)؛ لیے، لیے (درست) اور لیے، لیے (غلط)؛ دیجیے، دیجئے (درست) اور دیجیئے، دیجئیے (غلط) ہیں، وعلیٰ ہٰذاالقیاس
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.