چار عظیم سچائیاں
From Wikipedia, the free encyclopedia
From Wikipedia, the free encyclopedia
گوتم بدھ کے وضع کردہ مذہب کے کلیدی فکری نظام کی پوری عمارت جس بنیاد پر استوار ہے اس کی تشکیل چار عظیم سچائیاں کرتی ہیں۔ یہ سچائیاں بدھ فکر میں اساسی درجہ کی حامل ہیں جن میں گوتم کا بنیادی فلسفہ مضمر ہے۔ ان حقائق کو مہاتما بدھ نے شب نجات تیسرے پہر نروان حاصل کرنے سے کچھ دیر پہلے دریافت کیا۔ ان سچائیوں کی تشریح کے لیے گوتم کی تعلیمات میں جو حصہ ہمیشہ سند گردانا جاتا رہا ہے وہ ان کا پہلا اپدیش یا وعظ ہے۔[1][2] اس وعظ میں گوتم نے اپنے منحرف شاگردوں سے جو کچھ کہا اس کے مطابق ”چار عظیم سچائیاں“ مندرجہ ذیل ہیں:
تاریخ
دھرمی ادیان اساس
چار عظیم سچائیاں شرائط و تصورات
بودھی · بودھیستو شخصیات
گوتم بدھ متون
بدھ وچن · مسلمہ پالی · مہایان سوترا · مسلمہ چینی · مسلمہ تبتی · تری پٹک |
پہلی عظیم سچائی ”دُکھ“ ہے۔ یہ زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ گوتم بدھ کے خیال میں جسمانی تکالیف، بیماری، ذہنی پریشانی، حالات کا جبر، عزیزوں سے جدائی اور قابل نفرت لوگوں کی صحبت کے علاوہ زندگی کی عارضی مسرتیں اور عیاشیاں بھی آخر کار دکھ کا باعث ہوتی ہیں۔ چونکہ یہ خوشیاں مستقل نہیں ہوتیں اسی لیے جب غم ان کی جگہ گھیرتا ہے تو دُکھ کی افزائش ہوتی ہے۔ تغیر پزیر، کسی مستقل عنصر سے محروم اور کھوکھلی زندگی بجائے خود دُکھ کا بڑا باعث اور اِنسان کے لیے غیر تسلی بخش صورت حال پیدا کرنے کی محرک ہوتی ہے۔[3]
بدھ مت میں پہلی سچائی یعنی ”دُکھ“ کی تین مختلف اِقسام بتائی گئی ہیں جو کچھ اِس طرح ہیں۔
” | بھکشوؤ! یہی دُکھ ہے، یہ اولین سچائی ہے۔ پیدائش بھی دُکھ، بیماری بھی دُکھ اور موت بھی دُکھ۔[3] | “ |
دوسرا عظیم سچ یہ ہے کہ دُکھ کے اس ازلی اور ابدی کارواں کی کہیں نہ کہیں کوئی بنیادی اور حقیقی علت ضرور ہوتا ہے۔ دُکھ کے لامحدود سلسلے کا اصلی سبب اور علت گوتم کے مطابق خواہش ہے۔ یہی خواہش، طلب اور آرزو انسان کو اس دنیا میں جنم لینے پر مجبور کرتی ہے اور پھر زندگی بھر اسے مختلف صورتوں میں اپنی تسکین کے سامان ڈھونڈنے پر لگائے رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان جس طرح ناآسودہ اس دنیا میں آتا ہے اسی طرح غیر مطمئن رخصت ہوجاتا ہے، لیکن طلب کے جال اسے کسی اور جنم پھنسا کر پھر اس لافانی دنیا میں لا پھینکتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ ازل تا ابد قائم رہتا ہے۔ نہ کسی انسان کے اولین جنم کی معلوم ہوتی ہے اور نہ جنم مرن کے اس چکر کی انتہا ہی کسی کی سمجھ میں آتی ہے۔ گوتم کے مطابق اس جنم در جنم سلسلے کے پس منظر میں بھی قوت محرکہ کے طور پر خواہش ہی کار فرما ہے۔[4]
” | بھکشوؤ! میری نظر میں خواہش اور طلب جیسی اور کوئی چیز نہیں ہے جس سے بندھی ہوئی مخلوقات ایک کے بعد دوسرے جنم میں طویل عرصہ سے چکر کاٹ رہی ہیں۔ یقین جانو بھکشوؤ! اسی خواہش کی زنجیر میں جکڑی ہوئی مخلوقات وجودوں کی طلسمی نگری میں منڈلاتی رہتی ہیں۔ | “ |
تیسری عظیم سچائی یہ ہے کہ دُکھ کے اس سلسلے کا اگر کوئی بنیادی سبب ہے جیسا کہ دوسری سچائی سے ثابت ہے تو پھر اس کا انسداد بھی ممکن ہے۔ خواہش یا حرص و آز کو صرف جاری زندگی یا آئندہ زندگیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے دُکھ کا بنیادی سبب قرار دینا اس لیے بھی مناسب ہے کہ جاری زندگی میں اگر اس علت کو کسی ڈھنگ سے متاثر کر دیا جائے تو بقیہ زندگی اور آئندہ جنم میں دُکھ کا انسداد ناممکن الحصول امر رہتا۔ البتہ گذشتہ جنموں کے اسباب چونکہ پہلے سے متعین ہو چکے ہوتے ہیں لہٰذا اس سچائی کا اطلاق ماضی کی بجائے صرف حال اور مستقبل کی زندگی پر ہی ہو سکتا ہے۔ اس سچائی کے مطابق خواہش کو متاثر کر کے دُکھ کا ازلی اور ابدی جال توڑا جا سکتا ہے اور انسان جنم اور مرن کے چکر سے ہمیشہ کے لیے نجات پاکر نروان کی منزل حاصل کر سکتا ہے۔
گوتم کے بقول یہ اسی لیے ممکن ہے اگر سبب اور مسبب کے فطری قانون کے تحت وجود کا کاروان درجہ بدرجہ سفر کرتا ہے تو اسی منطق کی رو سے ایک سبب غائب ہونے پر اس کا مسبب بھی ختم ہو جائے گا۔ تیسرے عظیم سچ کا مقصد ہے دُکھ کے سبب کے خاتمہ سے سلسلہ دکھ کا مکمل خاتمہ۔[5]
چوتھی عظیم سچائی وہ آٹھ نکاتی راستہ ہے جس پر چل کر دکھوں کے سلسلہ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ پہلی تین سچائیاں بدھ مت کے نظریاتی اصولوں سے متعلق ہیں اور چوتھی سچائی وہ عملی طریقہ بیان کرتی ہے جن کے اختیار کرنے سے دکھ دور ہوتے ہیں اور نجات قریب آ جاتی ہے۔ دکھ سے نجات کا یہ ہشت پہلو راستہ چونکہ آٹھ عملی اصولوں پر مشتمل ہے لہٰذا اسے ”اشٹانگ مارگ“ کہا جاتا ہے۔[6]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.