پاکستان کے صوفی بزرگ From Wikipedia, the free encyclopedia
سید نادر علی شاہ، المعروف مرشد نادر علی شاہ، بیسویں صدی عیسوی میں دین اسلام کے قلندری سلسلۂ طریقت کے روحانی پیشوا، برگزیدہ ولی اللہ، مسلمان مبلغ اور خدمت خلق کے شعبے کی اہم شخصیت مانے جاتے ہیں۔ وہ متحدہ ہندوستان کے شمال مغرب میں واقع مقام گندف میں پیدا ہوئے اور آخر کار سیہون شریف، سندھ میں آباد ہوئے۔ وہ سیہون شریف میں مشہور صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے روحانی جانشین تھے۔[1][2][3] نادر علی شاہ تصوف، عرفان اور تبلیغ کے حوالے سے قلندری سلسلۂ طریقت کے مقبول ترین بزرگوں میں سے ایک تھے۔[4] علاوہ ازیں انھوں نے خدمت خلق، انسانی فلاح و بہبود اور پسماندہ افراد کی سماجی ترقی کو نہ صرف اسلام کے قلندری سلسلۂ طریقت کی تعلیمات کا ایک اہم جزو قرار دیا، بلکہ عملی طور اس شعبہ میں انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ [5][6]
سید نادر علی شاہ | |
---|---|
سیہون شریف میں سید نادر علی شاہ کا مزار | |
لقب | مرشد |
دیگر نام | مرشد نادر علی شاہ |
ذاتی | |
پیدائش | 1897 |
وفات | 8 اکتوبر 1974 |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
بنیادی دلچسپی | تصوف, زہد, عشق اِلٰہی, خدمت خلق, طب |
دیگر نام | مرشد نادر علی شاہ |
مرتبہ | |
مقام | سیہون شریف |
دور | بیسویں صدی عیسوی |
پیشرو | مرشد دیدار علی شاہ |
جانشین | مرشد عارف علی شاہ |
وہ سیہون شریف میں واقع صوفی خانقاہ، المعروف "کافی سخی سرور" اور "پیر پوتا مزار" کے علاوہ کراچی میں واقع مشہور بزرگ سید عبداللہ شاہ غازی کی درگاہ کے گدی نشین بھی تھے۔[3][7][8]
وہ 1897ء میں موضع گندف، ضلع صوابی میں ایک پشتون سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے والد سید غلام شاہ سے حاصل کی۔ کم سنی میں ہی والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔[9]
جوانی میں قدم رکھتے ہی، وہ اپنی والدہ کو قائل کر کے مرشد (روحانی استاد) کی تلاش میں عازم سفر ہوئے۔ انھوں نے برسوں تک متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا، جس کے دوران انھوں نے لاہور، سرہند شریف، دہلی، آگرہ، اجمیر اور کوئٹہ میں متعدد بزرگان دین کے ساتھ وقت گزارا، متعدد روحانی و علمی مراکز سے مستفیض ہوئے اور بالآخر سیہون شریف میں مستقل سکونت اختیار کی۔ سیہون شریف جانے سے قبل، کوئٹہ میں قیام کے دوران انھیں لال شہباز قلندر کئی بار خواب میں نظر آئے اور انھیں ہدایت کی کہ وہ جلد از جلد ان کے پاس سیہون شریف پہنچ جائیں۔
سیہون شریف پہنچنے پر آخر کار درگاہ لعل شہباز قلندر کے قریب واقع صوفی خانقاہ میں ان کی ملاقات ان ان شخصیت سے ہوئی، جن کی تلاش میں وہ سرگرداں تھے اور جو بعد ازاں ان کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر انداز ہوئے۔ وہ تھے ان کے مرشد دیدار علی شاہ، جو اس وقت سیہون شریف میں واقع صوفی خانقاہ، المعروف "کافی سخی سرور" میں قلندری سلسلۂ طریقت کے روحانی پیشوا تھے۔[10] کہا جاتا ہے کہ ان کو بھی خواب میں پہلے سے بشارت ہو چکی تھی، چنانچہ انھوں نے پہلے ہی روز نادر علی شاہ کو اپنے حلقۂ ارادت میں لے لیا اور بعد ازاں انھوں نے نادر علی شاہ کی تربیت کر کے ان کو اپنا جانشین بھی مقرر کر دیا۔ چنانچہ سنہ 1931 عیسوی میں مرشد دیدار علی شاہ کی وفات کے بعد انھوں نے یہ روحانی منصب سنبھالا۔[10]
انھوں نے انتہائی پرہیزگارانہ زندگی بسر کی اور اپنا زیادہ تر وقت یاد اِلٰہی، عبادت و ریاضت اور مراقبہ میں صرف کیا۔ انھوں نے اوائل عمری میں ہی ٹھوس غذا ترک کر دی تھی۔ سنہ 1946 عیسوی میں، ہندوستان کی مذہبی شخصیت مہر بابا ان سے ملاقات کے لیے سیہون شریف گئے۔ انھوں نے نادر علی شاہ کو "ایک برگزیدہ ولی" قرار دیا۔ نادر علی شاہ دو سال تک ایک کھائی میں کھڑے ہو کر عبادت کرتے رہے۔[2][4] وہ صرف مائع غذا لیتے تھے۔[1][11] وہ فقیرانہ لباس اور قلندری ٹوپی (ایک قسم کی کانوں تک لمبی سوتی ٹوپی) پہنتے۔[1] نادر علی شاہ نے مسلسل پچاس برس روزے رکھے۔ ان تمام برسوں کے دوران دن میں روزہ اور رات میں عبادت ان کا معمول تھا۔ وہ روزانہ رات کو کئی کئی گھنٹے بارگاہ اِلٰہی میں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگا کرتے۔[12]
سید نادر علی شاہ، لعل شہباز قلندر سے منسوب اسلام کے قلندری سلسلۂ طریقت کے روحانی پیشوا، مرشد دیدار علی شاہ کے ممتاز ترین شاگردوں میں سے تھے۔ دیدار علی شاہ سیہون شریف میں "کافی سخی سرور" نامی صوفی خانقاہ کے گدی نشین تھے۔ 1931 میں دیدار علی شاہ کی وفات کے بعد، نادر علی شاہ اس صوفی سلسلے کے مرشد (روحانی پیشوا) بن گئے۔[7][10] وہ 1974 میں اپنی وفات تک 43 سال تک اس منصب پر فائز رہے۔ ان کی زندگی کو اخلاقی، روحانی اور عملی طور پر بنی نوع انسان کی بھلائی سے سرشار خیال کیا جاتا ہے۔ ایک مرشد کے طور پر، انھوں نے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی زندگیوں میں اصلاح کی طرف راغب کیا، جن میں سے بہت سے لوگ عشق اِلٰہی اور خدمت خلق میں درجۂ کمال تک پہنچے۔[13] اپنے پیشروؤں کی طرح، مرشد نادر علی شاہ کو "اخوت و بھائی چارے کا حکمران" کہا جاتا ہے۔[14] سنہ 1974 عیسوی میں ان کی وفات کے بعد مرشد عارف علی شاہ ان کے جانشین بنے۔[7][10][15] ادب کے نوبل انعام یافتہ برطانوی مصنف وی ایس نائپال نے سنہ 1979 عیسوی میں براعظم ایشیا کے تحقیقی سفر کے دوران، سیہون شریف میں نادر علی شاہ کے صوفی مرکز کا دورہ کیا اور ان کے پیروکاروں کو "دوستانہ، خوش مزاج لوگوں کا گروہ" قرار دیا، "جن کی آنکھوں میں چمک تھی اور جن کو یہ یقین تھا کہ وہ اللہ اور غریبوں کی خدمت پر مامور ہیں"۔[13] بقول ان کے انھوں نے "قربانی اور خدمت کی زندگی" کا انتخاب کیا تھا۔[16] ان کے بہت سے پیروکاروں کو روحانی عروج حاصل ہوا۔[5]
نادر علی شاہ، عبدالقادر گیلانی کے دو پوتوں کے مزارات کے گدی نشین بھی تھے۔ محمود ابن عبدالرزاق گیلانی اور احمد بن عبدالرزاق گیلانی کے مزارات سیہون شہر کے مغرب میں واقع ہیں، جنہیں "پیر پوتا مزار" یا "درگاہ معصوم پاک" بھی کہا جاتا ہے۔[10] لوگوں کی ایک بڑی تعداد سالانہ اجتماع یا عرس میں شرکت کرتی ہے، جو ہر سال 10 ربیع الثانی کو ان کی یاد میں منعقد ہوتا ہے۔[10][17]
نادر علی شاہ کراچی میں واقع آٹھویں صدی عیسوی کے صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے گدی نشین بھی تھے۔[7][8] عبداللہ شاہ غازی کے مزار کی تعمیر، توسیع اور تزئین و آرائش، بیسویں صدی عیسوی کے وسط میں، ان کے ہاتھوں انجام پائی۔[5][7][8][18] انھوں نے ہی مزار کا مشہور سبز اور سفید دھاری دار گنبد تعمیر کروایا (جو میلوں دور سے نظر آتا تھا اور کراچی شہر کی پہچان بن گیا تھا)۔ ان کی دیگر تعمیرات میں مزار کی مرکزی عمارت، برامدہ، دالان، جامع مسجد، لنگر خانہ، قوالی ہال، مہمان خانہ اور پہاڑی چوٹی پر واقع مزار تک جانے والی طویل سیڑھیاں شامل ہیں۔[3][5][8][19][20] کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار اور سیہون شریف میں سید نادر علی شاہ کے صوفی سلسلہ کے درمیان عقیدت کا رشتہ قدیم ہے۔[3][21][22]
محل وقوع
سیہون شریف میں قلندر کے مزار سے تھوڑی ہی دوری پر واقع قلندری سلسلۂ طریقت کا قدیم تربیتی ادارہ اور اس سلسلے سے وابستہ جلالی درویشوں کا ٹھکانہ ہے، جسے عرف عام میں "کافی" کہا جاتا ہے۔[5][9]
وجہ تسمیہ
"کافی" سے مراد ایک خانقاہ یا قلندری سلسلے کے درویشوں کے لیے تربیت اور قیام کی جگہ کے ہیں۔ اس خانقاہ کو "مرشد نادر علی شاہ کی کافی" اور "کافی سخی سرور" بھی کہا جاتا ہے۔[5]
تاریخ
سیہون شریف میں جلالی درویش، لعل شہباز قلندر کے زمانے سے آباد ہیں۔[5] کافی کے سرپرست اعلٰی کو مرشد کہا جاتا ہے، جبکہ ان کے پیروکاروں کو ملنگ (درویش) اور سوالی (سائل) کہا جاتا ہے۔[5][15][23] مرشد کا روحانی سلسلہ لعل شہباز قلندر تک جا پہنچتا ہے۔[1] ملنگ اپنے مرشد کے فرماں بردار، بہت منظم اور اپنے مقصد کے لیے وقف ہوتے ہیں۔[15] سنہ 1980 عیسوی کی دہائی میں ان کی تعداد ڈھائی سو سے زیادہ تھی جن میں سے کچھ عبداللہ شاہ غازی اور دیگر مزارات پر بھی مامور تھے۔[5] ان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوش حال لوگ بھی تھے، جنھوں نے "قربانی اور خدمت کی زندگی" کا انتخاب کیا تھا۔[16] دنیا بھر میں لاکھوں پیروکار اس صوفی سلسلے سے وابستہ خیال کیے جاتے ہیں۔[12]
قلندری سلسلے کے گذشتہ دس مرشدوں کے مزارات احاطے کے اندر ہیں۔ انھیں ان کی دینی، روحانی اور فلاحی خدمات کی وجہ سے نہایت عزت و احترام دیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے وہ "اخوت و بھائی چارے کے حکمران" کہلاتے ہیں۔[14] مرشد نادر علی شاہ کا انتقال 1974 میں، ستتر برس کی عمر میں ہوا۔ وفات سے قبل انھوں نے اپنے ممتاز ترین شاگرد، عارف علی شاہ کو اپنا جانشین مقررکیا، جو ایک سند یافتہ ڈاکٹر بھی تھے۔ چنانچہ مرشد نادر علی شاہ کی وفات کے بعد، انھوں نے یہ منصب سنبھالا۔[5][9] ان کا انتقال 2022 میں، اناسی برس کی عمر میں ہوا۔[24]
تعلیمات
قلندری طریقہ، عشق اِلٰہی، نفس کے ساتھ جدوجہد، قلب کی تطہیر اور روح کی پاکیزگی تجویز کرتا ہے۔ تصوف کے اس سلسلے میں عبادت اور ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کے ذریعے سے رضائے الٰہی کا حصول کیا جاتا ہے۔[5]
خدمات
یہ خانقاہ ایک روحانی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے، جہاں قلندر کے عقیدت مندوں کی روحانی تعلیم و تربیت گذشتہ سات سو برس سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ صدیوں سے، کافی کو لعل شہباز قلندر کے مقدس مزار کی دیکھ بھال کا اعزاز حاصل رہا، جس میں مزار کی اعلٰی درجے کی مرمت بھی شامل تھی۔[1][4][15][23] اسے سیہون شریف آنے والے زائرین کو مفت کھانا اور پانی فراہم کرنے کی سعادت بھی حاصل رہی۔[5][25]
سنہ 1931 عیسوی میں مرشد دیدار علی شاہ کی وفات کے بعد، ان کے روحانی جانشین، مرشد نادر علی شاہ نے "کافی" کا انتظام سنبھالا، اور ساتھ ہی ساتھ لعل شہباز قلندر کے مزار کی دیکھ بھال اور زائرین کو کھانے پینے کی فراہمی کا استحقاق اور حق بھی حاصل کیا۔[10] وہ تینتالیس برس تک اس باوقار منصب پر فائز رہے۔ وہ اپنی دانشمندی، سادگی، صبر، شفقت، سخاوت اور مہمان نوازی کے لیے مشہور تھے۔[5][12] انھوں نے اپنی پوری زندگی بھوک کے خاتمے کے لیے کام کیا اور عوام الناس کے لیے "مفت کھانے اور پینے کے پانی کا انتظام" شروع کیا۔ انھوں نے یہ فلاحی کام سیہون شہر سے اس کے مضافات کی تمام غریب آبادی اور پھر کراچی اور دیگر شہروں تک پھیلایا۔ بعد ازاں ان کے جانشین مرشد عارف علی شاہ نے اس فلاحی کام کو آگے بڑھایا۔ یہ فلاحی ادارہ، مسلسل کئی دہائیوں سے، روزانہ ہزاروں افراد کو دن میں تین بار غذائیت سے بھرپور کھانا فراہم کرتا ہے۔[25][26] بیان کیا جاتا ہے کہ، عرصۂ دراز سے، اس خانقاہ سے وابستہ درویشوں کے روزمرہ کے کاموں میں، عبادت اور رات بھر ذکر الٰہی کے ساتھ ساتھ وہ محنت اور مشقت بھی چلی آ رہی ہے، جس سے انھوں نے اس "کافی" کا انتظام سنبھالا ہوا ہے اور زائرین اور بستی و مضافات کی غریب آبادی کے لیے کھانے اور پینے کے صاف پانی کا انتظام جاری رکھا ہوا ہے۔ ایک قابل ذکر ادیب اور دانشور علی احمد بروہی کے مطابق یہ خدمت سال بھر جاری رہتی ہے۔ ان کے بقول بیسویں صدی کے اوائل اور وسط میں، سیہون کی جان لیوا گرمی میں روزانہ تیس من (1200 کلوگرام) آٹا گوندھنا اور کثیر تعداد میں لوگوں کو روٹی کھلانا اتنا مشکل کام تھا کہ اسے کرنے کی ہمت صرف قلندر کے پرجوش اور عقیدت مند ملنگوں میں ہی ہو سکتی تھی۔ اس زمانے میں پانی کی فراہمی کوئی آسان کام نہیں تھا، کیونکہ اس میں، سیہون شریف جیسے دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک کے مرکز سے چند میل دور دریائے سندھ سے پانی نکال کر چمڑے کے بڑے مشکوں میں بھرنا، بیلوں پر لاد کر واپس پیدل سفر کر کے اسے لعل شہباز قلندر کے مقدس مزار اور خانقاہ میں چمڑے کے حوضوں اور مٹی کے برتنوں میں خالی کرنا شامل تھا۔[5] سید نادر علی شاہ نے مسافروں کے لیے ایک مہمان خانہ بھی تعمیر کروایا۔ لوگوں کی طرف سے ان کو انتہائی عزت اور احترام دیا گیا۔[15][26]
اس صوفی مرکز کا ایک گوشہ، بارہویں صدی کے صوفی بزرگ سلطان سخی سرور کے نام سے منسوب ہے، جنھوں نے یہاں چلہ کشی کی تھی اور بارگاہِ الٰہی میں ایک ابدی لنگر (عوام الناس کو مفت کھانا کھلانے کی سہولت) کے لیے التجا کی تھی، جو منظور ہوئی۔ ایک دفعہ مرشد نادر علی شاہ کی توجہ گیہوں کی بڑھتی ہوئی قیمت کی طرف مبذول کرائی گئی، جو پچاس روپے فی من سے اوپر چلی گئی تھی اور ان کو اس سال گندم کی جلد خریداری کا مشورہ دیا گیا۔ مرشد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ "یہ لنگر اللہ کی رضا کے لیے ہے، اس کے لیے اسباب بھی وہی مہیا کرے گا، یقین رکھو کہ انشاء اللہ یہ خدمت تا قیامت جاری رہے گی، چاہے گندم کے ایک دانے کی قیمت پچاس روپے تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے"۔[5]
اسلام کے قلندریہ سلسلۂ طریقت کے مرشد ہونے کے ناطے، سید نادر علی شاہ نے اللہ سے وابستگی، تزکیۂ نفس، حصول علم، توکل، صبر، پاکیزگی، انکسار، اخوت، عفو و درگزر اور انسانیت کی خدمت پر زور دیا۔ انھوں نے لوگوں کی روحانی، جذباتی اور جسمانی نشو و نما میں اعانت کا درس دیا۔ ان کی تعلیمات نے دنیا بھر میں لاتعداد لوگوں کو متاثر کیا۔[5][12]
مرشد نادر علی شاہ نے متعدد فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ انھوں نے معاشرے کے تمام پسماندہ طبقات کو معیاری خوراک، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، پناہ گاہ، پینے کے صاف پانی اور نکاسی تک مفت رسائی کا خیال پیش کیا، تاکہ ان کی روحانی، سماجی اور معاشی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔ انھوں نے بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تلقین کی، تاکہ لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا جا سکے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ دن میں تین وقت غذائیت سے بھرپور کھانے کی ضمانت، نہ صرف بچوں اور نوجوانوں کی صحت و نشو و نما کو یقینی بنائے گی، بلکہ ان کو اطمینان سے تعلیم حاصل کرنے کا موقع بھی فراہم کرنے میں معاون ہوگی اور انھیں ایک بہتر، روشن مستقبل کی امید دلائے گی۔ اسی طرح صحت بخش خوراک کی ضمانت سے مزدوروں، کسانوں اور دیگر کم سے درمیانی آمدنی والے خاندانوں کو معاشی تحفظ فراہم ہو گا، نتیجتاً وہ اپنے وسائل صحت، تعلیم اور دیگر ضروریات پر صرف کر سکیں گے، اس طرح ان کی ذہنی، روحانی، جسمانی، سماجی اور جذباتی صحت و نشو و نما بہتر ہوگی اور ایک پر امن فلاحی معاشرہ وجود میں آئے گا۔ سنہ 1930 عیسوی کی دہائی میں، انھوں نے بھوک اور غذائی قلت کے خاتمے کے لیے ایک رضاکارانہ تنظیم کی بنیاد رکھی۔[5] اس مقصد کے لیے انھوں نے سیہون شریف میں زائرین کے ساتھ ساتھ عوام الناس کے لیے لنگر خانہ (مفت کھانے کا انتظام) شروع کیا۔ غذائی قلت اور بھوک مٹانے کی جدوجہد کے علاوہ، اس انتظام کا مقصد، خوراک تک رسائی میں صنفی، سماجی و اقتصادی عدم مساوات کا خاتمہ کرنا بھی تھا۔ ان کے جانشین مرشد عارف علی شاہ نے نے ان کے جاری کردہ فلاحی کاموں کو اور ترقی دی۔ یہ فلاحی ادارہ، کئی دہائیوں سے، روزانہ ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو تین وقت مفت معیاری کھانا اور پینے کا صاف ٹھنڈا پانی فراہم کرتا آ رہا ہے۔[6][25][26][27]
اس ادارے کے تحت، کراچی میں عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر بھی لنگر یا مفت کھانے کی خدمت کا نظام کئی دہائیوں سے جاری ہے۔[3][5]
نادر علی شاہ جڑی بوٹیوں کے ایک ماہر طبیب تھے۔ دور دراز سے لوگ ان سے علاج کے لیے آتے۔[9]
کسی بھی بڑے صوفی سلسلے کی طرح، قلندری سلسلہ بھی روحانی علم کی منتقلی کے لیے، ایک غیر منقطع روحانی لڑی کے ذریعے، پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک ہے۔
چنانچہ نادر علی شاہ کا روحانی سلسلۂ نسب مع ادوار حسب ذیل ہے:
یہ قلندری سلسلۂ طریقت بلا تعطل حضرت لعل شہباز قلندر رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے واسطے سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔
نادر علی شاہ 8 اکتوبر 1974 (21 رمضان المبارک 1394ھ) بروز منگل کو علی صبح 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔[28] ان کی نماز جنازہ لعل شہباز قلندر کے مزار پر ادا کی گئی جس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ قاضی محمد مراد نے پڑھائی۔ انھیں سیہون شریف میں اپنے مرشد دیدار علی شاہ کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔[10]
1974 میں مرشد نادر علی شاہ کی وفات کے بعد ان کے بھتیجے، مرشد عارف علی شاہ ان کے جانشین بنے۔ [5][10] 2022 میں مرشد عارف علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادے، ان کے جانشین بنے۔[29]
انھوں نے پاکستان اور دنیا بھر میں اپنے لاکھوں پیروکار چھوڑے، جو عشق اِلٰہی اور خدمت خلق کے لیے جانے جاتے ہیں۔[12]
سید نادر علی شاہ کا فلاحی مرکز، سیہون شریف میں واقع ہے۔[26][30] یہ مرکز کئی دہائیوں سے، ہزاروں مردوں، عورتوں اور بچوں کو روزانہ تین وقت مفت کھانا فراہم کرتا آ رہا ہے اور عملی طور پر شہر کی تمام غریب آبادی کے ساتھ ساتھ مسافروں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔[26][27][31][32][33][34] درجنوں ملنگ (عقیدت مند) باقاعدگی سے کھانا تیار کرنے اور تقسیم کرنے میں حصہ لیتے ہیں۔[5] نادر علی شاہ کے عقیدت مندوں کے زیر انتظام سیہون شریف میں متعدد مقامات پر پر روزانہ ہزاروں افراد کو صاف اور ٹھنڈا پانی مفت مہیا کرنے کے مستقل انتظامات بھی کیے گئے ہیں۔[10] اس کے علاوہ یہ مرکز مسافروں کو مفت رہائش بھی فراہم کرتا ہے۔[26][27][31] مریضوں کے مفت علاج کے لیے ہسپتال کی سہولت بھی دستیاب ہے۔[9][29]
پاکستان کے نامور شاعروں نے مختلف ادوار میں مرشد نادر علی شاہ کو خراج عقیدت پیش کیا ہے اور اردو ، سندھی ، پنجابی ، بلوچی اور پشتو جیسی قومی اور علاقائی زبانوں میں بے شمار قصیدے اور منقبتیں لکھ کر اور کہہ کر اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ نور جہاں، شوکت علی، احمد خان اور خیال محمد ان گلوکاروں میں شامل ہیں جنھوں نے اپنی قوالیوں میں انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
EMI پاکستان نے ان کی چالیسویں برسی کے موقع پر ان کی یاد میں "قوالی حضرت سید نادر علی شاہ" کے نام سے قوالیوں پر مبنی البم جاری کیا۔[35]
مرشد نادر علی شاہ کا مزار، ان کی خانقاہ میں واقع ہے، جو لعل شہباز قلندر کی درگاہ کے جنوب مشرق میں ہے۔ یہ معروف سفید اور سبز گنبد، سیرامک ٹائلوں سے بنا ہے۔[36] نصف کرہ دار گنبد مربع عمارت پر قائم ہے، جس کے کونے چار میناروں سے مزین ہیں، جو موزیک سیرامک ٹائل ورک سے بنے ہیں۔ مزار کی دیواریں بھی باہر سے اسی موزیک ٹائل ورک سے آراستہ ہیں، جو اوپر سے نیچے تک سفید، سرخ، سبز، پیلے، نیلے اور سیاہ سرامک ٹائلوں کی افقی قطاریں بنا کر خالصتاً مسرت و شادمانی کا احساس دلاتی ہیں۔[14] اندرونی حصے میں نازک شیشے کا کام فلک بوس چھت اور گنبد کو مزین کرتا ہے۔ دیواروں کو اندر سے فیروزی سیرامک ٹائلوں اور نازک شیشے کے کام سے سجایا گیا ہے۔ شمالی دیوار پر شیشے کے کام میں قرآنی آیات کندہ ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ روزانہ درگاہ پر حاضری دیتے ہیں اور سید نادر علی شاہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔[13]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.