From Wikipedia, the free encyclopedia
اختر محمد منصور اسلامی امارت افغانستان کے دوسرے امیر تھے جو ملا عمر کے بعد افغان طالبان کے نئے امیر منتخب کیے گئے۔
ملا | |
---|---|
اختر منصور | |
(عربی میں: أختر محمد منصور) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1968ء میوند ضلع |
وفات | 21 مئی 2016ء (47–48 سال)[1][2] |
وجہ وفات | ڈرون حملہ |
طرز وفات | قتل |
شہریت | مملکت افغانستان جمہوریہ افغانستان جمہوری جمہوریہ افغانستان دولت اسلامی افغانستان افغانستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | دار العلوم حقانیہ |
پیشہ | سیاست دان |
پیشہ ورانہ زبان | پشتو |
عسکری خدمات | |
لڑائیاں اور جنگیں | افغانستان میں سوویت جنگ ، جنگ افغانستان |
درستی - ترمیم |
اختر منصور 1968ء میں محمد جان ہاں افغانستان کے صوبہ قندہار کے ضلع میوند کے بند تیمور گاؤں میں پیدا ہوئے۔ملا اختر پٹھانوں کی مشہور قبیلہ اسحاق زئ سے تعلق تھا۔ جو بند تیمور اسحاق زی قبیلہ کاکڑ ہے۔اسحاق زی پاکستان کے توبہ اچکزئی میں بھی بہت گھرانے رہتے ہیں جو ان کے اپنے زمین پر آباد ہے۔
ان کا خاندان اپنے علاقے پر ایک دیندار گھرانہ تھا اور ان کے والد ایک علم دوست شخص تھے، اس لیے منصور صاحب کی صحیح تربیت کے لیے ان کا پہلا انتخاب دینی تعلیم کا حصول تھا۔
سات سال کی عمر میں والد نے اپنے علاقے کے ایک دینی ادارے میں داخل کروایا۔ بچن ہی سے ذہین اور سمجھدار تھے، اسی لیے اپنے والدین کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ کی جانب سے بھی اس کی خصوصی تربیت کا اہتمام ہونے لگا۔ کم وقت میں اپنی ابتدائی دینی اور عصری تعلیم کامیابی سے حاصل کی۔
اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مشہور مدارس کا رخ کیا۔ وہاں بھی نمایاں قابلیت اور اخلاق کے مالک رہے۔ وہیں سے عالیہ سطح کے علوم حاصل کیے۔
منصور صاحب ابھی علوم ابتدائی مراحل میں تھے کہ افغانستان کا سیاسی اقتدار کمیونسٹوں کے ہاتھوں میں چلا گیا اور افغانستان کی عوام نے ان کے خلاف اسلامی تحریک کا آغاز کر دیا۔
1978ء میں افغانستان پر سوویت یونین کی جار حیت شروع ہوتے ہی افغانستان کی عوام نے اس کے خلاف اسلامی تحریک کو بزور بازو شروع کیا۔ اس جدوجہد کو جہادروس کہا جاتا ہے اور انہی کو مجاہدین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
افغانستان پر سوویت جارحیت کے درمیانے ادوار میں جب ملااختر منصور جوان ہوئے اس وقت اپنی دینی تعلیم کی تکمیل لے لیے پھر سے تعلیمی سلسلے سے جڑنا چاہتے تھے، جارح قوت کے خلاف مسلح جہاد کے لیے اپنے جہادی جذبے کی وجہ سے اپنی دینی تعلیم ادھوری چھوڑدی۔ مگرعلم کا بے پا شوق ہونے کی وجہ سے جب بھی جہاد سے لوٹتے اپنے خاص اساتذہ سے اپنی بقیہ ماندہ پڑھائی کی تکمیل کرنے لگتے۔ اسی طرح مضبوط عزم کے ساتھ پڑھائی جاری رکھی اور موقوف علیہ تک پہنچادی۔ بعد ازاں انھوں نے مستقلاً میدان جہاد کا انتخاب کیا اور محاذوں پر رہنے لگے۔
انھوں نے 1985ء میں جہادی کارروائی کے لیے قندھار کے مشہور جہادی کمانڈر قاری عزیزاللہ (مرحوم) کے محاذ سے اپنی جہادی زندگی کا آغاز کیا۔ ضلع پنجوائی کے علاقے پاشمول میں افغانستان کی سطح پرمشہور جہادی شخصیت ملا محمد حسن اخوند کی سرپرستی میں سوویت جارحیت پسندوں اور ان کے کٹھ پتلیوں کے خلاف جہادی کارروائیاں کیں۔ قاری عزیز اللہ صاحب کا محاذ مولوی محمدنبی محمدی (مرحوم) کی تنظیم حرکت انقلاب اسلامی سے ملحق تھا۔ قاری عزیزاللہ کی وفات کے بعد کمانڈر حاجی محمد اخند کی قیادت میں جہادی شخصیت مولوی محمد یونس خالص کی تنظیم اسلامی حزب میں انھیں ذمہ داری دی گئی ۔
منصور صاحب نے قندہار میں سوویت یونین جارحیت پسندوں اور ان کے داخلی حامیوں کے خلاف بہت سی فوجی کارروائیوں میں فعال حصہ لیا۔ 1987ء میں قندہار کے ضلع پنجوائی کے علاقے سنزری میں روسیوں کے ایک سٹریٹجک مرکز پر براہ راست حملے کے دوران ایسے زخمی ہوئے کہ ان کے جسم پر تیرہ زخم آئے مگر اللہ تعالی نے انھیں شفا دے دی۔ دوسری بار 1997ء میں مئی کے مہینے میں امارت اسلامیہ کی حکومت میں مزارشریف کے ہوائی اڈے میں زخمی ہو گئے اور اسی زخمی حالت میں مخالفین کے ہاتھوں اسیر بھی ہو گئے ۔
1992ء میں افغانستان میں کمیونسٹ نظام کے خاتمے اور داخلی جنگوں کے آغاز کے بعد جناب منصور صاحب اور ان کے محاذ کے دیگر مجاہدین نے اسلحہ رکھ دیا اور اقتدار کی خاطر شروع ہونے والی جنگ میں کسی کا ساتھ نہیں دیا ۔
منصور صاحب جو اس وقت ایک نامور مجاہد بن چکے تھے اور مجاہدین کے درمیان اچھی شہرت رکھتے تھے انھوں نے ملامحمد ربانی، حاجی ملامحمد(مرحوم) اور ملا بورجان (مرحوم) کی طرح جنگی مصروفیات ترک کر دیں اور کچھ تعلیمی اور تربیتی امور میں مصروف ہو گئے ۔
1994ء میں ملا محمد عمر کی جانب سے تحریک اسلامی طالبان افغانستان عرف "طالبان" کا آغازہوا تو انھوں نے اسے آگے بڑھانے میں محوری کردار ادا کیا ۔
انتظامی اورجہادی صلاحیتوں کے باعث طالبان تحریک کے سربراہ کی جانب سے انھیں اہم ذمہ داریاں سونپی گئیں جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں :
افغانستان فضائی سفر اور سیاحت کے شعبے میں انھوں نے بہت سی تبدیلیاں اور اصلاحات کیں جن میں کچھ باتوں کا تذکرہ مختصراً درج ذیل ہیں۔
جناب منصور صاحب نے فضائیہ کا معیار بہتر بنانے اور دیگر ممالک کے ٹرانزیٹ پروازوں کو جو افغانستان کے حدود سے گذرتے تھے کابل، قندہار، ننگرہار، مزار اور ہرات کے ہوائی اڈوں میں ویسٹ دستگاہ کی سہولتیں مہیاکیں۔ جو اب بھی دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں۔ اس دورمیں ان ہوائی اڈوں سے ٹیکس کی مد میں ملینوں ڈالر آمدنی ہوتی تھی جو اب بھی جاری ہے۔ اس دور میں سول افغان فضائیہ اور ائیرفورس کے 44 مختلف ٹرانسپورٹ اور جنگی طیارے جو خانہ جنگیوں میں تباہ ہوکر ناکارہ ہو گئے تھے۔ انھوں نے ان تباہ شدہ طیاروں کی از سرنو درستی اور انھیں پرواز کے قابل بنایا۔
تین عدد این 12 (N-12)،چار عدد این 32 (N-32)، دو عدد این 26 (N-26)
آٹھ عدد جیٹ میگ 21 (MIG-21)، تین عدد جیٹ (M-420)، پانچ عدد جیٹ سو 22
چھ عدد می8 (MI-8)، آٹھ عدد می35(MI-35)، پانچ عدد ایل 39 (L-39)
اس کے علاوہ عوامی ٹرانسپورٹ کے لیے ایک روسی ساختہ ماڈل 41 اور ایک این24 اور افغان آریانہ ائیرلائن کمپنی کا ایک امریکی بوئنگ طیارہ بھی اس دور میں بیرون ملک میں ٹھیک کرواکر قابل استعمال بنایا گیا۔
اسی طرح 5 روسی ساختہ ٹرانسپورٹ طیارے آزاد بازار میں خریدے گئے۔ ان تمام ریپئر شدہ یا خریدے گئے طیاروں کے علاوہ افغانستان میں درجنوں کی تعداد میں صحیح سالم جنگی، ٹرانسپورٹ طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تھے جو ایک مکمل فضائی قوت تشکیل دے رہے تھے۔ اس کی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ قندوز اور دیگر دورافتادہ علاقوں میں مجاہدین کے محاصرے اور دورافتادہ محاذوں اور خطوں کو مسلسل فضائی کمک پہنچانے کی صورت میں دیکھنے میں آیا۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر اور بیرون ملک منظم طریقے سے مسافروں کی منتقلی کا بہترین انتظام بھی تھا۔ مگر امریکی جارحیت اور ہوائی اڈوں کو بمباری کا نشانہ بنانے کی وجہ سے یہ قومی ملکیت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔
ملا اختر محمد منصور امارت اسلامیہ کے دور حکومت میں جنرل مالک کی غداری کی وجہ سے شمال میں 6 ماہ تک قید بھی رہے۔ مگر اللہ تعالی کے فضل سے اس وقت واپس رہا ہوئے جب جنرل مالک جنرل عبدالرشید دوستم کے حملے سے خوف زدہ ہوکر فاریاب سے بھاگ گئے۔ اس طرح وہاں کی جیلوں سے قیدیوں کو نکلنے کا راستہ ملا۔
7 اکتوبر 2001ءکو افغانستان پر امریکی حملہ کے بعد ملا اختر منصور نے ان کے خلاف مسلح مزاحمت (جسے جہاد کہا جاتا ہے) بھی شروع کردی۔ملا اختر منصور کے لیے ان کی جہادی زندگی میں یہ مرحلہ انتہائی شدید آزمائشوں اور چیلنجوں سے بھرا تھا۔
انھیں ملا عمر کی جانب سے امارت اسلامیہ کی رہبری شوریٰ کی رکنیت کے علاوہ صوبہ قندہار کی جہادی ذمہ داری بھی دی گئی ۔
اس وقت طالبان کو افغانستان کے دیگر صوبوں کی طرح قندہار کو بھی امریکا کے خلاف مزاحمت کے لیے ایک مضبوط کمانڈر کی ضرورت تھی۔ کیوں کہ مجاہدین کے خلاف جنوب مغربی خطے کے تمام جنگی منصوبے اسی صوبے سے طے کیے جاتے تھے ۔
یہی وجہ تھی کہ ہلمند کے بعد پورے زون کی سطح پر قندہار میں سب سے زیادہ امریکین، کینیڈین اور دیگر فوجی تعینات تھے۔ بگرام کے بعد سب سے بڑا مرکزی اڈا انھوں نے قندہار ائیرپورٹ میں قائم کیا ۔
ملا اخترمنصور نے اپنی بصیرت سے قندہار میں موجود مخالف افواج کے خلاف ایسے منصوبے تشکیل دیے جن کی روک تھام میں اپنے دور کے معروف ترین فوجی جرنیل اور عسکری ماہرین ناکام رہے۔
انھوں نے اپنی عسکری مہارتوں اور تخلیقی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے نئے تیکنیک آزمائے۔ پڑوس کے صوبوں کے جہادی ذمہ داران کے ساتھ مشاورت کے بعد قندہار سے نکل کر انھوں نے پورے جنوب مغربی حصے کی سطح پر پلان مرتب کرنے شروع کردیے۔ قندہار کے علاوہ پڑوس کے صوبوں اروزگان، زابل اور ہلمند میں نیٹو پر شدید حملے کیے۔
سال 2003ء اور 2008ء میں قندہار کی مرکزی جیل کو دو مرتبہ توڑ دیا گیا اور دونوں مرتبہ 15، 15 سو کے قریب قیدی (ساتھی) جیل سے رہائی پاگئے۔ یہ دونوں واقعات منصور صاحب کے دور میں ہوئے ۔
2007ء میں امارت اسلامیہ کے سابق نائب امیر ملا عبید اللہ اخوندگرفتار ہو گئے تو ملامحمد عمر نے اختر محمد منصور کو امارت اسلامیہ کے دوسرے معاون ملا برادر اخوند کے ساتھ امارت اسلامیہ کا دوسرا نائب مقرر کیا اور یہ ہدایت بھی کی کہ قندہار بہت اہم ہے اس صوبے کے گورنر بھی رہنا اور دونوں ذمہ داریاں نبھاتے رہنا ۔
2010ء میں اس وقت جب امارت اسلامیہ کے ایک سیکرٹری ملاعبید اللہ اخوند کو پاکستان کی جیل میں وفات پاجانے کے بعد ایک اوردوسرے سیکرٹری ملا عبد الغنی برادر کو امریکی اور پاکستانی فوجیوں کی مشترکہ کارروائی میں پاکستان کے شہرکراچی میں گرفتار کر لیا گیا۔ملا محمد عمر نے منصورصاحب کو نائب و سیکرٹری اور ا مارت اسلامیہ کے تمام امور میں مرکزی مسئول کے طور پر انھیں منتخب کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکا کے صدر بارکاوباما کی جانب سے افغانستان میں مزید 30ہزار فوجیوں کا اضافہ کیا گیا اورافغانستان میں طالبان کو شدید مشکلات پیش آنے لگیں۔
نیٹوکی ایک لاکھ سے زائد فوج جدید ترین وسائل سے لیس 3لاکھ 35ہزار داخلی فوجیوں کی مدد کے لیے طالبان کے خلاف ملک کے کونے کونے میں جنگ میں مصروف تھی۔ ایک جانب انتہائی حساس سیکیورٹی حالات کے باعث اس مزاحمتی تحریک کی قیادت کے لیے ملا محمد عمر کا منظر عام پر آنا مشکل تھا تو دوسری جانب جہادی محاذ پر عسکری اور انتظامی قیادت کی خلا تھی جس کی وجہ سے جنگ میں طالبان کے خلاف نیٹو کا پلڑا بھاری ہونے لگا تھا۔
طالبان پر فوجی دباؤکے ساتھ ساتھ سیاسی اور پروپیگنڈا پریشر بھی بڑھ رہا تھا۔ محاذوں پربہت سے مجاہدین مارے جاچکے تھے اور بہت سے رہنما گرفتار ہو چکے تھے ۔
اس طرح کے حساس ترین حالات میں ملا محمد عمر کی جانب سے ان کے مخالفین کے خلاف طالبان کو سنبھالادینے کی ذمہ داری منصور صاحب کو دی گئی۔ یہاں تک کہ ان کا کوئی معاون یا نائب تک ان کے لیے مقرر نہیں کیا گیا۔ ملامنصور نے عملاً اور رہبری شوریٰ کے تعاون سے جنگ کے اس شدید ترین وقت میں مجاہدین کی ایسی قیادت کی کہ انھیں کسی طرح کی عملی قیادت کی کمی کا احساس نہ ہوا۔
یہی وجہ تھی کہ 2010ء کاسال نیٹو کے اپنے اعتراف کے مطابق ان کے لیے سب سے مشکل سال رہاجبکہ طالبان نے تمام ادوار میں سب سے زیادہ کاری حملے مخالفین پر اسی سال کیے۔ جس میں ان کے مخالفین کے اعتراف کے مطابق 770 فوجی ہلاک ہو گئے ۔
اسی طرح مجاہدین نے منصور صاحب کی قیادت میں بہت سے علاقے فتح کیے اور وہاں منظم اسلامی حکومت قائم کی۔
23 اپریل 2013ء کوجب ملا محمد عمر انتقال ہوا تو امارت اسلامیہ کی رہبری شوریٰ کے کئی ارکان، جید علما، گذشتہ چودہ سالوں میں ملا محمد عمر مجاہدکے خصوصی قاصد اور ان کے دائمی ساتھی جو ان کی وفات تک ان کے ساتھ رہے سب نے اپنی روایت کے مطابق ملا منصور کے ہاتھ پر بیعت کردی اور انھیں امارت اسلامیہ کے امیر کی حیثیت سے متعین کر دیا۔
2013ء امریکی و نیٹو اور ان کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے درمیان مقابلے اور زور آزمائی کا آخری سال ثابت ہوا۔ اس لیے امارت اسلامیہ کی رہبری شوریٰ، اہم ترین قیادت اور چند شیوخ اورانکے اکابر علما نے یہ فیصلہ کیا کہ:
اب مخالف افواج کے خلاف جنگ کے آخری مراحل ہیں اور 2014ء میں مستقبل کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ یہ سال ابھی آنے والا ہے اس لیے جہادی مصلحت اور علما کی حمایت کے مطابق یہ ٹھیک ہوگا کہ ملا محمد عمر (مرحوم) کی وفات کی خبران معدودے چند افراد تک محدود رہے۔
یہی وجہ تھی کہ یہ بنیادی راز بہت معجزانہ طریقے سے مخصوص جہادی مصالح کی بنیاد پر 30جولائی 2015ء تک محفوظ رکھا گیا۔
14شوال المکرم1436ھ بمطابق 30جولائی 2015ء کو جب ملا محمد عمر (مرحوم) کی وفات کاباقاعدہ اعلان کیا گیا تو ملا اختر منصور نے مزید اطمینان کی خاطر رہبری شوریٰ کے ارکان اور علما کو اپنے مستقبل کے فیصلے کا اختیار دے دیا اور ان سے کہا کہ:
آپ لوگ جس شخص کو منتخب کروگے میں اسی پر راضی اور متفق ہوں گا۔
بعد ازاں امارت اسلامیہ کی رہبری شوریٰ کے ارکان، مشائخ اور مشہور علما کے ایک اجتماع نے جسے اہل الحل والعقد کا اعتبار حاصل تھا، اجتماع میں ملااخترمنصور کی عدم موجودگی میں طویل بحث وتمحیص کی،مختلف مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے مشاورت کی اور اس کے بعد امارت اسلامیہ کے نئے امیر کی حیثیت سے ان کا انتخاب کیا ۔
امارت اسلامیہ کے امیرکی حیثیت سے ملا اختر محمد منصور کے انتخاب کے بعد رہبری شوریٰ کے ارکان، امارت اسلامیہ کے تمام کمیشن کے سربراہان، عدالتوں کے مرکزی ذمہ داران، عسکری کمانڈروں اور افغانستان کے 34 صوبوں کے صوبائی رہنماؤں، عسکری کمیشن کے ذمہ داران، ملک کی علمی، قومی، جہادی، سیاسی اور ثقافتی شخصیات اور امارت اسلامیہ کے تمام مسلح مجاہدین نے بیک آواز نئے امیر سے بیعت کا اعلان کر دیا۔ ان تمام عسکری اور عوامی حلقوں اور ملک کی بڑی شخصیات نے اپنی بیعتیں صوتی پیغامات اور کتابت کی صورت میں، امارت اسلامیہ افغانستان کے شعبہ نشریات کو بھیج دیں۔
علما کرام اور سیاسی ماہرین نے اسلام میں نئے امیر کے لیے سب سے بہتر طریقہ علما اور شوریٰ اہل حل والعقد کی جانب سے انتخاب کو قرار دیا ہے۔ اہل حل والعقد کا اطلاق اس گروپ پر ہوتا ہے جو علم، تجربے اور سمجھداری رکھنے والے افراد پر مشتمل ہواور کم از کم ایک شوریٰ کا اطلاق اس پر ہوتا ہو۔
خلفائے راشدین کے انتخاب کے مختلف طریقوں سے جو عمومی طریقہ مستنبط کیا گیا ہے وہ یہی شوریٰ کی جانب سے امیرکے انتخاب کے تین مراحل ہیں۔
پہلا مرحلہ ترشیح، دوسرا انتخاب اور تیسرا بیعت کاہے ۔
ترشیح یا قیادت کے لیے منتخب ہونا خود اس شخص کی جانب سے نہیں ہوتا جو زعیم مقرر ہو رہا ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
” | إنا والله لا نولي هذا العمل أحدا سألة , أو أحدا حرص عليه | “ |
ترجمہ :واللہ ہم اس شخص کو اس قیادت کے لیے نہیں چنیں گے جو خود اسے چاہے یا اس کا حرص کرے ۔
اس لیے ترشیح دوسروں کی جانب سے ہوتی ہے یا ایک آدمی کی جانب سے جیسے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کے لیے انھیں آگے کر دیا اور پھر صحابہ کرام نے امام کے طور پر ان کا انتخاب کیا۔ یا یہ انتخاب بہت سے لوگوں کا ہوگا۔ جس طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے شہادت سے قبل کئی صحابہ کانام لیا خلافت کے لیے، ان کے درمیان سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ خلیفہ بنے۔ ملا اختر محمد منصور نے کبھی خود کوامارت کے لیے پیش نہیں کیا۔ پہلے اجلاس میں بھی ان کا نام امیر کے لیے منتخب ہو گیا تھا دوسرے اجتماع میں انھوں پھر سے صراحتاً شوریٰ سے کہا کہ میں قیادت کا طالب نہیں ہوں بلکہ ایک خادم کی حیثیت سے خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مگر شوریٰ نے صرف انھیں ہی واحد اہل فرد کے طور پر منتخب کیا۔ طویل بحث اور غور کے بعد اسی شوریٰ کی جانب سے جو علما کرام ،شیوخ اور امارت اسلامیہ کے رہبری شوری کے ارکان پر مشتمل تھا جو سب کے سب علمی اورجہادی تجربات رکھنے والے لوگ ہیں ان سب کی جانب سے ان کا زعیم کی حثیت سے انتخاب کیا گیا اور شوری کے تمام ارکان نے ان سے بیعت کی۔ بعد ازاں دیگر ذمہ داران، عام مجاہدین اور مسلمانوں نے ان سے بیعت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
اس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ ان کا انتخاب مکمل طور پر شرعی طریقے سے کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے طول وعرض میں لاکھوں افراد کے علاوہ سینکڑوں قرآن وحدیث کے مشائخ نے ان کی زعامت قبول کی۔ اسے شرعی قرار دیا اور ان سے بیعت کی۔
امارت اسلامیہ افغانستان کے نئے زعیم ملا اختر محمد منصور امارت اسلامیہ کے تاسیسی ارکان میں سے انتہائی مدبر، مؤثر اور مضبوط قوت رکھنے والے فرد سمجھے جاتے ہیں ۔
انھیں وہبی طریقے سے قیادت اور رہنمائی کی خصوصی صفات اور خصوصیات سے نوازا گیا ہے۔ تقوی، اخلاص ،جہادی بصیرت، سیاسی درایت اور کاموں کو عملی طور پر نظم وضبط دینا ان کے کام کی خصوصیات ہیں۔
ملا اختر محمدمنصور امارت اسلامیہ کے تمام جہادی فعالیتوں کی تنفیذ میں اپنے جہادی رہنماملا محمد عمر کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ جہادی اہداف کا حصول ،خارجی جارحیت پسندوں سے ملک کی آزادی، ملک میں شرعی نظام کی مضبوطی ان کے جہاد کے بنیادی مقاصد ہیں۔ وامرھم شوری بینھم پر عمل کرتے ہوئے اپنے ساتھیوں کے مثبت مشورے غور سے سنتے ہیں۔ کام اہل کار لوگوں کو سونپتے ہیں۔ اور ذمہ داری دینے کے بعد ان پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں۔ ذمہ دار افراد کو ہمیشہ عوام پررحم اور ان سے ہمدردی کی تلقین کرتے ہیں۔
اس بات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں کہ امارت اسلامیہ تمام افغانوں کا مشترکہ گھر ہے اس لیے سب کو اسی طرح یہاں رہنا ہوگا۔
منصور صاحب اپنی روز مرہ زندگی کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے کرتے ہیں۔ جہادی محاذوں اور عسکری ذمہ داران سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ہیں۔ دشمن پر ہونے والے حملے کا پلان خود اپنی نظر سے گذارتے ہیں۔ جہادی حکام کو عوام کے جان ومال کے تحفظ کی تلقین اور حکم کرتے ہیں۔ وہ ایک فوجی کمانڈر کی طرح اپنے جہادی ساتھیوں، محاذ کے مجاہدین سے احترام اور ہمدردی کا سلوک کرتے ہیں۔ مجلس میں علما، اساتذہ اور بڑوں کی بات چیت کا خاص احترام رکھتے ہیں۔ سیاسی امور میں بہت احتیاط سے کام لیتے ہیں اور اس حوالے سے اہل رائے ساتھیوں سے رائے ضرور لیتے ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.