عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک From Wikipedia, the free encyclopedia
8 مارچ 2022ء کو پاکستان میں حزب مخالف کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن بھی دائر کی۔ پاکستان کی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی جس میں عمران خان کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے تحت اتحاد میں متحد حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم پر خراب حکمرانی اور معیشت کی بدانتظامی کا الزام لگایا۔
تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ حزب اختلاف کی جماعتوں کے سربراہی اجلاس میں کیا گیا تھا۔[1][2][3]
حزب اختلاف کی جماعتوں کی مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سابق قائد حزب اختلاف، شہباز شریف نے کہا کہ یہ اس لیے پیش کیا گیا کیوں کہ عمران خان کے گذشتہ 4 سالوں میں منتخب حکومت نے معاشی اور سماجی لحاظ سے اس ملک کے ساتھ جو کچھ کیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔[4]
حکومت نے جواب میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر بین الاقوامی سازش کا حصہ ہونے کا الزام لگایا۔ [5]
6 مارچ 2022ء کو وزیر اعظم عمران خان نے صوبہ پنجاب کے علاقے میلسی میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے اپوزیشن سے سوال کیا تھا کہ ’کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں کہ میں ان (اپوزیشن) کے ساتھ کیا کروں گا، اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو؟ [6]
حکومت نے آئین پاکستان کی شق 63-اے کی قانونی وضاحت کے لیے عدالت عظمیٰ پاکستان میں صدارتی ریفرنس دائر کیا جو پارلیمان میں ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کا پابند ہے۔ ریفرنس میں حکومت نے عدالت عظمیٰ سے چار سوالات پوچھے۔ [7]
پاکستان کے آئین کی شق 58 کے تحت اگر قومی اسمبلی کے 172 ارکان کی تعداد عدم اعتماد کے حق میں ووٹ دیتی ہے تو وزیر اعظم عہدہ چھوڑ دیتا ہے۔ [8] ووٹ کامیاب ہونے کی صورت میں عمران خان کی کابینہ بھی تحلیل ہو جائے گی۔ [9]
تحریک عدم اعتماد کے وقت، وزیر اعظم عمران خان کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مرکز میں مخلوط حکومت تھی، [10] خزانے کی نشستوں پر 176 ارکان تھے، جب کہ حزب اختلاف کی کی مجموعی نشستوں کی تعداد 162 ہے۔ وزیر اعظم کو ہٹانے کے لیے کل ووٹوں کی تعداد 172 ہے۔ ایک بار جب تحریک عدم اعتماد جمع ہو جاتی ہے، سپیکر کو دو ہفتوں کے اندر اندر حکم کے لیے ایوان کو بلانا چاہیے اور ایوان کے بلائے جانے کے بعد ایک ہفتے کے اندر تحریک پر ووٹنگ ہونی چاہیے۔ [9]
11 اپریل 2022ء کو، نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے قومی اسمبلی کا انتخاب ہوا۔ سبکدوش ہونے والی حکمران جماعت پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ تاہم، ووٹنگ سے چند لمحے قبل، پارٹی نے اسمبلی سے بڑے پیمانے پر واک آؤٹ کیا جس پر قریشی نے دعویٰ کیا کہ یہ 'درآمد شدہ حکومت' ہے۔ شہباز شریف، سابق وزیر اعلی پنجاب اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی، بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔[23]
2018→ | 11 اپریل 2022ء | ←2023 (یا اس سے پہلے) | |
---|---|---|---|
امیدوار | جماعت | حاصل کردہ ووٹ | |
مطلوبہ اکثریت → | 342 میں سے 172 | ||
شہباز شریف | پاکستان مسلم لیگ ن | 174 | |
0 | |||
ووٹ نہیں دیئے | 167 |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.