پاکستانی دینی سیاسی جماعت From Wikipedia, the free encyclopedia
جماعت اسلامی پاکستان یا جے آئی ملک کی سب سے بڑی اور پرانی نظریاتی اسلامی احیائی تحریک ہے جس کا آغاز بیسویں صدی کے اسلامی مفکر سید ابوالاعلیٰ مودودی، جو عصر حاضر میں اسلام کے احیاء کی جدوجہد کے مرکزی کردار مانے جاتے ہیں ،[1] نے قیام پاکستان سے قبل3 شعبان 1360 ھ (26اگست 1941ء) کو لاہور میں کیا تھا۔ سید ابولاعلیٰ مودودی اور دیگر 74 افراد نے ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی مشترکہ جدوجہد کے لیے اس کی بنیاد رکھی۔ پارٹی کا ماننا ہے کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور وہ اس کی وکالت کرتی ہے کہ اسلامی تعلیمات کا سیاست اور ریاستی امور سمیت زندگی کے تمام معاملات میں اطلاق ہونا چاہیے۔
بانی | ابوالاعلی مودودی |
---|---|
امیر | حافظ نعیم الرحمن |
نائب امیر | لیاقت بلوچ |
نائب امیر | خورشید احمد |
تاسیس | برطانوی ہند میں 26 اگست 1941ء پاکستان میں 1947 |
صدر دفتر | منصورہ، لاہور |
نظریات | اسلام پسندی سماجی قدامت پسندی اتحاد عالم اسلام اسلامی جمہوریت پسندی |
بین الاقوامی اشتراک | اخوان المسلمون جماعت اسلامی ہند بنگلہ دیش جماعت اسلامی جماعت اسلامی کشمیر |
ایوان بالا | 1 / 100
|
قومی اسمبلی | 1 / 342
|
بلوچستان اسمبلی | 0 / 65
|
خیبر پختونخوا اسمبلی | 1 / 124
|
سندھ اسمبلی | 1 / 168
|
پنجاب اسمبلی | 0 / 371
|
گلگت بلتستان اسمبلی | 0 / 33
|
آزاد کشمیر اسمبلی | 0 / 49
|
انتخابی نشان | |
ویب سائٹ | |
www |
جماعت اسلامی پاکستان نصف صدی سے زائد عرصہ سے دنیا بھر میں اسلامی احیاء کے لیے پر امن طور پر کوشاں چند عالمی اسلامی تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے۔
جماعت اسلامی لوگوں کو اپنی پوری زندگی میں اللہ اور حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے کی دعوت اور منافقت، شرک چھوڑنے کی تلقین کرتی ہے۔ مزید جماعت سیاست میں خدا سے پھرے لوگوں کی بجائے زمام کار مومنین و صالحین کو سونپنے کا کہتی ہے۔ تا کہ نظام سیاست کے ذریعے خیر پھیل سکے اور لوگ اسلامی طریقہ پر آزادانہ چل سکیں اور اس کی خیر وبرکت سے مستفید ہو سکیں۔[2]
جماعت اسلامی، پاکستان کی بہترین منظم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی واحد سیاسی و مذہبی جماعت ہے جو اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔[3] جماعت میں اہم ذمہ داران اور شوری کا چُناؤ بذریعہ انتخاب کیا جاتا ہے جس میں صرف اراکین جماعت حصہ لیتے ہیں جبکہ دیگر ذمہ داریاں استصواب رائے کے ذریعے طے کی جاتی ہیں۔ پاکستان کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے برعکس جماعت میں موروثی، شخصی، خاندانی یا گروہی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی اور جماعت اپنے اندر نظم و ضبط، کارکنوں کے اخلاص، جمہوری اقدار اور بدعنوانی سے پاک ہونے کی شہرت رکھنے کے باعث دیگر جماعتوں سے ممتاز گردانی جاتی ہے۔[4]
جماعت اسلامی میں اعلیٰ ترین تنظیمی ذمہ داری یا عہدہ امارت کہلاتا ہے اور اس ذمہ داری پر مامور شخص کو امیر کہا جاتا ہے۔ امیر جماعت کو جماعت کے اراکین آزادانہ رائے سے منتخب کرتے ہیں۔ یہ انتخاب کسی بھی قسم کے نسلی، خاندانی اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہوتا ہے۔ امیر جماعت کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔[5] اب تک جماعت اسلامی پاکستان کے امرا کی تفصیل کچھ یوں ہے:
26اگست 1941ء تا 4 نومبر 1972ء تاسیسی اجتماع میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کو جماعت اسلامی کا امیر بذریعہ آزادانہ انتخاب منتخب کیا گیا۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی مسلسل خرابی صحت کی بنا پر 4 نومبر 1972ء کو جماعت اسلامی کی امارت سے مستعفی ہو گئے۔ ان کے بعد اراکین جماعت نے نومبر 1972ء تا اکتوبر 1987ء میاں طفیل محمد اور ان کے مستعفی ہونے کے بعد اکتوبر 1987ء تا اپریل 2009ء قاضی حسین احمد کو امیر جماعت منتخب کیا گیا۔
قاضی حسین احمد نے جنوری 2009ء میں عارضۂ قلب اور خرابی صحت کی بنا پر مجلس شوریٰ کے اجلاس میں معذرت کر لی تھی کہ ان کا نام ان تین ناموں میں شامل نہ کیا جائے جو مرکزی شوریٰ امیر جماعت کے انتخاب کے لیے ارکان جماعت کی رہنمائی کے لیے منتخب کرتی ہے۔[6]
اراکین جماعت اسلامی پاکستان نے آزادانہ رائے شماری کے ذریعے مارچ 2009ء میں سید منور حسن کو پانچ سال کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان منتخب کر لیا۔[7] وہ جماعت کے چوتھے امیر منتخب ہوئے تھے، جنہیں 2009ء تا 2014ء پانچ سال کے لیے منتخب کیا گیا۔
جماعت اسلامی اپنی دعوت، نصب العین اور مقاصد کے حصول کے لیے دعوتی، تربیتی، تنظیمی، خدمتی، جہادی، سیاسی اور علمی سرگرمیوں کو منظم کرتی یا حصہ لیتی ہے۔
دروس قرآن، حلقہ ہائے حدیث، اجتماعی مطالعہ جات، اسٹڈی سرکلز، لیکچرز، تربیت گاہیں اور مطالعہ کتب، نا صرف کارکنان جماعت اور عام لوگوں کی دعوت و تربیت کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ جماعت کی تنظیم کو مزید دوام بخشنے کا سبب بنتے ہیں۔[8]
جماعت اسلامی پاکستان کے تحت بہت سے علمی و رفائہ عامہ کے کام کیے جاتے ہیں۔ رضاکارانہ انتقال خون (Blood Donation)، مراکز دستکاری، رفاعی مطب خانے، ایمبولینسز، کتب خانے، تعلیمی ادارے، ہسپتال، وغیرہ کے نیٹ ورک پورے ملک میں قائم ہیں۔ اس کے علاوہ جماعت مختلف رضاکارانہ مہمات جن میں امداد برائے قدرتی آفات نمایاں ہیں بھرپور انداز میں سر انجام دیتی ہے۔ ملکی سطح پر مستحقین کے لیے چرم ہائے قربانی اکھٹا کرنے کا کام جماعت اسلامی نے شروع کیا۔[9]
جماعت قومی، صوبائی اور بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں بلامبالغہ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ مگر کم امیدوار ایسے ہوتے ہیں جن کو کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ البتہ نوازشریف اور بے نظیر کی جلا وطنی کے دور میں اپنے امریکا مخالف ایجنڈے کے باعث جماعت نمایاں کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ عام طور پر سیاسی اتحاد جماعت اسلامی کو انتخابات اور ملکی سیاست میں عوامی پزیرائی بخشنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔[8]
سراج الحق لیاقت بلوچ ڈاکٹر معراج الہدیٰ پروفیسر ابراہیم میاں مقصود مشتاق احمد خان فرید پراچہ عبد الحق ہاشمی عبد الغفار عزیز
اسلامی انقلاب اسلامی فلاحی ملک اتحاد بین المسلمین کرپشن سے پاک ملک جمہوریت
سال 1970 میں جماعت اسلامی نے قومی اسمبلی کی 4 جبکہ پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا میں ایک، ایک نشست حاصل کی۔
1977 میں جماعت اسلامی نے پاکستان نیشنل الائنس کا حصہ بن کر انتخابات لڑے جس نے قومی اسمبلی کی 36 نشستیں جیتیں۔
1990 میں پارٹی نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کا حصہ بن کر انتخابات لڑے لیکن یہ اتحاد کوئی خاص کارکردگی نہ دکھا سکا اور مشکل سے پنجاب اسمبلی کی ایک سیٹ حاصل کی۔
1993 میں جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامک فرنٹ کے بینر تلے انتخابات میں حصہ لیا اور قومی اسمبلی کی 3، پنجاب کی 2 اور خیبر پختونخوا کی 4 نشستیں جیتیں۔
1997 میں پارٹی نے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا انتخاب کرتے ہوئے حکمرانوں کے احتساب کا مطالبہ کیا۔
سال 2002 میں جماعت اسلامی، متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کا حصہ تھی جس نے قومی اسمبلی کی 45 نشستیں سمیٹیں۔ اس اتحاد نے خیبر پختونخوا میں 48 نشستیں حاصل کرکے حکومت قائم کی۔
2008 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی نے آل پارٹیز ڈیموکریٹک موومنٹ (اے پی ڈی ایم) کا حصہ بننے کا انتخاب کیا جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔
پارٹی نے 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 3 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس نے قومی اسمبلی کے 166 حلقوں میں امیدوار کھڑے کیے تھے جہاں سے اسے 9 لاکھ 67 ہزار 651 یا 2.13 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ پنجاب میں پارٹی صرف ایک سیٹ حاصل کرسکی جہاں اس نے 208 امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پنجاب میں پارٹی نے 4 لاکھ 90 ہزار 706 ووٹ حاصل کیے جو کاسٹ کیے گئے کُل ووٹوں کا 2 فیصد تھا۔ سندھ اور بلوچستان میں جماعت اسلامی نے بالترتیب 46 اور 19 امیدوار کھڑے کیے لیکن کسی نشست پر اسے کامیابی نہیں ملی۔ پارٹی نے سندھ میں ایک لاکھ 31 ہزار 140 اور بلوچستان میں 3 ہزار 627 ووٹ حاصل کیے۔ تاہم خیبر پختونخوا میں پارٹی کے لیے کچھ رغبت دکھائی دی اور جماعت اسلامی نے وہاں سے 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ صوبے میں پارٹی نے 86 امیدوار کھڑے کیے جنھوں نے 4 لاکھ 5 ہزار ووٹ حاصل کیے۔[10]
ملکی اور دینی مسائل پر احتجاجی مظاہرے، جلسے، جلوس، ٹرین مارچ، لانگ مارچ، ریفرنڈم، ہڑتالیں، کارنر میٹنگز اور دھرنے جماعت کے موَقف کے لیے عوامی تائید پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اور حکومت وقت پر دباوَ کا باعث بنتے ہیں۔ اس قسم کی سرگرمیوں کے باعث جماعت کو ملک کی احتجاجی سیاست میں ناگزیر عنصر تصور کیا جاتا ہے اور اکثر حکومت وقت کے عتاب کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ اگر یہ سرگرمیاں پرتشدد رخ اختیار کر جائیں تو عوام میں بدنامی اور ذرائع ابلاغ میں ختم نہ ہونے والی تنقید جماعت کے تصور اور دعوت کو نقصان پہچانے سبب بن جاتی ہیں۔[11]
ناقدین کے مطابق جماعت اسلامی نے ضیاالحق کے آمرانہ دور حکومت میں، امریکی و پاکستانی سرپرستی میں ہونے والے جہاد افغانستان اور بعد ازاں جہاد کشمیر میں بھرپور حصہ لیا۔ اس حوالے سے جہاد کے لیے مالی و افرادی قوت کی فراہمی اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے بیشمار جہادی فنڈ اسٹالز، جہادی کانفرنسز، مذاکرے اور مباحثوں کا اہتمام کیا۔[12]
پاکستان کی موروثی سیاسی جماعتوں کے برعکس جماعت اسلامی میں ہر سطح کے رہنما کا انتخاب جمہوری طریقہ سے ووٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
نہیں۔ | نام [15] | مدت |
---|---|---|
1 | ابو الاعلی مودودی | 1941–1972 |
2 | میاں طفیل محمد | 1972–1987 |
3 | قاضی حسین احمد | 1987–2008 |
4 | سید منور حسن | 2008–2014 |
5 | سراج الحق | 2014–2024 |
6 | حافظ نعیم الرحمن | 2024-موجودہ |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.