From Wikipedia, the free encyclopedia
تبت دنیا کی چھت ہے‘ یہ زمین کا انتہائی بلند مقام ہے‘ انسانی آبادی اس کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور دنیا کے ٹو اور ماؤنٹ ایوریسٹ میں سمٹ کر رہ جاتی ہے‘ تبت 1950ء تک آزاد ملک تھا پھر چین کی فوجیں یہاں داخل ہوئیں‘ 14ویں دلائی لامہ بھارت میں جلاوطن ہوئے اور تبت چین کا حصہ بن گیا تاہم لوگ اپنے ملک کو آزاد سمجھتے ہیں‘ یہ 68سال گزرنے کے باوجود چین کے تسلط کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔آپ دنیا کے نقشے میں تبت کو تلاش کریں تو یہ آپ کو ہمالیہ کے انتہائی اوپر ملے گا‘ اس کی ایک سرحد نیپال‘ دوسری بھوٹان‘ تیسری اکسائی چین کے ذریعے بھارت اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی ہوئی پاکستان سے ملتی ہے‘ یہ علاقے ماضی میں تبت کا حصہ ہوتے تھے‘ بھارت کا لداخ بھی تبت میں تھا‘ نیپال کے ہمالیائی پہاڑ بھی‘ بھوٹان کا ایک تہائی حصہ بھی اور موجودہ پاکستان کے تبتی علاقے بھی‘ یہ ماضی میں ایک عظیم بودھ ریاست تھی‘ مہاتما بدھ 480 قبل مسیح میں پیدا ہوئے‘ ان کی تعلیمات بھارت اور پاکستان تک محدود رہیں لیکن بودھ مت نے مضبوط ریاست کی شکل تبت میں پائی۔
تبت وسط ایشیا کا ایک علاقہ ہے جو اب چین میں شامل ہے۔ یہ تبتی افراد کا آبائی وطن ہے۔ سطح سمندر سے 4 ہزار 900 فٹ کی اوسط بلندی پر واقع ہونے کے باعث اسے "دنیا کی چھت" کہا جاتا ہے۔ تبت 1912ء سے 1951ءتک ایک الگ ملک کا حیثیت رکھتا تھا،1951ء میں چین نے اس پر حق دعوٰی کیا اور اس پر قبضہ کرکے اپنے ملک میں شامل کر لیا۔ اس خطے کا دارالحکومت لہاسا ہے۔تبت ایشیا کا وہ علاقہ ہے جسے ’’دنیا کی چھت‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ برف سے ڈھکے پہاڑوں اور دنیا کے بلند ترین سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ جنوبی تبت سے بلندی کی طرف جاتی ہے۔ دنیا کے بلند ترین قصبات میں سے کچھ تبت میں ہیں۔ تبت دنیا کا بلند ترین خطہ ہے جو سطح سمندر سے اوسطاً 16 ہزار فٹ اونچا ہے۔ تبت اس وقت چین کا ایک خود مختار قرار دیا جانے والا علاقہ ہے۔ یہ سارا علاقہ بلند پہاڑوں اور ایک سرد اور برفیلے سطح مرتفع پر مشتمل ہے۔ اس کے ساتھ کوہ ہمالیہ ہے۔ یہاں سے ایشیا کے بڑے دریا نکلتے ہیں جو چین اور پاک و ہند کی طرف آتے ہیں۔ ان میں برہم پترا شامل ہے جو بنگلہ دیش سے ہو کر خلیج بنگال میں گرتا ہے۔ دریائے سندھ، میکانگ، سالوین اور یانگ ژی دریا بھی تبت کی طرف سے آتے ہیں۔ تبت کے علاقے میں وسیع سبزے کے میدان اور جنگلات بھی پھیلے ہیں۔ اس علاقے میں بارش کم ہوتی ہے، اسی لیے کھیتی باڑی صرف دریاؤں کے کناروں کے قریب ہوتی ہے، جہاں پھل، جَو اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ یہاں تقریباً پانچ ہزار مختلف قسم کے پودے اور درخت اگتے ہیں۔ یاک یہاں کا پالتو جانور ہے۔ اس کے علاوہ ہرن، ٹائیگر، ریچھ، بندر، پانڈا اور گھوڑے بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں سیکڑوں جھیلیں اور ندیاں قدرت کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ تبت میں اکثریت تبتی لوگوں کی ہے۔ یہ روایتی طور پر تبتی لوگوں کا علاقہ رہا ہے۔ تاہم یہاں دیگر قوموں کے علاوہ ہن چینی بھی آباد ہیں۔ ساتویں صدی عیسوی کے دوران تبت ایک طاقت ور بادشاہت کی شکل میں تھا۔ بھارت کی طرف سے بدھ مت کو یہاں فروغ حاصل ہوا اور لہاسہ شہر کی بنیاد رکھی گئی۔ سترہویں صدی میں دلائی لامہ تبت کا حکمران بن گیا۔ اٹھارویں صدی کے شروع میں یہ چین کے کنٹرول میں چلا گیا۔ یہ علاقہ کئی دفعہ چین کے قبضہ میں آیا اور کئی بار آزاد ہوا۔ منگول بھی اس پر قابض رہے۔ اٹھارویں صدی میں پہلی بار ہندوستان کی برطانوی حکومت نے تبت کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کی مگر سترہویں صدی کے اواخر میں گورکھا جنگ کے باعث انگریز اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ نے تبت پر چین کا کنٹرول قبول کر لیا۔ 1912ء میں تبت نے چین کی مانچو حکومت سے آزادی حاصل کر لی۔ اس کے بعد شملہ کانفرنس میں تبت کا ایک حصہ چین کو دے دیا گیا اور باقی آزاد رہا لیکن چین نے اسے قبول نہ کیا۔ مئی 1951ء کے معاہدہ کی رو سے اسے داخلی طور پر آزاد کر دیا گیا۔مارچ 1959ء میں تبت میں ہونے والی بغاوت کو کچل دیا گیا اوراس وقت کا دلائی لامہ بھاگ کر ہندوستان میں پناہ گزین ہوا۔ اس کے بعد چین اور بھارت کی جنگ ہوئی جس میں بھارت کو بدترین شکست ہوئی۔ چین کا حصہ بننے سے قبل تبت پر بدھ راہبوں کی ایک مضبوط حکمرانی قائم تھی۔
دلائی لامہ آج بھی بودھوں کی مقدس ترین شخصیت ہیں‘ یہ پوپ کی طرح پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ لہاسا تبت کا دار الحکومت ہے‘ آج سے تیس برس پہلے تک لہاسا پہنچنا ناممکن تھا‘ یہ سطح سمندر سے 3700 میٹر بلند تھا‘ راستے اور سڑکیں تھیں نہیں چنانچہ برف پوش پہاڑوں کے درمیان چل کر لہاسا آنا ممکن نہیں تھا‘ دوسری وجہ آکسیجن کی کمی تھی‘ یہ سطح سمندر سے اتنا بلند ہے جہاں کوئی درخت‘ پودا حتیٰ کہ جھاڑی تک نہیں اگتی چنانچہ لہاسا میں آکسیجن نہ ہونے کے برابر تھی۔آکسیجن کی اس مقدار میں صرف بودھ بھکشو سروائیو کر سکتے تھے‘ یہ یوگا بھی کرتے ہیں اور انتہائی بلند مقام پر پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے جینز بھی کم آکسیجن میں زندہ رہنا سیکھ گئے ہیں‘ لہاسا میں بھیڑوں اور یاک کے علاوہ ان کا کوئی ہم دم نہیں ہوتا تھا‘ بھیڑوں کا گوشت اور یاک کا دودھ ان کا واحد اثاثہ ہوتا تھا لیکن پھر چین نے کمال کر دیا‘ حکومت نے 2006ء میں زمین کے اس بلند تریم مقام کو ٹرین کے ساتھ جوڑ دیا‘ یہ دنیا کی بلند ترین ٹرین ہے‘ یہ ٹرین بیجنگ سے بھی چلتی ہے۔ شنگھائی سے بھی اور زینیگ (Xining) سے بھی‘ بیجنگ سے لہاسا پہنچنے میں 50‘ شنگھائی سے 31 اور زینیگ سے 22 گھنٹے لگتے ہیں‘ یہ ٹرین انجینئری کا کمال ہے‘ چین نے یہ پراجیکٹ ساڑھے چار بلین ڈالر میں دس سال میں مکمل کیا‘ دنیا میں اس سے قبل 17 ہزار فٹ تک ریل کی پٹڑی نہیں بچھائی گئی تھی‘ چین نے اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے خصوصی لوہا بھی بنایا‘ سیمنٹ بھی اور مشینری بھی‘ یہ خصوصی لوہا سردیوں اور گرمیوں میں پھیلتا سکڑتا نہیں۔ سیمنٹ انتہائی بلندی اور سرد ترین موسم میں جم جاتا ہے جب کہ انتہائی بلندی پر بجلی‘ ٹریک اور پل بنانے کے لیے خصوصی مشینری بھی بنائی گئی لہٰذا لہاسا کے ساتھ ساتھ اس ٹرین پر سفر بھی ایک لائف ٹائم جرنی ہے
تبت میں بودھ مت سے پہلے بادشاہت ہوتی تھی‘ملک میں نیاتری ٹی سینپوسے لینگ ڈراما تک 42 بادشاہ گذرے ہیں‘ ان میں تین بہت اہم ہیں‘ سانگ سٹن گیمپو(33 واں بادشاہ) تری سانگ ڈیٹسن ( 38 واں بادشاہ) اوررال پاکن (41 واں بادشاہ)‘ تبت کا 33 واں بادشاہ بودھ مت کو علاقے میں لے کر آیا‘ یہ ہندوستان گیا‘ بودھ مت کا مطالعہ کیا اور ہندوستان کے بودھ مبلغین کو تبت کی دعوت دی‘ دنیا میں مہاتما بودھ کے تین اہم ترین مجسمے ہیں‘ یہ تینوںمجسمے بودھ کی زندگی میں بنائے گئے تھے‘ پہلے دو مجسمے بودھ کے والد نے ان کے بچپن میں تیار کرائے تھے‘ پہلا مجسمہ بودھ کی آٹھ سال کی عمر میں بنایا گیا‘ دوسرا بارہ سال اور تیسرا ان کی 80سال کی عمر میں تیار کیا گیا‘ 12 سال کا مجسمہ نیپال اور 8 سال کا بت چین کے شاہی خاندان کے پاس تھا جبکہ 80 سال کا مجسمہ بودھ کے آبائی شہر بودھ گیا میں رکھا تھا‘ بادشاہ گمپو یہ مجسمے لہاسا لانا چاہتا تھا چنانچہ بادشاہ نے مجسموں کے لیے نیپال اور چین کے شاہی خاندانوں میں شادیاں کر لیں اور یوں دونوں ملکائیں جہیز میں دونوں مجسمے لے آئیں‘ بودھ گیا کا مجسمہ کسی شخص یا خاندان کی ملکیت نہیں تھا چنانچہ وہ تیسرا مجسمہ لہاسا نہیں لا سکا‘گمپونے دونوں مجسموں کے لیے الگ الگ عبادت گاہیں تعمیر کرائیں‘ پہلی اور سب سے مشہور عبادت گاہ کا نام جوکنگ ٹمپل ہے‘ یہ جگہ چین کی ملکہ نے منتخب کی ‘ وہ روحانی علوم کی ماہر تھی‘ اس کا کہنا تھا یہ دنیا انسانی بدن کی طرح ہے‘ اس بدن میں گیارہ ٹمپل ہیں‘ جوکنگ 12 واں ٹمپل ہو گا اور یہ دل کی جگہ بنے گا‘ ملکہ نے ان 12 ٹمپلز کے بدن کی تصویر بھی بنوائی‘ یہ تصویر آج بھی جوکنگ ٹمپل میں موجود ہے‘گمپو نے ملکہ کی ہدایت کے مطابق ٹمپل بنوایا اور پھر مہاتما بودھ کا مجسمہ ٹمپل کے اندر رکھوا دیا یوں جوکنگ ٹمپل بودھوں میں مقدس عبادت گاہ سمجھی جانے لگی‘ عبادت گاہ کے گرد تین سرکل ہیں‘ بیرونی سرکل‘ درمیانی سرکل اور اندرونی سرکل‘ بیرونی سرکل بارہ کلومیٹر طویل ہے‘ بودھ فجر کے وقت اس سرکل میں پیدل چلنا شروع کرتے ہیں اور دعائیں پڑھتے پڑھتے یہ سرکل مکمل کرتے ہیں‘ بعض بودھ بارہ کلومیٹر کا یہ فاصلہ زمین پر لیٹ کر سجدہ کرتے ہوئے بھی پورا کرتے ہیں‘ بودھ سجدہ بھی بہت دلچسپ ہے‘ یہ لوگ ہاتھ جوڑتے ہیں‘ جڑے ہوئے ہاتھ ماتھے‘ ہونٹوں اور سینے پر لگاتے ہیں اور منہ کے بل زمین پر لیٹ جاتے ہیں‘ ہاتھ سر کی طرف آگے بڑھاتے ہیں‘ دونوں کو گھما کر سائیڈوں پر لاتے ہیں اور پھر سیدھے کھڑے ہو جاتے ہیں‘ یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے لیکن یہ لوگ دن میں درجنوں مرتبہ یہ عمل کرتے ہیں‘شدت پسند بودھ ان سجدوں میں بارہ بارہ کلومیٹر کا سفر بھی طے کر جاتے ہیں‘ درمیانی سرکل جوکنگ ٹمپل کی بیرونی دیواروں کے گرد ہے‘ یہ ایک کلومیٹر طویل ہے‘ یہ ڈیڑھ ہزار سال پرانی گلیوں اور دکانوں کے درمیان سے گزرتا ہے‘ ہزاروں لوگ روزانہ اس سرکل سے بھی گزرتے ہیں اور تیسرا سرکل ٹمپل کے اندر ہے‘ یہ مقدس ترین سرکل ہے‘ یہاں بہت کم لوگوں کو طواف کی سعادت نصیب ہوتی ہے‘ٹمپل کا صحن بھی اہم ہے‘ یہاں دلائی لامہ سینئر بھکشوﺅں کا امتحان لیتا تھا اور انھیں لامہ کی ڈگری دیتا تھا‘دلائی لامہ کا تخت آج بھی صحن کے کونے میں پڑا ہے‘ بادشاہ تری سانگ ڈیٹسن (38 واں بادشاہ) بھی بہت مشہور ہوا‘ تری سانگ نے تبتی زبان تخلیق کرائی اور بودھ مت کو ریاست کا سرکاری مذہب بنایا جبکہ 41 ویں بادشاہ رال پاکن نے بودھ لاموں کو ریاست کا مختار اور مالک بنا دیا‘ یہ بادشاہ بعد ازاں اپنے شہزادے کے ہاتھوں قتل ہو گیا جس کے بعد تبت میں خانہ جنگی شروع ہو گئی‘ وہ تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا‘ اس دور کے آخر میں بادشاہت ختم ہو گئی اور دلائی لامہ ریاست کا وارث بن گیا۔
بادشاہ گمپو سے رال پاکن تک تبت میں بودھ مت کے چار فرقے پیدا ہوئے‘ پہلا فرقہ ریڈہیٹ (سرخ ٹوپی) تھا‘ یہ لوگ سر پر سرخ ٹوپی پہنتے تھے‘ یہ فاقہ کشی اور مراقبے پر یقین رکھتے تھے‘ ان کے بعد ”بلیک ہیٹ“ آئے‘ یہ سیاہ رنگ کی ٹوپی پہنتے تھے اور یہ مراقبے کے ساتھ علم پر یقین رکھتے تھے‘ خانہ جنگی کے دوران ”وائیٹ ہیٹ“ (سفید ٹوپی) کا فرقہ ظاہر ہوا‘ یہ لوگ امن کے لیے جنگ پر یقین رکھتے تھے اور خانہ جنگی کے آخر میں ییلو ہیٹ (پیلی ٹوپی) والے لوگ سامنے آئے‘یہ مضبوط ترین فرقہ تھا‘ یہ اب تک موجود ہے‘ دلائی لامہ اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ لوگ مراقبے کے ساتھ علم‘ مارشل آرٹ‘ آرام دہ پر آسائش زندگی اور حکومت سازی پر بھی یقین رکھتے ہیں‘ دلائی لامہ تبت کا سرکاری‘ روحانی اور مذہبی عہدہ ہوتا ہے‘ دلائی لامہ شادی نہیں کرتا چنانچہ یہ لوگ سمجھتے ہیں ایک دلائی لامہ اپنی جسمانی عمر پوری کرنے کے بعد کسی نئے بدن میں دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے لہٰذا انتقال کرتا ہوا دلائی لامہ انتقال سے قبل خط میں اگلے دلائی لامہ کا مقام پیدائش‘ والدین کا نام اور جسمانی نشانیاں بیان کر جاتا ہے‘یہ لوگ نئے دلائی لامہ کے لیے مطلوبہ مقام اور گھر کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں‘ نیا دلائی لامہ پیدا ہوتا ہے‘ یہ اس میں مطلوبہ نشانیاں دیکھتے ہیں اور یہ پھر اسے پوٹالہ محل لے آتے ہیں‘ نئے دلائی لامہ کی ایک مذہبی رہنما اور بادشاہ کی طرح تربیت کی جاتی ہے‘ یہ جوان ہو کر عنان اقتدارسنبھال لیتا ہے‘ تبت کے 14 ویں دلائی لامہ 1959ءمیں تبت میں شورش کے دوران بھارت چلے گئے‘ یہ اس وقت 24سال کے تھے‘ انھوں نے بھارت میں جلاوطن حکومت بنا رکھی ہے‘نوبل کمیٹی نے انھیں 1989ءمیں نوبل انعام سے نوازہ‘ تبتی زبان میں لامہ گرو اور دلائی گیان کا سمندر ہوتا ہے‘ بودھوں کے تیسرے دلائی لامہ نے منگولوں کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کیے‘ منگولوں نے بودھ مت اختیار کر لیا‘ چوتھا دلائی لامہ منگولوں میں سے تھا‘ پانچواں اور چھٹا دونوں دلائی لامہ اہم تھے‘ پانچویں دلائی لامہ نے ملک میں چار بڑی مونیٹسریز اور بودھوں کی دوسری مقدس ترین عبادت گاہ پوٹالہ محل بنوایا‘ پوٹالہ پہاڑ پر 13 منزلہ خوبصورت عمارت ہے‘عمارت کے ہزار کمرے اور ہزار کھڑکیاں ہیں‘ 9 منزلوں کا رنگ سفید اور چار کا سرخ ہے‘ سفید منزلوں میں حکومت کے دفاتر ہوتے تھے جبکہ چار منزلیں مذہبی ہیں‘ ان چار منزلوں میں 8 دلائی لامہ مدفون ہیں‘ یہ لوگ دلائی لامہ کی ممی بنا کر اس پر سٹوپا یا سونے کا گنبد بنا دیتے ہیں‘ ایک ایک دلائی لامہ کے سٹوپا پر دو دو ارب روپے کا سونا اور جواہرات لگے ہیں‘میں نے ایک دلائی لامہ کے سٹوپا پر 3714 کلو گرام خالص سونے کا بورڈ پڑھا‘ آپ اس سے سٹوپاز کی مالیت کا اندازہ لگا لیجئے
بودھ دلائی لامہ کے شاگردوں کی لاشیں جلا کر ان کی راکھ کا سٹوپا بنا دیتے ہیں اور یہ ان سے کم تر درجے کے لاماﺅں کی لاشیں چھوٹے چھوٹے حصوں میں کاٹ کر زائرین میں تقسیم کر دیتے ہیں اور زائرین لاشوں کے ٹکڑوں کو برکت کے لیے اپنے بدن پر مل لیتے ہیں‘ پانچویں دلائی لامہ نے پوٹالہ محل بھی بنوایا اور درس گاہیں بھی‘ یہ محل کی تعمیر کے دوران انتقال کر گیا‘ اس کے مرید خاص نے انتقال کی خبر چھپالی‘ اس کا خیال تھا خبر عام ہو گئی تو محل کی تعمیر رک جائے گی‘دلائی لامہ کے انتقال کا اعلان ہوا تو چھٹا دلائی لامہ اس وقت تک بڑا بھی ہو چکا تھا اور یہ زندگی کی لذتوں سے بھی واقف ہو چکا تھا‘ یہ جب محل میں لایاگیا تو یہ دن کو زائرین کو زیارت کراتا اور رات کو محل سے نکل کر موج مستی میں مصروف ہو جاتا‘ دلائی لامہ کے استاد اسے روکتے رہے لیکن یہ باز نہ آیا یہاں تک کہ یہ ایک دن محل سے فرار ہو گیا‘ یہ بعد ازاں نیپال کے بارڈر کے قریب فوت ہوا اور وہیں دفن ہوا چنانچہ پوٹالہ محل میں چھٹے دلائی لامہ کا سٹوپا یا مقبرہ موجود نہیں‘ تبت میں بودھوں کی چار عظیم درسگاہیں ہیں‘
یہ ایک بڑاطلسماتی پہاڑی شہر ہے‘ آبادی 23 لاکھ ہے‘ مسلمان 16 فیصد ہیں‘ یہ مسلمان ہزار سال سے شہر میں آباد ہیں‘ شہر کی جامع مسجد اور مسجد کے گرد مسلمانوں کا محلہ دیکھنے کے قابل ہے
تبت کے بارے میں مزید جاننے کے لیے ویکیپیڈیا کے ساتھی منصوبے: | |
لغت و مخزن ویکی لغت سے | |
انبارِ مشترکہ ذرائع ویکی ذخائر سے | |
آزاد تعلیمی مواد و مصروفیات ویکی جامعہ سے | |
آزاد متن خبریں ویکی اخبار سے | |
مجموعۂ اقتباساتِ متنوع ویکی اقتباسات سے | |
آزاد دارالکتب ویکی ماخذ سے | |
آزاد نصابی و دستی کتب ویکی کتب سے |
سانچہ:جنوبی ایشیا کے ممالک
ویکی ذخائر پر تبت سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.