باغ، آزاد کشمیر
From Wikipedia, the free encyclopedia
باغ ( انگريزی: Bagh ) پاکستان کی ریاست آزاد کشمیر کا ایک شہر ہے جو ضلع باغ میں واقع ہے۔ یہ ضلع باغ کا صدر مقام ہے۔ باغ آزاد کشمیر کے دار الحکومت، مظفرآباد سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جبکہ اسلام آباد سے اس کا فاصلہ 205 کلومیٹر ہے۔
باغ ریاست جموں کشمیر کا قدیم تاریخی مقام ہے۔ یہ ضلع پونچھ کی مشہور اور اہم تحصیل رہا ہے۔ سنہ 1988ء میں اسے ضلع کا درجہ ملا۔ باغ شہر راولاکوٹ سے صرف 46 اور مظفرآباد سے 97 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔
اس مضمون میں ممکنہ طور پر اصل تحقیق پیش کی گئی ہے۔ (May 2020) |
باغ | |
---|---|
شہر | |
سرکاری نام | |
باغ شہر کا منظر | |
متناسقات: 33.9735°N 73.7918°E | |
Administering country | Pakistan |
Dependent Territory | Azad Kashmir |
District | Bagh |
رقبہ | |
• کل | 20 کلومیٹر2 (8 میل مربع) |
بلندی | 1,676 میل (5,499 فٹ) |
آبادی (2017)[1] | |
• کل | 33,548 |
• کثافت | 1,700/کلومیٹر2 (4,300/میل مربع) |
Languages | |
• Official | Urdu |
منطقۂ وقت | PST |
GPO | 12500 |
ویب سائٹ | http://www.bagh.com.pk |
تاریخ
باغ کی عظیم دھرتی کے باسیوں نے تاریخ میں آمروں اور ظالموں کے ظلم کے خلاف علم بغاوت بلند کیا - سردار شمس خان اس دھرتی کا ایک عظیم سپوت جس نے رنجیت سنگھ کے لاہور دربار اور ان کے مقامی حواریوں کے جبر و استحصال اور قبضہ کے خلاف جھکنے سے انکار کرتے ہوئے بغاوت کی اور بہادری سے وطن کے مظلوم عوام کے حقوق اور آزادیوں کے لیے لڑتے ہوئے اپنا خون دے کر تاریخ میں امر ہو گیا - قبضہ اور معاشی جبر اپنی شکل بدلتا رہا مگر باغ کے باشعور شہری اپنے لہو سے آزادیوں کی شمع روشن کرنے والے سردار شمس خان کا علم اٹھا کر آج بھی وطن کی آزادی اور خوشالی کی شعوری اور سیاسی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عوام کو غاصبوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کے لیے سیاسی و سائنسی شعور سے لیس کر رہے ہیں -سید خادم حسین شیہد نے 1947 میں ڈوگرہ کے تسلط سے محکوم کشمیریوں کی آزادی کے لیے علم بغاوت بلند کیا اور 6 ستمبر 1947 کو باغ میں شہید کردیے گئے۔اکتوبر 1947 میں باغ کے کئی دیہات جلا دیے گئے آزادی پسندوں کو تہ تیغ کر دیا گیا ہڈا باڑی ،قلعہ باغ اور مختلف دیہات میں شہید ہونے والوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔
جغرافیہ
ضلع باغ، تحصیل باغ، تحصیل ہاڑی گہل، تحصیل ریڑہ، تحصیل بیر پانی اور تحصیل دھیر کوٹ پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ جموں و کشمیر کا ایک خوبصورت ترین ضلع ہے -
سدھن گلی گنگا چوٹی، لس ڈنہ، ہاڑی گہل، دھیرکوٹ، نیلہ بٹ، چھتر اور بیر پانی اس کے خوبصورت ترین سیاحتی مقامات ہیں۔
ضلع باغ کا رقبہ 770 مربع میل اور آبادی 5 لاکھ کے قریب ہو چکی ہے۔ سنہ 1998ء کی مردم شماری میں اس کی آبادی 2 لاکھ 85 ہزار تھی۔ ضلع باغ کی کل 19 یونین کونسل اور 142 گاؤں ہیں۔ باغ کے اہم گاؤں اور قصبوں میں ریڑہ، بھونٹ بھیاں، ہلڑ سیداں، سونج، ناڑ شیر علی خان، رنگلہ، مکھیا لا، چڑا لہ، سالیاں، چمیاٹی، چمن کوٹ، ہل، ارجہ، غازی آباد، چھتر سر سیداں، جگلڑی ,تھب تھکیالاں ,شجاع آباد، کوٹھیاں، چھتر، کفل گڑھ، ملوٹ، بیر پانی اور نعمان پورہ شامل ہے۔
تفریحی مقامات
سدھن گلی اور خاص کر گنگا چوٹی ضلع کا سب سے بڑا تفریحی مقام ہے۔ یہاں مئی سے ستمبر تک کشمیر، پاکستان اور بیرون ملک مقیم کشمیریوں اور پاکستانیوں کی بڑی تعداد سیاحت کے لیے آتی ہے۔ ریاستی حکومت اورحکومت پاکستان کی عدم توجہی کی وجہ سے اس صحت افزا مقام میں کوئی ترقی نہیں ہوئی۔ اس قدرتی حسن کی ملکہ چوٹی کو ترقی اور مزید حسن سے نکھار کر اس پورے علاقہ کی معیشت کو بدلا جا سکتا ہے۔ یہاں تھری اور فائیو اسٹار ہوٹل، گیسٹ ہاؤس اور ریستوران بنا کر لاکھوں سیاحوں کو لایا جا سکتا ہے۔ یہاں ایک عالمی معیار کا تفریحی پارک، مصنو عی جھیل اور آبشار ہونے چائیے، جو اس بلند ترین مقام کو پوری ریاست کے ماتھے کا جھومر بنا دیں۔ گنگا چوٹی کے دامن تک دو رویہ سڑک ہونی چائیے تاکہ سیاحوں کو یہاں تک آنے میں کوئی دشواری نہ ہو۔ گنگا چوٹی کی بلندی 3044 میٹر ہے۔ لس ڈنہ باغ سے ضلع حویلی جاتے ہوئے ایک سیاحتی مقام ہے۔ یہاں دیودار کے صدیوں پرانے درخت ہیں جو خاموش کھڑے تاریخ کے چشم دید گواہ ہیں۔ دھیرکوٹ سطح سمندر سے خاصی بلند ایک دلفریب وادی ہے یہاں دسمبر سے مارچ تک خوب برف گرتی ہے۔ یہاں دو فٹ تک برف باری ہوتی ہے۔ نیلابٹ اور رنگلہ اس کے بلند مقام ہیں۔باغ اور راولاکوٹ کی سرحد پر یونین کونسل ٹوپی ایک بلند اور صحت افزا مقام ہے۔ چترہ ٹوپی اور سیاحتی مقام بلال پوٹھا سے جنوب کی طرف نیچے راولاکوٹ شہر نظر آتا ہے اور شمالی طرف باغ شہر۔ چترہ کا گاؤں بھی حکام کی خاص توجہ چاہتا ہے۔ اس مقام کو ترقی دے کر باغ کا ایک سیاحتی مقام بنایا جا سکتا ہے۔
زراعت
زراعت میں باغ کا خطہ صدیوں سے زرخیز ترین اور مشہور رہا ہے۔ منگ بجری کے چاول کی دور دور تک شہرت ہوا کرتی تھی۔ نالہ ماہل کی زرعی زمین اور مرطوب آب و ہوا زراعت کے لیے انتہائی موزوں ہے۔ یہاں سینکڑوں ٹن کی مقدار میں لہسن، ادرک، گاجر اور آلو پیدا کیا جا سکتا ہے، جو پورے آزاد کشمیر کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ باغ ایسا خطہ ہے جہاں جولائی میں ارجہ، ہاری گہل اور باغ کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ، جبکہ سدھن گلی، لس ڈنہ، چترہ ٹوپی اور تھب کا درجہ حرارت 10 سے 15 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں گرمی کے موسم میں سردیوں کی اور کچھ علاقوں میں سردیوں کے موسم میں بھی گرمیوں کی فصلیں اگائی جا سکتی ہیں۔ ریاست کا زرعی شعبہ توجہ دے تو زراعت کو خوب ترقی ہو سکتی ہے۔دھیر کوٹ میں دنیا کے بہترین سیب کی اقسام پیدا کی جاتی ہیں۔ چمیاٹی، چمن کوٹ، نیلابٹ اور دھیرکوٹ میں سیب کثرت سے پیدا ہوتا ہے۔
سنہ 2005ء کا زلزلہ
باغ سنہ 2005ء کے زلزلہ میں بری طرح متاثر ہوا تھا۔ یہاں قریب 25 ہزار اموات ہو گئی تھیں۔ باغ کے کالج، اسکول اور ہوسٹل مکمل طور پر زمیں بوس ہو گئے تھے اور بہت سے طلبہ و طالبات شہید ہو گئے تھے۔ کئی جگہوں پر عمارتوں تلے لاشیں بھی نہیں نکالی جا سکی تھیں اور کہیں ہڈیاں نکال کر دفنائی گئی تھیں۔
تعلیم
میں باغ دوسرے اضلا ع سے کافی اگے ہے۔ یہاں خواندگی 79 فیصد سے زائد ہے۔ پاکستان کے کل 148 اضلا ع میں باغ 16 نمبر پر ہے - تاہم اب بھی یہاں اسکول کالجز کی تعداد کم ہے اور اعلی اور پیشہ وارانہ تعلیم کے ادارے نہیں ہیں۔
مواصلات
باغ ہائی وے باغ کو مظفرآباد اور پاکستانی شہروں مری . راولپنڈی اسلام آ باد سے ملاتی ہے۔ ڈھلی روڈ باغ کو حویلی سے جوڑتی ہے سدھن گلی چکار روڈ جہلم ویلی سے ہوتی ہوئی سرینگر اور مظفر آباد تک جاتی ہے۔
کھیل
کالج گراونڈ اور ڈھلی روڈ پر نالہ ماہل کنارے نیا تعمیر کردہ باغ اسٹیڈیم کھیلوں کی سرگرمیوں کے مرکز ہیں۔ ہاری گہل میں بھی کرکٹ کا مشہور میدان ہے۔
دیگر اہم مقام
ہڈا باڑی، نیلا بٹ، قلعہ باغ تاریخی جگہیں ہیں۔ گورنمنٹ بوائز پوسٹ گریجویٹ کالج باغ کی تعمیر کے دوران زیر زمین آثار قدیمہ دریافت ہوئے جو ٹیکسلا اور شاردا تہذیب سے ملتے جلتے تھے ۔ باغ میں دو پن بجلی کے چھوٹے منصوبے موجود ہیں ۔
مزید دیکھیے
حوالہ جات
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.