From Wikipedia, the free encyclopedia
انجمنِ حمایتِ اسلام، برِ صغیر کے قدیم ترین رفاہی و تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے، جسے زمانے کے نشیب و فراز بھی کوئی زک نہیں پہنچا سکے۔ انجمنِ حمایتِ اسلام کی داغ بیل ایک ایسے نازک وقت میں ڈالی گئی کہ جب 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمانانِ برصغیر کی سماجی و معاشی حالت نہایت دگرگوں تھی اور ہندو اور مسیحیوں کے سودی نظام پر قائم ادارے بے بس مسلمانوں کا استحصال کر رہے تھے۔ اس موقع پر یہ انجمن مسلمانوں کے لیے ایک مضبوط سہارا ثابت ہوئی۔ [1]
1884ء میں اندرونِ لاہور کے موچی دروازے کی مسجدِ بکن خان میں نمازِ عصر کے بعد ہونے والے ایک مختصر سے اجتماع اس ادارے کا قیام عمل میں آیا ۔ [1]
اس انجمن کے قیام کا محرک بھی وہی جذبہ تھا جس نے سر سید احمد خان کو علی گڑھ کالج قائم کرنے پراکسایا تھا۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے ایک سیدہ بیوہ نے غربت اور فاقوں سے تنگ آ کر اپنے بچوں سمیت عیسائی مذہب اختیار کر لیا جس کے بعد انگریزوں کے زیر سایہ چلنے والے عیسائی مشنری نے بھرپور سہارا دیا ۔ اس ترک مذہب کے واقعے نے دین اسلام کے ماننے والوں خاص کر علما اور مشائخین کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لیا ۔ اور مسلم قوم کو احساس دلایا کہ اس وقت مسلم امہ اس حد تک انتشار کا شکار ہے کہ اپنے معاشرے میں رہنے والوں کے حال کی خبر گیری نہيں کر سکتی ۔ مسلمانوں کی اس بے حسی اور سنگدلی کا مداوا کرنے کی ضرورت تھی ۔ جس کے لیے اکابرین امت نے ایک ایسے فلاحی ادارے کے قیام پر زور دیا جس کے ذریعے سب سے پہلے عوام کی حالت زار پر توجہ دی جائے تا کہ وہ گمرہ ہونے سے بچ سکیں ۔
تقریباً بیسویں صدی کے شروع میں قاضی خلیفہ حمیدالدین کی مساعی سے اس انجمن کا قیام عمل میں آیا اوراس کا دفتر لاہور کے اندر حویلی سکندر خاں کے ایک چھوٹے سے مکان میں کھولا گیا۔ قاضی صاحب کے رفقائے کار میں مولوی غلام اللہ، منشی عبدالرحیم، منشی چراغ دین، حاجی میر شمس الدین، خان نجم الدین اور ڈاکٹر محمد دین ناظر شامل تھے۔
1885ء میں موچی دروازہ، لاہور میں کرائے کا ایک کمرا حاصل کر کے یتیم خانے کی بنیاد رکھی گئی۔ چُوں کہ اُس زمانے میں مسلمانوں کی مالی حالت کوئی زیادہ اچھی نہ تھی، لہٰذا انجمن نے مسلمان گھرانوں میں مٹّی کے برتن رکھوائے، جن میں نیک دِل خواتینِ خانہ آٹا گوندھتے وقت مُٹّہی بَھر آٹا ڈال دیتیں۔ مہینے کے آخر میں انجمن کی مجلسِ انتظامیہ کے عُہدے دار گھروں سے یہ آٹا اکٹّھا کرتے اور بوریاں کندھوں پر اُٹھا کر بازاروں میں آٹا فروخت کرتے۔ آٹے کے عوض ملنے والی رقم انجمن کے خزانے میں جمع کروا دی جاتی، جس سے یتیم وبے آسرا بچّوں کی کفالت کی جاتی۔ انجمن کے عُہدے داروں نے نظمیں لکھ لکھ کر لوگوں کو آٹا جمع کرنے کی ترغیب دی۔ [1]
انجمن کے پہلے اجلاس (منعقدہ 24 ستمبر 1884ء) میں سال بھر کی مجموعی آمدنی سات سو چون روپے اور کل خرچ تین سو چوالیس روپے تھا۔ مگر بزرگوں نے جس انجمن کی بنیاد اس بے سروسامانی کے عالم میں رکھی تھی وہ کچھ عرصہ بعد ایک مہتمم بالشان تعلیمی اور ثقافتی ادارہ بن گئی۔انجمن حمایت اسلام برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم ادارہ بن چکی تھی تھی اس کا مقصد مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا تھا-
پہلے سال انجمن کی آمدنی 754روپے تھی، جب کہ 344روپے خرچ ہوئے۔ اسی برس ہی انجمن کے ارکان کی تعداد 200سے بڑھ کر 600ہو گئی۔
انجمن کی آمدنی کا ایک ذریعہ عطیہ کردہ کُتب کی فروخت بھی تھا۔ مثال کے طور پر ایک مسلمان اسکالر، سیّد محمد حسنین نے 300کُتب عطیہ کی تھیں، جو 975روپے میں فروخت ہوئیں۔ انجمن نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے ایک گھر میں اسکول قائم کیا، جس کا کرایہ ڈھائی روپے ماہ وار تھا۔ [1]
معروف مصنّف، سیّد وحید الدین کے مطابق، ’’ 1911ء میں منعقدہ انجمنِ حمایتِ اسلام، لاہور کے سالانہ جلسے میں جب ڈاکٹر صاحب نے اپنی مشہور نظم، ’’شکوہ‘‘ اپنے مخصوص انداز میں پڑھی، تو تب اُن کی عُمر 35برس تھی۔ اس تاریخی اور رُوح پرور اجلاس میں ڈاکٹر صاحب کے والد، شیخ نور محمد بھی موجود تھے۔
وہ اپنے نام وَر فرزند کے شاعرانہ کمال اور ہر دل عزیزی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نظم پڑھ چکے، تو اُن کے ایک مدّاح اور قدر شناس، خواجہ صمد آگے بڑھے اور جوشِ مسرّت میں اپنا قیمتی دو شالہ ڈاکٹر صاحب کے شانوں پر ڈال دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے یہ دو شالہ اُسی وقت انجمن کے منتظمین کو دے دیا۔ پھر اس یادگار دوشالہ کو اسی مجمعِ عام میں نیلام کیا گیا اور سب سے بڑی بولی ختم ہونے پر جو رقم موصول ہوئی، وہ انجمن کی تحویل میں دے دی گئی۔‘‘ [1]
اس ادارے پر کڑا وقت تب آیا کہ جب ذو الفقار علی بُھٹّو نے اس کے 15تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا۔ یہ ادارے کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا تھا ۔ ان اداروں کی واپسی کے لیے قانونی کوششیں آج بھی جاری ہیں۔
تاہم، اپنے ادارے قومی تحویل میں لیے جانے کے بعد بھی انجمن کے عُہدے داران نے ہمّت نہ ہاری اور نئے سِرے سے تعلیمی و رفاہی ادارے قائم کرنا شروع کیے، جن کی تعداد آج 20سے بھی تجاوز کر چکی ہے ۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں جسٹس(ر) منظور حسین سیال کا کہنا تھا کہ ’’ انجمن کے تمام ادارے اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔ حکومت سے کسی قسم کی مالی مدد نہیں لی جاتی۔
مخیّر افراد کے عطیات کی مدد سے اب تک کروڑوں روپے کے فلاحی منصوبے مکمل کیے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔ 2013ء میں انجمن کے یومِ تاسیس کے موقعے پر یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ انجمن کا بجٹ فاضل آمدنی پر مشتمل ہے۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا کہ’’ ضرورت مند، مستحق اور تنہا رہ جانے والے افراد کو سہارا فراہم کرنا ہی سب سے بڑی نیکی ہے۔
دینِ اسلام میں یتامیٰ اور بے سہارا افراد کی مدد و کفالت کی واضح تعلیم دی گئی ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں انجمنِ حمایتِ اسلام جیسے رفاہی اداروں کی اشد ضرورت ہے، کیوں کہ ہمارا معاشی و سماجی ڈھانچا زوال پزیر ہے اور انسانوں کے اس ہجوم میں ہر فرد خود کو تنہا محسوس کر رہا ہے۔ بِلاشُبہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے، جہاں مخیّر افراد سالانہ اربوں روپے کے عطیات دیتے ہیں۔ [1]
ایک زمانے میں انجمن کے سالانہ جلسوں کا چرچا سارے برصغیر میں تھا اور اس کی تقریب کو قومی تہوار کی سی حیثیت حاصل تھی۔ برصغیر کے نامور رہنما، اہل علم و دانش، ادیب، شاعر اور سیاست دان اس کی کارروائی میں شامل ہوتے تھے۔ ان میں سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی، محسن الملک، سر محمد شفیع، سر شیخ عبدالقادر، جسٹس شاہ دین اور علامہ اقبال بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ان زعما نے انجمن کے جلسوں میں اپنی نظمیں، مقالے اور مضامین پیش کیے۔ علامہ اقبال نے اپنی بعض مشہور نظمیں انجمن کے ہی جلسوں میں پڑھیں۔
انجمن کے زیراہتمام متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے گئے۔ ایک طبیہ کالج اور دو یتیم خانوں کا انتظام اب بھی انجمن کے ہاتھ میں ہے جبکہ کالج اور اسکول قومی تحویل میں لے لیے گئے ہیں۔ فلاحی مقاصد کی تکمیل کے لیے موچی دروازے میں واقع، حویلی سکندر خان میں ایک دفتر کی بنیاد رکھی گئی۔ انجمن کے ان اقدامات نے معاشرے میں تنہا رہ جانے والے بچّوں کی زندگی ہی بدل دی۔ ابتدائی دَور میں انجمن کے تحت جو ادارے قائم کیے گئے، اُن میں ملّی دارالاطفال ،یتیم بچّوںاور بچّیوں کے لیے الگ الگ دارالشّفقت ، بے سہارا خواتین کے لیے دارالامان، جو برِصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا ادارہ تھا ،اور مسلمانانِ برِ صغیر کی دینی رہنمائی کے لیے شعبۂ نشر و تالیفات شامل ہیں۔ [1]
فنی تعلیم کے شعبے میں حمایت اسلام محمد امین ووکیشنل ٹریننگ سنٹر تو 1962ءسے قائم تھا لیکن 2010ءمیں سبزہ زار سکیم میں ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کر کے وہاں حمایت اسلام پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کا افتتاح کیا گیا اور پھر 2012ءمیں شاہدرہ کے مقام پر حمایت اسلام شہاب الدین پولی ٹیکنیک کالج کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ جہاں تک پرائمری، مڈل اور ہائر سکینڈری اسکول کا تعلق ہے اس ضمن میں حمایت اسلام ہائر سکینڈری اسکول ملتان روڈ، حمایتِ اسلام پاشا ماڈل گرلز ہائی اسکول سمن آباد، حمایتِ اسلام گرلز پرائمری اسکول راج گڑھ اور حمایتِ اسلام پبلک اسکول باغبان پورہ جیسے تعلیمی ادارے ملک و ملت کا نام روشن کر رہے ہیں۔ انجمنِ حمایتِ اسلام کے زیر انتظام تمام تعلیمی ادارہ جات کا نتیجہ بہترین رہا ہے خصوصاً دارالشفقت فار بوائز اور گرلز کے یتامیٰ نے A+ گریڈ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
[2]
قیامِ پاکستان سے قبل انجمنِ حمایتِ اسلام کی جانب سے تعلیمی اداروں کا قیام اس اعتبار سے ایک بڑا کارنامہ تھا کہ اُس زمانے میں تعلیم کے میدان میں ہندو چھائے ہوئے تھے۔ تاہم، ابتدا میں بے سہارا بچّوں اور بچّیوں کی کفالت پر زیادہ توجّہ دی گئی۔ چناں چہ 1886ء میں دارالشّفقت کے نام سے لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علاحدہ علاحدہ یتیم خانے کھولے گئے۔
علاوہ ازیں، لاوارث خواتین کے لیے ایک دارالامان قائم کیا گیا، جہاں انھیں گھریلو ماحول میسّر تھا۔ بعد ازاں، دارالشّفقت کو چوک یتیم خانہ پر 12.5بیگھے زمین پر منتقل کر دیا گیا، جہاں یہ آج بھی قائم ہے اور یہاں 500سے زاید بچّے اور بچّیاں رہایش پزیر ہیں۔ نیز، قیامِ پاکستان کے وقت یہاں ہزاروں بے گھر و بے آسرا خواتین اور بچّوں کو رہایش فراہم کی گئی۔ انجمن نے 1925ء میں اینگلو و رینکلر اسلامیہ گرلز مڈل اسکول قائم کیا، جسے 1939ء میں ڈگری کالج کا درجہ دیا گیا۔
قیامِ پاکستان سے قبل اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ کا قیام ایک ناقابلِ فراموش کارنامہ سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ یہی وہ درس گاہ ہے کہ جہاں مسلمان نوجوانوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد تحریکِ پاکستان میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا۔ اسلامیہ کالج کے سینئر طلبہ میں سیال کوٹ سے تعلق رکھنے والے چوہدری محمد حسین اور چوہدری رحمت علی بھی شامل تھے۔ چوہدری محمد حسین، علاّمہ اقبال کے انتقال کے بعد اُن کے بچّوں کے مربّی و سرپرست بنے، جب کہ چوہدری رحمت علی نے پاکستان کا نام تجویز کیا۔ اسلامیہ کالج کے طلبہ علاّمہ اقبال کی شعر و شاعری کے علاوہ قومی تحاریک سے بھی خاصی دِل چسپی رکھتے تھے اور شاعرِ مشرق کی مجالس میں باقاعدگی سے شرکت کیا کرتے ۔
اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ حصولِ پاکستان کی جدوجہد کے سلسلے میں جب قائد اعظم لاہور تشریف لائے، تو انھوں نے اپنی کاوشوں کا آغاز اس کالج میں خطاب سے کیا۔ قیامِ پاکستان سے قبل قائد اعظم متعدد مرتبہ اسلامیہ کالج تشریف لائے اور نوجوانوں سے خطاب کیا۔ انجمنِ حمایتِ اسلام نے لاہور کے کوپر روڈ پر خواتین کے لیے بھی ایک اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی، جو آج بھی قائم ہے۔ تحریکِ آزادی کے دوران یہاں محترمہ فاطمہ جناح بھی تشریف لاتی رہیں۔ [1]
یتامیٰ کی کفالت کے لیے دارالشّفقت کے نام سے قائم دو ادارے انجمن کے قدیم ترین ادارے ہیں۔ اس وقت ان دونوں اداروں میں سیکڑوں بچّے ، بچّیاں مقیم ہیں۔ ان اداروں میں لڑکوں کو برسرِ روزگار ہونے تک اور لڑکیوں کو اُن کی شادی تک معیاری رہایش اور تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ 2012ء میں کم سِن بچّوں کے لیے دارالشّفقت، جونیئر ونگ قائم کیا گیا، جہاں مدر کیئر کا بھی انتظام ہے۔ دارالشّفقت میں تعلیم اور پرورش پانے والے کئی بچّے آج مُلک میں اعلیٰ عُہدوں پرخدمات انجام دے رہے ہیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت انجمن کے زیرِ انتظام 5ادارے قائم تھے، جن کی تعداد اس وقت 20ہو چکی ہے۔ تاہم، انجمن کو اپنی تاریخ میں اُس وقت ایک کڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا کہ جب 1972ء میں اُس وقت کے صدرِ پاکستان، ذو الفقار علی بُھٹّو نے انجمن کے 15تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لے لیا، جن میں اسلامیہ کالج، ریلوے روڈ، اسلامیہ کالج، سِول لائنز اور اسلامیہ کالج برائے خواتین، کوپر روڈ سمیت دیگر 12تعلیمی ادارے شامل تھے۔
بعد ازاں، قومی تحویل میں لیے گئے دیگر تعلیمی اداروں کوتو اُن کے مالکان کو واپس کر دیا گیا، لیکن انجمن کے یہ 15تعلیمی ادارے اُسے واپس نہیں کیے گئے۔ انجمنِ حمایتِ اسلام کے منتظمین آج بھی ان تعلیمی اداروں کی واپسی کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔ تاہم، اس معاملے کا حیرت انگیز پہلو یہ ہے کہ حکومت نے جتنی تعداد میں تعلیمی اداروں کو اپنی تحویل میں لیا تھا، انجمن نے 1972ء کے بعد اتنے ہی ادارے از سرِ نو قائم کر لیے۔ [1]
نیز طبیہ کالج نے بھی رفاہِ عامہ کے لیے حمایت اسلام فری یونانی شفاخانہ صبح و شام کے اوقات میں قائم کر رکھا ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کا ذکر بھی ضروری ہے کہ 1972ءمیں حکومت نے انجمن حمایت اسلام کے زیر انتظام تمام تعلیمی ادارے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ، اسلامیہ کالج سول لائنز اور اسلامیہ کالج برائے خواتین کوپر روڈ سمیت قریباً پندرہ اسکول قومیانے کے نام پر ہتھیا لیے تھے جن کی واپسی پر ابھی تک تاخیری حربے اختیار کیے جا رہے ہیں۔ [2]
1972ء میں 15تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لیے جانے کے بعد انجمنِ حیاتِ اسلام نے ایک نئے عزم کے ساتھ جوادارے از سرِ نو قائم کیے، اُن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1- حمایتِ اسلام خیراتی یونانی شفا خانہ :اس ادارے کا آغاز 1872-73ء میں ہوا۔ 1907ء میں برطانوی حکومت کے ایما پر پنجاب یونی ورسٹی نے اسے انجمن کے سُپرد کر دیا۔ 1965ء میں اسے جدید طرز کی وسیع عمارت میں منتقل کر دیا گیا، جب کہ 2012ء میں یہاں سیکنڈ شفٹ کا آغاز کیا گیا۔
2- جمعہ مسجد، انجمنِ حمایتِ اسلام (2013ء)۔
3- حمایتِ اسلام دار العلوم دینیہ فار بوائز اینڈ گرلز (1973ء:( یہاں تجوید، قرأت تفسیر، ترجمۂ حدیث اور فقہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔
4- حمایتِ اسلام خواتین کالج، گارڈن ٹائون : 1987ء میں قائم شدہ اس کالج کو 1988ء میں نئی تعمیر شدہ عمارت میں منتقل کیا گیا۔
5- حمایتِ اسلام ڈگری کالج برائے خواتین، ملتان روڈ: ستمبر 2000ء میں ہائر سیکنڈری اسکول فار گرلز کو ڈگری کالج فار وومن کا درجہ دے کر پنجاب یونی ورسٹی سے اس کا الحاق کر دیا گیا۔
6- حمایتِ اسلام لا کالج: یہ تعلیمی ادارہ 1969ء میں پہلی مرتبہ اسلامیہ کالج سِول لائنز کی عمارت میں قائم کیا گیا۔ تاہم، 1972ء میں اس کالج کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ اس واقعے کے 10برس بعد جب حکومت نے نجی شعبے کے تحت تعلیمی سرگرمیوں کی دوبارہ اجازت دی، تو 1988ء میں حمایتِ اسلام لا کالج کا دوبارہ قیام عمل میں آیا اور اُس وقت کے گورنر پنجاب، سجّاد حسین قریشی نے اس کا افتتاح کیا۔
7- حمایتِ اسلام طیبہ کالج: 1872ء میں قائم کی گئی یہ درس گاہ مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔ 1965ء میں اسے ملتان روڈ سے ملحقہ وسیع و عریض جدید طرز کی عمارت میں منتقل کیا گیا۔
8- حمایتِ اسلام محمد امین ووکیشنل ٹریننگ سینٹر:اس تربیّتی مرکزکا آغاز 2001ء میں ہوا اور اس کا سنگِ بنیاد جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ نے رکھا۔ ووکیشنل سینٹر میں ریڈیو، ٹی وی، ریفریجریٹر اور الیکٹریشن سمیت دیگر 15ٹیکنالوجیز کے شارٹ کورسز کروائے جاتے ہیں۔
9- ہائر سیکنڈری اسکول: یہ تعلیمی ادارہ 1983ء میں قائم کیا گیا۔
10- حمایتِ اسلام پاشا ماڈل گرلز اسکول: یہ اسکول 1990ء میں قائم کیا گیا اور 1994ء میں نئی عمارت میں منتقل کیا گیا۔
11- حمایتِ اسلام پبلک اسکول، باغبان پورہ 2004ء میں قائم کیا گیا۔
12- شعبۂ جائدادِ انجمن:یہ ادارہ انجمن کی جائیدادوں کا حساب کتاب رکھتا ہے۔ ان میں وہ املاک شامل ہیں، جو انجمن کے قیام سے لے کر اب تک مختلف صاحبِ ثروت افراد عطیہ کرتے رہے ہیں۔ مختلف دُکانوں اور املاک کے کرائے کی مَد میں موصول ہونے والی رقم لاکھوں میں ہے، جس سے انجمن کے اخراجات کا ایک بڑا حصّہ پورا ہوتا ہے۔ یہ شعبہ ایک 11رُکنی کمیٹی پر مشتمل ہے۔
13- تعمیرات کمیٹی: یہ مجلس انجمن کی منقولہ و غیر منقولہ جائیدادوں کی حفاظت اور عمارتوں کو شکست و ریخت سے بچانے کے لیے خدمات انجام دیتی ہے۔
14- حمایتِ اسلام پریس :یہ چھاپہ خانہ 1927ء میں قائم کیا گیا اور اس وقت جدید ترین مشینری سے لیس ہے۔
15- کُتب خانہ :انجمنِ حمایتِ اسلام کے تحت 1886ء میں کُتب خانہ قائم کیا گیا۔ یہ اب تک لا تعداد کُتب شایع کر چکا ہے۔
16- شہاب الدّین ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ۔ یہاں مختلف تیکنیکی مہارتیں سکھائی جاتی ہیں۔
علاوہ ازیں،انجمن کی زیرِ نگرانی ماہنامہ حمایتِ اسلام نامی جریدہ 1923ء سے باقاعدگی سے شایع ہو رہا ہے اور اب تک اس کے 4ہزار سے زاید شمارے منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ اس وقت اس کے مدیر، اظہر غوری ہیں۔ [1]
انجمن کے قیام کا بنیادی مقصد یتامیٰ، مفلس لڑکوں، لڑکیوں اور بیوائوں کی کفالت اور اُن کے لیے دینی و دنیوی تعلیم کا بندوبست کرنا تھا۔
علاوہ ازیں، دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت بھی اس کے اہم مقاصدمیںشامل تھی۔ انجمن کے قیام کی ضرورت اس لیے بھی پیش آئی کہ اُس زمانے میں یتیم و بے سہارا اور لاوارث مسلمان بچّوں کو معاشرے میں انتہائی مشکلات کا سامنا تھا اور ہندو اور عیسائی مِشنریز اس صُورتِ حال سے فائدہ اُٹھا کر انھیں ہندو مَت اور عیسائیت کی طرف مائل کر رہی تھیں۔ لہٰذا، اس کے تدارک کے لیے بے سہارا بچّوں کو مشکلات سے نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ [1]
برصغیر کے نامور رہنما، اہل علم و دانش، ادیب، شاعر اور سیاست دان اس کی کارروائی میں شامل ہوتے تھے۔ ان میں سرسید احمد خان، مولانا الطاف حسین حالی، مولانا شبلی نعمانی، محسن الملک، سر محمد شفیع، سر شیخ عبدالقادر، جسٹس شاہ دین اور علامہ اقبال بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ ان زعما نے انجمن کے جلسوں میں اپنی نظمیں، مقالے اور مضامین پیش کیے۔ علامہ اقبال نے اپنی بعض مشہور نظمیں انجمن کے ہی جلسوں میں پڑھیں۔ [1]
مسلمان قائدین نے اس ادارے کے فروغ و استحکام میں کس قدر گہری دِل چسپی کا اظہار کیا۔ انجمن کے بانی صدر، خلیفہ حمید الدّین تھے، جو 1886ء سے 1890ء تک اس عُہدے پر متمکن رہے۔ ن کے بعد قاضی خان شیخ خدا بخش (1898-1891ء)، شمس العلماء مولانا مفتی محمد عبد اللہ (1899-1901ء)، نواب سر فتح علی خان (1916-1902ء)، نواب سر محمد ذو الفقار علی خان (1922-1916ء)، میاں سر محمد شفیع (1928-1926ء)، جسٹس سر شیخ عبد القادر (1929-1934ء)، ڈاکٹر علاّمہ محمد اقبال (1934ء- 1937ء)، نواب مظفّر خان (1940-1937ء) اور جسٹس سر شیخ عبد القادر (1940ء- 1941ء) صدر منتخب ہوئے، جب کہ قیامِ پاکستان کے بعد ڈاکٹر خلیفہ شجاع الدّین (1955-1947ء)، مولوی غلام محی الدّین قصوری (1955-1963ء)، سیّد محسن شاہ (1969-1963ء)، میاں امیر الدّین (1988-1969ء)، میاں صلاح الدّین (1988-1989ء)، میاں معراج الدّین (2009-1998ء) اورجسٹس (ر) منظور حسین سیال (2009ء سے تاحال) انجمن حمایتِ اسلام کے صدر منتخب ہوئے۔ انجمن کے نائب صدر کے طور پر خدمات انجام دینے والوں میں جسٹس (ر) جاوید اقبال سمیت دیگر اہم شخصیات شامل ہیں۔ [1]
گرچہ انجمنِ حمایتِ اسلام کے تمام صدور ہی کا شمار اپنے دَور کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے، لیکن شاعرِ مشرق، علاّمہ محمد اقبال کی انجمن سے وابستگی نہ صرف اس ادارے بلکہ پاکستان کی تاریخ کا بھی ایک اہم باب ہے۔ اس بابت ’’روزگار فقیر‘‘ میں سیّد وحید الدّین لکھتے ہیں کہ ’’علاّمہ اقبال، انجمنِ حمایتِ اسلام، لاہور کو مسلمانوں کی تعلیم و تنظیم اور اشاعتِ دین کا موزوں پلیٹ فارم اور ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس لیے اس کے ساتھ ایک بار جو تعلق قائم ہوا، اُسے مَرتے دم تک منقطع نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے پہلی بار انجمن کے جلسے میں اپنی مشہور نظم، ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھی۔ پہلے انجمن کے جنرل سیکریٹری کے طور پر فرائض انجام دیے۔
س کے بعد انھیں انجمن کا صدر مقرّر کیا گیا۔ شدید علالت کے سبب انھیں صدارت سے مستعفی ہونا پڑا، لیکن اس سے قبل اُن کی یہ کیفیت رہی کہ کمزوریٔ بصارت کے سبب پڑھنے میں دِقّت ہوتی، تو انجمن کے کاغذات پڑھوا کر سُنتے اور ان پر نوٹ اور ضروری احکام لکھوا کر دست خط کرنے کی بہ جائے اپنے نام کی مُہر لگواتے۔
انجمن کے جلسوں میں پابندی کے ساتھ شرکت کرتے۔ انجمن کے جلسوں میں اپنی تازہ نظمیں پڑھنا، اُن کا معمول تھا۔ انجمن کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کے پلیٹ فارم سے حکیمِ مشرق نے بارہا اپنی نظمیں پڑھیں۔ انھوں نے اپنی شہرۂ آفاق نظم، ’’شکوہ‘‘ بھی انجمن کے سالانہ اجلاس میں پڑھی۔ 1936ء میں انجمن کی سالانہ کانفرنس میں شریک ہوئے، مگر خرابیٔ صحت اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ خود نظم سنانے کے قابل نہ تھے۔
ان کی یہ نظم جس کا پہلا مصرع’’؎خودی کا سِرّ نہاں لا الہ الا اللہ‘‘ ہے، ایک اور صاحب نے پڑھ کر سُنائی۔ وہ انجمن کی فلاح و بہبود کی سرگرمیوں میں بھی باقاعدگی سے حصہ لیتے رہے۔ انھوں نے انجمن کے ساتھ اپنے تعلق کو جس طرح قائم رکھا اور آخری دم تک نبھایا، وہ اُن کے کردار کا ایک نمایاں اور سبق آموز پہلو ہے۔ انتقال سے قبل اپنی وصیّت میں انھوں نے اپنا ذاتی کُتب خانہ انجمن کے قائم کردہ اسلامیہ کالج کی لائبریری کو عطیے کے طور پر دینے کی ہدایت کی، کیوں کہ یہی کتابیں اُن کا زندگی بھر کا سرمایہ اور اثاثہ تھیں۔‘‘ [1]
انجمنِ حمایتِ اسلام کے 88سالہ صدر، جسٹس(ر) منظور حسین سیال نے، جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق جج اور پنجاب کے محتسبِ اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں، 2009ء میں انجمن کے منصبِ صدارت پر فائز ہوئے ۔ وہ انجمن کے 17ویں صدر اور اس عُہدے پر طویل ترین مدّت تک برقرار رہنے والے دوسرے فرد ہیں۔ [1]
اس ادارے کے زیرِ انتظام اس وقت اسکولز، کالجز اور بچّوں، خواتین کے فلاحی اداروں کی شکل میں تقریباً 20ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ [1]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.