محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ایک کہانی From Wikipedia, the free encyclopedia
ڈراما انار کلی کی کہانی کا بنیادی خیال، محبت اور سلطنت کے درمیان تصادم اور کشمکش پر مبنی ہے۔ اس طرح اس ڈرامے میں رومانیت، رعب داب، جلال و جمال اور بے پناہ قوت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ لیکن درحقیقت محبت بذات خود ایک بڑی طاقت ہے۔ صرف نام کا ہیر پھیر ہے۔ چنانچہ قوت اقتدار اور قوت جذبات کا ٹکرائو جب ہوتا ہے تو ہر طرف اداسی ہی اداسی اور سوگ ہی سوگ چھا جاتا ہے۔
مگر جہاں تک انار کلی کے پلاٹ کی تاریخی سند کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے یہ قصہ بے بنیادنظرآتا ہے۔ وہ اس ليے کہ امتیاز علی تاج خود کہتے ہیں، ” میرے ڈرامے کا تعلق محض روایات سے ہے بچپن سے انار کلی کی فرضی کہانی کے سنتے رہنے سے حسن و عشق، ناکامی و نامرادی کا جو ڈراما میرے تخیل نے مغلیہ حرم کے شان و شوکت میں دیکھا اس کا اظہار ہے۔ “
بہر حال اگر اس ڈرامے کی تاریخی اہمیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ انار کلی فنی عروج اور دلفریب ادبیت کاخوبصورت امتزاج ہے۔ خوبی زبان، بندش الفاظ، چست مکالمات اور برجستگی جیسے ڈرامائی لوازمات نے ا س تخلیق میں ایک شان او ر وقار اور سربلندی پیدا کی ہے۔ آئیے ڈرامے کی فنی فکری خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں۔
انار کلی کے کرداروں میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو اپنی خصوصیات کی بناءپر فن کے پیمانے پر بدرجہ اتم پورے اترتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکبر، سلیم اور انار کلی اس ڈرامے کے کلیدی کردار ہیں۔ دل آرام کا کردار بھی اہم ہے۔ علاوہ ازیں ثریا مہارانی، بختیار، داروغہ زندان سیات، مروارید اور انار کلی کی بوڑھی ماں ایسے ضمنی کردار ہیں جو تذبذب، تجسّس اور کشمکش کو آگے بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ مصنف کا کمال ہے کہ اس نے ان ضمنی اور چھوٹے کرداروں کو بھی اپنے زور قلم کے بل بوتے پر ڈراما انارکلی کے شاندار کردار بنا کر پیش کیا ہے۔ تاج نے اپنے کرداروں کی سیرت اور صورت کی تصویر کشی کرتے وقت ایسا زور قلم اور ادبی شکوہ دکھایا ہے کہ اسٹیج پر ایسے کرداروں کا دکھانا ناممکن اور محال ہو گیا ہے۔ مثال کے طور پر ڈارمے کے نمایاں کردار انار کلی کا تعارف وہ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
” چمپئی رنگ میں اگر سرخی کی خفیف سی جھلک نہ ہو تو شائد بیمار سمجھی جائے خدوخال شعراءکے معیار حسن سے بہت مختلف، اس کا چہرہ دیکھ کر ہر تخیل پسند کو پھولوں کا خیال ضرور آتا ہے۔ “
کردار نگاری کے اعتبار سے ڈراما نگار نے ایسے ادبی اور فنی لوازمات کاخیال رکھا ہے کہ کسی کردار کے قول و دفعل میں تضاد کا کھٹکا بھی محسوس نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی میں کردار نگاری اوج ثریا کو چھو رہی ہے۔
اکبر کے سینے میں باپ کا دل ہے لیکن وہ اپنے ولی عہد سلیم کو پختہ عمل کا مالک اور شاہانہ جاہ و جلال کا پیکر دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ سلیم کو شیخو کی حیثیت سے بلاشبہ ٹوٹ کر پیار کرتا ہے لیکن ولی عہد کی حیثیت سے وہ اسے ملگ گیری اور جہاں بانی کے جوہر سے متصف دیکھنے کا آرزو مند ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ ولی عہد اپنی ایک ادنی کنیز کے سر پر محبت کا آنچل ڈالے بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اکبر سلیم کی شادی کسی ایسی جگہ کرانا چاہتا ہے جہاں سلیم کے سے اسی ہاتھ مضبوط ہو سکیں۔
سلیم انار کلی کا شیدائی تو ہے لیکن دل و جاں سے نہیں ایسا لگتا ہے کہ اس کے جسم میں گداز ہے لیکن دل اس دولت سے یکسر خالی ہے۔ بیشک وہ باتوں کے بے شمار گھوڑے دوڑاتا ہے مثال کے طور پر: ”اللہ پھر یہ سہمی ہوئی محبت کب تک راز رہے گی۔ مہجور دل یونہی چپ چاپ دیکھا کرے گا۔ “
سلیم کے آخری جملے نہ صرف سلیم کے مستقبل کے متعلق ممکنہ اندیشوں کا اظہار ہے بلکہ اس سے اس کی قلبی کیفیت اور فطرت کی جانب بھی ایک واضح اشارہ ملتا ہے کہ اسے محبت کے مقابلے میں شہنشاہی کی کوئی اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔ آگے چل کر سلیم کی یہ گفتگو اس کے کردار کی وضاحت کرتی ہے۔
جہاں تک انار کلی کا تعلق ہے وہ درحقیقت عشق و وفا اور فکر و فن کا ایک حسین و جمیل شاہکار ہے۔ وہ نہ تو زندگی سے خوف کھاتی ہے اور نہ موت سے آنکھیں چراتی ہے۔ اسے اپنی رسوائی کا بھی ڈر نہیں۔ لیکن شہزادے کی رسوائی کے بارے میں فکر مندرہتی ہے اور اکبر اعظم کے رعب میں آخر سلیم کی بے وفائی کے شکوک و شبہات کا بھی شکار نظر آتی ہے۔ اس کے جذبہ عشق کے آگے جب موت بھی سر جھکادیتی ہے۔ تو اکبر اسے دیوار میں چنوا دیتا ہے۔ اس طرح یہ لافانی کردار تاریخ عالم میں زندہ جاوید ہو جاتا ہے۔ اور بعد کے لوگ انار کلی کے نام کو بطور ایک استعارہ محبت لیتے رہتے ہیں۔ اور ان کی وفا کی مثالیں بھی زبان زد عام ہو جاتی ہیں۔
دلارام شہزادہ سلیم کی پہلی منظور نظر اور محل سرا کی خاص کنیز ہے۔ لیکن سلیم سے انار کلی کے تعلقات قائم ہونے کے بعد آتش رقابت سے بری طرح جل رہی ہے۔ وہ شہزادے پرآنچ نہیں آنے دینا چاہتی۔ مگر انار کلی کو بہر صورت تباہ کرنے پر ادھار کھائے بیٹھی ہے۔ اس کے کردار اور جذبہ رقابت کو ظاہر کرنے کے ليے تاج نے صرف ایک جملے سے کام لیا ہے۔ اس وقت دل آرام جشن نوروز کے ليے زبردست تیاری کر رہی ہے۔ اور سازشوں کے جال پھیلانے میں ہمہ تن مصروف ہے۔ کہ ایک واقف حال کنیز اس سے پوچھتی ہے، ” پھر آخر کے ا کرو گی؟دلا آرم جواب دیتی ہے (ناگن کی دم پر کوئی پاؤں رکھ لے تو وہ کیا کرتی ہے۔
جہاں تک انار کلی کے مکالموں کا تعلق ہے تو یہ بھی بڑے جاندار اور پر وقار ہیں۔ اس ڈرامے کا ہر کردار موقع و محل کے مطابق گفتگو کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انار کلی کے مکالمے کسی موقع پر بھی نہ تو ڈھیلے اور سست پڑتے ہیں اور نہ اپنی اہمیت و حیثیت سے محروم ہوتے ہیں۔ بلکہ ڈرامائی کیفیت سے ہلچل اور تجسّس پیدا کرتے چلے جاتے ہیں۔ بعض ناقدین اس ڈرامے کی زبان پر اعتراض کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ایسے اعتراضات معمولی معمولی خامیوں کے نتیجے میں ظہور پزیر ہوئے۔ جبکہ ان خامیوں کے مقابلے میں انار کلی کی خوبیاں نقطہ عروج تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں چستی مکالمات، نزاکت الفاظ اور حسن و بیان اپنی مثال آپ ہے چنانچہ پروفیسر محمد سعید انار کلی کے مکالموں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ” الفاظ میں شاعری ہے مگر تک بندی نہیں حرکات میں زندگی ہے مگر حقیقت نہیں، غرض جو لفظ ہے دلنشین اور جو حرکت ہے دلکش ہے۔ “
مکالمہ نگاری کے سلسلے میں مصنف نے کرداروں کی نفسیات اور ان کی ذہنی سطح کا بطور خاص خیال رکھا ہے۔ لیکن اس ادیبانہ و فنکارانہ تدبیر گری کے باوجود وقتاً فوقتاً انارکلی اعتراضات کی زد میں آتی رہی۔
مثلاً پروفیسر عبد السلام کہتے ہیں کہ ” اس ڈرامے کی ایک اہم کمی اور خامی خود کلامی کا افراط ہے “
پروفیسر عبد السلام نے ڈراما انار کلی میں خود کلامی پر اعتراض کیا ہے جبکہ ایک دوسرے نقاد ڈاکٹر حنیف فوق اس خود کلامی کے سلسلے میں یوں فرماتے ہیں، ” تاج نے خود کلامی کو خلاقانہ طور پر استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے جیتے جاگتے پیکر تراشے ہیں۔ “
درحقیت انار کلی میں خود کلامی کوئی فالتو چیز محسوس نہیں ہوتی۔ ڈراما نگار نے اسے موقع و محل کے مطابق پیش کیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس ڈرامے میں خود کلامی خامی کی بجائے خوبی اور حسن معلوم ہوتی ہے۔ ایک کامیاب مکالمہ نگار کی حیثیت سے سید تاج اپنے کرداروں کے عادات و اطوار، ان کے مزاج اور سوچ سے گہری وقفیت رکھتے ہیں۔ اس ليے ان کے مکالموں میں ہر کردار اپنی انفرادیت کے ساتھ سامنے آتا ہے اور اس کی مخصوص حالت آخر دم تک برقرار رہتی ہے۔
تاج ہر منظر کی ایسی تصویر کشی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انار کلی کی عبارت فن اور خیال کا ایک بے مثال مرقع بن گئی ہے۔ وہ جس منظر کو پیش کرتے ہیں اس کی ہوبہو تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ مثلاً سلیم کے محل کا منظر اس طرح پیش کرتے ہیں۔
” گھنے پیڑ وں کے طویل سلسلے میں کھجوروں کے کم بلند اور ساکت درخت کالے کالے نظرآ رہے تھے راوی ان دور کی رنگینیوں کو اپنے دامن میں قلعے کی دیوار تک لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ “
منظر کشی کے لحاظ سے مندرجہ بالا منظر بے شک لاجواب ہے لیکن درحقیقت فن ڈراما نگاری کے حوالے سے یہی منظر اسٹیج ڈرامے کا نقص بن جاتا ہے۔ اسٹیج پر نہ تو گھنے درختوں کے طویل سلسلے اگائے جا سکتے ہیں اور نہ دریائے راوی کو اسٹیج پر سے گزارنا ممکن ہے۔ لیکن اس طرح کے حسین و جمیل اور جیتے جاگتے مناظر نے انارکلی کی ادبی چاشنی کو دوبالا کر تے ہوئے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
بلاشبہ انار کلی میں زبان و بیان کا کہیں کہیں جھول ملتا ہے۔ مثلاً انار کلی کی قید کے بعد اکبر کا دلآرام کو طلب کرے پوچھنا کہ ”لڑکی تجھے شیخو اور انار کلی کے کیا تعلقات معلوم ہیں “ حالانکہ شیخو اور انارکلی کے آپس میں تعلقات کے متعلق سوال پوچھ رہے تھے۔ لیکن الفاظ سے معنوں کاخاص پتہ نہیں چلتا۔ عین ممکن ہے سے د تاج نے اکبر کے ذہن و قلب میں پائی جانے والی زبردست ہلچل دکھانے کے ليے جان بوجھ کر کیا ہو۔ بہر حال ایسے مواقع بہت کم ہیں۔ بحیثیت مجموعی ان کے مکالموں میں چستی، برجستگی، لطافت بیان اور حسن کلام کی خو ش کن مثالیں بکثرت نظرآتی ہیں۔ بقول پروفیسر مرزا محمد سعید، ”انار کلی کے مصنف نے مناظر کو اپنے موضوع کا ہم پلہ بنانے کی انتہائی کوشش کی ہے۔ اور ہر ایک منظر میں اشخاص ڈراما کی حرکات و سکنات ،بات چیت ،تراش خراش اور منظر کی عمومی کیفیت کے عین مطابق ہے۔ “
اس ڈرامے میں ڈراما نگار نے شہزادے اور کنیز کے خیالات اور جذبات کو محبت کو ایک ہی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اکبر اگر شہزادے اور کنیز کی محبت کا مخالف ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ غربت اور بے بسی کو ہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ سماج میں غریب انسان کی پر خلوص اور لازوال محبت کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر کے خیالات مادہ پرستی پر مبنی ہیں۔ چنانچہ و ہ انار کلی کی عظیم محبت کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے ادنیٰ کنیز سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔ لہٰذا ڈاکٹر حنیف فوق کی رائے بجا ہے کہ، ” امتیاز علی تاج کی بہت بڑی جیت یہی ہے کہ انھوں نے انسانی جذبات کو ان کے سماج اور ماحول سے منقطع کرکے پیش نہیں کیا۔ اس طور پر انار کلی حقیقت نگاری کا اپنا ایک نیا معیار قائم کرتی ہے۔ جواب تک اردو ڈراموں میں نہیں ملتا۔ “
اس میں شک نہیں کہ تاج ایک خاص حوالے سے گذرے ہوئے زمانے کی ترجمانی کر جاتے ہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو جذباتی، نفسیاتی اور معاشرتی حوالوں سے زندگی آج بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے جس پر کئی صدیاں پہلے تھی۔ اس ليے کہ آج بھی وہی مادہ پرستی، شان و شوکت کی پاسداری اور طبقاتی اونچ نیچ کی گرم بازاری ہے۔ اس اعتبار سے امتیاز علی تاج کے قلم کو بلاشبہ عصر حاضر کا ترجمان کہہ سکتے ہیں۔
یہ ڈراما کسی ایک فرد کا المیہ نہیں بلکہ اکبر اعظم ،سلیم، دلآرام او رانار کلی سبھی کا المیہ ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کردار کے حسب حال ہم اسے کم یا زیادہ المیہ قراردے سکتے ہیں۔
ایک مشہور نقاد احتشام حسین نے کہا تھا کہ انار کلی کا ڈراما اکبراعظم کا المیہ ہے۔ لیکن یہ کلی سچائی نہیں ہے۔ اکبر کے حق میں تو یہ ڈارمہ باقی کرداروں کے مقابلے میں کم المیہ ٹھہرتا ہے۔ اکبر جاہ و جلال کا متوالا اور سیاہ و سفید کا مالک ہے وہ جو چاہتا ہے وہی کچھ ہوتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ادنیٰ کنیز شہزادے کے ساتھ شادی کرے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اور اس کے ایک اشارے پر انارکلی کو دیوار میں چنوا دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں احتشام حسین نے نجانے ڈرامے کو صرف اور صرف اکبر کا المیہ کیسے قرار دیا۔ جبکہ اس کی سلطنت بھی قائم ہے۔ ہاں اکبر اور سلیم کے درمیان جو چپقلش اور ناچاقی پائی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ہم اسے اکبر کا معمولی سا المیہ کہہ سکتے ہیں۔
جناب پروفیسر ڈاکٹر فقیرا خان فقری اسے سب سے زیادہ دل آرام کا المیہ قرار دیتے ہیں۔ دل آرام ایک ایسا بد قسمت کردار ہے جس کی ٹریجڈی کی طرف کسی نقاد کا خیال نہیں گیا۔ دل آرام کے احساسات و جذبات کا کسی کو پاس نہیں۔ نقادوں نے اس ڈرامے کو فرداً فرداً اکبر، سلیم یا انارکلی کا المیہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دل آرام کو چالبازاور انتقامی جذبات کی مالک قرار دیا ہے لیکن کسی نے دل آرام کے دل میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں کی دل آرام تو انار کلی سے پہلے سلیم کو چاہتی ہے۔ انار کلی تو بعد میں آن ٹپکی، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں جذبات میں کیا دل آرام کو رقابت کا حق بھی نہیں پہنچتا؟اگر ہم اسے یہ حق بھی نہیں دیتے تو پھر اس کا مطلب ہے کہ ہم انتہائی ظالم، جانبدار اور انسانی احساسات و نفسیات کے منکر ہیں۔ دل آرام کو انار کلی کے مقابلے میں زیادہ بے یارو مددگار ہے۔ دل آرام کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ وہ جسے چاہتی ہے ٹوٹ کر پیار کرتی ہے۔ وہی شہزادہ سلیم انار کلی کا بدلہ لینے کے ليے دل آرام کی نازک اور صراحی جیسی گردن پر ہاتھ رکھ کر اسے موت کی نیند سلا دیتا ہے۔ دل آرا م غریب سے نہ تو کوئی محبت کرنے والا ہے اور نہ اس کا انتقام لینے والا۔ اور نہ سوگ منانے والا۔ چنانچہ یہ ڈارمہ بڑی حد تک دل آرام کا المیہ ہے۔
ڈارمہ انار کلی کو انار کلی کا المیہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک نازک اندام اور معصوم کلی کی طرح محبت کے دائو پیچ سے ناواقف کم سن لڑکی تھی۔ پہلے شہزادہ سلیم نے اسے اپنے جال محبت میں گرفتار کر لیا۔ اور بعد میں جب وہ اپنی محبت کی خاطر سب کچھ سہنے پر رضا مند ہو گئی تو اسے زندہ دیوار میں چنوا دیا گیا۔ حالانکہ اس میں وہ اکیلی قصور وار نہیں تھی۔ لیکن چونکہ وہ صرف ایک کنیز تھی اس ليے اسے قربانی کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس کی محبت کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئی۔ اور اسے محبت کرنے اور کنیز ہونے کی اتنی بڑی سزا دی گئی۔ لیکن اس نے اپنے تمنائے دل کے ليے جان دی۔ لہٰذا آج بھی ان کا نام زندہ و تابندہ ہے۔ بقول مقبول عامر؟
میں مر گیاہوں وفا کے محاذ پر عامر
پس شکست بھی میرا وقار باقی ہے
ڈارمہ انار کلی سب سے زیادہ شہزادہ سلیم کا المیہ ہے۔ جس کے کئی وجوہات ہیں۔
پہلی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ٹریجڈی زندہ لوگوں کی ہوتی ہے۔ نہ کہ مردہ لوگوں کی۔ لہٰذا ہم اسے سلیم کا الہٰذا ہم اسے سلیم کا المیہ قرار دے سکتے ہیں۔ کیونکہ انارکلی تو مر گئی لیکن ایک با وفا عاشق کی طرح ساری زندگی شہزادہ سلیم ان کی موت کے خیال سے نبرد آزما رہا ہوگا۔ وہ ساری زندگی اپنی محبت اور انار کلی کی اس طرح جدائی میں تڑپاتا رہا ہوگا۔ اس کی فرقت میں اس نے نجانے کتنی راتیں رو رو کر اپنا دامن اشکوں سے بھر ا رہا ہوگا۔ زندگی کے ہرموڑ پر انار کلی کی باتیں، اس کی دلآویزمسکراہٹ بار بار سلیم کو یاد آتی ہوگی۔ اور وہ زندگی بھر اس کی یادوں کے دریا میں غوطہ زن رہا ہوگا۔
سلیم کے المیہ کی دوسری وجہ یہ ہے۔ کہ انارکلی کی موت کے انتقام میں وہ دلآرام کا گلہ گھونٹ دیتا ہے۔ اس کا ضمیر ساری زندگی اسے اپنے اس فعل پر ملامت کرتا رہے گا۔ کیونکہ قتل ہر حال میں قتل ہوتا ہے۔ خواہ ایک کنیز کا ہو یا بادشاہ کا۔ ایک ہوش مند انسا ن بعد میں اپنی حرکت پر دل ہی دل میں پشیما ن ہوتا ہے۔ اور اس کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔ لہٰذااگر ہم سلیم کے کردار کا نفسیاتی جائزہ لیں تو وہ تمام زندگی دلآرام کے ساتھ زیادتی پر یقیناً پچھتا رہا ہوگا۔ اور یہی پچھتاوا اس کی زندگی کا بڑا المیہ ہے۔ یعنی اس کا احساس جرم اسے ہر وقت بے چین رکھتا ہوگا۔
تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ سلیم جیسا شہزادہ جس کے باپ کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اس قدر بے بس اور ناچار ہے کہ اپنی محبت کو حاصل نہیں کر سکا۔ دنیا جہاں کی دولت، طاقت اس کے ادنیٰ غلام ہیں۔ لیکن اس کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے۔ کہ و ہ تمام چیزوں کے باوجود اپنے عشق کو تکمیل ذات تک پہنچانے میں قطعی ناکام رہا۔ اور اپنی محبوبہ کی زندگی کے چراغ کو گل ہونے سے نہ بچا سکا۔ اس سے ثابت ہو تا ہے کہ اتنی بڑی سلطنت کا والی وارث ہونے کے باوجود وہ تہی داماں ہے۔ اور اپنی محبت کو کسی بھی قیمت پر حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ جس پر وہ ساری زندگی آنسو بہاتا ہوگا۔
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
مندرجہ بالا بحث سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ انار کلی دراصل شہزادہ سلیم کا المیہ ہے۔
انارکلی کے بارے میں چند نقادوں اور ادیبوں کی رائے،
انار کلی کے بارے میں ڈاکٹر محمد اقبال کا کہنا ہے۔
” انار کلی کی زبان میں روانی اور انداز بیان میں دلفریبی ہے اور زبا ن شستہ و برجستہ ہے۔ “
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.