From Wikipedia, the free encyclopedia
ابو جعفر ہارون بن محمد المہدی بن ابی جعفر المنصور، بن محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس الہاشمی القرشی، (پیدائش: 763ء - انتقال: 24 مارچ 809ء) پانچویں اور مشہور ترین عباسی خلیفہ تھے۔ آپ رے شہر میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء تک مسند خلافت پر فائز رہے ۔ جب آپ کے بھائی موسیٰ الہادی کا انتقال 170 ہجری میں ہوا، اور اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی اور آپ کو جمعہ کی رات کو خلیفہ بنایا گیا۔ [1] 165 ہجری میں الرشید نے اپنی کزن زبیدہ بنت جعفر سے شادی کی۔ ان کا دور سائنسی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کا دور کہلاتا ہے۔ انھوں نے بغداد میں لائبریریاں ، بیت الحکمت کی بنیاد رکھی۔ اور اپنے دور حکومت میں، بغداد کو علم، ثقافت اور تجارت کے مرکز کے طور پر پروان چڑھایا۔[2]
ہارون الرشید | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
(عربی میں: هَارُون الرَشِيد) | |||||||
معلومات شخصیت | |||||||
پیدائش | 19 فروری 766ء رے | ||||||
وفات | 24 مارچ 809ء (43 سال) طوس | ||||||
مدفن | مزار ہارون الرشید | ||||||
زوجہ | زبیدہ بنت جعفر | ||||||
اولاد | امین الرشید ، مامون الرشید ، المعتصم باللہ | ||||||
والد | محمد المہدی | ||||||
والدہ | ملکہ خیزران | ||||||
بہن/بھائی | |||||||
خاندان | بنو عباس | ||||||
مناصب | |||||||
عباسی خلیفہ (5 ) | |||||||
برسر عہدہ 14 ستمبر 786 – 24 مارچ 809 | |||||||
| |||||||
عملی زندگی | |||||||
استاذ | شعبہ بن حجاج ، معمر بن المثنى ، مفضل ضبی ، علی بن حمزہ کسائی کوفی | ||||||
پیشہ | سیاست دان ، شاعر | ||||||
عسکری خدمات | |||||||
درستی - ترمیم |
ہارون الرشید |
---|
ان کے دور حکومت میں فن و حرفت اور موسیقی نے بھی عروج حاصل کیا۔ ان کا دربار اتنا شاندار تھا کہ معروف کتاب "الف لیلیٰ" شاید انہی کے دربار سے متاثر ہوکر لکھی گئی۔
ہارون الرشید خلیفہ محمد المہدی کا بیٹا اور ان کی اہلیہ الخزیران بنت عطا سے تھا جس کا ریاست میں بڑا اثر و رسوخ تھا۔ہارون 149ھ ( 766ء ) میں رے شہر میں پیدا ہوا جو عباسی ریاست کے دوران پہاڑی علاقے کا حصہ بنا۔ ہارون کے والد کے والد شہر کے گورنر تھے۔ہارون الرشید کی پرورش عباسی ریاست میں شہزادوں اور امرا کے بچوں کے ساتھ ا ور اپنے رضاعی بھائیوں الفضل اور جعفر کے ساتھ ہوئی۔ 151 ہجری میں جعفر کی وفات کے بعد ، عباسی خاندان کے بڑے بیٹے ابو جعفرمنصور بن عبد العزیز خلیفہ بن گئے ۔ ہارون رشید نے اپنے والد اور دادا کی دیکھ بھال میں ایک پرسکون اور مستحکم بچپن گزارا اور معروف اسکالر علی بن حمزہ بن عبداللہ الاسدی الکوفی ( الکسائی ) ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے اس کی پرورش کی اور اسے پڑھایا۔ ان کی پرورش اور تعلیم مفضل الذہبی نے بھی کی۔ [3] 158 ہجری میں ابوجعفر المنصور کا انتقال ہوا اور محمد المہدی خلیفہ بنا اور اس نے اپنے بیٹے ہارون کو گھڑ سواری، تیر اندازی اور مارشل آرٹ کی تربیت دی۔ [4] [5]
ہارون رشید جب جوان ہوئے تو ان کے والد نے انھیں فوج میں سپہ سالار مقرر کیا اور اس وقت ہارون کی عمر پندرہ سال سے زیادہ نہ تھی اور جب المہدی نے 163 ہجری میں ایک لشکر رومیوں کی سرزمین کی سرکوبی کے لیے ایک لشکر بھیجا تو اس میں ہارون رشید بھی شامل تھے اور اس لشکر نے آذربائیجان اور آرمینیا کے ممالک پر قبضہ کر لیا۔ ہارون جب اس جنگ سے بغداد واپس آیاتو المہدی اپنے بیٹے کی فتح کی خوشی میں اس کا نام الرشید رکھا اور اس نے اپنے بڑے بھائی موسیٰ الہادی کے بعد اس سے ولی عہد کے طور پر بیعت کی، چنانچہ ہارون الرشید دوسرے ولی عہد بن گئے۔[6]
ہارون رشید تیسرے عباسی خلیفہ المہدی کے صاحبزادے تھے جنھوں نے 775ء سے 785ء تک خلافت کی۔ ہارون اس وقت خلیفہ بنے جب وہ عمر کے 22 ویں سال کے اوائل میں تھے۔ جس دن انھوں نے مسند خلافت سنبھالی اسی دن ان کی اہلیہ نے مامون الرشید کو جنم دیا۔ ہارون رشید کے دور میں عباسی خلافت کا دار الحکومت بغداد اپنے عروج پر پہنچ گیا۔ انھوں نے بغداد میں نیا محل تعمیر کرایا جو اس سے قبل کے تمام محلات سے زیادہ بڑا اور خوبصورت تھا جس میں ان کا معروف دربار بھی تھا جس سے ہزاروں درباری وابستہ تھے۔ بعد ازاں انھوں نے شام کے حالات کے پیش نظر دربار الرقہ، شام منتقل کر دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ بغداد دنیا کے کسی بھی مقام سے زیادہ بہتر ہے۔ ہارون ایک عادل بادشاہ تھا جو راتوں کو بھیس بدل کر دار الحکومت کی گلیوں میں چکر لگاکر عوام کے مسائل معلوم کرتا تھا۔
ہارون علم، شاعری اور موسیقی سے شغف رکھنے کے علاوہ خود ایک عالم اور شاعر تھا اور اسے جب بھی اپنی سلطنت یا پڑوسی سلطنتوں میں کسی عالم کا پتہ چلتا تو وہ اسے اپنے دربار میں ضرور طلب کرتا۔ اس کے دور میں خلافت عباسیہ کے چین اور فرانس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔
عسکری شعبے میں ہارون ایک جانباز سپاہی تھا جس نے اسی وقت اپنی بہادری کے جوہر دکھادیئے تھے جب اس کے والد خلیفہ تھے۔ انھوں نے بعد ازاں بازنطینی سلطنت کے خلاف 95 ہزار کی فوج کی کمان سنبھالی جو اس وقت ملکہ ایرین کے زیرسربراہی تھی۔ ایرین کے معروف جنرل نیکٹس کو شکست دینے کے بعد ہارون کی فوج نے کریسوپولس (موجودہ اوسکودار، ترکی) میں پڑاو ڈالا جو قسطنطنیہ کے بالکل سامنے ایشیائی حصے میں قائم تھا۔ جب ملکہ نے دیکھا کہ مسلم افواج شہر پر قبضہ کرنے والی ہیں تو اس نے معاہدے کے لیے سفیروں کو بھیجا لیکن ہارون نے فوری ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے تمام شرائط منظور کرنے سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک سفیر نے کہا کہ ملکہ نے بطور جنرل آپ کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے حالانکہ آپ ان کے دشمن ہیں لیکن وہ بطور ایک سپاہی آپ کی قدر کرتی ہیں۔ ہارون ان کلمات سے خوش ہوا اور سفیروں کو کہا کہ اپنی ملکہ سے کہہ دو کہ وہ ہمیں سالانہ 70 ہزار اشرفیاں عطا کرتی رہے تو کوئی مسلم فوج قسطنطنیہ کو نقصان نہیں پہنچائے گی۔ ملکہ نے اس شرط کو تسلیم کر لیا اور پہلے سال کا خراج عطا کیا جس پر مسلم افواج واپس گھروں کو لوٹ گئیں۔ کئی سال تک خراج کی ادائیگی کے بعد 802 نائسیفورس نے خراج کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے جنگ کا اعلان کیا۔ ہارون ایک عظیم فوج لے کر نائسیفورس کے مقابلے پر آیا اور بحیرہ اسود کے کنارے شہر ہراکلیا کامحاصرہ کرکے نائسیفورس کو دوبارہ خراج کی ادائیگی پر رضامند کیا۔ لیکن خلیفہ کے بغداد پہنچتے ہی وہ ایک مرتبہ پھر مکر گیا جس پر ہارون 15 ہزار افراد کے ساتھ ایشیائے کوچک پر ایک مرتبہ پھر حملہ آور ہوا جبکہ رومیوں کی تعداد ایک لاکھ 25 ہزار تھی لیکن ہارون نے اسے زبردست شکست دی اور نائسیفورس زخمی ہوا اوراس کے 40 ہزار فوجی مارے گئے۔ خراج کی ادائیگی پر رضامندی کے اظہار کے باوجود رومی بادشاہ ایک مرتبہ پھر مکر گیا جس پر ہارون رشید نے اس کے قتل کا حکم جاری کیا اور ایک مرتبہ پھر رومی سلطنت پر چڑھائی کی لیکن اسی وقت سلطنت عباسیہ کے ایک شہر میں بغاوت شروع ہو گئی جسے کچلنے کے لیے وہ اس جانب روانہ ہوا لیکن بیماری کے باعث انتقال کرگیا۔ اسے طوس میں دفنایا گیا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.