پشتو ادب
From Wikipedia, the free encyclopedia
جس طرح طرح پشتو زبان کی قدامت کا دعویٰ کیا جاتا ہے، اس طرح پشتو ادب کو بھی قدیم بتایا جاتا ہے۔ لہذا اس پر تفصیلی بحث کی ضرورت ہے۔
اس کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
مولانا عبد القادر اِرقام کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے پشتو نثر کی ابتدا چوتھی صدی ہجری / دسویں صدی عیسویں میں سلطان محمود غزنوی کے ایک وزیر احمد بن میمندی کی تھی۔
عبد الحئی حبیبی کا کہنا ہے کہ غوریوں کی زبان پہلے پشتو تھی۔ گشتہ صدی کے وسط میں پشتو کی کوئی کتاب سترھویں صدی سے پہلے کی شائع ہوئی تھی۔ لیکن 1940۔ 1941ئ میں عبد الحئی حبیبی نے سلیمان ماکو کے کچھ اجزاء شائع کیے۔ یہ ایسی نظموں پر مشتمل ہے جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتاہے کہ یہ گیارھویں صدی میں اِرقام کی گئیں تھیں۔
1944 میں عبد الحئی حبیبی نے کابل میں محمد ہوتک کی ’ پٹہ خزانہ ‘ ( تکمیل 1729 ) میں شائع کی۔ جس کے متعلق دعویٰ کیا گیاکہ یہ قندھار میں اِرقام کی گئی تھی، جو آٹھویں صدی سے مولف کے عہد تک کے شعرا کی بیاض ہے۔
ڑاورٹی اِرقام کرتا ہے کہ شیخ ملی نے 1417 میں یوسف زئیوں کی ایک تاریخ اِرقام کی تھی۔ لیکن اس تصنیف کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہے۔ ایک مخطوطہ موجود ہے جو بایزید انصاری ( م 1585 )کی خیر البیان پر مشتمل ہے۔ اس کا معائنہ کیا جاچکا ہے۔
سترویں صدی کی ابتدائی دور سے ہمارے پاس بایزید انصاری کے راسخ العقیدہ مد مقابل اخوندہ درویزہ کی دینی اور تاریخی کتاب ( مخزن افغانی، مخزن اسلام ) موجود ہیں، جو طعن و تشنع سے لبریز ہیں۔ سترھویں اور اٹھارویں صدی میں متعدد شعرا پیدا ہوئے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر فارسی کے نقال ہیں۔ یورپی معیار کی رو سے اور جدید افغانستان کے فومی شاعر کی حثیت سے ان میں سب سے نمایاں خوش حال خان خٹک ( 1022ھ / 1613 تا 1106ھ / 1694 ) ہے۔
سلیمان ماکو اور محمد ہوتک کی کتابیں معتدد لسانی اور تاریخی گنجلکیں پیدا کرتی ہیں اور ان کے صحیح ہونے کا سوال حتمی طور پر اس وقت تک طے نہیں ہو سکتا ہے کہ جب تک ان کے اصلی مخلوطات لسانی تحقیقات کے لیے سامنے نہیں لائے جاتے ہیں۔
اگر محمد ہوتک کی پٹہ خزانہ کی صحت تسلیم کرلی جائے تو یہ امر بھی پھر بھی مشتبہ رہتا ہے کہ محمد ہوتک نے نظموں کی جو تاریخی اِرقام کی ہیں وہ کہاں تک درست ہیں۔
پٹہ خزانہ اور حسن میمندی کے متعلق دعویٰ کی صھت کو تسلیم کرنا مشکل ہے۔ دیمز کا کہنا ہے کہ یہ بات فرض کرنے کے لیے کوئی شہادت نہیں ہے کہ غور کے باشندے شروع میں پشتو بولتے تھے۔ صاحب طبقات ناصری منہاج سراج نے غور کے شاہی محل میں پرورش پائی تھی۔ مگر پشتو کے بارے میں کچھ نہیں کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے ڈیمز کو کہنا پڑا کہ اس بات کی کوئی شہادت نہیں ملتی ہے کہ غوریوں کی زبان ابتدا میں پشتو تھی۔
اگرچہ عبد الحئی حبیبی نے تقلیمات طبقات ناصری میں متعدد ایسے کلمات کی طرف اشارہ کیا ہے جو پشتو میں استعمال ہوتے ہیں۔ مگر خود عبد الحئی حبیبی کا کہنا ہے کہ پشتو پہلوی سے نکلی ہے۔ تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ پشتو کی تشکیل ساسانی عہد یا اس سے پہلے ہی تشکیل پاچکی تھی اور وہ علمی اور ادبی زبان بن چکی تھی۔ کیوں کے محض دعوں کے علاوہ کسی قسم کا ثبوت نہیں ملا ہے۔ اگر ہم پٹہ خزانہ پر اعتبار کریں تو شنسب کا پوتا امیر کڑور ( آٹھویں صدی عیسویں ) پشتو کا پہلا شاعر تھا۔ مگر معتدد وجوہات اس بیان کو جھٹلاتی ہیں۔
پتہ خزانہ میں امیر کڑور کا نام پہلی دفعہ سامنے آتا ہے۔ یہ جو پولاد غوری کا بیٹا تھا۔ کا تاریخ میں کہیں ذکر نہیں ملتا ہے اور نہ ایسا کوئی ثبوت ملتا ہے کہ اس وقت ( 139 ھ ) یہاں اسلام آچکا تھا۔ صاحب طبقات ناصری منہاج سراج نے پہلی دفعہ امیر فولاد ( پٹہ خزانہ میں پولاد ) کا ذکر کرتا ہے۔ اس سے پہلے اس کا تاریخ کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ لیکن اس نے روایت کے طور پر درج کیا۔
روشن خان نے امیر کڑور کا باپ ماہویہ سوری کو بتایا ہے۔ ماہویہ کبھی غور کا حکمران نہیں رہا ہے اور نہ غور سے اس کا کوئی تعلق رہا ہے۔ تاہم وہ مرو کا مزبان ضرور تھا اور تاہم اس روایت کو ہم تسلیم کر بھی لیں تو ماویہ کا غور سے تعلق ثابت نہیں ہوتا ہے اور دوسری طرف امیر کڑور جس کا تعلق غور سے تھا، اس کا دور دوسری صدی ہجری کی دوسری چوتھائی ( 139 ھ ) بتایا جاتا ہے۔ اس طرح دونوں کے مابین سو سال کا فرق ہو جاتا ہے، یہ بھلا کس طرح ممکن ہے۔
واضح رہے کہ یہ تمام روایات موضع اور وضح کی گئیں ہیں۔ چوتھی صدی ہجری تک یہاں کے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور محمود غزنوی کے دور میں یہاں کے اکشر قبائل مسلمان ہوئے۔
پٹہ خزانہ تاریخ سوری اور دوسری کتب کی جو انیسویں صدی کے وسط میں شائع کی گئیں اور ان کے اصلی مخطوطے معائنے اور تجزیہ کے لیے پیش نہیں کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ معتدد لسانی اور تاریخی گنجلکیں پیدا کر رہی ہیں، اس لیے ان کی حقیقت مشتبہ ہے۔ غالباً یہ کتب پشتو کی قدامت کو ثابت کرنے کے لیے مخزن افغانی (جس کی روایتیں خود تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں) کے اور دوسرے فرضی شعرئ اور تاریخی ناموں کی مدد سے یہ کتب مرتب دی گئیں ہیں۔ تاکہ پشتو کی قدامت کو ثابت کیا جاسکے اور ان کتب کے بیشتر نام فرضی یا تاریخ سے ماخذ نہیں ہیں۔ مثلاً جہان پہلوان کا نام ہمیں ملتا ہے وہ پہلی صدی ہجری میں جب عربوں نے خرسان پر حملہ کیا تھا غور پر حکمران تھا اور اس کے نام پہلوان سے یہ فرض کیا گیا کہ وہ بہت طاقت ور آدمی تھا۔ حالانکہ یہ نسبتی کلمہ ہے اور پہلوی کی ایک شکل ہے۔ علاوہ ازیں یہ کہیں ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ ملتان کے اسماعیلیوں کو راسخ عقیدہ مسلمان اور افغان بتایا گیا ہے۔ جن کے مذہبی عقائد کے بارے میں ہم عصر مصنفین نے تفصیل سے اِرقام کیا۔
بالاالذکر بیانات جن میں نہایت تضاد ہے اور تاریخ سے ماخذ بھی نہیں ہیں اور ان کے تجزیعہ سے واضع ہوتا ہے کہ یہ تمام روایات اور دلائل غلط سلط اور موضع ہیں اور انھیں محض اپنی نسلی اور لسانی برتری کے لیے وضح کی گئی ہیں اور انھیں پیش کرتے ہوئے تاریخی حقائق کو مد نظر بھی نہیں رکھا گیا ہے، لہذا ان پر کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
پروفیسر پری شان خٹک کا کہنا کہ پشتو شاعری اپنے ابتدائی دور میں بھی خالص رہی ہے۔ پشتو خزانہ کی یہی بات کھٹکتی ہے۔ جب کوئی بولی ترقی کی منزلوں کی طرف گامزن ہوتی ہے تو ارد گرد کی ترقی یافتہ زبانوں کی نقالی کرتی ہے۔ اگر پٹہ خزانہ کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے کو ن سے ارتقائی مراحل طے کیے ہیں؟ اگر اس نے ارتقائی مراحل طے کیے ہیں تو تہذیبی اور ثقافتی مراحل بغیر کس طرح ممکن ہے؟ مگر ہمیں اس کا کوئی ایسا جواب نہیں ملتا ہے جو تاریخ سے ماخذ ہو۔
دنیا کے تمام ادبوں کی ابتدا شاعری سے ہوئی ہے۔ شعر زندہ قوت ہے جس کا وجود نثر سے بیشتر کا معلوم ہوتا ہے۔ جب کہ فن تحریر ایجاد نہیں ہوا تھا شعر اپنے زبردست اثر سے دماغ میں محفوظ رہے سکتا ہے تھا اور مجموع کو سنانے کے قابل شعر ہی ہو سکتے ہیں۔ گو ظاہراً نثر ہمارے خیلات اور گفتگو کا آسان طریقہ ہے مگر غور کرنے کے بعد تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ وہ رسمی گفتگو کہ لیے موزوں ہے۔ کوئی بولی جب ترقی کرتی ہوئی زبانوں کی صف میں قدم رکھتی ہے تو ارد گرد کی زبانوں کے زیر اثر ہوتی ہے اور قدم قدم پر ان کی پیروی بلکہ نقالی کرتی ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہے کہ اسے ترقی کے جو مدارج طے کرنے ہوتے ہیں وہ اسے طے نہیں کرنے ہوتے ہیں۔ خود اردو شاعری دیسی شاعری نہیں ہے بلکہ فارسی سے پیدا ہوئی ہے اور فارسی کے نمونے اس کے پیش نظر تھے۔ شروع میں اکثر اردو کے اشعار فارسی کا لفظی ترجمہ ہوتے تھے۔ اردو کے ابتدائی شعرا نے غزل میں فارسی شعرا کی تقلید کی۔ ولی کے دور میں مشکل سے کوئی ایسا شاعر ملے گا جس نے ہر بات میں فارسی کی تقلید نہیں کی۔
کوئی بھی زندہ زبان ساکن نہیں رہتی ہے، اسے زندہ رہنے کے لیے مسلسل ارتقائی مراحل سے گذرنا ہوتا ہے۔ اس میں نئے الفاظوں کی شمولیت اور غیر ضروری الفاظوں کی قظع برید اسے زندہ رکنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کسی زبان میں اس عمل کو روکا جائے تو وہ زبان روز کی بولی سے بہت دور ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ اس کا شمار مردہ زبانوں ہونے لگتا ہے۔ ہمارے سامنے اس کی مثالیں سنسکرت اور لاطینی کی ہیں جو اب مردہ ہو چکی ہیں۔ لہذا کوئی زبان ابتد میں جب بولی ہوتی ہے اور اس کے ترقی یافتہ ہونے تک اس میں اس حد تک تبدیلیاں واقع ہو چکی ہوتی ہیں کہ وہ ابتدائی بولی سے بہت دور ہوجاتی ہے۔ اس زبان کے بولنے والوں کے لیے زبان استعمال کرنا تو درکنار اسے سمجھنا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے پشتو سولویں صدی میں اس قابل ہوئی کہ بولی سے زبان کہلائی جاسکے۔ اس کا واضح ثبوت اس سے ملتا ہے کہ پشتو مسلمانوں سے قبل تشکیل پاچکی ہوتی اور علمی و ادبی زبان بن چکی ہوتی تو اس میں دو لہجہ نہیں ہوتے۔ کیوں کے علمی اور ادبی ترقی زبان کو ایک ہی لہجہ پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ اس کی واضح مثال اردو کی ہے، یہ اپنے ابتدائی دور میں کئی لہجوں میں بولی جاتی تھی۔ بعد کے دور میں اس کے کئی دبستان قائم ہو گئے اور ہر دبستان اپنی زبان کو مستند سمجھتا تھا۔ لیکن اردو کی علمی ترقی اور مقبولیت نے اسے ان دبستانوں کی قید سے نکال کر آزاد کر دیا۔[1]