ہارون علیہ السلام کے بھائی From Wikipedia, the free encyclopedia
موسیٰ علیہ السلام اللہ کے برگزیدہ پیغمبروں میں سے ایک ہیں۔ آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے برگزیدہ نبیوں میں سے ایک ہیں۔یہ 1520 قبلِ مسیح کی بات ہے۔ مِصر پر فرعون بادشاہ’’مرنفتاح ثانی‘‘ کی حکومت تھی۔بعض نے اُس کا نام’’ منفتاح‘‘ بھی لکھا ہے اور وہ والد، رعمسیس کے بڑھاپے کی وجہ سے عملاً حکم ران بنا ہوا تھا۔ خدائی کا دعوے دار یہ بادشاہ بڑا ظالم و جابر تھا۔ اُس نے’’ بنی اسرائیل‘‘ کو اپنا غلام بنا رکھا تھا، حالاں کہ وہ حضرت یوسف کے زمانے سے وہاں رہائش پزیر تھے۔ حضرت یوسفؑ نے اپنے والد، حضرت یعقوبؑ اور اپنے بھائیوں کے لیے ایک قطعۂ زمین اُس وقت کے فرعون بادشاہ ’’ریان بن ولید‘‘ سے حاصل کیا تھا۔ حضرت یعقوبؑ کی یہی نسل’’بنی اسرائیل‘‘ کہلائی، جو مِصر میں خُوب پَھلی پُھولی۔ یہ لوگ حضرت یعقوبؑ کے دین کے پیروکار تھے، چناں چہ اُس وقت اللہ کے نزدیک یہ سب سے بہتر جماعت تھی۔ انھوں نے فرعون کو سجدہ کرنے اور اُسے اپنا ربّ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اسی وجہ سے بادشاہ اور اُس کے حواری ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاتے اور اُن سے گھٹیا کام کرواتے۔ یاد رہے، فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں، بلکہ مِصر کے بادشاہوں کا لقب تھا۔ تاریخی حقائق کے مطابق، 31فراعنہ خاندانوں نے مِصر پر یکے بعد دیگرے حکومت کی۔ سب سے آخری خاندان نے 332قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم کے ہاتھوں شکست کھائی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب چندواسطوں سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک پہنچتا ہے ان کے والد کا نام عمران اور والدہ کا نام یوکابد تھا۔ باپ کا سلسلہ نسب یہ ہے : عمران بن قاہت بن لاوی بن یعقوب (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حقیقی اور بڑے بھائی تھے۔ عمران کے گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت ایسے زمانہ میں ہوئی جبکہ فرعون اسرائیلی لڑکوں کے قتل کا فیصلہ کرچکا تھا ‘ اس لیے ان کی والدہ اور اہل خاندان ان کی ولادت کے وقت سخت پریشان تھے کہ کس طرح بچہ کو قاتلوں کی نگاہ سے محفوظ رکھیں ؟ بہرحال جوں توں کر کے تین مہینہ تک ان کو ہر ایک کی نگاہ سے اوجھل رکھا اور ان کی پیدائش کی مطلق کسی کو خبر نہ ہونے دی ‘ لیکن جاسوسوں کی دیکھ بھال اور حالات کی نزاکت کی وجہ سے زیادہ دیر تک اس واقعہ کے پوشیدہ رہنے کی توقع نہ ہو سکی اور اس لیے ان کی والدہ سخت پریشان رہنے لگیں ‘ اس سخت اور نازک وقت خدائے قدوس نے مدد کی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے دل میں یہ القاء کیا کہ ایک تابوت کی طرح کا صندوق بناؤ جس پر رال اور روغن کی پالش کرو تاکہ پانی اندر اثر نہ کرسکے اور اس میں اس بچے کو محفوظ رکھ دو اور پھر اس صندوق کو نیل کے بہاؤ پر چھوڑ دو۔ [3] موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے ایسا ہی کیا اور ساتھ ہی اپنی بڑی لڑکی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ کو مامور کیا کہ وہ اس صندوق کے بہاؤ کے ساتھ کنارے کنارے چل کر صندوق کو نگاہ میں رکھے اور دیکھے کہ خدا اس کی حفاظت کا وعدہ کس طرح پورا کرتا ہے کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کو خدائے تعالیٰ نے یہ بشارت پہلے ہی دی تھی کہ ہم اس بچہ کو تیری ہی جانب واپس کر دیں گے اور یہ ہمارا پیغمبر اور رسول ہوگا۔
تورات اور مورخین کہتے ہیں کہ فرعون کو بنی اسرائیل کے ساتھ اس لیے عداوت ہو گئی تھی کہ اس زمانے کے کاہنوں نجومیوں اور قیافوں نے اس کو بتایا تھا کہ تیری حکومت کا زوال ایک اسرائیلی لڑکے کے ہاتھ سے ہوگا اور بعض تاریخی روایات میں ہے کہ فرعون نے ایک بھیانک خواب دیکھا تھا جس کی تعبیر دربار کے منجموں اور کاہنوں نے وہی دی تھی جس کا ذکر ابھی گذر چکا ہے ‘ مفسرین نے بھی انہی روایات کو کتب تفسیر میں نقل فرمایا ہے ‘ تورات میں یہ اور اضافہ ہے کہ فرعون نے ” دایہ “ مقرر کردی تھیں کہ قلمرو مصر میں جس اسرائیلی کے یہاں لڑکا پیدا ہو اس کو قتل کر دیا جائے مگر ان عورتوں کے دلوں میں ایسی ہمدردی پیدا ہوئی کہ انھوں نے اس عمل کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا اور جب فرعون نے بازپرس کی تو یہ معذرت پیش کی کہ اسرائیلی عورتیں شہری عورتوں کی طرح نازک اندام نہیں ہیں ‘ وہ خود ہی بچہ جن لیتی ہیں اور ہم کو مطلق خبر نہیں دیتیں۔ اس پر فرعون نے ایک جماعت کو اس لیے مقرر کیا کہ وہ تفتیش اور تلاش کے ساتھ اسرائیلی لڑکوں کو قتل کر دیں اور لڑکیوں کو چھوڑ دیا کریں۔ [4]
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ برابر صندوق کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ کنارے کنارے نگہداشت کرتی جارہی تھیں کہ انھوں نے دیکھا کہ صندوق تیرتے ہوئے شاہی محل کے کنارے آلگا اور فرعون کے گھرانے میں سے ایک عورت نے اپنے خادموں کے ذریعے اس کو اٹھوا لیا اور شاہی محل میں لے گئی۔ حضرت موسیٰ کی ہمشیرہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور حالات کی صحیح تفصیل معلوم کرنے کے لیے شاہی محل کی خادماؤں میں شامل ہوگئیں۔ قرآن عزیز نے اس شاہی خاندان کی عورت کو فرعون کی بیوی بتایا ہے اور تورات کے حصہ خروج میں اس کو فرعون کی بیٹی کہا ہے مگر مؤرخین اس اختلاف کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ پانی میں بہتے ہوئے صندوق کو فرعون کی بیٹی نے اٹھایا ہو اور پھر بیٹا بنانے کی آرزو اور فرعون سے اس بچہ کے قتل نہ کرنے اور خود پالنے کی خواہش کا اظہار اور فرعون سے سفارش فرعون کی بیوی (آسیہ) نے کی ہو۔ قرآن کریم کے اسلوب بیان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا سے نکالنے والے کے متعلق کہا ہے فَالْتَقَطَہٗ الُ فِرْعَوْنَ [5] (اس کو اٹھایا فرعون کے گھر والوں نے) اور بیٹا بنانے کی آرزو اور اس کے قتل نہ کرنے کی سفارش کرنے والے کے متعلق فرمایا وَقَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ [6] (اور فرعون کی بیوی نے کہا) حضرت ابن عباس (رض) سے یہی منقول ہے۔ [7]
بہرحال فرعون کے گھر والوں نے جب صندوق کھولا تو دیکھا کہ ایک حسین اور تندرست بچہ آرام سے لیٹا ہوا انگوٹھا چوس رہا ہے۔ فرعون کی بیٹی فوراً اس کو محل میں لے گئی۔ فرعون کی بیوی نے بچہ کو دیکھا تو باغ باغ ہو گئی اور انتہائی محبت سے اس کو پیار کیا ‘ محل کے شاگرد پیشہ میں سے کسی نے کہا کہ یہ تو اسرائیلی معلوم ہوتا ہے اور ہمارے دشمنوں کے خاندان کا بچہ ہے اس کا قتل کردینا ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی ہمارے خواب کی تعبیر ثابت ہو ؟ اس بات کو سن کر فرعون کو بھی خیال پیدا ہوا۔ فرعون کی بیوی نے شوہر کے تیور دیکھے تو کہنے لگی کہ ایسے پیارے بچہ کو قتل نہ کرو ‘ کیا عجب کہ یہ میرے اور تیرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے ‘ یا ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنالیں اور ہمارے لیے اس کا وجود نفع بخش ثابت ہو یعنی اگر یہ وہی اسرائیلی بچہ ثابت ہو جو تیرے خواب کی تعبیر بننے والا ہے تو ہماری محبت اور آغوش تربیت شاید اس کو مضر ہونے کی بجائے مفید ثابت کر دے ‘ مگر فرعون اور اس کے خاندان کو یہ کیا معلوم کہ خدا کی تقدیر ان پر ہنس رہی ہے کہ رب العالمین کی کرشمہ سازی دیکھو کہ تم اپنی نادانی اور بیخبر ی میں اپنے دشمن کی پرورش پر نگراں مقرر کیے گئے ہو۔ غرض اب یہ سوال پیدا ہوا کہ بچہ کے لیے دودھ پلائی مقرر کی جائے مگر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ سے کیے گئے وعدہ کو پورا کرنے کے لیے بچہ کی طبیعت میں یہ بات پیدا کردی کہ وہ کسی عورت کے پستان کو منہ ہی نہیں لگاتا ‘ شاہی دایہ تھک کر بیٹھ گئی مگر موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی ایک پستان سے بھی دودھ نہ پیا یہ سارا حال موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ مریم دیکھ رہی تھیں ‘ کہنے لگیں اگر اجازت ہو تو ایک ایسی دایہ کا پتہ بتاؤں جو نہایت نیک اور اس خدمت کے لیے بہت موزوں ہے بلکہ حکم ہو تو میں خود اس کو ساتھ لے کر آؤں ؟ فرعون کی بیوی نے دایہ کو لانے کا حکم دے دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ خوش خوش گھر کو روانہ ہوئیں کہ والدہ کو لے کر آئیں۔
یہاں یہ گفتگو ہو رہی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا ادھر برا حال تھا ایک الہامی خیال سے بچہ کو سپرد دریا تو کر آئیں مگر ماں کی مامتا نے زور کیا اور بے چین ہو کر اس پر آمادہ ہوگئیں کہ اپنے اس راز کو افشا کر دیں۔ اسی اضطراب و بے چینی کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضل و کرم کی بارش کی اور ان کے قلب میں اطمینان و سکون نازل کیا۔ اب لطیفہ غیبی کے انتظار میں چشم براہ تھیں کہ لڑکی نے آکر پوری داستان کہہ سنائی اور بتایا کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی دایہ کا بھی دودھ نہ پیا تو میں نے کہا اسرائیلی قبیلہ میں ایک نہایت شریف اور نیک عورت ہے وہ اس بچہ کو اپنی اولاد کی طرح پرورش کرسکتی ہے۔ فرعون کی بیوی نے یہ سن کر مجھ کو حکم دیا کہ فوراً آپ کو لے کر آؤں۔ یہ ہم پر خدا کا بڑا احسان اور فضل و کرم ہوا۔ اب تم چل کر اپنے بچہ کو سینے سے لگاؤ اور آنکھیں ٹھنڈی کرو اور اس کا شکر ادا کرو کہ اس نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ { وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ فَالْتَقَطَہٗٓ اٰ لُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَھُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ ھَامٰنَ وَجُنُوْدَھُمَا کَانُوْا خٰطِئِیْنَ وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَیْنٍ لِّیْ وَ لَکَ لَا تَقْتُلُوْہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰی فٰرِغًا اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ لَوْ لَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِھَا لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ قَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّیْہِ فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ ھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ وَ حَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰٓی اَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَہٗ لَکُمْ وَ ھُمْ لَہٗ نٰصِحُوْنَ فَرَدَدْنٰہُ اِلٰٓی اُمِّہٖ کَیْ تَقَرَّعَیْنُھَا وَلَا تَحْزَنَ وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ } [8] ” اور ہم نے حکم بھیجا موسیٰ کی ماں کو کہ اس کو دودھ پلاتی رہ ‘ پھر جب تجھ کو ڈر ہو اس کا تو ڈال دے اس کو دریا میں اور نہ خطرہ کر اور نہ غمگین ہو ہم پھر پہنچا دیں گے اس کو تیری طرف اور کریں گے اس کو رسولوں سے پھر اٹھا لیا اس کو فرعون کے گھروالوں نے کہ ہو ان کا دشمن اور غم میں ڈالنے والا بے شک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر تھے چوکنے والے اور بولی فرعون کی عورت یہ تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے میرے لیے اور تیرے لیے ‘ اس کو مت مارو کچھ بعید نہیں جو ہمارے کام آئے یا ہم اس کو بنالیں بیٹا اور ان کو کچھ خبرنہ تھی اور صبح کو موسیٰ کی ماں کے دل میں قرار نہ رہا۔ قریب تھی کہ ظاہر کر دے بے قراری کو اگر ہم نہ مضبوط کردیتے اس کے دل کو تاکہ رہے یقین کرنے والوں میں اور کہہ دیا اس کی بہن کو پیچھے چلی جا ‘ پھر دیکھتی رہی اس کو اجنبی ہو کر اور ان کو خبر نہ ہوئی اور روک رکھا تھا ہم نے موسیٰ سے دائیوں کو پہلے سے پھر بولی میں بتاؤں تم کو ایک گھر والے کہ اس کو پال دیں تمھارے لیے اور وہ اس کا بھلا چاہنے والے ہیں ‘ پھر ہم نے پہنچا دیا اس کو اس کی ماں کی طرف کہ ٹھنڈی رہے اس کی آنکھ اور غمگین نہ ہو اور جانے کہ اللہ کا وعدہ ٹھیک ہے پر بہت لوگ نہیں جانتے۔ “ { وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلَیْکَ مَرَّۃً اُخْرٰٓی اِذْ اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّکَ مَا یُوْحٰٓی اَنِ اقْذِ فِیْہِ فِی التَّابُوْتِ فَاقْذِ فِیْہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ بِالسَّاحِلِ یَاْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَ عَدُوٌّ لَّہٗ وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ اِذْ تَمْشِیْٓ اُخْتُکَ فَتَقُوْلُ ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی مَنْ یَّکْفُلُہٗ فَرَجَعْنٰکَ اِلٰٓی اُمِّکَ کَیْ تَقَرَّ عَیْنُھَا وَ لَا تَحْزَنَ } [9] ” اور (تجھے معلوم ہے) ہم تجھ پر پہلے بھی ایک مرتبہ کیسا احسان کرچکے ہیں ؟ ہم تجھے بتاتے ہیں اس وقت کیا ہوا تھا جب ہم نے تیری ماں کے دل میں بات ڈال دی تھی۔ ہم نے اسے سمجھایا تھا کہ بچہ کو ایک صندوق میں ڈال دے اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔ دریا اسے کنارے پر دھکیل دے گا۔ پھر اسے وہ اٹھالے گا جو میرا (یعنی میری مسلم قوم کا) دشمن ہے نیز اس بچہ کا بھی دشمن ہے اور اے موسیٰ ہم نے اپنے فضل خاص سے تجھ پر محبت کا سایہ ڈال دیا تھا کہ اجنبی بھی تجھ سے محبت کرنے لگے اور یہ اس لیے تھا کہ ہم چاہتے تھے کہ تو ہماری نگرانی میں پرورش پائے۔ تیری بہن جب وہاں سے گذری تو (یہ ہماری ہی کارفرمائی تھی کہ) اس نے (فرعون کی لڑکی سے) کہا میں تمھیں ایسی عورت بتلادوں جو اسے پالے پوسے ؟ اور اس طرح ہم نے تجھے پھر تیری ماں کی گود میں لوٹا دیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور (بچہ کی جدائی سے) غمگین نہ ہو۔ “ تورات میں ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کا دودھ چھڑایا تو انھوں نے ان کو فرعون کی بیٹی کے سپرد کر دیا ‘ اور اس کے بعد عرصہ تک وہ شاہی محل میں زیر تربیت رہے اور وہیں نشو و نما پائی مگر تورات کا یہ کہنا واقعہ کے بالکل خلاف ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کی لڑکی کے بیٹے بنے۔ ” جب لڑکا بڑھا وہ اسے فرعون کی بیٹی کے پاس لائی اور وہ اس کا بیٹا ٹھہرا اور اس نے اس کا نام موسیٰ (عبرانی موشیٰ ) رکھا اور کہا اس سبب سے کہ میں نے اسے پانی سے نکالا۔ “ [10]
قرآن عزیز نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے قصہ میں بنی اسرائیل کا ذکر صرف اسی قدر کیا تھا کہ حضرت یعقوب (علیہ السلام) اور ان کا خاندان حضرت یوسف (علیہ السلام) سے ملنے مصر میں آئے مگر اس کے بعد صدیوں بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعات میں پھر ایک مرتبہ قرآن حکیم بنی اسرائیل کے واقعات تفصیل سے سناتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں مصر ہی میں بس گئے تھے اور ان تمام پچھلی صدیوں میں ان کی تاریخ مصر ہی سے وابستہ رہی ہے تورات کی یہ تفصیلات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں۔
” | تب فرعون یوسف ((علیہ السلام)) سے متکلم ہوا اور کہا کہ تیرا باپ اور تیرے بھائی تیرے کے پاس آئے ہیں ‘ مصر کی زمین تیرے آگے ہے ‘ اپنے باپ اور اپنے بھائیوں کو اس سرزمین کے ایک مقام میں جو سب سے بہتر ہے بسا ‘ جشن کی زمین میں انھیں رہنے دے ‘ اور اگر تو جانتا ہے کہ بعضے ان کے درمیان میں چالاک ہیں تو ان کو میری مواشی پر مختار کر۔ | “ |
” | اور یوسف نے اپنے باپ اور بھائیوں کو ملک مصر کی ایک بہترین زمین میں جو رعمسیس کی زمین ہے ‘ جیسا فرعون نے کہا تھا ‘ بٹھایا اور انھیں اس کا مالک کیا اور یوسف نے اپنے باپ اور بھائیوں اور اپنے باپ کے سب گھرانے کی ‘ ان کے لڑکے بالوں کے موافق روٹی سے پرورش کی۔ “ [12]
” اور اسرائیل نے مصر کی زمین میں جشن کے ملک میں سکونت کی اور وہ وہاں ملکیتیں رکھتے تھے اور وہ بڑھے اور بہت زیادہ ہوئے اور یعقوب مصر کی زمین میں ستر برس جیا۔ سو یعقوب کی ساری عمر ایک سو سینتالیس برس کی ہوئی۔ “ [13] |
“ |
تورات میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے فرعون سے اپنے باپ اور اہل خاندان کے لیے ” ارض جشن “ طلب کی جو فرعون نے بخوشی ان کے سپرد کردی۔ [14] مصر کے نقشہ میں یہ جگہ بلبیس کے شمال میں واقع ہے۔ اس علاقہ کا ایک موجودہ شہر فلوسہ (سفط الحنہ) ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ میں ہم بتا چکے ہیں کہ شہری آبادی سے دور حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے خاندان کے لیے یہ جگہ غالباً اس لیے منتخب کی تھی کہ یہاں رہ کر ان کے خاندان کی بدویانہ زندگی بحالہ باقی رہے گی اور اس کی وجہ سے مصری بت پرست ان کے ساتھ اختلاط نہ کرسکیں گے اور ان کی مشرکانہ رسوم اور بد اخلاقیاں بنی اسرائیل میں سرایت نہ کرسکیں گی کیونکہ مصری لوگ چرواہوں ‘ کاشتکاروں اور بدوی لوگوں کو کمتر اور نجس سمجھتے اور ان کے ساتھ اختلاط کو معیوب جانتے تھے۔
تورات میں یہ بھی مذکور ہے کہ جب حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی وفات کا وقت قریب آیا تو انھوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کو بلا کر وصیت کی کہ مجھ کو سرزمین مصر میں دفن نہ کیا جائے بلکہ باپ دادا کے وطن فلسطین میں میری قبر بنائی جائے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے باپ کو اطمینان دلایا اور انتقال کے بعد ان کے جسد اطہر کو حنوط (ممی) کر کے تابوت میں رکھا اور فلسطین لے جا کر سپرد خاک کیا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) نے وفات سے پہلے ساری اولاد کو جمع کیا اور حضرت یوسف (علیہ السلام) کے صاحبزادوں افرائیم اور منسی کو بھی بلایا اور ان سب کو اول دعائے برکت دی اور محبت و شفقت کے ساتھ ان کو نوازا ‘ اس کے بعد ان کو نصیحت کی کہ : ” دیکھو میرے بعد اپنے ایمانیات و اعتقادات کو کہیں خراب نہ کرلینا اور خدا کے اس پاک رشتہ کو جو میں نے اور میرے باپ دادا نے ہمیشہ مضبوط رکھا مشرکانہ رسوم و عقائد سے شکست وریخت نہ کردینا۔ “ [15]
قرآن عزیز نے بھی یعقوب (علیہ السلام) کی اس مقدس وصیت کا ان معجزانہ جملوں میں ذکر کیا ہے : أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِي قَالُواْ نَعْبُدُ إِلَـهَكَ وَإِلَـهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَـهًا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
” | (اے محمد ) کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت کا وقت تھا ‘ جبکہ اس نے اپنی اولاد سے کہا ” میرے بعد کس کی پرستش کرو گے (یعنی کون سا دین اختیار کرو گے ) تو انھوں نے جواب دیا ” ہم اسی ایک خدا کی پرستش کریں گے جو تیرا اور تیرے باپ دادا ابراہیم ‘ اسماعیل اور اسحاق کا خدا ہے اور جس کا کوئی شریک نہیں اور ہم تو اسی کے فرماں بردار ہیں۔ | “ |
تورات نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وفات کے حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ان کی عمر اور ان کی نسل کا بھی ذکر حسب ذیل عبارت میں کیا ہے : اور یوسف اور اس کے باپ کے گھرانے نے مصر میں سکونت کی اور یوسف ایک سودس برس جیا ‘ اور یوسف نے افرائیم کے لڑکے جو تیسرے پشت میں تھے دیکھے اور منسی کے بیٹے مکیر کے بیٹے بھی یوسف کے گھٹنوں پر پالے گئے اور یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہا میں مرتا ہوں اور خدا یقیناً تم کو یاد کریگا اور تم اس زمین سے باہر اس زمین میں جس کی بابت اس نے ابراہام اور اسحاق اور یعقوب سے قسم کی ہے لے جائے گا ‘ اور یوسف نے بنی اسرائیل سے قسم لے کے کہا خدا یقیناً تم کو یاد کریگا اور تم میری ہڈیوں(یہ عربی محاورہ ہے اس کا مطلب ہے کہ میرے جسم مبارک کو اپنے ساتھ لیجانا ) کو یہاں سے لیجائیو ‘ سو یوسف ایک سو دس برس کا بوڑھا ہو کے مرگیا اور انھوں نے اس میں خوشبو بھری اور اسے مصر میں صندوق میں رکھا۔ “ [16] اور موسیٰ نے یوسف کی ہڈیاں ساتھ لیں کیونکہ اس نے بنی اسرائیل کو تاکیداً قسم دے کے کہا تھا کہ خدا یقیناً تمھاری خبر گیری کریگا ‘ تم یہاں سے میری ہڈیاں ساتھ لے جائیو۔ “ [17]
چنانچہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی وصیت کے مطابق ان کی اولاد نے ان کے جسم مبارک کو بھی حنوط (ممی) کر کے تابوت میں محفوظ کر دیا اور جب موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کر کے چلے ہیں تو یوسف کی وصیت کو پورا کرنے کے لیے ان کا تابوت بھی ساتھ لے گئے اور نبیوں کی سرزمین میں لا کر دفن کر دیا۔ یہ مقام کون سا ہے ؟ اس کے متعلق اہل جبرون یہ کہتے ہیں کہ وہ جبرون میں مدفون ہیں اور حرم خلیلی میں مکفیلہ کے قریب ایک محفوظ تابوت کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہی تابوت یوسف ہے لیکن عبد الوہاب مصری اس کو وہم بتاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضرت فاضل محمد نمر حسن نابلسی اور نابلس کے سر کردہ عالم حضرت فاضل امین بک عبد الہادی نے بیان کیا کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کی ضریح مبارک نابلس میں ہے اور یہی صحیح ہے اس لیے کہ تورات کہتی ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) ارض فرائیم میں دفن ہوئے اور نابلس ارض فرائیم ہی میں ہے اور اس کو قدیم زمانہ میں سکم کہتے تھے۔ [18] بہرحال ان تفصیلات سے یہ واضح ہو گیا کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ (علیہا السلام) کی درمیانی صدیوں میں مصر میں آباد رہے۔
گذشتہ واقعات سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ” فرعون “ شاہان مصر کا لقب ہے کسی خاص بادشاہ کا نام نہیں ہے تین ہزار سال قبل مسیح سے شروع ہو کر عہد سکندر تک فراعنہ کے اکتیس خاندان مصر پر حکمران رہے ہیں ‘ سب سے آخری خاندان فارس کی شہنشاہی کا جو 332 قبل از مسیح سکندر کے ہاتھوں مفتوح ہو گیا ان میں سے حضرت یوسف (علیہ السلام) کا فرعون ہیکسوس (عمالقہ) کے خاندان سے تھا جو دراصل عرب خاندان ہی کی ایک شاخ تھی تو اب سوال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عہد کا فرعون کون ہے اور کس خاندان سے متعلق ہے ؟ عام مؤرخین عرب اور مفسرین اس کو بھی ” عمالقہ “ ہی کے خاندان کا فرد بتاتے ہیں ‘ اور کوئی اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان بتاتا اور کوئی مصعب بن ریان کہتا ہے اور ان میں سے ارباب تحقیق کی رائے یہ ہے کہ اس کا نام ریان یا ریان ابا تھا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ یہ سب اقوال قدیم مؤرخین کی تحقیق پر مبنی تھے مگر اب جدید مصری اثری تحقیقات اور حجری کتبات کے پیش نظر اس سلسلہ میں دوسری رائے سامنے آئی ہے وہ یہ کہ موسیٰ کے زمانہ کا فرعون رعمسیس ثانی کا بیٹا منفتاح ہے جس کا دور حکومت 1292 ق م سے شروع ہو کر 1225 ق م پر ختم ہوتا ہے۔
اس تحقیقی روایت کے متعلق احمد یوسف احمد آفندی نے ایک مستقل مضمون لکھا ہے یہ مصری دارالآثار کے مصور ہیں اور اثری و حجری تحقیق کے بہت بڑے عالم ہیں ان کے اس مضمون کا خلاصہ نجار نے قصص الانبیاء میں نقل کیا ہے جس کا حاصل یہ ہے : ” یہ بات پایہ تحقیق کو پہنچ چکی ہے کہ یوسف (علیہ السلام) جب مصر میں داخل ہوئے ہیں تو یہ فراعنہ کے سولہویں خاندان کا زمانہ تھا اور اس فرعون کا نام ” ابابی الاول “ تھا ‘ میں نے اس کی شہادت اس حجری کتبہ سے حاصل کی جو عزیز مصر ” فوتی فارع “ (فوطیفار ) کے مقبرہ میں پایا گیا ‘ اور ستر ھویں خاندان کے بعض آثار سے یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ اس خاندان سے قبل مگر قریب ہی زمانہ میں مصر میں ہولناک قحط پڑچکا تھا ‘ لہٰذا ان تعینات کے بعد آسانی سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) کا داخلہ مصر ” ابابی الاول “ کے زمانے میں تقریباً 16٠٠ ق م ہوا ہے اور حضرت یوسف کا عزیز مصر کے یہاں رہنا اور پھر قید خانہ کی زندگی بسر کرنا ان دونوں کی مدت کا اندازہ کر کے کہا جا سکتا ہے کہ بنی اسرائیل حضرت یوسف سے تقریباًستائیس سال بعد مصر میں اس شان سے داخل ہوئے جس کا ذکر قرآن حکیم اور تورات میں کیا گیا۔ ہم اگرچہ فراعنہ مصر کی حکومت اور شاہی خاندان کے متعلق اچھی طرح آگاہی پاچکے ہیں اور مصری آثار نے اس میں ہم کو کافی مدد دی ہے ‘ مگر ابھی تک ان اثریات میں وہ تفصیلی تصریحات دستیاب نہیں ہوئیں جو فرعون اور بنی اسرائیل کی عداوت ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت اور غرق فرعون و نجات بنی اسرائیل سے متعلق ہیں۔ تورات میں مذکور ہے جس فرعون نے بنی اسرائیل کے ساتھ عداوت کا معاملہ کیا اور ان کو سخت مصائب میں مبتلا رکھا ‘ اس نے بنی اسرائیل سے دوشہروں (رعمسیس اور پتوم) کی تعمیر کی خدمت بھی لی اور ان کو مزدور بنایا ‘ تو اثری حفریات (پرانے آثار کی کھدائی ) میں ان دو شہروں کا پتہ تو لگ چکا ہے۔ ایک کے کتبہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس کا نام ” برتوم “ یا ” پتوم “ ہے اس کا ترجمہ ہے ” خدائے توم کا گھر “ اور دوسرے کا نام ” بررعمسیس “ ہے جس کا ترجمہ ” قصر ر عمسیس “ ہوتا ہے۔
اور مشرقی جانب میں جو مقام اب ” تل مسخوطہ “ کے نام سے مشہور ہے ‘ یہیں ” پتوم “ کی آبادی تھی اور جس جگہ اب ” قنتیر “ یا قدیم مصری زبان کے اعتبار سے ” خنت نفر “ واقع ہے اس مقام پر ” رعمسیس “ آباد تھا۔ اس کو ” رعمسیس ثانی “ نے اس لیے آباد کیا تھا کہ یہ مصر کی بحری جانب کے سینٹر میں بہترین قلعہ کا کام دے اور پتوم کی آبادی کا بھی یہی مقصد تھا۔ اس شہر کی چار دیواری کے جو کھنڈر معلوم ہوئے ہیں وہ بلاشبہ اس کی شہادت دیتے ہیں کہ یہ دونوں شہر مصر کے بہترین حفاظتی قلعے تھے نہ کہ تورات کے بیان کے مطابق غلوں کے گودام۔ اس تمام قیل و قال کا مطلب یہ ہے جس فرعون نے بنی اسرائیل کو مصائب میں مبتلا کیا وہ یہی ” رعمسیس دوم “ ہو سکتا ہے۔ یہ مصر کے حکمرانوں کا انیسواں خاندان تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے زمانہ میں پیدا ہوئے اور اسی کی آغوش میں پرورش پائی ‘ تاریخ اثریات سے پتہ چلتا ہے کہ ” آسیویہ “ قبائل جو مصر کے قریب آباد تھے ان کے اور فراعنہ کے اس خاندان کے درمیان میں پیہم نو سال تک سخت جنگ و پیکار رہی۔ بدیں وجہ یہ قرین قیاس ہے کہ رعمسیس دوم نے اس خوف سے کہ کہیں بنی اسرائیل کا یہ عظیم الشان قبیلہ جو لاکھوں نفوس پر مشتمل تھا ‘ اندرونی بغاوت پر آمادہ نہ ہوجائے ‘ بنی اسرائیل کو ان مصائب میں مبتلا کرنا ضروری سمجھا جن کا ذکر تورات اور قرآن حکیم میں کیا گیا ہے۔
رعمسیس دوم اس زمانہ میں بہت مسن اور معمر ہو چکا تھا ‘ اس لیے اس نے اپنی زندگی ہی میں اپنے بڑے بیٹے ” منفتاح “ کو شریک حکومت کر لیا تھا۔ رعمسیس کی ڈیڑھ سو اولاد میں سے یہ تیرھواں لڑکا تھا۔ لہٰذا منفتاح ہی وہ ” فرعون “ ہے جس کو حضرت موسیٰ و ہارون (علیہا السلام) نے اسلام کی دعوت دی اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کیا اور اسی کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر سے نکلے اور یہی غرق دریا ہوا ‘ چونکہ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے گھر میں پرورش پاتے دیکھا تھا اس لیے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو اسلام کا پیغام سنایا تو قرآن عزیز کے ارشاد کے مطابق اس نے یہ طعنہ دیا : قَالَ أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيدًا وَلَبِثْتَ فِينَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ کیا ہم نے اپنے یہاں تیرے بچپن میں تیری پرورش نہیں کی ؟ اور تو اپنی عمر کے چند سال ہم میں بسر کرچکا ہے۔ “ تورات میں ہے کہ خروج سے پہلے مصر کے بادشاہ کا انتقال ہو گیا ‘ 2 ؎ اس سے مراد وہی رعمسیس دوم ہے جو منفتاح کا باپ تھا۔
تورات سے بھی اس قیاس کی تائید ہوتی ہے ‘ اس میں کہا گیا ہے ” اور اس نے لوگوں سے کہا دیکھو کہ بنی اسرائیل کے لوگ ہم سے زیادہ اور قوی تر ہیں ‘ آؤ ہم ان سے دانشمندانہ معاہدہ کریں تاکہ یہ نہ ہو کہ جب وہ اور زیادہ ہوں اور جنگ پڑے تو وہ ہمارے دشمنوں سے مل جائیں اور ہم سے لڑیں اور ملک سے نکل جائیں۔ “ [19][20]
علامہ فلانڈرس نے ایک حجری کتبہ دریافت کیا ہے جس پر سیاہ حروف کندہ ہیں اور وہ 599 مصری میں لکھا گیا ہے۔ یہ دراصل ایک بہت بڑی چٹان ہے جس کی بلندی 3 میٹر اور 14 سینٹی میٹر ہے ‘ یہ ” کتبہ “ دو وجہ سے معرض تحریر میں آیا تھا ‘ ایک یہ کہ ان تمام تفصیلات کو بیان کیا جائے جو اٹھارہویں خاندان کے بادشاہ ” آمن حوتپ “ نے ” معبدآمون “ کی خدمات کے متعلق انجام دی تھیں اور دوسرے یہ کہ انیسویں خاندان کے بادشاہ منفتاح بن رعمسیس دوم کی تعریف میں کچھ لکھا جائے اس لیے اس کتبہ کی عبارت شاعرانہ اسلوب پر لکھی گئی ہے اور منفتاح نے یوسین پر جو فتح حاصل کی تھی اس کا بڑے فخر و مباہات کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور عسقلان ‘ جیزر ‘ یانو عیم جو فلسطین کے علاقہ کے مشہور شہر تھے ان کے سقوط کی جانب اشارات کیے گئے ہیں۔ اسی کے ضمن میں بنی اسرائیل کے متعلق بھی مختصر عبارت میں اظہار خیال کیا گیا اور یہ سب سے پہلا اثری نقش اور حفریات مصری کا پہلا کتبہ ہے جس میں بنی اسرائیل کا صراحت کے ساتھ ذکر موجود ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے : ( (لقد سحق بنو اسرائیل ولم یبق لہم بذر)) ” بنی اسرائیل تمام ہلاک ہو گئے اور اب ان کی نسل کا خاتمہ ہو گیا۔ “
ایک باریک بیں اس عبارت کو دیکھ کر بآسانی یہ علم حاصل کرسکتا ہے کہ یہ تحریر منفتاح کے زمانے میں نہیں لکھی گئی ورنہ تو مصری دستور کے مطابق بنی اسرائیل جیسے عظیم الشان قبیلہ کی ہلاکت کے واقعہ کو اس معمولی اور مختصر الفاظ میں درج نہ کیا جاتا ‘ بلکہ منفتاح کی شان میں بڑے زبردست قصیدہ کے ساتھ اس دشمن پر کامیابی کا اظہار کیا جاتا اور جن واقعات کی طرف اس کتبہ میں اشارہ کیا گیا ہے ان کی اہمیت اور عظمت کا تقاضا یہی تھا کہ وہ یونہی ضمنی طور پر اور وہ بھی سابق بادشاہ کے حالات سے متعلق کتبہ پر درج نہ کر دیے جاتے بلکہ ان اہم واقعات کے لیے منفتاح کے زمانہ میں مستقل الگ ایک کتبہ اسی غرض سے تحریر کیا جاتا۔ مگر ایسا کیوں نہ ہوا ؟ سو یہ بات بہت واضح ہے وہ یہ کہ مصری کاہنوں کو اس واقعہ ہائلہ کی ہرگز توقع نہ تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ میں غرق فرعون کی شکل میں ظاہر ہوا اور وہ منفتاح کی موت کے لیے اس عجلت کے متوقع نہ تھے۔ اس زمانہ کی عمر طبعی کے لحاظ سے ابھی کافی زمانہ تھا کہ منفتاح کے کاہن مصری دستور کے مطابق اس انیسویں خاندان کے بادشاہ کے ان حالات کو مرتب کرکے لوح پر محفوظ کر دیں تاکہ وہ بادشاہ کے مقبرہ پر کندہ ہو سکے۔ اب جبکہ یہ واقعہ ہائلہ پیش آگیا تو اصل حقیقت کو چھپانے کی سعی کی گئی تاکہ آئندہ قبطی نسلیں اس ذلت و رسوائی کو معلوم نہ کرسکیں جو ان کے واجب الاحترام دینی عقائد پر خدا کی طرف سے سخت ضرب کا باعث بن چکی تھی۔ پس انھوں نے بے جا جسارت اور تاریخی بددیانتی کے ساتھ حالات کو منقلب کرکے معاملہ کو بالکل مخالف شکل میں تحریر کر دیا اور بنی اسرائیل کی کامیاب واپسی وطن کو ان مسطورہ بالا الفاظ میں ظاہر کیا تاکہ غرق فرعون کا قصہ آئندہ مصریوں کے سامنے باقی ہی نہ رہے۔
اس نتیجہ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ مصری دستور کے مطابق ہر ایک بادشاہ کا مقبرہ جدا ہوتا تھا اور اس کے تمام حالات اور خصوصی نمایاں امتیازات کی تاریخ اور اس کے زمانہ کی بعض شاہی اشیاء اور جواہرات اس کی قبر کے ساتھ ہی محفوظ کرکے رکھے جاتے تھے۔ لیکن منفتاح کی اس شان کے باوجود جس کا مذکورہ بالا کتبہ میں اشارہ کیا گیا ہے نہ اس کا علاحدہ مقبرہ بنایا گیا اور نہ وہ تمام رسوم انجام پاسکیں جو ہمیشہ بادشاہوں کے لیے ضروری سمجھی جاتی تھیں ‘ بلکہ اس کو عجلت کے ساتھ ” آمن حوتپ “ کے مقبرہ ہی میں دفن کر دیا گیا اور اٹھارہویں خاندان کے بادشاہ اور انیسویں خاندان کے بادشاہ کی نعشیں ایک ہی جگہ جمع کردی گئیں۔ “ [21] مصری عجائب خانہ میں یہ نعش آج بھی محفوظ ہے اور قرآن عزیز کے اس کلام بلاغت نظام کی تصدیق کررہی ہے : { فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰ یَۃً } [22]
” | پس آج کے دن ہم تیرے جسم کو (دریا سے) نجات دیں گے تاکہ وہ تیرے بعد آنے والوں کے لیے (خدا کا) نشان رہے۔ “
اور محمد احمد عدوی کتاب ” دعوۃ الرسل الی اللہ “ میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی حیوان کا کھایا ہوا ہے۔ غالباً دریائی مچھلی نے خراب کیا ہے اور پھر اس کی نعش خدائی فیصلہ کے مطابق کنارہ پر پھینک دی گئی۔ |
“ |
[23] ان نقول کے لیے کسی شرح کی ضرورت نہیں ہے ‘ البتہ یہ یورپ کے ان مقلدین کے لیے ضرور سرمایہ صد عبرت ہیں جو جلد بازی کے ساتھ مستشرقین کی ہر ایک تحقیق پر بغیر کسی پس و پیش کے آمنا وصدقنا کہہ دینے کے عادی ہیں۔ جو قرآن اور خدا کے نبی کے احکام پر شک کرسکتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں مگر یورپین مؤرخین اور مستشرقین کی تحقیقات علمی کو وحی الٰہی سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ جو اپنے علمائے اسلام کی تقلید کو حرام جانتے ہیں مگر علمائے یورپ کے ہر نوشتہ کو نوشتہ الٰہی یقین کرتے ہیں۔ چنانچہ یورپ کے مؤرخین جدید نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ ((علیہا السلام)) اور فراعنہ مصر کے درمیان میں جو واقعات تورات و قرآن عزیز سے ثابت ہوتے ہیں وہ تاریخی معیار پر اس لیے غلط اور بے اصل ہیں کہ مصری ” حفریات و اثریات “ میں ان اہم اور عظیم الشان حالات و واقعات کا اشارہ تک نہیں پایا جاتا۔ حالانکہ یہ مسلم ہے کہ مصری اپنی تاریخ کی تدوین میں بہت زیادہ چست و چالاک اور سب سے پیش پیش ثابت ہوئے ہیں اور آج ان کے اس طرز عمل کی بدولت تین ہزار سال قبل مسیح کے حالات کی صحیح تاریخ مرتب ہو سکی ہے۔ تو اس دعویٰ کی کو رانہ تقلید میں ہندوستان کے بعض یورپ زدہ مسلمانوں نے بھی ان واقعات کی صحت سے انکار کر دیا اور خدا کی سچی وحی سے اعراض کرتے ہوئے ان تخمینی قیاسات کو یقینی اور الہامی نوشتہ کی حیثیت دی۔ { اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ } [24] لیکن آج جبکہ مصری حفریات و اثریات میں صراحت کے ساتھ اس زمانہ کے فرعون اور بنی اسرائیل کی عداوت کا حال روشنی میں آچکا ہے اور مسطورہ بالا ترتیبی واقعات خود بخود ان حقائق کو سامنے لے آئے ہیں جن کا ذکر قرآن عزیز میں موجود ہے ‘ تو اب نہ معلوم جلد بازی سے انکار کرنے والے ان مدعیان علم کی علمی روش کیا صورت اختیارکرے گی ؟ اپنی نادانی اور کو رانہ تقلید کی پردہ دری کے خوف سے انکار پر اصرار ‘ یا حقیقت کے اقرار کے ساتھ ساتھ پیغمبر خدا (علیہ السلام) کی بتائی ہوئی راہ یقین (وحی الٰہی) کے سامنے اظہار ندامت و تاسف ؟ بہرحال وہ اپنا معاملہ جو کچھ بھی رکھیں یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اذعان اور یقین کی جو راہ ” وحی الٰہی “ یعنی قرآن عزیز کے ذریعہ حاصل ہو چکی ہے اس کو ذرہ برابر اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی اور استقراء و قیاس سے حاصل شدہ علم اس وقت تک برابر گردش میں رہے گا جب تک قرآنی صداقت پر آکر نہ ٹھہر جائے۔
قرآن عزیز میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ذکر بے شمار مقامات میں آیا ہے۔ چونکہ ان کے بیشتر حالات نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبارک حالات سے بہت زیادہ مطابقت رکھتے ہیں اور ان واقعات میں غلامی اور آزادی کی باہم معرکہ آرائی اور حق و باطل کے مقابلہ کی بے نظیر داستان و دیعت ہے نیزان کے اندر بصائر و مواعظ کا نادر ذخیرہ جمع ہے ‘ اس لیے قرآن عزیز نے حسب ضرورت اور حسب موقع و محل جگہ جگہ اس قصہ کے اجزاء کو مجمل اور مفصل طریقہ پر بیان کیا ہے۔کل 514 دفعہ قرآن میں ذکر آیا ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک عرصہ تک شاہی تربیت میں بسر کرتے کرتے شباب کے دور میں داخل ہوئے تو نہایت قوی الجثہ اور بہادر جوان نکلے۔ چہرہ سے رعب ٹپکتا اور گفتگو سے ایک خاص وقار اور شان عظمت ظاہر ہوتی تھی ‘ ان کو یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اسرائیلی ہیں اور مصری خاندان سے ان کا کوئی رشتہ قرابت نہیں ہے۔ انھوں نے یہ بھی دیکھا کہ بنی اسرائیل پر سخت مظالم ہو رہے ہیں اور وہ مصر میں نہایت ذلت اور غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر ان کا خون کھولنے لگتا اور موقع بہ موقع عبرانیوں کی حمایت و نصرت میں پیش پیش ہوجاتے۔ طبری نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) جوان ہو گئے اور قوی ہیکل جوان ثابت ہوئے تو عبرانیوں کے معاملات میں ان کی نصرت و حمایت کا یہ اثر ہوا کہ مصری گماشتوں کے مظالم عبرانیوں پر کم ہونے لگے۔ اور اس میں شک نہیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل کی ذلت و غلامی پر غم و غصہ اور ان کی حمایت و نصرت کا عمیق اور بے پناہ جذبہ ایک فطری اور قدرتی جذبہ تھا۔ اب اللہ تعالیٰ کے عطاء و نوال کا ہاتھ اور آگے بڑھا اور جسمانی طاقت و قوت کے ساتھ اس نے ان کو زیور علم و حکمت سے بھی نوازا اور سن رشد کو پہنچ کر ان کی قوت فیصلہ اور دقت علم و نظر بھی عروج تک پہنچ گئے اور اس طرح ان کو جسمانی و روحانی تربیت کا کمال حاصل ہو گیا۔
{ وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسْتَوٰٓی اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّ عِلْمًا وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ } [25] ” اور جب (موسیٰ ) پہنچا اپنے زورپر اور سنبھلا تو بخشا ہم نے اس کو (قوت) فیصلہ اور علم اور اس طرح ہم نیکوکاروں کو بدلہ دیا کرتے ہیں۔ “ غرض موسیٰ (علیہ السلام) شہر میں گشت کرتے ہوئے اکثر ان حالات کا مشاہدہ کرتے رہتے اور گاہے گاہے بنی اسرائیل کی مدد کرتے۔ ایک مرتبہ شہری آبادی سے ایک کنارہ جا رہے تھے کہ دیکھا ایک مصری ایک اسرائیلی کو بیگار کے لیے گھسیٹ رہا ہے ‘ اسرائیلی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا تو لگا فریاد کرنے اور مدد چاہنے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو مصری کی اس جابرانہ حرکت پر سخت غصہ آیا اور اس کو باز رکھنے کی کوشش کی مگر مصری نہ مانا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے غصہ میں آکر ایک طمانچہ رسید کر دیا۔ مصری اس ضرب کو برداشت نہ کرسکا اور اسی وقت مرگیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو بہت افسوس کیا کیونکہ ان کا ارادہ ہرگز اس کے قتل کا نہ تھا اور ندامت و شرمندگی کے ساتھ دل میں کہنے لگے کہ بلاشبہ یہ کار شیطان ہے وہی انسان کو ایسی غلط راہ پر لگاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کی درگاہ میں عرض کرنے لگے کہ یہ جو کچھ ہوا نادانستگی میں ہوا ‘ میں تجھ سے مغفرت کا خواستگار ہوں۔ خدا نے بھی ان کی غلطی کو معاف کر دیا اور مغفرت کی بشارت سے نوازا۔ ادھر شہر میں مصری کے قتل کی خبر شائع ہو گئی مگر قاتل کا کچھ پتہ نہ چلا۔ آخر مصریوں نے فرعون کے پاس استغاثہ کیا کہ یہ کام کسی اسرائیلی کا ہے ‘ لہٰذا آپ داد رسی فرمائیے۔ فرعون نے کہا کہ اس طرح ساری قوم سے تو بدلہ نہیں لیا جا سکتا ‘ تم قاتل کا پتہ لگاؤ میں ضرور اس کو کیفر کردار تک پہنچاؤں گا۔
سوء اتفاق کہئے یا حسن اتفاق کہ دوسرے دن بھی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شہر کے آخری کنارے پر سیر فرما رہے تھے کہ دیکھا وہی اسرائیلی ایک قبطی سے جھگڑ رہا ہے اور قبطی غالب ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھ کر کل کی طرح آج بھی اس نے فریاد کی اور دادرسی کا خواستگار ہوا۔ اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دوہری ناگواری محسوس کی۔ ایک جانب قبطی کا ظلم تھا اور دوسری جانب اسرائیلی شور و غوغا اور گذشتہ واقعہ کی یاد تھی۔ اسی جھنجھلاہٹ میں ایک طرف انھوں نے مصری کو باز رکھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور ساتھ ہی اسرائیلی کو بھی جھڑکتے ہوئے فرمایا : ” اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ“ ” تو بھی بلاشبہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔ “ یعنی خواہ مخواہ جھگڑا مول لے کر داد فریاد کرتا رہتا ہے۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہاتھ بڑھاتے اور پھر اپنے متعلق ناگوار اور تلخ الفاظ کہتے سنا تو یہ سمجھا کہ یہ مجھ کو مارنے کے لیے ہاتھ بڑھا رہے ہیں اور مجھ کو گرفت میں لینا چاہتے ہیں اس لیے شرارت آمیز انداز سے کہنے لگا : { اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًام بِالْاَمْسِ } [26] ” جس طرح تو نے کل ایک جان (قبطی) کو ہلاک کر دیا تھا اسی طرح آج مجھ کو قتل کردینا چاہتا ہے ؟ “
مصری نے جب یہ سنا تو اسی وقت فرعونیوں سے جاکر ساری داستان کہہ سنائی۔ انھوں نے فرعون کو اطلاع دی کہ مصری کا قاتل موسیٰ ہے۔ فرعون نے یہ سنا تو جلاد کو حکم دیا کہ موسیٰ کو گرفتار کرکے حاضر کرے۔ مصریوں کے اس مجمع میں ایک معزز مصری وہ بھی تھا جو دل و جان سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے محبت رکھتا اور اسرائیلی مذہب کو حق جانتا تھا۔ یہ فرعون ہی کے خاندان کا فرد تھا اور دربارکا حاضر باش۔ اس نے فرعون کا یہ حکم سنا تو فرعونی جلادوں سے پہلے ہی دربار سے نکل کر دوڑتا ہوا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے سارا قصہ بیان کیا اور ان کو مشورہ دیا کہ اس وقت مصلحت یہی ہے کہ خود کو مصریوں سے نجات دلایئے اور کسی ایسے مقام کی طرف ہجرت کر جایئے جہاں ان کی دسترس نہ ہو سکے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مشورہ کو قبول فرما لیا اور ارض مدین کی جانب خاموشی کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ اس مقام پر یہ بات قابل غور ہے کہ قرآن عزیز نے اس شخص کے متعلق صرف اس قدرکہا ہے : { وَ جَآئَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰی } [27] ” اور شہر کے آخری کنارہ سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا۔ “ مگر ہم نے اس کے اوصاف میں ” شریف “ اور ” معزز “ ‘ کا اضافہ کر دیا تو بقول نجار اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن حکیم نے اس آنے والے شخص کے متعلق دو صفات بیان کی ہیں : وہ شہر کے آخری کنارے سے آیا تھا اور عرب میں مثل مشہور ہے کہ الاطراف سکنی الاشراف (شہر کے کنارے شرفاء کے رہنے کی جگہ ہیں) اس نے آکر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کہا { اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ } [28] ” بے شک بھری جماعت تیرے قتل کا مشورہ کررہی ہے “ اور یہ ظاہر ہے کہ یہ علم اسی شخص کو ہو سکتا ہے جو فرعون اور اس کے ارکان کے درمیان میں نمایاں حیثیت رکھتا ہو۔ [29] { وَ دَخَلَ الْمَدِیْنَۃَ عَلٰی حِیْنِ غَفْلَۃٍ مِّنْ اَھْلِھَا فَوَجَدَ فِیْھَا رَجُلَیْنِ یَقْتَتِلٰنِ ھٰذَا مِنْ شِیْعَتِہٖ وَ ھٰذَا مِنْ عَدُوِّہٖ فَاسْتَغَاثَہُ الَّذِیْ مِنْ شِیْعَتِہٖ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہٖ فَوَکَزَہٗ مُوْسٰی فَقَضٰی عَلَیْہِ قَالَ ھٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَغَفَرَلَہٗ اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَکُوْنَ ظَھِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ فَاَصْبَحَ فِی الْمَدِیْنَۃِ خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِی اسْتَنْصَرَہٗ بِالْاَمْسِ یَسْتَصْرِخُہٗ قَالَ لَہٗ مُوْسٰٓی اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ فَلَمَّآ اَنْ اَرَادَ اَنْ یَّبْطِشَ بِالَّذِیْ ھُوَ عَدُوٌّ لَّھُمَا قَالَ یٰمُوْسٰٓی اَتُرِیْدُ اَنْ تَقْتُلَنِیْ کَمَا قَتَلْتَ نَفْسًا بِالْاَمْسِ اِنْ تُرِیْدُ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ جَبَّارًا فِی الْاَرْضِ وَ مَا تُرِیْدُ اَنْ تَکُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِیْنَ وَ جَآئَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِیْنَۃِ یَسْعٰی قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنَّ الْمَلَاَ یَاْتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ فَاخْرُجْ اِنِّیْ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ فَخَرَجَ مِنْھَا خَآئِفًا یَّتَرَقَّبُ قَالَ رَبِّ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ } [30] ” اور آیا شہر کے اندرجس وقت بیخبر ہوئے تھے وہاں کے لوگ پھر پائے اس میں دو مرد لڑتے ہوئے ‘ یہ ایک اس کے رفیقوں میں اور یہ دوسرا اس کے دشمنوں میں۔ پھر فریاد کی اس سے اس نے جو تھا اس کے رفیقوں میں اس کے مقابلہ میں جو تھا اس کے دشمنوں میں ‘ پھر مکا مارا اس کو موسیٰ نے پھر اس کو تمام کر دیا ‘ بولا یہ ہوا شیطان کے کام سے بے شک وہ دشمن ہے بہکانے والا صریح۔ موسیٰ بولا اے میرے رب میں نے برا کیا اپنا ‘ سو بخش مجھ کو پھر اس کو بخش دیا بے شک وہی ہے بخشنے والا مہربان۔ بولا اے رب جیسا تو نے فضل کر دیا مجھ پر پھر میں کبھی نہ ہوں گا مددگار گناہ گاروں کا پھر صبح کو اٹھا اس شہر میں ڈرتا ہوا انتظار کرتا ہوا پھر ناگہاں دیکھا جس نے کل مدد مانگی تھی وہ آج پھر فریاد کرتا ہے اس سے کہا موسیٰ نے ‘ بے شک تو بے راہ ہے صریح پھر جب چاہا کہ ہاتھ ڈالے اس پر جو دشمن تھا ان دونوں کا ‘ بول اٹھا فریاد کرنے والا اے موسیٰ کیا تو چاہتا ہے کہ خون کرے میرا جیسے خون کرچکا ہے کل ایک جان کا ‘ تیرا یہی جی چاہتا ہے کہ زبردستی کرتا پھرے ملک میں اور نہیں چاہتا کہ ہو صلح کرادینے والا اور آیا شہر کے پرلے سرے سے ایک مرد دوڑتا ہوا ‘ کہا اے موسیٰ دربار والے مشورہ کرتے ہیں تیرے متعلق کہ تجھ کو مار ڈالیں سو نکل جا میں تیرا بھلا چاہنے والا ہوں۔ پھر نکلا وہاں سے ڈرتا ہوا راہ دیکھتا ‘ بولا اے رب بچا لے مجھ کو اس قوم بے انصاف سے۔ “ { وَ قَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّیْنٰکَ مِنَ الْغَمِّ وَ فَتَنّٰکَ فُتُوْنًا } [31] ” اور تو نے ایک شخص کو مار ڈالا پھر ہم نے تجھ کو غم سے نجات دی اور جانچا تجھ کو معمولی جانچنا۔ “
اس مقام پر قرآن عظیم اور توراۃ کے بیانات میں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے : قرآن حکیم نے دوسرے دن کے جھگڑا کرنے والوں میں سے ایک کو عبرانی بتایا ہے اور دوسرے کو مصری (فرعونی) اور توراۃ دونوں کا عبرانی ہونا ظاہر کرتی ہے۔ 1 ؎ توراۃ میں اس شخص کا کوئی ذکر نہیں ہے جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعونیوں کے مشورہ کی اطلاع دی تھی۔ مگر ان دونوں باتوں کے متعلق (بلا لحاظ جانبداری) عقل اور فطرت اسی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ قرآن عزیز کی تفصیلات صحیح ہیں اور اسی پر یقین رکھنا ضروری ہے اس لیے کہ فرعون اور فرعونیوں کے نزدیک تو اسرائیلیوں کی جان کی کوئی وقعت ہی نہ تھی کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) جیسے شاہی خاندان میں رہنے والے شخص کے مقابلہ میں قصاص کے طالب ہوتے اور دوسری بات توراۃ کے بیان پر ایک فطری اضافہ ہے جو علم و یقین کے ساتھ کیا گیا۔
حضرت شعیب (علیہ السلام) کے واقعات میں ” مدین “ کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ حضرت موسیٰ نے جب مصر سے روانہ ہونے کا ارادہ کیا تو اسی جگہ کو منتخب فرمایا۔ مدین کی آبادی مصر سے آٹھ منزل پر واقع تھی۔ 2 ؎ غالباً یہ انتخاب اس لیے کیا گیا کہ یہ قبیلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے نزدیک کی قرابت رکھتا تھا اس لیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت اسحاق بن ابراہیم (علیہا السلام) کی نسل سے ہیں اور یہ قبیلہ اسحاق (علیہ السلام) کے بھائی مدین بن ابراہیم (علیہ السلام) کی نسل سے ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ فرعون کے خوف سے بھاگے تھے اس لیے ان کے ہمراہ نہ کوئی رفیق اور رہنما تھا اور نہ زاد راہ اور تیز روی کی وجہ سے برہنہ پا تھے۔ طبری بروایت سعید بن جبیر ؓ لکھتے ہیں کہ اس تمام سفر میں موسیٰ (علیہ السلام) کی خوراک درختوں کے پتوں کے علاوہ اور کچھ نہ تھی اور برہنہ پا ہونے کی وجہ سے سفر کی طوالت نے پاؤں کے تلووں کی کھال تک اڑا دی تھی ‘ اس پریشان حالی میں موسیٰ (علیہ السلام) ارض مدین میں داخل ہوئے۔ [32]
جب مدین کی سرزمین میں قدم رکھا تو دیکھا کہ کنوئیں کے سامنے پانی کے حوض (پیاؤ) پر بھیڑ لگی ہوئی ہے اور جانوروں کو پانی پلایا جارہا ہے مگر اس جماعت سے ذرا فاصلہ پر دو لڑکیاں کھڑی ہیں اور اپنے جانوروں کو پانی پر جانے سے روک رہی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سمجھ گئے کہ یہاں بھی وہی سب ہو رہا ہے جو دنیا کی ظالم طاقتوں نے اختیار کررکھا ہے اور خدائے برترکے بہترین قانون کو توڑ کر قوموں کا سارا نظام ظلم کی بنیادوں پر قائم کر دیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ لڑکیاں کمزور اور ضعیف گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں تب ہی تو اس انتظار میں ہیں کہ قوی اور سرکش جب اپنے جانوروں کو سیراب کر چکیں اور ہر وارد و صادر پانی پر سے چلا جائے تو بچا کچھا پانی ان کے جانوروں کا حصہ بنے ‘ ہر قوی نے ضعیف کے لیے یہی قانون تجویز کر دیا ہے کہ ہر فائدے میں وہ مقدم ہے اور ضعیف مؤخر اور قوی کا ” اوّلش خور “۔ عرب کا مشہور شاعر عمرو بن کلثوم کہتا ہے : و نشرب ان وردنا الماء صفواً و یشرب غیر نا کدرا و طیناً ” اور ہم جب کسی پانی پر آتے ہیں تو عمدہ اور صاف پانی ہمارے حصہ میں آتا ہے اور ہمارے غیروں کے (جو ہم سے کمزور ہیں) حصہ میں گدلا پانی اور مٹی ہے۔ “ در حقیقت یہ شعر تنہا عمرو بن کلثوم اور اس کے قبیلے کی حالت کا نقشہ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کے ظالمانہ نظام کا ٹھیک ٹھیک آئینہ دار ہے۔
بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ حالت نہ دیکھی گئی اور آگے بڑھ کر لڑکیوں سے دریافت کیا ” تم کیوں پانی نہیں پلاتیں ‘ پیچھے کس لیے کھڑی ہو ؟ “ دونوں نے جواب دیا ” ہم مجبور ہیں اگر جانوروں کو آگے لے کر بڑھتے ہیں تو یہ طاقتور زبردستی ہم کو پیچھے ہٹا دیتے ہیں اور ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں ان میں اب یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ ان کی مزاحمت کو دور کرسکیں پس جب یہ سب پانی پلا کر واپس ہوجائیں گے تب بچا ہوا پانی ہم پلا کر لوٹیں گے ‘ یہی ہمارا روز کا دستور ہے۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جوش آگیا اور آگے بڑھ کر تمام بھیڑ کو چیرتے ہوئے کنوئیں پر جا پہنچے اور کنوئیں کا بڑا ڈول اٹھایا اور تنہا کھینچ کر لڑکیوں کے مویشیوں کو پانی پلا دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب مجمع کو چیرتے ہوئے درانہ گھسنے لگے تو اگرچہ لوگوں کو ناگوار گذرا مگر ان کی پر جلال صورت اور جسمانی طاقت سے مرعوب ہو گئے اور ڈول کو تنہا کھینچتے دیکھ کر اسی قوت سے ہار مان گئے جس کے بل بوتے پر کمزوروں اور ناتوانوں کو پیچھے ہٹا دیا کرتے اور ان کی حاجات کو پامال کرتے رہتے تھے۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ کنوئیں کے منہ پر بہت بڑا پتھر ڈھکا ہوا ہے جو ایک جماعت کے متفقہ زورلگانے سے اپنی جگہ سے ہٹتا ہے مگر وہ آگے بڑھے اور تنہا اس کو ہٹا کر لڑکیوں کے مویشیوں کے لیے پانی بھر دیا۔ عبد الوہاب نجار کہتے ہیں کہ یہ قول قرآن حکیم کی تصریح کے خلاف ہے۔ قرآن کہتا ہے : { وَ لَمَّا ورَدَ مَآئَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ } [33] ” اور جب وہ مدین کے پانی پر پہنچے تو اس پر ایک جماعت کو دیکھا کہ وہ پانی پلا رہی ہے۔ “ تو پھر یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ کنوئیں کا منہ پتھر سے ڈھکا ہوا ہو اور جس طرح یہ قول صحیح نہیں ہے اسی طرح یہ تاویل بھی درست نہیں ہے کہ اس مقام پر دو کنوئیں تھے ایک سے مدین کے لوگ پانی پلا رہے تھے اور دوسرے کا منہ پتھر سے ڈھکا ہوا تھا اور یہ کہ اس زمانہ میں بھی اس مقام پر دو کنوئیں موجود پائے گئے ہیں۔ اس تاویل کے درست نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اول تو قرآن حکیم نے دوسرے کنوئیں کا قطعی کوئی ذکر نہیں کیا اور جو کچھ بیان کیا ہے ایک ہی سے متعلق بیان کیا ہے ‘ دوسرے بعد میں اس جگہ دو کنوئیں ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس وقت بھی وہاں اسی طرح دو کنوئیں موجود تھے۔ ہو سکتا ہے کہ عرصہ دراز کے بعد یا اسلامی عہد میں ضرورت کے لحاظ سے یہاں دوسرا کنواں تیار کیا گیا ہو۔ پس قرآن حکیم کے صاف اور سادہ بیان کو محض ایک غیر مستند روایت کی خاطر پیچیدہ بنانا قطعی بے محل اور غیر مناسب ہے۔
غرض جب ان لڑکیوں کے گلے نے پانی پی لیا تو وہ گھرکو واپس چلیں۔ گھر پہنچیں تو خلاف عادت جلد واپسی پر ان کے والد کو سخت تعجب ہوا۔ دریافت کرنے پر لڑکیوں نے گذرا ہوا ماجرا کہہ سنایا کہ کس طرح ایک ” مصری “ نے ان کی مدد کی۔ باپ نے کہا عجلت سے جاؤ اور اس کو میرے پاس لے کر آؤ۔ یہاں تو باپ بیٹی کے درمیان یہ گفتگو ہو رہی تھی اور ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پانی پلانے کے بعد قریب ہی ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ کر سستانے لگے ‘ مسافرت و غربت اور پھر بھوک ‘ پیاس ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی ” پروردگار اس وقت جو بھی بہترسامان میرے لیے تو اپنی قدرت سے نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں۔ “ لڑکی تیزی سے وہاں پہنچی تو دیکھا کہ کنوئیں کے قریب ہی وہ بیٹھے ہوئے ہیں۔ شرم و حیا کے ساتھ نیچی نظریں کیے لڑکی نے کہا ” آپ ہمارے گھر چلئے ‘ والد بلاتے ہیں ‘ وہ آپ کے اس احسان کا بدلہ دیں گے۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے سوچا کہ شاید اس سلسلہ میں کوئی بہتر صورت نکل آئے اس لیے چلنا ہی بہتر ہے اور اس کی دعوت کو رد کرنا مناسب نہیں خدا نے میری دعا سن لی اور یہ اسی کا پیش خیمہ ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اٹھ کھڑے ہوئے اور لڑکی کو ہدایت کی کہ وہ آگے نہ چلے بلکہ میرے پیچھے پیچھے چلے اور ٹھکری یا اشارے کے ساتھ راہ کی رہنمائی کرے۔ موسیٰ (علیہ السلام) چل تو پڑے لیکن طبعی اور فطری غیرت اور عزت نفس کے پیش نظر بار بار اس جملہ سے متاثر ہو رہے تھے ” میرا باپ تم کو اس محنت کا عوض دینا چاہتا ہے “ مگر مسافرت اور حالات کی نزاکت نے آخر یہی مشورہ دیا کہ اس وقت اس گرانی کو بھی انگیز کرلو تاکہ اس غربت میں ایک غمخوار اور مونس و ہمدم کی مستقل ہمدردی کو حاصل کیا جاسکے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چلتے چلتے منزل مقصود پر پہنچے اور اس بزرگ صورت و سیرت انسان کی خدمت میں حاضر ہو کر شرف ملاقات سے بہرہ اندوز ہوئے۔ بزرگ نے پہلے کھانا کھلایا اور پھر اطمینان کے ساتھ بٹھا کر ان کے حالات سنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے من و عن اپنی ولادت اور فرعون کے بنی اسرائیل پر مظالم سے شروع کر کے آخر تک ساری داستان کہہ سنائی سب کچھ سننے کے بعد بزرگ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تسلی دی اور فرمایا کہ خدا کا شکر کرو کہ اب تم کو ظالموں کے پنجہ سے نجات مل گئی اب کوئی خوف کا مقام نہیں ہے۔
یہاں قوم ظالمین کے ظلم سے بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل اور ان کی غلامی و تباہ حالی کے واقعات ہی مراد ہو سکتے ہیں نیز ان کا کفر اور فساد فی الارض ‘ ورنہ قبطی کے قتل میں تو خود موسیٰ (علیہ السلام) بھی اپنے فعل پر نادم تھے اور خود کو قصوروار سمجھتے تھے۔ { وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآئَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰی رَبٍّیْٓ اَنْ یَّھْدِیَنِیْ سَوَآئَ السَّبِیْلِ وَ لَمَّا وَرَدَ مَآئَ مَدْیَنَ وَجَدَ عَلَیْہِ اُمَّۃً مِّنَ النَّاسِ یَسْقُوْنَ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِھِمُ امْرَاَتَیْنِ تَذُوْدٰنِج قَالَ مَا خَطْبُکُمَا قَالَتَ لَا نَسْقِیْ حَتّٰی یُصْدِرَ الرِّعَآئُ وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ فَسَقٰی لَھُمَا ثُمَّ تَوَلّٰیٓ اِلَی الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ فَجَآئَتْہُ اِحْدٰھُمَا تَمْشِیْ عَلَی اسْتِحْیَآئٍ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْکَ لِیَجْزِیَکَ اَجْرَمَا سَقَیْتَ لَنَاط فَلَمَّا جَآئَہٗ وَ قَصَّ عَلَیْہِ الْقَصَصَ قَالَ لَا تَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ } [34] ” اور جب منہ کیا مدین کی سیدھ پر ‘ بولا امید ہے کہ میرا رب لے جائے مجھ کو سیدھی راہ پر اور جب پہنچا مدین کے پانی پر ‘ پایا وہاں ایک جماعت کو لوگوں کی پانی پلاتے ہوئے اور پایا ان سے ورے دو عورتوں کو کہ روکے ہوئے کھڑی تھیں اپنی بکریاں ‘ بولا تمھارا کیا حال ہے ؟ بولیں ہم نہیں پلاتیں پانی چرواہوں کے پھیر لے جانے تک اور ہمارا باپ بوڑھا ہے بڑی عمر کا پھر اس نے پانی پلا دیا ان کے جانوروں کو پھر ہٹ کر آیا چھاؤں کی طرف ‘ بولا اے رب تو جو چیز اتارے میری طرف اچھی ‘ میں اس کا محتاج ہوں۔ پھر آئی اس کے پاس ان دونوں میں سے ایک ‘ چلتی تھی شرم سے ‘ بولی میرا باپ تجھ کو بلاتا ہے کہ بدلے میں دے حق اس کا کہ تو نے پانی پلا دیا ہمارے جانوروں کو پھر جب پہنچا اس کے پاس اور بیان کیا اس سے احوال ‘ کہا مت ڈر بچ آیا تو اس قوم بے انصاف سے۔ “ توراۃ میں اس واقعہ پر بھی دو جگہ اختلاف موجود ہے : وہ لڑکیوں کی تعداد دو کی جگہ سات بتاتی ہے۔ اس کا بیان ہے کہ لڑکیوں نے حوض کو پانی سے بھر لیا تھا مگر دوسرے لوگوں نے زبردستی ان کو ہٹا کر اپنے جانوروں کو پانی پلانا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو غصہ آیا۔ ہم کو اس موقع پر بھی قرآن عزیز کے بیان پر ہی بھروسا کرنا چاہیے۔ اول اس لیے کہ سابق اختلافات میں قرآن عزیز کے بیانات کی روش عقل اور فطرت کے مطابق رہی ہے۔ دوسرے اس لیے کہ اس جگہ بھی تعداد کے معاملہ سے قطع نظر توراۃ کی دوسری بات اس لیے صحیح نہیں معلوم ہوتی کہ لڑکیاں مدین ہی کے قبیلہ اور ان ہی کی بستی کی ساکن تھیں اور پانی کا معاملہ روزانہ ہی ان کے ساتھ پیش آتا رہتا تھا ‘ لہٰذا ان کو یہ معلوم تھا کہ یہ قوی گروہ کسی حالت میں بھی ہم کو پیش قدمی نہیں کرنے دے گا اور عرب کے شعرا کے کلام سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کے معاملہ میں خصوصیت کے ساتھ ان کے یہاں قوی کو ضعیف پر ترجیح حاصل تھی اور عرب کے ماسواء دنیا کے ہر گوشہ میں یہی حال تھا ‘ تو وہ کیسے اس اقدام کی جرأت کرسکتی تھیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ وہ ضعیف گھرانے کی فرد ہونے اور پھر عورت ہونے کی وجہ سے اسی پر اکتفا کرتی تھیں کہ جب سب پانی پلا کر واپس ہوجائیں تو بچے ہوئے پانی سے یہ فائدہ اٹھالیں اور بس۔ رہا لڑکیوں کی تعداد کا معاملہ سو ابن کثیر ؒ نے ہر دو اقوال کی مطابقت کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ مدین کے اس بزرگ کے سات لڑکیاں ہوں جیسا کہ توراۃ میں مذکور ہے مگر مدین کے پانی پر جو واقعہ پیش آیا اس میں صرف دو لڑکیاں ہی موجود تھیں جیسا کہ قرآن حکیم کی تصریح سے ظاہر ہوتا ہے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور قبیلہ مدین کے بزرگ میزبان کے درمیان یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ اس لڑکی نے جو موسیٰ (علیہ السلام) کو بلانے گئی تھی اپنے باپ سے کہا کہ ” اے باپ آپ اس مہمان کو اپنے مویشیوں کے چرانے اور پانی مہیا کرنے کے لیے اجیر رکھ لیجئے ‘ اجیر وہی بہتر ہے جو قوی بھی ہو اور امانت دار بھی۔ “ مفسرین کہتے ہیں کہ باپ کو لڑکی کی یہ گفتگو عجیب سی معلوم ہوئی اور اس نے دریافت کیا ” تجھ کو اس مہمان کی قوت و امانت کا حال کیا معلوم ؟ “ لڑکی نے جواب دیا ” میں نے مہمان کی قوت کا اندازہ تو اس سے کیا کہ کنوئیں کا بڑا ڈول (چرس) اس نے تنہا بھر کر کھینچ لیا اور امانت کی آزمائش اس طرح کی کہ جب میں اس کو بلانے گئی تو اس نے مجھے دیکھ کر نظریں نیچی کر لیں ‘ اور گفتگو کے دوران میں ایک مرتبہ بھی میری طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھا اور جب یہاں آنے لگا تو مجھ کو پیچھے چلنے کو کہا اور خود آگے آگے چلا اور صرف اشاروں سے میں اس کی رہنمائی کرتی رہی۔ [35] بزرگ باپ نے بیٹی کی ان باتوں کو سنا تو بہت مسرور ہوئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم آٹھ سال تک میرے پاس رہو اور میری بکریاں چراؤ تو میں اس بیٹی کی شادی کرنے کو تیار ہوں اور اگر تم اس مدت کو دو سال بڑھا کر دس سال کر دو تو اور بھی بہتر ہے یہی اس لڑکی کا مہر ہوگا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شرط کو منظور کر لیا اور فرمایا کہ یہ میری خوشی پر چھوڑئیے کہ میں ان دونوں مدتوں میں سے جس کو چاہوں پورا کر دوں ‘ آپ کی جانب سے مجھ پر اس بارے میں کوئی جبر نہ ہوگا۔ طرفین کی اس باہمی رضامندی کے بعد بزرگ میزبان نے اس بیان کردہ مدت کو مہر قرار دے کر موسیٰ (علیہ السلام) سے اپنی اس بیٹی کی شادی کردی۔
اور بعض مفسرین کا خیال ہے کہ مدت ختم ہونے پر ” عقد “ عمل میں آیا اور عقد کے فوراً بعد ہی موسیٰ (علیہ السلام) اپنی بیوی کو لے کر روانہ ہو گئے مفسرین نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بیوی کا نام ” صفورہ “ بتایا ہے۔ 1 ؎
بائبل میں بھی یہی نام مذکور ہے۔ [36] { قَالَتْ اِحْدٰھُمَا یٰٓاَبَتِ اسْتَاْجِرْہُ اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ھٰتَیْنِ عَلٰٓی اَنْ تَاْجُرَنِیْ ثَمٰنِیَ حِجَجٍ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِکَ وَ مَآ اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْکَ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ قَالَ ذٰلِکَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَکَ اَیَّمَا الْاَجَلَیْنِ قَضَیْتُ فَـلَا عُدْوَانَ عَلَیَّ وَ اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُوْلُ وَکِیْلٌ } [37] ” بولی ان دونوں میں سے ایک اے باپ اس کو نوکر رکھ لے ‘ البتہ بہتر نوکر جس کو تونوکر رکھنا چاہے وہ ہے جو زور آور ہو ‘ امانت دار ‘ کہا میں چاہتا ہوں کہ بیاہ دوں تجھ کو ایک بیٹی اپنی ان دونوں میں سے اس شرط پر کہ تو میری نوکری کرے آٹھ برس پھر اگر تو پورے کر دے دس برس تو وہ تیری طرف سے ہے اور میں نہیں چاہتا کہ تجھ پر تکلیف ڈالوں تو پائے گا مجھ کو اگر اللہ نے چاہا نیک بختوں سے ‘ بولا یہ وعدہ ہو چکا میرے اور تیرے بیچ جونسی مدت ان دونوں میں سے پوری کر دوں سو زیادتی نہ ہو مجھ پر اور اللہ پر بھروسا ہے اس چیز کا جو ہم کہتے ہیں۔ “ { فَلَبِثْتَ سِنِیْنَ فِیْٓ اَھْلِ مَدْیَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلٰی قَدَرٍ یّٰمُوْسٰی وَ اصْطَنَعْتُکَ لِنَفْسِیْ } [38] ” پھر تونے مدین میں چند سال قیام کیا پھر تو اے موسیٰ مقررہ اندازہ پر پورا اتر آیا اور میں نے تجھ کو اپنے لیے (اپنے خاص کام کے لیے) بنایا ہے۔ “
قرآن عزیز نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور مدین کے شیخ کے متعلق جو واقعات بیان کیے ہیں ان میں کسی ایک جگہ بھی اس شیخ کا نام نہیں بتایا اس لیے تاریخی حیثیت سے شیخ مدین کے نام میں مورخین و مفسرین کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں : مفسرین ‘ اصحاب سیر اور ادبا عرب کی ایک بڑی جماعت کا یہ خیال ہے کہ یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) ہیں یہ قول بہت مشہور اور شائع ذائع ہے۔ مشہور مفسر امام ابن جریر طبری نے حسن بصری ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے ” لوگ کہتے ہیں کہ صاحب موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) ہیں۔ “ [39] اور حافظ عمادالدین ابن کثیر فرماتے ہیں کہ حسن بصری ؓ اسی طرف مائل ہیں کہ مدین کے شیخ حضرت شعیب (علیہ السلام) ہیں اور فرماتے ہیں کہ ابن ابی حاتم نے سلسلہ سند کے ساتھ مالک بن انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ ان کو یہ بات پہنچی ہے کہ صاحب موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) ہیں۔ [40] ایک جماعت کہتی ہے کہ شیخ کا نام یثرون تھا اور یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے طبری نے سند کے ساتھ ایک روایت نقل کی ہے کہ ابو عبیدہ فرماتے تھے جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اجیر بنایا وہ شعیب (علیہ السلام) کا برادرزادہ یثرون تھا۔ [41] " بعض کہتے ہیں کہ صاحب موسیٰ (علیہ السلام) کا نام ” یثری “ تھا طبری نے سند کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو اجیر رکھنے والا مدین کا شیخ ” یثری “ نامی تھا اور اسی روایت کے دوسرے الفاظ یہ ہیں ” عورت کے والد کا نام ” یثری “ تھا “ مگر یثری والی روایت میں یہ نہیں کہا گیا کہ وہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا برادرزادہ تھا۔ 1 ؎ اور توراۃ نے اسی سے ملتا جلتا نام ” یثرو “ (یترو) بتایا ہے۔ بعض علما فرماتے ہیں کہ یہ ” شیخ “ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا ایک ” مرد مومن “ تھا۔
ایک جماعت کا گمان ہے کہ یہ ” شیخ “ نہ شعیب (علیہ السلام) ہو سکتے ہیں اور نہ ان کے بھتیجے ‘ اس لیے کہ قرآن عزیز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کا زمانہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے بہت پہلے کا زمانہ ہے جس کے درمیان میں صدیاں ہیں قرآن حکیم کہتا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : { وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ } [42] ” اور قوم لوط (کا معاملہ) تم سے کچھ دور نہیں ہے۔ “ یہ ظاہر ہے کہ قوم لوط کی ہلاکت کا زمانہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا زمانہ ہے اور ان کے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کی درمیانی مدت چار سو سال سے بھی زیادہ ہے اور جن لوگوں نے اس مدت کو قریب کردینے کے لیے یہ کہا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی عمر غیر معمولی طور پر طویل ہوئی تو یہ دعویٰ بلادلیل ہے۔ [43] اس قول کی تائید کے لیے یہ دلیل بھی قوت رکھتی ہے کہ اگر ” صاحبِ موسیٰ “ شعیب (علیہ السلام) ہوتے تو قرآن عزیز ضرور ان کے نام کی تصریح کرتا اور اس طرح مجمل و مبہم نہ چھوڑتا۔ [44] ان مختلف پانچ اقوال کی نقل کے بعد ہمارے نزدیک راجح اور صحیح مسلک وہی معلوم ہوتا ہے جو ابن جریر اور ابن کثیر جیسے جلیل القدر محدثین و مفسرین نے اختیار کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ نام کی تصریح کے بارے میں کوئی روایت صحت کو نہیں پہنچتی اور جو روایات نقل کی گئی ہیں وہ قابل احتجاج نہیں ہیں اس لیے جس طرح تصریح کیے بغیر قرآن عزیز نے ان کا ذکر کیا ہے اسی طرح ہم بھی ان کے نام کی تصریح کو خدا کے علم کے حوالہ کر دیں ابن کثیر کی عبارت یہ ہے : ( (قال ابو جعفر (الطبری) و ھذا مما لا یدرک علمہ الا بخبر ولا خبر بذالک تجب حجۃ فلا قول فی ذلک اولی بالصواب مما قالہ اللہ جل ثناہ الخ)) [45] ” ابو جعفر طبری نے کہا ہے کہ نام کی تصریح کا یہ معاملہ خبر اور اطلاع کے بغیر طے نہیں ہو سکتا اور اس سلسلہ میں کوئی خبر (روایت) ایسی موجود نہیں ہے جو حجت اور دلیل بن سکے پس سب سے بہتر قول اس سلسلہ میں وہی ہے جو قرآن میں اللہ جل شانہ نے اختیار فرمایا (یعنی سکوت) “ ابن جریر کا اشارہ قرآن عزیز کے اس جملہ کی جانب ہے وَاَبُوِنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ عبد الوہاب نجار فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک بڑے فاضل عالم نے یہ بحث کی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جلیل القدر نبی تھے اس لیے ان کو کوئی معمولی شخص اپنا اجیر رکھنے کا حوصلہ نہیں کرسکتا اور نہ وہ اس کو منظور فرماتے بلکہ ان کا مستاجر نبی اور پیغمبر ہی ہو سکتا ہے اس لیے مدین کے ” شیخ کبیر “ حضرت شعیب (علیہ السلام) ہی ہو سکتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کا یہ ارشاد نہ عقلی حجت وبرہان کی حیثیت رکھتا ہے اور نہ نقلی دلیل و حجت کی ‘ زیادہ سے زیادہ استحسان کے درجہ کا قیاس ہے اور اس سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ یہ یقین اور قطعیت کو چاہتا ہے علاوہ ازیں اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نبی نہ تھے نبوت سے بعد میں سرفراز کیے گئے۔ [46] بہرحال یہ طے شدہ امر ہے کہ ” شیخ کبیر “ کے نام کی تصریح میں کوئی قابل حجت روایت موجود نہیں ہے اور ابن جریر اور ابن کثیر نے ” وفائے مدت “ کے سلسلہ میں بھی جس قدر روایات نقل کی ہیں ان میں بھی بزار اور ابن ابی حاتم کی طویل روایات کے علاوہ کسی میں بھی نام کا ذکر موجود نہیں ہے اور ان دونوں روایات کی اس ” زیادت “ کے بارہ میں ابن کثیر فرماتے ہیں : [47] [48] ” اس (نام کی تصریح والی) حدیث کا مدارابن لہیعہ مصری پر ہے اور اس کا حافظہ خراب تھا اور مجھے خوف ہے کہ اس حدیث کو مرفوع کہنے میں غلطی ہوئی ہے۔ “ اور ابن جریر فرماتے ہیں : [49][50] ” نیز اسی طرح عتبہ بن منذر سے روایت کی گئی ہے (مگر ) ایک یقینی نادر اور غیر معروف زیادت کے ساتھ (وہ زیادت یہی نام کی صراحت ہے) “
ایک روز حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے اہل و عیال سمیت بکریاں چراتے چراتے مدین سے بہت دور نکل گئے گلہ بان قبائل کے لیے یہ بات کوئی قابل تعجب نہ تھی مگر رات ٹھنڈی تھی اس لیے سردی آگ کی جستجو پر مجبور کر رہی تھی سامنے کوہ سینا کا سلسلہ نظر آرہا تھا یہ سینا کا مشرقی گوشہ تھا اور مدین سے ایک روز کے فاصلہ پر بحر قلزم کے دو شاخے کے درمیان مصر کو جاتے ہوئے واقع تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چقماق استعمال کیا مگر سخت خنکی تھی اس نے کام نہ دیا ‘ سامنے کی وادی (وادی ایمن ) میں نگاہ دوڑائی تو ایک شعلہ چمکتا ہوا نظر پڑا ‘ بیوی سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو میں آگ لے آؤں تاپنے کا بھی انتظام ہوجائے گا اور اگر وہاں کوئی رہبر مل گیا تو بھٹکی ہوئی راہ کا بھی کھوج لگ جائے گا۔ { اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًی }[60] ” پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بیوی سے کہا تم یہاں ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے شاید اس میں سے کوئی چنگاری تمھارے لیے لا سکوں یا وہاں الاؤ پر کسی رہبر کو پا سکوں۔ “
خدا کے فضل کا موسیٰ سے پوچھیے احوال کہ آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ عجیب آگ ہے درخت پر روشنی نظر آتی ہے مگر نہ درخت کو جلاتی ہے اور نہ گل ہی ہوجاتی ہے یہ سوچتے ہوئے آگے بڑھے لیکن جوں جوں آگے بڑھتے جاتے تھے آگ اور دور ہوتی جاتی تھی یہ دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) کو خوف سا پیدا ہوا اور انھوں نے ارادہ کیا کہ واپس ہوجائیں جوں ہی وہ پلٹنے لگے آگ قریب آگئی اور قریب ہوئے تو سنا کہ یہ آواز آرہی ہے : { یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ } [61] ” اے موسیٰ میں ہوں اللہ ‘ پروردگار جہانوں کا “ { فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ یٰمُوْسٰی اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی وَ اَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی } [62] ” پس جب موسیٰ اس (آگ) کے قریب آئے تو پکارے گئے اے موسیٰ میں ہوں تیرا پروردگار پس اپنی جوتی اتار دے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ میں نے تجھ کو اپنی رسالت کے لیے چن لیا ہے پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اس کو کان لگا کر سن۔ “ قرآن عزیز کی سابق آیت اور ان آیات کے پیش نظر دو باتیں کتب تفسیر میں زیر بحث لائی جاتی ہیں : موسیٰ (علیہ السلام) نے جس روشنی کو آگ سمجھا تھا وہ آگ نہ تھی بلکہ تجلی الٰہی کا نور تھا لیکن جو آواز اس پر دہ نور سے سنی گئی وہ فرشتے کی آواز تھی اور اس کے واسطہ سے خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہم کلامی بخشایا خود اللہ تعالیٰ کی ندا تھی ؟ بعض مفسرین کہتے ہیں یہ فرشتے کی آواز تھی اور اس کے واسطہ سے موسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کی ہم کلامی کا شرف حاصل ہوا ‘ یہ خدا کی آواز نہ تھی اس لیے کہ قول اور ا لحن نے آواز نے اور ارباب تحقیق کی رائے یہ ہے کہ یہ براہ راست ندائے الٰہی تھی اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو کسی واسطہ سے بھی نہیں سنا بلکہ اسی طرح سنا جس طرح پیغمبر ان خدا وحی الٰہی کو سنتے اور مِنْ وَّرَائِ حِجَابٍ اس سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرتے ہیں۔ [63]
وادی مقدس میں موسیٰ (علیہ السلام) کو جوتی اتارنے کا حکم دیا گیا حالانکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) مساجد میں جوتیوں سمیت نماز ادا کیا کرتے تھے اور آج امت کے لیے بھی یہی اسلامی مسئلہ ہے کہ اگر جوتیاں پاک ہوں تو ان سے بے تامل نماز پڑھنا درست ہے تو پھر اس جگہ موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ کیوں کہا گیا کہ ” یہ وادی مقدس ہے لہٰذا جوتی اتارو “ تو اس کا جواب صحیح حدیث میں موجود ہے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اس کی وجہ بیان فرمائی ہے : [64][65] ” (موسیٰ (علیہ السلام) کی) جوتیاں مردہ گدھے کی کھال سے بنائی گئی تھیں (یعنی غیر مدبوغ تھیں اس لیے طاہر نہ تھیں) “ بہرحال اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدائے تعالیٰ کے پیغمبر اور جلیل القدر رسول ہیں ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو انبیا کے سچے دین کی تلقین اور فرعون کی غلامی سے بنی اسرائیل کی رہائی کی اہم خدمات کے لیے چن لیا ہے وہ اب وادی مقدس میں حق تعالیٰ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کر رہے ہیں ‘ وہ موسیٰ (علیہ السلام) جو مدین کی راہ سے بھٹکے ہوئے تھے آج مصر جیسے متمدن و مہذب ملک اور اس کے سرکش و مغرور بادشاہ کی رہنمائی کرنے کے لیے منتخب کیے گئے ہیں اور جو کل تک اونٹوں اور بکریوں کی گلہ بانی کر رہے تھے آج انسانوں کی قیادت کے فرض کو انجام دینے کے لیے چنے گئے ہیں اور جو نصاب زندگی کل بکریوں کے گلہ کی چرائی سے شروع ہوا تھا وہ آج وادی مقدس میں خدا کی بہترین مخلوق حضرت انسان کی گلہ بانی پر تکمیل کو پہنچ رہا ہے اور کل کا گلہ بان آج جہاں بان بن رہا ہے۔ خدائے تعالیٰ کے ید قدرت کی یہی کرشمہ سازیاں ہیں جو زبان سے انکار کرنے والوں کے دلوں میں بھی اقرار کا کانٹا چبھوئے رکھتی ہیں ‘ کجا خانہ بدوش چرواہا اور کجا متمدن حکومتوں کے لیے خدا کی صداقت کی پیغامبری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ کی اس آواز کو سنا اور ان کو یہ معلوم ہوا کہ آج ان کے نصیب میں وہ دولت آگئی ہے جو انسانی شرافت کا طغرائے امتیاز اور اللہ کی موہبت کا آخری نشان ہے تو پھولے نہ سمائے اور والہانہ فریفتگی میں مثل مورت حیران کھڑے رہ گئے ‘ آخر پھر اسی جانب سے ابتدا ہوئی اور پوچھا گیا :
” | { وَ مَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی } [66]
موسیٰ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے ؟ “ بس پھر کیا تھا محبوب حقیقی کا سوال عاشق صادق سے ع یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے وارفتگی عشق میں یہ بھی خیال نہ رہا کہ سوال کے پیمانہ ہی پر جواب کو تولا جائے اور جو کچھ پوچھا گیا ہے صرف اسی قدر جواب دیا جائے ‘ بولے : { ھِیَ عَصَایَ اَتَوَکَّؤُا عَلَیْھَا وَ اَھُشُّ بِھَا عَلٰی غَنَمِیْ } [67] ” یہ میری لاٹھی ہے ‘ اس پر (بکریاں چراتے وقت) سہارا لیا کرتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لیے پتے جھاڑ لیتا ہوں۔ “ |
“ |
جواب میں صرف یہ کہنا چاہیے تھا ” عصا “ مگر محبت کے اس ولولہ کو کیسے روکیں جو محبوب کے ساتھ ہم کلامی کے شرف کو طول دے کر سوختہ جانی کے سامان مہیا کرنا چاہتا ہے ‘ کہتے ہیں کہ یہ میری لاٹھی ہے اور اس کے فوائد بیان کرنے لگتے ہیں مگر یکایک جذبہ شوق کی جگہ محبوب حقیقی کا پاس ادب دل میں چٹکی لیتا ہے موسیٰ خبردار کس دربار میں کھڑے ہو ‘ کہیں یہ طول بیانی گستاخی اور بے ادبی میں نہ شمار ہوجائے موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ سوچ کر فوراً پہلو بدلا اور جناب باری میں عرض کی : { وَ لِیَ فِیْھَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی } [68] ” اور میرے لیے اس سے متعلق اور ضروریات بھی ہیں۔ “ اب اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا { اَلْقِھَا یٰمُوْسٰی } [69] ” موسیٰ اپنی اس لاٹھی کو زمین پر ڈال دو۔ “ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس ارشاد عالی کی تعمیل کی : { فَاَلْقٰھَا فَاِذَا ھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی } [70] ” موسیٰ نے لاٹھی کو زمین پر ڈال دیا پس ناگاہ وہ اژدہا بن کر دوڑنے لگا۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ حیرت زا واقعہ دیکھا تو گھبرا گئے اور بشریت کے تقاضے سے متاثر ہو کر بھاگنے لگے پیٹھ پھیر کر بھاگے ہی تھے کہ آواز آئی : { خُذْھَا وَلَاتَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الْاُوْلٰی } [71] ” (اللہ تعالیٰ نے فرمایا موسیٰ ) اس کو پکڑلو اور خوف نہ کھاؤ ہم اس کو اس کی اصل حالت پر لوٹا دیں گے۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لکڑی دو شاخہ تھی اب وہی دو شاخہ اژد ہے کا منہ نظر آ رہا تھا سخت پریشان تھے مگر قربت الٰہی نے طمانیت و سکون کی حالت پیدا کردی اور انھوں نے بے خوف ہو کر اس کے منہ پر ہاتھ ڈال دیا اس عمل کے ساتھ ہی فوراً وہ دو شاخہ پھر لاٹھی بن گیا۔ اب موسیٰ (علیہ السلام) کو دوبارہ پکارا گیا اور حکم ہوا کہ اپنے ہاتھ کو گریبان کے اندر لے جا کر بغل سے مس کیجئے اور پھر دیکھیے وہ مرض سے پاک اور بے داغ چمکتا ہوا نکلے گا۔ { وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ اٰیَۃً اُخْرٰی } [72] ” اور ملا دے اپنے ہاتھ کو اپنی بغل کے ساتھ ‘ نکل آئے گا وہ روشن بغیر کسی مرض کے (یعنی برص سے پاک) یہ دوسری نشانی ہے۔ “ موسیٰ یہ ہماری جانب سے تمھاری نبوت و رسالت کے دو بڑے نشان ہیں یہ تمھارے پیغام صداقت اور دلائل وبراہین حق کی زبردست تائید کریں پس جس طرح ہم نے تم کو نبوت و رسالت سے نوازا اسی طرح تم کو یہ دو عظیم الشان نشان (معجزے) بھی عطا کیے۔ { لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْکُبْرٰی } (سورہ طٰہ : 2٠/23) ” ہم تجھ کو اپنی بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرا دیں۔ “ { فَذٰنِکَ بُرْھَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِہٖ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ } [73] ” پس تیرے پروردگار کی جانب سے فرعون اور اس کی جماعت کے مقابلہ میں تیرے لیے یہ دو برہان ہیں بلاشبہ فرعون اور اس کی جماعت نافرمان قوم ہیں۔ “ اب جاؤ اور فرعون اور اس کی قوم کو راہ ہدایت دکھاؤ انھوں نے بہت سرکشی اور نافرمانی اختیار کر رکھی ہے اور اپنے غرور وتکبر اور انتہائی ظلم کے ساتھ انھوں نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے سو ان کو غلامی سے دستگاری دلاؤ۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جناب باری میں عرض کیا ” پروردگار میرے ہاتھ سے ایک مصری قتل ہو گیا تھا اس لیے یہ خوف ہے کہ کہیں وہ مجھ کو قتل نہ کر دیں مجھے یہ بھی خیال ہے کہ وہ میری بڑی زور سے تکذیب کریں گے اور مجھ کو جھٹلائیں گے یہ منصب عالی جب تو نے عطا فرمایا ہے تو میرے سینہ کو فراخ اور نور سے معمور کر دے اور اس اہم خدمت کو میرے لیے آسان بنا دے اور زبان میں پڑی ہوئی گرہ کو کھول دے تاکہ لوگوں کو میری بات سمجھنے میں آسانی ہو اور چونکہ میری گفتگو میں روانی نہیں ہے اور میری بنسبت میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح بیان ہے اس لیے اس کو بھی اس نعمت (نبوت) سے نواز کر میرا شریک بنا دے۔ “ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اطمینان دلایا کہ تم ہمارا پیغام لے کر ضرور جاؤ اور ان کو حق کی راہ دکھاؤ وہ تمھارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ہماری مدد تمھارے ساتھ ہے اور جو نشانات ہم نے تم کو بخشے ہیں وہ تمھاری کامیابی کا باعث ہوں گے اور انجام کار تم ہی غالب رہو گے ہم تمھاری درخواست منظور کرتے ہیں اور تمھارے بھائی ہارون ((علیہ السلام)) کو بھی تمھارا شریک کار بناتے ہیں دیکھو تم دونوں فرعون اور اس کی قوم کو جب ہماری صحیح راہ کی جانب بلاؤ تو اس پیغام حق میں نرمی اور شیریں کلامی سے پیش آنا ‘ کیا عجب ہے کہ وہ نصیحت قبول کر لیں اور خوف خدا کرتے ہوئے ظلم سے باز آجائیں۔
سدی کہتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) منصب نبوت سے سرفراز ہو کر کلام ربانی سے فیضیاب بن کر اور دعوت و تبلیغ حق میں کامیابی و کامرانی کا مژدہ پا کر وادی مقدس سے اترے تو اپنی بیوی کے پاس پہنچے جو وادی کے سامنے جنگل میں ان کی منتظر اور چشم براہ تھیں ان کو ساتھ لیا اور یہیں سے تعمیل حکم الٰہی کے لیے مصر روانہ ہو گئے منزلیں طے کرتے ہوئے جب مصر پہنچے تو رات ہو گئی تھی خاموشی کے ساتھ مصر میں داخل ہو کر اپنے مکان پر پہنچے مگر اندر داخل نہ ہوئے اور والدہ کے سامنے ایک مسافر کی حیثیت میں ظاہر ہوئے یہ بنی اسرائیل میں مہماں نواز گھر تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خوب خاطر مدارات کی گئی اسی دوران میں ان کے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) آپہنچے یہاں پہنچنے سے قبل ہی ہارون (علیہ السلام) کو خدا کی طرف سے منصب رسالت عطا ہو چکا تھا اس لیے ان کو بذریعہ وحی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سارا قصہ بتادیا گیا تھا وہ بھائی سے آ کر لپٹ گئے اور پھر ان کے اہل و عیال کو گھر کے اندر لے گئے اور والدہ کو سارا حال سنایا تب سب خاندان آپس میں گلے ملا اور بچھڑے ہوئے بھائیوں نے ایک دوسرے کی گذشتہ زندگی سے تعارف پیدا کیا اور والدہ کی دونوں آنکھوں نے ٹھنڈک حاصل کی۔ [74] توراۃ میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے : ” اور خداوند نے ہارون کو کہا کہ بیابان میں جا کے ملاقات کر ‘ وہ گیا اور خدا کے پہاڑ پر اسے ملا اور اسے بوسہ دیا اور موسیٰ نے خدا کی جس نے اسے بھیجا ساری باتیں اور معجزے کہ جن کا اس نے حکم کیا تھا ہارون سے بیان کیے۔ “ [75] وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وادی مقدس میں خدائے تعالیٰ کی جناب میں عرض کیا تھا کہ میری زبان میں جو گرہ ہے اس کو کھول دے اور یہ کہ میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصیح ہے۔
مفسرین نے اس ” عقدہ “ کے متعلق ایک حکایت نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) زمانہ طفولیت میں ایک روز فرعون کی آغوش میں بیٹھے ہوئے تھے اور فرعون کی داڑھی جواہرات اور موتیوں سے مرصع تھی بچوں کی عادت کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے داڑھی پر ہاتھ چلا دیا اور چمکتے ہوئے موتیوں کے ساتھ فرعون کی داڑھی کے چند بال بھی اکھڑ آئے فرعون کو سخت غصہ آیا اور چاہا کہ ان کو قتل کرا دے زوجہ فرعون نے شوہر کا یہ رنگ دیکھا تو عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ بچہ ہے اس کو نہ مارو ‘ یہ ان احترامات سے کیا واقف ہے اس کے نزدیک تو تمرہ (کھجور) اور جمرہ (چنگاری) دونوں برابر ہیں ” راج ہٹ “ پرانی مثل ہے بادشاہ نے کہا کہ میں ابھی اس کا امتحان کرتا ہوں اگر اس نے انگارہ کو دیکھ کر ہاتھ کھینچا تو ضرور قتل کرادوں گا خدائے تعالیٰ کو موسیٰ (علیہ السلام) سے کام لینا تھا اس لیے ان کی حفاظت کی ذمہ داری کا وعدہ کر لیا تھا لہٰذا جب فرعون نے چند کھجوروں کے دانے اور چند دہکتی آگ کے سرخ انگارے منگا کر موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے رکھے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے جلد ہاتھ بڑھا کر ایک سرخ انگارے کو اٹھا کر منہ میں رکھ لیا سیکنڈ بھر کا کام تھا ہو گذرا مگر زبان پر داغ پڑ گیا اور زبان موٹی ہو گئی اس وقت سے موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان میں لکنت آگئی اور مسلسل گفتگو میں رکاوٹ ہونے لگی پس وادی مقدس میں خدائے تعالیٰ کے سامنے موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی ” عقدہ “ (گرہ) کا ذکر کیا 1 ؎ لیکن عام مفسرین کی اس نقل حکایت سے جدا نجار مصری نے اس سلسلہ میں اپنی ایک قیاسی رائے بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں : میں اس قصہ کو صحیح نہیں سمجھتا میرے خیال میں تو صرف موسیٰ (علیہ السلام) کی غیر فصیح بیانی اور گفتگو میں رکاوٹ کی دو وجہوں میں سے ایک ہو سکتی ہے : قرآن عزیز میں مذکور ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کو دریائے نیل میں سے نکال کر شاہی محل پہنچایا گیا تو دودھ پلانے کے لیے دایہ کی فکر ہوئی شہر کی بیسیوں دایہ آئیں مگر انھوں نے کسی کا دودھ منہ سے نہ لگایا تو اس واقعہ میں ضرور عرصہ لگا ہوگا اور موسیٰ (علیہ السلام) ایک عرصہ دودھ سے محروم رہے ہوں گے ایسی حالت میں یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ بچہ کی زبان موٹی ہوجاتی ہے اور بات کرنے میں رکاوٹ کا مرض پیدا ہوجاتا ہے۔ لہٰذا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی یہی صورت پیش آئی ہوگی۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ابتدائے جوانی ہی میں مصر سے مدین چلے گئے اور وہاں ایک طویل عرصہ رہے اگر ” صاحب معالم التنزیل “ یا توراۃ کی روایات کو صحیح مان لیا جائے تو بیس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ ہوتا ہے ایسی صورت میں یہ قدرتی بات ہے کہ وہ مصری زبان سے ایک حد تک نا آشنا اور اس کے محاورات اور اس زبان میں تقریر کے ملکہ سے محروم ہو چکے ہوں گے اسی کو انھوں نے ” عقدہ لسانی “ فرمایا اور ہارون (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا ” ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ “ اس دوسری وجہ میں البتہ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اگر اس کو صحیح مان لیا جائے تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کس طرح حضرت ہارون (علیہ السلام) سے بے تکلف بات چیت کرنے پر قادر رہے ہوں گے جبکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کبھی مصر سے باہر ہی نہیں گئے اور صرف مصری زبان ہی میں بات چیت کرسکتے تھے ‘ سو اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) مصری اور عبرانی دونوں زبانوں کے خوب واقف اور ماہر تھے ‘ مصری زبان ان کی ملکی زبان تھی ‘ اور عبرانی زبان ان کی مادری زبان تھی جس کو صدیاں گزرنے کے باوجود بھی بنی اسرائیل نے محفوظ رکھا تھا اور باہمی بات چیت اور نوشت و خواند میں اسی کو استعمال کرتے تھے اور مدیانی اور عبرانی میں کچھ زیادہ فرق نہیں تھا اس لیے کہ دونوں زبانیں ایک ہی جد اعلیٰ ( حضرت ابراہیم (علیہ السلام)) کی نسل سے متعلق تھیں۔ اور ان ہر دو وجوہ کو نقل کرنے کے بعد نجار کہتے ہیں کہ میری طبیعت کا میلان پہلی وجہ کی جانب ہے اور میں اسی کو راجح سمجھتا ہوں۔ [76]
مگر ہمارے نزدیک پہلی وجہ تو کسی طرح بھی قرین قیاس نظر نہیں آتی اس لیے کہ ” دایہ “ کی تفتیش کا معاملہ قرآن عزیز اور صحیح احادیث میں تو بہت ہی مختصر ہے اور اس کی تفصیل جو توراۃ اور تاریخی روایات سے نقل کی گئی ہے ان سے صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ صرف چند گھنٹوں کے اندر طے ہو گیا موسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ ان کو دودھ پلانے کے لیے لے گئیں اور شاہی حکم کے بعد ایک بچہ کے دودھ پلانے کے معاملہ میں دنوں کی تاخیر ہو بھی کیسے سکتی تھی۔ نیز دوسری وجہ بھی کچھ زیادہ قابل قبول نہیں ہے اس لیے کہ اس توجیہ کے مطابق حضرت ہارون (علیہ السلام) کے متعلق ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ کا فقرہ تو سمجھ میں آسکتا ہے لیکن مصری زبان کی فراموشی کو عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ کہنا کسی طرح بھی صحیح نہیں ہے علاوہ ازیں اگر یہ صحیح ہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا تو قبول کرلی گئی پھر اس فراموشی کے کیا معنی ؟ بلکہ صاف اور بے غل و غش بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایسی حالت میں مولود ہوئے کہ ان کی زبان میں لکنت تھی اور بات کرنے میں رکاوٹ واقع ہوجاتی تھی اور حضرت ہارون لسّان اور فصیح البیان تھے پس حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے متعلق صرف اسی قدر دعا مانگی کہ زبان کا یہ حصر اور اس کی لکنت اس درجہ شدید نہ رہے کہ گفتگو میں عاجز ہوجانا پڑے اگر فطری رکاوٹ دور نہیں ہوتی نہ ہو ‘ صرف اس قدر خواہش ہے کہ مخاطبین گفتگو کو اچھی طرح سمجھ سکیں اور فصاحت و طلاقت لسانی کے لیے میری خواہش یہ ہے کہ میرے بھائی ہارون کو میرا قوت بازو بنا دیجئے کہ وہ میرا ویسے بھی دست وبازو ہے چنانچہ دربار الٰہی میں دونوں باتیں قبول اور منظور ہوگئیں۔ بعض علمائے تفسیر نے یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ میں ایک نکتہ اور پیدا کیا اور فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے صرف یہ دعا مانگی کہ ان کی زبان کی گرہ اس حد تک کھل جائے جس قوم کو تبلیغ کرنے جا رہے ہیں وہ ان کی گفتگو سمجھ سکے لہٰذا اسی درجہ دعا قبول ہوئی اور ان کی زبان میں قدرے لکنت اور رکاوٹ پھر بھی باقی رہی ‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے شرط لگا کر دعا کا دائرہ خود ہی تنگ کر دیا ورنہ وہ بھی فصاحت اور طلاقت لسانی میں فرد ہوجاتے۔ میرے خیال میں اس نکتہ سنجی کی بھی یہاں مطلق ضرورت نظر نہیں آتی اس لیے جس مقام پر اور جس وقت میں موسیٰ (علیہ السلام) نے درگاہ الٰہی میں یہ دعا فرمائی ہے اس کی برکت و عظمت کو ان نکتہ سنجوں نے بالکل فراموش کر دیا اور یہ غور نہیں فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) منصب نبوت سے سرفراز کیے جا رہے ہیں خدا کا انتہائی فضل و کرم بارش کی طرح ان پر برس رہا ہے آغوش رحمت وا ہے اس حالت میں موسیٰ (علیہ السلام) معاملہ اور ذمہ داری کی اہمیت کو محسوس فرماتے ہوئے آسانی کار کے لیے دعائیں اور است دعائیں کر رہے ہیں اور خدائے تعالیٰ خود موسیٰ (علیہ السلام) کی مشکلات اور مہم کی نزاکت کا عالم و دانا ہے تو پھر کیا ایسے وقت میں خدائے تعالیٰ کی بے پایاں رحمت کا یہ تقاضا ہو سکتا تھا کہ وہ عطا و نوال کی بیکراں نوازش کی جگہ مول تول اور سودے کی طرح لین دین کا سا معاملہ کرتی یا حقیقت حال کے پیش نظر موسیٰ (علیہ السلام) کے دعائیہ الفاظ کی لفظی گرفت سے درگزر فرما کر وہ سب کچھ عطا کرتی جو ان کی مشکلات کو ختم کرنے کے لیے معاون و مددگار ثابت ہو سکتے بے شک اس نے ایسا ہی کیا البتہ موسیٰ (علیہ السلام) کے اس ارشاد میں ایک راز تھا جس کو وہ اور ان کا پروردگار دونوں سمجھتے تھے ان کی خواہش تھی کہ ان کی اس اہم خدمت میں ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) ضرور شریک کار بنیں اس لیے کہ وہ بھائی بھی ہیں اور فطری فصاحت و طلاقت لسانی کے مالک بھی لہٰذا وہ اس سے زیادہ کے خواہش مند ہی نہ تھے کہ ان کو حصر کی دشواری سے نجات مل جائے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح ہارون (علیہ السلام) کو بھی یہ دولت نبوت عطا ہو پس ان کی سفارش کے لیے اسی وصف ” فصاحت بیانی “ کو خدا کی درگاہ میں پیش کیا ‘ یہ نہ تھا کہ انھوں نے الفاظ دعا میں تنگی کی تھی تو خدا نے بھی کم دینے کی خاطر ان کے الفاظ کو پکڑ لیا اور اسی قدر دیا جو ان کی دعا کے الفاظ میں محدود تھا۔ { وَ ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی اِذْ رَاٰ نَارًا فَقَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِقَبَسٍ اَوْ اَجِدُ عَلَی النَّارِ ھُدًی فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ یٰمُوْسٰی اِنِّیْٓ اَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًی وَ اَنَا اخْتَرْتُکَ فَاسْتَمِعْ لِمَا یُوْحٰی اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْھَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی فَـلَا یَصُدَّنَّکَ عَنْھَا مَنْ لَّا یُؤْمِنُ بِھَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ فَتَرْدٰی } [77] ” اور اے پیغمبر موسیٰ کی حکایت تو نے سنی ؟ جب اس نے (دور سے) آگ دیکھی تو اپنے گھر کے لوگوں سے کہا ٹھہرو مجھے آگ دکھائی دی ہے میں جاتا ہوں ممکن ہے تمھارے لیے ایک انگارہ لیتا آؤں یا (کم از کم) الاؤ پر کوئی راہ دکھانے والا ہی مل جائے پھر جب وہ وہاں پہنچا تو اس وقت پکارا گیا (ایک آواز اٹھی کہ) اے موسیٰ میں ہوں تیرا پروردگار پس اپنی جوتی اتار دے تو طویٰ کی مقدس وادی میں کھڑا ہے اور دیکھ میں نے تجھے (اپنی رسالت کے لیے) چن لیا ہے پس جو کچھ وحی کی جاتی ہے اسے کان لگا کر سن میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس میری ہی بندگی کر اور میری ہی یاد کے لیے نماز قائم کر ‘ بلاشبہ (مقررہ) وقت آنے والا ہے میں اسے پوشیدہ رکھنے کو ہوں تاکہ (لوگوں کے یقین و عمل کی آزمائش ہوجائے اور) جس شخص کی جیسی کچھ کوشش ہو اسی کے مطابق بدلہ پائے ‘ پس دیکھ ایسا نہ ہو کہ جو لوگ اس وقت کے ظہور پر یقین نہ رکھتے ہوں اور اپنی خواہش کے بندے ہوں وہ تجھے بھی (قدم بڑھانے سے) روک دیں اور نتیجہ یہ نکلے کہ تو تباہ ہوجائے۔ “ { اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِاَہْلِہٖ اِنِّیْ اٰ نَسْتُ نَارًا سَاٰتِیْکُمْ مِّنْہَا بِخَبَرٍ اَوْ اتِیکُمْ بِشِہَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّا جَآئَہَا نُوْدِیَ اَنْم بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَہَا وَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ یٰمُوْسٰی اِنَّہٗٓ اَنَا اللّٰہُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ } [78] ” جب کہا موسیٰ نے اپنے گھر والوں کو میں نے دیکھی ہے ایک آگ۔ اب لاتا ہوں تمھارے پاس وہاں سے کچھ خبریا لاتا ہوں انگارہ سلگا کر ‘ تاکہ تم تاپو پھر جب پہنچا اس کے پاس ‘ آواز ہوئی کہ برکت ہے اس پر جو کوئی آگ میں ہے اور جو اس کے آس پاس ہے اور پاک ہے ذات اللہ کی جو رب ہے سارے جہان کا اے موسیٰ وہ میں اللہ ہوں زبردست حکمتوں والا۔ “ { وَ مَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یٰمُوْسٰی قَالَ ھِیَ عَصَایَ اَتَوَکَّؤُا عَلَیْھَا وَ اَھُشُّ بِھَا عَلٰی غَنَمِیْ وَ لِیَ فِیْھَا مَاٰرِبُ اُخْرٰی قَالَ اَلْقِھَا یٰمُوْسٰی فَاَلْقٰھَا فَاِذَا ھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی قَالَ خُذْھَا وَلَا تَخَفْ سَنُعِیْدُھَا سِیْرَتَھَا الْاُوْلٰی وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ اٰیَۃً اُخْرٰی لِنُرِیَکَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْکُبْرٰی } [79] ” اور صدائے غیبی نے پوچھا : اے موسیٰ تیرے داہنے ہاتھ میں کیا ہے ؟ عرض کیا میری لاٹھی ہے چلنے میں اس کا سہارا لیتا ہوں اسی سے اپنی بکریوں کے لیے درختوں کے پتے جھاڑ لیتا ہوں میرے لیے اس میں اور بھی طرح طرح کے فائدے ہیں ‘ حکم ہوا اے موسیٰ اسے ڈال دے ‘ موسیٰ نے ڈال دیا اور کیا دیکھتا ہے ایک سانپ ہے جو دوڑ رہا ہے حکم ہوا اسے اب پکڑ لے خوف نہ کھا ہم اسے پھر اس کی اصل حالت پر کیے دیتے ہیں اور نیز حکم ہوا اپنا ہاتھ اپنے پہلو میں رکھ اور پھر نکال بغیر اس کے کہ کسی طرح کا عیب ہو چمکتا ہوا نکلے گا یہ (تیرے لیے) دوسری نشانی ہوئی (اور یہ دونوں نشانیاں) اس لیے (دی گئی ہیں) کہ آئندہ تجھے اپنی قدرت سے بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔ “
{ وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِیِّ اِذْ قَضَیْنَآ اِلٰی مُوْسَی الْاَمْرَ وَ مَا کُنْتَ مِنَ الشّٰھِدِیْنَ وَ لٰکِنَّآ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَیْھِمُ الْعُمُرُ وَمَا کُنْتَ ثَاوِیًا فِیْٓ اَھْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَ لٰکِنَّا کُنَّا مُرْسِلِیْنَ وَ مَا کُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَیْنَا وَ لٰکِنْ رَّحْمَۃً مِّنْ رَّبِّکَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اَتٰھُمْ مِّنْ نَّذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ } [80] ” اور تو نہ تھا غرب کی طرف جب ہم نے بھیجا موسیٰ کو حکم اور نہ تھا تو دیکھنے والا لیکن ہم نے پیدا کیں کئی جماعتیں پھر دراز ہوئی ان پر مدت اور تو نہ رہتا تھا مدین والوں میں کہ ان کو سناتا ہماری آیتیں ‘ پر ہم رہے رسول بھیجتے اور تو نہ تھا طور کے کنارے جب ہم نے آواز دی ‘ لیکن یہ انعام ہے تیرے رب کا کہ تو ڈر سنا دے ان لوگوں کو جن کے پاس نہیں آیا کوئی ڈر سنانے والا تجھ سے پہلے تاکہ وہ یاد رکھیں۔ “ { ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی اِذْ نَادَاہُ رَبُّہٗ بِالْوَادِی الْمُقَدَّسِ طُوًی اذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی فَقُلْ ہَلْ لَّکَ اِلٰی اَنْ تَزَکّٰی وَاَہْدِیَکَ اِلٰی رَبِّکَ فَتَخْشٰی } [81] ” کچھ پہنچی ہے تجھ کو بات موسیٰ کی ‘ جب پکارا اس کو اس کے رب نے پاک میدان میں جس کا نام طویٰ ہے ‘ جا فرعون کے پاس اس نے سر اٹھایا ‘ پھر کہہ تیرا جی چاہتا ہے کہ تو سنور جائے اور راہ بتاؤں تجھ کو تیرے رب کی طرف پھر تجھ کو ڈر ہو ؟ “
{ اِذْھَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَ یَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَھْلِیْ ھٰرُوْنَ اَخِی اشْدُدْ بِہٖٓ اَزْرِیْ وَ اَشْرِکْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ کَیْ نُسَبِّحَکَ کَثِیْرًا وَّ نَذْکُرَکَ کَثِیْرًا اِنَّکَ کُنْتَ بِنَا بَصِیْرًا قَالَ قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یٰمُوْسٰی } [82] ” (حکم ہوا) اے موسیٰ تو فرعون (یعنی بادشاہ مصر) کی طرف جا وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے موسیٰ نے عرض کیا اے پروردگار میرا سینہ کھول دے (کہ بڑے سے بڑا بوجھ اٹھانے کے لیے مستعد ہو جاؤں) اور میرا کام میرے لیے آسان کر دے (کہ راہ کی کوئی دشواری بھی غالب نہ آسکے) اور میری زبان کی گرہ کھول دے (کہ خطاب و کلام میں پوری طرح رواں ہوجائے اور) میری بات لوگوں کے دلوں میں اتر جائے نیز میرے گھر والوں میں سے میرے بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے کہ اس کی وجہ سے میری قوت مضبوط ہوجائے اور وہ میرے کام میں میرا شریک ہو اور ہم (دونوں ایک دل ہو کر) تیری پاکی اور بڑائی کا بکثرت اعلان کریں اور تیری یاد میں زیادہ سے زیادہ لگے رہیں اور بلاشبہ تو ہمارا حال دیکھ رہا ہے (ہم سے کسی حال میں غافل نہیں) ارشاد ہوا اے موسیٰ تیری درخواست منظور ہوئی۔ “ { اِذْھَبْ اَنْتَ وَ اَخُوْکَ بِاٰیٰتِیْ وَ لَا تَنِیَا فِیْ ذِکْرِیْ اِذْھَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰی فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَآ اَوْ اَنْ یَّطْغٰی قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی فَاْتِیٰہُ فَقُوْلَآ اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّکَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَا تُعَذِّبْھُمْ قَدْ جئْنٰکَ بِاٰیَۃٍ مِّنْ رَّبِّکَ وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی } [83] ” اب تو اور تیرا بھائی دونوں میری نشانیاں لے کر جائیں اور میری یاد میں کوتاہی نہ کریں ہاں تم دونوں (یعنی موسیٰ اور ہارون کیونکہ اب دونوں اکٹھے ہو گئے تھے اور مصر کے قریب وحی الٰہی نے انھیں دوبارہ مخاطب کیا تھا) فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکشی میں بہت بڑھ چلا ہے پھر جب اس کے پاس پہنچو تو سختی کے ساتھ پیش نہ آنا ‘ نرمی سے بات کرنا (تمھیں کیا معلوم ؟ ) ہو سکتا ہے کہ وہ نصیحت پکڑے یا (عواقب سے) ڈر جائے دونوں نے عرض کیا ” پروردگار ہمیں اندیشہ ہے کہ فرعون ہماری مخالفت میں جلدی نہ کرے یا سرکشی سے پیش آئے ‘ ارشاد ہوا ” کچھ اندیشہ نہ کرو میں تمھارے ساتھ ہوں میں سب کچھ سنتا ہوں سب کچھ دیکھتا ہوں تم اس کے پاس بے دھڑک جاؤ اور کہو ہم تیرے پروردگار کے پیغمبر ہیں ‘ پس تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے۔ اور ان کی سزائیں موقوف کر۔ ہم تیرے پروردگار کی نشانی لے کر تیرے سامنے آگئے اس پر سلامتی ہو جو سیدھی راہ اختیار کرے۔ “ { وَلَقَدْ اتَیْنَا مُوْسٰی الْکِتٰبَ وَجَعَلْنَا مَعَہٗ اَخَاہُ ہَارُوْنَ وَزِیْرًا فَقُلْنَا اذْہَبَا اِلَی الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا فَدَمَّرْنَاہُمْ تَدْمِیْرًا }[84] ” اور ہم نے دی موسیٰ کو کتاب اور کر دیا ہم نے اس کے ساتھ اس کا بھائی ہارون کام بٹانے والا پھر کہا ہم نے دونوں جاؤ ان لوگوں کے پاس جنھوں نے جھٹلایا ہماری باتوں کو پھر دے مارا ہم نے ان کو اکھاڑ کر۔ “ { وَاِذْ نَادٰی رَبُّکَ مُوْسٰی اَنِ ائْتِ الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ قَوْمَ فِرْعَوْنَ َالَا یَتَّقُوْنَ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِیْ وَیَضِیْقُ صَدْرِیْ وَلَا یَنْطَلِقُ لِسَانِیْ فَاَرْسِلْ اِلٰی ہَارُوْنَ وَلَہُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِیْ قَالَ کَلَّا فَاذْہَبَا بِاٰیٰتِنَا اِنَّا مَعَکُمْ مُسْتَمِعُوْنَ فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [85] ” اور جب پکارا تیرے رب نے موسیٰ کو کہ جا اس قوم گناہ گار کے پاس ‘ قوم فرعون کے پاس کیا وہ ڈرتے نہیں بولا اے رب میں ڈرتا ہوں کہ مجھ کو جھٹلائیں اور رک جاتا ہے میرا جی اور نہیں چلتی ہے میری زبان سو پیغام دے ہارون کو ‘ اور ان کو مجھ پر ہے ایک گناہ کا دعویٰ ‘ سو ڈرتا ہوں کہ مجھ کو مار ڈالیں ‘ فرمایا کبھی نہیں تم دونوں جاؤ لے کر ہماری نشانیاں ہم ساتھ تمھارے ‘ سنتے ہیں سو جاؤ فرعون کے پاس اور کہو ہم پیغام لے کر آئے ہیں پروردگار عالم کا۔ “ { وَاَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَاٰہَا تَہْتَزُّ کَاَنَّہَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّلَمْ یُعَقِّبْ یٰمُوْسٰی لَا تَخَفْ اِنِّی لاَ یَخَافُ لَدَیَّ الْمُرْسَلُوْنَ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًام بَعْدَ سُوْٓئٍ فَاِنِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَائَ مِنْ غَیْرِ سُوْئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ } [86] ” اور ڈال دے لاٹھی اپنی پھر جب دیکھا اس کو پھن ہلاتے جیسے سفید پتلا سانپ ‘ لوٹا پیٹھ پھیر کر اور مڑ کر نہ دیکھا۔ اے موسیٰ مت ڈر ‘ میں جو ہوں میرے پاس نہیں ڈرتے رسول مگر جس نے زیادتی کی پھر بدلے میں نیکی کی برائی کے پیچھے تو میں بخشنے والا ہوں اور ڈال دے ہاتھ اپنا گریبان میں کہ نکلے سفید ہو کر بغیر کسی عیب کے ‘ یہ دونوں مل کر نو نشانیاں لے جا فرعون اور اس کی قوم کی طرف بے شک وہ تھے لوگ نافرمان۔ “ { فَلَمَّا قَضٰی مُوْسَی الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَھْلِہٖٓ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا قَالَ لِاَھْلِہِ امْکُثُوْٓا اِنِّیْٓ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّیْٓ اٰتِیْکُمْ مِّنْھَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَۃٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّکُمْ تَصْطَلُوْنَ فَلَمَّآ اَتٰھَا نُوْدِیَ مِنْ شَاطِیِٔ الْوَادِ الْاَیْمَنِ فِی الْبُقْعَۃِ الْمُبٰرَکَۃِ مِنَ الشَّجَرَۃِ اَنْ یّٰمُوْسٰٓی اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ فَلَمَّا رَاٰھَا تَھْتَزُّ کَاَنَّھَا جَآنٌّ وَّلّٰی مُدْبِرًا وَّ لَمْ یُعَقِّبْ یٰمُوْسٰٓی اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ اِنَّکَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ وَّ اضْمُمْ اِلَیْکَ جَنَاحَکَ مِنَ الرَّھْبِ فَذٰنِکَ بُرْھَانٰنِ مِنْ رَّبِّکَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِہٖ اِنَّھُمْ کَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِیْنَ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ قَتَلْتُ مِنْھُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِ وَ اَخِیْ ھٰرُوْنُ ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَرْسِلْہُ مَعِیَ رِدْاً یُّصَدِّقُنِیْٓ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّکَذِّبُوْنِ قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا فَـلَایَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا بِاٰیٰتِنَآ اَنْتُمَا وَ مَنِ اتَّبَعَکُمَا الْغٰلِبُوْنَ } [87] ” پھر جب پوری کرچکا موسیٰ وہ مدت اور لے کر چلا اپنے گھر والوں کو دیکھی کوہ طور کی طرف سے ایک آگ ‘ کہا اپنے گھر والوں کو ٹھہرو میں نے دیکھی ہے آگ شاید لے آؤں تمھارے پاس وہاں کی کچھ خبر یا انگارہ آگ کا تاکہ تم تاپو پھر جب پہنچا اس کے پاس ‘ آواز ہوئی میدان کے داہنے کنارے سے ‘ برکت والے تختہ میں ایک درخت سے کہ اے موسیٰ میں ہوں میں اللہ جہان کا رب اور یہ کہ ڈال دے اپنی لاٹھی پھر جب دیکھا اس کو پھن ہلاتے جیسے پتلا سانپ ‘ الٹا پھرا منہ موڑ کر اور نہ دیکھا پیچھے پھر کر۔ اے موسیٰ آگے آ اور مت ڈر تجھ کو کچھ خطرہ نہیں ڈال اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ‘ نکل آئے سفید ہو کر نہ کہ کسی برائی سے اور لائے اپنی طرف اپنا بازو ڈر سے ‘ سو یہ دو سندیں ہیں تیرے رب کی طرف سے فرعون اور اس کے سرداروں پر ‘ بے شک وہ تھے لوگ نافرمان۔ بولا اے رب میں نے خون کیا ہے ان میں ایک جان کا سو ڈرتا ہوں کہ مجھ کو مار ڈالیں گے اور میرا بھائی ہارون اس کی زبان چلتی ہے مجھ سے زیادہ سو اس کو بھیج میرے ساتھ مدد کو کہ میری تصدیق کرے میں ڈرتا ہوں کہ مجھ کو جھوٹا کریں فرمایا ہم مضبوط کر دیں گے تیرے بازو کو تیرے بھائی سے اور دیں گے تم کو غلبہ پھر وہ نہ پہنچ سکیں گے تم تک ہماری نشانیوں سے ‘ تم اور جو تمھارے ساتھ ہو غالب رہو گے۔ “ { وَ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ جَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا ذُرِّیَّۃَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍ اِنَّہٗ کَانَ عَبْدًا شَکُوْرًا }[88] ” اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور کیا اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے واسطے کہ نہ ٹھہراؤ میرے سوا کسی کو کارساز تم جو اولاد ہو ان لوگوں کی جن کو چڑھایا ہم نے نوح کے ساتھ بے شک وہ تھا بندہ حق ماننے والا۔ “ { وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَـلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَآئِہٖ وَ جَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ جَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ } [89] ” اور ہم نے دی ہے موسیٰ کو کتاب سو تو مت رہ دھوکے میں اس کے ملنے سے اور کیا ہم نے اس کو ہدایت بنی اسرائیل کے واسطے اور کیے ہم نے ان میں پیشوا جو راہ چلاتے تھے ہمارے حکم سے جب وہ صبر کرتے رہے اور رہے ہماری باتوں پر یقین کرتے تیرا رب جو ہے وہی فیصلہ کرے گا ان میں دن قیامت کے جس بات میں کہ وہ اختلاف کرتے تھے۔ “ ان آیات میں ” عصائے موسیٰ کے معجزہ یا آیۃ اللہ ہونے کو مختلف تعبیرات سے ادا کیا گیا ہے۔ سورة طہٰ میں حَیَّۃٌ تَسْعٰی فرمایا اور سورة نمل اور قصص میں جَانٌّ کہا گیا اور شعرا میں ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ ظاہر کیا۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ عصائے موسیٰ کی اگرچہ یہ تعبیرات لفظی اعتبار سے مختلف ہیں لیکن حقیقت اور معنی کے لحاظ سے مختلف نہیں ہیں بلکہ ایک حقیقت کے مختلف اوصاف کو ادا کیا گیا ہے یعنی جنس کے اعتبار سے وہ حیہ (سانپ) تھا اور تیز روی کے اعتبار سے جان (تیز روسانپ) تھا اور جسامت کے پیش نظر وہ ثعبان (اژدہا) تھا۔ اور سورة قصص میں موسیٰ (علیہ السلام) کے دونوں معجزوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے : { وَّ اضْمُمْ اِلَیْکَ جَنَاحَکَ مِنَ الرَّھْبِ } [90] ” اور اپنی جانب اپنے بازو لے خوف کی حالت میں “ اور بعض علما کہتے ہیں کہ اس خوف سے فرعون کے دربار کا خوف مراد تھا یعنی اگر فرعون کے سامنے کسی وقت خوف محسوس ہونے لگے تو اے موسیٰ تو اپنے بازو کو بدن کے ساتھ ملا لینا فوراً ڈر جاتا رہے گا اور دل میں سکون و اطمینان کی کیفیت پیداہو جائے گی۔ یہ دو نشانیوں کے علاوہ تیسری نشانی نہیں تھی بلکہ خوف اور ڈر دور کرنے کا ایک فطری علاج بتلایا گیا تھا جو ایسے موقع پر عموماً فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور اب جبکہ خدائے تعالیٰ کا فرمودہ تھا تو اس کے راست آنے میں موسیٰ (علیہ السلام) کو شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ [91]
بہرحال حضرت موسیٰ و حضرت ہارون (علیہا السلام) کے درمیان میں جب ملاقات اور گفتگو کا سلسلہ ختم ہوا تو اب دونوں نے طے کیا کہ خدائے تعالیٰ کے امتثال حکم کے لیے فرعون کے پاس چلنا اور اس کو پیغام الٰہی سنانا چاہیے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب دونوں بھائی فرعون کے دربار میں جانے لگے تو والدہ نے غایت شفقت کی بنا پر روکنا چاہا کہ تم ایسے شخص کے پاس جانا چاہتے ہو جو صاحب تخت و تاج بھی ہے اور ظالم و مغرور بھی ‘ وہاں نہ جاؤ وہاں جانا بے سود ہوگا مگر دونوں نے والدہ کو سمجھایا کہ خدائے تعالیٰ کا حکم ٹالا نہیں جا سکتا اور اس کا وعدہ ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ غرض دونوں بھائی اور خدا کے سچے پیغمبر و نبی فرعون کے دربار میں پہنچے اور بغیر خوف و خطر اندر داخل ہو گئے جب فرعون کے تخت کے قریب پہنچے تو حضرت موسیٰ و ہارون (علیہا السلام) نے اپنے آنے کی وجہ بیان کی اور گفتگو شروع ہوئی اور انھوں نے فرمایا : ” فرعون ہم کو خدا نے اپنا پیغمبر اور رسول بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے ہم تجھ سے دو اہم باتیں چاہتے ہیں ایک یہ کہ خدا پر یقین لا اور کسی کو اس کا ساجھی اور سہیم نہ بنا ‘ دوسرے یہ کہ ظلم سے باز آ ‘ اور بنی اسرائیل کو اپنی غلامی سے نجات دے ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں یقین رکھ کہ یہ بناوٹ اور تصنع نہیں ہے اور نہ ہم کو یہ جرأت ہو سکتی ہے کہ خدائے تعالیٰ کے ذمہ غلط بات لگائیں ہماری صداقت کے لیے جس طرح ہماری یہ تعلیم خود شاہد ہے اسی طرح خدائے تعالیٰ نے ہم کو اپنی دو زبردست نشانیاں (معجزات) بھی عطا فرمائی ہیں لہٰذا تیرے لیے مناسب یہی ہے کہ صداقت و حق کے اس پیغام کو قبول کر اور بنی اسرائیل کو رستگاری دے کر میرے ساتھ کر دے تاکہ میں انھیں پیغمبروں کی اس سرزمین میں لے جاؤں جہاں بجز ذات واحد کے یہ اور کسی کی پرستش نہ کریں کہ یہی راہ حق ہے اور ان کے باپ دادوں کا ابدی شعار۔ “ { وَ قَالَ مُوْسٰی یٰفِرْعَوْنُ اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ قَدْ جِئْتُکُمْ بِبَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَرْسِلْ مَعِیَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ } [92] ” اور موسیٰ نے کہا اے فرعون میں جہانوں کے پروردگار کا بھیجا ہوا ایلچی ہوں میرے لیے کسی طرح زیبا نہیں کہ اللہ پر حق اور سچ کے علاوہ کچھ اور کہوں بلاشبہ میں تمھارے لیے تمھارے پروردگار کے پاس سے دلیل اور نشانی لایا ہوں پس تو میرے ساتھ بنی اسرائیل کو بھیج دے۔ “
فرعون نے جب یہ سنا تو کہنے لگا کہ ” موسیٰ آج تو پیغمبر بن کر میرے سامنے بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ کرتا ہے وہ دن بھول گیا جب تو نے میرے ہی گھر میں پرورش پائی اور بچپن کی زندگی گزاری اور کیا تو یہ بھی بھول گیا کہ تو نے ایک مصری کو قتل کیا اور یہاں سے بھاگ گیا “ حضرت موسیٰ نے فرمایا ” فرعون یہ صحیح ہے کہ میں نے تیرے گھر میں پرورش پائی اور ایک مدت تک شاہی محل میں رہا اور مجھے یہ بھی اعتراف ہے کہ غلطی کی بنا پر مجھ سے نادانستہ ایک شخص قتل ہو گیا اور میں اس خوف سے چلا گیا تھا لیکن یہ خدائے تعالیٰ کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے تمام بے کسانہ مجبوریوں کی حالت میں تیرے ہی گھرانے میں میری پرورش کرائی اور پھر مجھ کو اپنی سب سے بڑی نعمت نبوت و رسالت سے سرفراز کیا۔ فرعون کیا یہ طریقہ عدل و انصاف کا طریقہ ہوگا کہ مجھ ایک اسرائیلی کی پرورش کا بدل یہ ٹھہرے کہ بنی اسرائیل کی تمام قوم کو تو غلام بنائے رکھے ؟ “ { فَاْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُوْلَا اِنَّا رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ اَنْ اَرْسِلْ مَعَنَا بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ قَالَ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْدًا وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ وَفَعَلْتَ فَعْلَتَکَ الَّتِیْ فَعَلْتَ وَاَنْتَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ قَالَ فَعَلْتُہَا اِذًا وَّاَنَا مِنَ الضَّالِّیْنَ فَفَرَرْتُ مِنْکُمْ لَمَّا خِفْتُکُمْ فَوَہَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا وَّجَعَلَنِیْ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ تَمُنُّہَا عَلَیَّ اَنْ عَبَّدْتَّ بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ } [93] ” پھر وہ دونوں فرعون کے پاس آئے پس انھوں نے کہا ” ہم بلاشبہ جہانوں کے پروردگار کے پیغمبر اور ایلچی ہیں یہ پیغام لے کر آئے ہیں کہ تو بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دے “ فرعون نے کہا ” کیا ہم نے تجھ کو اپنے یہاں لڑکا سا نہیں پالا اور تو ہمارے یہاں ایک مدت نہیں رہا اور تو نے جو کچھ اس زمانے میں کام کیا وہ تجھے خود بھی معلوم ہے اور تو ناشکرگزار ہے “ موسیٰ نے کہا ” میں نے وہ کام (مصری کا قتل) ضرور کیا اور میں اس میں چوک جانے والوں میں سے ہوں پھر یہاں سے تمھارے خوف سے بھاگ گیا پھر میرے رب نے مجھ کو صحیح فیصلہ کی سمجھ دی اور مجھ کو اپنے پیغمبروں میں سے بنالیا (یہ اس کی حکمت کی کرشمہ سازیاں ہیں) اور (میری پرورش کا) یہ احسان جس کو تو مجھ سے جتا رہا ہے کیا ایسا احسان ہے کہ تو بنی اسرائیل کو غلام بنائے رکھے۔ “ سورة شعرا کی اس آیت وَتِلْکَ نِعْمَۃٌ کا ترجمہ عام مفسرین کی تفسیر کے مطابق کیا گیا ہے لیکن اس کے برعکس عبد الوہاب نجار اس آیت کے یہ معنی کرتے ہیں ” اور تیرا یہ انعام ہوگا اور تو مجھ پر احسان کرے گا کہ تو بنی اسرائیل کو عزت بخشے یعنی ان کو میرے ساتھ بھیج دے کہ وہ اپنے خدا کی عبادت میں آزاد ہوجائیں۔ “ اور اس معنی کے جواز میں فرماتے ہیں کہ عَبَّدْتَّ بمعنی کَرَّمْتَ لغت عرب سے ثابت ہے چنانچہ لسان العرب ص 263 جلد 4 میں ہے ” المعبد ‘ المکرم “ اور یہاں یہ معنی لینے اس لیے ضروری ہیں کہ قرآن عزیز میں تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ تلقین کردی تھی کہ فرعون کے سمجھانے میں نرمی اور لطف و مہربانی کو پیش نظر رکھنا ‘ غصہ یا سخت کلامی کا اظہار نہ کرنا لہٰذا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ بعید ہے کہ وہ اس ہدایت الٰہی کے خلاف طعن وتشنیع یا معاریض و مجازات سے کام لیں جو رفق و تلطف کے قطعاً خلاف ہے اور جو معنی عام مفسرین نے لیے ان میں طعن و معاریض کا پہلو نکلتا ہے۔ [94] مگر نجار نے اس موقع پر جو کچھ کہا ہے وہ خود تکلف بارد اور رکیک تاویل کی حیثیت سے زیادہ نہیں ہے اس لیے کہ عام مفسرین کے معنی کے مطابق یہاں نہ طعن وتشنیع ہے اور نہ معاریض و مجازات بلکہ روشن دلیل اور واضح حجت کے ذریعہ فرعون کو اس کی کج روی اور متمردانہ سرکشی پر توجہ دلانا ہے جو ایک پیغمبر اور خدا کے سچے رسول کا فرض منصبی ہے۔ فرعون نے اپنی مغرورانہ سرشت کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیغمبر خدا ہونے کا استخفاف کیا اور مذاق و تحقیر کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت سے بحث شروع کردی ‘ اپنے گھرانے کے احسان جتائے اور مصری کے قتل والا معاملہ یاد دلا کر خوف زدہ کرنے کی سعی کی مگر موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ ان سب مراحل کے متعلق خدائے برحق سے ہر قسم کا اطمینان کرچکے تھے اس لیے ان پر مطلق نہ خوف کا اثر ہوا اور نہ ان کو غصہ آیا بلکہ انھوں نے فرعون کے گھرانے کی تربیت کا اعتراف بھی کیا اور مصری کے قتل کی غلطی کو بھی تسلیم کیا مگر ساتھ ہی ایک ایسا مسکت برہان اور خاموش کن دلیل بھی پیش کردی کہ فرعون واقعی لا جواب ہو گیا اور اس نے ناراضی اور غصہ کے اظہار کی بجائے گفتگو کا پہلو فوراً بدل دیا اور موسیٰ (علیہ السلام) سے رب العٰلمین کے متعلق بات چیت شروع کردی اور وہ دلیل و حجت یہی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” تو نے جو کچھ کہا میری شخصیت اور ذات سے متعلق ہے لیکن کیا یہ باتیں اس کے لیے جواز کا سبب بن سکتی ہیں کہ بنی اسرائیل کی پوری قوم کو تو غلام بنائے رہے یہ تو صریح ظلم ہے۔ “ لہٰذا مفسرین کی تفسیر اور ترجمہ ہی صحیح ہے اور نجار کے ترجمہ کو تسلیم کرلینے کے بعد کلام کی تمام لطافت اور خوبی فنا ہوجاتی ہے اور سیاق وسباق کے ساتھ بھی بے تکلف اس کا جوڑ نہیں لگتا۔
فرعون نے دوران میں گفتگو میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو یہ طعن کیا تھا کہ تو نے ہمارے یہاں تربیت پائی ہے اور میں تیرا مربی ہوں تو اس کے معنی صرف اسی قدر نہیں تھے بلکہ اس کی تہ میں وہ عقیدہ کام کر رہا تھا جس کی شکست و ریخت کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث کیے گئے تھے یعنی سلطنت مصر کا بادشاہ صرف بادشاہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ ” راع “ 1 ؎ (سورج) کا اوتار مانا جاتا تھا اور اس لیے فرعون کے لقب سے ملقب تھا مصریوں کے عقیدہ میں تربیت کائنات کا معاملہ ” راع “ دیوتا کے سپرد تھا اور دنیا میں اس کا صحیح مظہر شاہ مصر (فرعون) تھا ‘ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب خدائے واحد کی پرستش اور دیوتاؤں کی پوجا کے خلاف آواز بلند کی اور فرمایا { اِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ } [95] تو اول اس نے اپنی اور اپنے باپ دادا کی ربوبیت کو اس طرح ثابت کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شخصیت پر اس کا بوجھ پڑے اور جب اس طرح اصل مسئلہ کو حل ہوتے نہ دیکھا تو اب مسئلہ کو زیادہ عریاں کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مناظرہ پر آمادہ ہو گیا اور کہنے لگا ” موسیٰ یہ تو نئی بات کیا سناتا ہے کیا میرے علاوہ بھی کوئی رب ہے جس کو تو رب العٰلمین کہتا ہے ؟ اگر یہ صحیح ہے تو اس کی حقیقت بیان کر “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا ” اگر تجھ میں یقین اور ایمان صحیح کی گنجائش ہے تو تجھ کو سمجھنا چاہیے کہ میں جس ہستی کو رب العٰلمین کہتا ہوں وہ ذات اقدس ہے جس کے قبضہ قدرت میں آسمان زمین اور ان دونوں کے درمیان میں کی کل مخلوقات کی ربوبیت ہے ‘ فرعون کیا تو دعویٰ کرسکتا ہے کہ ان آسمانوں ‘ زمینوں اور ان کے درمیان میں تمام مخلوقات کو تو نے پیدا کیا ہے یا ان کی ربوبیت کا کارخانہ تیرے ید قدرت میں ہے ؟ اگر نہیں اور بلاشبہ نہیں تو پھر رب العٰلمین کی ربوبیت عام سے انکار کیوں ؟ “ فرعون نے یہ سنا تو درباریوں کی جانب مخاطب ہو کر تعجب اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا اَ لَا تَسْتَمِعُوْنَ کیا تم سنتے ہو ؟ یہ کیسی عجیب بات کہہ رہا ہے۔ 1 (؎ مصری مختلف دیوتاؤں کی پرستش کرتے تھے جن میں سے بعض تو خاص خاص قبیلوں اور علاقوں کے تھے ‘ جیسے نیفات ‘ فتاء اور مات اور بعض عالمگیر قوتوں کے الگ مظاہر تھے ‘ جیسے ” اُوزیریس “ عالم آخرت کا خدا ‘ ” میہ اور ت “ آسمان کا خدا ‘ ” کینمو “ جسم بنانے والا ‘ ایزیزیس روح بخشنے والی دیوی ‘ ” طوطا ‘ عمر کی مقدار مقرر کرنے والا ‘ ” ہور اس “ دردو غم دور کرنے والا ‘ ” جاثور “ (گائے) رزق بخشنے والی دیوی اور ان سب سے بلند تر ” آمن راع “ تھا یعنی سورج دیوتا۔ نیز مصریوں میں الوہیت آمیز شاہی کا تصور بھی پوری طرح نشو و نما پا چکا تھا اور تاجداران مصر نے نیم خدا کی حیثیت اختیار کرلی تھی ‘ ان کا لقب ” فاراع “ ‘ اس لیے ہوا کہ وہ ” راع “ یعنی سورج دیوتا کے اوتار سمجھے جاتے تھے۔ [96]
حضرت موسیٰ نے فرعون اور اس کے درباریوں کے اس تعجب اور حیرانی کی پروا نہ کرتے ہوئے اور اپنے سلسلہ گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا ” رب العٰلمین “ وہ ہستی ہے جس کی ربوبیت کے اثر سے تیرا اور تیرے باپ کا وجود بھی خالی نہیں ہے یعنی جس وقت تو عالم وجود میں نہ آیا تھا ‘ تو تجھ کو پیدا کیا اور تیری تربیت کی اور اسی طرح وہ تجھ سے پہلے تیرے آباء و اجداد کو عالم وجود میں لایا اور ان کو اپنی ربوبیت سے نوازا۔ فرعون نے جب اس مسکت اور زبردست دلیل کو سنا اور کوئی جواب نہ بن پڑا تو درباریوں سے کہنے لگا : مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو خود کو تمھارا پیغمبر اور رسول کہتا ہے مجنون اور پاگل ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ اس سے اب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو سوچا یہ بہتر ہے کہ اور زیادہ دل نشین پیرایہ بیان میں خدا کی ربوبیت کو واضح کیا جائے اس لیے فرمایا : یہ جو مشرق و مغرب اور اس کے درمیان میں ساری کائنات نظر آتی ہے اس کی ربوبیت جس کے ید قدرت میں ہے اسی کو میں ” رب العٰلمین “ کہتا ہوں تم اگر ذرا بھی عقل و سمجھ سے کام لو تو بآسانی اس حقیقت کو پاسکتے ہو۔ غرض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ رب العٰلمین کے حکم کے مطابق برابر شیریں کلامی ‘ نرم گفتاری اور رفق و لطف کے ساتھ فرعون اور اس کے درباریوں کو راہ حق دکھاتے اور رسالت کا فرض ادا فرماتے رہے اور فرعون کی تحقیر و توہین اور مجنون جیسے سخت الفاظ کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے اس کی رشد و ہدایت کے لیے بہترین دلائل اور مسکت جوابات دیتے رہے۔ { قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِنْ کُنْتُمْ مُّوْقِنِیْنَ قَالَ لِمَنْ حَوْلَہٗ اَ لَا تَسْتَمِعُوْنَ قَالَ رَبُّکُمْ وَرَبُّ آبَائِکُمُ الْاَوَّلِیْنَ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَیْنَہُمَا اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ } [97] ” بولا فرعون کیا معنی ہیں پروردگار عالم کے ؟ کہا پروردگار آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے ‘ اگر تم یقین کرو۔ بولا اپنے گرد والوں سے کیا تم نہیں سنتے ہو ؟ کہا پروردگار تمھارا اور پروردگار تمھارے اگلے باپ دادوں کا ‘ بولا تمھارا پیغام لانے والا جو تمھاری طرف بھیجا گیا ضرور باؤلا ہے ‘ کہا پروردگار مشرق کا اور مغرب کا اور جو کچھ ان کے بیچ میں موجود ہے اگر تم سمجھ رکھتے ہو۔ “ ایک مرتبہ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو یاد دلایا کہ جو راستہ تو نے اختیار کیا ہے یہ صحیح نہیں ہے بلکہ رب العٰلمین ہی وہ ذات ہے جو لائق پرستش ہے اور اس کے مقابلہ میں کسی انسان کا دعوائے ربوبیت کھلا ہوا شرک ہے۔ اے فرعون تو اس سے باز آ کیونکہ اس ہستی نے جس کو میں رب العٰلمین کہہ رہا ہوں ہم پر یہ وحی نازل کی ہے کہ جو شخص اس قول حق کی خلاف ورزی اور تکذیب کرے گا اور اس سے منہ موڑے گا وہ خدا کے عذاب کا مستحق ٹھہرے گا۔ { اِنَّا قَدْ اُوْحِیَ اِلَیْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰی مَنْ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی } [98] ” جو کوئی تکذیب اور سرتابی کرے تو ہم پر وحی اتر چکی کہ اس کے لیے عذاب کا پیام ہے۔ “ فرعون نے پھر وہی پہلا سوال دہرا دیا ” اے موسیٰ تم دونوں کا رب کون ہے ؟ “
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں ایسی لاجواب بات کہی کہ فرعون حیران رہ گیا اور پہلو بدل کر بات کا رخ دوسری جانب پھیرنے کی اس طرح سعی کرنے لگا جس طرح باطل کوش مناظرین کا قاعدہ ہے کہ جب صحیح جواب نہ بن پڑے اور حقیقت حال صاف سامنے آجائے تو پھر اس کو دبانے کے لیے کجروی کے ساتھ بات کا رخ دوسری جانب پھیر دیا کرتے ہیں۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ” ہمارا پروردگار تو وہ ایک ہی پروردگار ہے جس نے دنیا کی ہر چیز کو اس کا وجود بخشا اور پھر ہر طرح کی ضروری قوتیں (حواس عقل وغیرہ) دے کر اس پر زندگی و عمل کی راہ کھول دی ‘ جس نے ہر شے کو نعمت جسم و وجود عطا کی اور پھر سب کو منزل کمال کی طرف چلنے کی راہ دکھائی “ تب فرعون نے لاجواب ہو کر بات کا رخ یوں بدلا کہنے لگا { فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی } [99] ” تو پھر پہلے لوگوں کا حال کیا ہوا ؟ “ مطلب یہ تھا کہ اگر تیری یہ بات صحیح ہے تو پھر ہم سے پہلے لوگ اور ہمارے باپ دادا جن کا عقیدہ تیرے عقیدے کی تائید میں نہ تھا کیا وہ سب عذاب میں گرفتار ہیں اور سب جھوٹے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کی کج بحثی کو سمجھ گئے اور انھیں یقین ہو گیا کہ یہ اصل مقصد کو الجھانا چاہتا ہے۔ اس لیے فوراً جواب دیا { عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَی } [100] ” (ان پر کیا گذری اور ان کے ساتھ خدا کا کیا معاملہ رہا اس کی ذمہ داری نہ مجھ پر ہے اور نہ تجھ پر) ان کا علم میرے پروردگار کے پاس محفوظ ہے (ہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ) میرا پروردگار بھول چوک اور خطا سے پاک ہے (جس نے جو کچھ کیا ہے اس کے معاملہ میں کوئی بھول یا ظلم نہ ہوگا)۔ “ اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر گفتگو کو اصل مسئلہ کی طرف پھیر دیا اور رب العالمین کے اوصاف کا ذکر کر کے مسئلہ کی حقیقت کو اچھی طرح واضح اور مستحکم بنایا : { قَالَ فَمَنْ رَّبُّکُمَا یٰمُوْسٰی قَالَ رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی قَالَ فَمَا بَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی قَالَ عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ فِیْ کِتٰبٍ لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَی الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ مَھْدًا وَّ سَلَکَ لَکُمْ فِیْھَا سُبُلًا وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجْنَا بِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْ نَّبَاتٍ شَتّٰی کُلُوْا وَ ارْعَوْا اَنْعَامَکُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی النُّھٰی مِنْھَا خَلَقْنٰکُمْ وَ فِیْھَا نُعِیْدُکُمْ وَ مِنْھَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً اُخْرٰی } (طٰہ : 2٠/49 تا 55) ” فرعون نے پوچھا اگر ایسا ہی ہے تو بتلاؤ تمھارا پروردگار کون ہے اے موسیٰ ؟ موسیٰ نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی خلقت بخشی پھر اس پر (زندگی و عمل کی) راہ کھول دی فرعون نے کہا پھر ان کا کیا حال ہونا ہے جو پچھلے زمانوں میں گذر چکے ہیں ؟ موسیٰ نے کہا اس بات کا علم میرے پروردگار کے پاس نوشتہ میں ہے میرا پروردگار ایسا نہیں کہ کھویا جائے یا بھول میں پڑجائے وہ پروردگار جس نے تمھارے لیے زمین بچھونے کی طرح بچھا دی ‘ نقل و حرکت کے لیے اس میں راہیں نکال دیں آسمان سے پانی برسایا اس کی آبپاشی سے ہر طرح کی نباتات کے جوڑے پیدا کر دیے ‘ خود بھی کھاؤ اور اپنے مویشی بھی چراؤ ‘ اس بات میں عقل والوں کے لیے کیسی کھلی نشانیاں ہیں ؟ اس نے اسی زمین سے تمھیں پیدا کیا اسی میں لوٹنا ہے اور پھر اسی سے دوسری مرتبہ اٹھائے جاؤ گے۔ “ ہندوستان کے ایک مشہور معاصر عالم نے سورة طہ کی آیت { اَعْطٰی کُلَّ شَیْئٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی } [101] میں ” ہدایت “ کے معنی رہنمائی حواس و عقل تسلیم کرتے ہوئے مفسرین کو بے محل مورد طعن بنایا ہے کہ انھوں نے قرآن عزیز کی آیت زیر بحث کی روح کو نہ پاتے ہوئے غلطی سے یہاں بھی ” ہدیٰ “ کے معنی ہدایت دین و مذہب کے لیے ہیں 1 ؎ اور گویا صرف انھوں نے ہی سب سے پہلی مرتبہ اس روح کو پہچانا اور اس حقیقت پر آگاہی حاصل کی ہے حالانکہ چند مفسرین کے علاوہ قدیم اور جدید عام مفسرین اور محققین نے بھی اس مقام پر ” ہدیٰ “ کے وہی معنی بیان کیے ہیں جن کو اچھوتا اور طبع زاد بتایا گیا ہے۔ 2 ؎ علمائے تفسیر کہتے ہیں کہ فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ان مکالمات میں حضرت ہارون (علیہ السلام) دونوں کے درمیان میں ترجمان ہوتے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دلائل وبراہین کو نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ ادا فرماتے تھے۔ بہرحال مختلف مجالس میں مکالمت کا یہ سلسلہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان میں جاری رہا فرعون حضرت موسیٰ و ہارون (علیہا السلام) کے روشن اور پراز صداقت دلائل سن سن کر اگرچہ پیچ و تاب کھاتا مگر لا جواب ہوجانے کی وجہ سے کوئی صورت نہیں بنتی تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے رستگاری حاصل کرے وہ خوب جانتا تھا کہ میری ربوبیت اور الوہیت کی بنیاد اس قدر کمزور ہے کہ دلائل موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کے سامنے تار عنکبوت کی طرح تار تار ہوجاتی ہے اور درباری بھی اس کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے فرعون کے لیے یہ بات سخت ناقابل برداشت تھی اور جس قلمرو میں اس کے رعب شاہی اور دبدہ حکومت کے ساتھ ساتھ اس کی ربوبیت والوہیت کا جاہ و جلال بھی مانا جاتا ہو وہاں موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) کی یہ جرأت حق اندر ہی اندر اس کو سخت خائف اور پریشان کر رہی تھی اس لیے فرعون نے اب سلسلہ بحث کو ختم کرنے کے لیے دوسرے طریقے اختیار کیے جن میں اپنی طاقت و قہر مانیت کا مظاہرہ ‘ مصری قوم کو موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے خلاف مشتعل کرنا اور ” رب العٰلمین “ سے جنگ کا اعلان کر کے اس بحث کا خاتمہ کردینا شامل تھا چنانچہ اس نے اپنی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا : { وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰٓاَیُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ } [102] ” اور فرعون نے کہا اے جماعت میں تمھارے لیے اپنے سوائے کوئی خدا نہیں جانتا “ اور پھر (اپنے مشیر یا وزیر) ہامان کو حکم دیا : { فَاَوْقِدْ لِیْ یٰھَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ اِلٰٓی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ } [103] ” اے ہامان اینٹیں پکا اور ایک بہت بلند عمارت بنا شاید اس پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کا پتہ لگا سکوں اور میں تو بلاشبہ اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں۔ “ { وَقَالَ فِرْعَوْنُ یَا ہَامَانُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِلٰی اِلٰہِ مُوْسٰی وَاِنِّیْ لاَظُنُّہُ کَاذِبًا وَکَذٰلِکَ زُیِّنَ لِفِرْعَوْنَ سُوْٓئُ عَمَلِہٖ وَصُدَّ عَنِ السَّبِیْلِ وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍ } [104] ” اور فرعون نے کہا اے ہامان میرے لیے ایک بلند عمارت تیار کرتا کہ میں آسمانوں کی بلندیوں اور ان کے ذرائع تک دسترس حاصل کرسکوں اور اس طرح موسیٰ کے خدا کا حال معلوم کرسکوں اور میں تو اس کو جھوٹا سمجھتا ہوں اسی طرح فرعون کے لیے اس کی بدعملی کو خوبصورت کر دیا گیا اور وہ راہ حق سے (بدعملی پر اصرار کی وجہ سے) روک دیا گیا اور فرعون کے مکر کا آخری انجام ہلاکت ہے۔ “ حضرت شاہ عبد القادر (نور اللہ مرقدہ) موضح القرآن میں ارشاد فرماتے ہیں کہ آیت { مَا عَلِمْتُ لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ } [105] سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون دہری (ناستک) تھا اور کتب تفسیر و تاریخ میں جو مصر قدیم کے تاریخی حوالجات نقل کیے گئے ہیں ان سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ مصری دیوتاؤں کے پرستار تھے اور ان کا سب سے بڑا دیوتا آمن راع (سورج دیوتا) تھا اور وہ خدائے واحد کے کسی معنی میں بھی قائل نہ تھے بلکہ تمام کائنات کی تخلیق اور ان کے ہر قسم کے معاملات و حادثات کا تعلق کواکب و سیارات اور ان دیوتاؤں ہی سے متعلق سمجھتے تھے اور غالباً فرعون اور اس کی قوم کا عقیدہ ہندوستان کے ” جین مت “ کے قریب قریب تھا کیونکہ جینی بھی خدا کے منکر مگر دیوتاؤں کے پرستار ہیں۔
ہامان کے متعلق قرآن عزیز نے کوئی تصریح نہیں کی کہ یہ کسی شخصیت کا نام ہے یا عہدہ اور منصب کا ‘ اور اس کا منصب و عہدہ فرعون کے دربار میں کیا تھا اور نہ ان اس نے اس پر روشنی ڈالی کہ ہامان نے عمارت تیار کرائی یا نہیں اور فرعون نے پھر اس پر چڑھ کر کیا کیا ؟ کیونکہ یہ اس کے مقصد کے لیے غیر ضروری تھا توراۃ نے بھی اس کے متعلق کوئی اشارہ نہیں کیا بلکہ اس نے فرعون کے عمارت بنانے کے حکم کا بھی کوئی ذکر نہیں کیا البتہ مفسرین نے یہ قصہ ضرور نقل کیا ہے کہ جب ہامان نے ایک بہت اونچا مینارہ تیار کرا کے فرعون کو اطلاع دی تو فرعون اس پر چڑھا اور تیر کمان ہاتھ میں لے کر آسمان کی طرف تیر پھینکا ‘ قدرت الٰہی کے فیصلہ کے مطابق وہ تیر خون آلود ہو کر واپس ہوا فرعون نے یہ دیکھ کر غرور اور شیخی کے ساتھ مصریوں سے کہا کہ لو اب میں نے موسیٰ کے خدا کا بھی قصہ تمام کر دیا۔ واللّٰہ اعلم فرعون نے درباریوں ‘ عام قبطیوں اور ہامان پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں اپنی شکست کو چھپانے کے لیے اگرچہ مسطورہ بالا طریقہ اختیار کیا مگر وہ خود بھی سمجھتا تھا کہ یہ ایک دھوکا ہے اور بس ‘ اس سے دلوں کی تسلی نہیں ہو سکتی اور بہت ممکن ہے کہ بہت سے مصری بھی اس کو سمجھتے ہوں تاہم درباریوں اور خواص و عوام میں ایک بھی ایسا رجل رشید نہ تھا جو جرأت و حق گوئی کے ساتھ اس حقیقت کا اعلان کردیتا اور رشد و ہدایت کی قبولیت کا دروازہ وا کرتا۔
غرض فرعون کا خدشہ بڑھتا ہی رہا ‘ اس کو حق و باطل کی اس کشمکش میں اپنے لیے سخت خطرہ نظر آ رہا تھا اس لیے اس نے معاملہ کو صرف یہیں ختم نہیں کر دیا بلکہ ضروری سمجھا کہ اپنی سطوت و جبروت اور قہرمانیت کا اثر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہا السلام) پر بھی ڈالے اور اس طرح ان کو مرعوب کر کے پیغام حق کے فرض سے ان کو باز رکھے ‘ چنانچہ کہنے لگا ” موسیٰ اگر تو نے میرے سوائے اور کسی کو معبود قرار دیا تو میں تجھ کو قید میں ڈال دوں گا “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا ” اگرچہ میں تیرے پاس خدائے واحد کی جانب سے واضح نشان لے کر آیا ہوں تب بھی تیرے غلط راستے کو اختیار کرلوں ؟ “ فرعون نے کہا ” اگر واقعی تو اس بارے میں سچا ہے تو کوئی ” نشان “ دکھا۔ “ { قَالَ لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰـہًَا غَیْرِی لاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ قَالَ اَوَلَوْ جِئْتُکَ بِشَیْئٍ مُّبِیْنٍ قَالَ فَاْتِ بِہٖ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ } [106] ” (فرعون نے) کہا اگر تو نے میرے سوائے کسی کو معبود بنایا تو میں تجھے ضرور قید کروں گا موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا اگرچہ میں تیرے پاس ظاہر نشان لایا ہوں تب بھی ؟ فرعون نے کہا اگر تو سچا ہے تو وہ نشان دکھا۔ “ { قَالَ اِنْ کُنْتَ جِئْتَ بِاٰیَۃٍ فَاْتِ بِھَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ } [107] ” (فرعون نے) کہا اگر تو اپنے خدا کے پاس سے کوئی نشانی لایا ہے تو اس بارے میں سچا ہے تو لا وہ نشان دکھا۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھے اور بھرے دربار میں فرعون کے سامنے اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈالا اسی وقت اس نے اژدہا کی شکل اختیار کرلی اور یہ حقیقت تھی ‘ نظر کا دھوکا نہ تھا اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ کو گریبان کے اندر لے جا کر باہر نکالا تو وہ ایک روشن ستارہ کی طرح چمکتا ہوا نظر آ رہا تھا یہ دوسری نشانی اور دوسرا معجزہ تھا۔
فرعون کے درباریوں نے جب اس طرح ایک اسرائیلی کے ہاتھوں اپنی قوم اور اپنے بادشاہ کی شکست کو دیکھا تو تلملا اٹھے اور کہنے لگے : بلاشبہ یہ بہت بڑا ماہر جادو گر ہے اور اس نے یہ سب ڈھونگ اس لیے رچایا ہے کہ تم پر غالب آ کر تم کو تمھاری سرزمین (مصر) سے باہر نکال دے ‘ لہٰذا اب ہم کو سوچنا ہے کہ اس کے متعلق کیا ہونا چاہیے آخر فرعون اور فرعونیوں کے باہمی مشورہ سے یہ طے پایا کہ فی الحال تو اس کو اور ہارون ((علیہا السلام)) کو مہلت دو اور اس دوران میں تمام قلمرو سے ماہر جادو گروں کو دار السلطنت میں جمع کرو اور موسیٰ ((علیہ السلام)) کا مقابلہ کراؤ بلاشبہ یہ شکست کھاجائے گا اور اس کے تمام ارادے خاک میں مل جائیں گے تب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا : موسیٰ ہم خوب سمجھ گئے کہ تو اس حیلہ سے ہم کو سرزمین مصر سے بے دخل کرنا چاہتا ہے لہٰذا اب تیرا علاج اس کے سوائے کچھ نہیں ہے کہ بڑے بڑے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے تجھ کو شکست دلائی جائے اب تیرے اور ہمارے درمیان مقابلے کے دن کا معاہدہ ہونا چاہیے اور پھر نہ ہم اس سے ٹلیں گے اور نہ تو وعدہ خلافی کرنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اس کام کے لیے سب سے پہلا وقت ” یوم الزینہ “ (جشن کا روز) ہے اس دن سورج بلند ہونے پر ہم سب کو میدان میں موجود ہونا چاہیے۔ { فَاَلْقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ھِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌ وَّ نَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ھِیَ بَیْضَآئُ لِلنّٰظِرِیْنَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ یُّرِیْدُ اَنْ یُّخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ فَمَاذَا تَاْمُرُوْنَ قَالُوْٓا اَرْجِہْ وَ اَخَاہُ وَ اَرْسِلْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَ یَاْتُوْکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ } [108] ” پس موسیٰ نے اپنی لاٹھی کو ڈالا پھر اچانک وہ اژدہا تھی صاف اور ظاہر اور اس نے ہاتھ کو گریبان سے نکالا تو دیکھنے والوں کے لیے چمکتا ہوا روشن تھا فرعونیوں کی ایک جماعت نے کہا بلاشبہ یہ ماہر جادو گر ہے اس کا ارادہ ہے کہ تم کو تمھاری سرزمین (مصر) سے نکال دے پس تمھارا کیا مشورہ ہے انھوں نے کہا اس کو اور اس کے بھائی ہارون کو مہلت دو اور شہروں میں ایک جماعت کو بھیجو جو ماہر جادو گروں کو اکٹھا کر کے لائے۔ “ { ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِھِمْ مُّوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِہٖ بِاٰیٰتِنَا فَاسْتَکْبَرُوْا وَ کَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ فَلَمَّا جَآئَھُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْٓا اِنَّ ھٰذَا لَسِحْرٌ مُّبِیْنٌ قَالَ مُوْسٰٓی اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَآئَکُمْ اَسِحْرٌ ھٰذَا وَ لَا یُفْلِحُ السّٰحِرُوْنَ قَالُوْٓا اَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَنَا وَ تَکُوْنَ لَکُمَا الْکِبْرِیَآئُ فِی الْاَرْضِ وَ مَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِیْنَ وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِیْ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیْمٍ } [109] ” پھر ہم نے ان رسولوں کے بعد موسیٰ اور ہارون کو بھیجا فرعون اور اس کے درباریوں کی طرف وہ ہماری نشانیاں اپنے ساتھ رکھتے تھے مگر فرعون اور اس کے درباریوں نے گھمنڈ کیا اور ان کا گروہ مجرموں کا گروہ تھا پھر جب ہماری جانب سے سچائی ان میں نمودار ہو گئی تو کہنے لگے یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ جادو ہے صریح جادو موسیٰ نے کہا تم سچائی کے حق میں جب وہ نمودار ہو گئی ایسی بات کہتے ہو ؟ کیا یہ جادو ہے ؟ حالانکہ جادو گر تو کبھی کامیابی نہیں پاسکتے انھوں نے جواب میں کہا کیا تم اس لیے ہمارے پاس آئے ہو جس راہ پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو چلتے دیکھا اس سے ہمیں ہٹا دو اور ملک میں تم دونوں بھائیوں کے لیے سرداری ہوجائے ؟ ہم تو تمھیں ماننے والے نہیں اور فرعون نے کہا لاؤ میرے پاس ہر قسم کے ماہر ساحر۔ “ { قَالَ اَجِئْتَنَا لِتُخْرِجَنَا مِنْ اَرْضِنَا بِسِحْرِکَ یٰمُوْسٰی فَلَنَاْتِیَنَّکَ بِسِحْرٍ مِّثْلِہٖ فَاجْعَلْ بَیْنَنَا وَبَیْنَکَ مَوْعِدًا لَّا نُخْلِفُہٗ نَحْنُ وَ لَآ اَنْتَ مَکَانًا سُوًی قَالَ مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیْنَۃِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی } [110] ” اس نے کہا اے موسیٰ کیا تو ہمارے پاس اس لیے آیا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں ہمارے ملک سے نکال باہر کرے ؟ اچھا ہم بھی اسی طرح کے جادو کا کرتب لا دکھائیں گے ہمارے اور اپنے درمیان میں ایک دن (مقابلہ کا) مقرر کر دے نہ تو ہم اس سے پھریں نہ تو ‘ دونوں کی جگہ برابر ہوئی موسیٰ نے کہا جشن کا دن تمھارے لیے مقرر ہوا ‘ دن چڑھے لوگ اکٹھے ہوجائیں۔ “ غرض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان میں ” یوم الزینہ “ طے پا گیا اور فرعون نے اسی وقت اپنے اعیان و ارکان کے نام احکام جاری کر دیے کہ تمام قلمرو میں جو مشہور اور ماہر جادو گرہوں ان کو جلد از جلد دار الحکومت روانہ کر دو۔ نجار مصری کہتے ہیں کہ غالباً یوم الزینہ سے مصریوں کی عید کا وہ دن مراد ہے جو ” وفاء النیل “ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ ان کے یہاں تمام عیدوں میں سے سب سے بڑی عید کا دن یہی تھا۔ [111]
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بعثت کا زمانہ مصری تمدن کی جو تاریخ پیش کرتا ہے اس میں یہ بات بہت نمایاں نظر آتی ہے کہ مصری علوم و فنون میں ” سحر “ کو ایک مستقل علم و فن کی حیثیت حاصل تھی اور اسی بنا پر ساحرین کا رتبہ مصریوں میں بہت بڑا سمجھا جاتا تھا حتیٰ کہ ان کو شاہی دربار میں بھی بڑا رسوخ حاصل تھا اور جنگ و صلح ‘ پیدائش و وفات کی زائچہ کشی اور اہم سرکاری معاملات میں بھی انھیں کی جانب رجوع کیا جاتا تھا اور ان کے ساحرانہ نتائج کو بڑی وقعت دی جاتی تھی حتیٰ کہ مذہبی معاملات میں بھی ان کو اہم جگہ دی جاتی تھی قدیم شاہی مقبروں میں ممی (حنوط شدہ نعشوں) کے ساتھ جو کاغذات و دستاویزات برآمد ہوئی ہیں اور ان حجروں میں جو تصاویر و نقوش پائے جاتے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ قدیم قوموں کی عام گمراہیوں میں سے ایک گمراہی یہ بھی رہی ہے کہ وہ جادو پر مذہبی حیثیت سے اعتقاد رکھتے اور اس کو اپنی مذہبی زندگی میں اثر انداز یقین کرتے تھے اور اسی اعتقاد کے پیش نظر وہ اس کو سیکھتے اور سکھاتے بھی تھے اور اس میں طرح طرح کی ایجادات و اختراعات کرتے رہتے تھے چنانچہ بابل (عراق) ‘ مصر ‘ چین اور ہندوستان کی تاریخ اس کی شاہد ہے۔ یہی وجہ تھی کہ مصری قوم پر فرعون اور اس کے اعیان و ارکان حکومت کا یہ جادو چل گیا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) جادو گر ہے اور یہ اپنے جادو کی مہارت کے اثر و رسوخ کو کام میں لا کر مصری حکومت پر قابض ہونا اور تم کو اس سے خارج کردینا چاہتا ہے اور اب اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اپنے قلمرو کے ماہر جادو گروں کو جمع کر کے موسیٰ ((علیہ السلام)) کو شکست دے دی جائے اور اس کی اس چال کو پادر ہوا بنادیا جائے موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اس بات کو اس لیے غنیمت جانا کہ وہ خدائے تعالیٰ کے جس قدر نشانات (معجزات) فرعون اور قوم فرعون کو دکھا چکے تھے انھوں نے ان کو یہ کہہ کر رد کر دیا تھا کہ یہ تو جادو اور سحر ہے لہٰذا اب جبکہ ساحروں اور جادو گروں سے مقابلہ کے بعد بھی خدا کا معجزہ غالب رہے گا تو ناچار ان کو صداقت اور حق کے سامنے جھکنا پڑے گا اور اقرار کیے بغیر کوئی چارہ نہ رہے گا نیز یہ سوچا کہ اگرچہ ” وحی الٰہی “ کے یقین اور روشن حجت وبرہان کے ذریعہ آیات اللہ (معجزات) کی صداقت کا کافی یقین دلایا جا چکا ہے تاہم فرعون اور اعیان سلطنت ہمیشہ ان واقعات کو سحر اور جادو کہہ کر عوام کو اصل حقیقت سے بیخبر رکھنے کی کوشش کرتے رہے یا شدید حسد اور تعصب نے خود ان کو بھی حقیقی روشنی سے محروم رکھا پس اگر جشن کے روز خواص و عوام کے مجمع میں ساحر اور جادو گر عاجز ہو کر میری صداقت کا اقرار کر لیں تو پھر کسی کو بھی لب کشائی کا موقع نہ رہے گا اور برسر عام حق کا مظاہرہ منصب تبلیغ کے لیے بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔
لغت میں ” سحر “ کے معنی امر خفی اور پوشیدہ چیز کے ہیں چنانچہ صبح کے اول وقت کو ” سحر “ اس لیے کہتے ہیں کہ ابھی دن کی روشنی پوری طرح نمودار نہیں ہوئی اور قدرے تاریکی ہے اور علمی اصطلاح میں ایسے عجیب و غریب امور کا نام جن کے وجود پزیر ہونے کے اسباب نظر سے اوجھل ہوں اور بادی النظر میں محسوس نہ ہوتے ہوں۔ [112] ” واضح رہے کہ لفظ ” سحر “ شریعت کی اصطلاح میں ایسے امر کے لیے مخصوص ہے جس کا سبب پوشیدہ ہو اور وہ اصل حقیقت کے خلاف خیال میں آنے لگے۔ “ سحر کی حقیقت کچھ ہے یا وہ محض نظر کا دھوکا اور بے حقیقت شے ہے ؟ اس کے متعلق جمہور علمائے اہل سنت کی یہ رائے ہے کہ سحر واقعی ایک حقیقت ہے اور مضرت رساں اثرات رکھتا ہے حق تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ اور مصلحت کاملہ کے پیش نظر اس میں اسی طرح مضر اثرات رکھ دیے ہیں جس طرح زہر میں یا دوسری نقصان رساں ادویہ میں ‘ یہ نہیں ہے کہ سحر قدرت الٰہی سے بے نیاز ہو کر العیاذ باللّٰہ خود موثر بالذات ہے کیونکہ یہ عقیدہ تو کفر خالص ہے۔ اور امام اعظم ابوحنیفہ ;، ابوبکر جصاص ; صاحب احکام القرآن ‘ ابو اسحاق اسفرائنی شافعی ‘ علامہ ابن حزم ظاہری ; اور معتزلہ کہتے ہیں کہ ” سحر “ کی حقیقت شعبدہ نظر بندی اور فریب خیال کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے بلاشبہ وہ ایک باطل اور بے حقیقت شے ہے چنانچہ ابوبکر رازی فرماتے ہیں : ( (ومتیٰ اطلق فھو اسم لکل امر مموۃ باطل لا حقیقۃ لہ ولا ثبات)) [113] ” اور جب ” سحر “ کو کسی قید کے بغیر استعمال کیا جائے تو وہ ایک ایسے امر کا نام ہے جو محض دھوکا اور باطل ہو جس کی اس سے زیادہ نہ کوئی حقیقت ہو اور نہ اس کو ثبات حاصل ہو۔ “ اور حافظ عماد الدین ابن کثیر لکھتے ہیں : ( (وقد ذکر الوزیر ابو المظفر یحییٰ بن محمد بن ھبیرۃ فی کتابہ ” الاشراف فی مذہب الاشراف “ باب فی السحر فقال اجمعوا علیٰ ان السحر لہ حقیقۃ الا ابا حنیفۃ فانہ قال لا حقیقۃ لہ عندہ)) [114] اور وزیر ابوالمظفر یحییٰ بن محمد بن ہبیرہ نے اپنی کتاب ” الاشراف فی مذہب الاشراف “ میں ایک باب سحر کے متعلق بھی رکھا ہے اس میں انھوں نے بیان کیا ہے کہ علما کا اس پر اتفاق ہے کہ سحر کی بھی حقائق کی طرح ایک حقیقت ہے مگر امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ وہ قطعاً بے حقیقت شے ہے۔ “ ( (قال ابو عبد اللہ القرطبی وعندنا ان السحر حق ولہ حقیقۃ ویخلق اللہ عندہ ما یشاء خلافا للمعتزلۃ وابی اسحٰق الاسفرائینی من الشافعیۃ حیث قالوا انہ تمویہ او تخییل الخ)) [115] ” ابو عبد اللہ بن قرطبی کہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک سحر حقیقت ہے اور ایک واقعی شے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے جو چاہتا ہے پیدا کردیتا ہے مگر معتزلہ اور شوافع میں سے ابو اسحاق اسفرائنی اس قول کے مخالف ہیں وہ کہتے ہیں کہ سحر محض فریب نظر اور خیال بندی کا نام ہے۔ “ اور حافظ ابن حجر عسقلانی تحریر فرماتے ہیں : ( (واختلف فی السحر فقیل ھو تخییل فقط ولا حقیقۃ لہ وھذا اختیار ابی جعفر الاستر ابادی من الشافعیۃ وابی بکر الرازی من الحنفیۃ وابن حزم الظاھری وطائفۃ قال النووی والصحیح ان لہ حقیقۃ وبہ قطع الجمھور وعلیہ عامۃ العلماء)) [116] ” اور سحر کے متعلق اختلاف ہے بعض نے یہ کہا ہے کہ وہ فقط تخییل کا نام ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ ابو جعفر شافعی ‘ ابوبکر رازی اور ابن حزم ظاہری اور ایک چھوٹی جماعت کا خیال ہے اور نووی فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ سحر حقائق میں سے ایک حقیقت ثابتہ ہے اور جمہور اسی پر یقین رکھتے ہیں اور عام علما کا یہی مسلک ہے۔ “ اور جو علما سحر کو حقیقت تسلیم کرتے ہیں ان کے درمیان میں پھر یہ اختلاف رائے ہے کہ کیا خدائے تعالیٰ نے سحر میں یہ تاثیر بخشی ہے کہ وہ حقائق اور ماہیات میں بھی انقلاب کر دے یا مضرت رساں اشیاء کی طرح صرف نقصان دہ ہے اور یہ ناممکن ہے کہ اس کے اثر سے انسان کی حقیقت گھوڑے میں تبدیل ہوجائے یا گدھا مثلاً انسان ہوجائے پس ایک چھوٹے سے گروہ کا خیال یہ ہے کہ اس کے اندر انقلاب ماہیت کی تاثیر بھی و دیعت ہے اور جمہور کی رائے یہ ہے کہ اس میں یہ تاثیر قطعاً ودیعت نہیں اور سحر کے ذریعہ کسی بھی ماہیت کا انقلاب نہیں ہوتا بلکہ اس مرحلہ پر وہ محض نظر بندی اور قوت متخیلہ کی شعبدہ بازی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا چنانچہ حافظ ابن حجر اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ( (لکن محل النزاع ھل یقع بالسحر انقلاب عین اولا فمن قال انہ تخییل فقط منع ذالک ومن قال ان لہ حقیقۃ اختلفوا ھل لہ تاثیر فقط بحیث یغیر المزاج فیکون نوعا من الامراض او ینتھی الی الاحالۃ بحیث یصیر الجماد حیوانا مثلا وعکسہ فالذی علیہ الجمہور ھو الاول وذھبت طائفۃ قلیلۃ الی الثانی الخ)) [117] ” لیکن محل نزاع یہ امر ہے کہ سحر سے ذات کا انقلاب ہوجاتا ہے یا نہیں پس جس شخص نے یہ کہا ہے کہ محض تخییل کا نام ہے وہ تو انقلاب کے منکر ہیں اور جو سحر کو حقیقت مانتے ہیں وہ اس بارے میں مختلف الرائے ہیں کہ آیا سحر کی تاثیر اسی حد تک ہے کہ مزاج میں اس قسم کے تغیرات پیدا کر دے جس طرح امراض میں ہوا کرتا ہے اور وہ بھی ایک مرض شمار ہو یا اس کی تاثیر اس سے زیادہ ہے کہ ایک شے کی حقیقت کو بدل ڈالے مثلاً جماد کو حیوان بنا دے یا اس کا عکس کر دے پس جمہور پہلی بات کے قائل ہیں اور ایک چھوٹی سی جماعت دوسری بات کی “ اور اس تمام این و آں کے بعد ساحرین فرعون کے اس ساحرانہ مظاہرہ کے متعلق جو جشن کے دن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں کیا گیا حافظ ابن حجر تصریح کرتے ہیں کہ تمام علما کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ محض تخییل اور تمویہ کی حد تک تھا اور ابوبکر جصاص اور ابن حجر ; دونوں یہ تفصیل دیتے ہیں کہ ساحرین فرعون کی لاٹھیاں اور چمڑے کی رسیاں سانپ نہیں بن گئی تھیں بلکہ ان کے اندر پارہ بھر دیا گیا تھا اور جس زمین میں یہ مظاہرہ کیا گیا تھا اس کو کھوکھلا کر کے اس کے اندر آگ بھر دی گئی تھی چنانچہ وقت معین پر نیچے کی گرمی سے پارہ میں حرکت پیدا ہو گئی اور وہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ کی طرح دوڑتی نظر آنے لگیں۔ 1 ؎ امام رازی نے تفسیر کبیر میں ” سحر “ پر بحث کرتے ہوئے لغوی معنی کے پیش نظر ان تمام اشیاء کو ابھی اقسام سحر میں شمار کرایا ہے جو عام نگاہوں میں تعجب خیز اور حیرت زا سمجھے جاتے ہیں مثلاً مسمریزم ‘ ہپناٹزم ‘ تعویذات ‘ حیرت زا نقاشی اور سائنس کی ایجادات اور دنیا کے مختلف عجائبات حتیٰ کہ مقرر کی جادو بیانی کو بھی اس عمومیت میں شامل کر لیا ہے ایک موقع پر نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی ارشاد فرمایا ہے : (ان من البیان لسحرا)) [118] ” بلاشبہ بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔ “ پس یہ واضح رہے کہ ان اقسام کا اس سحر سے کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں ہے جو مذہب اور اخلاق کی نگاہ میں مذموم ‘ گمراہی یا کفر سمجھا جاتا ہے۔
فقہائے اسلام نے سحر کے متعلق تصریح کی ہے کہ جن اعمال سحر میں شیاطین ‘ ارواح خبیثہ اور غیر اللہ سے استعانت کی جائے اور ان کو حاجت روا قرار دے کر منتروں کے ذریعہ ان کی تسخیر سے کام لیا جائے تو وہ شرک کے مترادف ہے اور اس کا عامل کافر ہے۔ اور جن اعمال میں اس کے علاوہ دوسرے طریقے استعمال کیے جائیں اور ان سے دوسروں کو نقصان پہنچایا جائے ان کا مرتکب حرام اور گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے۔ قرآنِ عزیز میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ میں مذکور ہے : { وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ } [119] ” اور سلیمان نے کفر نہیں کیا لیکن شیاطین نے کفر کیا ‘ سکھاتے تھے وہ لوگوں کو سحر۔ “ اور حدیث میں ہے : ( (ان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال اجتنبوا الموبقات الشرک باللہ والسحر)) [120] ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مہلک باتوں سے بچو یعنی شرک سے اور جادو سے۔ “ اور حافظ ابن حجر حدیث سحر پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں ( (قال النووی عمل السحر حرام وھو من الکبائر بالاجماع وقد عدہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) من السبع الموبقات ومنہ ما یکون کفرا ومنہ لا یکون کفرا بل معصیۃ کبیرۃ فان کان فیہ قول او فعل یقتضی الکفر فھو کفر و الافلا واما تعلمہ وتعلیمہ فحرام)) [121] ” نووی کہتے ہیں عمل سحر حرام ہے اور وہ بالاجماع کبائر میں سے ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو سات مہلک چیزوں میں یہ تفصیل ہے ان اقوال کی جو سحر کے متعلق علمائے سلف و خلف میں دائر رہے ہیں۔ ہم نے فریقین کے دلائل اور ان سے متعلق معرکۃ الٓاراء مباحث کو اس مقام پر قصداً ترک کر دیا ہے۔ اس لیے کہ اس حیثیت سے اس مسئلہ کو چھیڑنا ایسی طوالت کا باعث ہے جو ہم کو کتاب کے مقصد سے دور لے جاتا ہے اور اختصار کے ساتھ بیان کرنا بجائے فائدے کے نقصان دہ نظر آتا ہے۔ سے شمار کیا ہے اور سحر کی بعض صورتیں کفر ہیں اور بعض کفر تو نہیں ہیں بلکہ سخت معصیت ہیں پس اگر سحر کا کوئی منتر یا کوئی عمل کفر کا مقتضی ہے تو وہ کفر ہے ورنہ نہیں بہرحال سحر کا سیکھنا اور سکھانا قطعاً حرام ہے۔ “
علمائے اسلام میں بحث ہمیشہ سے معرکہ آرا رہی ہے کہ سحر اور معجزہ میں کیا فرق ہے ؟ ایک شخص یہ کیسے اندازہ لگائے کہ یہ نبی و پیغمبر کا معجزہ ہے یا ساحر اور جادو گر کا سحر اور جادو ؟ اس سلسلہ میں جو اہم علمی دلائل وبراہین پیش کیے گئے ہیں اس کے لیے علم کلام کی کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے خصوصاً شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب النبوات اور شیخ محمد سفارینی کی شرح عقیدہ سفارینی قابل مطالعہ ہیں البتہ اس مقام پر ایک سہل الوصول اور آسان دلیل پیش کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے : نبی اور رسول کا اصل معجزہ اس کی وہ تعلیم ہوتی ہے جو وہ گم گشتگان راہ حق اور بھٹکی ہوئی قوموں کی ہدایت کے لیے نسخہ کیمیا اور دینی و دنیوی فلاح و کامرانی کے لیے بے نظیر قانون کی شکل میں پیش کرتا ہے یعنی ” کتاب اللّٰہ “ لیکن جس طرح ارباب علم و حکمت اس کے لائے ہوئے علوم و حکم اور بتائی ہوئی رشد و ہدایت کی صداقت و کمال کو پرکھتے ہیں اسی طرح عام انسانی دنیا کی سرشت و نہاد اس پر قائم ہے کہ وہ سچائی اور صداقت کے لیے بھی بعض ایسی چیزوں کے خواہش مند ہوتے ہیں جو لانے والے کے روحانی کرشموں سے تعلق رکھتی ہوں اور جن کے مقابلہ سے تمام دنیوی طاقتیں عاجز ہوجاتی ہوں کیونکہ ان کا مبلغ علم کسی صداقت کے لیے اسی کو معیار قرار دیتا ہے۔ اس لیے ” سنت اللّٰہ “ یہ جاری رہی ہے کہ وہ انبیا و رسل کو دین حق کی تعلیم و پیغام کے ساتھ ایک یا چند ” نشانات “ (معجزات) بھی عطا کرتا ہے اور جب وہ دعویٰ نبوت کے ساتھ بغیر اسباب کے ایسا ” نشان “ دکھاتا ہے جس کا کوئی دنیوی طاقت مقابلہ نہیں کرسکتی تو اس کا نام ” معجزہ “ ہوتا ہے۔ اور اسی لیے یہ بھی سنت اللہ ہے کہ کسی نبی و رسول کو جو معجزہ یا نشان دیا جاتا ہے وہ اسی نوع میں سے ہوتا ہے جس میں اس قوم کو جس کو کہ سب سے پہلے اس پیغمبر نے خطاب کیا ہے درجہ کمال حاصل ہو اور وہ اس کے تمام دقائق سے بخوبی آگاہ ہوتا کہ اس کو یہ سمجھنے میں آسانی ہو سکے کہ پیغمبر کا یہ نشان انسانی اور بشری طاقت سے بالاتر قوت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اگر تعصب اور ہٹ دھرمی حائل نہ ہو تو وہ بے ساختہ یہ اقرار کرلے کہ : ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشند خدائے بخشندہ اور اس طرح ہر فرد بشر پر خدا کی حجت تمام ہوجائے۔ پس معجزہ دراصل براہ راست خدائے تعالیٰ کا فعل ہے جو بغیر اسباب کے ایک صادق کی صداقت کے لیے وجود میں آتا ہے اور وہ کسی اصول و قوانین پر مبنی نہیں ہوتا کہ ایک فن کی طرح سیکھا جاسکے اور نبی ہر وقت اس کے کر دکھانے پر قادر ہو تاقتی کہ مخالفین صداقت کے سامنے بطور تحدی (چیلنج) اس کو دکھانے کی ضرورت پیش نہ آجائے ‘ سو جب وہ اہم وقت آتا ہے اور ” نبی “ خدا سے رجوع کرتا ہے تو خدائے تعالیٰ کی جانب سے اس کو کر دکھانے کی قوت عطا ہوجاتی ہے بخلاف سحر اور جادو کے کہ وہ ایک فن ہے جس کو اس کے اصول و قوانین کی پابندی کے ساتھ ہر فن داں ساحر ہر وقت کام میں لاسکتا ہے۔ اس کے اسباب اگرچہ عام نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں لیکن اس فن کے تمام واقف کار اس سے واقف ہوتے ہیں اسی لیے وہ دوسرے علوم فنون کی طرح مدون و مرتب فن ہے جس کو مصریوں ‘ چینیوں اور ہندیوں نے بہت فروغ دیا اور حد کمال کو پہنچایا۔ یہ مسئلہ کی علمی حیثیت ہے جس سے معجزہ اور سحر کی حدود قطعاً جدا اور متمائز ہوجاتی ہیں ‘ رہا حس اور مشاہدہ کا معاملہ تو معجزہ اور سحر میں یہ فرق ہے کہ ساحر کی عام زندگی خوف و دہشت ‘ ایذاء رسانی اور بدعملی سے وابستہ ہوتی ہے اور لوگ اس نظر سے ساحر سے خوف کھاتے ہیں یا اس کے سامنے مرعوب ہوجاتے ہیں بخلاف نبی اور رسول کے کہ اس کی تمام زندگی صداقت ‘ خلوص ‘ مخلوق خدا کی ہمدردی و غمگساری ‘ اور تقویٰ و طہارت سے وابستہ ہوتی ہے اور اس کا کریکٹر بے داغ اور صاف اور روشن ہوتا ہے اور وہ معجزہ کو پیشہ نہیں بناتا بلکہ خاص اہم موقع پر صداقت اور حق کی حمایت میں اس کا مظاہرہ کرتا ہے اور وہ ایسے وقت معجزہ دکھاتا ہے جبکہ دشمن بھی اس کی عصمت و صداقت اور کریکٹر کی پاکیزگی کے پہلے سے معترف ہوتے ہیں مگر اس کی دعوت کو یا شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یا جحود و انکار کے نقطہ نظر سے اور پھر اس سے معجزہ کے طالب ہوتے ہیں نیز اگر سحر اور معجزہ کا مقابلہ آن پڑے تو معجزہ غالب رہے گا اور اعلیٰ سے اعلیٰ سحر بھی مغلوب و عاجز اور اس کا عکس محال اور ناممکن ہے چنانچہ ساحرین اور انبیا و رسل کے مقابلہ کی تاریخ اس کی شاہد عدل ہے۔ الحاصل موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا کے نشانات (معجزہ) اس لیے عطا کیے گئے کہ ان کے زمانے میں مصر سحر اور جادو کا مرکز تھا اور فن سحر شباب پر ‘ اور مصریوں نے تمام دنیا کے مقابلہ میں اس کو اوج کمال تک پہنچا دیا تھا۔ لہٰذا سنت اللّٰہ کا تقاضا تھا کہ ایسے زمانہ میں موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے نشانات (معجزات) عطا کیے جائیں جو اسی نوع سے متعلق ہوں تاکہ جب انکار پر اصرار حد سے بڑھ جائے اور معاندین و مخالفین اپنے محیر العقول سحر اور جادو کے ذریعہ ان کے مقابلہ پر آجائیں تو خدا کے نشان (معجزات و آیات اللہ) مخالفوں کو یہ باور کرا دیں کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جو قوت و طاقت ہے وہ انسانی صنعتوں اور عجوبہ کاریوں سے بلند اور بشری دسترس سے باہر ہے اور اس طرح عوام و خواص کو ان کی صداقت اور ان کے ” من اللّٰہ “ ہونے کا یقین آجائے اور خواہ زبان اقرار کرے یا نہ کرے لیکن ان کا عجز اور ان کی درماندگی علیٰ رؤس الاشہاد ان کے دلوں کے اقرار کی شہادت دینے لگے۔
بہرحال یوم جشن آپہنچا میدان جشن میں تمام شاہانہ کرو فر کے ساتھ فرعون تخت نشین ہے اور درباری بھی حسب مراتب بیٹھے ہیں اور لاکھوں انسان حق و باطل کے معرکہ کا نظارہ کرنے کو جمع ہیں ایک جانب مصر کے مشہور جادو گروں کا گروہ اپنے سازو سامان سحر سے لیس کھڑا ہے اور دوسری جانب خدا کے رسول ‘ حق کے پیغامبر ‘ سچائی اور راستی کے پیکر ‘ حضرت موسیٰ و حضرت ہارون (علیہا السلام) کھڑے ہیں فرعون بہت مسرور ہے اور اس یقین پر کہ ساحرین مصر ان دونوں کو جلد ہی شکست دے دیں گے ساحروں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے ‘ اگر تم نے موسیٰ کو شکست دے دی تو نہ صرف انعام و اکرام سے مالا مال کیے جاؤ گے بلکہ میرے دربار میں خاص جگہ پاؤ گے ‘ ساحر بھی اپنی کامیابی کے یقین پر فرعون سے اپنے اعزازو اکرام کا وعدہ لے رہے ہیں اور مستقبل کے تصور سے بہت شاداں اور مسرور ہیں۔ { وَ جَآئَ السَّحَرَۃُ فِرْعَوْنَ قَالُوْٓا اِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَ اِنَّکُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ } [122] ” اور جادو گر فرعون کے پاس آئے اور کہنے لگے کیا اگر ہم موسیٰ ((علیہ السلام)) پر غالب آجائیں تو ہمارے لیے انعام و اکرام ہے ؟ فرعون نے کہا ہاں ضرور ‘ اور یہی نہیں بلکہ مقربین بارگاہ شاہی بنو گے۔ “ { فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیْقَاتِ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ وَقِیْلَ لِلنَّاسِ ہَلْ اَنْتُمْ مُجْتَمِعُوْنَ لَعَلَّنَا نَتَّبِعُ السَّحَرَۃَ اِنْ کَانُوْا ہُمُ الْغَالِبِیْنَ فَلَمَّا جَائَ السَّحَرَۃُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَئِنَّ لَنَا لاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِیْنَ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّکُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ } [123] ” پھر وعدہ کے دن جادو گر جمع ہو گئے اور لوگوں سے کہا گیا کیا تم (اس میدان میں) جمع ہو گے شاید ہم جادو گروں کی پیروی کریں اگر وہ غالب رہیں ‘ سو جب جادو گر آگئے تو انھوں نے فرعون سے کہا کیا ہمارے لیے انعام ہے اگر ہم غالب رہیں ؟ (فرعون نے) کہا ہاں ‘ اور تم اس صورت میں (ہمارے) مقربین میں سے ہو گے۔ “ جادوگروں نے جب اس طرف سے اطمینان کر لیا تو اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف متوجہ ہوئے مگر قبل اس کے کہ ایک دوسرے کو چیلنج کریں حضرت موسیٰ نے حق تبلیغ ادا فرماتے ہوئے مجمع کو مخاطب کر کے فرمایا : تمھاری حالت پر سخت افسوس ہے تم کیا کر رہے ہو ؟ تم ہم کو جادو گر کہہ کر خدا پر جھوٹا الزام نہ لگاؤ مجھ کو ڈر ہے کہیں وہ تم کو اس بہتان طرازی کی سزا میں عذاب دے کر تم کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکے کیونکہ جس کسی نے بھی بہتان باندھا وہ نامراد ہی رہا لوگوں نے یہ سنا تو آپس میں رد و کد شروع کردی اور سرگوشیاں کرنے لگے اور درباریوں نے یہ حال دیکھا تو جادو گروں کو مخاطب کرکے کہنے لگے یہ دونوں بھائی بلاشبہ جادو گر ہیں یہ چاہتے ہیں کہ جادو کے زور سے تم کو تمھارے وطن سے نکال دیں اور تم پر غلبہ کر لیں تم اپنا کام شروع کرو اور پرے باندھ کر موسیٰ کے مقابلہ میں ڈٹ جاؤ ‘ آج جو بھی غالب آجائے گا وہی کامیاب ثابت ہوگا۔ { قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰی وَیْلَکُمْ لَا تَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا فَیُسْحِتَکُمْ بِعَذَابٍ وَ قَدْ خَابَ مَنِ افْتَرٰی فَتَنَازَعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ وَ اَسَرُّوا النَّجْوٰی قَالُوْٓا اِنْ ھٰذٰنِ لَسٰحِرٰنِ یُرِیْدٰنِ اَنْ یُّخْرِجٰکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ بِسِحْرِھِمَا وَ یَذْھَبَا بِطَرِیْقَتِکُمُ الْمُثْلٰی فَاَجْمِعُوْا کَیْدَکُمْ ثُمَّ ائْتُوْا صَفًّا وَ قَدْ اَفْلَحَ الْیَوْمَ مَنِ اسْتَعْلٰی } [124] ” موسیٰ نے کہا افسوس تم پر دیکھو اللہ پر جھوٹی تہمت نہ لگاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی عذاب بھیج کر تمھاری جڑ اکھاڑ دے جس کسی نے جھوٹ بات بنائی وہ ضرور نامراد ہوا پس لوگ آپس میں ردو کد کرنے لگے اور پوشیدہ سرگوشیاں شروع ہوگئیں پھر (درباری) بولے یہ دونوں بھائی ضرور جادو گر ہیں یہ چاہتے ہیں کہ اپنے جادو کے زور سے تمھیں تمھارے ملک سے نکال باہر کریں اور پھر تمھارے شرف اور تمھاری عظمت کے مالک ہوجائیں پس اپنے سارے داؤ جمع کرو اور پرا باندھ کر ڈٹ جاؤ جو آج بازی لے گیا وہی کامیاب ہوگا۔ “
جادوگروں نے آگے بڑھ کر موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا موسیٰ اس قصہ کو چھوڑ اور یہ بتا کہ ابتدا تیری جانب سے ہوگی یا ہماری جانب سے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا کہ ان پر اس تنبیہ کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا تو فرمایا کہ ابتدا تم ہی کرو اور اپنے کمال فن کی پوری حسرت نکال لو چنانچہ ساحروں نے اپنی رسیاں ‘ بان اور لاٹھیاں زمین پر ڈالیں جو سانپ اور اژد ہے کی شکل میں دوڑتی نظر آنے لگیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو دل میں خوف و ہراس محسوس کیا کہ کہیں لوگ اس مظاہرہ سے متاثر نہ ہوجائیں اور ساحروں کے سحر کو حقیقت نہ سمجھ لیں کیونکہ اگر ایسا ہوا تو یہ تاثر اور رعب قبول حق کے لیے سد راہ بن جائے گا تب خدائے تعالیٰ نے ان کو مطمئن فرمایا اور وحی کے ذریعہ مطلع کیا کہ موسیٰ خوف نہ کھاؤ ہمارا وعدہ ہے کہ تم ہی غالب رہو گے اپنی لاٹھی کو زمین پر ڈالو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب لاٹھی کو ڈالا تو اژدہا بن کر اس نے ساحروں کے تمام شعبدوں کو نگل لیا اور تھوڑی سی دیر میں سارا میدان صاف ہو گیا اور اس طرح ساحر اپنے سحر میں ناکامیاب رہے۔ { قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَلْقٰی قَالَ بَلْ اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَ عِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی وَاَلْقِ مَا فِیْ یَمِیْنِکَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا اِنَّمَا صَنَعُوْا کَیْدُ سٰحِرٍ وَ لَا یُفْلِحُ السَّاحِرُ حَیْثُ اَتٰی } [125] ” (جادوگروں نے) کہا اے موسیٰ تم پہلے اپنی لاٹھی پھینکو گے یا پھر ہماری طرف سے پہل ہو موسیٰ نے کہا نہیں تم ہی پہلے پھینکو چنانچہ انھوں نے اپنا کرتب دکھایا اور اچانک موسیٰ کو ان کے جادو کی وجہ سے ایسا دکھائی دیا کہ ان کی رسیاں اور لاٹھیاں سانپ کی طرح دوڑ رہی ہیں۔ موسیٰ نے دل میں ہراس محسوس کیا (کہ اس منظر سے لوگ متاثر نہ ہوجائیں) ہم نے کہا اندیشہ نہ کر ‘ تو ہی غالب رہے گا تیرے دائیں ہاتھ میں جو لاٹھی ہے فورا پھینک دے ‘ جادو گروں کی تمام بناوٹیں نگل جائے گی انھوں نے جو کچھ کیا ہے محض جادو گروں کا فریب ہے اور جادو گر کسی راہ سے آئے کبھی کامیابی نہیں پاسکتا۔ “ { قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ وَ اِمَّآ اَنْ نَّکُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِیْنَ قَالَ اَلْقُوْا فَلَمَّآ اَلْقَوْا سَحَرُوْٓا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْھَبُوْھُمْ وَ جَآئُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَلْقِ عَصَاکَ فَاِذَا ھِیَ تَلْقَفُ مَا یَاْفِکُوْنَ فَوَقَعَ الْحَقُّ وَ بَطَلَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ فَغُلِبُوْا ھُنَالِکَ وَ انْقَلَبُوْا صٰغِرِیْنَ } [126] ” (جادوگروں نے) کہا اے موسیٰ یا تم اپنی لاٹھی پھینکو یا پھر ہم پھینکیں موسیٰ نے کہا تم ہی پہلے پھینکو پھر جب جادو گروں نے جادو کی بنائی ہوئی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکیں تو لوگوں کی نگاہیں جادو سے مار دیں اور اپنے کرتبوں سے ان میں دہشت پھیلا دی اور بہت بڑا جادو بنا لائے اس وقت ہم نے موسیٰ پر وحی کی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو جونہی اس نے لاٹھی پھینکی تو اچانک کیا ہوا کہ جو کچھ جھوٹی نمائش جادو گروں کی تھی سب اس نے نگل کر نابود کردی پس حق قائم ہو گیا اور وہ جو عمل کر رہے تھے باطل ہو کر رہ گیا پس اس موقع پر وہ مغلوب ہو گئے اور ذلیل ہو کر لوٹے۔ “ { فَلَمَّا جَآئَ السَّحَرَۃُ قَالَ لَھُمْ مُّوْسٰٓی اَلْقُوْا مَآ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ فَلَمَّآ اَلْقَوْا قَالَ مُوْسٰی مَا جِئْتُمْ بِہِ السِّحْرُ اِنَّ اللّٰہَ سَیُبْطِلُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِیْنَ وَ یُحِقُّ اللّٰہُ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ } [127] ” جب جادو گر آموجود ہوئے تو موسیٰ نے کہا تمھیں جو کچھ میدان میں ڈالنا ہے ڈال دو جب انھوں نے جادو کی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں تو موسیٰ نے کہا تم جو کچھ بنا کر لائے ہو یہ جادو ہے اور یقیناً اسے اللہ ملیامیٹ کر دے گا ‘ اللہ کا یہ قانون ہے کہ وہ مفسدوں کا کام نہیں سنوارتا ‘ وہ حق کو اپنے احکام کے مطابق ضرور ثابت کر دکھائے گا ‘ اگرچہ مجرموں کو ایسا ہونا پسند نہ آئے۔ “ جادوگروں نے جو اپنے فن کے ماہر و کامل تھے جب عصاء موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کرشمہ دیکھا تو وہ حقیقت حال سمجھ گئے اور جس کو اس وقت تک فرعون اور اس کے درباری لوگ پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے رہے تھے وہ اس کو نہ چھپا سکے اور انھوں نے برسر مجلس یہ اقرار کر لیا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) کا یہ عمل جادو سے بالاتر خدا کا معجزہ ہے اس کا سحر سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور پھر فوراً سجدہ میں گرپڑے اور اعلان کر دیا کہ ہم موسیٰ اور ہارون ((علیہا السلام)) کے پروردگار پر ایمان لے آئے کیونکہ وہی رب العٰلمین ہے۔ { فَاُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سُجَّدًا قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ ھٰرُوْنَ وَ مُوْسٰی } [128] ” پس سب جادو گر سجدہ میں گرگئے اور کہنے لگے ہم ہارون اور موسیٰ کے رب پر ایمان لائے۔ “ { وَ اُلْقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیْنَ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ رَبِّ مُوْسٰی وَ ھٰرُوْنَ } [129] ” اور سب جادو گر سجدہ میں گرپڑے کہنے لگے ہم تو جہانوں کے پروردگار پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا پروردگار ہے۔ “ فرعون نے جب یہ دیکھا کہ میرا تمام دام فریب تار تار ہو گیا اور موسیٰ ((علیہ السلام)) کو شکست دینے کی جو آخری پناہ تھی وہ بھی منہدم ہو گئی اب کہیں ایسا نہ ہو کہ مصری عوام بھی ہاتھ سے جائیں اور موسیٰ ((علیہ السلام)) اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو اس نے مکرو فریب کا دوسرا طریقہ اختیار کیا اور ساحروں سے کہنے لگا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) تم سب کا استاذ ہے اور تم سب نے آپس میں سازش کر رکھی ہے تب ہی تو میری رعایا ہوتے ہوئے میری اجازت کے بغیر تم نے موسیٰ کے خدا پر ایمان لانے کا اعلان کر دیا ‘ اچھا میں تم کو عبرتناک سزا دوں گا تاکہ آئندہ کسی کو ایسی غداری کی جرأت نہ ہو پہلے تمھارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹواؤں گا اور پھر سب کو سولی پر چڑھاؤں گا۔ { قَالَ اٰمَنْتُمْ لَہٗ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّہٗ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ فَلَاُقَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ مِّنْ خِلَافٍ وَّ لَاُوصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ وَ لَتَعْلَمُنَّ اَیُّنَآ اَشَدُّ عَذَابًا وَّ اَبْقٰی } [130] (فرعون نے) کہا ” تم بغیر میرے حکم کے موسیٰ پر ایمان لے آئے ؟ ضرور یہ تمھارا سردار ہے جس نے تمھیں جادو سکھایا ہے اچھا دیکھو میں کیا کرتا ہوں تمھارے ہاتھ پاؤں الٹے سیدھے کٹواؤں گا اور کھجور کے تنوں پر سولی دوں گا پھر تمھیں پتہ چلے گا ہم دونوں میں کون سخت عذاب دینے والا ہے اور کس کا عذاب دیرپا ہے۔ “ { قَالَ فِرْعَوْنُ اٰمَنْتُمْ بِہٖ قَبْلَ اَنْ اٰذَنَ لَکُمْ اِنَّ ھٰذَا لَمَکْرٌ مَّکَرْتُمُوْہُ فِی الْمَدِیْنَۃِ لِتُخْرِجُوْا مِنْھَآ اَھْلَھَا فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ } [131] ” فرعون نے کہا مجھ سے اجازت لیے بغیر تم موسیٰ پر ایمان لے آئے ؟ ضرور یہ ایک پوشیدہ تدبیر ہے جو تم نے مل جل کر شہر میں کی ہے تاکہ اس کے باشندوں کو اس سے نکال باہر کرو اچھا تھوڑی دیر میں تمھیں اس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا۔ “ مگر سچا ایمان جب کسی کو نصیب ہوجاتا ہے خواہ وہ ایک لمحہ کا ہی کیوں نہ ہو وہ ایسی بے پناہ روحانی قوت پیدا کردیتا ہے کہ کائنات کی کوئی زبردست سے زبردست طاقت بھی اس کو مرعوب نہیں کرسکتی ‘ دیکھیے وہی جادو گر جو فرعون سے تھوڑی دیر پہلے انعام و اکرام اور عزت و جاہ کی آرزوئیں اور التجائیں کر رہے تھے ایمان لانے کے بعد ایسے نڈر اور بے خوف ہو گئے کہ ان کے سامنے سخت سے سخت مصیبت اور دردناک عذاب بھی ہیچ ہو کر رہ گیا اور کوئی دہشت بھی ان کے ایمان کو متزلزل نہ کرسکی اور انھوں نے فرعون کی موجودگی ہی میں بے دھڑک اسلام کا اعلان کر دیا اور جب انھوں نے فرعون کی ان جابرانہ دھمکیوں کو سنا تو کہنے لگے : { قَالُوْا لَنْ نُّؤْثِرَکَ عَلٰی مَا جَآئَنَا مِنَ الْبِیّنٰتِ وَ الَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا اِنَّآاٰمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَلَنَا خَطٰیٰنَا وَ مَآ اَکْرَھْتَنَا عَلَیْہِ مِنَ السِّحْرِ وَ اللّٰہُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی } [132] ” انھوں نے کہا ہم یہ کبھی نہیں کرسکتے کہ سچائی کے جو روشن دلائل ہمارے سامنے آگئے ہیں اور جس خدا نے ہمیں پیدا کیا ہے اس سے منہ موڑ کر تیرا حکم مان لیں تو جو فیصلہ کرنا چاہتا ہے کر گذر ‘ تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کرسکتا ہے وہ یہی ہے کہ دنیا کی اس زندگی کا فیصلہ کر دے ہم تو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکے کہ وہ ہماری خطائیں بخش دے خصوصاً جادو گری کی خطا جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا ہمارے لیے اللہ ہی بہتر ہے اور وہی باقی رہنے والا ہے۔ “ { قَالُوْا لَا ضَیْرَ اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا مُنْقَلِبُوْنَ اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطَایَانَا اَنْ کُنَّا اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَ } [133] ” (جادوگروں نے) کہا (تیرا یہ عذاب ہمارے لیے) کوئی نقصان کی بات نہیں بلاشبہ ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں بے شک ہم اس کے حریص ہیں کہ وہ ہماری خطاؤں کو بخش دے کیونکہ ہم ہو گئے مومنوں میں اول۔ “ غرض حق و باطل کی اس کشمکش میں فرعون اور اس کے اعیان و ارکان کو سخت شکست اٹھانی پڑی اور وہ برسر عام ذلیل و رسوا ہوئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر خدا کا وعدہ پورا ہوا اور کامیابی کا سہرا ان ہی کے سر رہا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر جادو گروں کے علاوہ اسرائیلی نوجوانوں میں سے بھی ایک مختصر جماعت مسلمان ہو گئی مگر وہ فرعون کے ظلم و ستم کی وجہ سے اعلان نہ کرسکی کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ اس کی عام قاہرانہ ستم کیشیوں اور ظلم پرستیوں کے علاوہ اس وقت کی ذلت نے اس کو اور زیادہ غضبناک بنادیا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تلقین فرمائی کہ اب مومن ہونے کے بعد تمھارا سہارا صرف خدا پر ہونا چاہیے جماعت مومنین نے اس پر لبیک کہا اور وہ خدا کے سامنے گڑ گڑا کر رحمت و مغفرت کی دعائیں اور ظالموں کے عذاب و مصیبت سے محفوظ رہنے کی التجائیں کرنے لگے۔ { فَمَآ اٰمَنَ لِمُوْسٰٓی اِلَّا ذُرِّیَّۃٌ مِّنْ قَوْمِہٖ عَلٰی خَوْفٍ مِّنْ فِرْعَوْنَ وَ مَلَائِھِمْ اَنْ یَّفْتِنَھُمْ وَ اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالٍ فِی الْاَرْضِ وَ اِنَّہٗ لَمِنَ الْمُسْرِفِیْنَ وَ قَالَ مُوْسٰی یٰقَوْمِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ فَعَلَیْہِ تَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّسْلِمِیْنَ فَقَالُوْا عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ وَ نَجِّنَا بِرَحْمَتِکَ مِنَ الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ } [134] ” پھر موسیٰ (علیہ السلام) پر کوئی ایمان نہیں لایا مگر صرف ایک گروہ جو اس قوم کے نوجوانوں کا گروہ تھا وہ بھی فرعون اور اس کے سرداروں سے ڈرتا ہوا کہ کہیں کسی مصیبت میں نہ ڈال دے اور اس میں شک نہیں کہ فرعون سرزمین مصر میں متمردانہ قابض اور ظلم و استبداد میں بالکل چھوٹ تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا : لوگو اگر تم فی الحقیقت اللہ پر ایمان لائے ہو اور اس کی فرمان برداری کرنی چاہتے ہو تو چاہیے کہ صرف اسی پر بھروسا کرو اور فرعون کی طاقت سے نہ ڈرو پس انھوں نے کہا ہم صرف اللہ ہی پر بھروسا کرتے ہیں اے ہمارے پروردگار ہم کو ظالم قوم کی آزمائش میں نہ ڈال اور ہم کو اپنی رحمت سے منکروں سے نجات دے۔ “ الحاصل فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی روحانی قوت کا یہ مظاہرہ دیکھ کر بے حد مرعوب ہو گیا اور اگرچہ وہ جادو گروں پر اپنے انتہائی غیظ و غضب کا اظہار کرتا رہا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس وقت کچھ کہنے کی مطلق ہمت نہ پڑی اور درباریوں اور ارکان سلطنت نے جب یہ احتجاج کیا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) کو قتل کیوں نہیں کرا دیتا ‘ کیا اس کو اور اس کی قوم کو یہ موقع دیا جا رہا ہے کہ وہ مصر میں فساد پھیلائیں اور تجھ کو اور تیرے دیوتاؤں کو ٹھکراتے رہیں ؟ تو کہنے لگا کہ تم گھبراتے کیوں ہو ؟ میں اسرائیلیوں کی طاقت کو بڑھنے نہ دوں گا اور مقابلہ کے قابل ہی نہ رکھوں گا ‘ ابھی یہ حکم جاری کرتا ہوں کہ ان کی اولاد نرینہ کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا کرو اور صرف لڑکیوں کو چاکری کے لیے زندہ رہنے دو۔ { وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ اَتَذَرُ مُوْسٰی وَ قَوْمَہٗ لِیُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَ یَذَرَکَ وَ اٰلِھَتَکَ قَالَ سَنُقَتِّلُ اَبْنَآئَھُمْ وَ نَسْتَحْیٖ نِسَآئَھُمْ وَ اِنَّا فَوْقَھُمْ قٰھِرُوْنَ } [135] ” اور فرعون کی قوم میں سے ایک جماعت نے فرعون سے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو یوں ہی چھوڑ دے گا کہ وہ زمین (مصر) میں فساد کرتے پھریں اور تجھ کو اور تیرے دیوتاؤں کو ٹھکرائیں۔ فرعون نے کہا ہم ان کے لڑکوں کو قتل کر دیں گے اور ان کی لڑکیوں کو (باندیاں بنانے کے لیے) زندہ رکھیں گے اور ہم ان پر ہر طرح غالب ہیں اور وہ ہمارے ہاتھوں میں بے بس ہیں۔ “ { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سَاحِرٌ کَذَّابٌ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا اقْتُلُوْا اَبْنَائَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ وَاسْتَحْیُوا نِسَآئَہُمْ وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ } [136] اور بلاشبہ ہم نے فرعون ‘ ہامان اور قارون کی طرف موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول بنا کر اور واضح نشان دے کر بھیجا پس انھوں نے کہا یہ تو جادو گر ہے جھوٹا پھر جب وہ ہمارے پاس سے ان کے پاس حق لے کر آیا تو کہنے لگے کہ جو لوگ اس (موسیٰ (علیہ السلام)) پر ایمان لے آئے ہیں ان کے لڑکوں کو مار ڈالو اور ان کی لڑکیوں کو باقی رہنے دو ‘ اور (انجام کار) کافروں کا مکرو فریب باطل و برباد ہو کر رہا۔ “ گویا فرعون کا یہ دوسرا اعلان تھا جو بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل سے متعلق کیا گیا۔
تاریخ کا یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ جب کسی قوم پر غلامی کی حالت میں صدیاں گذر جاتی ہیں تو اس کی زبوں حالی اور پستی کے حدود یہیں ختم نہیں ہوجاتیں کہ وہ مفلس و بدحال ہوں اور کاہل و پریشان بال بلکہ قوائے عملی کی خرابی سے زیادہ ان کے قوائے دماغی بیکار ‘ مضمحل اور ناکارہ ہوجاتے ہیں ‘ ان میں سے ہمت و شجاعت مفقود ہوجاتی ہے اور وہ پستی پر ہی قناعت کرلیتے ہیں ‘ نا امیدی ان کا شیوہ ہوجاتا ہے اور ذلت و نکبت کو وہ صبر و قناعت سمجھنے لگتے ہیں اس لیے جب کوئی مصلح یا پیغمبر و رسول اس دماغی و عملی پستی سے نکالنے کے لیے ان کو پکارتا اور ہمت و شجاعت پر آمادہ کرتا ہے تو یہ ان کے لیے سب سے مشکل اور ناممکن العمل پیغام نظر آتا ہے اور کبھی وہ اس راہ کی سختیوں سے گھبرا کر آپس میں دست بگریباں ہونے لگتے ہیں اور کبھی اپنے نجات دہندہ پر شک و شبہ کی نگاہ ڈالنے لگتے ہیں اور اگر اس جدوجہد میں ان کو کوئی فائدہ حاصل ہوجاتا ہے تو وقار اور سنجیدگی سے بھی گذر کر اظہار مسرت کرنے لگتے ہیں اور اگر اس میں کوئی آزمائش اور مصیبت کا سوال آپڑتا ہے تو مصلح یا پیغمبر کو الزام دینے لگتے ہیں کہ ہم کو خواہ مخواہ تو نے اس مصیبت میں پھنسایا ہم تو اپنی حالت پر ہی صابر و شاکر تھے۔ یہی حال بنی اسرائیل کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ تھا چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو تبلیغ حق سے لے کر مصر سے خروج کے وقت تک جو حالات پیش آئے وہ اس امر کی زندہ شہادت ہیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب فرعون اور اس کے درباریوں کی گفتگو کا حال معلوم ہوا تو انھوں نے بنی اسرائیل کو جمع کر کے صبر اور توکل علی اللہ کی تلقین کی بنی اسرائیل نے سن کر جواب دیا کہ موسیٰ ہم پہلے ہی مصیبتوں میں گرفتار تھے اب تیرے آنے پر کچھ امید بندھی تھی مگر تیرے آنے کے بعد بھی وہی مصیبت باقی رہی یہ تو سخت آفت کا سامنا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تسلی دی کہ خدا کا وعدہ سچا ہے گھبراؤ نہیں تم ہی کامیاب ہو گے اور تمھارے دشمن کو ہلاکت کا منہ دیکھنا پڑے گا زمین کا مالک فرعون یا اس کی قوم نہیں ہے بلکہ رب العالمین اور مختار مطلق خدا ہے پس وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کا مالک بنا دے اور انجام کار یہ انعام متقیوں کا ہی حصہ ہے۔ { قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہِ اسْتَعِیْنُوْا بِاللّٰہِ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ الْاَرْضَ لِلّٰہِ یُوْرِثُھَا مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ قَالُوْٓا اُوْذِیْنَا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَاْتِیَنَا وَ مِنْم بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَ یَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُوْنَ } [137] موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے مدد چاہو اور صبر کرو بلاشبہ زمین اللہ کی ملک ہے وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے وارث بنا دیتا ہے اور انجام (کی کامیابی) متقیوں کے لیے ہی ہے انھوں نے جواب دیا تیرے آنے سے پہلے بھی ہم مصیبت میں تھے اور تیرے پیغام لانے کے بعد بھی مصیبت ہی میں گرفتار ہیں موسیٰ نے کہا وہ وقت قریب ہے کہ تمھارا پروردگار تمھارے دشمن کو برباد کر دے گا اور تم کو اس زمین کا خلیفہ بنا دے گا اور پھر دیکھے گا کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو۔
اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مسلمانوں سے کہا کہ فرعون کے مظالم کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا اور وہ بنی اسرائیل اور قبطی مومنوں کے آزادی کے ساتھ مصر سے چلے جانے پر راضی نہیں ہے اس لیے خدا کے فیصلہ تک تم سرزمین مصر ہی میں اپنے گھروں کو مساجد بنا لو اور ان کو قبلہ رخ کر کے خدائے واحد کی عبادت میں مشغول ہو جاؤ کہ خدا کی وحی کا یہی فیصلہ ہے اور ساتھ ہی خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی بار الٰہا فرعون اور فرعونیوں کو تو نے جو دولت و سطوت عطا فرمائی ہے اس پر شکریہ ادا کرنے کی بجائے وہ تیرے بندوں پر جبر اور ظلم و ستم کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں اور تیری راہ حق کو نہ یہ خود قبول کرتے ہیں اور نہ دوسروں کو قبول کرنے دیتے ہیں بلکہ جبر و تشدد سے کام لے کر ان کے آڑے آتے ہیں لہٰذا اب تو ان کے مظالم کا ذائقہ چکھا اور ان کی اس دولت و ثروت کو تباہ و ہلاک کر دے جس پر یہ نازاں ہیں اور جس طرح یہ ایمان کی سچائی کو ٹھکرا رہے ہیں تو بھی ان کو ایمان کی دولت کی بجائے اب ایسا دردناک عذاب دے کہ ان کی داستان دوسروں کے لیے عبرت بن جائے۔ { وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰی وَ اَخِیْہِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قِبْلَۃً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ قَالَ مُوْسٰی رَبَّنَآ اِنَّکَ اٰتَیْتَ فِرْعَوْنَ وَ مَلَاَہٗ زِیْنَۃً وَّ اَمْوَالًا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا رَبَّنَا لِیُضِلُّوْا عَنْ سَبِیْلِکَ رَبَّنَا اطْمِسْ عَلٰٓی اَمْوَالِھِمْ وَ اشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَـلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ } [138] ” اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی (ہارون (علیہ السلام)) پر وحی کی کہ اپنی قوم کے لیے مصری مکان بناؤ اور ان کو قبلہ رخ تعمیر کرو اور ان میں نماز قائم کرو اور جو ایمان لائے ہیں انھیں کامیابی کی بشارت دو اور موسیٰ نے دعا مانگی خدایا تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس دنیا کی زندگی میں زیب وزینت کی چیزیں اور مال و دولت کی شوکتیں بخشی ہیں تو اے خدایا کیا یہ اس لیے ہے کہ تیری راہ سے یہ لوگوں کو بھٹکائیں ؟ خدایا ان کی دولت زائل کر دے اور ان کے دلوں پر مہر لگا دے کہ اس وقت تک یقین نہ کریں کہ جب تک عذاب دردناک اپنے سامنے نہ دیکھ لیں اللہ نے فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی تو اب تم اپنی راہ میں جم کر کھڑے ہو جاؤ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو میرا طریق کار نہیں جانتے۔ “
فرعون نے اپنے سرداروں سے اگرچہ اطمینان کا اظہار کر دیا تھا لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے روحانی غلبہ کا خیال اس کو اندر ہی اندر گھلائے ڈالتا تھا اور بنی اسرائیل کی اولاد نرینہ کے قتل کے حکم سے بھی اس کو سکون قلب نصیب نہ تھا آخر اس نے یہی فیصلہ کیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کیے بغیر یہ معاملہ ختم نہیں ہوگا لہٰذا سرداروں اور ندیموں سے ایک روز کہنے لگا کہ اگر موسیٰ ((علیہ السلام)) کو ہم نے یوں ہی چھوڑے رکھا تو مجھے یہ خوف ہے کہ یہ تمھارے دین کو بھی آہستہ آہستہ بدل ڈالے گا اور تمام مصر میں فساد مچا دے گا اب یہی بات ٹھیک معلوم ہوتی ہے کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) کو قتل کر دیا جائے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ میں ایسے متکبر و مغرور سے کیا ڈرتا ہوں جو خدا کے یوم حساب سے نہیں ڈرتا میرا پشت پناہ تو وہ ہے جو میرا بھی پروردگار ہے اور تم سب کا بھی ‘ میں صرف اسی کی پناہ چاہتا ہوں۔ { وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُوْنِیْٓ اَقْتُلْ مُوْسٰی وَلْیَدْعُ رَبَّہٗ اِنِّیْٓ اَخَافُ اَنْ یُّبَدِّلَ دِیْنَکُمْ اَوْ اَنْ یُّظْہِرَ فِی الْاَرْضِ الْفَسَادَ وَقَالَ مُوْسٰی اِنِّی عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ } [139] اور فرعون نے کہا مجھے موسیٰ کو قتل کر ہی لینے دو اس کو چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے میں ڈرتا ہوں کہ وہ تمھارے دین کو بدل ڈالے یا زمین میں فساد برپا کر دے اور موسیٰ نے کہا میں اپنے اور تمھارے رب کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس متکبر سے جو حساب کے دن پر ایمان نہیں لاتا۔ “ فرعون اور اس کے سردار جب اس گفتگو میں مصروف تھے تو اس مجلس میں ایک مصری مرد مومن بھی تھا جس نے ابھی تک اپنے اسلام کو پوشیدہ رکھا تھا اس نے جب یہ سنا تو اپنی قوم کے ان افراد کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب سے مدافعت کی کوشش شروع کی اور ان کو سمجھایا کہ تم ایسے شخص کو قتل کرنے چلے ہو جو یہ سچی بات کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے اور جو تمھارے سامنے اپنی صداقت پر بہترین دلائل و نشانات لایا ہے اور بالفرض اگر وہ جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ سے تم کو کچھ نقصان نہیں پہنچ رہا ہے اور اگر وہ سچا ہے تو پھر اس کی ان وعیدوں سے ڈرو جو وہ تم کو خدا کی جانب سے سناتا ہے۔
فرعون نے مرد مومن کا کلام قطع کرتے ہوئے کہا کہ میں تم کو وہی مشورہ دے رہا ہوں جس کو اپنے خیال میں درست سمجھتا ہوں اور تمھاری بھلائی کی بات کہہ رہا ہوں۔ مرد مومن نے آخری نصیحت کے طور پر پھر کہا اے میری قوم مجھے یہ خوف ہے کہ ہمارا حال کہیں ان پچھلی قوموں کا سا نہ ہوجائے جو قوم نوح ‘ عاد اور ثمود کے نام سے مشہور ہیں یا ان کے بعد جو قومیں آئیں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا بلکہ ان قوموں کی ہلاکت خود اپنے اسی قسم کے اعمال کی بدولت پیش آئی تھی جو آج تم موسیٰ کے خلاف سوچ رہے ہو تم تو آج دنیا کی وجاہت کی سوچ میں پڑے ہو اور میں تمھارے لیے اس دن سے ڈرتا ہوں جب قیامت کا دن ہوگا اور سب ایک دوسرے کو پکاریں گے مگر اس وقت تمھیں کوئی خدا کے عذاب سے بچانے والا نہ ہوگا۔ اے قوم کے سردارو تمھارا حال تو یہ ہے کہ اس سرزمین میں جب (حضرت) یوسف ((علیہ السلام)) نے خدا کا پیغام سنایا تھا تب بھی تم یعنی تمھارے باپ دادا اسی شک و تردد میں پڑے رہے اور ان پر ایمان نہ لائے اور جب ان کی وفات ہو گئی تو کہنے لگے کہ اب خدا اپنا کوئی رسول نہیں بھیجے گا اب یہی معاملہ تم موسیٰ ((علیہ السلام)) کے ساتھ کر رہے ہو خدارا سمجھو اور سیدھی راہ اختیار کرو۔ { وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ الِ فِرْعَوْنَ یَکْتُمُ اِیْمَانَہٗ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا اَنْ یَّقُوْلَ رَبِّیَ اللّٰہُ وَقَدْ جَائَکُمْ بِالْبَیِّنَاتِ مِنْ رَّبِّکُمْ وَاِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وَاِنْ یَّکُ صَادِقًا یُّصِبْکُمْ بَعْضُ الَّذِیْ یَعِدُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِیْ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ کَذَّابٌ یَا قَوْمِ لَکُمُ الْمُلْکُ الْیَوْمَ ظَاہِرِیْنَ فِی الْاَرْضِ فَمَنْ یَّنْصُرُنَا مِنْم بَاْسِ اللّٰہِ اِنْ جَائَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا اُرِیْکُمْ اِلَّا مَا اَرٰی وَمَا اَہْدِیْکُمْ اِلَّا سَبِیْلَ الرَّشَادِ وَقَالَ الَّذِیْ اٰمَنَ یَا قَوْمِ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ مِثْلَ یَوْمِ الْاَحْزَابِ مِثْلَ دَاْبِ قَوْمِ نُوْحٍ وَّعَادٍ وَّثَمُوْدَ وَالَّذِیْنَ مِنْ بَعْدِہِمْ وَمَا اللّٰہُ یُرِیْدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ وَ یَا قَوْمِ اِنِّیْ اَخَافُ عَلَیْکُمْ یَوْمَ التَّنَادِ یَوْمَ تُوَلُّوْنَ مُدْبِرِیْنَ مَا لَکُمْ مِّنْ اللّٰہِ مِنْ عَاصِمٍ وَّمَنْ یُّضْلِلِ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ وَلَقَدْ جَائَکُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّمَّا جَائَکُمْ بِہٖ حَتّٰی اِذَا ہَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْم بَعْدِہٖ رَسُوْلًاکَذٰلِکَ یُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ ہُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ اَتَاہُمْ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ } [140] اور بولا ایک مرد ایمان دار فرعون کے لوگوں میں سے جو چھپاتا تھا اپنا ایمان کیا مارے ڈالتے ہو ایک مرد کو اس بات پر کہ کہتا ہے : میرا رب اللہ ہے اور لایا تمھارے پاس کھلی نشانیاں تمھارے رب کی اور اگر وہ جھوٹا ہوگا تو اس پر پڑے گا اس کا جھوٹ اور اگر وہ سچا ہوگا تو تم پر پڑے گا کوئی نہ کوئی وعدہ جو تم سے کرتا ہے بے شک اللہ راہ نہیں دیتا جو ہو بے لحاظ جھوٹا ‘ اے میری قوم آج تمھارا راج ہے غالب ہو رہے ہو ملک میں پھر کون مدد کرے گا ہماری اللہ کی آفت سے اگر آگئی ہم پر بولا فرعون میں تو وہی بات سمجھاتا ہوں تم کو جو سوجھی مجھ کو اور وہی راہ بتاتا ہوں جس میں بھلائی ہے اور کہا اس ایمان دار نے ‘ اے میری قوم میں ڈرتا ہوں کہ آئے تم پر دن اگلے فرقوں کا سا ‘ جیسے حال ہوا قوم نوح کا اور عاد وثمود کا اور جو لوگ ان کے پیچھے ہوئے اور اللہ بے انصافی نہیں چاہتا بندوں پر اور اے میری قوم میں ڈرتا ہوں کہ تم پر آئے دن چیخ و پکار کا جس دن بھاگو گے پیٹھ پھیر کر ‘ کوئی نہیں تم کو اللہ سے بچانے والا اور جس کو غلطی میں ڈالے اللہ تو کوئی نہیں اس کو سجھانے والا اور تمھارے پاس آچکا ہے یوسف اس سے پہلے کھلی باتیں لے کر پھر تم رہے دھوکے ہی میں ان چیزوں سے جو وہ تمھارے پاس لے کر آیا یہاں تک کہ جب مرگیا ‘ لگے کہنے ہرگز نہ بھیجے گا اللہ اس کے بعد کوئی رسول ‘ اسی طرح بھٹکاتا ہے اللہ اس کو جو ہو بے باک شک کرنے والا وہ جو جھگڑتے ہیں اللہ کی باتوں میں بغیر کسی سند کے جو پہنچی ہو ان کو ‘ بڑی بے زاری ہے (اس جھگڑے سے) اللہ کے یہاں اور ایمان داروں کے یہاں ‘ اسی طرح مہر لگا دیتا ہے اللہ ہر دل پر غرور والے سرکش کے۔ “
{ وَقَالَ الَّذِیْ اٰمَنَ یَا قَوْمِ اتَّبِعُوْنِ اَہْدِکُمْ سَبِیْلَ الرَّشَادِ یَا قَوْمِ اِنَّمَا ہٰذِہِ الْحَیَاۃُ الدُّنْیَا مَتَاعٌ وَّاِنَّ الْاٰخِرَۃَ ہِیَ دَارُ الْقَرَارِ مَنْ عَمِلَ سَیِّئَۃً فَـلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَہَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْہَا بِغَیْرِ حِسَابٍ وَیَا قَوْمِ مَا لِیْٓ اَدْعُوْکُمْ اِلَی النَّجَاۃِ وَتَدْعُوْنَنِیْ اِلَی النَّارِ تَدْعُوْنَنِیْ لِاَکْفُرَ بِاللّٰہِ وَاُشْرِکَ بِہٖ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ وَاَنَا اَدْعُوْکُمْ اِلَی الْعَزِیْزِ الْغَفَّارِ لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْ اِلَیْہِ لَیْسَ لَہٗ دَعْوَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَلَا فِی الْاٰخِرَۃِ وَاَنَّ مَرَدَّنَا اِلَی اللّٰہِ وَاَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ ہُمْ اَصْحٰبُ النَّارِ فَسَتَذْکُرُوْنَ مَا اَقُوْلُ لَکُمْ وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِلَی اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِ } [141] ” اور کہا اس ایماندار نے اے قوم راہ چلو میری ‘ پہنچا دوں تم کو نیکی کی راہ پر اے میری قوم یہ جو زندگی ہے دنیا کی سو کچھ فائدہ اٹھالینا ہے اور وہ گھر جو پچھلا ہے وہی ہے جم کر رہنے کا گھر ‘ جس نے کی ہے برائی تو وہی بدلہ پائے گا اس کے برابر اور جس نے کی ہے بھلائی مرد ہو یا عورت اور وہ یقین رکھتا ہو سو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں روزی پائیں گے وہاں بے شمار اور اے قوم مجھ کو کیا ہوا ہے بلاتا ہوں تم کو نجات کی طرف اور تم بلاتے ہو مجھ کو آگ کی طرف ‘ تم چاہتے ہو کہ میں منکر ہو جاؤں اللہ سے اور شریک ٹھہراؤں اس کا اس کو جس کی مجھ کو خبر نہیں اور میں بلاتا ہوں تم کو اس زبردست گناہ بخشنے والے کی طرف آپ ہی ظاہر ہے جس کی طرف تم مجھ کو بلاتے ہو اس کا بلاوا کہیں نہیں دنیا میں اور نہ آخرت میں اور یہ کہ ہم کو پھرجانا ہے اللہ کے پاس اور یہ کہ زیادتی والے وہی ہیں دوزخ کے لوگ سو آگے یاد کرو گے جو میں کہتا ہوں تم کو اور میں سونپتا ہوں اپنا معاملہ اللہ کو ‘ بے شک اللہ کی نگاہ میں ہیں سب بندے۔ “ جب فرعون اور اس کے سرداروں نے اس مرد مومن کی باتیں سنیں تو ان کا رخ موسیٰ (علیہ السلام) سے ہٹ کر اس کی طرف ہو گیا اور فرعونیوں نے چاہا کہ پہلے اس ہی کی خبر لیں اور اس کو قتل کر دیں مگر اللہ تعالیٰ نے اس ناپاک ارادہ میں ان کو کامیاب نہ ہونے دیا : { فَوَقَاہُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِ مَا مَکَرُوْا وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْآ الَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ } [142] ” سو اللہ تعالیٰ نے اس کو ان کی تدبیروں کے شر سے بچا لیا اور فرعون کے لوگوں کو برے عذاب نے آلیا۔ نار جہنم ہے جس پر وہ صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں اور جس دن قیامت آجائے گی (تو کہا جائے گا) فرعونیوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔ توراۃ میں اگرچہ گذشتہ واقعات کا اکثر حصہ مذکور ہے مگر دو باتوں کا تذکرہ نہیں کیا گیا ایک فرعون کے اس دوسرے حکم کا ذکر نہیں ہے کہ بنی اسرائیل کی اولاد نرینہ کو قتل کیا جائے اور دوسرے اس واقعہ کا کہ فرعون کی قوم میں سے بھی بعض آدمی ایمان لائے تھے اور ان میں سے ایک مرد مومن نے فرعون اور اپنی قوم کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل سے باز رکھنے کی کوشش کی ‘ ان کو دین کی تبلیغ کی اور سچائی کو قبول کرلینے کی دعوت دی۔ بظاہر اس دوسرے واقعہ کے ترک کردینے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ بنی اسرائیل کو فرعون اور فرعونیوں کے مظالم کی وجہ سے انتہائی رنج و غصہ تھا اور اس نے بغض و کینہ کی شکل اختیار کرلی تھی ‘ لہٰذا اس نے اجازت نہ دی کہ اس قوم کے کسی فرد کے لیے بھی یہ ثابت کریں کہ اس میں سعادت اور حمایت حق کی روح موجود تھی۔
فرعون اور اس کے سرداروں کا موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دینے میں جب کوئی مکر و فریب اور غیظ و غضب کام نہ آیا اور ارادہ قتل کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی بھی ہمت نہ پڑی تو اب فرعون نے دل کا بخار نکالنے کا یہ طریقہ نکالا کہ ایک جانب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی توہین کے درپے رہتا اور دوسری جانب یہ اعلان کرتا کہ تمھارا رب اعلیٰ اور معبود میرے علاوہ کوئی نہیں ہے موسیٰ (علیہ السلام) بن دیکھے خدا کو رب بتارہا ہے اور میں بایں صد ہزار شوکت و سطوت تمھارے سامنے موجود ہوں چنانچہ مصری قوم پر جو اثر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ” آیات بینات “ دیکھ کر ہوا تھا وہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگا اور دنیوی شوکت و سطوت کی مرعوبیت اور عزت و جاہ کی حرص میں دب کر رہ گیا اور اس طرح وہ سب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی مخالفت میں پھر فرعون کے ہم نوا ہو گئے۔ { وَنَادٰی فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِہِ قَالَ یَا قَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَ اَمْ اَنَا خَیْرٌ مِّنْ ہٰذَا الَّذِیْ ہُوَ مَہِیْنٌ وَّلَا یَکَادُ یُبِیْنُ فَلَوْلَا اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْ جَآئَ مَعَہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَہٗ فَاَطَاعُوْہُ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ } [143] اور فرعون نے اپنی قوم میں اعلان کیا اے قوم کیا میں مصر کے تاج و تخت کا مالک نہیں ہوں اور میری حکومت کے قدموں کے نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں کیا تم (میرے اس جاہ و جلال کو) نہیں دیکھتے (اب بتاؤ) کیا میں بلند وبالا ہوں یا یہ جس کو نہ عزت نصیب اور جو بات بھی صاف نہ کرسکتا ہو (اگر یہ اپنے خدا کے یہاں عزت والا ہے) تو کیوں اس پر (آسمان سے) سونے کے کنگن نہیں گرتے یا فرشتے ہی اس کے سامنے پرے باندھ کر کھڑے نہیں ہوتے پس عقل کھودی فرعون نے اپنی قوم کی سو انھوں نے اسی کی اطاعت کی اور تھے وہ نافرمان بندے۔ “ فرعون نے اس جگہ بلند وبالا ہونے کا معیار دو باتوں پر رکھا اور عام طور پر دنیا کو مقصد زندگی سمجھنے والوں کی یہی شان رہی ہے ایک دولت و ثروت دوسرے دنیوی جاہ و حشم اور یہ دونوں فرعون کے پاس موجود تھے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نہ تھے۔ حضرت شاہ عبد القادر (نور اللہ مرقدہ) نے ان دونوں باتوں کو موضح القرآن میں ان الفاظ میں ادا کیا ہے : وہ آپ کنگن پہنتا تھا جواہر کے مکلف اور جس پر مہربان ہوتا سونے کے کنگن پہناتا تھا اور اس کے سامنے فوج کھڑی ہوتی تھی پرا باندھ کر۔ “ [144] اس لیے اس نے انہی باتوں کا ذکر کیا کہ اگر موسیٰ ((علیہ السلام)) کا خدا مجھ سے الگ کوئی اور ہستی ہے تو وہ موسیٰ کو سونے کے کنگن آسمان سے کیوں نہیں برساتا اور فرشتے اس کے جلو میں پرا باندھ کر کیوں کھڑے نہیں ہوتے اور چونکہ قوم کی نگاہ میں دینی و دنیوی عزت کا معیار یہی تھا اس لیے فرعون کا داؤ ان پر چل گیا اور انھوں نے یک زبان ہو کر فرعون کی اطاعت کا دوبارہ اعلان کر دیا یہ بدبخت یہ نہ سمجھے کہ خدائے تعالیٰ کے یہاں عزت کا معیار ” صدق و خلوص “ اور خدا کی ” وفادارانہ عبودیت “ ہے نہ کہ دنیوی دولت و ثروت اور جاہ و حشمت ‘ البتہ جو شخص اصل عزت کو حاصل کرلیتا ہے تو خدائے تعالیٰ یہ چیزیں بھی اس کے قدموں پر نثار کردیتا ہے اور صرف دنیوی عظمت پر اترانے والوں کو ابدی ذلت و رسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا چنانچہ آخر میں یہی صورت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم بنی اسرائیل اور فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ پیش آئی : { فَلَمَّا اسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنَاہُمْ اَجْمَعِیْنَ فَجَعَلْنَاہُمْ سَلَفًا وَّمَثَـلًا لِّلاٰخِرِیْنَ } [145] ” پھر جب ہم کو غصہ آیا تو ہم نے (ان کی بدکرداریوں کا) بدلہ لیا پس ڈبو دیا ان سب کو اور کر دیا گئے گذرے اور آنے والی نسلوں کے واسطے ان کو کہاوت بنادیا۔ “ { ثُمَّ اَدْبَرَ یَسْعٰی فَحَشَرَ فَنَادٰی فَقَالَ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی فَاَخَذَہُ اللّٰہُ نَکَالَ الْاٰخِرَۃِ وَالْاُوْلٰی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی } [146] ” پس پیٹھ پھیر کر چل دیا پھر (قوم کو) جمع کیا پھر پکارا اور کہنے لگا ” میں ہی تمھارا سب سے بڑا رب ہوں “ پس اس کو پچھلے (آخرت کے) اور پہلے (دنیا کے) عذاب نے آپکڑا بلاشبہ اس واقعہ میں اس شخص کے لیے عبرت ہے جو خوف خدا رکھتا ہو۔
غرض حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رشد و ہدایت کا فرعون اور اس کے سرداروں پر مطلق اثر نہیں ہوا اور معدودے چند کے سوائے عام مصریوں نے بھی ان ہی کی پیروی کی اور صرف یہی نہیں بلکہ فرعون کے حکم سے بنی اسرائیل کی نرینہ اولاد قتل کی جانے لگی ‘ موسیٰ (علیہ السلام) کی توہین و تذلیل ہونے لگی اور فرعون نے اپنی ربوبیت اور معبودیت کی زور و شور سے تبلیغ شروع کردی تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر وحی آئی کہ فرعون کو مطلع کر دو کہ اگر تمھارا یہی طور طریق رہا تو عنقریب تم پر خدا کا عذاب نازل ہونے والا ہے چنانچہ جب انھوں نے اس پر بھی دھیان نہ دیا تو اب یکے بعد دیگرے عذاب الٰہی آنے لگے یہ دیکھ کر فرعون اور اس کی قوم نے اب یہ وتیرہ اختیار کیا کہ جب عذاب الٰہی کسی ایک شکل میں ظاہر ہوتا تو فرعون اور قوم فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کرنے لگتی کہ اچھا ہم ایمان لے آئیں گے تو اپنے خدا سے دعا کر کہ یہ عذاب جاتا رہے اور جب وہ عذاب جاتا رہتا تو پھر سرکشی و نافرمانی پر اتر آتے پھر عذاب جب دوسری شکل میں آتا تو کہتے کہ اچھا ہم بنی اسرائیل کو آزاد کر کے تیرے ساتھ روانہ کر دیں گے ‘ دعا کر کہ یہ عذاب دفع ہوجائے اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کو پھر مہلت مل جاتی اور عذاب دفع ہوجاتا تو پھر اسی طرح مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے اس طرح خدا کی جانب سے مختلف قسم کے نشانات ظاہر ہوئے اور فرعون اور قوم فرعون کو بار بار مہلت عطا ہوتی رہی لیکن جب انھوں نے اس کو بھی ایک مذاق بنا لیا تب خدا کا آخری عذاب آیا اور فرعون اور اس کے سرکش سردار سب ہی غرق کر دیے گئے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت سے نشانات (معجزات) عطا فرمائے تھے جن کا ذکر بقرہ ‘ اعراف ‘ نمل ‘ قصص ‘ اسراء ‘ طہٰ ‘ زخرف ‘ مومن ‘ قمر اور النازعات میں مختلف طریقوں سے کیا گیا ہے چنانچہ اسرا میں ہے : { وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ ایٰتٍ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِذْ جَآئَھُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآئِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا } [147] ” اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو نو نشانات واضح عطا کیے پس تو بنی اسرائیل سے دریافت کر کہ جب یہ نشانات ان کے پاس آئے تو موسیٰ سے فرعون نے یہ کہا بلاشبہ میں تجھ کو جادو کا مارا ہوا سمجھتا ہوں۔ موسیٰ نے کہا تو خوب جانتا ہے کہ ان کو بصیرتیں بنا کر آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوائے اور کسی نے نہیں اتارا اور (اس لیے) بلاشبہ اے فرعون میں تجھ کو ہلاکت زدہ سمجھتا ہوں۔ “ اور طہٰ ‘ نمل ‘ زخرف اور النازعات میں شمار بتائے بغیر صرف ” آیات “ کہہ کر ذکر کیا گیا ہے ‘ پھر کسی جگہ ” آیات بینات “ اور کہیں ” آیات مفصلات “ اور کسی موقع پر ” الآیۃ الکبریٰ “ اور کہیں صرف ” آیاتنا “ سے تعبیر کیا ہے۔ اور ان تفصیلی اور اجمالی تعبیرات کے علاوہ مسطورہ بالا تمام سورتوں میں علاحدہ علاحدہ نشانات (معجزات) کا بھی ذکر موجود ہے اور اگر ان سب کو یکجا جمع کیا جائے تو حسب ذیل فہرست مرتب کی جا سکتی ہے۔ (1)عصا (2)یدبیضا (3) سنین (قحط) (4)نقص ثمرات (پھلوں کا نقصان) (5) طوفان (6)جراد (ٹڈی دل) (7) قمل (جوں) (8) ضفادع (مینڈک) (9)( دم (خون)) (10)فلق بحر (قلزم کا پھٹ کردو حصہ ہوجانا) (11) من وسلویٰ (حلوا و بٹیر) (12)غمام (بادلوں کا سایہ) (13)انفجار عیون (پتھر سے چشموں کا بہہ پڑنا) (14) نتق جبل (پہاڑ کا اکھڑ کر سروں پر آجانا) (15)نزول توراۃ پس مسطورہ بالا مختلف تعبیرات و تفصیلات کی بنا پر مفسرین 1 ؎ کو حیرانی ہے کہ کون سا طریقہ اختیار کیا جائے جس سے ” تسع آیات “ کی تعیین بھی ہوجائے اور باقی آیات اللہ کی تفصیل بھی صحیح اسلوب پر باقی رہ جائے چنانچہ قاضی بیضاوی اور بعض دوسرے مفسرین نے یہ تشریح فرمائی کہ سورة اسراء میں جن ” تسع آیات “ کا تذکرہ ہے ان سے وہ نشان (معجزات) مراد نہیں ہیں جو فرعون اور قوم کے مقابلہ میں بطور سرزنش عذاب اور عبرت کے لیے بھیجے گئے بلکہ اس سے وہ احکام مراد ہیں جو بنی اسرائیل کو قلزم عبور کرلینے کے بعد دیے گئے تھے اور اپنی اس تشریح کی تائید میں حضرت صفوان بن عسال کی حدیث پیش کی جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مرتبہ دو یہودیوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دعویٰ نبوت کا امتحان لیا جائے اور مشورہ کے بعد آپ سے دریافت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جو ” تسع آیات “ دیے تھے ان کی تشریح کیجیے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ وہ احکام یہ ہیں : شرک نہ کرنا ‘ زنا نہ کرنا ‘ ناحق کسی کو قتل نہ کرنا ‘ چوری نہ کرنا ‘ جادو نہ کرنا ‘ حکام رسی کے ذریعے جرم سے پاک انسان کو قتل نہ کرانا ‘ سود نہ کھانا ‘ پاک دامن کو تہمت نہ لگانا ‘ میدان جنگ سے نہ بھاگنا (شعبہ کو شک ہو گیا کہ نواں حکم یہی فرمایا یا کوئی اور) اور اے یہود تمھارے لیے خصوصیت کے ساتھ یہ کہ سبت کی خلاف ورزی نہ کرنا۔ [148] مگر ان مفسرین کی یہ تشریح اس لیے صحیح نہیں کہ اسراء میں ” تسع آیات “ کے ذکر کے ساتھ فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ بھی درج ہے فرعون ان آیات کو دیکھ کر کہتا ہے کہ اے موسیٰ یہ سب جادو کا دھندا ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرماتے ہیں اے فرعون یہ اللہ تعالیٰ کے نشانات ہیں اور تو انکار کر کے ہلاکت میں پڑ رہا ہے۔ پس اس جگہ ” احکام “ مراد لینا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا نزول خود ان مفسرین کے نزدیک بھی غرق فرعون کے بعد ہوا ہے۔ چنانچہ یہی اشکال ترمذی کی حدیث پر بھی وارد ہوتا ہے ‘ نیز یہ بات بھی خدشہ سے خالی نہیں کہ قرآن عزیز کی آیات زیر بحث میں تو نو آیات کا ذکر ہے اور صفوان کی حدیث میں دس 2 ؎ احکام شمار کرائے ہیں تو یہ گنتی کا تعارض ہے اور پھر احکام عشر کو ” تسع آیات “ کی تشریح بتانا کیسے صحیح ہو سکتا ہے ؟ ان دو اہم خدشات کے علاوہ اس قول اور حدیث صفوان کی تشریح پر جو سخت اشکال لازم آتا ہے وہ یہ ہے کہ سورة نمل میں ” تسع آیات “ کا ذکر کرتے ہوئے یدبیضاء کو نو میں کا ایک بتایا گیا اور یہ بھی صراحت کی گئی ہے کہ یہ آیات (نشانات ) فرعون اور قوم فرعون کی عبرت و بصیرت کے لیے بھیجے گئے تھے : { وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَائَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَقَوْمِہٖ اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْمًا فَاسِقِیْنَ } [149] ” اور داخل کر تو اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں وہ نکلے گا روشن بغیر کسی مرض کے (یہ ان) نو آیات میں سے (ہے) جو فرعون اور اس کی قوم کے لیے (بھیجی گئیں) بلاشبہ تھے وہ نافرمان گروہ “
پس قرآن عزیز کی اس صراحت کے بعد نہ حدیث نکارت سے خالی رہتی ہے اور نہ مفسرین کا یہ قول صحیح ہو سکتا ہے اس لیے حافظ حدیث ابن کثیر نے اس حدیث کے متعلق یہ فرمایا ہے : ( (فھذا الحدیث رواہ ھٰکذا الترمذی والنسائی وابن ماجہ وابن جریر فی تفسیرہ من طرق عن شعبۃ بن الحجاج بہٖ وقال الترمذی حسن صحیح وھو حدیث مشکل و عبد اللہ بن سلمۃ فی حفظہ شیء وقد تکلموا فیہ ولعلہ اشتبہ علیہ التسع الایات بالعشر الکلمات وصایا فی التورۃ لا تعلق لھا لقیام الحجۃ علیٰ فرعون واللہ اعلم ولھذا قال موسٰی لفرعون لقد علمت ما انزل ھولا الا رب السموات والارض بصائر ای حجۃ وادلۃ علیٰ صدق ما جئنٰک بہ ” وَاِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یَا فِرْعَوْنَ مَثْبُوْرًا)) ” پس اس حدیث کو اس طرح ترمذی ‘ نسائی ‘ ابن ماجہ اور ابن جریر نے اپنی تفسیر میں مختلف طریقوں سے شعبہ بن الحجاج سے روایت کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حسن صحیح ہے مگر اس حدیث میں اشکال ہے اور عبد اللہ بن سلمہ راوی کے حفظ میں کچھ خرابی ہے اور محدثین نے اس کے بارے میں کلام کیا ہے اور شاید اس کو اشتباہ ہو گیا کہ اس نے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمودہ دس احکام کو تسع آیات سمجھ کر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ‘ حالانکہ وہ دس نصیحتیں ہیں جو توراۃ میں بیان کی گئی ہیں ‘ ان کا فرعون پر قیام حجت و دلیل سے مطلق کوئی تعلق نہیں ‘ (واللّٰہ اعلم) اور تسع آیات میں قیام حجت مقصود ہے اسی لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون سے یہ فرمایا ” تو خوب جانتا ہے کہ ان آیات (معجزات) کو آسمانوں اور زمین کے پروردگار نے نہیں اتارا مگر عبرت و بصیرت کے لیے یعنی جو حق کا پیغام میں لے کر آیا ہوں اس کی تصدیق کے لیے حجت و دلیل بنا کر بھیجا ہے اور میں بلاشبہ اے فرعون تجھ کو ہلاکت زدہ سمجھتا ہوں۔ “ بہرحال یہ تشریح قطعاً مخدوش و مجروح ہے اور بعض مفسرین نے اس کے خلاف تسع آیات کی تعیین میں ان ہی آیات (معجزات) کو شمار کرایا ہے جو عبرت و بصیرت اور مخالفین کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کے لیے عطا کیے گئے تھے لیکن یہ اقوال بھی مختلف ہیں اور ان میں کافی انتشار موجود ہے اس لیے کہ ان میں قبل عبور اور بعد عبور نشانات کو خلط کر دیا گیا ہے البتہ ان سب اقوال میں قابل ترجیح حضرت عبد اللہ بن عباس کا یہ قول ہے کہ ” تسع آیات “ سے حسب ذیل آیات اللہ مراد ہیں : (1)عصا (2)یدبیضاء (3) سنین (4)نقص (5)ثمرات (5)طوفان (6)جراد (7) قمل (8) ضفادع (9) دم اور حضرت ابن عباس (رض) کے علاوہ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ شعبی اور قتادہ بھی اسی کی تائید فرماتے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کی اس تشریح کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جس قدر بھی آیات (معجزات) عطا کیے گئے ایک حصہ بحر قلزم کے عبور سے قبل اور دوسرا حصہ عبور کے بعد سے متعلق ہے اور پہلے حصہ کا تعلق ان تمام واقعات سے ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان میں پیش آئے اور معرکہ حق و باطل کا باعث بنے اور یہ نو ہیں ان میں سے عصا اور یدبیضا آیات کبریٰ ہیں۔ { فَاَرَاہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰی } [150] ” پس دکھایا اس (فرعون) کو ایک بڑا نشان (یعنی عصاء کا نشان) “ { وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ تَخْرُجْ بَیْضَآئَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓئٍ فِیْ تِسْعِ اٰیٰتٍ } [151] اور داخل کر تو اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ‘ نکلے گا وہ روشن بغیر کسی مرض کے نو نشانات (معجزات) میں سے۔ “
اور باقی سات ” آیات عذاب “ ہیں جس نے فرعون اور اہل مصر (قبطیوں) کی زندگی تنگ کردی تھی۔ { وَ لَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ فَاِذَا جَآئَتْھُمُ الْحَسَنَۃُ قَالُوْا لَنَا ھٰذِہٖ وَ اِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰی وَ مَنْ مَّعَہٗ اَ لَآ اِنَّمَا طٰٓئِرُھُمْ عِنْدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ وَ قَالُوْا مَھْمَا تَاْتِنَا بِہٖ مِنْ اٰیَۃٍ لِّتَسْحَرَنَا بِھَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْنَ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ } [152] اور ہم نے پکڑ لیا فرعون والوں کو قحطوں میں اور میووں کے نقصان میں تاکہ وہ نصیحت مانیں۔ پھر جب پہنچی ان کو بھلائی ‘ کہنے لگے یہ ہے ہمارے لائق اور اگر پہنچتی برائی تو نحوست بتلاتے موسیٰ کی اور اس کے ساتھ والوں کی ‘ سن لو ان کی شومی تو اللہ کے پاس ہے پر اکثر لوگ نہیں جانتے اور کہنے لگے جو کچھ تو لائے گا ہمارے پاس نشانی کہ ہم پر اس کی وجہ سے جادو کرے سو ہم ہرگز تجھ پر ایمان نہ لائیں گے پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان اور ٹڈی اور چچڑی اور مینڈک اور خون ‘ بہت سی نشانیاں جدا جدا دیں۔ “ اور ” آیات بینات “ کے دوسرے حصہ کا تعلق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل سے متعلق واقعات سے ہے جن میں سے بعض (معجزات) ان کو ہلاکت سے محفوظ رکھنے اور صداقت موسیٰ (علیہ السلام) کو قوت دینے کے لیے ہیں۔ مثلا من و سلوٰی کا نزول ‘ غمام (بادلوں کا سایہ) اور انفجار عیون (پتھر سے بارہ چشموں کا پھوٹ نکلنا) اور بعض بنی اسرائیل کی سرکشی پر تہدید و تخویف کے لیے ہیں مثلا نتق جبل (طور کے ایک حصہ کا اپنی جگہ سے اکھڑ کر بنی اسرائیل کے سر پر آجانا) { وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ } [153] ” اور اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر بادل کا سایہ قائم کر دیا۔ اور اے بنی اسرائیل ہم نے تم پر من (حلوائے شیریں) اور سلویٰ (بٹیریں) نازل کیا پس تم ان پاک چیزوں کو کھاؤ جو ہم نے تم کو رزق بنا کردی ہیں “ { وَ اِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا } [154] ” اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے کہا (اے موسیٰ ) تو پتھر پر اپنی لاٹھی مار ‘ پس بہہ پڑے اس سے بارہ چشمے۔ “ اور دونوں قسم کے نشانات کے لیے حد فاصل وہ عظیم الشان نشان ہے جو فلق بحر (قلزم کے دو ٹکڑے ہو کر راہ نکل آنا) کے عنوان سے معنون ہے اور دراصل ظلم و قہر کی ہلاکت اور مظلومانہ زندگی کی نصرت و حمایت کے لیے ایک فیصلہ کن نشان تھا ‘ یا یوں کہہ دیجئے کہ واقعات قبل از عبور کے انجام اور بعد از عبور روشن آغاز کے لیے حد فاصل کی حیثیت رکھتا تھا چنانچہ اعراف ‘ اسراء ‘ طہ ‘ شعرا ‘ قصص ‘ زخرف ‘ دخان اور الذاریات میں اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور یہ تمام نشانات (معجزات) درحقیقت توطیہ اور تمہید تھے ایک ایسے عظیم الشان اور جلیل المرتبت نشان کے جو اس پوری تاریخ کا حقیقی مقصد اور بنیاد و اساس تھا اور وہ نزول توراۃ کا نشان اعظم ہے۔ { اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ} [155] ” اور ہم نے اتاری توراۃ جس میں ہدایت اور نور (کا ذخیرہ) ہے۔ “ الحاصل حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) کا یہ اثر زیر بحث مسئلہ کے لیے قول فیصل ہے اسی لیے حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اس کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے : ( (وھذا القول ظاہر حلی قوی)) 1 ؎ اور یہ قول صاف ہے واضح ہے عمدہ ہے اور قوی ہے۔ “
بہرحال فرعون اور اس کی پیہم اور مسلسل سرکشی ‘ ظلم ‘ حق کے ساتھ استہزاء ‘ مخول ‘ اور نافرمانی کے باعث خدائے تعالیٰ کی جانب سے مصریوں پر مختلف ہلاکتیں اور عذاب آتے رہے اور وقفہ کے ساتھ ان ” نشانات “ کا ظہور ہوتا رہا جب ایک عذاب آتا تو سب واویلا کرنے لگتے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہتے کہ اگر اس مرتبہ تو نے اپنے خدا سے کہہ کر اس عذاب کو ٹال دیا تو ہم سب ایمان لے آئیں گے اور جب وہ ٹل جاتا تو پھر سرکشی شروع کردیتے آخر پھر دوسرا عذاب آ پکڑتا اور پھر وہی صورت پیش آجاتی۔ اس تفصیلی واقعہ کا ذکر ابھی سورة اعراف کی آیات میں گذر چکا ہے۔ ان آیات میں بیان کردہ نشانیوں میں سے قمل 2 ؎ (جوں) اور ضفادع (مینڈک) کے متعلق علمائے سیر نے لکھا ہے کہ ان دونوں چیزوں کی یہ حالت تھی کہ بنی اسرائیل کے کھانے پینے پہننے اور برتنے کی کوئی چیز ایسی نہ تھی جن میں یہ موجود نظر نہ آتے ہوں حتیٰ کہ قوم فرعون کی عافیت تنگ ہو گئی اور وہ عاجز آگئے اور خون کے متعلق لکھا ہے کہ دریائے نیل کا پانی لہو کی رنگت کا ہو گیا تھا اور اس کے ذائقہ نے اس کا پینا دشوار کر دیا تھا اور پانی میں مچھلیاں تک مرگئی تھیں۔ توراۃ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ { وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰی تِسْعَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍ فَسْئَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اِذْ جَآئَھُمْ فَقَالَ لَہٗ فِرْعَوْنُ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰمُوْسٰی مَسْحُوْرًا قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھٰٓؤُلَآئِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّکَ یٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا } [156] اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو ظاہر نشانات دیے پس اے محمد تو بنی اسرائیل سے دریافت کر کہ جب وہ ان کے پاس آیا تو فرعون نے موسیٰ سے کہا اے موسیٰ میں تجھ کو جادو کا مارا ہوا گمان کرتا ہوں موسیٰ نے کہا ” تو خوب جانتا ہے کہ آسمان و زمین کے اس بحث کے لیے روح المعانی ‘ ابن کثیر ‘ تفسیر کبیر اور البحر المحیط خصوصیت کے ساتھ قابل مراجعت ہیں ‘ ان کے مطالعہ کے بعد مولف کے قول فیصل کی اہمیت و لطافت کا اندازہ ہو سکتا ہے ‘ وَذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَائُ وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ [157]
*قمل سے یہاں کیا مراد ہے ؟ اس کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) سے ایک روایت ہے کہ وہ کیڑا مراد ہے جو اناج میں پیدا ہو کر اس کو خراب کردیتا ہے (اردو میں اس کو سرسری کہتے ہیں) اور انہی سے ایک روایت ہے کہ اس سے وہ چھوٹی ٹڈی مراد ہے جس کے پر نہیں ہوتے اور وہ بھی غلہ کو گھن لگا دیتی ہے۔ مجاہد ‘ عکرمہ ‘ قتادہ کی بھی یہی رائے ہے اور ابن جریر کہتے ہیں کہ جوں کی طرح کا ایک کیڑا ہوتا ہے جو اونٹوں میں ہلاکت پیدا کرتا ہے اور راغب اصفہانی کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ چھوٹی مکھی ہے جو انسانی صحت کے لیے بے حد مضرت رساں ہے۔ قمل عربی میں عام طور پر جوں کو کہتے ہیں۔ توراۃ میں اس جگہ جوں اور مکھی دونوں کا ذکر ہے (موجودہ بائبل میں جوں اور مچھر کا ذکر ہے۔ [158] لیکن ابن عباس ‘ مجاہد ‘ قتادہ ‘ عکرمہ ‘ ابن جریر اور راغب جیسے ائمہ لغت اس لفظ کا اطلاق مسطورہ بالا مختلف کیڑوں پر کر رہے ہیں ‘ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قمل اپنے معنی میں ان مصادیق کے لیے وسیع ہے ‘ اس لیے ان تمام اطلاقات کی تطبیق کے لیے یہ کیوں نہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر یہ عذاب نازل فرمایا کہ انسانوں پر جوئیں مسلط کر دیں ‘ ان کے کھانے پینے کی چیزوں میں چھوٹی مکھیوں کو پھیلا دیا ‘ ان کے جانوروں میں ہلاک کرنے والا کیڑا پیدا کر دیا اور ان کے اناج اور غلہ میں گھن لگا کر خراب کردینے والی سرسری کی تباہی پھیلا دی اور ان سب مہلک کیڑوں کو قرآن کے اعجاز نے قمل کی وسیع تعبیر میں بیان فرما دیا ہے۔ (مؤلف) پروردگار نے ان نشانات کو عبرتیں بنا کر اتارا ہے اور اے فرعون میں سمجھتا ہوں کہ تو نے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ “ { وَ لَقَدْ اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَاکُلَّھَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی } [159] ” اور بے شک ہم نے فرعون کو اپنے نشانات سب (معجزے) دکھائے پھر بھی اس نے جھٹلایا اور انکار ہی کیا۔ “ { فَلَمَّا جَائَتْہُمْ اٰیٰتُنَا مُبْصِرَۃً قَالُوْا ہٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ } [160] ” پھر جب ان کے پاس ہمارے نشانات بصیرت کے لیے آپہنچے تو وہ کہنے لگے یہ توصریح جادو ہے اور انھوں نے اپنے جی میں یہ یقین رکھتے ہوئے کہ یہ صحیح ہیں “ ظلم اور غرور کی وجہ سے انکار کر دیا۔ پس دیکھ (اے مخاطب ) مفسدوں کا انجام کیسا ہوا ؟ “ { فَلَمَّا جَآئَھُمْ مُّوْسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّ مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِیْٓ اٰبَآئِنَا الْاَوَّلِیْنَ وَ قَالَ مُوْسٰی رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآئَ بِالْھُدٰی مِنْ عِنْدِہٖ وَ مَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ } [161] ” پھر جب ان کے پاس ہماری صریح نشانیاں پہنچیں کہنے لگے یہ کچھ نہیں ہیں مگر گھڑا ہوا جادو اور ہم نے اپنے پہلے باپ دادوں میں یہ باتیں نہیں سنیں ‘ اور موسیٰ نے کہا میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون شخص لایا ہے اس کے پاس سے ہدایت کو اور کون ہے جس کے لیے آخرت کا انجام مقرر ہے بلاشبہ وہ بے انصافوں کو فلاح نہیں دیتا۔ “ { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ وَمَلَاْئِہٖ فَقَالَ اِنِّیْ رَسُوْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَلَمَّا جَائَہُمْ بِاٰیٰتِنَا اِذَا ہُمْ مِّنْہَا یَضْحَکُوْنَ وَمَا نُرِیْہِمْ مِّنْ اٰیَۃٍ اِلَّا ہِیَ اَکْبَرُ مِنْ اُخْتِہَا وَاَخَذْنَاہُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ وَقَالُوْا یٰٓـاَیُّہَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنَا رَبَّکَ بِمَا عَہِدَ عِنْدَکَ اِنَّنَا لَمُہْتَدُوْنَ فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِذَا ہُمْ یَنْکُثُوْنَ } [162] ” اور بے شک ہم نے موسیٰ کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف اپنی نشانیاں دے کر بھیجا پس موسیٰ نے کہا میں جہانوں کے پروردگار کا رسول ہوں ‘ پھر جب وہ ہماری نشانیاں لایا ‘ اچانک وہ اس کا مذاق اڑانے لگے اور ہم نے جو نشان ان کو دکھایا ان میں سے ایک دوسرے سے بڑا ہی تھا اور ہم نے ان کو (دنیوی) عذاب میں گرفتار کیا تاکہ وہ باز آجائیں اور وہ کہنے لگے اے جادو گر تو اپنے پروردگار سے اپنے اس عہد (نبوت) کی بنا پر ہمارے لیے دعا کر (کہ یہ مصیبت جاتی رہے) تو ہم بلاشبہ ہدایت قبول کر لیں گے پھر جب ہم نے ان سے عذاب کو دور کر دیا تو پھر وہ بدعہد ہو گئے۔ “ { وَلَقَدْ جَائَ الَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا کُلِّہَا فَاَخَذْنَاہُمْ اَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِر } [163] ” اور بلاشبہ آل فرعون کے پاس (بدکرداریوں کے انجام سے) ڈرانے والے آئے انھوں نے ہماری سب نشانیوں کو جھٹلایا پس ہم نے ان کو (اپنے عذاب میں) پکڑ لیا ایک غالب اور قدرت والے کی پکڑ کی طرح۔ “ { فَاَرَاہُ الْاٰیَۃَ الْکُبْرٰی فَکَذَّبَ وَعَصٰی } [164] ” پھر دکھلائی (موسیٰ (علیہ السلام) نے) اس کو بڑی نشانی پس اس (فرعون) نے جھٹلایا اور نافرمانی کی۔ “
جب معاملہ اس حد کو پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ تم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر باپ دادا کی سرزمین کی جانب لے جاؤ۔ مصر سے فلسطین یا ارض کنعان جانے کے دو راستے ہیں ایک خشکی کا راستہ ہے اور وہ قریب ہے اور دوسرا بحر احمر (قلزم) کا راستہ یعنی اس کو عبور کر کے بیابان شور اور سینا (تیہ) کی راہ ہے اور یہ دور کی راہ ہے مگر خدائے تعالیٰ کی مصلحت کا تقاضا یہی ہوا کہ وہ خشکی کی راہ چھوڑ کر دور کی راہ اختیار کریں اور قلزم کو پار کر کے جائیں۔ واقعات رونما ہوجانے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اس راہ کو حق تعالیٰ نے اس لیے ترجیح دی کہ خشکی کی راہ سے گزرنے میں فرعون اور اس کی فوج سے جنگ ضروری ہوجاتی کیونکہ انھوں نے بنی اسرائیل کو قریب ہی آلیا تھا اور اگر دریا کا معجزہ پیش نہ آتا تو فرعون بنی اسرائیل کو واپس مصر لے جانے میں کامیاب ہوجاتا اور چونکہ صدیوں کی غلامی نے بنی اسرائیل کو بزدل اور پست ہمت بنادیا تھا ‘ اس لیے وہ خوف اور رعب کی وجہ سے کسی طرح فرعون کے ساتھ جنگ پر آمادہ نہ ہوتے ‘ توراۃ سے بھی اس توجیہ کی تائید نکلتی ہے اس میں مذکور ہے : اور جب فرعون نے ان لوگوں کو جانے کی اجازت دے دی تو خدا ان کو فلستیوں کے ملک کے راستہ سے نہیں لے گیا اگرچہ ادھر سے نزدیک پڑتا کیونکہ خدا نے کہا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ لڑائی بھڑائی دیکھ کر پچھتانے لگیں اور مصر کو لوٹ جائیں بلکہ خداوند ان کو چکر کھلا کر بحر قلزم کے بیابان کے راستے لے گیا۔ “ [165] علاوہ ازیں فرعون اور قوم فرعون کو ان کی نافرمانی اور سرکشی کی پاداش اور عظیم الشان اعجاز کے ذریعہ ظالم و قاہر اقتدار سے مظلوم قوم کی نجات کا عدیم النظیر مظاہرہ کرنا بھی مقصود تھا ‘ اسی لیے یہ راستہ موزوں سمجھا گیا۔ غرض حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) بنی اسرائیل کو لے کر راتوں رات بحر احمر کی راہ پر ہو لیے اور روانہ ہونے سے پہلے مصری عورتوں کے زیورات اور قیمتی پارچہ جات جو ایک تہوار میں مستعار لیے تھے وہ بھی واپس نہ کرسکے کہ کہیں مصریوں پر اصل حال نہ کھل جائے۔ ادھر پرچہ نویسوں نے فرعون کو اطلاع کی کہ بنی اسرائیل مصر سے فرار ہونے کے لیے شہروں سے نکل گئے ہیں فرعون نے اسی وقت ایک زبردست فوج کو ساتھ لیا اور رعمسیس سے نکل کر ان کا تعاقب کیا اور صبح ہونے سے پہلے ان کے سر پر جا پہنچا۔ بنی اسرائیل کی تعداد بقول توراۃ علاوہ بچوں اور چوپایوں کے چھ لاکھ تھی مگر پو پھٹنے کے وقت جب انھوں نے پیچھے پھر کے دیکھا تو فرعون کو سر پر پایا ‘ گھبرا کر کہنے لگے : ” کیا مصر میں قبریں نہ تھیں جو تو ہم کو مرنے کے لیے بیابان میں لے آیا ہے ؟ تو نے ہم سے یہ کیا کیا کہ ہم کو مصر سے نکال لایا ؟ کیا ہم تجھ سے مصر میں یہ بات نہ کہتے تھے کہ ہم کو رہنے دے کہ ہم مصریوں کی خدمت کریں ؟ کیونکہ ہمارے لیے مصریوں کی خدمت کرنا بیابان میں مرنے سے بہتر ہوتا۔ “ [166]
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تسلی دی اور فرمایا خوف نہ کرو خدا کا وعدہ سچا ہے وہ تم کو نجات دے گا اور تم ہی کامیاب ہو گے ‘ اور پھر درگاہ الٰہی میں دست بدعا ہوئے وحی الٰہی نے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا کہ اپنی لاٹھی کو پانی پر مارو تاکہ پانی پھٹ کر بیچ میں راستہ نکل آئے ‘ چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا جب انھوں نے قلزم پر اپنا عصا مارا تو پانی پھٹ کر دونوں جانب دو پہاڑوں کی طرح کھڑا ہو گیا اور بیچ میں راستہ نکل آیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم سے تمام بنی اسرائیل اس میں اتر گئے۔ اور خشک زمین کی طرح اس سے پار ہو گئے ‘ فرعون نے یہ دیکھا تو اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا یہ میری کرشمہ سازی ہے کہ بنی اسرائیل کو تم جا پکڑو لہٰذا بڑھے چلو چنانچہ فرعون اور اس کا تمام لشکر بنی اسرائیل کے پیچھے اسی راستے پر اتر لیے لیکن اللہ تعالیٰ کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ جب بنی اسرائیل کا ہر فرد دوسرے کنارہ پر سلامتی کے ساتھ پہنچ گیا تو پانی بحکم الٰہی پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا اور فرعون اور اس کا تمام لشکر جو ابھی درمیان میں ہی میں تھا غرق ہو گیا۔ جب فرعون غرق ہونے لگا اور ملائکہ عذاب سامنے نظر آنے لگے تو پکار کر کہنے لگا ” میں اسی ایک وحدہ لا شریک لہ ہستی پر ایمان لاتا ہوں جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں فرمان برداروں میں سے ہوں “ مگر یہ ایمان چونکہ حقیقی ایمان نہ تھا بلکہ گذشتہ فریب کاریوں کی طرح نجات حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ایک مضطربانہ بات تھی اس لیے خدا کی طرف سے یہ جواب ملا : { آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ } [167] اب یہ کہہ رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے جو اقرار کا وقت تھا اس میں انکار اور خلاف ہی کرتا رہا اور درحقیقت تو مفسدوں میں سے تھا۔ “ یعنی خدا کو خوب معلوم ہے کہ تو ” مسلمین “ میں سے نہیں بلکہ ” مفسدین “ میں سے ہے۔ درحقیقت فرعون کی یہ پکار ایسی پکار تھی جو ایمان لانے اور یقین حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ عذاب الٰہی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اضطراری اور بے اختیاری کی حالت میں نکلتی ہے اور مشاہدہ عذاب کے وقت اس کی یہ صدائے ” ایمان و یقین “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس دعا کا نتیجہ تھی جس کا ذکر گذشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں : { فَـلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا } [168] ” پس یہ اس وقت تک ایمان نہ لائیں ‘ جب تک اپنی ہلاکت اور عذاب کو آنکھوں سے نہ دیکھ لیں ‘ اللہ تعالیٰ نے کہا بلاشبہ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی۔ “ اس موقع پر فرعون کی پکار پر درگاہ الٰہی کی جانب سے یہ بھی جواب دیا گیا : { نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ ایَۃً } [169] ” آج کے دن ہم تیرے جسم کو ان لوگوں کے لیے جو تیرے پیچھے آنے والے ہیں نجات دیں گے کہ وہ (عبرت کا) نشان بنے۔ “ پس اگر گذشتہ ” مصری مقالہ “ کا مضمون صحیح ہے کہ منفتاح (رعمسیس ثانی) 1 ؎ ہی فرعون موسیٰ ((علیہ السلام)) تھا تب تو بے شبہ اس کی نعش آج تک محفوظ ہے اور سمندر میں تھوڑی دیر غرق رہنے کی وجہ سے اس کی ناک کو مچھلی نے کھالیا ہے اور آج وہ مصریات (اجپٹالوجی) کے مصری عجائب خانہ میں تماشاگاہ خاص و عام ہے۔ اور بالفرض یہ وہ فرعون نہیں ہے تب بھی آیات کا مطلب اپنی جگہ صحیح ہے ‘ اس لیے کہ توراۃ میں تصریح ہے کہ بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے غرق شدہ مصریوں کی نعشوں کو کنارے پر پڑے ہوئے دیکھا تھا۔ اور اسرائیلیوں نے مصریوں کو سمندر کے کنارے مرے ہوئے پڑے دیکھا “ [170]
قرآن عزیز نے بنی اسرائیل کی روانگی اور فرعون کے غرق اور بنی اسرائیل کی نجات کے واقعہ کو بہت مختصر بیان کیا ہے اور اس کے صرف ضروری اجزاء ہی کا تذکرہ کیا ہے البتہ اس سے متعلق عبرت و بصیرت اور موعظت کے معاملہ کو قدرے تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے چنانچہ ارشاد باری ہے : { وَ لَقَدْ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اَنْ اَسْرِ بِعِبَادِیْ فَاضْرِبْ لَھُمْ طَرِیْقًا فِی الْبَحْرِ یَبَسًا لَّا تَخٰفُ دَرَکًا وَّ لَا تَخْشٰی فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُوْدِہٖ فَغَشِیَھُمْ مِّنَ الْیَمِّ مَا غَشِیَھُمْ وَ اَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہٗ وَ مَا ھَدٰی } [171] اور (پھر دیکھو) ہم نے موسیٰ پر وحی بھیجی تھی کہ (اب) میرے بندوں کو راتوں رات (مصر سے) نکال لے جا پھر سمندر میں ان کے گزرنے کے لیے خشکی کی راہ نکال لے تجھے نہ تو تعاقب کرنے والوں سے اندیشہ ہوگا نہ اور کسی طرح کا خطرہ پھر (جب موسیٰ اپنی قوم کو لے کر نکل گیا تو) فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ اس کا پیچھا کیا پس (پانی کا ریلا) جیسا کچھ ان پر چھانے والا تھا چھا گیا (یعنی جو کچھ ان پر گزرنی تھی گذر گئی) اور فرعون نے اپنی قوم پر راہ (نجات) گم کردی اور انھیں سیدھی راہ نہیں دکھائی۔ “ { وَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنْ اَسْرِ بِعِبٰدِیْ اِنَّکُمْ مُتَّبَعُوْنَ فَاَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِی الْمَدَائِنِ حَاشِرِیْنَ اِنَّ ہٰٓؤُلَآئِ لَشِرْذِمَۃٌ قَلِیْلُوْنَ وَاِنَّہُمْ لَنَا لَغَائِظُوْنَ وَاِنَّا لَجَمِیْعٌ حَاذِرُوْنَ فَاَخْرَجْنٰـہُمْ مِّنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّکُنُوْزٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا بَنِیْ اِسْرَآئِیلَ فَاَتْبَعُوْہُمْ مُّشْرِقِیْنَ فَلَمَّا تَرَآئَ الْجَمْعَانِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ قَالَ کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِ فَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ وَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَ وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَجْمَعِیْنَ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ } [172] اور حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو کہ رات کو لے نکل میرے بندوں کو البتہ تمھارا پیچھا کریں گے پھر بھیجے فرعون نے شہروں میں نقیب ‘ یہ لوگ جو ہیں سو ایک جماعت ہے تھوڑی سی اور وہ مقرر ہم سے دل جلے ہوئے ہیں اور ہم سارے ان سے خطرہ رکھتے ہیں پھر نکال باہر کیا ہم نے ان کو باغوں اور چشموں اور خزانوں اور مکانوں سے اسی طرح اور ہاتھ لگا دیں ہم نے یہ چیزیں بنی اسرائیل کے پھر پیچھے پڑے ان کے سورج نکلنے کے وقت پھر جب مقابل ہوئیں دونوں فوجیں ‘ کہنے لگے موسیٰ کے لوگ ہم تو پکڑے گئے کہا ہرگز نہیں میرے ساتھ ہے میرا رب وہ مجھ کو راہ بتائے گا پھر حکم بھیجا ہم نے موسیٰ کو کہ مار اپنے عصا سے دریا کو پھر دریا پھٹ گیا تو ہو گئی ہر ایک پھاٹک جیسے بڑا پہاڑ اور پاس پہنچا دیا ہم نے اسی جگہ دوسروں کو اور بچا دیا ہم نے موسیٰ کو اور جو لوگ تھے اس کے ساتھ سب کو ‘ پھر ڈبا دیا ہم نے ان دوسروں کو اس چیز میں ایک نشانی ہے اور نہیں تھے بہت لوگ ان میں ماننے والے اور تیرا رب وہی ہے زبردست رحم والا۔ “ { فَانْتَقَمْنَا مِنْھُمْ فَاَغْرَقْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْا یُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ بِمَا صَبَرُوْا وَ دَمَّرْنَا مَا کَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَ قَوْمُہٗ وَ مَا کَانُوْا یَعْرِشُوْنَ } [173] ” بالآخر ہم نے (ان کی بدعملیوں پر) انھیں سزا دی (یعنی اس جرم کی پاداش میں) کہ ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور ان کی طرف سے غافل رہے انھیں سمندر میں غرق کر دیا اور جس قوم کو کمزور و حقیر خیال کرتے تھے اسی کو ملک کے تمام پورب کا اور اس کے مغربی حصوں کا کہ ہماری بخشی ہوئی برکت سے مالامال ہے وارث کر دیا اور اس طرح (اے پیغمبر ) تیرے پروردگار کا فرمان پسندیدہ بنی اسرائیل کے حق میں پورا ہوا کہ (ہمت و ثبات کے ساتھ جمے رہے تھے اور فرعون اور اس کا گروہ (اپنی طاقت و شوکت کے لیے) جو کچھ بناتا رہا تھا اور جو کچھ (عمارتوں کی) بلندیاں اٹھائی تھیں وہ سب درہم برہم کر دیں “ { وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَھُمْ فِرْعَوْنُ وَ جُنُوْدُہٗ بَغْیًا وَّ عَدْوًا حَتّٰیٓ اِذَآ اَدْرَکَہُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآئِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً وَ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ ایٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ } [174] ” اور پھر ایسا ہوا کہ ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر کے پار اتار دیا ‘ یہ دیکھ کر فرعون اور اس کے لشکر نے پیچھا کیا ‘ مقصود یہ تھا کہ ظلم و شرارت کریں ‘ لیکن جب حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ فرعون سمندر میں غرق ہونے لگا تو اس وقت پکار اٹھا ” میں یقین کرتا ہوں کہ اس ہستی کے سوا کوئی معبود نہیں جس پر بنی اسرائیل ایمان رکھتے ہیں ‘ اور میں بھی اسی کے فرمان برداروں میں ہوں “ (ہم نے کہا) ” ہاں اب تو ایمان لایا حالانکہ پہلے برابر نافرمانی کرتا رہا اور تو دنیا کے مفسد انسانوں میں سے ایک (بڑا ہی) مفسد تھا پس آج ہم ایسا کریں گے کہ تیرے جسم کو (سمندر کی موجوں سے) بچا لیں گے ‘ تاکہ ان لوگوں کے لیے جو تیرے بعد آنے والے ہیں ‘ (قدرت حق کی) ایک نشانی ہو اور اکثر انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں کی طرف سے یک قلم غافل رہتے ہیں۔ “
{وَاسْتَکْبَرَ ھُوَ وَ جُنُوْدُہٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ فَاَخَذْنٰہُ وَ جُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ } [175] اور برائی کرنے لگے وہ اور اس کے لشکر ملک میں ناحق اور سمجھے کہ وہ ہماری طرف پھر کر نہ آئیں گے پھر پکڑا ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پھر پھینک دیا ہم نے ان کو دریا میں سو دیکھ لے کیسا ہوا انجام گناہ گاروں کا۔ “ { وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبْلَہُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَآئَہُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ اَنْ اَدُّوْا اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰہِ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ وَّاَنْ لَّا تَعْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِنِّیْٓ اٰتِیْکُمْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ وَاِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ وَاِنْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا لِیْ فَاعْتَزِلُوْنِ فَدَعَا رَبَّہٗ اَنَّ ہٰٓؤُلَآئِ قَوْمٌ مُّجْرِمُوْنَ فَاَسْرِ بِعِبٰدِیْ لَیْلًا اِنَّکُمْ مُّتَّبَعُوْنَ وَاتْرُکِ الْبَحْرَ رَہْوًا اِنَّہُمْ جُنْدٌ مُّغْرَقُوْنَ کَمْ تَرَکُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ وَّزُرُوْعٍ وَّمَقَامٍ کَرِیْمٍ وَّنَعْمَۃٍ کَانُوْا فِیْہَا فَاکِہِیْنَ کَذٰلِکَ وَاَوْرَثْنَاہَا قَوْمًا اخَرِیْنَ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَآئُ وَالْاَرْضُ وَمَا کَانُوْا مُنْظَرِیْنَ وَلَقَدْ نَجَّیْنَا بَنِیْ اِسْرَآئِیْلَ مِنَ الْعَذَابِ الْمُہِیْنِ مِنْ فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ کَانَ عَالِیًا مِّنَ الْمُسْرِفِیْنَ } [176] ” اور جانچ چکے ہم ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اور آیا ان کے پاس رسول عزت والا کہ حوالہ کرو میرے ‘ بندے خدا کے ‘ تمھارے پاس آیا ہوں بھیجا ہوا معتبر اور یہ کہ سرکشی نہ کرو اللہ کے مقابل ‘ میں لایا ہوں تمھارے پاس سند کھلی ہوئی اور میں پناہ لے چکا ہوں اپنے رب اور تمھارے رب کی اس بات سے کہ تم مجھ کو سنگسار کرو اور اگر تم نہیں یقین کرتے مجھ پر تو مجھ سے پرے ہو جاؤ پھر دعا کی اپنے رب سے کہ یہ لوگ گناہ گار ہیں ‘ پھر لے نکل رات میں میرے بندوں کو البتہ تمھارا پیچھا کریں گے اور چھوڑ جا دریا کو تھما ہوا البتہ وہ لشکر ڈوبنے والے ہیں بہت سے چھوڑ گئے باغ اور چشمے اور کھیتیاں اور گھر عمدہ اور آرام کا سامان جس میں باتیں بنایا کرتے تھے ‘ یونہی ہوا اور وہ سب ہاتھ لگا دیا ہم نے ایک دوسری قوم کے پھر نہ رویا ان پر آسمان اور زمین اور نہ ملی ان کو ڈھیل اور ہم نے بچا نکالا بنی اسرائیل کو ذلت کی مصیبت سے جو فرعون کی طرف سے تھی بے شک وہ تھا چڑھ رہا حد سے بڑھ جانے والا۔ “ { فَاَرَادَ اَنْ یَّسْتَفِزَّھُمْ مِّنَ الْاَرْضِ فَاَغْرَقْنٰہُ وَ مَنْ مَّعَہٗ جَمِیْعًا وَّ قُلْنَا مِنْم بَعْدِہٖ لِبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اسْکُنُوا الْاَرْضَ فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ جِئْنَابِکُمْ لَفِیْفًا } [177] ” پھر چاہا بنی اسرائیل کو چین نہ دے اس زمین میں پھر ڈبا دیا ہم نے اس کو اور اس کے ساتھ والوں کو سب کو اور کہا ہم نے اس کے پیچھے آباد رہو تم زمین میں پھر جب آئے گا وعدہ آخرت کا لے آئیں گے ہم تم کو سمیٹ کر۔ “ { وَفِیْ مُوْسٰی اِذْ اَرْسَلْنَاہُ اِلٰی فِرْعَوْنَ بِسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ فَتَوَلّٰی بِرُکْنِہٖ وَقَالَ سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ فَاَخَذْنَاہُ وَجُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنَاہُمْ فِی الْیَمِّ وَہُوَ مُلِیْمٌ } [178] ” اور نشانی ہے موسیٰ کے حال میں جب بھیجا ہم نے اس کو فرعون کے پاس دے کر کھلی سند پھر اس نے منہ موڑ لیا اپنے زور پر اور بولا یہ جادو گر ہے یا دیوانہ پھر پکڑا ہم نے اس کو اور اس کے لشکروں کو پھر پھینک دیا ان کو دریا میں اور اس پر لگا الزام۔ “
البتہ توراۃ نے بیان کردہ واقعات کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تفصیلات بیان کی ہیں اور بنی اسرائیل کے کوچ اور پڑاؤ کے اکثر مقامات کے نام بھی بتائے ہیں جو دنیا کے لیے نامعلوم ہیں۔ توراۃ کے بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم پر جب خدا کی بھیجی ہوئی آفات کا سلسلہ جاری ہو گیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشاد کے مطابق یکے بعد دیگرے ” نشانات “ کا ظہور ہونے لگا تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بلا کر کہا کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لے جا مگر ان کے چوپائے اور پالتو جانور یہیں چھوڑنے ہوں گے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس شرط کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ ایک جانور بھی تو روکنے کا حق نہیں رکھتا ‘ تب فرعون غضبناک ہو کر کہنے لگا کہ اب بنی اسرائیل نہ جاسکیں گے اور تو اب میرے سامنے کبھی نہ آنا ورنہ میرے ہاتھ سے مارا جائے گا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ یہ تو نے ٹھیک کہا اب میں کبھی تیرے سامنے نہ آؤں گا ‘ میرے خدا کا یہی فیصلہ ہے اور اس نے مجھ کو بتادیا ہے کہ تجھ پر اور تیری قوم پر ایسی سخت آفت آئے گی کہ تیرا اور کسی مصری کا پہلوٹھا زندہ نہیں رہے گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) فرعون سے یہ گفتگو کر کے دربار سے باہر نکل آئے اور پھر بنی اسرائیل سے یہ فرمایا کہ خداوند خدا کا ارشاد ہے کہ فرعون کا دل سخت ہو گیا ہے وہ اب تم کو یہاں سے اس وقت تک نہ جانے دے گا جب تک مزید نشان نہ دیکھ لے جس سے تمام مصریوں میں کہرام مچ جائے مگر تم کو تیار کر لینی چاہیے کہ مصر سے نکلنے کا وقت آپہنچا اور خدائے تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ بنی اسرائیل کو نکلنے سے پہلے قربانی اور عید فسح کا بھی حکم دیا اور اس کا طریقہ اور شرائط بھی بتادیں ‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے یہ بھی کہا کہ اپنی عورتوں سے کہو کہ وہ مصری عورتوں کے پاس جائیں اور ان سے عید کے لیے سونے اور چاندی کے زیور اور قیمتی پارچہ جات مستعار مانگ لائیں اور مصری عورتوں نے آخر ان کو زیورات دے دیے پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک رات فرعون سے لے کر معمولی مصری کا پہلوٹھا مرگیا اور تمام گھرانوں میں کہرام مچ گیا۔ یہ دیکھ کر مصری فرعون کے پاس دوڑے آئے اور اس کو مجبور کیا کہ اسی وقت تمام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال دے تاکہ یہ نحوست یہاں سے دور ہو ہم پر یہ سب آفتیں انہی کی بدولت آتی رہتی ہیں۔ تب فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اسی وقت تم سب یہاں سے نکل جاؤ اور اپنے جانوروں ‘ مویشیوں اور سب سامان کو بھی ساتھ لے جاؤ ‘ جب بنی اسرائیل رعمسیس (جشن کے شہر) سے نکلے تو بچوں اور جانوروں کے علاوہ وہ سب چھ لاکھ تھے اور جب وہ نکلے تو مصریوں کے زیورات کو بھی واپس نہ کرسکے اور مصریوں نے بھی مطالبہ نہ کیا۔ جب بنی اسرائیل نے جنگل کی راہ لی تو اب فرعون اور اس کے سرداروں کو اپنے فیصلہ پر سخت افسوس ہوا ‘ اور انھوں نے آپس میں کہا کہ ہم نے مفت میں ایسے اچھے چاکر اور غلام ہاتھ سے کھو دیے اور فرعون نے حکم دیا کہ فوراً سرداروں ‘ مصری نوجوانوں اور فوج کو تیاری کا حکم دو اور وہ کروفر کے ساتھ رتھوں میں سوار ہو کر نکل کھڑے ہوئے اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا۔
بنی اسرائیل رعمسیس سے سکات اور وہاں سے ایتام اور پھر مڑ کر مجدال اور بحر احمر کے درمیان میں فی ہخیروت کے پاس بعل صفون کے سامنے خیمہ زن ہو چکے تھے بنی اسرائیل کے اس پورے سفر میں خدا ان کے ساتھ رہا اور وہ نورانی ستون کی تجلی کے ساتھ رات میں بھی ان کی رہنمائی کرتا اور دن میں بھی آگے آگے چلتا غرض صبح کی پوپھٹ رہی تھی کہ فرعون نے سمندر کے کنارے بنی اسرائیل کو آلیا۔ انھوں نے پیچھے پھر کر دیکھا اور فرعون کو لاؤ لشکر کے ساتھ اپنے قریب پایا تو بددل اور خائف ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جھگڑا کرنے لگے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو بہت کچھ تسلی و تشفی دی اور بتایا کہ تمھارے دشمن ہلاک ہوں گے اور تم سلامتی و عافیت کے ساتھ نجات پاؤ گے ‘ اور پھر دربار خداوندی میں مناجات کرنے لگے : ” اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ تو کیوں مجھ سے فریاد کر رہا ہے ‘ بنی اسرائیل سے کہو کہ وہ آگے بڑھیں اور تو اپنی لاٹھی اٹھاکر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل جائیں گے۔۔ پھر موسیٰ نے اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھایا اور خداوند نے رات بھر تند پوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا اور پانی دو حصے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ اور خداوند نے سمندر کے بیچ ہی میں مصریوں کو تہ وبالا کر دیا اور پانی پلٹ کر آیا اور اس نے رتھوں اور سواروں اور فرعون کے لشکر کو جو اسرائیلیوں کا پیچھا کرتا ہوا سمندر میں گیا تھا غرق کر دیا اور ایک بھی ان میں سے باقی نہ چھوڑا ‘ پھر بنی اسرائیل سمندر کے بیچ میں خشک زمین پر چل کر نکل گئے اور پانی ان کے داہنے اور بائیں ہاتھ دیواروں کی طرح رہا۔۔ اور اسرائیلیوں نے وہ بڑی قدرت جو خداوند نے مصریوں پر ظاہر کی دیکھی اور وہ لوگ خداوند سے ڈرے اور خداوند پر اور اس کے بندے موسیٰ پر ایمان لائے۔ “ [179] توراۃ کی ان تفصیلات میں اگرچہ بہت زیادہ رطب و یابس اور دور از کار باتیں بھی ضمناً آگئی ہیں مگر وہ اور قرآن عزیز دونوں اس بارہ میں ہم آہنگ ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قہرمانیت کے مظالم سے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کو ایک عظیم الشان نشان (معجزہ) کے ذریعہ نجات دی۔ قرآن عزیز کہتا ہے کہ یہ معجزہ اس طرح ظاہر ہوا کہ خدا کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) نے بحر قلزم پر لاٹھی ماری اور سمندر کا پانی بیچ میں خشکی دے کر دونوں جانب پہاڑ کی طرح کھڑا ہو گیا : { فَانْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ } [180] ” پس (سمندر) پھٹ گیا پھر ہر ایک جانب ایک بڑے پہاڑ کی مانند ہو گئی۔ “ { وَ اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰکُمْ وَ اَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ } [181] ” اور جب ہم نے ٹکڑے کر دیا تمھارے لیے سمندر ‘ پس نجات دی ہم نے تم کو اور غرق کر دیا فرعون کے لوگوں کو اور تم دیکھ رہے تھے۔ “ اور توراۃ بھی اسی کی تائید کرتی ہے چنانچہ اس میں مذکور ہے : اور تو اپنی لاٹھی اٹھا کر اپنا ہاتھ سمندر کے اوپر بڑھا اور اسے دو حصے کر۔۔ اور ان کے داہنے اور بائیں پانی دیوار کی طرح تھا۔ “ [182] البتہ توراۃ میں یہ اضافہ اور ہے کہ ” رات بھر تند پوربی ہوا چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا “ سو اول تو توراۃ کی تحریف اور مختلف سنین کے مختلف تراجم کے پیش نظر تاریخی اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے قرآن عزیز کے بیان ہی کو قابل اعتماد سمجھا جائے گا کیونکہ وہ باتفاق دوست و دشمن ہر قسم کی تحریف و تبدیل اور اضافہ و ترمیم سے محفوظ ہے۔ { لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ } [183] اس پر باطل کا کسی جانب سے گذر نہیں نہ سامنے سے اور نہ پیچھے سے ‘ وہ اتارا ہوا ہے ایسی ہستی کی جانب سے جو حکمت والا خوبیوں والا ہے۔ “
علاوہ ازیں اس اضافہ کی تطبیق کی بہترین صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ بڑھا کر عصا چلانے سے اول سمندر کے دو حصے ہو گئے اور دونوں جانب پانی کھڑا ہو گیا اور پھر لاکھوں انسانوں نے جب اس کے درمیان میں سے گذرنا شروع کیا تو زمین کی نمی اور تری کو خشک کرنے کے لیے برابر پوربی تند ہوا چلتی رہی تاکہ بچہ سے بوڑھے تک اور انسان سے حیوان تک کسی کو بھی گزرنے میں زحمت و تکلیف نہ اٹھانی پڑے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں بعض ایسے افراد بھی ہیں جو ” علم “ کے نام سے مذہب کے ہر مسئلہ کو مادیات ہی تک محدود دیکھنا چاہتے ہیں اور اس لیے خدا کے دیے ہوئے ان نشانات (معجزات) کا بھی انکار کرتے ہیں جو انبیا و رسل (علیہم السلام) کی صداقت کی تائید اور دلیل میں ظہور پزیر ہوتے ہیں ان کے انکار کے وہی معنی ہیں جو گذشتہ صفحات پر معجزہ کی بحث میں زیر بحث آ چکے ہیں یعنی وہ خدا کے کسی فعل کو بھی کسی حالت میں اس محسوس اور مادی دنیا کے اسباب و علل سے مستثنیٰ مان لینے کو آمادہ نہیں ہیں کیونکہ ان کے الحادو زندقہ کی بنیاد دراصل مغربی الحادو زندقہ پر قائم ہے اور ان کا دل و دماغ اس ہی سے مرعوب اور متاثر ہیں جس کا لازمی نتیجہ میٹریلزم پر اعتقاد و اعتماد کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ پس من جملہ دوسرے مقامات کے انھوں نے اس مقام پر بھی یہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح ” غرق فرعون “ کا یہ واقعہ روحانی معجزہ سے نکل کر مادی اسباب و علل کے تحت آجائے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی دنیوی ترقی کے لیے سرگرم عمل ہستی سید احمد خان (سرسید) (مرحوم) بھی علوم عربیہ اور علوم دینیہ سے ناواقفیت کے باوجود مسطورہ بالا عقیدہ کی ترویج میں پیش پیش ہیں غالباً اس طرح وہ یورپ کی موجودہ زندگی کے ساتھ اسلام کو مطابق کرنا چاہتے تھے مگر مادیت کا یہ چولا چونکہ اس کے قد پر راست نہ آیا اس لیے انھوں نے چولے کی ترمیم کی بجائے اسلام کے نقشہ اور قدوقامت میں ترمیم شروع کردی مگر اس میں وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ بلاشبہ اسلام ایک ایسا روحانی مذہب ہے جو روحانیت کی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیوی زندگی میں بھی انسان کے عروج اور فلاح و بہبود کا کفیل ہے اور اس لیے ہر زمانے کے علوم و فنون کی ترقی اس کی آغوش میں پلتی اور اس میں جذب ہوتی رہی ہے اور علم و حکمت ہمیشہ اس کے سایہ عاطفت میں نشو و نما پاتے رہے لیکن مادی علوم کی حدود مادیات و مشاہدات اور محسوسات سے آگے کسی حال میں متجاوز نہیں ہو سکتیں اور آج کی سائنس اور کل کا فلسفہ دونوں اس کا اقرار کرتے ہیں کہ ہماری حدود محسوسات سے پرے نہیں ہیں یعنی محسوسات و مادیات کی دیوار کے پیچھے کیا ہے ؟ وہ اس سے لاعلمی تو ظاہر کرتے ہیں مگر ان کا انکار نہیں کرتے۔ اسلام کا یہ دعویٰ ہے کہ گذشتہ اور موجودہ زمانہ میں جب کبھی علوم ” نظر یوں اور ” تھیوریز “ سے آگے بڑھ کر محسوس اور مشاہدہ کی حد تک پہنچے ہیں تو ایک مسئلہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ وہ اسلام کے اصول سے ٹکراتا ہو یا اسلام میں اس کا انکار پایا جاتا ہو تب ایسی صورت میں جب تک علمی نظر یوں اور تھیوریوں میں آئے دن تبدیلیاں ہوتی رہتی اور علمی تحقیقات ایک جگہ چھوڑتی اور دوسری جگہ بناتی رہتی ہیں تو اسلام کو ان کے مطابق کرنے کی سعی عبث ہے کیونکہ مشاہدہ کی حد پر پہنچنے کے بعد بلاشبہ ان کا فیصلہ قرآن کے فیصلے سے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکتا۔ البتہ اسلام یا مذہب حق چند ایسے امور کا بھی اقرار کرتا ہے جو ان مادیات کی دنیا سے پرے کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں مثلاً آخرت ‘ حشر و نشر ‘ جنت ‘ جہنم ‘ ملائکہ ‘ وحی ‘ نبوت اور معجزہ ‘ مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان میں سے کوئی امر بھی خلاف عقل یعنی عقل کی نگاہ میں ناممکن اور محال نہیں ہے تاہم عقل کے لیے اس کی کنہ و حقیقت کا ادراک صرف اسی قدر ہو سکتا ہے جس قدر کہ مذہب نے اپنے علم یقین (وحی الٰہی) کے ذریعہ اس کو بتادیا ہے اور ان باتوں کے سمجھنے کے لیے وحی کے سوا عقل کے پاس اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ بہرحال سید احمد خاں صاحب نے تفسیر احمدی میں اس مقام کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ غرق فرعون اور نجات بنی اسرائیل کا یہ واقعہ معجزہ نہ تھا بلکہ عام دنیوی سلسلہ اسباب و علل کے ماتحت بحر کے ” مدو جزر “ (جوار بھاٹا) سے تعلق رکھتا ہے یعنی صورت حال یہ پیش آئی جس وقت بنی اسرائیل نے قلزم کو عبور کیا تھا اس وقت اس کا پانی سمٹا ہوا تھا اور پیچھے کو ہٹ کر اس نے ” جزر “ اختیار کر رکھا تھا فرعون نے جب بنی اسرائیل کو اس آسانی سے پار ہوتے دیکھا تو اس نے لشکر کو داخل ہونے کا حکم دے دیا مگر بنی اسرائیل پار ہو چکے تھے اور فرعونی لشکر ابھی سمندر کی خشکی پر چل ہی رہا تھا کہ اس کے ” مد “ اور آگے بڑھنے کا وقت آپہنچا اور فرعون اور اس کے لشکر کو اتنی بھی مہلت نہ ملی کہ وہ آگے بڑھ سکے یا پیچھے ہٹ سکے اور سب غرق ہو گئے۔ سید صاحب نے اپنے اس مزعومہ خیال کے مطابق بنی اسرائیل کے عبور کے متعلق ایک نقشہ بھی دیا ہے جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بنی اسرائیل نے قلزم کے شمالی دہانہ پر جا کر اس کو عبور کیا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قرآن عزیز کی تصریحات اس کا قطعی انکار کرتی ہیں اور سید صاحب کی بات کسی طرح بنائے نہیں بنتی۔ اس بات کا فیصلہ تو قطعی ناممکن ہے کہ خاص وہ مقام متعین کیا جاسکے جس سے بنی اسرائیل گذرے اور دریا کو عبور کر گئے کیونکہ اس سلسلے میں گذشتہ تاریخ کا پرانا ذخیرہ توراۃ ہے مگر اس کے بیان کردہ مقامات موجودہ نسل کے لیے نامعلوم اسماء کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔ البتہ قرآن اور توراۃ کی مشترک تصریحات و نصوص سے یہ قطعی متعین کیا جا سکتا ہے کہ بنی اسرائیل نے بحر قلزم کے کسی کنارے اور دہانہ سے عبور کیا یا درمیانی کسی حصہ سے ؟ اس کے لیے ایک مرتبہ نقشہ میں اس حصہ پر نظر ڈالئے جہاں بحر احمر (قلزم یا ریڈ سی) واقع ہے۔ دراصل یہ بحر عرب کی ایک شاخ ہے جس کے مشرق میں سرزمین عرب واقع ہے اور مغرب میں مصر ‘ شمال میں اس کی دو شاخیں ہو گئی ہیں ایک شاخ (خلیج عقبہ) جزیرہ نمائے سینا کے مشرق میں اور دوسری (خلیج سویز) اس کے مغرب میں واقع ہے یہ دوسری شاخ پہلی سے بڑی ہے اور شمال میں بڑی دور تک چلی گئی ہے بنی اسرائیل اسی کے درمیان میں سے گذرے ہیں اس شاخ کے شمالی دہانہ کے سامنے ایک اور سمندر واقع ہے جس کا نام بحیرہ روم ہے ‘ اور بحر روم اور بحر احمر کے اس شمالی دہانہ کے درمیان میں تھوڑا سا خشکی کا حصہ ہے یہی وہ راستہ تھا جہاں سے مصر سے فلسطین اور کنعان جانے والے کو بحر احمر عبور کرنا نہیں پڑتا تھا اور اس زمانہ میں یہ راہ قریب کی راہ سمجھی جاتی تھی اور بنی اسرائیل نے بحکم الٰہی یہ راہ اختیار نہیں کی تھی اب اسی خشک زمین کو کھود کر بحر احمر (ریڈ سی) کو بحر روم سے ملا دیا گیا ہے اور اس ٹکڑے کا نام نہر سویز ہے اور ” ریڈ سی “ کے شمالی دہانہ پر سوئز کے نام سے ایک شہر آباد ہے جو مصر کی بندرگاہ شمار ہوتا ہے۔ اب اس کے بعد قرآن عزیز کی سورة بقرہ اور سورة شعرا کی ان آیات پر پھر ایک مرتبہ غور کرنا چاہیے جو اس سلسلہ کی تصریحات پیش کرتی ہیں ان آیات میں دو باتوں کا صاف صاف تذکرہ موجود ہے ایک فلق یا فرق بحر یعنی سمندر کا پھٹنا یا اس کو پھاڑ دینا ‘ اور دوسرے دونوں جانب پانی کا پہاڑ کی طرح کھڑا ہوجانا اور درمیان میں راستہ پیدا ہوجانا۔ { فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِ } [184] عربی لغت میں فرق کے معنی دو ٹکڑے کر کے جدا کردینے کے آتے ہیں خصوصاً ” بحر “ کی نسبت کے ساتھ ‘ چنانچہ کتب لغت میں ہے ” فرق البحرای فلقہ “ سر کی مانگ کو بھی ” فرق “ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ سر کے بالوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے بیچ میں نکالی جاتی ہے اور ” فلق “ کے متعلق اس طرح مذکور ہے ” فلق الشی ‘ شقہ والفلق ‘ انشق “ یعنی اس نے فلاں شے کو ٹکڑے کر دیا اور وہ ٹکڑے ہو گئی اسی لیے ” فالق “ اس دراڑ کو کہتے ہیں جو پتھر کے درمیان میں ہوجاتی ہے اسی طرح ” طود “ کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں ” الطود ‘ الجبل العظیم “ پس ان لغوی تصریحات کے بعد ان ہر دو آیات کا صاف اور سادہ مطلب یہ ہوا کہ سمندر کا پانی یقیناً دو ٹکڑے ہو گیا اور وہ دونوں جانب دو کھڑے ہوئے پہاڑ کی طرح بن گیا اور درمیان میں راستہ پیدا ہو گیا اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ بنی اسرائیل نے سمندر کے ایسے حصہ سے عبور کیا ہو جو دہانہ اور کنارے کے سامنے کا حصہ نہ ہو بلکہ پانی کا ایسا حصہ ہو جو درمیان میں سے پھٹ کر دو حصے بن سکتا ہو دوسرے الفاظ میں یوں کہہ دیجئے کہ قرآن عزیز صاف صاف اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ بنی اسرائیل خشکی کی راہ سے قلزم کے دہانہ یا کنارے سے نہیں گذرے تھے بلکہ سمندر کے کسی درمیانی حصہ کو عبور کر کے میدان سینا میں پہنچے تھے اور یہ ظاہر ہے کہ ” مدوجزر “ (جوار بھاٹا) طولانی حصہ میں دہانے کی جانب ہوا کرتا ہے عرض میں اس طرح کبھی بھی نہیں ہوتا کہ پانی دونوں جانب سمٹ جائے اور بیچ میں خشکی کی راہ پیدا ہوجائے لہٰذا خدائے تعالیٰ کے اس عظیم الشان ” نشان “ (معجزہ) کا انکار کرتے ہوئے اس کو روزمرہ کے مادی اسباب کے نیچے لانے کی سعی کرنا قرآنی تصریحات کے بالکل خلاف اور اس کی تحریف کے مرادف ہے۔ نیز توراۃ نے بنی اسرائیل کے اس عبور کے واقعہ میں ” بحرِ احمر “ کے جن مشرقی اور مغربی کنارہ کے مقامات کا ذکر کیا ہے اور اس عبور کے متعلق جو تصریحات بیان کی ہیں ان سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا یہ عبور دہانہ پر سے نہیں تھا بلکہ شمال مغرب کے درمیانی حصہ سے ہوا تھا جیسا کہ نقشہ سے واضح ہوتا ہے۔ بعض مغرب زدہ ” ملحدوں “ نے اس مقام پر جب کسی طرح انکار معجزہ کی بات بنتی نہ دیکھی تو توراۃ کے اس فقرے کا سہارا لیا : اور خداوند نے رات بھر تندپوربی آندھی چلا کر اور سمندر کو پیچھے ہٹا کر اسے خشک زمین بنادیا ‘ اور پانی دو حصے ہو گیا اور بنی اسرائیل سمند رکے بیچ میں سے خشک زمین پر چل کر نکل گئے۔ “ [185] وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ یہ خشک زمین سمندر کے بیچ میں نکل آئی تھی تو بھی یہ معجزہ نہ تھا بلکہ رات بھر خشک ہوا کے چلنے سے دونوں جانب پانی بستہ برف کی طرح ہو گیا تھا اور بیچ میں خشک راستہ بن گیا تھا مگر جب فرعون کی باری آئی تو آفتاب کی تمازت نے بستہ برف کو پگھلا دیا اور پانی اصل حالت پر آگیا اور مصری غرق ہو گئے۔ تو اس کے متعلق نجار مصری نے خوب کہا ہے کہ اگر بالفرض ان کی اس باطل تاویل کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی یہ ” معجزہ “ ہوا ‘ اس لیے کہ سمندروں کے وجود سے لے کر آج تک کسی جگہ یہ ثابت نہیں ہے کہ اس طرح ہوا چل کر ان کے درمیان میں خشک راہ بنا دیتی ہو ‘ علم تاریخ اور طبیعیات دونوں اس قسم کے واقعہ سے یکسر خالی ہیں۔ پس عام مادی علل و اسباب سے جدا اگر ہوا کا یہ عمل صرف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی نجات اور فرعون اور اس کے لشکر کے غرق ہی کے لیے مخصوص تھا اور مخصوص رہا تو پھر یہ ” معجزہ “ نہیں تو اور کیا ہے ؟
بہرحال قرآن عزیز صراحت کرتا ہے کہ بحر قلزم میں غرق فرعون اور نجات موسیٰ ((علیہ السلام)) کا یہ واقعہ موسیٰ (علیہ السلام) کی تائید میں ایک عظیم الشان معجزہ تھا اور اگر کائنات کی کوئی شہادت بھی اس واقعہ کے اعجاز میں موجود نہ ہوتی تب بھی ہمارے لیے ” وحی الٰہی “ کا یہ فیصلہ ایک ناطق فیصلہ ہے اور مومن کا ایمان دور ازکار تاویلات سے جدا اصل حقیقت ہی کے ساتھ وابستہ ہے اور ہمارا یقین ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کے لیے یہ ایسا عظیم معجزہ تھا جس نے تمام مادی قہرمانیت اور سامان استبدادیت کو ایک لمحہ میں شکست دے کر مظلوم قوم کو ظالم قوم کے پنجہ سے رستگاری دلائی۔ 1 ؎ { وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ} { وَاَنْجَیْنَا مُوْسٰی وَمَنْ مَّعَہٗ اَجْمَعِیْنَ ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَاِنَّ رَبَّکَ لَہُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ } [186] اور ہم نے موسیٰ اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دی پھر دوسروں کو (یعنی ان کے دشمنوں کو) غرق کر دیا بلاشبہ اس واقعہ میں (خدا کا زبردست) نشان (معجزہ) ہے اور اکثر ان کے ایمان نہیں لاتے اور اقرار نہیں کرتے اور بلاشبہ تیرا رب ہی (سب پر) غالب رحمت والا ہے۔ “ واقعہ کی ان تفصیلات کے بعد منسل کہ نقشہ کو سامنے رکھنے سے بیان کردہ حقائق بخوبی واضح ہو سکتے ہیں اور منکرین معجزہ نے اس واقعہ کے حقائق پر پردہ ڈالنے کے لیے جو باطل تاویلات کی ہیں ان کی حقیقت اچھی طرح منکشف ہوجاتی ہے۔
فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے بلکہ حق و باطل کے معرکوں میں ایک عظیم الشان معرکہ ہے اور ایک جانب غرور و نخوت ‘ جبر و ظلم اور قہرمانیت وانانیت کی ذلت اور رسوائی ہے تو دوسری جانب مظلومیت ‘ خدا پرستی اور صبر و استقامت کی فتح و کامرانی کا عجیب و غریب مرقع ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرعون اور قوم فرعون کی ہلاکت دنیوی کے بعد عبرت و بصیرت کے لیے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اس قسم کے لوگوں کے لیے آخرت اور سرمدی و ابدی زندگی میں کس قدر سخت عذاب اور خدا کی پھٹکار کے کیسے عبرت ناک سامان مہیا ہیں تاکہ سلیم اور صالح طبائع اور نیک نہاد و نیک سرشت ہستیاں ان کا مطالعہ کریں اور ان اعمال زشت سے خود کو بھی بچائیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ { وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَ مَلَاْئِہٖ فَاتَّبَعُوْٓا اَمْرَ فِرْعَوْنَ وَ مَآ اَمْرُ فِرْعَوْنَ بِرَشِیْدٍ یَقْدُمُ قَوْمَہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَاَوْرَدَھُمُ النَّارَ وَ بِئْسَ الْوِرْدُ الْمَوْرُوْدُ وَ اُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہٖ لَعْنَۃً وَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ بِئْسَ الرِّفْدُ الْمَرْفُوْدُ } [187] ” اور (یہ بھی ہو چکا ہے کہ) ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور واضح سند کے ساتھ بھیجا تھا فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف مگر وہ لوگ فرعون کی بات پر چلے اور فرعون کی بات راست بازی کی بات نہ تھی قیامت کے دن وہ اپنی قوم کے آگے آگے ہوگا (جس طرح دنیا میں گمراہی کے لیے ہوا) اور انھیں دوزخ میں پہنچائے گا تو (دیکھو) کیا ہی پہنچنے کی بری جگہ ہے جہاں وہ پہنچ کر رہے اور اس دنیا میں بھی لعنت ان کے پیچھے لگی کہ ان کا ذکر کبھی پسندیدگی کے ساتھ نہیں کیا جاتا اور قیامت میں بھی (کہ عذاب آخرت کے مستحق ہوئے) تو دیکھو کیا ہی برا صلہ ہے جو ان کے حصہ میں آیا۔ “ (1 ؎ نجار کہتے ہیں کہ غرق فرعون اور عبور بنی اسرائیل کی جگہ آج متعین اور منضبط نہیں ہے کہ ٹھیک ٹھیک اس جگہ کو بتایا جاسکے ‘ البتہ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ یہ جگہ وہ ہے جو آج ” بر کہ فرعون “ (فرعون کے پانی میں بیٹھ جانے کی جگہ) کے نام سے مشہور ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ یہ بحر احمر کی بندرگاہ سوئیز سے بہت دور ہے۔ مثلاً اگر جہازشام کے وقت سوئیز سے روانہ ہو تو آدھی رات کے بعد اس مقام پر پہنچے گا۔ لہٰذا یہ مقام وہ جگہ ہرگز نہیں ہے بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ اس زمانہ میں ” قلزم “ کی خلیج جو خلیج سوئیز کے نام سے مشہور ہے ‘ بحر روم کے قریب تک پھیلتی چلی گئی تھی اور اس سے بہت نزدیک تھی ‘ لہٰذا بنی اسرائیل کے عبور کی جگہ وہ ہو سکتی ہے جو آج ” عیون موسیٰ “ کے نام سے مشہور ہے اور جو شمال مشرق میں واقع ہے۔ اس وقت میرے پاس محمد رفعت کا اطلس (اٹلس) موجود ہے۔ اس میں عبور بنی اسرائیل کے لیے جو خط کھینچ کر دکھلائے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ یہ عبور سوئیز اور بحیرہ مرہ کے درمیان میں ہوا ہے اور عیون موسیٰ بھی یہیں شمال مشرق میں واقع ہے۔ [188] { وَ جَعَلْنٰھُمْ اَئِمَّۃً یَّدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ لَا یُنْصَرُوْنَ وَ اَتْبَعْنٰھُمْ فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ھُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِیْنَ } [189] ” اور کیا ہم نے ان کو پیشوا کہ بلاتے ہیں دوزخ کی طرف اور قیامت کے دن ان کو مدد نہ ملے گی اور پیچھے رکھ دی ہم نے ان پر اس دنیا میں پھٹکار اور قیامت کے دن ان پر برائی ہے۔ “ { وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْٓا الَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ } [190] ” اور الٹ پڑا فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب ‘ وہ آگ ہے کہ دکھلا دیتے ہیں ان کو صبح اور شام اور جس دن قائم ہوگی قیامت ‘ حکم ہوگا داخل کرو فرعون والوں کو سخت سے سخت عذاب میں۔ “ { اِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ طَعَامُ الْاَثِیْمِ کَالْمُہْلِ یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِ کَغَلْیِ الْحَمِیْمِ خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰی سَوَآئِ الْجَحِیْمِ ثُمَّ صُبُّوْا فَوْقَ رَاْسِہٖ مِنْ عَذَابِ الْحَمِیْمِ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ اِنَّ ہٰذَا مَا کُنْتُمْ بِہٖ تَمْتَرُوْنَ } [191] ” بلاشبہ سیہنڈ کا درخت خوراک ہے گناہ گار کی جیسے پگھلا ہوا تانبا کھولتا ہے پیٹوں میں ‘ جیسے کھولتا پانی ‘ پکڑو اس کو اور دھکیل کرلے جاؤ دوزخ میں پھر ڈالو اس کے سر پر پانی کا عذاب ‘ اس کو چکھ تو ہی ہے بڑا عزت والا سردار ‘ یہ وہی ہے جس کے متعلق تم دھوکے میں پڑے تھے۔ “
توراۃ میں ہے کہ جب بنی اسرائیل سلامتی کے ساتھ بحر قلزم کو پار کر گئے اور انھوں نے اپنی آنکھوں سے فرعون اور اس کی فوج کو غرق ہوتے اور پھر ان کی نعشوں کو ساحل پر تیرتے دیکھ لیا توبہ تقاضائے فطرت بے حد مسرت اور خوشی کا اظہار کیا ‘ اور عورتوں نے خصوصیت کے ساتھ دف پر خوشی کے گیت گائے اور شادمانی و خوش کامی کا ثبوت دیا 1 ؎ جب یہ سب کچھ ہو چکا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کو جمع کر کے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنی قوم سے کہو کہ وہ میں ہوں جس نے تم کو اس زبردست فتنہ سے نجات دی سو میرا شکر ادا کرو اور میری ہی بندگی کرو۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اب اپنی قوم کو ساتھ لے کر بیابان شور سے ہوتے ہوئے سین یا سینا کی راہ لی ‘ سینا کے بت کدوں میں پرستاران صنم بتوں کی پوجا میں مشغول تھے بنی اسرائیل نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے ” موسیٰ ہم کو بھی ایسے ہی معبود بنا دے تاکہ ہم بھی اسی طرح ان کی پرستش کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قوم کی زبانی یہ مشرکانہ مطالبہ سنا تو بہت زیادہ ناراض ہوئے اور بنی اسرائیل کو ڈانٹا ‘ عار دلائی اور ملامت کی کہ بدبختو خدائے واحد کی پرستش چھوڑ کر بتوں کی پوجا پر مائل ہو اور خدا کی ان تمام نعمتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرچکے ہو۔
دنیا کی تاریخ میں ہمارے سامنے ایک قوم کا نقشہ حیات اس طرح نظر آتا ہے کہ وہ تقریباً ساڑھے چار سو برس سے مصر کے قاہر و جابر بادشاہوں اور مصری قوم کے ہاتھوں میں غلام اور مظلوم چلی آتی ہے اور غالب قوم کے سخت سے سخت مصائب و مظالم کا شکار بن رہی ہے کہ اچانک اسی مردہ قوم میں سے بجلی کی کڑک اور آفتاب کی چمک کی طرح ایک برگزیدہ ہستی سامنے آتی ہے اور اس کی صدائے حق اور اعلان ہدایت سے تمام قلمرو باطل لرزہ براندام ہوجاتی اور ایوان ظلم و کفر میں بھونچال آجاتا ہے وہ دنیا کی ایک زبردست متمدن طاقت کے مقابلہ میں یہ اعلان کرتی ہے کہ میں خدائے واحد کا رسول اور ایلچی ہوں اور تجھ کو ہدایت کی پیروی اور مظلوم قوم کی آزادی کا پیغام سنانے آیا ہوں ‘ فرعونی طاقت اپنے تمام مادی اسباب کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتی ہے مگر ہر مرتبہ شکست کا منہ دیکھتی ہے اور آخری بازی میں حق کی کامیابی اور باطل کی ہلاکت کا ایسا حیرت زا نقشہ سامنے آتا ہے کہ مادی طاقت قلزم میں غرق ہوجاتی اور غلام و مظلوم قوم اور دنیوی اسباب و وسائل سے محروم قوم آزادی کے گیت گاتی نظر آتی ہے۔ یہ ہے وہ عجیب و غریب فطرت اور حیران کن طبیعت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی قوم ” بنی اسرائیل “ جو ان تمام معرکہ ہائے حق و باطل کو آنکھوں سے دیکھنے اور حق کی کامیابی کے ساتھ اپنی نجات پا جانے کے شکریہ میں آج موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلا مطالبہ یہ کرتی ہے کہ ہم کو بھی ایسے ہی معبود (بت) بنا دے جیسا کہ یہ پجاری بت خانہ میں بیٹھے پوج رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اگرچہ بنی اسرائیل نبیوں کی اولاد تھے اور ابھی تک ان میں وہ اثرات ایک حد تک باقی بھی تھے جو ان کو باپ دادا سے ورثہ میں ملے تھے تاہم صدیوں سے مصری بت پرستوں میں بودوماند کرنے اور ان کے حاکمانہ اقتدار میں غلام رہنے کی وجہ سے ان میں صنم پرستی کا جذبہ کافی سرایت کرچکا تھا اور وہی جذبہ تھا جو آج پجاریوں کو دیکھ کر ان میں ابھر آیا اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) سے ایسا ناپاک مطالبہ کر بیٹھے۔ { وَ جٰوَزْنَا بِبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ الْبَحْرَ فَاَتَوْا عَلٰی قَوْمٍ یَّعْکُفُوْنَ عَلٰٓی اَصْنَامٍ لَّھُمْ قَالُوْا یٰمُوْسَی اجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھَۃٌ قَالَ اِنَّکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ اِنَّ ھٰٓؤُلَآئِ مُتَبَّرٌ مَّا ھُمْ فِیْہِ وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ قَالَ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْکُمْ اِلٰھًا وَّ ھُوَ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ } [192] ” اور ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار کر دیا پھر ان کا گذر ایک ایسی قوم پر ہوا جو اپنے بتوں کے سمادھ لگائے بیٹھی تھی تو کہنے لگے موسیٰ جیسے ان کے معبود بت ہیں ایسے ہی ہمارے لیے بھی بنا دے موسیٰ نے کہا افسوس تم پر بلاشبہ تم جاہل قوم ہو ‘ لاریب ان لوگوں کا طریقہ تو ہلاکت کا طریقہ ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں باطل ہے (اور یہ بھی) کہا کہ باوجود اس کے کہ تم کو خدا نے تمام کائنات پر فضیلت دی ہے پھر بھی میں تمھارے لیے خدائے واحد کے سوا اور معبود تلاش کروں ؟ “
بنی اسرائیل نے بحر قلزم کو پار کر کے جس سرزمین پر قدم رکھا یہ عرب کی سرزمین تھی جو قلزم کے مشرق میں واقع ہے یہ لق و دق بے آب وگیاہ میدان سے شروع ہوتی ہے جو توراۃ کی زبان میں بیابان شور ‘ سین ‘ وادی سینا (تیہ) کے نام سے مشہور ہے اور طور تک اس کا دامن وسیع ہے ‘ یہاں شدید گرمی پڑتی ہے اور دور دور تک سبزہ اور پانی کا پتہ نہیں ‘ اس لیے بنی اسرائیل گھبرا اٹھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کرنے لگے کہ ہم پانی کہاں سے پئیں ہم تو پیاس سے تڑپ تڑپ کر مرجائیں گے ‘ یہاں تو پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں ہے تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے درگاہ الٰہی میں التجا کی اور وحی الٰہی نے ان کو حکم دیا کہ اپنا عصا زمین پر مارو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تعمیل ارشاد کی تو فوراً بارہ سوت ابل پڑے اور بنی اسرائیل کے بارہ اسباط (قبائل) کے لیے جدا جدا چشمے جاری ہو گئے بنی اسرائیل کو جب اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اب کہنے لگے کہ پانی کا تو انتظام ہو گیا لیکن زندگی کے لیے صرف یہی تو کافی نہیں ہے ‘ ہم کو بھوک لگی ہے اب کھائیں کہاں سے ؟ یہاں تو کوئی صورت نظر نہیں آتی ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر رب العٰلمین کی بارگاہ میں دعا کی ‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسیٰ تمھاری دعا قبول ہوئی ‘ پریشان نہ ہو ہم غیب سے سب انتظام کیے دیتے ہیں اور پھر ایسا ہوا کہ جب رات بیت گئی اور صبح ہوئی تو بنی اسرائیل نے دیکھا کہ زمین اور درختوں پر جگہ جگہ سپیداولے کے دانے کی طرح شبنم کی صورت میں آسمان سے کوئی چیز برس کر گری ہوئی ہے کھایا تو نہایت شیریں حلوے کی مانند تھی یہ ” من “ تھا اور دن میں تیز ہوا چلی اور تھوڑی دیر میں بٹیروں کے غول کے غول آ کر زمین پر اترے اور پھیل گئے بنی اسرائیل نے بآسانی ان کو ہاتھوں سے پکڑ لیا اور بھون کر کھانے لگے ‘ یہ ” سلویٰ “ تھا اور اس طرح روزانہ بغیر زحمت و تکلیف کے ان کو یہ دونوں نعمتیں مہیا ہوجاتیں لیکن خدائے تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت بنی اسرائیل کو یہ تنبیہ کردی تھی کہ وہ اپنی ضرورت کے مطابق من وسلویٰ کو کام میں لائیں ‘ اور دوسرے دن کے لیے ذخیرہ نہ کریں ہم ان کو روزانہ یہ نعمت عطا کرتے رہیں گے۔ [193] کھانے اور پینے کی ضروریات کی فراہمی سے جب اطمینان ہو گیا تو اب بنی اسرائیل نے تیسر ا مطالبہ یہ کیا کہ گرمی کی شدت اور سایہ دار درختوں اور مکانوں کی راحت میسر نہ ہونے کی وجہ سے ہم بہت پریشان ہیں ‘ ایسا نہ ہو کہ یہ تپش اور تمازت ہماری زندگی کا خاتمہ ہی کر دے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو تشفی دی اور بارگاہ اقدس میں عرض کیا کہ جب تو نے ان پر بڑے بڑے انعامات اور فضل و کرم کی بارش کی ہے تو اس تکلیف سے بھی ان کو نجات عطا فرما ‘ حضرت موسیٰ کی دعا سنی گئی اور آسمان پر بادلوں کے پرے کے پرے بنی اسرائیل پر سایہ فگن ہو گئے اور بنی اسرائیل جہاں بھی سفر کرتے ہوئے جاتے بادلوں کا یہ سائبان ان کے سروں پر سایہ فگن رہتا۔ سدی کی ایک روایت میں ان ہر سہ ” آیات اللّٰہ “ کا تذکرہ یکجا اس طرح مذکور ہے ” جب بنی اسرائیل ” تیہ “ کے میدان میں پہنچے تو کہنے لگے ” موسیٰ اس لق و دق میدان میں ہمارا کیا حشر ہوگا کہاں سے کھائیں گے ‘ کہاں سے پئیں گے اور کہاں سے سایہ حاصل کریں گے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے ان کے کھانے کے لیے من وسلویٰ اتارا ‘ پینے کے لیے بارہ چشمے جاری کردیے اور سایہ کے لیے بادل سایہ فگن ہو گئے۔ “ [194]
{وَاِذِاسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰہِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ } [195] ” اور پھر (وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تھا اور ہم نے حکم دیا تھا ‘ اپنی لاٹھی سے پہاڑ کی چٹان پر ضرب لگاؤ ‘ (تم دیکھو گے کہ پانی تمھارے لیے موجود ہے ‘ موسیٰ (علیہ السلام) نے اس حکم کی تعمیل کی) چنانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے ‘ اور تمام لوگوں نے اپنے اپنے پانی لینے کی جگہ معلوم کرلی (اس وقت تم سے کہا گیا تھا اس بے آب وگیاہ بیابان میں تمھارے لیے زندگی کی تمام ضرورتیں مہیا ہو گئی ہیں ‘ پس) کھاؤ پیو ‘ خدا کی بخشائش سے فائدہ اٹھاؤ اور ایسا نہ کرو کہ ملک میں فتنہ و فساد پھیلاؤ (یعنی ضروریات معیشت کے لیے لڑائی ‘ جھگڑا کرو یا ہر طرف لوٹ مار مچاتے پھرو) “ { وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ } [196] ” اور (پھر جب ایسا ہوا تھا کہ صحرائے سینا کی بے آب وگیاہ سرزمین میں دھوپ کی شدت اور غذا کے نہ ملنے سے تم ہلاک ہوجانے والے تھے تو) ہم نے تمھارے سروں پر ابر کا سایہ پھیلا دیا ‘ اور من اور سلویٰ کی غذا فراہم کردی (تم سے کہا گیا) خدا نے تمھاری غذا کے لیے جو اچھی چیزیں مہیا کردی ہیں انھیں بفراغت کھاؤ اور (کسی طرح کی تنگی و قلت محسوس نہ کرو ‘ لیکن اس پر بھی تم اپنی بدعملیوں سے باز نہ آئے ‘ غور کرو) تم نے اپنی ناشکریوں سے ہمارا کیا بگاڑا ؟ خود اپنا ہی نقصان کرتے رہے “ { وَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰٓی اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ وَ قَطَّعْنٰھُمُ اثْنَتَیْ عَشْرَۃَ اَسْبَاطًا اُمَمًا وَ اَوْحَیْنَآ اِلٰی مُوْسٰٓی اِذِ اسْتَسْقٰہُ قَوْمُہٗٓ اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَۃَ عَیْنًا قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ وَ ظَلَّلْنَا عَلَیْھِمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْھِمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ مَا ظَلَمُوْنَا وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ } [197] ” اور موسیٰ کی قوم میں ایک گروہ (ضرور) ایسا ہے جو لوگوں کو سچائی کی راہ چلاتا اور سچائی ہی کے ساتھ (ان کے معاملات میں) انصاف بھی کرتا ہے اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ خاندانوں کے بارہ گروہوں میں منقسم کر دیا اور جب لوگوں نے موسیٰ سے پینے کے لیے پانی مانگا تو ہم نے وحی کی کہ اپنی لاٹھی (ایک خاص) چٹان پر مارو چنانچہ بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ نے اپنی اپنی جگہ پانی کی معلوم کرلی اور ہم نے بنی اسرائیل پر ابر کا سایہ کر دیا تھا اور (ان کی غذا کے لیے) من اور سلویٰ اتارا تھا ہم نے کہا تھا ” یہ پسندیدہ غذا کھاؤ جو ہم نے عطا کی ہے (اور فتنہ اور فساد میں نہ پڑو) “ انھوں نے (نافرمانی کر کے) ہمارا تو کچھ نہیں بگاڑا خود اپنے ہاتھوں اپنا ہی نقصان کرتے رہے۔ { یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ قَدْ اَنْجَیْنٰکُمْ مِّنْ عَدُوِّکُمْ وَ وٰعَدْنٰکُمْ جَانِبَ الطُّوْرِ الْاَیْمَنَ وَ نَزَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰی کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ لَا تَطْغَوْا فِیْہِ فَیَحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبِیْ وَ مَنْ یَّحْلِلْ عَلَیْہِ غَضَبِیْ فَقَدْ ھَوٰی وَ اِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اھْتَدٰی } [198] ” اے بنی اسرائیل میں نے تمھارے دشمن سے تمھیں نجات بخشی ‘ تم سے (برکتوں اور کامرانیوں کا) وعدہ کیا جو کوہ طور کے داہنی جانب ظہور میں آیا تھا ‘ تمھارے لیے (صحرائے سینا میں) من اور سلویٰ مہیا کر دیا ‘ تمھیں کہا گیا یہ پاک غذا مہیا کردی گئی ہے شوق سے کھاؤ (مگر اس بارے میں) سرکشی نہ کرو ‘ کرو گے تو میرا غضب نازل ہوجائے گا اور جس پر میرا غضب نازل ہوا تو بس وہ ہلاکت میں گرا ‘ جو کوئی توبہ کرے ‘ ایمان لائے ‘ نیک عمل ہو تو میں یقیناً اس کے لیے بڑا ہی بخشش والا ہوں۔ “ عبد الوہاب نجار نے قصص الانبیاء میں لکھا ہے کہ پانی کے وہ چشمے جن کا ذکر بنی اسرائیل کے واقعات میں آیا ہے بحر احمر کے مشرقی بیابان میں سوئز سے زیادہ دور نہیں ہیں اور اب بھی ” عیون موسیٰ “ (موسیٰ کے چشمے) کے نام سے مشہور ہیں ‘ ان چشموں کا پانی اب بہت کچھ سوکھ گیا ہے اور بعض کے تو آثار بھی قریب قریب معدوم ہو گئے ہیں اور کہیں کہیں ان چشموں پر اب کھجور کے باغات نظر آتے ہیں۔ قرآنِ عزیز کے ذکر کردہ واقعات سے کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عصا مار کر پانی کے حاصل کرنے کا واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ پیش نہیں آیا بلکہ تیہ کے میدان میں مختلف مقامات پر متعدد مرتبہ پیش آیا ہے۔ بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے طفیل بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ کے احسانات کی مسلسل بارش ہوتی رہی اور سیکڑوں برس کی غلامی سے ان کے عزائم کی پستی ‘ اخلاقی کمزوری اور ہمت و شجاعت کے فقدان نے ان پر جو ایک مستقل مایوسی اور نا امیدی طاری کردی تھی ان خدائی نشانات نے بڑی حد تک ان کی ڈھارس بندھائے رکھی مگر عجیب الفطرت قوم پر اس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا اور انھوں نے اپنی بوالعجبی کا ایک نیا مظاہرہ پیش کر دیا ایک دن سب جمع ہو کر کہنے لگے موسیٰ ہم روز روز ایک غذا کھاتے رہنے سے گھبرا گئے ہیں ‘ ہم کو اس من وسلویٰ کی ضرورت نہیں ہے ‘ اپنے خدا سے دعا کر کہ وہ ہمارے لیے زمین سے باقلا ‘ کھیرا ‘ ککڑی ‘ مسور ‘ لہسن ‘ پیاز جیسی چیزیں اگائے تاکہ ہم خوب کھائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی اس حرکت پر بہت غصہ آیا ‘ اور فرمانے لگے : تم بھی کس قدر احمق ہو کہ ایک عمدہ اور بہترین غذا کو چھوڑ کر معمولی اور گھٹیا قسم کی چیزوں کے طلبگار بنے ہو اور اس طرح خدا کی نعمتوں کی ناسپاسی اور اس کے احسانات کی ناشکری کر کے کفران نعمت کرتے ہو ؟ پس اگر واقعی تم کو یہ نعمتیں نہیں بھاتیں اور جن چیزوں کا تم نام لے رہے ہو ان ہی کے لیے اصرار کرتے ہو تو درگاہ الٰہی سے ان کو نشانات کی طرح طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے جاؤ کسی بستی اور شہر میں چلے جاؤ وہاں ہر جگہ تم کو یہ چیزیں وافر مل جائیں گی۔ { وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْم بَقْلِھَا وَ قِثَّآئِھَا وَ فُوْمِھَا وَ عَدَسِھَا وَ بَصَلِھَا قَالَ اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ اِھْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ } [199] ” اور جب تم نے کہا موسیٰ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کرسکتے پس اپنے پروردگار سے ہمارے لیے دعا کر کہ وہ زمین سے ہمارے لیے باقلا ‘ ککڑی ‘ لہسن ‘ مسور اور پیاز جیسی چیزیں اگائے ‘ موسیٰ نے کہا کیا تم بہتر اور عمدہ چیز کے بدلے میں گھٹیا چیز کے خواہش مند ہو ‘ کسی شہر میں جا قیام کرو ‘ بلاشبہ وہاں یہ سب کچھ مل جائے گا جس کے تم طلب گار ہو۔ “
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے خدا کا وعدہ تھا کہ جب بنی اسرائیل مصری حکومت کی غلامی سے آزاد ہوجائیں گے تو تم کو شریعت دی جائے گی ‘ اب وہ وقت آگیا کہ خدا کا وعدہ پورا ہو ‘ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وحی الٰہی سے طور پر پہنچے اور وہاں عبادت الٰہی کے لیے اعتکاف کیا ‘ اس اعتکاف کی مدت ایک مہینہ تھی مگر بعد میں دس دن اور بڑھا کر چلہ پورا کر دیا۔ دیلمی نے حضرت ابن عباس ؓ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا ایک ماہ کا اعتکاف ختم ہو گیا تو انھوں نے خدائے تعالیٰ سے ہم کلامی کی تیاری شروع کی چونکہ مسلسل ایک ماہ روزہ ہی میں بسر کیے تھے اس لیے منہ میں بو محسوس کرتے ‘ لہٰذا انھوں نے یہ پسند نہیں کیا کہ رب العٰلمین سے اس حالت میں ہم کلام ہوں اور انھوں نے ایک خوشبو دار بوٹی کو چبایا اور کھالیا ‘ فوراً ہی وحی الٰہی نے ٹوکا ‘ موسیٰ تم نے ہم کلامی سے پہلے روزہ کیوں افطار کر لیا ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی وجہ بیان کردی ‘ تب حکم ہوا کہ موسیٰ اس مدت کو دس دن بڑھا کر چالیس دن کر دو کیا تمھیں معلوم نہیں کہ ہمارے یہاں ایک روزہ دار کے منہ کی بو بھی مشک کی خوشبو سے زیادہ محبوب ہے اور اس طرح یہ ” چلہ “ پورا ہوا۔ مگر قرآن کریم نے صرف اسی قدر ذکر کیا ہے کہ یہ مدت اول تیس دن تھی اور پھر بڑھا کر چالیس دن کردی گئی وجہ بیان نہیں کی۔ 2 ؎ { وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰی ثَلٰثِیْنَ لَیْلَۃً وَّ اَتْمَمْنٰھَا بِعَشْرٍ فَتَمَّ مِیْقَاتُ رَبِّہٖٓ اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً } [200] اور ہم نے موسیٰ سے تیس راتوں کا وعدہ کیا تھا پھر دس راتیں بڑھا کر اسے پورا (چلہ) کر دیا ‘ اس طرح پروردگار کے حضور آنے کی مقررہ میعاد چالیس راتوں کی پوری میعاد ہو گئی۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر چلہ کشی کے لیے تشریف لے گئے تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا جانشین بنا گئے کہ وہ بنی اسرائیل کو راہ حق پر قائم رکھیں اور ہر معاملہ میں ان کی نگرانی کریں : { وَ قَالَ مُوْسٰی لِاَخِیْہِ ھٰرُوْنَ اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْنَ } [201] اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا تو میرے پیچھے میری قوم میں میرا نائب رہنا اور ان کی اصلاح کا خیال رکھنا اور مفسدوں کی راہ پر نہ چلنا۔ “
جب ” چلہ “ پورا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ہم کلامی کا شرف بخشا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے غایت کیف و انبساط میں عرض کیا خدایا جب تو نے مجھ کو لذت و کیف سماع سے نوازا ہے تو پھر لذت مشاہدہ و دیدار سے کیوں محروم رہوں ؟ اس سے بھی سرفراز فرما ‘ وہاں سے جواب ملا موسیٰ تم مشاہدہ ذات کی تاب نہ لا سکو گے اچھا دیکھو ہم اپنی ذات کی تجلی کا ظہور اس پہاڑ پر کریں گے ‘ اگر یہ اس تجلی کو برداشت کرلے تو پھر تم یہ سوال کرنا۔ اس کے بعد طور پر حضرت حق کی تجلی نے ظہور کیا تو پہاڑ کا وہ حصہ ریزہ ریزہ ہو گیا ‘ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بیہوش ہو گئے اور گرپڑے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ہوش آیا تو انھوں نے خدائے برتر کی حمد و ثنا کی اور اپنے سوال سے رجوع کیا اور کہا کہ میں اقرار کرتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں کہ تیرے جمال کی تجلی و عرفان اور نمود حق میں کوئی کمی نہیں نقصان صرف میری اپنی ہستی کے عجز و بیچارگی کا ہے۔ { وَ لَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ قَالَ لَنْ تَرٰنِیْ وَ لٰکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوْفَ تَرٰنِیْ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلْجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا فَلَمَّآ اَفَاقَ قَالَ سُبْحٰنَکَ تُبْتُ اِلَیْکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِیْنَ } [202] ” اور جب موسیٰ آیا تاکہ ہمارے مقررہ وقت میں حاضری دے اور اس کے پروردگار نے اس سے کلام کیا تو پکار اٹھا پروردگار مجھے اپنا جمال دکھا کہ تیری طرف نظر کرسکوں ‘ حکم ہوا تو مجھے نہیں دیکھ سکے گا ‘ مگر ہاں ‘ اس پہاڑ کی طرف دیکھ اگر یہ (تجلیٔ حق کی تاب لے آیا اور) اپنی جگہ ٹکا رہا تو تو بھی مجھے دیکھ سکے گا پھر جب اس کے پروردگار نے تجلی کی تو اس تجلی نے پہاڑ کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گرپڑا جب موسیٰ ہوش میں آیا تو بولا خدایا تیرے لیے ہر طرح کی تقدیس ہو ‘ میں تیرے حضور توبہ کرتا ہوں اور سب سے پہلے یقین کرنے والوں میں سے ہوں۔ “
اس راز و نیاز کے بعد توراۃ عطا کی گئی ‘ اور حضرت حق نے ان کو حکم کیا کہ اس پر مضبوطی سے قائم رہو اور اپنی قوم سے کہنا کہ وہ بھی ان احکام پر اس طرح عمل کریں کہ جو عمل نیک جس قدر زیادہ قرب الٰہی کا سبب بنے اس کو دوسرے اعمال پر ترجیح دیں ‘ میں نے اس کتاب میں تمھاری دینی و دنیوی فلاح کی تمام تفصیلات بیان کردی ہیں اور حلال و حرام اور محاسن و معائب غرض تمام اوامرو نواہی کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور یہی میری شریعت ہے۔ { قَالَ یٰمُوْسٰٓی اِنِّی اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِکَلَامِیْ فَخُذْ مَآ اٰتَیْتُکَ وَ کُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ وَ کَتَبْنَا لَہٗ فِی الْاَلْوَاحِ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ مَّوْعِظَۃً وَّ تَفْصِیْلًا لِّکُلِّ شَیْئٍ فَخُذْھَا بِقُوَّۃٍ وَّاْمُرْ قَوْمَکَ یَاْخُذُوْا بِاَحْسَنِھَا سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ } [203] (اللہ تعالیٰ نے) کہا موسیٰ بے شک میں نے لوگوں پر تجھ کو اپنی پیغمبری اور ہم کلامی سے برتری دی ہے اور چن لیا ہے پس جو میں نے تجھ کو ( توراۃ کو) دیا ہے اس کو لے اور شکر گزار بن اور ہم نے اس کے لیے ( توراۃ کی) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور (احکام میں سے) ہر شے کی تفصیل لکھ دی ہے ‘ پس اس کو قوت کے ساتھ پکڑ اور اپنی قوم کو حکم کر کہ وہ ان میں سے اچھی کو اختیار کریں ‘ عنقریب میں تم کو نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔ “ اس مقام پر دو باتیں قابل توجہ ہیں : علمائے اسلام کہتے ہیں کہ طور کے اس واقعہ میں جن احکام کا نزول ہوا وہ توراۃ ہے اور علمائے نصاریٰ کی موجودہ جماعت کہتی ہے کہ اس سے مراد وہ دس احکام ہیں جو مذہب موسوی میں ” شریعت یا احکام عہد “ کے نام سے موسوم ہیں یعنی خدا کے سوا کسی کو نہ پوجو ‘ زنانہ کرو ‘ چوری نہ کرو ‘ وغیرہ 1 ؎ اور بعض معاصر مفسرین نے بھی اس آیت کا مصداق ” احکام عہد “ ہی کو ٹھہرایا ہے لیکن یہ دوسرا قول قرآن عزیز اور توراۃ دونوں کی شہادت سے غلط ہے اور قول اول ہی صحیح اور درست ہے ‘ اس لیے کہ قرآن عزیز نے سورة بقرہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے چلہ کا ذکر کرتے ہوئے جب نزول احکام کا تذکرہ کیا ہے تو اس کو کتاب اور فرقان کہا ہے اور یہ دونوں صفات قرآن عزیز میں توراۃ کے لیے بولی گئی ہیں نہ کہ ” احکام عہد “ کے لیے۔ { وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰٓی اَرْبَعِیْنَ لَیْلَۃً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ وَ اتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّکُمْ تَھتَدُوْنَ } [204] ” اور جب عہد کیا ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا پھر بنا لیا تم نے اس کے پیچھے گوسالہ اور تم اس بارے میں ظالم تھے پھر ہم نے اس کے بعد تم کو معاف کر دیا تاکہ تم شکر گزار بنو اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والی (فرقان) چیز عطا کی تاکہ تم راہ پاؤ۔ “ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے : { وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ مِنْ بَعْدِ مَآ اَھْلَکْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰی بَصَآئِرَ لِلنَّاسِ وَ ھُدًی وَّ رَحْمَۃً لَّعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ } [205] ” اور بے شک ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک کرنے کے بعد موسیٰ کو کتاب دی جو لوگوں کو بصیرتیں مہیا کرنے والی اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں “ اور اگرچہ توراۃ (موجودہ بائبل) کے سفر خروج ‘ استثناء اور کتاب یسوع میں موسیٰ کے ” چلہ “ کے بعد ” احکام عہد “ یا ” شریعت “ کا لفظ پایا جاتا ہے لیکن مولانا رحمت اللہ کیرانوی نور اللہ مرقدہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب اظہار الحق میں فارسی ‘ عربی اور اردو قدیم تراجم کے حوالہ سے ثابت کیا ہے کہ توراۃ کے ان نسخوں میں ان ہر دو الفاظ کی جگہ توراۃ لکھا ہوا پایا جاتا ہے چنانچہ مولانا عبد الحق نے بھی تفسیر حقانی میں اردو اور فارسی بائبل مطبوعہ 1845 ء و 1839 ء سے حسب ذیل حوالے نقل کیے ہیں : وبرآں سنگ ہا تمامی کلمات ایں توراۃ رابخط روشن بنویس۔ “ [206] بنی اسرائیل نے بموجب حکم موسیٰ کے ایک مذبح بنایا اور اس کے پتھروں پر توراۃ کو لکھ دیا۔ “ [207]
ان حوالوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو طور پر جو الواح چلہ کے بعد دی گئیں وہ توراۃ کی تھیں ‘ ” احکام عہد “ کی الواح نہیں تھیں ‘ اور انگریزی نسخہ کے ترجمہ میں لا (Law ) اور عربی و اردو نسخوں میں ” شریعت “ کو بھی صحیح مان لیا جائے تو یہ لفظ بھی اپنے معنی کی وسعت میں توراۃ پر صادق آتا ہے اور توراۃ ‘ شریعت اور قانون سب کا مصداق ایک ہی چیز ہے اور قدیم عیسائی دنیا میں یہی معنی سمجھے جاتے رہے ہیں اور ” احکام عہد “ اسی کا ایک جز ہیں اور اس کو مستقل قرار دینا بہت بعد کی پیداوار ہے۔ مسطورہ بالا آیات میں مذکور ہے : { سَاُورِیْکُمْ دَارَ الْفٰسِقِیْنَ } [208] ” عنقریب میں تم کو نافرمانوں کا گھر دکھاؤں گا۔ “ تو اس ” دار “ سے مراد کون سا مقام ہے ؟ کہنے والوں نے قیاس اور تخمین سے مختلف جوابات دیے ہیں : اس ” دار “ سے عاد وثمود کے کھنڈر مراد ہیں۔ مصر مراد ہے کہ بنی اسرائیل دوبارہ اس میں داخل ہوں گے۔ " قتادہ ؓ کہتے ہیں کہ اس سے شام کی مقدس سرزمین مراد ہے جہاں اس زمانہ میں عمالقہ کے جابر بادشاہوں کی حکومت تھی اور جہاں بنی اسرائیل کو داخل ہونا تھا۔ 1 ؎ نجار نے اسی کو ترجیح دی ہے اور میرے نزدیک یہی صحیح ہے رہا یہ امر کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے بوڑھے ان بستیوں میں داخل نہیں ہو سکے اس لیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا انتقال ارض مقدس میں داخل ہونے سے پہلے ہو گیا تھا اور اسی طرح بنی اسرائیل کے بوڑھوں پر بھی آنے والی تفصیل کے مطابق اس کا داخلہ حرام کر دیا گیا تھا تو آیت کی یا تو یہ مراد ہے کہ بنی اسرائیل کے نوجوانوں کا داخلہ جن کی اکثریت تھی سب کا داخلہ ہے اور اس طرح کا استعمال شائع ذائع ہے اور یا یہ مراد ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوشع بن نون اور کالب بن یوفنا اور چند بنی اسرائیل کے بہادروں کو ارض مقدس میں اس لیے بھیجا تھا کہ وہ وہاں کے مفصل حالات معلوم کر کے آئیں کہ ہم کس طرح دشمن کو شکست دے کر پاک سرزمین میں داخل ہو سکتے ہیں اور انھوں نے آ کر تمام حالات بنی اسرائیل اور موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے بیان کیے تھے تو گویا ان معدودے چند افراد کا ارض مقدس میں داخل ہو کر اس کو دیکھ آنا اور پھر سب کو وہاں کے حالات سے آگاہ کرنا ‘ آیت میں اسی معاملہ کی جانب اشارہ ہے قتادہ (رض) کے قول کے مقابلہ میں پہلا قول اس لیے مرجوح ہے کہ اس واقعہ کے بعد بنی اسرائیل کبھی قومی اور جماعتی حیثیت سے مصر میں داخل نہیں ہوئے اور دوسرا قول اس لیے قابل اعتبار نہیں ہے کہ اگرچہ ثمود کے آثار وادی سینا کے قریب ضرور تھے ‘ مگر عاد کے آثار و کھنڈر تو عرب کے مغربی حصہ میں واقع تھے جو وادی سینا سے مہینوں کی راہ تھی تو ایسی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ بنی اسرائیل کو صرف ان محو شدہ آثار و کھنڈر کو دکھانے کے لیے بھیجا جاتا اور اس کے لیے خدا کا وعدہ اس شان کے ساتھ بیان ہوتا مگر ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے جہنم مراد ہے اور کافروں کی تہدید کے لیے کہا گیا ہے۔ [209] بہرحال حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو توراۃ دی گئی اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا گیا کہ ہمارا قانون یہ ہے کہ جب کوئی قوم ہدایت پہنچنے اور اس کی صداقت پر دلائل اور روشن حجت آجانے کے باوجود بھی سمجھ سے کام نہیں لیتی اور گمراہی اور باپ دادا کی بری ریت رسم ہی پر قائم رہتی ہے اور اس پر اصرار کرتی ہے تو پھر ہم بھی اس کو اس گمراہی میں چھوڑ دیتے ہیں اور ہمارے پیغام حق میں ان کے لیے کوئی حصہ باقی نہیں رہتا اس لیے کہ انھوں نے قبول حق کی استعداد اپنی متمردانہ سرکشی کی بدولت زائل کردی قرآن عزیز نے اسی حقیقت کو اس انداز میں بیان کیا ہے : { سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَکَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اِنْ یَّرَوْا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِھَا وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلًا ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوْا عَنْھَا غٰفِلِیْنَ وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآئِ الْاٰخِرَۃِ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ ھَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ } [210] ” جو لوگ ناحق خدا کی زمین میں سرکشی کرتے ہیں ہم اپنی نشانیوں سے ان کی نگاہیں پھرا دیں گے وہ دنیا بھر کی نشانیاں دیکھ لیں پھر بھی ایمان نہ لائیں اگر وہ دیکھیں ہدایت کی سیدھی راہ سامنے ہے تو کبھی اس پر نہ چلیں اور اگر دیکھیں گمراہی کی ٹیڑھی راہ سامنے ہے تو فوراً چل پڑیں ‘ ان کی ایسی حالت اس لیے ہوجاتی ہے کہ ہماری نشانیاں جھٹلاتے ہیں اور ان کی طرف سے غافل رہتے ہیں اور جن لوگوں نے ہماری نشانیاں جھٹلائیں اور آخرت کے پیش آنے سے منکر ہوئے تو ان کے سارے کام اکارت ہو گئے وہ جو کچھ بدلہ پائیں گے وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ ان ہی کے کرتوتوں کا پھل ہوگا جو دنیا میں کرتے رہے۔ “
اسی اثناء میں ایک اور عجیب و غریب واقعہ پیش آیا جس کو حیرت زا بھی کہہ سکتے ہیں اور افسوسناک بھی اور جس سے بنی اسرائیل کی ذہنیت اور اخلاقی پستی بے نقاب ہو کر سامنے آجاتی ہے یعنی جبل طور یا حورب کے پہاڑ پر تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پروردگار عالم سے راز و نیاز میں مصروف اور بنی اسرائیل کے لیے آئین الٰہی ( توراۃ ) حاصل کرنے میں مشغول تھے اور نیچے وادی سینا میں بنی اسرائیل نے سامری کی قیادت میں خود ہی اپنا معبود (گوسالہ) منتخب کر کے اس کی سمادھ لگالی اور پرستش شروع کردی۔ جمہور مفسرین کی تفسیر کے مطابق واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب طور پر توراۃ لینے کے لیے تشریف لے جانے لگے تو بنی اسرائیل سے یہ فرمایا کہ میرے اعتکاف کی مدت ایک ماہ ہے مدت پوری ہونے پر فوراً تمھارے پاس پہنچ جاؤں گا ‘ ہارون ((علیہ السلام)) تمھارے پاس موجود ہیں یہ تمھارے احوال کے نگران رہیں گے مگر طور پر جا کر وہ مدت تیس کی بجائے چالیس دن ہو گئی اس تاخیر سے ایک شخص سامری نے فائدہ اٹھایا۔ اس نے جب یہ دیکھا کہ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تاخیر سے مضطرب ہو رہے ہیں تو اس نے کہا کہ اگر تم اپنے وہ تمام زیورات میرے پاس لے آؤ جو تم نے مصریوں سے مستعار لیے تھے اور پھر واپس نہ کرسکے تو میں تمھارے فائدہ کی ایک بات کر دوں۔ سامری گو ظاہر میں مسلمان تھا مگر اس کے دل میں کفر و شرک کی نجاست بھری ہوئی تھی پس جب بنی اسرائیل نے تمام سونے کے زیورات لا کر اس کے حوالے کر دیے تو اس نے ان کو بھٹی میں ڈال کر گلا دیا اور اس سے گوسالہ (بچھڑا) کا جسم تیار کیا اور پھر اپنے پاس سے ایک مشت خاک اس کے اندر ڈال دی ‘ اس ترکیب سے گوسالہ میں آثار حیات پیدا ہو گئے اور وہ بچھڑے کی آواز ” بھائیں بھائیں “ بولنے لگا۔ اب سامری نے بنی اسرائیل سے کہا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) سے غلطی اور بھول ہو گئی کہ وہ خدا کی تلاش میں طور پر گیا تمھارا معبود تو یہ موجود ہے۔ صفحات گذشتہ میں یہ اچھی طرح واضح ہو چکا ہے کہ صدیوں تک مصر کی غلامی نے بنی اسرائیل میں مشرکانہ رسوم و عقائد کو پھیلا دیا تھا اور وہ اس رنگ میں کافی حد تک رنگے جا چکے تھے اور گوسالہ پرستی مصر کا قدیم عقیدہ تھا اور ان کے مذہب میں اس کو بہت اہمیت حاصل تھی اسی لیے ان کے ایک بڑے دیوتا (حورس) کا منہ گائے کی شکل کا تھا اور وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ کرہ زمین گائے کے سر پر قائم ہے۔ 1 ؎ سامری نے جب بنی اسرائیل کو ترغیب دی کہ وہ اس کے بنائے ہوئے گوسالہ کو اپنا معبود سمجھیں اور اس کی پوجا کریں تو انھوں نے بآسانی اس کو قبول کر لیا۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو بنی اسرائیل کو سمجھایا کہ ایسا نہ کرو یہ تو گمراہی کا راستہ ہے مگر انھوں نے ہارون (علیہ السلام) کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے کہ جب تک موسیٰ ((علیہ السلام)) نہ آجائیں ہم اس سے باز آنے والے نہیں۔
یہاں جب یہ نوبت پہنچی تو اللہ تعالیٰ کی مصلحت کا تقاضا ہوا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس واقعہ سے مطلع کر دے ‘ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا : موسیٰ تم نے قوم کو چھوڑ کر یہاں آنے میں اس قدر جلدی کیوں کی ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا خدایا اس لیے کہ تیرے پاس جلد حاضر ہو کر قوم کے لیے ہدایت حاصل کروں اللہ تعالیٰ نے اس وقت ان کو بتایا جس کی ہدایت کے لیے تم اس قدر مضطرب ہو وہ اس گمراہی میں مبتلا ہے حضرت موسیٰ نے یہ سنا تو ان کو سخت رنج ہوا اور غصہ و ندامت کے ساتھ قوم کی طرف واپس ہوئے اور قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا یہ تم نے کیا کیا ؟ مجھ سے ایسی کون سی تاخیر ہو گئی تھی جو تم نے یہ آفت برپا کی ؟ یہ فرماتے جاتے تھے اور غیظ و غضب میں کانپ رہے تھے ‘ حتیٰ کہ ہاتھ سے توراۃ کی الواح بھی گرگئیں۔ بنی اسرائیل نے کہا کہ ہمارا کوئی قصور نہیں مصریوں کے زیورات کے جو بوجھ ہم ساتھ لیے پھر رہے تھے وہ سامری نے ہم سے مانگ کر یہ سوانگ بنا لیا اور ہم کو گمراہ کر دیا۔ ” شرک “ منصب نبوت کے لیے ایک ناقابل برداشت شے ہے اس لیے ‘ اور نیز اس لیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بہت گرم مزاج تھے انھوں نے اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کی گردن پکڑ لی اور داڑھی کی جانب ہاتھ بڑھایا تو حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرمایا برادر میری مطلق خطا نہیں ہے میں نے ان کو ہرچند سمجھایا مگر انھوں نے کسی طرح نہیں مانا اور کہنے لگے کہ جب تک موسیٰ ((علیہ السلام)) نہ آجائے ہم تیری بات سننے والے نہیں بلکہ انھوں نے مجھ کو کمزور پا کر میرے قتل کا ارادہ کر لیا تھا جب میں نے یہ حالت دیکھی تو خیال کیا کہ اب اگر ان سے لڑائی کی جائے اور مومنین کا ملین اور ان کے درمیان میں جنگ برپا ہو تو کہیں مجھ پر یہ الزام نہ لگایا جائے کہ میرے پیچھے قوم میں تفرقہ ڈال دیا اس لیے میں خاموشی کے ساتھ تیر ا منتظر رہاپیارے بھائی تو میرے سر کے بال نہ نوچ اور نہ داڑھی پر ہاتھ چلا اور اس طرح دوسروں کو ہنسنے کا موقع نہ دے۔ ہارون (علیہ السلام) کی یہ معقول دلیل سن کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غصہ ان کی جانب سے فرو ہو گیا اور اب سامری کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا : سامری تو نے یہ کیا سوانگ بنایا ہے ؟ سامری نے جواب دیا کہ میں نے ایسی بات دیکھی جو ان اسرائیلیوں میں سے کسی نے نہیں دیکھی تھی یعنی غرق فرعون کے وقت جبرائیل (علیہ السلام) گھوڑے پر سوار اسرائیلیوں اور فرعونیوں کے درمیان میں حائل تھے ‘ میں نے دیکھا کہ ان کے گھوڑے کے سم کی خاک میں اثر حیات پیدا ہوجاتا ہے ‘ اور خشک زمین پر سبزہ اگ آتا ہے تو میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے قدموں کی خاک سے ایک مٹھی بھر لی اور اس خاک کو اس بچھڑے میں ڈال دیا اور اس میں زندگی کے آثار پیدا ہو گئے اور یہ ” بہاں بہاں “ کرنے لگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا اچھا اب تیرے لیے دنیا میں یہ سزا تجویز کی گئی کہ تو پاگلوں کی طرح مارا مارا پھرے اور جب کوئی انسان تیرے قریب آئے تو اس سے بھاگتے ہوئے یہ کہے کہ دیکھنا مجھ کو ہاتھ نہ لگانا ‘ یہ تو دنیوی عذاب ہے اور قیامت میں ایسے نافرمانوں اور گمراہوں کے لیے جو عذاب مقرر ہے وہ تیرے لیے وعدہ الٰہی کی صورت میں پورا ہونے والا ہے۔ اے سامری یہ بھی دیکھ کہ تو نے جس گوسالہ کو معبود بنایا تھا اور اس کی سمادھ لگا کر بیٹھا تھا ہم ابھی اس کو آگ میں ڈال کر خاک کیے دیتے ہیں اور اس خاک کو دریا میں پھینکے دیتے ہیں کہ تجھ کو اور تیرے ان بیوقوف مقتدیوں کو معلوم ہوجائے کہ تمھارے معبود کی قدر و قیمت اور طاقت و قوت کا یہ حال ہے کہ وہ دوسروں پر عنایت و کرم تو کیا کرتا خود اپنی ذات کو ہلاکت و تباہی سے نہ بچا سکا۔ بدبختو یہ معمولی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ تمھارا معبود صرف وہی ایک خدا ہے جس کا نہ کوئی ساجھی ہے نہ کوئی شریک اور وہ ہر شے کا عالم و دانا ہے : { وَ لَقَدْ جَآئَکُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اسْمَعُوْا قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِھِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } [211] ” اور پھر دیکھو ‘ یہ واقعہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) سچائی کی روشن دلیلوں کے ساتھ تمھارے پاس آیا لیکن جب چالیس دن کے لیے تم سے الگ ہو گیا تو تم بچھڑے کے پیچھے پڑ گئے اور ایسا کرتے ہوئے یقیناً تم (شیوہ ایمان میں ثابت قدم نہ تھے) ایمان سے منحرف ہو گئے تھے اور پھر جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے (دین الٰہی پر قائم رہنے کا) تم سے عہد لیا تھا اور کوہ طور کی چوٹیاں تم پر بلند کردی تھیں (تو تم نے اس کے بعد کیا کیا ؟ تمھیں حکم دیا گیا کہ) جو کتاب تمھیں دی گئی ہے اس پر مضبوطی کے ساتھ جم جاؤ اور اس کے حکموں پر کار بند رہو تم نے (زبان سے) کہا سنا اور (دل سے کہا) نہیں مانتے اور پھر ایسا ہوا کہ تمھارے کفر کی وجہ سے تمھارے دلوں میں گوسالہ پرستی رچ گئی اے پیغمبر ان سے کہو (دعوت حق سے بے نیازی ظاہر کرتے ہوئے) تم اپنے جس ایمان کا دعویٰ کرتے ہو ‘ اگر وہ یہی ایمان ہے تو افسوس اس ایمان پر کیا ہی بری راہ ہے جس پر تمھارا ایمان تمھیں لے جا رہا ہے “ { وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیِّھِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُھُمْ وَ لَا یَھْدِیْھِمْ سَبِیْلًا اِتَّخَذُوْہُ وَ کَانُوْا ظٰلِمِیْنَ وَ لَمَّا سُقِطَ فِیْٓ اَیْدِیْھِمْ وَ رَاَوْا اَنَّھُمْ قَدْ ضَلُّوْا قَالُوْا لَئِنْ لَّمْ یَرْحَمْنَا رَبُّنَا وَ یَغْفِرْلَنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ وَ لَمَّا رَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ بِئْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْم بَعْدِیْ اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ وَ اَلْقَی الْاَلْوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاْسِ اَخِیْہِ یَجُرُّہٗٓ اِلَیْہِ قَالَ ابْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَ کَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ فَـلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآئَ وَ لَا تَجْعَلْنِیْ مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ قَالَ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَ لِاَخِیْ وَ اَدْخِلْنَا فِیْ رَحْمَتِکَ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُھُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ ذِلَّۃٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَ وَ الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْ بَعْدِھَا وَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِھَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ وَ لَمَّا سَکَتَ عَنْ مُّوْسَی الْغَضَبُ اَخَذَ الْاَلْوَاحَ وَ فِیْ نُسْخَتِھَا ھُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلَّذِیْنَ ھُمْ لِرَبِّھِمْ یَرْھَبُوْنَ } [212] ” پھر ایسا ہوا کہ موسیٰ کی قوم نے اس کے (پہاڑ پر) چلے جانے کے بعد اپنے زیور کی چیزوں سے (یعنی زیور کی چیزیں گلا کر) ایک بچھڑے کا دھڑ بنایا جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور اسے (پرستش کے لیے) اختیار کر لیا (افسوس ان کی عقلوں پر) کیا انھوں نے اتنی (موٹی سی) بات بھی نہ سمجھی کہ نہ تو وہ ان سے بات کرتا ہے نہ کسی طرح کی رہنمائی کرسکتا ہے ؟ وہ اسے لے بیٹھے اور وہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے پھر جب ایسا ہوا کہ ( افسوس و ندامت سے) ہاتھ ملنے لگے اور انھوں نے دیکھ لیا کہ (راہ حق سے) قطعاً بھٹک گئے ہیں تو کہنے لگے اگر ہمارے پروردگار نے ہم پر رحم نہیں کیا اور نہ بخشا تو ہمارے لیے تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے اور جب موسیٰ خشم ناک اور افسوس کرتا ہوا اپنی قوم میں لوٹا تو اس نے کہا ” افسوس تم پر کس برے طریقہ پر تم نے میرے پیچھے میری جانشینی کی ‘ تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں ذرا بھی صبر نہ کرسکے “ اس نے (جوش میں آ کر) تختیاں پھینک دیں اور ہارون کو بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگا ‘ ہارون نے کہا ” اے میرے ماں جائے بھائی (میں کیا کروں) لوگوں نے مجھے بے حقیقت سمجھا ‘ اور قریب تھا کہ قتل کر ڈالیں ‘ پس میرے ساتھ ایسا نہ کر کہ دشمن ہنسیں ‘ اور نہ مجھے ( ان) ظالموں کے ساتھ شمار کر “ موسیٰ نے کہا ” پروردگار میرا قصور بخش دے (کہ جوش میں آگیا) اور میرے بھائی کا بھی (کہ گمراہوں کو سختی کے ساتھ نہ روک سکا) اور ہمیں اپنی رحمت کے سایہ میں داخل کر تجھ سے بڑھ کر کون ہے جو رحم کرنے والا ہو۔ “ خدا نے فرمایا ” جن لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کی ‘ ان کے حصے میں ان کے پروردگار کا غضب آئے گا ‘ اور دنیا کی زندگی میں بھی ذلت و رسوائی پائیں گے ہم افترا پردازوں کو (ان کی بدعملی کا) اسی طرح بدلہ دیتے ہیں ہاں جن لوگوں نے برائیوں کے ارتکاب کے بعد (متنبہ ہو کر) توبہ کرلی ‘ اور ایمان لے آئے تو بلاشبہ تمھارا پروردگار توبہ کے بعد بخش دینے والا رحمت والا ہے اور جب موسیٰ کی خشم ناکی فرو ہوئی ‘ تو اس نے تختیاں اٹھالیں ان کی کتابت میں (یعنی ان حکموں میں جو ان پر لکھے ہوئے تھے) ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے جو اپنے پروردگار کا ڈر رکھتے ہیں۔ “
{ وَ مَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی قَالَ ھُمْ اُولَآئِ عَلٰٓی اَثَرِیْ وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْم بَعْدِکَ اَضَلَّھُمُ السَّامِرِیُّ فَرَجَعَ مُوْسٰٓی اِلٰی قَوْمِہٖ غَضْبَانَ اَسِفًا قَالَ یٰقَوْمِ اَلَمْ یَعِدْکُمْ رَبُّکُمْ وَعْدًا حَسَنًا اَفَطَالَ عَلَیْکُمُ الْعَھْدُ اَمْ اَرَدْتُّمْ اَنْ یَّحِلَّ عَلَیْکُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَخْلَفْتُمْ مَّوْعِدِیْ قَالُوْا مَآ اَخْلَفْنَا مَوْعِدَکَ بِمَلْکِنَا وَ لٰکِنَّا حُمِّلْنَا اَوْزَارًا مِّنْ زِیْنَۃِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰھَا فَکَذٰلِکَ اَلْقَی السَّامِرِیُّ فَاَخْرَجَ لَھُمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ فَقَالُوْا ھٰذَآ اِلٰھُکُمْ وَ اِلٰہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ اَفَـلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْھِمْ قَوْلًا وَّ لَا یَمْلِکُ لَھُمْ ضَرًّا وَّ لَا نَفْعًا وَ لَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَ اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی قَالَ یٰھٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَھُمْ ضَلُّوْٓا اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ قَالَ یَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْیَتِیْ وَ لَا بِرَاْسِیْ اِنِّیْ خَشِیْتُ اَنْ تَقُوْلَ فَرَّقْتَ بَیْنَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَ لَمْ تَرْقُبْ قَوْلِیْ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یٰسَامِرِیُّ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُھَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ قَالَ فَاذْھَبْ فَاِنَّ لَکَ فِی الْحَیٰوۃِ اَنْ تَقُوْلَ لَا مِسَاسَ وَ اِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَّنْ تُخْلَفَہٗ وَانْظُرْ اِلٰٓی اِلٰھِکَ الَّذِیْ ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا اِنَّمَآ اِلٰھُکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْئٍ عِلْمًا } [213] ” اور (جب موسیٰ طور پر حاضر ہوا تو ہم نے پوچھا ) ” اے موسیٰ کس بات نے تجھے جلدی پر ابھارا اور تو قوم کو پیچھے چھوڑ کر چلا آیا ؟ موسیٰ نے عرض کیا وہ مجھ سے دور نہیں میرے نقش قدم پر ہیں اور اے پروردگار میں نے تیرے حضور آنے میں جلدی کی کہ تو خوش ہو ‘ فرمایا مگر ہم نے تیرے پیچھے تیری قوم کی (استقامت کی) آزمائش کی اور سامری نے اسے گمراہ کر دیا پس موسیٰ خشم ناک اور افسوس کرتا ہوا قوم کی طرف لوٹا اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو (یہ تم نے کیا کیا ؟ ) کیا تم سے تمھارے پروردگار نے ایک بڑی بھلائی کا وعدہ نہیں کیا تھا ؟ پھر کیا ایسا ہوا کہ تم پر بڑی مدت گذر گئی ( اور تم اسے یاد نہ رکھ سکے ؟ ) یا یہ بات ہے کہ تم نے چاہا کہ تمھارے پروردگار کا غضب تم پر نازل ہو اس لیے تم نے مجھ سے ٹھہرائی ہوئی بات توڑ ڈالی ؟ انھوں نے کہا ہم نے خود اپنی خواہش سے عہد شکنی نہیں کی بلکہ (ایک دوسرا ہی معاملہ پیش آیا ‘ مصری) قوم کی زیب وزینت کی چیزوں کا ہم پر بوجھ پڑا تھا (یعنی بھاری بھاری زیوروں کا جو مصر میں پہنے جاتے تھے ہم اس بوجھ کے رکھنے کے خواہش مند نہ تھے) وہ ہم نے پھینک دیا (بس ہمارا اتنا ہی قصور ہے) چنانچہ اس طرح (جب سونا فراہم ہو گیا تو) سامری نے اسے آگ میں ڈالا اور ان کے لیے ایک (سنہرا بچھڑا بنا کر) نکال لایا محض ایک دھڑ جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی ‘ لوگ یہ دیکھ کر بول اٹھے یہ ہے ہمارا معبود اور موسیٰ کا بھی مگر وہ بھول میں پڑ گیا (افسوس ان کی سمجھ پر ) کیا انھیں یہ (موٹی سی) بات بھی دکھائی نہ دی کہ بچھڑا (آواز تو نکالتا ہے مگر) ان کی بات کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ انھیں فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اور ہارون نے اس سے پہلے انھیں (صاف صاف) جتا دیا تھا ” بھائیو یہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ تمھاری (استقامت کی) آزمائش ہو رہی ہے تمھارا پروردگار تو خدائے رحمن ہے۔ دیکھو میری پیروی کرو اور میرے کہے سے باہر نہ ہو۔ مگر انھوں نے جواب دیا : جب تک موسیٰ ہمارے پاس واپس نہ آجائے ہم اس کی پرستش پر جمے ہی رہیں گے بہرحال موسیٰ نے (اب ہارون سے) کہا اے ہارون جب تو نے دیکھا کہ یہ لوگ گمراہ ہو گئے ہیں تو کیا بات ہوئی کہ انھیں روکا نہیں ؟ کیا تو نے پسند کیا کہ میرے حکم سے باہر ہوجائے ؟ ہارون بولا اے میرے عزیز بھائی میری داڑھی اور سر کے بال نہ نوچ ( میں نے اگر سختی میں کمی کی تو صرف اس خیال سے کہ) میں ڈرا کہ کہیں تم یہ نہ کہو ‘ تو نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا اور میرے حکم کی راہ نہ دیکھی تب موسیٰ نے (سامری سے) کہا سامری یہ تیر ا کیا حال ہوا ؟ کہا میں نے وہ بات دیکھ لی تھی جو اوروں نے نہیں دیکھی تو میں نے فرشتہ کے نقش قدم (کی مٹی) سے ایک مٹھی بھر لی پھر اس کو (ڈھلے ہوئے بچھڑے میں) ڈال دیا ‘ میرے جی نے ایسی ہی بات مجھے سجھائی موسیٰ نے کہا اگر ایسا ہے تو پھر جا ‘ زندگی میں تیرے لیے یہ ہونا ہے کہ کہے میں اچھوت ہوں اور (آخرت میں عذاب کا) ایک وعدہ ہے جو کبھی ٹلنے والا نہیں اور دیکھ تیرے (گڑھے ہوئے) معبود کا اب کیا حال ہوتا ہے جس کی پوجا پر جم کر بیٹھ رہا تھا ہم اسے جلا کر راکھ کر دیں گے اور راکھ سمندر میں اڑا کر بہا دیں گے ‘ معبود تو تمھارا بس اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی نہیں ‘ وہی ہے جو ہر چیز پر اپنے علم سے چھایا ہوا ہے۔ “ آیات مسطورہ بالا میں حسب ذیل آیت کی تفسیر کے متعلق مفسرین کے درمیان میں کلام ہے : { قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یٰسَامِرِیُّ قَالَ بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِہٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُھَا وَ کَذٰلِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ } [214] ” موسیٰ نے کہا ” پس اے سامری تیر ایہ کیا معاملہ ہے ؟ “ سامری نے کہا ” میں نے اس چیز کو دیکھا جس چیز کو انھوں نے نہیں دیکھا پس میں نے ” رسول “ کے نشان سے ایک مٹھی بھر لی پھر اس کو ڈال دیا اور میرے جی نے یہی سجھا دیا۔ “ دراصل اس آیت میں چند باتیں زیر بحث ہیں اور ان ہی کے فیصلہ پر کل واقعہ کی تفسیر کا مدار ہے : سامری نے وہ کیا شے دیکھی جو دوسروں نے یعنی بنی اسرائیل نے نہیں دیکھی ؟ قَـبَضْتُ قَبْضَہً سے کیا مراد ہے ؟ " اَثَرْ الرَّسُوْلِ میں ” رسول “ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں یا جبرائیل فرشتہ ؟ نَـبَذْتُھَا سے کیا مراد ہے ؟ واقعہ کی گذشتہ تفصیلات سے اگرچہ جمہور کی رائے معلوم ہو چکی ہے تاہم مختصر طور پر اس کو حضرت شاہ عبد القادر دہلوی کی زبانی پھر سن لیجئے : ” جس وقت بنی اسرائیل پھٹے دریا میں پیٹھے (گھسے) پیچھے فرعون ساتھ فوج کے پیٹھا (داخل ہوا) جبرائیل بیچ میں ہو گئے کہ ان کو ان تک نہ ملنے دیں ‘ سامری نے پہچانا کہ یہ جبرائیل ہیں ان کے پاؤں کے نیچے سے مٹھی بھر مٹی اٹھالی وہی اب سونے کے بچھڑے میں ڈال دی ‘ سونا تھا کافروں کا مال لیا ہوا فریب سے ‘ اس میں مٹی پڑی برکت کی ‘ حق اور باطل مل کر ایک ” کرشمہ “ پیدا ہوا کہ رونق جاندار کی اور آواز اس میں ہو گئی ایسی چیزوں سے بہت بچنا چاہیے اسی سے بت پرستی بڑھتی ہے۔ “ [215] اس تفسیر کے متعلق صاحب روح المعانی ارشاد فرماتے ہیں : ” آیت کی یہ تفسیر وہ ہے جو صحابہ ‘ تابعین ‘ تبع تابعین اور جلیل القدر مفسرین سے منقول ہے۔ “ [216] اس تفسیر کے خلاف دوسری تفسیر مشہور معتزلی ابو مسلم اصفہانی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں آیت کا مطلب یہ ہے کہ سامری نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ جواب دیا کہ مجھ کو بنی اسرائیل کے خلاف یہ بات سوجھی کہ آپ حق پر نہیں ہیں اور ساتھ ہی میں نے آپ کا کچھ اتباع کر لیا تھا اور پیروی اختیار کرلی تھی ‘ مگر میرا دل اس پر نہ جما اور آخر کار میں نے اس اتباع اور پیروی کو بھی ترک کر دیا اور اسی طریق کار کو میرے نفس نے بہتر جانا ‘ گویا ابو مسلم کے نزدیک آیت { بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا } [217] کے معنی یہ ہے کہ سامری بنی اسرائیل کے عقیدے کے خلاف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حق پر نہیں سمجھتا تھا اور { فَقَبَضْتُ قَبْضَۃً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ } [218] میں ” رسول “ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں اور اَثَرِ الرَّسُوْلِ سے مراد پیروی اور اتباع ہے اور قَبْضَۃً تھوڑی سی پیروی اور فَنَبَذْتُھَا سے ترک اتباع مراد ہے ابو مسلم نے اپنی اس تفسیر کے ثبوت میں لغت عرب سے کچھ استشہادات بھی پیش کیے ہیں اور جمہور کی تفصیل پر کچھ اشکالات بھی وارد کیے ہیں جس کا جواب سید محمود آلوسی نے اپنی تفسیر میں تفصیل کے ساتھ دیا ہے۔ بایں ہمہ ابو مسلم کی اس تفسیر کو امام رازی نے تفسیر کبیر میں قوی ‘ راجح اور صحیح تسلیم کیا ہے وہ فرماتے ہیں : ” یہ واضح رہے کہ ابو مسلم نے جو تفسیر بیان کی ہے اس میں مفسرین کی مخالفت تو ضرور پائی جاتی ہے لیکن حسب ذیل چند وجوہ کے پیش نظر تحقیق سے قریب تر اسی کی تفسیر ہے۔ “ (تفسیر کبیر جلد 6 ص 7٠) چنانچہ علمائے عصر میں سے مولانا ابو الکلام آزاد نے بھی ترجمان القرآن میں اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔ 1 ؎ زیر بحث آیت سے متعلق قرآن عزیز کے سیاق وسباق کے مطالعہ اور اس سلسلہ میں صحیح احادیث نبوی کی تفتیش و تحقیق کے بعد حق اور راجح بات یہ ہے کہ اس مسئلہ میں نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی ایسی تصریح منقول نہیں ہے جس کے بعد ایک جانب کو قطعیت حاصل ہوجائے اور دوسری جانب باطل قرار پائے اور غالباً اسی وجہ سے مشہور محدث و مفسر حافظ عماد الدین ابن کثیر نے اس سلسلہ کی تمام روایات کو سامنے رکھنے کے بعد اگرچہ جمہور کی تائید کی ہے اور ابو مسلم کی تائید نہیں کی بلکہ اس کی تفسیر کو نقل بھی نہیں کیا تاہم جمہور کی تفسیر کو وہ حیثیت نہیں دی جو صاحب روح المعانی نے ذکر فرمائی ہے یعنی یہ کہ جمہور کی تفسیر نصوص حدیثی سے ثابت ہے اور اس لیے دوسرا احتمال بے شبہ الحادو زندقہ ہے چنانچہ انھوں نے آیت کی تفسیر کرنے کے بعد صرف یہ فرمایا : ( (ھذا ھو المشہور عند کثیر من المفسرین او اکثرہم)) [219] ” یہ وہ تفسیر ہے جو بہت سے مفسرین بلکہ اکثر مفسرین کی نسبت سے مشہور ہے۔ “ اور اسی طرح ان کے مشہور معاصر مفسر ابو حیان اندلسی نے البحر المحیط میں ابو مسلم کی تفسیر کو اگرچہ ” قیل “ 2 ؎ کہہ کر نقل کیا ہے مگر اس کے خلاف ایک جملہ بھی نہیں لکھا اور سکوت فرمایا۔ پس ان جلیل القدر مفسرین کے اس طرز تحریر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اگرچہ جمہور کی تفسیر ہی کو صحیح یا راجح سمجھتے ہیں مگر دوسرے احتمال کے متعلق یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ وہ نصوص قطعیہ کے خلاف ہے اور ایسا احتمال ہے جس کی پشت پر الحادو زندقہ کی کار فرمائی ہے۔ البتہ اس میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ اس آیت کا سیاق وسباق اور قبول و عدم قبول حق کے متعلق اس سلسلہ کی تمام آیات قرآن کا اسلوب بیان ‘ دونوں ہی ابو مسلم کی تفسیر کا قطعاً انکار کرتے اور اس کو تاویل محض ظاہر کرتے ہیں اس لیے کہ آیت زیر بحث کے جملہ بَصُرْتُ [220] 2 ؎ کوئی قول کمزور سمجھا جاتا ہے تو اس کو ” قیل “ کہہ کر بیان کیا جاتا ہے۔ بِمَا لَمْ یُبْصِرُوْا بِہٖ میں بصارت سے بصارت عینی کی جگہ بصیرت قلبی مراد لینا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مخاطب ہوتے ہوئے بھی ” الرسول “ کہہ کر ان کو غائب کے قائم مقام بنانا اور قَبَضْتُ قَبْضَۃً کے معنی مٹھی بھر لینا کی بجائے تھوڑا سا اتباع کرلینا بیان کرنا اور جملہ نَــبَذْتُھَا سے ترک اتباع مراد لینا ‘ یہ سب علاحدہ علاحدہ جملہ کے اعتبار سے اگرچہ محاورات عرب میں قابل تسلیم ہیں لیکن پورے نظم کلام کے پیش نظر ابو مسلم کی تفسیر لچر تاویل سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی اور سیاق وسباق شہادت دے رہے ہیں کہ اس جگہ وہی معنی راجح ہیں جو جمہور کا مختار ہیں۔ کیا یہاں یہ اصولی سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اگر سامری کو صرف یہ بتانا تھا کہ میں دل سے آپ کا معتقد نہیں تھا مگر مصلحتاً کچھ دنوں کے لیے آپ کی پیروی کر رہا تھا اور اب اس کو بھی ترک کر دیا تو اس صاف اور سادہ بات کے لیے قرآن عزیز کو ایسے ذو معنی اور مبہم اظہار بیان کی کس لیے ضرورت پیش آئی کہ بقول مولانا آزاد ” مفسرین کو یہ موقع مل گیا کہ انھوں نے یہودیوں میں مشہور روایت کو ٹھیک ٹھیک آیت زیر بحث پر چسپاں کر دیا۔ “، 1 ؎ پس جمہور کی تفسیر یہود کی روایت نہیں ہے بلکہ خود قرآن کا بولتا ہوا بیان ہے اور صاف اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سوال پر سامری کا جواب ضرور کسی ایسے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے جو حیرت زا بھی تھا اور کج فطرت انسانوں کی گمراہی کے لیے اس کو آلہ کار بھی بنایا جا سکتا تھا۔ رہا یہ سوال کہ یہ عجیب و غریب معاملہ ایک باطل پرست کے ہاتھ سے کس طرح ظہور پزیر ہوا تو اس کے متعلق سب سے بہتر جواب شاہ عبد القادر کی وہ تعبیر ہے جو موضح القرآن سے گذشتہ سطور میں نقل کی گئی ‘ یعنی جب ایک باطل کو کسی دوسرے حق کے ساتھ ملایا جائے تو اس کے امتزاج سے ایک کرشمہ پیدا ہوجاتا ہے جو اس ترکیب کا خاصہ اور اس کا حقیقی مزاج کہلاتا ہے ‘ مثلا آپ گلاب کے عطر کو چرکین کے کچھ اجزاء کے ساتھ مخلوط کیجئے تو گلاب کی نفیس اور لطیف خوشبو چرکین کی قابل نفرت بدبو کے ساتھ مل کر ایک ایسی کیفیت پیدا کر دے گی ‘ جس سے بے شبہ نفس چرکین کی بو سے بھی زیادہ دل و دماغ پر برا اثر پڑے گا اور یہ حالت ہوجائے گی کہ ایک سلیم المزاج انسان چرکین کے ایک ڈھیر پر کھڑا ہونا منظور کرسکتا ہے لیکن اس مخلوط بو کو ایک لمحہ کے لیے بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اسی لیے اسلام نے حق و باطل کے ایسے امتزاج کو حرام قرار دیا ہے کہ اس سے سخت گمراہی پھیلتی ہے۔ بہرحال جمہور کی تفسیرہی صحیح اور قرآن عزیز کے اسلوب بیان کے مطابق ہے۔
سامری کے اس انوکھے فریب نے ایک محقق کے لیے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ یہ شخص اسرائیلی تھا یا کون ؟ اور یہ کہ سامری اس کا نام ہے یا لقب ؟ نجار کہتے ہیں اس موقع پر جرائد میں عیسائیوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سامری سامرہ کی جانب منسوب ہے اور سامرہ شہر اس وقت تک آباد نہیں ہوا تھا ‘ لہٰذا قرآن کے اس واقعہ میں سامری کے ذکر کے کیا معنی ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ سامری سامرہ شہر کی جانب منسوب نہیں ہے اور نہ منسوب ہو سکتا ہے اس لیے کہ یہ شہر موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں موجود نہ تھا بلکہ بہت زمانہ کے بعد عالم وجود میں آیا بلکہ یہ شامر کی جانب منسوب ہے اور یہ عبرانی لفظ ہے یہ جب عربی میں منتقل ہوا تو ” ش “ ” س “ کے ساتھ تبدیل ہو گیا خود عبرانی بولنے والی دو شاخیں سبط افرائیمی اور سبط یہوذا میں سے افرائیمی ” س “ بولتے ہیں اور یہودا ” ش “ چنانچہ یہ لفظ عبرانی میں شومیر بولا جاتا ہے اور شمر کے معنی حرس (حفاظت) کے ہیں لہٰذا شومیر یا شامر یا سامر کے معنی ” حارس “ (محافظ) کے ہیں اور اسی کی نسبت سے ” سامری “ بولا جاتا ہے۔ نجار نے عبرانی توراۃ سے اس معنی کے استشہاد میں ایک حوالہ بھی دیا کہ جب خدا نے قابیل سے پوچھا کہ تیرا بھائی ہابیل کہاں ہے ؟ تو اس نے جواب دیا مجھے نہیں معلوم کہاں ہے : مسو میرا حی انوخی 1 ؎ (کیا میں اپنے بھائی کا محافظ ہوں) [221] اور علامہ آزاد فرماتے ہیں : ” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سامری کون تھا ؟ یہ اس کا نام تھا یا قومیت کا لقب ؟ قیاس کہتا ہے کہ یہاں سامری سے مقصود سمیری قوم کا فرد ہے کیونکہ جس قوم کو ہم نے سمیری کے نام سے پکارنا شروع کر دیا ہے عربی میں اس کا نام قدیم سے سامری آ رہا ہے اور اب بھی عراق میں ان کا بقایا اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں قرآن کا ” السامری “ کہہ کے اسے پکارنا صاف کہہ رہا ہے کہ یہ نام نہیں ہے اس کی قومیت کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ شخص اسرائیلی نہ تھا سامری تھا۔ حضرت مسیح (علیہ السلام) سے تقریباً ساڑھے تین ہزار برس پہلے دجلہ و فرات کے دو آبے میں دو مختلف قومیں آباد ہو رہی تھیں اور ایک عظیم الشان تمدن کی بنیادیں اٹھا رہی تھیں ‘ ان میں سے ایک قوم جو جنوب سے آئی تھی ‘ عرب تھی ‘ دوسری جس کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ شمال سے اتری سمیری تھی اسی قوم کے نام سے تاریخ قدیم کا شہر ” سامرہ “ اور ” ار “ آباد ہوا تھا جس کا محل اب ” تل العبید “ میں دریافت ہوا ہے اور وہاں سے پانچ ہزار برس پیشتر کے بنے ہوئے زیور اور سنہری ظروف برآمد ہوئے ہیں۔ سمیری قوم کی اصل کیا تھی ؟ اس بارے میں اس وقت تک کوئی قطعی رائے قائم نہیں کی جاس کی ہے لیکن نینوا میں اشوری پال (متوفی 626 قبل مسیح) کا جو کتب خانہ نکلا ہے اس میں تختیوں کا ایک مجموعہ لغت کی کتاب کا بھی ہے جس میں اکادی اور سمیری زبان کے ہم معنی الفاظ جمع کیے گئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سمیری زبان کے اصوات سامی حروف کے اصوات سے چنداں مختلف نہیں تھے بہت ممکن ہے کہ وہ بھی دراصل ان ہی قبائل کے مجموعہ سے کوئی بعیدی تعلق رکھتے ہوں جن کے لیے ہم نے توراۃ کی اصطلاح سامی اختیار کرلی ہے۔۔ بہرحال سمیری قبائل کا اصلی وطن عراق تھا ‘ مگر یہ دور دور تک پھل گئے تھے۔ مصر سے ان کے تعلقات کا سراغ ایک ہزار سال قبل مسیح تک روشنی میں آچکا ہے پس معلوم ہوتا ہے اسی قوم کا ایک فرد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی معتقد ہو گیا اور جب بنی اسرائیل نکلے تو یہ بھی ان کے ساتھ نکل آیا اسی کو قرآن نے ” السامری “ کے لفظ سے یاد کیا ہے گائے ‘ بیل اور بچھڑے کی تقدیس کا خیال سمیریوں میں بھی تھا اور مصریوں میں بھی مصری اپنے دیوتا حورس کا چہرہ گائے کی شکل کا بناتے تھے۔ الخ۔ “ (ترجمان القرآن جلد 2 ص 464‘ 465) ان ہر دو بیانات کے مطالعہ کے بعد یہ بآسانی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مولانا آزاد کی تشریح نجار کی تشریح کے مقابلہ میں زیادہ قرین صواب اور راجح ہے اور نجار کی تشریح ” تاویل بعید “ کی حیثیت رکھتی ہے سامر کے معنی اگر نگہبان کے آتے ہیں تو اس کا نام بھی سامری کیوں ہوا ؟ اس کا جواب اس تاویل میں نہیں ملتا اور عیسائیوں کے سوال کا جواب جس تاریخی تحقیق کے ساتھ آزاد صاحب کے مضمون میں ملتا ہے وہی صحیح ہے۔ الحاصل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جب ان معاملات سے فارغ ہو گئے تو انھوں نے خدائے تعالیٰ کی جناب میں رجوع کیا کہ اب ان کے اس ارتداد اور بے دینی کی سزا تیرے نزدیک کیا ہے ؟ وہاں سے جواب ملا کہ جن لوگوں نے یہ شرک کیا ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھو لینا پڑے گا۔ نسائی میں روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تمھاری توبہ کی صرف ایک صورت مقرر کی گئی ہے وہ یہ کہ مجرموں کو اپنی جان کو اس طرح ختم کرانا چاہیے کہ جو شخص رشتہ میں جس سے زیادہ قریب ہے وہ اپنے عزیز کو اپنے ہاتھ سے قتل کرے یعنی باپ بیٹے کو اور بیٹا باپ کو اور بھائی بھائی کو ‘ آخر بنی اسرائیل کو اس حکم کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ توراۃ میں ہے کہ اس طرح تین ہزار بنی اسرائیل قتل ہوئے 1 ؎ اور بعض اسلامی روایات میں اس سے بھی زیادہ تعداد مذکور ہے جب نوبت یہاں تک پہنچی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) درگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوئے اور عرض کیا بار الٰہا اب ان پر رحم فرما اور ان کی خطاؤں کو بخش دے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے قاتل و مقتول دونوں کو بخش دیا اور جو زندہ ہیں اور قصور وار ہیں ان کی بھی خطا معاف کردی تم ان کو سمجھا دو کہ آئندہ شرک کے قریب بھی نہ جائیں۔ { وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْآ اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَ بَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُْمْ اِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ } [222] ” اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا اے قوم بلاشبہ تم نے گوسالہ بنانے میں اپنے نفس پر بڑا ظلم کیا ہے پس اپنے خالق کی طرف رجوع کرو اور اپنی جانوں کو قربان کرو تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک تمھارے حق میں یہی بہتر ہے پھر وہ تم پر رجوع (بہ رحمت) ہوگا بلاشبہ وہ بڑا رجوع (بہ رحمت) ہونے والا رحم کرنے والا ہے۔ “ اس واقعہ کے متعلق قرآن عزیز اور توراۃ میں بہت سا اختلاف ہے توراۃ کا بیان ہے کہ گوسالہ ہارون (علیہ السلام) نے بنایا تھا : ” اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اس سے کہنے لگے کہ اٹھ ہمارے لیے دیوتا بنا دے جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا ‘ کیا ہو گیا ‘ ہارون نے ان سے کہا تمھاری بیویوں اور لڑکوں لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں ان کو اتار کر میرے پاس لے آؤ ‘ چنانچہ سب لوگ ان کے کانوں سے سونے کی بالیاں اتار اتار کر ان کو ہارون کے پاس لے آئے اور اس نے ان کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی تب وہ کہنے لگے اے بنی اسرائیل یہی وہ تیرا دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لایا ‘ یہ دیکھ کر ہارون نے اس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اس نے اعلان کر دیا کہ کل خداوند کے لیے عید رہے۔ “ [223] توراۃ کی تحریف و مسخ کی شہادت اس سے زیادہ اور کیا ہوگی کہ جو کتاب اسی باب خروج میں ہارون (علیہ السلام) کو خدا کا پیغمبر اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا وزیر ظاہر کرتی ہے وہی توراۃ اس جگہ ہارون (علیہ السلام) کو عیاذاً باللّٰہ نہ صرف مشرک اور بت پرست ثابت کر رہی ہے بلکہ شرک کا معلم اور بت پرستی کا راہنما بتارہی ہے۔ توراۃ کے مطالعہ سے بآسانی آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اہل کتاب کی بوالعجبیوں اور کتاب اللہ میں تحریفات کی داستانوں میں سب سے زیادہ قابل نفرت داستان یہ ہے کہ وہ خدا کے جن برگزیدہ انسانوں کو نبی اور پیغمبر کہتے ہیں ‘ ان ہی پر شرک و کفر اور بداخلاقیوں کی تہمت لگانے میں بھی نہیں جھجکتے چنانچہ اس مقام پر بھی سامری کے مشرکانہ عمل کو حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سر لگا دیا قرآن عزیز اس خرافات کی پر زور تردید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا دامن اس قسم کی ناپاکی سے قطعاً پاک ہے گوسالہ بنانا اور گوسالہ پرستی کی ترغیب دینا سامری کا کام تھا نہ کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) جیسے برگزیدہ نبی کا۔ انھوں نے سختی کے ساتھ بنی اسرائیل کو اس ناپاک حرکت سے باز رکھنے کی سعی کی مگر وہ بدبخت کسی طرح نہ مانے : { وَ لَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَ اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ قَالُوْا لَنْ نَّبْرَحَ عَلَیْہِ عٰکِفِیْنَ حتّٰی یَرْجِعَ اِلَیْنَا مُوْسٰی } [224] ” اور بے شک ہارون نے پہلے ہی ان (بنی اسرائیل) سے کہا ” اے قوم بلاشبہ تم فتنہ میں ڈال دیے گئے (اس بچھڑے کے بنانے سے) اور بے شک تمھارا پروردگار بڑا رحم والا ہے پس (اب بھی سمجھو اور) میری پیروی کرو اور میرے حکم کو مانو “ انھوں نے (بنی اسرائیل نے ) کہا ہم اس کی سمادھ ہرگز نہ چھوڑیں گے تا آنکہ موسیٰ لوٹ کر ہمارے پاس نہ آجائے۔ “
جب بنی اسرائیل کا یہ جرم معاف کر دیا گیا تو اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ میرے پاس جو یہ ” الواح “ (تختیاں) ہیں ‘ یہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمھاری ہدایت اور دینی دنیوی و زندگی کی فلاح کے لیے مجھ کو عطا فرمائی ہے یہ توراۃ ہے اب تمھارا فرض ہے کہ اس پر ایمان لاؤ اور اس کے احکام کی تعمیل کرو۔ بنی اسرائیل بہرحال بنی اسرائیل تھے کہنے لگے : موسیٰ ہم کیسے یقین کریں کہ یہ خدا کی کتاب ہے ؟ صرف تیرے کہنے سے تو ہم نہیں مانیں گے ہم تو جب اس پر ایمان لائیں گے کہ خدا کو بے حجاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں اور وہ ہم سے یہ کہے کہ یہ توراۃ میری کتاب ہے تم اس پر ایمان لاؤ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو سمجھایا کہ یہ بے وقوفی کا سوال ہے ان آنکھوں سے خدا کو کس نے دیکھا ہے جو تم دیکھو گے ‘ یہ نہیں ہو سکتا ‘ مگر بنی اسرائیل کا اصرار بدستور قائم رہا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو کچھ سوچ کر ارشاد فرمایا کہ یہ تو ناممکن ہے کہ تم لاکھوں کی تعداد میں میرے ساتھ حورب (طور) پر اس کی تصدیق کے لیے جاؤ مناسب یہ ہے کہ تم میں سے چند سردار چن کر ساتھ لیے جاتا ہوں وہ اگر واپس آ کر تصدیق کر دیں تو پھر تم بھی تسلیم کرلینا ‘ اور چونکہ تم ابھی گوسالہ پرستی کر کے ایک بہت بڑا گناہ کرچکے ہو اس لیے اظہار ندامت اور خدا سے آئندہ نیکی کے عہد کے لیے بھی یہ موقع مناسب ہے۔ قوم اس پر راضی ہو گئی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تمام اسباط سے ستر سرداروں کو چن کر ساتھ لیا اور طور پر جا پہنچے ‘ طور پر ایک سپید بادل کی طرح ” نور “ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو گھیر لیا اور اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی شروع ہو گئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بارگاہ الٰہی میں عرض کیا کہ تو بنی اسرائیل کے حالات کا دانا و بینا ہے ‘ میں ان کی ضد پر ستر آدمی انتخاب کر لایا ہوں ‘ کیا اچھا ہو کہ وہ بھی اس ” حجاب نور “ سے میری اور تیری ہم کلامی کو سن لیں اور قوم کے پاس جا کر تصدیق کرنے کے قابل ہوجائیں ؟ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا منظور فرما لی اور ان کو ” حجاب نور “ میں لے لیا گیا اور انھوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور اللہ رب العالمین کی ہم کلامی کو سنا ‘ پھر جب پر دہ نور ہٹ گیا ‘ اور حضرت موسیٰ اور ان سرداروں کے درمیان مواجہہ ہوا تو سرداروں نے وہی اپنا پہلا اصرار قائم رکھا کہ جب تک بے حجاب خدا کو نہ دیکھ لیں ہم ایمان لانے والے نہیں ‘ اس احمقانہ اصرار اور ضد پر غیرت الٰہی نے ان کو یہ سزا دی کہ ایک ہیبت ناک چمک ‘ کڑک اور زلزلہ نے ان کو آلیا اور جلا کر خاک کر دیا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ دیکھا تو درگاہ الٰہی میں عاجزی کے ساتھ دعا مانگی الٰہی یہ بیوقوف اگر بے وقوفی کر بیٹھے تو کیا تو ہم سب کو ہلاک کر دے گا اے خدا اپنی رحمت سے تو ان کو معاف کر دے حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کو سنا اور ان سب کو دوبارہ حیات تازہ بخشی اور پھر جب وہ زندگی کا لباس پہن رہے تھے تو ایک دوسرے کی تازہ زندگی کو آنکھوں سے دیکھ رہے تھے : { وَ اخْتَارَ مُوْسٰی قَوْمَہٗ سَبْعِیْنَ رَجُلًا لِّمِیْقَاتِنَا فَلَمَّآ اَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوْ شِئْتَ اَھْلَکْتَھُمْ مِّنْ قَبْلُ وَ اِیَّایَ اَتُھْلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَھَآئُ مِنَّا اِنْ ھِیَ اِلَّا فِتْنَتُکَ تُضِلُّ بِھَا مَنْ تَشَآئُ وَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اَنْتَ وَ لِیُّنَا فَاغْفِرْلَنَا وَ ارْحَمْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الْغٰفِرِیْنَ وَ اکْتُبْ لَنَا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ اِنَّا ھُدْنَآ اِلَیْکَ قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ } [225] ” اور اس غرض سے کہ ہمارے ٹھہرائے ہوئے وقت میں حاضر ہوں موسیٰ نے اپنی قوم میں سے ستر آدمی چنے پھر جب لرزا دینے والی ہول ناکی نے انھیں آلیا تو موسیٰ نے (ہماری جناب میں) عرض کیا ” پروردگار اگر تو چاہتا تو ان سب کو اب سے پہلے ہی ہلاک کر ڈالتا اور خود میری زندگی بھی ختم کردیتا (مگر تو نے اپنے فضل و رحمت سے ہمیں مہلت دی) پھر کیا ایک ایسی بات کے لیے جو ہم میں سے چند بیوقوف آدمی کر بیٹھے ہیں تو ہم سب کو ہلاک کر دے گا ؟ یہ اس کے سوا کیا ہے کہ تیری طرف سے ایک آزمائش ہے تو جسے چاہے اس میں بھٹکا دے جسے چاہے راہ دکھادے ‘ خدایا تو ہمارا والی ہے ‘ ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر ‘ تجھ سے بہتر بخشنے والا کوئی نہیں اور (خدایا) اس دنیا کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی لکھ دے ‘ اور آخرت کی زندگی میں بھی ہمارے لیے اچھائی کر ‘ ہم تیری طرف لوٹ آئے “ خدا نے فرمایا ” میرے عذاب کا حال یہ ہے کہ جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں اور رحمت کا حال یہ ہے کہ ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے پس میں ان کے لیے رحمت لکھ دوں گا جو برائیوں سے بچیں گے اور زکوۃ ادا کریں گے اور ان کے لیے جو میری نشانیوں پر ایمان لائیں گے جو ” الرسول “ کی پیروی کریں گے کہ نبی امی ہوگا اور اس کے ظہور کی خبر اپنے یہاں توراۃ اور انجیل میں لکھی پائیں گے وہ انھیں نیکی کا حکم دے گا برائی سے روکے گا پسندیدہ چیزیں حلال کرے گا ‘ گندی چیزیں حرام ٹھہرائے گا اس بوجھ سے نجات دلائے گا جس کے تلے دبے ہوں گے اور ان پھندوں سے نکالے گا جن میں گرفتار ہوں گے تو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کے مخالفوں کے لیے روک ہوئے (راہ حق میں) اس کی مدد کی اور اس روشنی کے پیچھے ہو لیے جو اس کے ساتھ بھیجی گئی ہے سو وہی ہیں جو کامیابی پانے والے ہیں۔ “ { وَاِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَھْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَۃُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ ثُمَّ بَعَثْنٰکُمْ مِّنْم بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ } [226] اور جب تم نے کہا ” اے موسیٰ ہم تجھ پر اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو بے حجاب اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں پس آنکھوں دیکھتے تم کو بجلی کی کڑک نے آپکڑا ‘ پھر ہم نے تم کو موت کے بعد زندہ کیا تاکہ تم شکر گزار رہو۔ “
قرآن عزیز نے حیات بعد الممات کا عام قانون تو یہ بتایا ہے کہ اس دنیوی موت کے بعد پھر عالم آخرت ہی کے لیے دوبارہ زندگی ملے گی لیکن قانون خاص یہ ہے کہ کبھی کبھی حکمت و مصلحت کے پیش نظر خدائے تعالیٰ اس دنیا ہی میں مردہ کو زندگی بخش دیا کرتا ہے اور انبیا (علیہم السلام) کی معجزانہ زندگی میں خود قرآنی شہادت کے مطابق اس حقیقت کا متعدد مرتبہ ظہور ہو چکا ہے۔ قرآن کریم جب حیات بعد الممات کا ذکر کرتا ہے تو اس کا قرینہ یہ ہے کہ وہ اس زندگی کو ” بعث “ سے تعبیر کرتا ہے جس کو اردو میں جی اٹھنا کہتے ہیں۔ سورة بقرہ کی آیت میں بھی قرآن عزیز نے بنی اسرائیل کے نمائندوں کی موت و ہلاکت اور اس کے بعد ان کے ” بعث “ جی اٹھنے کا ذکر کیا ہے ‘ اور لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ کہہ کر اس واقعہ کی اصلی حقیقت کو اور زیادہ واضح کر دیا ہے کہ بلاشبہ صورت یہ پیش آئی کہ ان کے نامعقول اور گستاخانہ اصرار پر ” رجفہ “ کے عذاب نے ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عاجزانہ دعا پر خدا کی وسعت رحمت نے تر سکھایا اور ان سوختہ جان انسانوں کو دوبارہ زندگی بخش دی تاکہ یہ شکر گزار ہوں اور آئندہ اس قسم کی بے جا ضد کو کام میں نہ لائیں اور خدا کے سچے فرمان بردار بن جائیں۔ اس تفصیل کے بعد یہ بآسانی سمجھ میں آسکتا ہے کہ جن معاصر مفسرین نے آیت کی تفسیر اس حیات بعد الممات سے بچنے کے لیے رکیک تاویلات کے ساتھ کی ہے وہ صحیح نہیں ہے اور انھوں نے بغیر کسی سند اور دلیل کے قرآن عزیز کے صاف اور صریح اسلوب بیان کو تفسیر بالرائے پر قربان کر دیا ہے۔
سورة اعراف کی یہ آیت { قَالَ عَذَابِیْٓ اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَآئُ وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ } [227] مہمات قرآنی میں سے ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی جانب سے جو عذاب آتا ہے وہ خاص حالات کے ماتحت ہوتا ہے ورنہ عذاب خدائے تعالیٰ کی صفت نہیں ہے بلکہ ” رحمت “ اس کی ازلی و ابدی صفت ہے اس لیے اس کی صفت رحمت ہر شے کے لیے عام ہے اور کائنات میں ایک شے بھی ایسی نہیں ہے جو اس کی صفت رحمت سے خالی ہو بلکہ یوں کہئے جس کو تم عذاب کہہ رہے ہو تمھارے اعمال و کردار کی نسبت سے عذاب ہے ورنہ کارخانہ ہستی کے پورے نقشہ کے لحاظ سے اگر تم غور کرو گے تو اس کو بھی رحمت ہی پاؤ گے چنانچہ سورة انعام میں اسی لیے فرمایا : { کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ } [228] ” اللہ نے رحمت کو اپنی ذات پر مقرر کر لیا ہے۔ “ اور اسی رحمت عام کا مظہر اتم اور پر تو اکمل وہ ذات گرامی ہے جس کا ذکر مبارک سورة اعراف کی اس آیت میں اس طرح کیا جا رہا ہے کہ اس کی آمد سے قبل ہی کتب سابقہ میں اس کی آمد کی بشارت دے دی گئی تھی اور اس کی صفات اور اس کے اخلاق کا بھی تذکرہ کر دیا گیا تھا اور اسی لیے دوسری جگہ اس کو رحمۃ للعالمین کے لقب سے پکارا گیا۔
بہرحال جب یہ ستر سردار دوبارہ زندگی پا کر قوم کی جانب واپس ہوئے تو انھوں نے قوم سے تمام قصہ کہہ سنایا اور بتایا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے اور بلاشبہ وہ خدا کے فرستادہ ہیں۔ اب فطرت سلیم کا تقاضا تو یہ تھا کہ یہ سب خدائے تعالیٰ کا شکر بجا لاتے اور اس کے فضل و کرم کی فراوانی کے پیش نظر فرمان برداری اور عبودیت کے ساتھ اس کے سامنے سرتسلیم خم کردیتے مگر ہوا یہ کہ انھوں نے اپنی کج روی کو باقی رکھا اور اپنے نمائندوں کی تصدیق کے باوجود توراۃ کو قبول کرنے میں معاندانہ پس و پیش شروع کردی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ارشادات پر کان نہ دھرا۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ دیکھا تو بارگاہ الٰہی میں رجوع کرتے ہوئے قوم کی بے راہ روی کا گلہ کیا۔ درگاہ الٰہی سے حکم ہوا کہ ان نافرمانوں کے لیے میں تجھ کو ایک حجت (معجزہ) اور عطا کرتا ہوں اور وہ یہ جس پہاڑ (طور) پر تو مجھ سے ہم کلام ہوتا رہتا ہے اور جس پر تیری قوم کے منتخب سرداروں نے حق کا مشاہدہ کیا ہے اسی پہاڑ کو حکم دیتا ہوں کہ وہ اپنی جگہ سے حرکت کرے اور سائبان کی طرح بنی اسرائیل کے سروں پر چھا جائے اور زبان حال سے یہ اعلان کرے کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) خدا کا سچا پیغمبر ہے توراۃ بلاشبہ خدا کی سچی کتاب ہے اور اگر یہ دونوں حق و صداقت کا مظہر نہ ہوتے تو یہ عظیم الشان نشان تم نہ دیکھتے جس کا ظہور قدرت الٰہی کے سوا اور کسی طرح ناممکن ہے۔ چنانچہ جوں ہی خدائے تعالیٰ کا یہ تکوینی فیصلہ ہوا طور ان کے سروں پر مثل سائبان نظر آنے لگا ‘ اور زبان حال سے کہنے لگا کہ اے بنی اسرائیل اگر تم میں عقل و ہوش باقی ہے اور حق و باطل کی تمیز موجود ہے تو گوش حق نیوش سے سنو کہ میں خدا کا نشان بن کر تم کو یقین دلاتا ہوں اور شہادت دیتا ہوں کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) نے بارہا میری پیٹھ پر خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ہے اور تمھاری رشد و ہدایت کا قانون ( توراۃ ) بھی اس کو میری پیٹھ ہی پر عطا ہوا ہے اور اے سرمستان بادہ غفلت و سرکشی میری یہ ہیبت جو تمھارے لیے حیران کن بن رہی ہے اس امر کی شہادت ہے کہ جب انسان کے سینہ میں دل کی نرمی سختی سے بدل جاتی ہے تو پھر وہ پتھر کا ٹکڑا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت بن جاتا ہے اور رشد و ہدایت اس میں کسی جانب سے بھی سرایت نہیں کر پاتی ‘ دیکھو میں پتھر کے ٹکڑوں کا مجموعہ ” پہاڑ “ ہوں لیکن خدا کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کیے کس طرح عبودیت کا مظاہرہ کر رہا ہوں مگر تم ہو کہ انانیت اور خودی کے گھمنڈ میں کسی حالت میں بھی ” نہیں “ کو ” ہاں “ سے بدل دینے کے لیے تیار نہیں ‘ سچ ہے : { ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً } [229] ” پھر تمھارے دل سخت ہو گئے جیسے پتھر یا ان سے بھی سخت۔ “ بنی اسرائیل نے جب یہ ” نشان “ دیکھا تو اب اسے وقتی خوف و دہشت کا ثمرہ سمجھیے یا علیٰ رؤس الاشہاد خدا کے عظیم الشان ” نشان “ کے مشاہدہ کا نتیجہ یقین کیجئے کہ بنی اسرائیل کی جانب متوجہ ہوئے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے اس کے احکام کی تعمیل کا اقرار کیا تب خدائے تعالیٰ کا فرمان ذی شان ہوا کہ اے بنی اسرائیل ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی کے ساتھ لو اور جو احکام اس ( توراۃ ) میں درج ہیں ان کی تعمیل کرو تاکہ تم پرہیزگار اور متقی بن سکو۔ مگر افسوس کہ بنی اسرائیل کا یہ عہد و میثاق ہنگامی ثابت ہوا اور زیادہ عرصہ تک وہ اس پر کاربند نہ رہ سکے اور حسب عادت پھر خلاف ورزی شروع کردی قرآن عزیز نے ان واقعات کو نہایت مختصر مگر صاف اور واضح نظم الفاظ کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے : { وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَلَوْ لَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَتُہٗ لَکُنْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِیْنَ } [230] ” اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمھارے سر پر طور کو اونچا کیا (اور کہا) جو ہم نے تم کو دیا ہے اس کو قوت سے پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد کرو تاکہ تم پرہیزگار بنو پھر اس کے بعد تم نے (اس توراۃ سے) پیٹھ پھیرلی ‘ پس اگر تم پر خدا کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بلاشبہ تم نقصان اٹھانے والوں میں ہوجاتے۔ “ { وَ اِذْ نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَھُمْ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوْٓا اَنَّہٗ وَاقِعٌم بِھِمْ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ } [231] ” اور جب ہم نے ان کے (بنی اسرائیل کے) سروں پر پہاڑ بلند کر دیا گویا کہ وہ سائبان ہے اور انھوں نے یقین کر لیا کہ وہ ان پر گرنے والا ہے (تو ہم نے کہا) جو ہم نے تم کو دیا ہے اس کو قوت سے لو اور جو کچھ اس میں ہے اس کو یاد کرو تاکہ تم پرہیزگار بنو۔ “ ان آیات میں تصریح ہے کہ بنی اسرائیل نے جب توراۃ کو قبول کرنے میں پس و پیش کیا بلکہ انکار کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے سروں پر طور کو بلند کر دیا اور اس طرح آیت اللہ کا مظاہرہ کرکے ان کو قبول توراۃ پر آمادہ کیا پس کوئی وجہ نہیں ہے کہ آیات کے ظاہر کو تاویلات میں گھسیٹا جائے جیسا کہ بعض معاصر مفسرین نے کیا ہے۔ کسی پہاڑ کا جڑ سے اکھڑ کر فضا میں معلق ہوجانا نہ عقلاً محال ہے اور نہ قانون قدرت کے منافی ‘ البتہ انوکھا اور حیرت زا واقعہ ضرور ہے اور اس لیے آیت اللہ کہلانے کا مستحق مگر تاویل کرنے والے کہتے ہیں کہ ” رفع “ کے معنی صرف بلندی کے آتے ہیں نہ کہ سر پر بلند ہونے کے اور اسی طرح ” نتق “ کے معنی جس طرح ” جڑ سے اکھڑنے “ کے آتے ہیں اسی طرح زلزلہ میں آنے اور ” خوفناک حرکت کرنے “ کے بھی آتے ہیں لہٰذا سورة اعراف کی آیت کے معنی یہ ہوئے : ” اور جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے ان کے اوپر پہاڑ کو زلزلہ میں ڈالا تھا ‘ گویا ایک سائبان ہے (جو ہل رہا ہے) اور وہ (دہشت کی شدت میں) سمجھے تھے کہ بس ان کے سروں پر آگرا۔ “ [232] مگر ان حضرات نے اس حقیقت کو بالکل فراموش کر دیا کہ ” رفع “ اور ” نتق “ کے اگر متعدد معانی آتے ہیں تو عربیت کے قاعدہ سے اس مقام پر جو قرینہ پایا جاتا ہو اسی کے مطابق معنی متعین ہوں گے خصوصاً جبکہ قرآن عزیز کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیر کرتا ہے تو بے شبہ کسی لفظ کے متعدد معانی میں سے صرف وہی معنی مراد ہوں گے جو دوسری آیت کے ذریعہ متعین ہوتے ہیں۔ پس بقرہ کی آیت رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ میں ” رفع “ اور ” فوق “ کو جب اعراف کی آیت نَتَقْنَا الْجَبَلَ میں ” نتق “ کے ساتھ ملائیں گے تو قرآن عزیز کی ان آیات کا صاف اور سادہ مطلب یہی بنے گا کہ طور کو اس کی جگہ سے اکھاڑ کر بنی اسرائیل کے سروں پر اس طرح کر دیا گیا گویا ایک سائبان ہے جو عنقریب ان پر گرنے والا ہے۔ نیز ” فوق “ کا ” رفع “ کے ساتھ لانا بھی اس تفسیر کی صحت کے لیے موثق شہادت ہے جو جمہور نے بیان فرمائی ہے۔ اس کے برعکس معاصر مفسرین سے نقل کردہ معنی صاف بول رہے ہیں کہ وہ منطوق قرآنی کے خلاف کھینچ تان کر بنائے گئے ہیں۔ اس مقام پر یہ شبہ کیا جا سکتا ہے کہ ان ہر دو آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل پر ” توراۃ “ کے عمل کرانے میں جبر واکراہ سے کام لیا گیا ہے ‘ حالانکہ دین میں جبر واکراہ درست نہیں ہے مگر قرآن عزیز کے سیاق وسباق کو پیش نظر رکھ کر واقعہ کی صورت جس طرح ہم نے نقل کی ہے یہ اعتراض اس شکل میں پیدا ہی نہیں ہوتا۔ البتہ اگر جمہور مفسرین اور جدید مفسرین کی تفسیر سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے تو اس کا بہترین جواب مفتی عبدہ نے اپنی تفسیر میں دیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دراصل یہ جبر واکراہ کا معاملہ نہیں تھا بلکہ آیت اللہ کا یہ آخری مظاہرہ تھا ‘ جو ان کی رشد و ہدایت کی تقویت و تائید میں کیا گیا اور اس لیے یہ واقعہ عہد و میثاق کے بعد پیش آیا جیسا کہ سیاق کلام سے ظاہر ہے۔
یہاں یہ بات بھی فراموش نہ کرنا چاہیے کہ گذشتہ اوراق میں یہ بخوبی روشن ہو چکا ہے کہ صدیوں غلامی کی زندگی بسر کرنے اور پست خدمات میں مشغول رہنے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے ملکات فاضلہ کو گھن لگ گیا تھا اور مصریوں میں رہ کر مظاہر پرستی اور اصنام پرستی نے ان کے عقل و حواس کو اس درجہ معطل کر دیا تھا کہ وہ قدم قدم پر توحید الٰہی اور احکام الٰہی میں کسی ” کرشمہ “ کے منتظر رہتے ‘ اس کے بغیر ان کے دل میں یقین و اذعان کے لیے کوئی جگہ نہ بنتی تھی ‘ پس ان کی ہدایت و رشد کے لیے دو ہی صورتیں ہو سکتی تھیں ‘ ایک یہ کہ ان کو فقط افہام و تفہیم کے مختلف طریقوں ہی سے قبول حق پر آمادہ کیا جاتا اور انبیائے سابقین کی امتوں کی طرح صرف کسی خاص اور اہم موقع پر ” آیۃ اللّٰہ “ (معجزہ) کا مظاہرہ پیش آتا اور دوسری صورت یہ تھی کہ ان کی صدیوں کی تباہ شدہ اس حالت کی اصلاح کے لیے روحانی طاقت کا جلد جلد مظاہرہ کیا جائے اور حق و صداقت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ خدائے تعالیٰ کے تکوینی نشانات ” معجزات “ ان کی استعداد قبول و تسلیم کو بار بار تقویت پہنچائیں ‘ پس اس قوم کی پست ذہنیت اور تباہ حالی کے پیش نظر مصلحت خداوندی نے ان کی اصلاح و تربیت کے لیے یہی دوسری صورت اختیار فرمائی۔ { وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ} [233] ” اللہ تعالیٰ عالم و دانا حکمت والا ہے۔ “ بہرحال اس واقعہ کا ذکر توراۃ میں بھی موجود ہے اور اس میں طور کے متعلق وہی کہا گیا ہے جو ہمارے جدید مفسرین نے آیت کی تاویل کی صورت میں بیان کیا ہے : ” جب تیسرا دن آیا تو صبح ہوتے ہی بادل گرجنے اور بجلی چمکنے لگی اور پہاڑ پر کالی گھٹا چھا گئی اور قرنا کی آواز بہت بلند ہوئی اور سب لوگ ڈیروں میں کانپ گئے اور موسیٰ لوگوں کو خیمہ گاہ سے باہر لایا کہ خدا سے ملائے اور وہ پہاڑ سے نیچے آکھڑے ہوئے اور کوہ سینا اوپر سے نیچے تک دھوئیں سے بھر گیا کیونکہ خداوند شعلہ میں ہو کر اس پر اترا اور دھواں تنور کے دھوئیں کی طرح اوپر کو اٹھ رہا تھا اور وہ سارا پہاڑ زور سے ہل رہا تھا۔۔ چنانچہ موسیٰ نیچے اتر کر لوگوں کے پاس گیا اور یہ باتیں ان کو بتائیں۔ “ [234]
سینا کے جس میدان میں اس وقت بنی اسرائیل موجود تھے یہ سرزمین فلسطین سے قریب تھا ‘ اور ان کے باپ دادا حضرت ابراہیم ‘ اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) سے خدا کا وعدہ تھا کہ تمھاری اولاد کو پھر اس سرزمین کا مالک بنائیں گے اور وہ یہاں پھولے پھلے گی ‘ لہٰذا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی معرفت خدا کا حکم ہوا کہ اپنی قوم سے کہو کہ ارض مقدس میں داخل ہوں اور وہاں کے جابر و ظالم حکمرانوں کو نکال کر عدل و انصاف کی زندگی بسر کریں ‘ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ فتح تمھاری ہوگی اور تمھارے ظالم دشمن ناکام ہوں گے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے پہلے کہ بنی اسرائیل کو ارض مقدس میں داخل ہونے کے لیے آمادہ کریں بارہ آدمیوں کو تفتیش حال کے لیے بھیجا ‘ وہ فلسطین کے قریبی شہر اریحا میں داخل ہوئے اور تمام حالات کو بغور دیکھا ‘ جب واپس آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بتایا کہ وہ بہت جسیم اور تن و توش کے زبردست ہیں اور بہت قوی ہیکل ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا جس طرح تم نے مجھ سے ان کے متعلق کہا ہے قوم کے سامنے نہ کہنا اس لیے کہ عرصہ دراز کی غلامی نے ان کے حوصلے پست کردیے ہیں اور ان میں شجاعت ‘ خودداری اور علوہمت کی جگہ بزدلی ‘ ذلت اور پستیٔ ہمت نے لے لی ہے ‘ مگر آخر یہ بھی اسی قوم کے افراد تھے ‘ نہ مانے اور خاموشی کے ساتھ قوم کے سامنے دشمن کی طاقت کا خوب بڑھا چڑھا کر ذکر کیا۔ البتہ صرف دو شخص یوشع بن نون اور کالب بن یوفنا نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حکم کی پوری پوری تعمیل کی اور انھوں نے بنی اسرائیل سے ایسی کوئی بات نہ کہی جس سے ان کی ہمت شکست ہو۔ اب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تم اس بستی (اریحا) میں داخل ہو اور دشمن کا مقابلہ کر کے اس پر قابض ہو جاؤ خدا تمھارے ساتھ ہے : { وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰیکُمْ مَّا لَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَ یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ } [235] ” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” اے قوم تم پر جو خدا کا احسان رہا ہے اس کو یاد کرو کہ اس نے تم میں نبی اور پیغمبر بنائے اور تم کو بادشاہ اور حکمران بنایا اور وہ کچھ دیا جو جہانوں میں کسی کو نہیں دیا۔ اے قوم اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کر دیا ہے اور پشت پھیر کر نہ لوٹو (کہ نتیجہ یہ نکلے) کہ تم خسارہ اور نقصان اٹھانے والے بن کر لوٹو۔ “ بنی اسرائیل نے یہ سن کر جواب دیا کہ موسیٰ وہاں تو بڑے ظالم لوگ بستے ہیں ‘ ہم تو اس وقت تک اس بستی میں داخل نہ ہوں گے جب تک وہ وہاں سے نکل نہ جائیں۔ افسوس بدبختوں نے یہ نہ سوچا کہ جب تک ہمت و شجاعت کے ساتھ تم ان کو یہاں سے نہ نکالو گے تو یہ ظالم خود کیسے نکل جائیں گے۔ یوشع اور کالب نے جب یہ دیکھا تو قوم کو ہمت دلائی اور کہا : شہر کے پھاٹک سے گذر جانا کچھ مشکل نہیں ہے چلو اور ان کا مقابلہ کرو ہم کو پورا یقین ہے کہ تم ہی غالب رہو گے۔ { قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْھِمُ الْبَابَ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ وَ عَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } [236] ” ان ڈرنے والوں میں سے دو ایسے آدمیوں نے جن پر خدا نے اپنا فضل و انعام کیا یہ کہا ” تم ان جابروں پر دروازہ کی جانب سے داخل ہو جاؤ پس جس وقت تم داخل ہو جاؤ گے تم بلاشبہ غالب رہو گے اور (یہ بھی کہا) اللہ پر ہی بھروسا رکھو اگر تم ایمان والے ہو۔ “ لیکن بنی اسرائیل پر اس بات کا بھی مطلق اثر نہ ہوا اور وہ بدستور اپنے انکار پر قائم رہے اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے زیادہ زور دیا تو اپنے انکار پر اصرار کرتے ہوئے کہنے لگے : { قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَھَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ } [237] ” انھوں نے کہا کہ ” اے موسیٰ ہم کبھی اس شہر میں اس وقت تک داخل نہیں ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں ‘ پس تو اور تیرا رب دونوں جاؤ اور ان سے لڑو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں (یعنی تماشا دیکھیں گے) “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ ذلیل اور بے ہودہ جواب سنا تو بہت افسردہ خاطر ہوئے اور انتہائی رنج و ملال کے ساتھ درگاہ الٰہی میں عرض کیا بار الٰہا میں اپنے اور ہارون کے سوا کسی پر قابو نہیں رکھتا سو ہم دونوں حاضر ہیں ‘ اب تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان میں جدائی کر دے ‘ یہ تو سخت نااہل ہیں ‘ اللہ نے حضرت موسیٰ پر وحی نازل فرمائی : موسیٰ تم غمگین نہ ہو ان کی نافرمانی کا تم پر کوئی بار نہیں ‘ اب ہم نے ان کے لیے یہ سزا مقرر کردی ہے کہ یہ چالیس سال اسی میدان میں بھٹکتے پھریں گے اور ان کو ارض مقدس میں جانا نصیب نہ ہوگا ‘ ہم نے ان پر ارض مقدس کو حرام کر دیا ہے : { قَالَ رَبِّ اِنِّّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ } [238] ” (موسیٰ نے) کہا اے پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے ماسوا کسی کا مالک نہیں ہوں ‘ لہٰذا تو ہمارے اور اس نافرمان قوم کے درمیان میں تفریق کر دے (اللہ تعالیٰ نے) کہا بلاشبہ ان پر ارض مقدس کا داخلہ چالیس سال تک حرام کر دیا گیا ‘ اس مدت میں یہ اسی میدان میں بھٹکتے پھریں گے پس تو نافرمان قوم پر غم نہ کھا اور افسوس نہ کر۔ “ وادی سینا کو ” تیہ “ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن عزیز نے بنی اسرائیل کے لیے کہا ہے : یَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ [239] ” یہ اس زمین میں بھٹکتے پھریں گے “ جب کوئی شخص راہ سے بھٹک جائے تو عربی میں کہتے ہیں تَاہَ فُـلَانٌ۔ توراۃ میں اس واقعہ کی تفصیلات اگرچہ اس انداز میں مذکور نہیں ہیں تاہم ” گنتی باب 14“ میں بنی اسرائیل کے ارض مقدس میں داخلہ سے انکار اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ناراضی اور پھر چالیس سال تک ان پر ارض مقدس کے داخلہ کا حرام ہوجانا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس مدت کے اندر اندر بنی اسرائیل کے وہ تمام افراد مرجائیں گے جنھوں نے خدا کے حکم کے خلاف ارض مقدس کے داخلہ سے انکار کیا ہے اور ان کے بعد نئی نسل کو داخلہ کی اجازت ہوگی جو کالب اور یوشع کی سرکردگی میں دشمنوں کو پامال کر کے پاک زمین میں داخل ہوں گے نیز یہ کہ حضرت ہارون اور حضرت موسیٰ (علیہا السلام) کا بھی اس وقت انتقال ہو چکا ہو گا : ” پھر خداوند نے موسیٰ اور ہارون کو خطاب کر کے فرمایا : میں کب تک اس خبیث گروہ کے مقابل جو میری شکایت کرتا ہے صبر کروں ؟ بنی اسرائیل جو میرے برخلاف شکایتیں کرتے ہیں میں نے ان کی شکایتیں سنیں ‘ ان سے کہہ ‘ خداوند کہتا ہے ‘ مجھے اپنی حیات کی قسم جیسا تم نے مجھے سنا کے کہا ہے میں تم سے ویسا ہی کروں گا ‘ تمھاری لاشیں اور ان سب کی جو تم میں شمار کیے گئے ان کے کل جمع کے مطابق بیس برس والے سے لے کر اوپر والے تک جنھوں نے میری شکایتیں کیں اس بیابان میں گریں گی ‘ تم بے شک اس زمین تک نہ پہنچو گے جس کی بابت میں نے قسم کھائی ہے کہ تمھیں وہاں بساؤں گا ‘ سوا یوفنہ کے بیٹے کالب اور نون کے بیٹے یشوع اور تمھارے لڑکوں کو جن کے حق میں تم کہتے ہو کہ وہ لوٹ جائیں گے میں ان کو داخل کروں گا ‘ اس زمین کی قدر کو جسے تم نے ذلیل جانا وہ پہچانیں گے ‘ پر تم جو ہو تمھاری لاشیں اس بیابان ہی میں گریں گی اور تمھارے لڑکے اس دشت میں چالیس برس تک بھٹکتے پھریں گے اور تمھاری برگشتگی کے اٹھانے والے ہوں گے جب تک کہ تمھاری لاشیں اس دشت میں نیست و نابود نہ ہوں ‘ ان دنوں کے شمار کے مطابق جن میں تم اس زمین کی جاسوسی کرتے تھے ‘ جو چالیس دن ہیں دن پیچھے ایک سال ہوگا سو تم چالیس برس تک اپنے گناہ کو اٹھائے رہو گے ‘ تب تم میری عہد شکنی کو جان لو گے۔ “ [240] اس جگہ یہ شبہ پیدا نہ کرنا چاہیے کہ حضرت موسیٰ و ہارون (علیہا السلام) کو بھی اسی میدان میں رہنا پڑا اور وہ بھی ارض مقدس میں داخل نہ ہو سکے ‘ اس لیے کہ جب بنی اسرائیل کے اس پورے قافلہ پر ارض مقدس کو حرام کر دیا گیا تو اب ضروری تھا کہ ان کی رشد و ہدایت کے لیے خدا کا پیغمبر ان میں موجود رہے تاکہ کچھ یہ بوڑھے بھی راہ حق پر قائم رہیں اور نئی نسل میں وہ استعداد پیدا ہو جس کے ذریعہ وہ ارض مقدس میں داخل ہو کر خدا کے حکم کو پورا کریں۔
ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بنی اسرائیل میں ایک قتل ہو گیا مگر قاتل کا پتہ نہ لگا ‘ آخر شبہ نے تہمت کی شکل اختیار کرلی اور اختلاف باہمی کی خوفناک صورت پیدا ہو گئی ‘ حضرت موسیٰ کے سامنے جب یہ واقعہ پیش ہوا تو انھوں نے خدائے تعالیٰ کی جانب رجوع کیا اور عرض کیا کہ اس واقعہ نے قوم میں سخت اختلاف رونما کر دیا ہے ‘ تو خود علیم و حکیم ہے میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا کہ ان سے کہو کہ پہلے ایک گائے ذبح کریں اور اس کے بعد گائے کے ایک حصہ کو مقتول کے جسم سے مس کریں ‘ پس اگر وہ ایسا کریں گے تو ہم اس کو زندگی بخش دیں گے اور یہ معاملہ واضح ہوجائے گا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بنی اسرائیل سے جب ” ذبح بقرہ “ کے متعلق فرمایا تو انھوں نے اپنی کج بحثی اور حیلہ جوئی کی خصلت کے مطابق بحث شروع کردی۔ موسیٰ کیا تو ہم سے مذاق کرتا ہے یعنی مقتول کے واقعہ سے ذبح بقرہ کا کیا تعلق ؟ اچھا اگر واقعی یہ خدا کا حکم ہے تو وہ گائے کیسی ہو ؟ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ اس کی کچھ اور تفصیلی صفات معلوم ہونی چاہئیں ‘ کیونکہ ابھی تک اس کے تعین کے متعلق ہم مشتبہ حالت میں ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب وحی الٰہی کی معرفت سے ان کے تمام سوالات کے جوابات دے دیے اور حیلہ جوئی کرنے کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہا تب وہ تعمیل حکم پر آمادہ ہوئے اور وحی الٰہی کے مطابق معاملہ کو سر انجام کیا ‘ خدا کے حکم سے وہ مقتول زندہ ہو گیا اور اس نے تمام واقعہ من و عن بیان کر دیا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جب اس حیرت زا ” خدائی نشان “ نے حقیقت کو واشگاف کر دیا تو قاتل کو بھی اقرار کیے بغیر کوئی چارہ کار نہ رہا اور اس طرح نہ صرف قاتل ہی کا پتہ چل گیا بلکہ مختلف اسباط اور خاندانوں میں اختلاف پیدا ہو کر جو سخت خانہ جنگی اور خون ریزی کی صورت رونما ہو چلی تھی اس کا بھی خوش اسلوبی کے ساتھ خاتمہ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اس تاریخی واقعہ کو یاد دلا کر دو باتوں کی جانب توجہ دلائی ہے ‘ ایک منکرین معاد کو یہ بتایا ہے جس قوم کے اسلاف میں یہ واقعہ ہو گذرا ہے وہ آج تک اس تاریخی واقعہ کی شاہد ہیں ‘ لہٰذا جس طرح خدا نے اس وقت مردہ کو زندہ کر کے اپنی قدرت کا مظاہرہ کیا تھا تم سمجھ لو وہ قیامت کے دن بھی اسی طرح مردے کو زندگی عطا فرمائے گا : { کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی } [241] اور اسی طرح اللہ تعالیٰ مردہ کو زندہ کر دیا کرتا ہے۔ “ دوسرے بنی اسرائیل کو یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (یعنی تمھارے اسلاف کو) اتنی کثرت کے ساتھ اپنے نشان (معجزات) دکھائے ہیں کہ اگر دوسری قوم کے سامنے یہ مظاہرے کیے جاتے تو وہ ہمیشہ کے لیے خدائے تعالیٰ کی فرمان بردار بن جاتی اور اس کے دل میں ایک لمحہ کے لیے بھی نافرمانی کا خطرہ نہ گزرتا لیکن تم اور تمھارے اسلاف پر یا تو اثر ہی نہ ہوا اور اگر ہوا بھی تو ناپائیدار اور غیر موثر ثابت ہوا اور آج بھی اگر تم نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار اور ان کی مخالفت کر رہے ہو تو یہ تمھاری جبلت اور قدیم عصبیت و جہالت ہی کا اثر ہے۔ قرآن عزیز نے ہم کو اس واقعہ کے متعلق صرف اسی قدر بتایا ہے اور اس سے زیادہ کوئی تفصیل نہیں دی : { وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً قَالُوْٓا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا قَالَ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا فَارِضٌ وَّ لَا بِکْرٌ عَوَانٌم بَیْنَ ذٰلِکَ فَافْعَلُوْا مَا تُؤْمَرُوْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا لَوْنُھَا قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ صَفْرَآئُ فَاقِعٌ لَّوْنُھَا تَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا ھِیَ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَہَ عَلَیْنَا وَ اِنَّآ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ لَمُھْتَدُوْنَ قَالَ اِنَّہٗ یَقُوْلُ اِنَّھَا بَقَرَۃٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیْھَا قَالُوا الْئٰنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوْھَا وَمَا کَادُوْا یَفْعَلُوْنَ وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْتُمْ فِیْھَا وَ اللّٰہُ مُخْرِجٌ مَّا کُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَ یُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ } [242] اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا ” بلاشبہ تم کو خدا یہ حکم دیتا ہے کہ تم گائے ذبح کرو “ وہ کہنے لگے ” کیا تو ہمارے ساتھ مذاق کرتا ہے “ موسیٰ نے کہا ” میں اللہ سے پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ جاہلوں میں شمار ہوں “ (یعنی یہ مذاق نہیں ہے) انھوں نے کہا ” تو اپنے پروردگار سے یہ دریافت کر کہ اس کی حقیقت کیا ہے ؟ “ موسیٰ نے کہا : اللہ تعالیٰ کہتا ہے ” وہ ایسی گائے ہو کہ نہ تو بڑھیا ہو اور نہ بچھیا بلکہ درمیانی عمر کی جوان ہو ‘ پس اب جو تم سے کہا گیا ہے اس کی تعمیل کرو “ وہ کہنے لگے ” اپنے خدا سے پوچھ کہ اس کا رنگ کیسا ہو ؟ “ موسیٰ نے کہا اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ ” وہ گہرے زرد رنگ کی ہو کہ دیکھنے والوں کو خوش رنگ معلوم ہو “ کہنے لگے ” ہم پر (ابھی تک) گائے کی کیفیت مشتبہ ہے اگر خدا کو منظور ہے تو ہم کامیاب ہوجائیں گے۔ “ موسیٰ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ” وہ ایسی گائے ہو کہ نہ محنت ماری ہو کہ زمین میں ہل چلاتی ہو اور نہ کھیت کو سیراب کرتی ہو۔ وہ بے داغ ہو جس پر کسی قسم کا دھبہ نہ ہو “ کہنے لگے ” اب تو صحیح بات لایا “ پس انھوں نے اس کو حاصل کر کے ذبح کیا ‘ اور قریب تھا کہ نہ کرتے اور یہ جب ہوا کہ تم نے ایک جان کو قتل کر دیا پھر آپس میں اختلاف کرنے لگے اور اللہ ظاہر کرنے والا ہے اس بات کو جس کو تم چھپاتے ہو ‘ پس ہم نے کہا : ” اس مقتول کو گائے کے بعض حصے کے ساتھ مس کرو (مارو) اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کردیتا ہے ‘ اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو۔ “ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے فرماتے ہی ” ذبح بقرہ “ کی تعمیل کردیتے تو ان کے لیے گائے کے معاملہ میں کسی قسم کی مطلق قید و بند نہ ہوتی اور وہ کوئی سی گائے بھی ذبح کردیتے تو تعمیل پوری ہوجاتی۔ مگر انھوں نے بے ہودہ سوالات کر کے اپنے اوپر پابندیاں لگوائیں ‘ چنانچہ پیغمبر خدا کے ساتھ اس قسم کی بے ہودہ باتوں اور کج بحثیوں کی قرآن عزیز نے سخت مذمت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس کا آخر نتیجہ کفر اور ترک ایمان پر جا کر ختم ہوتا ہے ‘ لہٰذا امت مسلمہ کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی باتوں سے بچے۔ { اَمْ تُرِیْدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآئَ السَّبِیْلِ } [243] ” کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے پیغمبر سے اس قسم کے سوال کرو جس طرح پہلے زمانہ میں موسیٰ سے سوالات کیے گئے تھے اور جو شخص ایمان کے عوض کفر اختیار کرتا ہے وہ بلاشبہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔ “ اس موقع پر یہ سوال ضرور سامنے آجاتا ہے کہ آخر ” ذبح بقرہ “ اور مقتول کے زندہ کردینے کے درمیان میں کیا مناسبت ہے جو احیائے مقتول کے لیے یہ خاص صورت اختیار کی گئی ؟ سو خدا کی حکمتوں اور مصلحتوں تک پہنچنا تو انسانی قدرت سے باہر ہے ‘ تاہم عقل و شعور کی جو روشنی اس نے انسان کو بخشی ہے وہ اس طرف راہنمائی کرتی ہے کہ اگر بنی اسرائیل کی اس تاریخ پر نظر کی جائے جو گذشتہ صفحات میں سپرد قلم ہو چکی ہے تو یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ مصر کے بودوماند نے ان کے اندر بت پرستی خصوصاً گائے کی عظمت و تقدیس اور گوسالہ پرستی کا جذبہ بہت زیادہ پیدا کر دیا تھا جو جگہ جگہ ابھر آتا اور ان پر اثر انداز ہونے لگتا تھا ‘ چنانچہ گوسالہ پرستی کے واقعہ کے بعد جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے توراۃ کی تعمیل کے لیے فرمایا تو اس وقت بھی انھوں نے کافی حیلہ جوئی سے کام لیا تھا اور اگر ” رفع طور “ کا نشان ان پر ظاہر نہ ہوتا تو وہ حضرت موسیٰ کی تکذیب پر اتر آتے تو کچھ تعجب نہ تھا خدائے تعالیٰ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا ہے کہ اس تعنت اور حیلہ سازی کی خصلت کا باعث وہی گوسالہ پرستی ہے۔ ابھی تک ان کے دلوں سے بت پرستی اور گوسالہ کی تقدیس کا عقیدہ دور نہیں ہوا بلکہ ان کی حالت سے یہ انداز ہوتا ہے کہ یہ تقدیس ان کے دلوں میں رچ گئی ہے : { وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَکُمْ وَ رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ خُذُوْا مَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّ اسْمَعُوْا قَالُوْا سَمِعْنَا وَ عَصَیْنَا وَ اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْعِجْلَ بِکُفْرِھِمْ قُلْ بِئْسَمَا یَاْمُرُکُمْ بِہٖٓ اِیْمَانُکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ } [244] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا اور تمھارے سروں پر طور بلند کر دیا (اور کہا) جو ہم نے تم کو دیا ہے اس کو مضبوطی سے پکڑو اور اس پر کان دھرو۔ انھوں نے کہا : ہم نے سنا اور (عمل سے بتایا کہ ہم نے) نافرمانی کی اور اصل بات یہ ہے کہ ان کے دلوں میں کفر کی وجہ سے گوسالہ رچ گیا ہے۔ (اے مخاطب) کہہ دے اگر تم اپنے قول کے مطابق مومن ہو تو تمھارے ایمان نے یہ فیصلہ ہی برا کیا ہے۔ “ { وَ لَقَدْ جَآئَکُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ } [245] ” اور بے شبہ موسیٰ تمھارے پاس واضح دلائل لے کر آیا پھر تم نے اس کے بعد گوسالہ بنا لیا اور تم خود اپنے لیے ظالم ہو۔ “ پس اس موقع پر خدا کی مصلحت نے یہ فیصلہ کیا کہ بنی اسرائیل کی اس گمراہی کو کسی ایسے عمل سے دور کرے جس کا مشاہدہ خود ان کی آنکھیں کر رہی ہوں۔ لہٰذا ان کو مشاہدہ کرایا جس کی تقدیس تمھارے دل میں اس قدر پیوست ہو گئی ہے کہ بار بار نمایاں ہوتی ہے ‘ اس (گائے) کی حقیقت یہ ہے کہ تم نے خود اپنے ہاتھوں سے اس کو فنا کے گھاٹ اتار دیا اور وہ تمھارا بال بھی بیکانہ کرسکی اور کہیں یہ خیال نہ کر بیٹھنا کہ یہ گائے کی تقدیس ہی کا اثر تھا کہ اس کے پارہ گوشت کے مس کرنے سے مردہ زندہ ہو گیا اس لیے کہ اگر موت وحیات کا یہ معاملہ گائے کی تقدیس سے متعلق تھا ‘ تو جس پارہ گوشت نے مردہ کو زندہ کر دیا وہ خود زندگی حاصل کر کے کیوں دوبارہ جیتی جاگتی گائے نہ بن گیا ‘ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ گائے جس کو تم نے ذبح کیا تھا اسی طرح بے جان پڑی ہے اور اس کے پارہائے جسم تمھارے درمیان میں زینت دستر خوان ہو چکے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ موت وحیات کا یہ معاملہ صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور جس ” گوسالہ پرستی “ کی محبت تمھارے دلوں میں رچ گئی ہے وہ تم سے بھی ادنیٰ ایک جان دار ہے جو صرف تمھاری خدمت اور ضرورت کے لیے بنایا گیا ہے نہ کہ تمھارے لیے ” دیوتا “ اور ” دیوی “ خدائے تعالیٰ ہی کی ذات واحد ہے جس کو چاہے موت دے اور جس کو چاہے حیات بخشے ‘ چنانچہ تم نے ایک ہی واقعہ میں دونوں حقیقتوں کا مشاہدہ کر لیا کہ اس نے گائے کی زندگی کو فنا سے بدل دیا اور انسان کے مردہ جسم کو حیات تازہ بخش دی۔ فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ [246] قرآن عزیز نے غالباً اسی حکمت کے پیش نظر ” ذبح بقرہ “ کے واقعہ کو دو حصوں پر تقسیم کر دیا ہے ‘ پہلے حصہ میں بنی اسرائیل کی گوسالہ پرستی کے واقعہ کی تائید میں بقرہ کا یہ واقعہ بیان کیا گیا کہ جب ایک خاص مقصد کے لیے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کو کہا گیا تھا تو یہی گوسالہ پرستی کی محبت ان کے آڑے آئی تھی اور مصریوں کے عقیدہ تقدیس بقرہ (گائے کی تقدیس) کے اتباع میں انھوں نے بیسیوں حیلے بہانے تراشے اور یہ کوشش کی کہ کسی طرح ان کو گائے ذبح نہ کرنی پڑی ‘ لیکن جب سوالات کی پیچیدگی میں آ کر پھنس گئے تو مجبوراً تعمیل کرنی پڑی۔ قرآن نے جب اس واقعہ کو سنایا تو قدرتی طور پر سامعین کو شوق پیدا ہونا چاہیے تھا کہ وہ یہ معلوم کریں کہ ذبح بقرہ کا وہ واقعہ کیوں اور کس طرح پیش آیا جس کے بارے میں بنی اسرائیل اس قدر حیلے تراش رہے تھے تو دوسرے حصہ میں قرآن عزیز نے اس پیدا شدہ فطری سوال کا جواب اس طرح دیا کہ اس واقعہ کے نمایاں پہلو کو بیان کر دیا جس کا بنی اسرائیل کی اس ردوکد کے ساتھ حقیقی تعلق تھا ‘ اس لیے اس حصہ بیان کو دوبارہ لفظ ” اذ “ سے شروع کیا۔ قرآن عزیز کی ان آیات کی یہ وہ تفسیر ہے جو قرآن کے جملوں کے اندر محدود ہو کر کی گئی ہے اور جس میں ذبح بقرہ کے واقعہ سے متعلق آیات میں تقدیم و تاخیر کی بحثوں میں جانے کی مطلق ضرورت پیش نہیں آتی اور نہ واقعہ کو اچنبھا سمجھ کر باطل اور رکیک تاویلات کی پناہ لینے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ بلاشبہ یہ واقعہ خدائے تعالیٰ کے ان مسلسل نشانوں میں سے ایک ” نشان “ تھا جو یہود کی سخت اور تند جبلت اور متمردانہ خصلت کے مقابلہ میں تائید حق کے لیے حکمت الٰہی کے پیش نظر ظہور میں آیا اور جو نشان ہونے کے علاوہ اپنے اندر متعدد اہم مصالح رکھتا تھا اور اس حقیقت ثابتہ کے لیے خود قرآن عزیز کا سیاق وسباق تائید کرتا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کے متصل ہی ارشاد ہے { کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی } [247] ” اور اسی طرح اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دے گا “ اور اسی کے سیاق میں ارشاد فرمایا وَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ ” تاکہ دکھائے تم کو اپنی قدرت کے نشان “ گویا ” ذبح بقرہ “ کا واقعہ نقل کرنے سے قبل بنی اسرائیل کو بار بار خدائی نشان کے مشاہدہ کرانے کا ذکر اور پھر قصہ کے متصل ہی آخرت میں ” احیائے موتیٰ “ کا اس واقعہ سے استشہاد اور پھر اس واقعہ کو بھی ” آیات اللہ “ میں سے ایک آیت (نشان) بتانا اس امر کی واضح دلیل ہے کہ کسی تاویل اور دور از کار باتوں کی پناہ لیے بغیر ان آیات کی صاف اور سادہ تفسیر وہی ہے جو سطور بالا میں بیان کی گئی۔ لہٰذا ان آیات کی وہ تفاسیر جو جدید معاصرین نے بیان کی ہیں اور جن میں تمام آیات متعلقہ کو کبھی دو جدا واقعات کہہ کر اور کبھی ایک واقعہ تسلیم کر کے مختلف رکیک اور لچر تاویلات سے کام لیا گیا ہے ناقابل تسلیم ہیں اور قرآن عزیز کے منطوق کے خلاف۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ ذبح بقرہ کا یہ طریقہ دراصل خود بنی اسرائیل کی قدیم رسوم میں سے تھا جس کا ذکر اب تک توراۃ میں موجود ہے یعنی جب کسی جگہ ایسا مقتول پایا جاتا کہ اس کے قاتل کا پتہ نہ ملتا تو باہمی جنگ وجدال سے بچانے کے لیے یہ طریقہ مروج تھا کہ وہ ایک ایسی گائے کو حاصل کرتے جو نہ کاشت کے کام میں آئی ہو اور نہ سیرابی کی خدمت کرچکی ہو اور اس کو ایسی وادی میں لے جاتے جہاں کاشت کبھی نہ ہوئی ہو اور پانی کا نالہ بہہ رہا ہو ‘ اور جس پر قاتل ہونے کا شبہ ہوتا تو اس کے محلہ ‘ خاندان یا بستی کے لوگوں کو جمع کیا جاتا اور پھر کاہن آگے بڑھتا اور بہتے ہوئے پانی پر گائے کو کھڑا کر کے اس کی گردن مارتا اور جب اس کا خون پانی میں مل جاتا تو فوراً مشتبہ گروہ کے لوگ اٹھ کر اس خون آلود پانی سے ہاتھ دھوتے جاتے اور پکار پکار کر یہ کہتے جاتے کہ ” نہ ہمارے ہاتھوں نے اس کو قتل کیا ہے اور نہ ہمیں قاتل کا پتہ معلوم ہے “ تو پھر ان پر کوئی شبہ باقی نہ رہتا اور خانہ جنگی نہ ہونے پاتی ‘ اور اگر مشتبہ گروہ کا ایک سردار بھی ہاتھ دھونے اور اس رسم میں شریک ہونے سے انکار کردیتا تو پھر مقتول کا خون بہا اس خاندان یا محلہ پر ڈال دیا جاتا تھا جس کا وہ سردار ہے۔ [248] اس تفسیر میں قرآن عزیز کے سیاق و سباق کے لحاظ سے جو نقائص ہیں وہ معمولی فہم و عقل سے بھی معلوم ہو سکتے ہیں لیکن ان کے علاوہ سب سے زیادہ قابل اعتراض یہ امر ہے کہ اگر بنی اسرائیل میں یہ دستور قدیم سے رائج تھا تو جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی رسم کے مطابق خدائے تعالیٰ کا فیصلہ سنایا تو بنی اسرائیل نے اس کو اجنبی نگاہ سے کیوں دیکھا اور یہ کیوں کہا اَتَتَّخِذُنَا ھُزُوًا اے موسیٰ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے کہ گائے ذبح کرنے کو کہتا ہے اور اگر ازراہ تعنت ان کا سوال تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہی جواب دیتے کہ اس میں حیرت و تعجب کا کون سا موقع ہے جبکہ تم خود جانتے ہو کہ قضیہ کے فیصلہ کا یہ پرانا طریقہ ہے۔ اس سلسلہ میں گائے حاصل کرنے سے متعلق کتب تفاسیر میں عجیب و غریب قصے مذکور ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام قصص اسرائیلیات سے منقول ہیں یعنی یہ وہ قصے ہیں جو یہود کی نقل و روایت سے شہرت پا گئے اور تفسیروں میں بھی درج کر دیے گئے ہیں مگر محققین نے ان کو چھان کر تفسیر قرآن سے بالکل جدا کر دیا ہے چنانچہ حافظ عماد الدین ابن کثیر جیسے جلیل القدر مفسر نے ان قصص کے متعلق یہ فیصلہ دیا ہے : ” اور یہ سلسلہ بیانات جو عبیدہ ‘ ابو العالیہ اور سدی اور دوسروں سے مروی ہے ان سب کے آپس میں اختلاف ہے اور صاف بات یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی کتابوں سے ماخوذ ہیں اور اگرچہ ان کا نقل کرنا درجہ جواز میں آسکتا ہے مگر ہم نہ ان کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تکذیب اور اسی بنا پر ان روایات پر قطعاً کوئی اعتبار نہیں کیا جا سکتا مگر وہ روایات جو ہمارے نزدیک قرآن و حدیث کی روشنی میں حق ہوں۔ واللہ اعلم۔ “ اور خاص اس واقعہ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں : ” گائے کا وہ کون سا حصہ تھا جو مردہ جسم پر مس کیا گیا سو وہ کوئی بھی حصہ ہو واقعہ میں جس قدر مذکور ہے معجزہ ہونے کے لیے وہ بھی کافی ہے اور اگر اس حصہ کا تعین بھی ہمارے دینی یا دنیوی حالات کے اعتبار سے ضروری ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور واضح فرما دیتے مگر اس نے اس کو مبہم ہی رکھا ہے اگرچہ اصل حقیقت کے لحاظ سے وہ بہرحال متعین ہے اور نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بھی اس کے تعین کے متعلق کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے لہٰذا ہمارے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ ہم بھی اس کو اسی طرح مبہم رہنے دیں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس کو مبہم رکھا۔ “ [249] علاوہ ازیں مسلم کی حدیث میں صرف اسی قدر مذکور ہے کہ ” اگر بنی اسرائیل حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ردو کد نہ کرتے تو گائے کے معاملہ میں ان پر پابندیاں عائد نہ ہوتیں “ پس اگر اس معاملہ سے متعلق اور تفاصیل بھی ہوتیں تو نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کا بھی ذکر ضرور فرماتے۔ غرض یہ واقعہ حق تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ” عظیم نشان “ ہے ‘ البتہ قرآن عزیز نے جو تفصیل بیان کی ہے صرف اسی قدر قابل تسلیم ہے باقی سب قصص و حکایات ہیں اور لاطائل داستانیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سے متعلق ان مباحث کا خطاب ان ہی مفسرین کے ساتھ ہے جو اصولاً معجزات انبیا کے تو قائل ہیں ‘ مگر ان مقامات میں تاویل کی گنجائش سمجھ کر ایسی تاویلات کرتے ہیں جن کی بدولت یہ واقعات معجزہ کی حد سے باہر ہوجائیں باقی جو ملاحدہ اسلام کے مسلمہ عقیدہ معجزہ کے ہی قائل نہیں ہیں اور اس لیے قرآن عزیز کے ایسے تمام واقعات کو باطل تاویلات کی نذر کردینا ہی ضروری سمجھتے ہیں تو ان کے لیے سب سے پہلے نفس معجزہ کے امکان پر گفتگو ہونی چاہیے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ ان عظیم الشان ” آیات اللّٰہ “ کے مشاہدہ اور ان پر خدائے تعالیٰ کے بے غایت فضل و کرم کے باوجود ان بدبختوں پر کوئی اثر نہ ہوا اور یہ اسی طرح کج روی اور زیغ پر قائم رہے قبول حق کے لیے ان کے دل پتھر کی طرح سخت ہو گئے ‘ بلکہ پیہم تمردو سرکشی نے ان کی نیک استعداد کو فنا کر کے پتھر سے بھی زیادہ سخت بنادیا اس لیے کہ پتھر میں سختی ہوتے ہوئے بھی اس سے مخلوق خدا کو بہت سے فائدے ہیں مگر ان کی زندگی کا تو بجز خسارہ اور نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں رہا۔ { ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃً وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْھٰرُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ وَ اِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ } [250] ” اس (مشاہدہ) کے بعد ان کے دل سخت ہو گئے پس یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا (دل نہیں) پتھر ہیں یا (یوں سمجھو) کہ پتھر سے بھی زیادہ سخت (یہ بات واضح ہے) کہ بعض پتھروں سے پانی نکل کر نہریں بہتی ہیں اور بعض چٹخ کر پھٹتے ہیں تو ان سے سوت جاری ہوجاتے ہیں اور بعض خدا کے خوف سے (بھونچال وغیرہ حالتوں میں) نیچے لڑھک آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تمھارے کرتوتوں سے غافل نہیں ہے۔ “ مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے قلوب کی سختی اور قبول حق میں بے اثری کا یہ عالم ہے کہ اگر محاورہ اور بول چال کے مطابق یوں کہہ دیا جائے کہ ان کا دل پتھر کا ٹکڑا بن گیا ہے تب بھی ان کی شدت و صلابت کی صحیح تصویر سامنے نہیں آسکتی ‘ اس لیے کہ پتھر اگرچہ سخت ہے مگر ناکارہ نہیں ہے کیا تم نے پہاڑوں کا مشاہدہ نہیں کیا اور نہیں دیکھا کہ ان ہی سخت پتھروں سے ندیاں اور دریا بہہ رہے ہیں اور کہیں ان ہی سے شیریں اور خنک پانی کے سوت جاری ہیں اگر بھونچال آجائے یا خدا کی مشیت کا کوئی اور فیصلہ ہوجائے تو پہاڑوں کی یہی دیوپیکر چٹانیں روئی کے گالوں کی طرح ٹوٹ کر اور اڑ کر سرنگوں ہوجاتی اور خدائے تعالیٰ کے خوف و خشیت کا زبان حال سے اقرار کرتی ہیں مگر ان بنی اسرائیل پر نہ آیات اللہ کا اثر ہوتا ہے نہ پیغمبر کی شیریں اور دل نشیں پند و نصائح کا اور نہ نافرمانی کرتے وقت خدا کا خوف ان کے دلوں پر طاری ہوتا ہے۔
بنی اسرائیل میں ایک بہت بڑا متمول شخص تھا قرآن عزیز نے اس کا نام قارون بتایا ہے اس کے خزانے زر و جواہر سے پر تھے اور قوی ہیکل مزدوروں کی جماعت بمشکل اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھاسکتی تھی اس تمول اور سرمایہ داری نے اس کو بے حد مغرور بنادیا تھا اور وہ دولت کے نشہ میں اس قدر چور تھا کہ اپنے عزیزوں ‘ قرابت داروں اور قوم کے افراد کو حقیر اور ذلیل سمجھتا اور ان سے حقارت کے ساتھ پیش آتا تھا۔ مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا چچا زاد بھائی تھا اور اس کا نسب اس طرح نقل فرماتے ہیں : قارون بن یصہر بن قاہت 1 ؎ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نسب یہ ہے : موسیٰ بن عمران بن قاہت۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے بھی یہی منقول ہے۔ مورخین کہتے ہیں کہ قارون قیام مصر کے زمانہ میں فرعون کا درباری ملازم رہا تھا دولت کا یہ بے انتہا انبار اس نے وہیں جمع کیا تھا اور سامری منافق تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دین میں اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ [251] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی قوم نے ایک مرتبہ اس کو نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ نے تجھ کو بے شمار دولت و ثروت بخشی ہے اور عزت و حشمت عطا فرمائی ہے لہٰذا اس کا شکر ادا کر اور مالی حقوق ” زکوۃ و صدقات “ دے کر غرباء فقراء اور مساکین کی مدد کر ‘ خدا کو بھول جانا اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کرنا اخلاق و شرافت دونوں لحاظ سے سخت ناشکری اور سرکشی ہے اس کی دی ہوئی عزت کا صلہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ تو کمزوروں اور ضعیفوں کو حقیر و ذلیل سمجھنے لگے اور نخوت و پندار میں غریبوں اور عزیزوں کے ساتھ نفرت سے پیش آئے۔ قارون کے جذبہ انانیت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ نصیحت پسند نہ آئی اور اس نے مغرورانہ انداز میں کہا : موسیٰ میری دولت و ثروت تیرے خدا کی عطا کردہ نہیں ہے ‘ یہ تو میرے عقلی تجربوں اور علمی کاوشوں کا نتیجہ ہے : { اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ } [252] میں تیری نصیحت مان کر اپنی دولت کو اس طرح برباد نہیں کرسکتا۔ مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) برابر اپنے فرض تبلیغ کو انجام دیتے اور قارون کو راہ ہدایت دکھاتے رہے ‘ قارون نے جب یہ دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) کسی طرح پیچھا نہیں چھوڑتے تو ان کو زچ کرنے اور اپنی دولت و ثروت کے مظاہرہ سے مرعوب کرنے کے لیے ایک دن بڑے کروفر کے ساتھ نکلا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے مجمع میں پیغام الٰہی سنا رہے تھے کہ قارون ایک بڑی جماعت اور خاص شان و شوکت اور خزانوں کی نمائش کے ساتھ سامنے سے گذرا ‘ اشارہ یہ تھا کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ کا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو میں بھی ایک کثیر جتھہ رکھتا ہوں اور زر و جواہر کا بھی مالک ہوں لہٰذا ان دونوں ہتھیاروں کے ذریعہ موسیٰ (علیہ السلام) کو شکست دے کر رہوں گا۔ بنی اسرائیل نے جب قارون کی اس دنیوی ثروت و عظمت کو دیکھا تو ان میں سے کچھ آدمیوں کے دلوں میں انسانی کمزوری نے یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ بے چین ہو کر یہ دعا کرنے لگے : ” اے کاش یہ دولت و ثروت اور عظمت و شوکت ہم کو بھی نصیب ہوتی “ مگر بنی اسرائیل کے ارباب بصیرت نے فورا مداخلت کی اور ان سے کہنے لگے خبردار اس دنیوی زیب وزینت پر نہ جانا اور اس کے لالچ میں گرفتار نہ ہو بیٹھنا تم عنقریب دیکھو گے کہ اس دولت و ثروت کا انجام بد کیا ہونے والا ہے ؟ “ آخر کار جب قارون نے کبر و نخوت کے خوب خوب مظاہرے کر لیے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے مسلمانوں کی تحقیر و تذلیل میں کافی سے زیادہ زور صرف کر لیا تو اب غیرت حق حرکت میں آئی اور پاداش عمل کے فطری قانون نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور قارون اور اس کی دولت پر خدا کا یہ اٹل فیصلہ ناطق کر دیا : فَخَسَفْنَا بِہٖ وَ بِدَارِہٖ الْاَرْضَ [253] ” ہم نے قارون اور اس کے سرمایہ کدہ کو زمین کے اندر دھنسا دیا “ اور بنی اسرائیل کی آنکھوں دیکھتے نہ غرور باقی رہا اور نہ سامان غرور ‘ سب کو زمین نے نگل کر عبرت کا سامان مہیا کر دیا ‘ قرآن عزیز نے متعدد مقامات پر اس واقعہ کو مفصل اور مجمل بیان کیا ہے : { وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰی بِاٰیٰتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِیْنٍ اِلٰی فِرْعَوْنَ وَہَامَانَ وَقَارُوْنَ فَقَالُوْا سَاحِرٌ کَذَّابٌ } [254] ” اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں اور ظاہر و زبردست حجت (توراۃ) دے کر فرعون ‘ ہامان اور قارون کے پاس بھیجا تھا پس ان سب نے یہ کہا کہ یہ تو جادو گر ہے بڑا جھوٹا۔ “ { وَ لَقَدْ جَآئَھُمْ مُّوْسٰی بِالْبَیِّنٰتِ فَاسْتَکْبَرُوْا فِی الْاَرْضِ وَ مَا کَانُوْا سٰبِقِیْنَ فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖم فَمِنْھُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَ لٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ } [255] ” اور بے شبہ ان کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیاں لے کر آیا ‘ پھر انھوں نے زمین میں کبر و غرور اختیار کیا اور وہ ہم سے جیت جانے والے نہیں تھے پھر سب کو پکڑا ہم نے اپنے اپنے گناہ پر پھر کسی پر ہم نے ہوا سے پتھراؤ کیا ‘ اور کسی کو چیخ نے آدبایا اور کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو ہم نے غرق کر دیا اور اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا مگر وہ خود آپ اپنے اوپر ظلم کرنے والے تھے۔ “ قارون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے واقعہ سے متعلق صحیح حالات صرف اسی قدر ہیں باقی روایات ” اسرائیلیات “ سے ماخوذ ہیں اس لیے ناقابل اعتماد ہیں ‘ اسی لیے حافظ ابن کثیر نے یہ ارشاد فرمایا ہے : ( (وقد ذکر ھٰھنا اسرائیلیات اضربنا عنھا صفحا)) [256] ” اور اس مقام پر بہت سی اسرائیلیات بیان کی گئی ہیں ہم نے ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔ “ بعض مفسرین کہتے ہیں کہ { اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ } [257] میں علم سے مراد ” علم کیمیا “ ہے اور وہ قارون کی دولت کو اس کی کیمیادانی کا رہین منت بتاتے ہیں ‘ محققین نے اس کی تردید فرمائی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ اس کا مقصد ” علم “ سے اپنی عقل و دانش کے ذریعہ حصول مال ہے اور کیمیا کی باتیں سب دور از کار ہیں۔ علمائے تفسیر اس میں متردد ہیں کہ قارون کا واقعہ کب پیش آیا مصر میں قبل غرق فرعون ‘ یا تیہ میں بعد غرق فرعون ‘ حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ اگر قبل غرق کا ہے تو آیت میں ” دار “ اپنے حقیقی معنی میں ہے اور اگر میدان تیہ کا واقعہ ہے تو ” دار “ سے خیمہ و خرگاہ مراد ہے۔ ہمارے نزدیک یہ واقعہ میدان تیہ کا ہے اس لیے کہ قرآن عزیز نے اس کو غرق فرعون سے متعلق واقعات کے بعد بیان کیا ہے : { اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْھِمْ وَ اٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِمَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ وَ ابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّ اَکْثَرُ جَمْعًا وَ لَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ الْمُجْرِمُوْنَ فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖ قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَ لَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ فَخَسَفْنَا بِہٖ وَ بِدَارِہِ الْاَرْضَ فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ وَ اَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَکَانَہٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْکَاَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ یَقْدِرُ لَوْ لَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا وَیْکَاَنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ تِلْکَ الدَّارُ الْاٰخِرَۃُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ } [258] ” بے شک قارون ‘ موسیٰ کی قوم ہی میں سے تھا ‘ پس اس نے ان پر سرکشی کی اور ہم نے اس کو اس قدر خزانے دیے تھے کہ اس کی کنجیوں کے بوجھ سے طاقتور آدمی تھک جاتے تھے جب اس کی قوم نے کہا تو شیخی نہ مار ‘ اللہ شیخی کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے ‘ اور جو کچھ تجھ کو خدا نے دیا ہے اس میں آخرت کو تلاش کر ‘ اس کو نہ بھول کہ دنیا میں اس نے تجھ کو کیا کچھ دے رکھا ہے اور جس طرح خدا نے تیرے ساتھ بھلائی کی ہے تو بھی اسی طرح بھلائی کر ‘ اور فساد کے درپے نہ ہو ‘ بلاشبہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ قارون کہنے لگا یہ مال تو مجھ کو میرے ایک ہنر سے ملا ہے جو مجھ کو آتا ہے۔ کیا وہ اس سے بیخبر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے اس سے کہیں زیادہ مال دار اور طاقتور قوموں کو ہلاک کر دیا اور نہ سوال کیا جائے مجرموں سے ان کے گناہوں کے بارے میں (یعنی ان کی عقلیں ماری گئی ہیں تب ہی تو گناہ میں مبتلا ہیں پھر سوال سے کیا فائدہ) پھر نکلا ایک دن قوم کے سامنے بن سنور کر خدم و حشم کے ساتھ تو جو لوگ دنیا کے طالب تھے انھوں نے اس کو دیکھ کر کہا اے کاش ہمیں بھی یہ سب کچھ ملا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے بلاشبہ یہ بڑے نصیب والا ہے اور جن لوگوں کو اللہ نے بصیرت و علم عطا کیا تھا انھوں نے کہا تمھیں ہلاکی ہو جو اللہ پر ایمان لایا اور نیک عمل کیے اس کے لیے اللہ کا ثواب اس دولت سے بہتر ہے اور اس کو نہیں پاتے مگر صبر کرنے والے پھر ہم نے قارون اور اس کے محل کو زمین میں دھنسا دیا پس اس کے لیے کوئی جماعت مددگار ثابت نہیں ہوئی جو خدا کے عذاب سے اس کو بچائے اور وہ بے یارومددگار ہی رہ گیا اور جنھوں نے کل اس کی شان و شوکت دیکھ کر اس جیسا ہوجانے کی تمنا کی تھی وہ یہ دیکھ کر آج یہ کہنے لگے ارے خرابی یہ تو اللہ تعالیٰ کھول دیتا ہے روزی جس کی چاہے اپنے بندوں میں اور تنگ کردیتا ہے اگر احسان نہ کرتا اللہ ہم پر تو ہم کو بھی دھنسا دیتا ارے خرابی یہ منکر تو چھٹکارا نہیں پاتے ‘ یہ آخرت کا گھر ہم نے ان لوگوں کے لیے بنایا ہے جو (خدا کی) زمین میں شیخی نہیں مارتے اور نہ فساد کے خواہش مند ہوتے ہیں اور انجام کی بھلائی متقیوں کے لیے ہے۔ “ توراۃ نے بھی اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے 1 ؎ مگر اس کے بیان اور قرآن عزیز کی تصریحات کو پڑھنے کے بعد ایک انصاف پسند انسان کو یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرآن عزیز جب کسی تاریخی واقعہ کو نقل کرتا ہے تو اس کے صرف ان ہی اجزاء کو بیان کرتا ہے جو غرض اور مقصد نصیحت و عبرت کے لیے ضروری ہوں اور زائد از حاجت تفصیلات کو نظر انداز کرتا جاتا ہے لیکن توراۃ میں اکثر بے ضرورت تفاصیل بیان ہوتی ہیں اور بعض جگہ تو بے محل طوالت بلکہ تضاد بیان تک پایا جاتا ہے جن کو ہم حسب موقع بیان کرتے جاتے ہیں چنانچہ اس مقام پر بھی بعض غیر ضروری حصوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
گذشتہ واقعات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قول اور عمل دونوں طریقوں سے سخت اذیتیں پہنچائیں حتیٰ کہ بہتان طرازی اور تہمت تراشی سے بھی باز نہیں رہے۔ بت پرستی کی فرمائش ‘ گوسالہ پرستی میں انہماک ‘ قبول توراۃ سے انکار ‘ ارض مقدس میں داخلہ سے انکار ‘ من وسلویٰ پر ناسپاسی ‘ غرض ہر ادائے فرض میں ضد اور ہٹ دھرمی اور ہر ایک معاملہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ جاہلانہ ردوکد کا ایک طویل سلسلہ ہے جو ان کی زندگی کا جز نظر آتا ہے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ضبط و صبر کے ساتھ ایک اولوالعزم رسول کی طرح ان کو برداشت کرتے اور رشد و ہدایت کے پیغام میں منہمک نظر آتے ہیں۔ قرآن عزیز کی تصریحات کے علاوہ تاریخی حیثیت سے اگر بنی اسرائیل کی ان خصوصیات کا مطالعہ مقصود ہو تو توراۃ کے حسب ذیل ابواب قابل مراجعت ہیں : خروج باب 14 آیات 11‘ 12۔ باب 16 آیات 2‘ 3۔ باب 17‘ آیات 3‘ 4۔ گنتی ‘ باب 11‘ آیات 4 تا 6۔ باب 14 آیات 1 تا 3۔ باب 16 آیات 13‘ 14۔ باب 16 آیات 41۔ باب 2٠‘ آیات 1 تا 5۔ باب 21‘ آیت 5۔ استثناء باب 9 آیات 23‘ 24۔ لیکن قرآن عزیز نے ان واقعات کے علاوہ جن کا ذکر صفحات گذشتہ میں تفصیل سے آچکا ہے سورة احزاب اور سورة صف میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ بنی اسرائیل کی ایذاء رسانی پر مذمت کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے : { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْھًا } [259] ” اے ایمان والو تم ان بنی اسرائیل کی طرح نہ بنو جنھوں نے موسیٰ کو ایذا پہنچائی ‘ پھر اللہ نے اس کو اس بات سے بری کر دیا جو وہ اس کے متعلق کہتے تھے اور موسیٰ اللہ کے نزدیک صاحب وجاہت ہے۔ “ { وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُوْنَنِیْ وَقَدْ تَّعْلَمُوْنَ اَنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ } [260] ” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے قوم تو کس لیے مجھ کو ایذا پہنچاتی ہے جب کہ تجھ کو یہ معلوم ہے کہ میں تمھاری جانب خدا کا بھیجا ہوا رسول ہوں پھر جب وہ کجی پر اڑ بیٹھے تو اللہ نے بھی ان کے دلوں پر کجی کو مسلط کر دیا ‘ اور اللہ نافرمان قوم کو راہ یاب نہیں کیا کرتا۔ “ اس لیے علمائے تفسیر نے ان ہر دو مقام پر بحث کی ہے کہ یہاں جس ایذاء کا تذکرہ کیا گیا ہے کیا اس سے وہی حالات مراد ہیں جو بنی اسرائیل کی سرکشی اور تعنت کے سلسلہ میں بیان ہو چکے ہیں اور جن کا پورا سلسلہ یقیناً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اذیت کا باعث تھا ‘ یا ان کے علاوہ کسی اور خاص واقعہ کی جانب اشارہ ہے چنانچہ بعض مفسرین نے تو یہ فرمایا کہ اس سے وہی ایذاء مراد ہے جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بنی اسرائیل کے تعنت اور ضد کی وجہ سے پہنچتی رہی تھی اور بعض مفسرین نے ان ہر دو آیات کا مصداق گذشتہ واقعات سے جدا واقعہ کو بتایا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ بعض صحیح احادیث میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کے درمیان میں ایسے واقعات کا تذکرہ پایا جاتا ہے جن کا تفصیلی ذکر قرآن عزیز میں موجود نہیں ہے لہٰذا ان واقعات میں سے کوئی ایک مخصوص واقعہ یا وہ سب واقعات ان آیات کے مصداق ہیں اور وہی ان کے لیے شان نزول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان واقعات میں سے ایک واقعہ بخاری اور مسلم میں مذکور ہے اور وہ یہ کہ حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر شرم و حیا کا بہت غلبہ تھا حتیٰ کہ وہ اپنے برہنہ بدن کے کسی حصہ پر بھی نگاہ نہیں پڑنے دیتے تھے ‘ اس کے برعکس بنی اسرائیل مجمع عام میں برہنہ ہو کر غسل کرنے کے عادی تھے ‘ اس لیے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تنگ کرتے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے کبھی کہتے کہ ان کے حصہ جسم پر برص کے داغ ہیں ‘ کبھی کہتے کہ ان کو ادرۃ (فوطوں کا متورم ہو کر بڑھ جانا) کا مرض ہے ‘ یا کوئی اور اسی قسم کا خراب مرض ہے تب ہی تو چھپ کر علاحدہ نہاتے ہیں ‘ حضرت موسیٰ سنتے اور خاموش رہتے آخر اللہ تعالیٰ کی یہ مرضی ہوئی کہ ان کو اس تہمت سے پاک اور بری کرے چنانچہ ایک روز وہ علاحدہ آڑ میں نہانے کی تیاری کر رہے تھے کپڑے اتار کر پتھر پر رکھ دیے پتھر خدا کے حکم سے اپنی جگہ سے سرکا اور جہاں مجمع میں بنی اسرائیل برہنہ نہا رہے تھے وہاں چل کر پہنچ گیا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) گھبراہٹ اور غصہ میں اس کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑے ” ثوبی یا حجر ‘ ثوبی یا حجر “ (اے پتھر میرے کپڑے ‘ اے پتھر میرے کپڑے) پتھر جب مجمع کے سامنے ٹھہر گیا تو سب نے دیکھ لیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) بیان کردہ ہر قسم کے عیب سے پاک و صاف ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اس اچانک واقعہ کا ایسا اثر پڑا کہ غصہ میں جھنجھلا کر پتھر پر لاٹھی کے چند وار کر دیے جس سے اس پر نشان پڑ گئے۔ [261] بخاری اور مسلم نے اس کو متعدد طریقوں سے روایت کیا ہے ‘ ان میں سے ایک طریقہ میں اس واقعہ کو سورة احزاب کی اس آیت کا شان نزول قرار دیا ہے جس میں بنی اسرائیل کی ایذاء اور خدائے تعالیٰ کی جانب سے موسیٰ (علیہ السلام) کی برأت کا ذکر ہے۔ اور اسی آیت کے شان نزول میں ابن ابی حاتم نے حضرت علی ؓ سے دوسری روایت نقل کی ہے حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہا السلام) پہاڑ (ہور) پر گئے مگر حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وہیں انتقال ہو گیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) تنہا واپس ہوئے بنی اسرائیل نے دیکھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر تہمت رکھی کہ اس نے ہارون ((علیہ السلام)) کو قتل کر دیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس تہمت سے بہت دکھ پہنچا تب اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ ہارون (علیہ السلام) کی نعش کو بنی اسرائیل کے سامنے پیش کریں ‘ فرشتوں نے فضا میں حضرت ہارون (علیہ السلام) کی نعش بنی اسرائیل کے مجمع میں پیش کی اور انھوں نے یہ دیکھ کر اطمینان حاصل کیا کہ واقعی ہارون (علیہ السلام) پر قتل کا کوئی نشان نہیں ہے۔ تیسری روایت حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور سدی سے کتب تفاسیر میں منقول ہے کہ جب قارون کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نصیحت بہت ناگوار گزرنے لگی تو ایک دن اس نے ایک پیشہ ور عورت کو کچھ روپے دے کر اس پر آمادہ کر لیا جس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پند و نصیحت میں مصروف ہوں اس وقت تو ان پر الزام لگانا کہ یہ شخص مجھ سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ دوسرے دن جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) وعظ فرما رہے تھے تو اس عورت نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر الزام لگایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یہ سن کر سجدہ میں گرپڑے اور پھر سر اٹھا کر عورت کی جانب مخاطب ہوئے کہ تو نے جو کچھ ابھی کہا تھا کیا خدا کی قسم کھا کر کہہ سکتی ہے کہ یہ سچ ہے ؟ یہ سن کر عورت پر رعشہ طاری ہو گیا اور اس نے کہا بخدا سچ بات یہ ہے کہ قارون نے مجھ کو روپیہ دے کر اس الزام پر آمادہ کیا تھا ورنہ تو آپ اس سے بری اور پاک ہیں تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قارون کے لیے بددعا کی اور وہ خدا کے حکم سے مع سازو سامان زمین میں دھنسا دیا گیا۔
اس بحث میں صحیح مسلک یہ ہے کہ جب قرآن عزیز نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے متعلق ایذاء کے واقعہ کو مجمل بیان کیا ہے اور اس کی کوئی تعیین نہیں کی تو ہمارے لیے بھی یہی مناسب ہے کہ اس کی تفصیل اور تعیین کیے بغیر نفس واقعہ پر ایمان لائیں اور کسی خاص واقعہ سے متعلق نہ کریں اور جس حکمت و مصلحت کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اس کو مجمل رکھنا مناسب سمجھا ہم بھی اسی پر اکتفا کریں اور اگر تفصیل اور تعیین کی جانب توجہ دینا ضروری ہے تو پھر یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان ہر دو آیات کا مصداق وہ تمام واقعات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ایذاء رسانی سے متعلق قرآن عزیز اور صحیح احادیث میں منقول ہیں اور اس امرکا لحاظ کرتے ہوئے کہ زیر بحث ایذاء کا معاملہ اس نوعیت کا ہے جس سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وجاہت پر اثر پڑتا تھا ‘ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جانب سے اس کا دفاع کر کے ان کے قولی ہفوات سے ان کو بری اور پاک ثابت کر دیا ‘ تو ان ہر دو آیات کے مصداق کی تعیین میں وہ تینوں روایات قابل ترجیح ہیں جو کتب احادیث سے نقل کی جا چکی ہیں اور وہ سب ان آیات کا مصداق ہیں ‘ رہا یہ امر کہ شان نزول کے لیے کسی ایک واقعہ کا مخصوص ہونا ضروری ہے تو بقول حضرت شاہ ولی اللہ یہ درست نہیں ہے بلکہ شان نزول کی اصل حقیقت یہ ہے کہ زمانہ نبوت میں پیش آنے والے وہ تمام واقعات جو کسی آیت کا مصداق بن سکتے ہوں اس آیت کے لیے یکساں طور پر شان نزول کہے جا سکتے ہیں۔ اس مقام کی تفسیر میں نجار نے قصص الانبیاء میں ایک طویل بحث کی ہے اور ان کے درمیان میں اور مصر کی مجلس علما کے درمیان میں جو بحث و تمحیص ہوئی ہے اس کو بھی نقل کیا ہے مگر ہم چونکہ دونوں کے خیالات کے پوری طرح ہم نوا نہیں ہیں اور مفسرین قدیم میں ابن کثیر اور ابو حیان کے رجحانات کے موید ہیں اس لیے اس بحث کو نظر انداز کرتے ہیں۔
گذشتہ واقعات میں یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ جب بنی اسرائیل نے ارض مقدس میں داخل ہونے سے انکار کر دیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ ان کو یہ اطلاع کردی تھی کہ چالیس سال تک اب تم کو اسی سرزمین میں بھٹکنا پڑے گا اور سرزمین مقدس میں ان افراد میں سے کوئی بھی داخل نہ ہو سکے گا جنھوں نے داخل ہونے سے اس وقت انکار کر دیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کو یہ بھی بتایا کہ موسیٰ اور ہارون (علیہا السلام) بھی تمھارے پاس ہی رہیں گے کیونکہ ان کی اور آنے والی نسل کی رشد و ہدایت کے لیے ان دونوں کا یہاں موجود رہنا ضروری ہے چنانچہ جب بنی اسرائیل ” تیہ “ کے میدان میں گھومتے اور پھرتے پھراتے پہاڑ کی اس چوٹی کے قریب پہنچے جو ” ہور “ کے نام سے مشہور تھی تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو پیغام اجل آپہنچا ‘ وہ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خدا کے حکم سے ” ہور “ پر چڑھ گئے اور وہیں کچھ روز عبادت الٰہی میں مصروف رہے اور جب حضرت ہارون (علیہ السلام) کا وہاں انتقال ہو گیا تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کی تجہیز و تکفین کے بعد نیچے اترے اور بنی اسرائیل کو ہارون (علیہ السلام) کی وفات سے مطلع کیا۔ توراۃ میں اس واقعہ کو اس طرح ادا کیا ہے : ” اور بنی اسرائیل کی ساری جماعت قادس سے روانہ ہو کر کوہ ہور پہنچی اور خداوند نے کوہ ہور پر جو ادوم کی سرحد سے ملا ہوا تھا ‘ موسیٰ اور ہارون سے کہا ‘ ہارون اپنے لوگوں میں جا ملے گا کیونکہ وہ اس ملک میں جو میں نے بنی اسرائیل کو دیا ہے جانے نہیں پائے گا اس لیے کہ مریبہ کے چشمے پر تم نے میرے کلام کے خلاف عمل کیا ‘ لہٰذا تو ہارون اور اس کے بیٹے الیعزر کو اپنے ساتھ لے کر کوہ ہور کے اوپر آ جا اور ہارون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزر کو پہنا دینا ‘ کیونکہ ہارون وہیں وفات پاکر اپنے لوگوں میں جا ملے گا اور موسیٰ نے خداوند کے حکم کے مطابق عمل کیا اور ساری جماعت کی آنکھوں کے سامنے کوہ ہور پر چڑھ گئے اور موسیٰ نے ہارون کے لباس کو اتار کر اس کے بیٹے الیعزر کو پہنا دیا اور ہارون نے وہیں پہاڑ کی چوٹی پر رحلت کی تب موسیٰ اور الیعزر پہاڑ سے اتر آئے جب جماعت نے دیکھا کہ ہارون نے وفات پائی تو اسرائیل کے سارے گھرانے کے لوگ ہارون پر تیس دن تک ماتم کرتے رہے۔ “ [262]
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کا واقعہ اس طرح مذکور ہے : حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کا وقت قریب آیا تو موت کا فرشتہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ” اَجِبْ رَبَّکَ “ ” اپنے پروردگار کی جانب سے پیغام اجل کو قبول فرمائیے “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے طمانچہ رسید کر دیا جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی ‘ تب اس نے دربارہ الٰہی میں جا کر شکایت کی کہ تیرا بندہ موت نہیں چاہتا اور یہ کہ اس نے میرے طمانچہ رسید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اس کی آنکھ پھر درست ہو گئی اور اس کو حکم ملا کہ موسیٰ ((علیہ السلام)) کے پاس دوبارہ جاؤ اور کہو کہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ کسی بیل کی کمر پر تم اپنا ہاتھ رکھ دو جس قدر بال تمھاری مٹھی میں آجائیں گے ہم ہر ایک بال کے عوض تمھاری عمر میں ایک سال کا اضافہ کر دیں گے فرشتہ نے دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو خدائے تعالیٰ کا پیغام سنایا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ بار الہا اس کے بعد کیا انجام ہوگا ؟ حضرت حق سے جواب ملا کہ آخر کار پھر ” موت “ ہے تب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا کہ اگر طویل سے طویل زندگی کا نتیجہ موت ہی ہے تو پھر وہ شے آج ہی کیوں نہ آجائے ‘ اور دعا کی کہ الٰہ العٰلمین اس آخری وقت میں ارض مقدس سے قریب کر دے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اس جگہ ہوتا تو تم کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر کا نشان دکھاتا کہ وہ سرخ ٹیلہ (کثیب احمر) کے قریب اس جگہ دفن ہیں۔ 2 ؎ ضیاء مقدسی کہتے ہیں کہ اریحاء میں سرخ ٹیلے کے قریب ایک قبر ہے جس کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بتایا جاتا ہے ‘ دوسرے تاریخی اقوال کے مقابلہ میں یہ قول صحیح ہے ‘ اس لیے کہ میدان تیہ کے سب سے قریب وادی مقدس کا علاقہ اریحاء کی بستی ہے اور اسی جگہ وہ کثیب احمر (سرخ ٹیلہ) واقع ہے جس کا ذکر حدیث میں آیا ہے۔ [263] بخاری و مسلم کی اس روایت میں فرشتہ کے ساتھ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جو معاملہ منقول ہے ابن قتیبہ کے نزدیک وہ مادی حقیقت کے ہمارے نزدیک اس واقعہ میں انسانی موت وحیات کے مسئلہ کو ایسے انداز میں بیان کیا گیا ہے جس سے اس سلسلہ کی تمام ضروری اور اہم کڑیاں نمایاں ہو سکیں یعنی یہ ظاہر ہوجائے کہ انسان اگر نبوت اور رسالت جیسے عظیم الشان منصب پر بھی فائز ہو تب بھی بربنائے بشریت وہ ” موت “ کو غیر مرغوب شے سمجھتا ہے مگر جب خدا اس پر موت کی حقیقت کو منکشف کردیتا ہے تو اس کے مقرب بندوں کے لیے وہ سب سے زیادہ محبوب شے بن جاتی ہے ‘ نیز یہ واضح ہوجائے کہ موت کسی کے نزدیک محبوب شے ہو یا نا مرغوب مگر وہ انجام کار ایک نہ مٹنے والا حکم ہے جس سے کسی حالت میں بھی مفر نہیں ‘ اس لیے تمنا یہ نہ ہونی چاہیے کہ زندگی میں اضافہ ہو بلکہ یہ آرزو رہنی چاہیے کہ زندگی کا جو لمحہ بھی میسر آئے وہ پاکی اور بلندی اخلاق کے ساتھ پورا ہو ‘ تاکہ خدائے تعالیٰ کی آغوش رحمت پا سکے اور ” موت “ حقیقی اور ابدی زندگی بن جائے۔ تو اب حدیث کے الفاظ کی تعبیر اس طرح کرنی چاہیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خدمت میں جب موت کا فرشتہ حاضر ہوا تو بشری شکل و صورت میں تھا ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کو اس حالت میں اسی طرح نہ پہچان سکے جس طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) عذاب کے فرشتوں کو ابتدائیً نہ پہچان سکے ‘ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ناگوار گذرا کہ ایک اجنبی شخص بغیر اجازت کیوں ان کے خلوت کدہ میں گھس آیا اور اس کو موت کا پیغام دینے کا کیا حق ہے اور طیش میں آ کر منہ پر طمانچہ مار دیا ‘ فرشتہ بشکل انسان تھا لہٰذا بشری اثرات نے کام کیا اور آنکھ مجروح ہو گئی ‘ مگر جس طرح عذاب کے فرشتوں نے آہستہ آہستہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت لوط (علیہ السلام) کو اپنی اصل حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا ‘ موت کے فرشتہ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آگاہ نہ کیا اور فوراً غائب ہو گیا اور درگاہ الٰہی میں جا پہنچا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو پھر ملکوتی ہیئت پر واپس کر دیا ‘ اور اس طرح وہ اس عیب سے بری ہو گیا جو بشری شکل و صورت میں آنکھ مجروح ہوجانے سے پیدا ہو گیا تھا۔ فرشتہ موت نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خیالات سے آشنا ہوئے بغیر خود ہی یہ سمجھ لیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) موت کے نام سے خفا ہو گئے اور وہ موت نہیں چاہتے اور دربار الٰہی میں جا کر یہ شکایت کردی کہ تیرا بندہ موت نہیں چاہتا۔ خدائے تعالیٰ نے فرشتہ کی غلط فہمی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جلالت شان دونوں کے اظہار کے لیے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ دوبارہ جاؤ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جا کر ہمارا پیغام سناؤ ‘ ادھر فرشتہ پیغام حاصل کر رہا تھا اور ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اجنبی شخص کے غائب ہوجانے پر فوراً یہ محسوس کر لیا کہ درحقیقت یہ معاملہ انسانی معاملات سے جدا دوسرے عالم کا ہے ‘ چنانچہ جب فرشتہ اجل نے دوبارہ حاضر ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پیغام الٰہی سنایا تو ان کا لہجہ اور طرز گفتگو بالکل دوسرا ہو گیا اور انجام کار وہ رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور قربت موت کی جو چند گھڑیاں تھیں وہ موت سے قبل اس طرح سامان عبرت و موعظت بنیں۔ صحیحین کی حدیث کے مفہوم و مطلب سے متعلق یہ ایسی تعبیر ہے جس سے وہ تمام سوالات و اشکالات حل ہوجاتے ہیں جو اس سلسلہ میں علما کے درمیان میں زیر بحث آئے ہیں۔ توراۃ اور کتب تاریخ میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی عمر 12٠ سال کی ہوئی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی وفات اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے درمیان میں تقریباً ڈھائی سو سال کا عرصہ ہے۔ [264] توراۃ میں حضرت موسیٰ کی وفات کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے ایک جگہ مذکور ہے : ” اور موسیٰ مو آب کے میدانوں میں سے نبو کے پہاڑوں پر پسگہ کی چوٹی پر جو یریحو کے مقابل ہے چڑھ گیا اور خداوندنے ساری زمین جلعاد سے لے کر ران تک اس کو دکھلائی اور نفتال کا سارا ملک پچھلے سمندر تک اور جنوب کا ملک اور وادی اریحو (اریحاء) جو خزانوں کا شہر ہے اس کی وادی کا میدان صغر تک اس کو دکھایا اور اللہ نے اس سے کہا یہی وہ ملک ہے جس کی بابت میں نے ابرہام اور اسحاق اور یعقوب سے قسم کھا کر کہا تھا کہ اسے میں تمھاری نسل کو دوں گا سو میں نے ایسا کیا کہ تو اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لے ‘ پھر تو اس پار وہاں جانے نہ پائے گا ‘ پس خداوند کے بندے موسیٰ ((علیہ السلام)) نے خداوند کے کہے کے موافق وہیں مو آب کے ملک میں وفات پائی اور اس میں اسے مو آب کی ایک وادی میں بیت فغفور کے مقابل دفن کیا ‘ پھر آج تک کسی آدمی کو اس کی قبر معلوم نہیں ‘ اور موسیٰ ((علیہ السلام)) اپنی وفات کے وقت ایک سو بیس برس کا تھا ‘ اور نہ تو اس کی آنکھ دھند لانے پائی اور نہ اس کی طبعی قوت کم ہوئی۔ “ <ref>
اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے دریائے نیل پار کر رہے تھے یہ بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اتر پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا پار کروانے کے بعد دریا کے پانی کو چلا دیا اور فرعون کو اس کے لشکرسمیت ڈبوکر ہلاک کر دیا ضمناًیہ بات بھی ذہن میں رکھنا چائیے کہ اس زمانے میں مملکت مصر نسبتاً وسیع مملکت تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کا تمدن بھی نوح علیہ السلام، ہود علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام کی اقوام سے زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لہٰذا حکومت فراعنہ کی مقاومت بھی زیادہ تھی۔
فرعون نے موسیٰ علیہ السلام اورآپ کی قوم بنی اسرائیل پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ دراصل فرعون اس وقت کے بادشاہوں کا لقب تھا جو بھی بادشاہ بنتا اس کو فرعون کہا جاتا تھا۔ ڈاکٹر مورس بوکائیے کی تحقیق کے مطابق بنی اسرائیل پر ظلم وستم کرنے والے حکمران کا نام رعمسس دوم تھا۔ بائیبل کے بیا ن کے مطابق اس نے بنی اسرائیل سے بیگا رکے طور پر کئی شہر تعمیر کروائے تھے جن میں سے ایک کانام رعمسس رکھا گیا تھا۔ جدیدِ تحقیقات کے مطابق یہ تیونس اور قطر کے اس علاقے میں واقع تھا جو دریائے نیل کے مشرقی ڈیلٹے میں واقع ہے۔
رعمسس کی وفات کے بعد اس کا جانشین مرنفتاح مقر ر ہوا۔ اسی کے دورِ حکمرانی میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل سمیت مصر چھوڑنے کا حکم دیا۔ چنانچہ جب موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو ہمراہ لیے دریائے نیل پار کر رہے تھے یہ بھی اپنے لشکر سمیت ان کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے نیل میں اتر پڑا مگر اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو دریا پار کروانے کے بعد دریا کے پانی کو چلا دیا اورفرعون کو اس کے لشکرسمیت ڈبوکر ہلاک کر دیا۔ اس سارے واقعہ کو اللہ تعالیٰ نے درجِ ذیل آیات میں بیان کیا ہے:
اورہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے۔ پھر فرعون اوراس کے لشکر ظلم اورزیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے۔ حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا میں نے مان لیا کہ خداوندِحقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں بھی سرِاطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں(جواب دیا گیا) اب ایمان لاتا ہے!حالانکہ اس سے پہلے تک تو نافرمانی کرتا رہا اورفساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔ اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ تو بعد کی نسلوں کے لیے نشان ِ عبرت بنے، اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ایک پیشین گوئی فرمائی ہے کہ ہم فرعون کی لاش کو محفوظ رکھیں گے تاکہ بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے وہ باعث عبرت ہو۔ اپنے آپ کو خداکہلوانے والے کی لاش کو دیکھ کر آنے والی نسلیں سبق حاصل کریں۔ چنانچہ اللہ کا فرمان سچ ثابت ہوا اور اس کا ممی شدہ جسم 1898ء میں دریائے نیل کے قریب تبسیہ کے مقام پر شاہوں کی وادی سے اوریت نے دریافت کیا تھا۔ جہاں سے اس کو قاہرہ منتقل کر دیا گیا۔ ایلیٹ اسمتھ نے 8جولائی 1907ء کو ا س کے جسم سے غلافوں کو اتارا، تو اس کی لاش پر نمک کی ایک تہ جمی پائی گئی تھی جو کھاری پانی میں اس کی غرقابی کی ایک کھلی علامت تھی۔ اس نے اس عمل کا تفصیلی تذکرہ اورجسم کے جائزے کا حال اپنی کتاب شاہی ممیاں (1912ء) میں درج کیا ہے۔ اس وقت یہ ممی محفوظ رکھنے کے لیے تسلی بخش حالت میں تھی حالانکہ ا س کے کئی حصے شکستہ ہو گئے تھے۔ اس وقت سے ممی قاہرہ کے عجائب گھر میں سیاحو ں کے لیے سجی ہوئی ہے۔ اس کا سر اورگردن کھلے ہوئے ہیں اورباقی جسم کو ایک کپڑے میں چھپاکرر کھا ہواہے۔ محمد احمد عدوی دعوة الرسل الی اللہ میں لکھتے ہیں کہ اس نعش کی ناک کے سامنے کا حصہ ندارد ہے جیسے کسی حیوان نے کھا لیا ہو، غالباً سمندری مچھلی نے اس پر منہ مارا تھا، پھر اس کی لاش اُلوہی فیصلے کے مطابق کنارے پر پھینک دی گئی تاکہ دنیا کے لیے عبرت ہو۔ جون 1975ء میں ڈاکٹر مورس بوکائیے نے مصری حکمرانوں کی اجازت سے فرعون کے جسم کے ان حصوں کا جائزہ لیا جو اس وقت تک ڈھکے ہوئے تھے اور ان کی تصاویر اتاریں۔ پھر ایک اعلیٰ درجہ کی شعاعی مصوری کے ذریعے ڈاکٹر ایل میلجی اور راعمسس نے ممی کا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر مصطفٰی منیالوی نے صدری جدارکے ایک رخنہ سے سینہ کے اندرونی حصوں کا جائزہ لیا۔ علاوہ ازیں جوف شکم پر تحقیقات کی گئیں۔ یہ اندرونی جائزہ کی پہلی مثال تھی جو کسی ممی کے سلسلے میں ہوا۔ اس ترکیب سے جسم کے بعض اندرونی حصوں کی اہم تفصیلات معلوم ہوئیں اور ان کی تصاویر بھی اتاری گئیں۔ پروفیسر سیکالدی نے پروفیسر مگنو اور ڈاکٹر دوریگون کے ہمراہ ان چند چھوٹے چھوٹے اجزا کا خوردبینی مطالعہ کیا جوممی سے خود بخود جد اہوگئے تھے۔ ان تحقیقات سے حاصل ہونے والے نتائج نے ان مفروضوں کو تقویت بخشی جو فرعون کی لاش کے محفوظ رہنے کے متعلق قائم کیے گئے تھے۔ ان تحقیقات کے نتائج کے مطابق فرعون کی لاش زیادہ عرصہ پانی میں نہیں رہی تھی اگر فرعون کی لاش کچھ اورمدت تک پانی میں ڈوبی رہتی تو اس کی حالت خراب ہو سکتی تھی، حتیٰ کہ اگر پانی کے باہر بھی غیر حنوط شدہ حالت میں ایک لمبے عرصے تک پڑی رہتی تو پھر بھی یہ محفوظ نہ رہتی۔ علاوہ ازیں ان معلومات کے حصول کے لیے بھی کوششیں جاری رکھی گئیں کہ اس لا ش کی موت کیا پانی میں ڈوبنے سے ہوئی یا کوئی اور وجوہات بھی تھیں؟چنانچہ مزید تحقیقات کے لیے ممی کو پیرس لے جایا گیا اور وہاں Legal Identification Laboratory کے مینیجر Ceccaldi اور Dr. Durigon نے مشاہد ات کے بعد بتایا کہ : اس لا ش کی فوری موت کا سبب وہ شدید چوٹ تھی جو اس کی کھوپڑی (دماغ) کے سامنے والے حصے کو پہنچی کیونکہ اس کی کھوپڑی کے محراب والے حصے میں کافی خلا موجودہے۔ اور یہ تما م تحقیقات آسمانی کتابوں میں بیان کردہ فرعون کے (ڈوب کرمرنے کے ) واقعہ کی تصدیق کرتی ہیں جس میں بتایا گیا ہے کہ فرعون کو دریا کی موجوں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا-ان نتائج سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کی لاش کو محفوظ رکھنے کا خا ص اہتمام کیا تھا جس کی وجہ سے یہ ہزاروں سال تک زمانے کے اثرات سے محفوظ رہی اورآخرکار اس کو انیسویں صدی میں دریافت کیا گیا۔ مزید برآں اللہ تعالیٰ کایہ فرمان کہ ہم فرعون کی لاش کوسامانِ عبرت کے لیے محفوظ کر لیں گے صرف قرآن مجید میں موجود ہے، اس سے پہلے کسی دوسری آسمانی کتاب میں اس کا اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.