![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/5/52/Shaheen_Bagh_women_protesters_15_Jan_2020.jpg/640px-Shaheen_Bagh_women_protesters_15_Jan_2020.jpg&w=640&q=50)
شاہین باغ احتجاج
شہریت ترمیمی ایکٹ، این آر سی اور این آر پی کے خلاف شاہین باغ احتجاج / From Wikipedia, the free encyclopedia
شاہین باغ احتجاج نئی دہلی کے علاقہ شاہین باغ میں جاری ہے جو شہریت ترمیمی بل 2019ء کے بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں منظور ہو جانے کے بعد شروع ہوا تھا۔ لوک سبھا سے منظور ہو جانے کے بعد 11 دسمبر 2019ء کو راجیہ سبھا میں یہ مسودہ قانون پیش ہوا اور طویل بحث اور زبردست مخالفت کے باوجود عددی برتری کے باعث منظور ہو گیا۔ چنانچہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے احتجاج شروع کیا تو دہلی پولیس نے جواباً ان پر وحشیانہ کارروائی کر دی۔ پولس کی اس بربریت کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کا آغاز کیا جو تاحال بلا توقف جاری ہے۔[1][2][3] یہ دراصل ایک احتجاجی مارچ اور سول نافرمانی ہے جس کے بیشتر شرکا شاہین باغ کی مسلم خواتین ہیں۔ یہ مظاہرے 15 دسمبر 2019ء[4] سے شروع ہوئے۔ اس کا محل وقوع کالندی کنج شاہین باغ نامی شاہراہ عام ہے جو نوئیڈا کو فریدآباد سے جوڑتی ہے۔ مظاہرین نے اس شاہراہ کو 15 دسمبر سے ہی بند کر رکھا ہے۔[5]
Shaheen Bagh protests | |||
---|---|---|---|
Shaheen Bagh anti-CAA protests بسلسلہ شہریت (ترمیم) بل کے خلاف مظاہرے | |||
![]() شاہین باغ میں خواتین مظاہرین نے ایک بڑی سڑک پر آمد رفت کو روک دیا (کلندی کنج علاقہ)، نئی دہلی | |||
تاریخ | 15 دسمبر 2019 – 24 مارچ 2020 (101 دن) | ||
مقام | |||
وجہ | شہریت ترمیمی بل 2019ء کی منظوری اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس کی مداخلت | ||
مقاصد | سی اے اے کی منظوری ، پولیس تشدد اور حکومتی ذہنیت کے خلاف برہمی کا اظہار۔ این آر سی این پی آر کو چلانے سے روکنے کی مانگ۔ | ||
طریقہ کار | احتجاج، دھرنا، احتجاجی مارچ، سول نافرمانی، فن (Graffiti، شاعری) | ||
صورتحال | لاک ڈاؤن کی وجہ سے موقوف | ||
مرکزی رہنما | |||
| |||
متاثرین | |||
اموات | 0 | ||
زخمی | 1 | ||
گرفتار | 10 | ||
Detained | 0 | ||
جرمانہ | 0 |
![](http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/b/b3/No_NPR_CAA_NRC_graffiti_Shaheen_Bagh_protests_New_Delhi_8_Jan_2020.jpg/640px-No_NPR_CAA_NRC_graffiti_Shaheen_Bagh_protests_New_Delhi_8_Jan_2020.jpg)
ابتدا میں یہ مظاہرے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ پر پولس کی بربریت اور بلا اجازت یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر لڑکوں اور لڑکیوں کو زدوکوب کرنے، ان پر بے رحمی سے لاٹھیاں برسانے اور دار المطالعہ میں آنسو گیس چھوڑنے کے خلاف شروع ہوئے تھے مگر بہت جلد یہ ایک احتجاج کی شکل اختیار کر گئے اور شہریت ترمیمی بل اور قومی شہری رجسٹر کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ شاہین باغ کے علاوہ ملک بھر میں ہو رہے احتجاجات میں اس بل کے خلاف اور آئین ہند کی دفعہ 370 کو منسوخ کر کے این پی آر کو نافذ کرنے کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی کو کوسا جا رہا ہے اور ان دونوں فیصلوں کو واپس لینے کی اپیلیں ہو رہی ہیں۔[5] شاہین باغ کے مظاہرین نے ان یونینوں کی حمایت میں بھی آوازیں بلند کیں جو مزدور مخالف پالیسی کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ نیز 2020ء جے این یو حملہ کے خلاف بھی شاہین باغ کی خواتین نے احتجاج کیا۔[6] مذکورہ شاہراہ پر مظاہرین نے خیمے نصب کر دیے ہیں اور دونوں طرف سے سڑک کو بند کر دیا ہے۔ دی وائر کی خبر کے مطابق دن بھر میں وہاں لاکھوں کا مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے۔[7]
احتجاج کو روکنے اور سڑک کھلوانے کے لیے دہلی عدالت عالیہ میں دو پٹیشن داخل کی جا چکی ہیں لیکن دہلی ہائی کورٹ نے اپیل سننے سے انکار کر دیا۔ 14 جنوری 2020ء کو عدالت نے کہا کہ یہ پولس کا معاملہ ہے۔ دہلی پولس کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کو سڑک کھلوانے پر راضی کرلے گی مگر کسی بھی طرح کی طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ احتجاج پولیس کے تشدد اور حکومت کی بے حسی کے خلاف بھی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ ٹریفک کے نظام کو بہتر کرنے میں مدد کریں گے مگر احتجاج ختم نہیں ہوگا تا آنکہ حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور ان کے مطالبات کو تسلیم کرلے۔ اس احتجاج کی وجہ سے تقریباً 100,000 گاڑیاں متاثر ہیں اور 20-30 منٹ کی مسافت 2-3 گھنٹوں میں پوری ہو رہی ہے مگر حکومت اپنے موقف پر بضد ہے اور ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے پر راضی نہیں۔ وہیں مظاہرین کا کہنا ہے کہ وہ بھی ایک ملی میٹر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ حزب اقتدار بی جے پی کے صدر نے بھی مظاہرین سے اپنا احتجاج ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔