From Wikipedia, the free encyclopedia
سبرامنین چندرشیکھر (تمل:சுப்பிரமணியன் சந்திரசேக) ہندوستانی نژاد امریکی طبیعیات دان تھا جسے اپنے استادولیم اے فاؤل (William A. Fowler) کے ساتھ 1983 میں نوبل انعام ملا۔ اس کے چچا چندر شیکھر ونکیٹا رامن کو 1930 میں طبیعیات کا نوبل انعام مل چکا تھا۔
سبرامنین چندرشیکھر | |
---|---|
(تمل میں: சுப்பிரமணியன் சந்திரசேகர்) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 اکتوبر 1910ء [1][2][3][4][5][6][7] لاہور |
وفات | 21 اگست 1995ء (85 سال)[1][2][3][4][5][6][7] شکاگو [8] |
وجہ وفات | بندش قلب [9][10] |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | ریاستہائے متحدہ امریکا (1953–) بھارت (–1953) برطانوی ہند (–1947) |
رکن | رائل سوسائٹی ، رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز ، امریکی اکادمی برائے سائنس و فنون ، قومی اکادمی برائے سائنس ، انڈین نیشنل سائنس اکیڈمی ، باوارین اکیڈمی آف سائنس اینڈ ہیومنٹیز |
عملی زندگی | |
مادر علمی | ٹرینٹی کالج، کیمبرج (1930–1933)[11] جامعہ کیمبرج (–1933)[12] |
تعلیمی اسناد | ڈاکٹر |
پیشہ | ریاضی دان ، طبیعیات دان ، ماہر فلکیات ، ماہر فلکی طبیعیات ، اکیڈمک ، استاد جامعہ [13] |
مادری زبان | تمل |
پیشہ ورانہ زبان | انگریزی [14][15][16] |
شعبۂ عمل | فلکی طبیعیات [17]، طبیعیات [17]، ریاضی [17] |
ملازمت | جامعہ شکاگو [18]، ٹرینٹی کالج، کیمبرج [11] |
اعزازات | |
گورڈن جے لئانگ اعزاز (1989) کاپلی میڈل (1984)[19] نوبل انعام برائے طبیعیات (1983)[20][21] پدم وبھوشن سائنس و انجینئرنگ اعزاز (1968) قومی تمغا برائے سائنس (1966) رائل میڈل (1962)[10] رمفورڈ انعام (1957)[22] رائل سوسائٹی فیلو (1944)[23] | |
نامزدگیاں | |
دستخط | |
درستی - ترمیم |
چندرا لاہور پنجاب میں 19 اکتوبر 1910 میں ایک تامل گھرانے میں پیدا ہوا۔ 1930 میں اسے ہندوستانی حکومت سے یونیورسٹی آف کیمبرج میں پڑھنے کے لیے اسکولرشپ ملا۔ 20 سال کی عمر میں وہ انگلستان میں طبیعیات میں گریجویشن کرنے بحری جہاز سے ہندوستان سے روانہ ہوا۔ چندرا شیکھر منہدم شدہ ستاروں (collapsed stars) کی آخری حالت میں بڑی دلچسپی رکھتا تھا جو الیکٹرون ڈیجنیریسی electron degeneracy کے تابع ہوتی ہے۔ بحری جہاز میں سفر کے دوران اس نے Arthur S. Eddington اور Ralph H. Fowler کے اس موضوع پر کیے ہوئے کام کا بغور مطالعہ کیا اور پایا کہ انھوں نے اپنے اس کام میں اضافیت کو شامل نہیں کیا تھا۔ چندرا نے جب اضافیت کو مد نظر رکھتے ہوئے حساب لگایا تو اسے اندازہ ہوا کہ ستاروں کی کمیت اگر ایک خاص حد سے زیادہ ہو جائے تو electron degeneracy کی قوت طاقتور کشش ثقل کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اور ستارہ پچکتا چلا جائے گا۔ اس کے حساب سے یہ حد سورج کی کمیت کا 1.44 گنا تھی۔ اس وقت وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کہ اس حد سے زیادہ کمیت پر ستارے کا کیا انجام ہو گا۔
Eddington نے چندرا کی سخت مخالفت کری اور اس کی زندگی مشکل بنا دی۔ 1935 میں اس سے ایک جھگڑے کے بعد چندرا کسی اور ملک میں ملازمت لینے کے بارے میں سوچنے لگا۔ کئی سالوں کی کوششوں کے بعد چندرا نے مایوس ہو کر اس موضوع کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اسے یقین تھا کہ وہ صحیح ہے اس لیے اس نے ایک کتاب لکھی جس میں ستاروں کی بناوٹ کی تفصیلات درج تھیں۔
1930 کی دہائی میں فلکیات دانوں نے پایا کہ 40 Eridani B نامی ستارہ بہت چھوٹا ہونے کے باوجود بہت مدھم مگر سفید روشنی خارج کر رہا ہے جبکہ اتنے چھوٹے ستارے کی روشنی سرخ یا پیلی ہونی چاہیے۔ 1939 تک آسمان پر 18 سفید بونے دریافت ہو چکے تھے۔[25]
چندرا شیکھر کا خیال تھا کہ Eddington محض نسلی منافرت کی وجہ سے اس کے نظریات کی مخالفت کرتا ہے۔
بعد میں Eddington کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کر نا پڑا کہ سفید بونے ستاروں کا مادہ انتہائی کثیف ہو سکتا ہے۔ چندرا کے نظریات کو اب درست مانا جاتا ہے۔
1935 میں کیمبرج سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد چندرا شیکھر نے یونیورسٹی آف شکاگو میں 1937 سے لے کر 1995 میں اپنی وفات تک تدریس و تحقیق کا کام انجام دیا۔
چندرا شیکھر کی نگرانی میں 50 طالب علموں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
23 جولائی 1999 کو ناسا نے خلا میں ایک دوربین بھیجی جس کا نام چندرا شیکھر کے اعزاز میں Chandra X-ray Observatory رکھا گیا۔ یہ دوربین زمین کے مدار میں گردش کرتے ہوئے ستاروں سے آنے والی ایکس ریز کی تصویریں لیتی ہے۔ زمین سے یہ تصویریں نہیں لی جا سکتیں کیونکہ کرہ ہوائی میں بیشتر ایکس ریز جذب ہو جاتی ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.