جمعیۃ علماء ہند
بھارتی علما کی ایک تنظیم / From Wikipedia, the free encyclopedia
جمعیۃ علماء ہند[1] بھارتی مسلمانوں کی ایک متحرک و فعال تنظیم ہے، جس میں فی الحال دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے علماء زیادہ فعال ہیں۔ نومبر 1919ء میں اس کی بنیاد عبد الباری فرنگی محلی، ابو المحاسن محمد سجاد، کفایت اللہ دہلوی، عبد القادر بدایونی، سلامت اللہ فرنگی محلی، انیس نگرامی، احمد سعید دہلوی، ابراہیم دربھنگوی، محمد اکرام خان کلکتوی، محمد ابراہیم میر سیالکوٹی اور ثناء اللہ امرتسری سمیت علمائے کرام کی ایک جماعت نے رکھی تھی۔ جمعیت نے انڈین نیشنل کانگریس کے ساتھ مل کر تحریک خلافت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اس نے متحدہ قومیت کا موقف اختیار کرتے ہوئے تقسیم ہند کی مخالفت کی اور یہ موقف اپنایا کہ ہندوستان کے مسلمان اور غیر مسلم ایک ہی قوم کی تشکیل کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں جمعیت کے ایک مختصر حصے نے جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے علاحدہ ہو کر تحریک پاکستان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمعیت کے آئین کا مسودہ کفایت اللہ دہلوی نے تیار کیا تھا۔
جمعیۃ علماء ہند | |
---|---|
ملک | ![]() ![]() |
صدر دفتر | 1، بہادر شاہ ظفر مارگ، نئی دہلی |
تاریخ تاسیس | 19 نومبر 1919 (104 سال قبل) (1919-11-19) |
بانی | کفایت اللہ دہلوی ، ثناء اللہ امرتسری ، ابراہیم میر سیالکوٹی ، عبدالباری فرنگی محلی ، منیر الزماں اسلام آبادی ، محمد اکرم خان ![]() |
مقاصد | ابتدائی طور پر بھارت میں برطانوی حکمرانی کے خلاف عدم تشدد کی جدوجہد جاری رکھنا تھا، اس وقت بھارتی مسلم عوام کی ترقی ہے |
صدر |
|
باضابطہ ویب سائٹ | |
درستی - ترمیم ![]() |
آزادی ہند کے بعد جمعیت نے اپنی سرگرمیوں میں تنوع اختیار کیا اور زیادہ تر رفاہی میدانوں میں متحرک رہی۔ جمعیت کی اب پورے ہندوستان میں ریاستی اکائیاں ہیں، مثلاً: جمعیۃ علماء آسام، جمعیۃ علماء بہار، جمعیۃ علماء جھارکھنڈ، جمعیۃ علماء کرناٹک، جمعیۃ علماء مدھیہ پردیش، جمعیۃ علماء مہاراشٹر، جمعیۃ علماء راجستھان، جمعیۃ علماء اترپردیش، جمعیۃ علماء اتراکھنڈ، جمعیۃ علماء تلنگانہ، جمعیۃ علماء مغربی بنگال اور جمعیۃ علماء اڈیشا۔
سید ارشد مدنی اپنے بھائی سید اسعد مدنی کے بعد فروری 2006ء میں صدر منتخب کیے گئے، تاہم یہ تنظیم مارچ 2008ء میں حلقۂ ارشد (الف) اور حلقۂ محمود (میم) میں تقسیم ہو گئی۔ عثمان منصورپوری حلقۂ میم کے صدر بنائے گئے اور تا وفات یعنی مئی 2021ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے بعد محمود مدنی عبوری صدر، پھر مستقل صدر بنائے گئے۔ سید ارشد مدنی حلقۂ الف کے صدر کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔
جمعیت نے 2008ء میں دہشت گردی مخالف کانفرنس کرکے دہشت گردی کی بھرپور مذمت کی تھی اور اس کے لیے 6000 علما کا دستخط شدہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا، جس پر دار العلوم دیوبند کے مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی کا دستخط بھی ثبت تھا۔ اس اعلامیہ میں یہ کہا گیا تھا کہ اسلام ہر قسم کے بلاجواز تشدد، امن کی خلاف ورزی، خوں ریزی، قتل اور لوٹ مار کو مسترد کرتا ہے اور کسی بھی شکل میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے کہ آپ اچھے نیک مقاصد کے حصول میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں اور کسی کے ساتھ گناہ یا ظلم کے لیے تعاون نہیں کرتے۔ قرآن پاک میں دی گئی واضح ہدایات میں واضح ہے کہ اسلام جیسے مذہب کے خلاف دہشت گردی کا الزام – جو عالمی امن کا حکم دیتا ہے – جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔ درحقیقت اسلام ہر قسم کی دہشت گردی کا صفایا کرنے اور عالمی امن کے پیغام کو عام کرنے کے لیے آیا ہے۔
سنہ 2009ء میں جمعیت کی طرف سے مسلمانوں سے یہ اپیل کی گئی کہ ہندو کو کافر نہیں کہنا چاہیے؛ کیوں کہ اگرچہ اس اصطلاح کا مطلب صرف غیر مسلم ہے؛ مگر اس کا استعمال برادریوں کے درمیان غلط فہمی کو جنم دے سکتی ہے۔
جمعیۃ علماء ہند نے نومبر 2019ء میں اپنی صد سالہ تقریب منائی۔ جب کہ جمعیۃ علمائے اسلام (ف) نے ازاخیل میں 7 اپریل 2017ء سے دو روزہ جشن صد سالہ منایا تھا۔
جون 2021ء میں جمعیۃ علماء ہند کی گجرات یونٹ نے کووِڈ-19 ویکسین کے بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے کیمپ لگائے۔ اس سلسلے میں جمعیت (الف) کے صدر ارشد مدنی نے کہا تھا کہ جو چیز انسانی جانوں کو بچاتی ہے وہ جائز ہے۔ ہمیں ویکسین لگوانی چاہیے اور اپنے آپ کو اور اپنے اردگرد کے ہر فرد کو کووِڈ 19 سے بچانا چاہیے۔
جمعیت کے دونوں حصوں نے ادارہ مباحث فقہیہ، جمعیۃ علماء لیگل سیل، جمعیۃ نیشنل اوپن اسکول، جمعیۃ علماء ہند حلال ٹرسٹ اور جمعیۃ یوتھ کلب جیسے ادارے اور وِنگ قائم کیے۔ جمعیۃ لیگل سیل، جمعیت (الف) کی طرف سے 2007ء میں قائم کیا تھا اور اس نے مئی 2019ء تک پورے ہندوستان میں 192 قیدیوں کی بری الذمہ رہائی میں مدد کی ہے۔