اسلامی نقش و نگار
From Wikipedia, the free encyclopedia
اسلامی نقش و نگار (انگریزی: Islamic geometric patterns) میں علامتی آرٹ کو پسند نہیں کیا گیا ہے بلکہ ہندساتی نقوش کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور صدیوں سے یہی نقوش ارتقا کی منزلیں طے کرنے آئے ہیں۔
اسلامی فنون میں ہندسہ کا استعمال کر کے خوبصووت نقوش تیار کیے جاتے ہیں جن میں دائری، خط، مربع، مستطیل اور مخروطی شکلوں کو کبھی ایک دوسرے کے اوپر، کبھی بغل میں، کبھی آپس میں ملا کر نہایت پیچیدہ نقوش بنائے جاتے ہیں اور ان نقوش میں فسیفسا کی متعدد اقسام بھی شامل ہیں۔ یہ نقوش عمارت کے ستون، مینار، دیوار اور گنبدوں پر بنے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی پورے نقش و نگار میں ان کا استعمال ہوتا ہے۔ ان نقوش کو استعمال میں لاتے ہوئے خوبصورت پھول بنائے جاتے ہیں، اسلامی خطاطی کی نمائش کی جاتی ہے اور ان کے علاوہ دیگر قسم کے نقوش پس منظر اور دیگر جگہوں پر بنائے جاتے ہیں۔ ان نہایت گنجلک نقوش کی ابتدا 9ویں صدی میں سیل نقوش سے ہوئی اور13ویں صدی میں 6 یا 13 نقاط پر مشتمل نقوش نے ان سہل نقوش کی جگہ لے لی۔ 16ویں صدی آتے آتے یہ نقوش 14 یا 16 نقاط پر بننے لگے۔
اسلامی نقوش و نگار اسلامی فنون کے کئی شکلوں میں نطر آتے ہیں جیسے تعمیرات، کلیمی قالین، ایرانی گیریس، مراکشی زلیج اور ٹائلز، مقرنص، چھت، جالی (پتھروں میں چھید کر کے بنائے گئے نقوش)، خزف، چمڑے، داغ نما گلاس، لکڑی اور دھات وغیرہ پر یہ نقوش بنائے جاتے ہیں۔
مغربی ممالک میں اسلامی نقوش کی طرف رغبت بڑھی ہے۔ مصوروں اور مجسمہ ساز جیسے 12ویں صدی کے ایم سی ایشر اور ریاضئ دان اور طبیعیات دان جیسے پیٹر جے جو اور پال استہاردت جنھوں نے 2007ء میں اصفہان میں موجود درب امام کی ٹائلس کی نقش و نگاری کے زمانہ کو لے کر متنازع عدی کیا تھا۔