From Wikipedia, the free encyclopedia
یونس علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔ آپ کے نام پر قرآن پاک میں پوری ایک سورت ہے۔
یونس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 5ویں صدی ق م نینوا |
وفات | 1ویں صدی نینوا |
عملی زندگی | |
پیشہ | اسلامی نبی |
درستی - ترمیم |
یونس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شہر نینواکے باشندوں کی ہدایت کے لیے رسول بنا کر بھیجا تھا۔
نینوا، یہ موصل کے علاقہ کا ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ بت پرستی کرتے تھے اور کفر و شرک میں مبتلا تھے۔ یونس علیہ السلام نے ان لوگوں کو ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا۔ مگر ان لوگوں نے اپنی سرکشی اور تمرد کی وجہ سے اللہ عزوجل کے رسول علیہ السلام کو جھٹلادیا اور ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ یونس علیہ السلام نے انھیں خبر دی کہ تم لوگوں پر عنقریب عذاب آنے والا ہے۔ یہ سن کر شہر کے لوگوں نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ یونس علیہ السلام نے کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہی ہے۔ اس لیے یہ دیکھو کہ اگر وہ رات کو اس شہر میں رہیں جب تو سمجھ لو کہ کوئی خطرہ نہیں ہے اور اگر انھوں نے اس شہر میں رات نہ گزاری تو یقین کرلینا چاہے کہ ضرور عذاب آئے گا۔ رات کو لوگوں نے یہ دیکھا کہ یونس علیہ السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ اور واقعی صبح ہوتے ہی عذاب کے آثار نظر آنے لگے کہ چاروں طرف سے کالی بدلیاں نمودار ہوئیں اور ہر طرف سے دھواں اٹھ کر شہر پر چھا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر شہر کے باشندوں کو یقین ہو گیا کہ عذاب آنے والا ہی ہے تو لوگوں کو یونس علیہ السلام کی تلاش و جستجو ہوئی مگر وہ دور دور تک کہیں نظر نہیں آئے۔ اب شہر والوں کو اور زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہو گیا۔ چنانچہ شہر کے تمام لوگ خوف ِ خداوندی عزوجل سے ڈر کر کانپ اٹھے اور سب کے سب عورتوں، بچوں بلکہ اپنے مویشیوں کو ساتھ لے کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر روتے ہوئے جنگل میں نکل گئے اور رو رو کر صدقِ دل سے یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اقرار و اعلان کرنے لگے۔ شوہر بیوی سے اور مائیں بچوں سے الگ ہو کر سب کے سب استغفار میں مشغول ہو گئے اور دربارِ باری میں گڑگڑا کر گریہ و زاری شروع کردی۔ جو مظالم آپس میں ہوئے تھے ایک دوسرے سے معاف کرانے لگے اور جتنی حق تلفیاں ہوئی تھیں سب کی آپس میں معافی تلافی کرنے لگے۔ غرض سچی توبہ کر کے خدا عزوجل سے یہ عہد کر لیا کہ یونس علیہ السلام جو کچھ خدا کا پیغام لائے ہیں ہم اس پر صدقِ دل سے ایمان لائے، اللہ تعالیٰ کو شہر والوں کی بے قراری اور مخلصانہ گریہ و زاری پر رحم آیا اور عذاب اٹھا لیا گیا۔ ناگہاں دھواں اور عذاب کی بدلیاں رفع ہو گئیں اور تمام لوگ پھر شہر میں آکر امن و چین کے ساتھ رہنے لگے۔
اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے خداوند قدوس نے قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ:۔
فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمٰنُہَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوۡنُسَؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الۡخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿98﴾ ترجمہ کنزالایمان:۔
تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دنیا کی زندگی میں ہٹا دیا اور ایک وقت تک انھیں برتنے دیا۔ [1]
مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا ہے تو عذاب آجانے کے بعد ایمان لانا مفید نہیں ہوتا مگر یونس علیہ السلام کی قوم پر عذاب کی بدلیاں آجانے کے بعد بھی جب وہ لوگ ایمان لائے تو ان سے عذاب اٹھا لیا گیا۔
قرآن عزیز میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ذکر چھ سورتوں میں کیا گیا ہے : سورة نساء ‘ انعام ‘ یونس ‘ الصافات ‘ انبیا ‘ القلم۔ ان میں سے چار پہلی سورتوں میں نام مذکور ہے اور دو آخر کی سورتوں میں ” ذوالنون “ اور ” صاحب الحوت “ مچھلی والا کہہ کر صفت کا اظہار کیا گیا ہے۔ ذیل کا نقشہ اس حقیقت کے لیے کاشف ہے :
نساء۔ ١٦٣۔ ١
انبیا۔ ٨٧۔ ٨٨۔ ٢
انعام۔ ٨٦۔ ١
الصافات۔ ١٣٩۔ ١٤٨۔ ١٠
یونس۔ ٩٨۔ ١
القلم۔ ٤٨ تا ٥٠۔ ٣
میزان۔ ١٨
یہ بھی واضح رہے کہ سورة نساء اور انعام میں انبیا (علیہم السلام) کی فہرست میں فقط نام مذکور ہے اور باقی سورتوں میں واقعات پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی حیات طیبہ کے صرف اسی پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے جو ان کی پیغمبرانہ زندگی سے وابستہ ہے اور جس میں رشد و ہدایت کے مختلف گوشے دعوت بصیرت دیتے ہیں۔
قرآن عزیز کی روشنی میں یونس (علیہ السلام) کا واقعہ اگرچہ مختصر اور اظہار واقعہ کے لحاظ سے صاف اور واضح ہے ‘ مگر بعض تفسیری مباحث نے اس کی جزئیات کو معرکہ آرا بنادیا ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اول آیات قرآنی کی روشنی میں واقعہ کو مفصل بیان کر دیا جائے اور اس کے بعد تفسیری مباحث پر کلام کیا جائے تاکہ واقعہ کی حقیقت سمجھنے میں مدد ملے۔
[2]
حضرت یونس (علیہ السلام) کی عمر مبارک اٹھائیس سال کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو منصب نبوت پر سرفراز فرمایا اور اہل نینویٰ کی رشد و ہدایت کے لیے مامور کیا۔ یونس (علیہ السلام) ایک عرصہ تک ان کو تبلیغ فرماتے اور توحید کی دعوت دیتے رہے ‘ مگر انھوں نے اعلان حق پر کان نہ دھرا اور تمردو سرکشی کے ساتھ شرک و کفر پر اصرار کیے رہے اور گذشتہ نافرمان قوموں کی طرح خدا کے سچے پیغمبر کی دعوت حق کا ٹھٹھا کرتے اور مذاق اڑاتے رہے۔ تب مسلسل اور پیہم دشمنی اور مخالفت سے متاثر ہو کر یونس (علیہ السلام) قوم سے خفا ہو گئے اور ان کو عذاب الٰہی کی بددعا کر کے ان کے درمیان سے غضبناک روانہ ہو گئے۔
فرات کے کنارے پہنچے تو ایک کشتی کو مسافروں سے بھرا ہوا تیار پایا ‘ حضرت یونس (علیہ السلام) کشتی میں سوار ہوئے اور کشتی نے لنگر اٹھادیا۔ راہ میں طوفانی ہواؤں نے کشتی کو آگھیرا ‘ جب کشتی ڈگمگانے لگی اور اہل کشتی کو غرق ہونے کا یقین ہونے لگا تو اپنے عقیدہ کے مطابق کہنے لگے ” ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کشتی میں کوئی غلام اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہے جب تک اس کو کشتی سے جدا نہ کیا جائے گا نجات مشکل ہے۔ “ یونس (علیہ السلام) نے سنا تو ان کو تنبہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو میرا نینویٰ سے وحی کا انتظار کیے بغیر اس طرح چلا آنا پسند نہیں آیا اور یہ میری آزمائش کے آثار ہیں۔ یہ سوچ کر انھوں نے اہل کشتی سے فرمایا وہ غلام میں ہوں جو اپنے آقا سے بھاگا ہوا ہے ‘ مجھ کو کشتی سے باہر پھینک دو ‘ مگر ملاح اور اہل کشتی ان کی پاکبازی سے اس قدر متاثر تھے کہ انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور آپس میں یہ طے کیا کہ قرعہ اندازی کی جائے۔ چنانچہ تین مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی اور ہر مرتبہ یونس (علیہ السلام) کے نام پر قرعہ نکلا۔ تب مجبور ہو کر انھوں نے یونس (علیہ السلام) کو دریا میں ڈال دیا یا وہ خود دریا میں کود گئے۔ اسی وقت خدائے تعالیٰ کے حکم سے ان کو مچھلی نے نگل لیا۔ مچھلی کو حکم تھا کہ صرف نگل لینے کی اجازت ہے ‘ یونس تیری غذا نہیں ہے ‘ اس لیے اس کے جسم کو مطلق گزند نہ پہنچے۔ یونس (علیہ السلام) نے جب مچھلی کے پیٹ میں خود کو زندہ پایا تو درگاہ الٰہی میں اپنی اس ندامت کا اظہار کیا کہ کیوں وہ وحی الٰہی کا انتظار کیے اور اللہ تعالیٰ سے اجازت لیے بغیر امت دعوت سے ناراض ہو کر نینویٰ سے نکل آئے اور عفو تقصیر کے لیے اس طرح دعا گو ہوئے :
{ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ } [3]
” الٰہی تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہی یکتا ہے ‘ میں تیری پاکی بیان کرتا ہوں بلاشبہ میں اپنے نفس پر خود ہی ظلم کرنے والا ہوں۔ “
اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی درد بھری آوازکو سنا اور قبول فرمایا ‘ مچھلی کو حکم ہوا کہ یونس کو جو تیرے پاس ہماری امانت ہے ‘ اگل دے۔
چنانچہ مچھلی نے ساحل پر یونس (علیہ السلام) کو اگل دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی وجہ سے ان کا جسم ایسا ہو گیا تھا جیسے کسی پرندہ کا پیدا شدہ بچہ جس کا جسم بے حد نرم ہوتا ہے اور جسم پر بال تک نہیں ہوتے ‘ ٣ ؎ غرض یونس (علیہ السلام) بہت نحیف و ناتواں حالت میں خشکی پر ڈال دیے گئے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ایک بیلدار درخت اگا دیا ٤ ؎ جس کے سایہ میں وہ ایک جھونپڑی بنا کر رہنے لگے چند دن کے بعد ایسا ہوا کہ حکم خدا سے اس بیل کی جڑ کو کیڑا لگ گیا اور اس نے جڑ کو کاٹ ڈالا۔ جب بیل سوکھنے لگی تو یونس (علیہ السلام) کو بہت غم ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ ان کو مخاطب کیا اور فرمایا : یونس ! تم کو اس بیل کے سوکھنے کا بہت رنج ہوا جو ایک حقیر سی چیز ہے مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ نینویٰ کی ایک لاکھ سے زیادہ آبادی جس میں انسان بس رہے ہیں ‘ اور ان کے علاوہ جاندار بھی آباد ہیں اس کو برباد اور ہلاک کردینے میں ہم کو کوئی ناگواری نہیں ہوگی اور کیا ہم ان کے لیے اس سے زیادہ شفیق و مہربان نہیں ہیں جتنا کہ تجھ کو اس بیل کے ساتھ انس ہے جو تم وحی کا انتظار کیے بغیر قوم کو بددعا کر کے ان کے درمیان سے نکل آئے۔ ایک نبی کی شان کے یہ نامناسب ہے کہ وہ قوم کے حق میں عذاب کی بددعا کرے اور نفرت کے ساتھ ان سے جدا ہونے میں ایسی جلد بازی اختیار کرے کہ وحی کا بھی انتظار باقی نہ رہے۔
ہوا یہ کہ ادھر یونس (علیہ السلام) بددعا کر کے اہل نینویٰ سے جدا ہوئے اور ادھر انھوں نے بددعا کے کچھ آثار محسوس کیے۔ نیز یونس (علیہ السلام) کے بستی چھوڑ دینے پر ان کو یقین ہو گیا کہ وہ ضرور خدا کے سچے پیغمبر تھے اور اب ہلاکت یقینی ہے ‘ تبھی تو یونس (علیہ السلام) ہم سے جدا ہو گئے۔ یہ سوچ کر فوراً بادشاہ سے لے کر رعایا تک سب کے دل خوف و دہشت سے کانپ اٹھے اور یونس (علیہ السلام) کو تلاش کرنے لگے کہ ان کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کریں اور ساتھ ہی سب خدائے تعالیٰ کی درگاہ میں توبہ و استغفار کرنے لگے اور ہر قسم کے گناہوں سے کنارہ کش ہو کر آبادی سے باہر میدان میں نکل آئے ‘ حتیٰ کہ چوپاؤں کو بھی ساتھ لے آئے اور بچوں کو ماؤں سے جدا کر دیا اور اس طرح دنیوی علائق سے کٹ کر درگاہ الٰہی میں گریہ وزاری کرتے اور متفقہ آواز سے یہ اقرار کرتے رہے : ربنا امنا بما جاء بہ یونس (پروردگار ! یونس تیرا جو پیغام ہمارے پاس لے کر آئے تھے ہم اس کی تصدیق کرتے اور اس پر ایمان لاتے ہیں) آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی ‘ ان کو دولت ایمان سے نوازا اور ان کو عذاب سے محفوظ کر دیا۔
بہرحال حضرت یونس (علیہ السلام) کو اب دوبارہ حکم ہوا ١ ؎ کہ وہ نینویٰ جائیں اور قوم میں رہ کر ان کی رہنمائی فرمائیں ‘ تاکہ خدا کی اس قدر کثیر مخلوق ان کے فیض سے محروم نہ رہے۔ چنانچہ یونس (علیہ السلام) نے اس حکم کا امتثال کیا اور نینویٰ میں واپس تشریف لے آئے۔ قوم نے جب ان کو دیکھا تو بے حد مسرت و خوشی کا اظہار کیا اور ان کی رہنمائی میں دین و دنیا کی کامرانی حاصل کرتی رہی۔
یہ ہے واقعہ کی وہ ترتیب جو آیات قرآنی کی تفسیر میں تاویلات سے پاک اور صحیح مفہوم کی ترجمان ہے اور بے غل و غش مختلف سورتوں کی تمام آیات کے معانی کو کسی گنجلک کے بغیر صاف صاف ادا کردیتی ہے۔ لیکن یہ حقیقت اچھی طرح اس وقت ظاہر ہوگی جبکہ واقعہ سے متعلق اختلافی مباحث کو زیر بحث لایا جائے اور پھر اس تفصیلی ترتیب کا موازنہ کیا جائے مگر اس سے قبل آیات قرآنی کا مطالعہ ضروری ہے :
{ فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَط لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ } [4]
” پھر کیوں ایسا نہ ہوا کہ قوم یونس کی بستی کے سوا اور کوئی بستی نہ نکلی کہ (نزول عذاب سے پہلے) یقین کرلیتی اور ایمان کی برکتوں سے فائدہ اٹھاتی ؟ یونس کی قوم جب ایمان لے آئی تو ہم نے رسوائی کا وہ عذاب ان پر سے ٹال دیا جو دنیا کی زندگی میں پیش آنے والا تھا اور ایک خاص مدت تک سرو سامان زندگی سے بہرہ مند ہونے کی مہلت دے دی۔ “
{ وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَق صلے اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ۔ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗلا وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّط وَ کَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ۔ }
[5]
” اور ذوالنون (یونس کا معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ وہ (راہ حق میں) خشم ناک ہو کر چلا گیا ‘ پھر اس نے خیال کیا کہ ہم اس کو تنگی (آزمائش) میں نہیں ڈالیں گے پھر (جب اس کو آزمائش کی تنگی نے آگھیرا تو) اس نے (مچھلی کے پیٹ میں اور دریا کی گہرائی کی) تاریکیوں میں پکارا ” خدایا تیرے سوا کوئی معبود نہیں ! تیرے لیے ہر طرح کی پاکی ہے ! حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنے اوپر بڑا ہی ظلم کیا۔ “ تب ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے غم گینی سے نجات دی اور ہم اسی طرح ایمان والوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ “
{ وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ ۔ فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ ۔ فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَ مُلِیْمٌ ۔ فَلَوْلَا اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ ۔ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٖ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ۔ فَنَبَذْنَاہُ بِالْعَرَآئِ وَہُوَ سَقِیْمٌ ۔ وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ ۔ وَاَرْسَلْنَاہُ اِلٰی مِأَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ۔ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنَاہُمْ اِلٰی حِیْنٍ ۔ } [6]
” اور بیشک یونس پیغمبروں میں سے تھا (اور وہ واقعہ یاد کرو) جبکہ وہ بھری ہوئی کشتی کی جانب بھاگا (اور جب کشتی والوں نے غرق ہونے کے خوف سے) قرعہ ڈالا تو (دریا میں) ڈالے جانے کے لیے اس کا نام نکلا ‘ پھر نگل گئی اس کو مچھلی اور وہ (اللہ کے نزدیک قوم کے پاس سے بھاگ آنے پر ) قابل ملامت تھا۔ پس اگر یہ بات نہ ہوتی کہ وہ خدا کی پاکی بیان کرنے والوں میں سے تھا تو مچھلی کے پیٹ میں قیامت تک رہتا۔ پھر ڈال دیا ہم نے اس کو (مچھلی کے پیٹ سے نکال کر) چٹیل زمین میں اور وہ ناتواں اور بے حال تھا اور ہم نے اس پر (سایہ کے لیے) ایک بیل والا درخت اگا دیا اور ہم نے اس کو ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کی جانب پیغمبر بنا کر بھیجا۔ پس وہ ایمان لے آئے پھر ہم نے ان کو ایک مدت (پیغام موت) تک سامان زندگی سے نفع اٹھانے کا موقع دیا۔ “
{ فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْتِم اِذْ نَادٰی وَہُوَ مَکْظُوْمٌ ۔ لَوْلَا اَنْ تَدَارَکَہٗ نِعْمَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآئِ وَہُوَ مَذْمُوْمٌ ۔ فَاجْتَبَاہُ رَبُّہٗ فَجَعَلَہٗ مِنَ الصَّالِحِیْنَ ۔ } [7]
” پس اپنے پروردگار کے حکم کی وجہ سے صبر کو کام میں لاؤ اور مچھلی والے (یونس) کی طرح (بے صبر) نہ ہو جاؤ جبکہ اس نے (خدا کو) پکارا اور وہ بہت مغموم تھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ اس کے پروردگار کے فضل نے اس کو (آغوش میں ) لے لیا تھا تو وہ ضرور چٹیل میدان میں ملامت شدہ ہو کر پھینک دیا جاتا۔ پس اس کے پروردگار نے اس کو برگزیدہ کیا اور اس کو نیکوکاروں میں رکھا۔ “
مورخین اسلام اور اہل کتاب اس پر متفق ہیں کہ یونس (علیہ السلام) کے نسب سے متعلق اس سے زیادہ اور کوئی بات ثابت نہیں کہ ان کے والد کا نام متیّٰ ہے۔ اور بعض لوگوں نے کہا کہ متیٰ حضرت یونس (علیہ السلام) کی والدہ کا نام ہے مگر یہ فاحش غلطی ہے ‘ اس لیے کہ بخاری کی ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے بصراحت مذکور ہے کہ متی والد کا نام ہے۔ [8] [9] اور اہل کتاب یونس (علیہ السلام) کا نام یوناہ اور ان کے والد کا نام امتی بتاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں یونس بن متی اور یوناہ بن امتی میں کوئی نمایاں اختلاف نہیں ہے بلکہ یہ عربی اور عبرانی زبانوں کی لفظی تعبیر کا فرق ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یونس (علیہ السلام) کے زمانہ کا تعین تاریخی روشنی میں مشکل ہے ‘ البتہ بعض مورخین نے یہ کہا ہے کہ جب ایران (فارس) میں طوائف الملوکی کا دور تھا ‘ اس وقت نینویٰ میں حضرت یونس (علیہ السلام) کا ظہور ہوا۔ [10]
محققین جدید نے فارس کی حکومت کو تین عہدوں پر تقسیم کیا ہے : ایک حملہ سکندر سے قبل ‘ دوسرا پارتھوی حکومت یعنی طوائف الملوکی ‘ تیسرا ساسانی عہد۔
پہلا عہد عروج و ارتقا کا عہد شمار ہوتا ہے اور اس کی ابتدا تقریباً ٥٥٩ ق م سے سمجھی گئی ہے جو تقریباً ٣٧٢ ق م یعنی دو صدی پر جا کر ختم ہوجاتا ہے اور دوسرا عہد تقریباً ٣٧٢ ق م سے شروع ہو کر ١٥٠ ء تک پہنچتا ہے اور یہی طوائف الملوکی کا دور کہا جاتا ہے۔ ١ ؎ اور اس کے بعد ساسانی دور حکومت شروع ہوجاتا ہے۔
اس تحقیق کے پیش نظر حافظ ابن حجر کی نقل کے مطابق یونس (علیہ السلام) کا عہد ٣٧٢ ق م سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے درمیان ہونا چاہیے۔ مگر یہ قول تاریخی نقطہ نظر سے غلط ہے اس لیے کہ مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ بابلیوں کے ہاتھ اشوریوں کا یہ مشہور شہر (نینویٰ ) ٦١٢ ق م میں تباہ و برباد ہو چکا تھا۔ علاوہ ازیں اہل کتاب کی روایات یہ شہادت دیتی ہیں کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے عہد کے بعد ٦٩٠ ق م میں جب اہل نینویٰ نے دوبارہ کفر و شرک اور ظلم و ستم شروع کر دیا اور ان کی سرکشی بہت بڑھ گئی ‘ تب ایک اسرائیلی نبی ناحوم نے دوبارہ ان کو سمجھایا اور ہدایت و رشد کی دعوت دی ‘ اور جب انھوں نے کوئی پروا نہیں کی تو نینویٰ کی تباہی کی پیشین گوئی فرمائی اور اس سے ستر برس بعد ٦١٢ ق م میں نینویٰ تباہ و برباد ہو گیا۔ لہٰذا حضرت یونس (علیہ السلام) کا عہد ٦٩٠ ق م سے بھی قدیم ہونا چاہیے۔ غالباً شاہ عبد القادر نور اللہ مرقدہ کا یہ قول صحیح ہے کہ یونس (علیہ السلام) حزقیل (علیہ السلام) کے معاصر ہیں۔ چنانچہ تحریر فرماتے ہیں :
” حزقیل کے یاروں میں تھے یونس (علیہ السلام) ‘ بڑے شوق میں عبادت کی اور دنیا سے الگ حکم ہوا کہ ان کو بھیجو شہر نینوا میں مشرکوں کو منع کریں بت پوجنے سے۔ “ [11]
لیکن اس جگہ حزقیل کے نام میں عرب مورخین کو عام طور پر یہ مغالطہ ہوا ہے کہ وہ اس سے حزقیل ” بادشاہ “ سمجھے ہیں حالانکہ بنی اسرائیل میں اس نام کا کوئی بادشاہ نہیں گذرا ‘ اس لیے دراصل اس سے مراد مشہور پیغمبر حزقیل (علیہ السلام) ہیں۔
اس تحقیق سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ یونس (علیہ السلام) اسرائیلی پیغمبر ہیں۔
امام بخاریؒ نے کتاب الانبیاء میں انبیا (علیہم السلام) کے ذکر میں اپنی تحقیق کے مطابق جو ترتیب قائم کی ہے اس میں یونس (علیہ السلام) کا ذکر حضرت موسیٰ و حضرت شعیب (علیہ السلام) اور حضرت داؤد (علیہ السلام) کے درمیان کیا ہے۔
عراق کے مشہور و معروف مقام نینویٰ کے باشندوں کی ہدایت کے لیے ان کا ظہور ہوا تھا۔ نینویٰ آشوری حکومت کا پائیگاہ اور موصل کے علاقہ کا مرکزی شہر تھا۔
جس زمانہ میں یونس (علیہ السلام) نینویٰ کے باشندوں کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے وہ زمانہ آشوری حکومت کے عروج کا زمانہ تھا مگر ان کا طرز حکومت قبائلی تھا اور ہر ایک قبیلے کا جدا جدا حکمران یا بادشاہ ہوتا تھا اور نینویٰ ان قبائلی حکومتوں کے پائیگاہوں میں مرکز کی حیثیت رکھتا تھا ‘ اس لیے اپنے عروج و اقبال میں مشہور تھا۔
قرآن عزیز میں اس شہر کی مردم شماری ایک لاکھ سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ ترمذی نے بسند غریب ایک مرفوع حدیث نقل کی ہے ‘ اس میں یہ تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بتائی گئی ہے اور مجموعہ توراۃ میں جو صحیفہ یوناہ (علیہ السلام) کے نام سے موسوم ہے اس میں بھی یہی تعداد مذکور ہے۔ مگر ابن عباس ؓ ‘ سعید بن جبیر اور مکحول وغیرہ سے اَوْ یَزِیْدُوْنَ کی تفسیر میں دس ہزار سے لے کر ستر ہزار تک منقول ہے۔ ہمارے نزدیک پہلا قول راجح ہے۔
سورة انبیا میں ہے :
{ وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ } [12]
اس آیت کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض مفسرین یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ یونس (علیہ السلام) اپنی قوم سے ناراض ہو کر چلے گئے اور وحی کا انتظار اور خدا کی مرضی معلوم کیے بغیر چلے گئے۔ انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہم ان کی اس جلد بازی پر ان کو آزمائش اور تنگی میں نہ ڈالیں گے۔ اس تفسیر کے مطابق مُغَاضِبًا کا تعلق قوم سے ہے اور لَنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ کے معنی لَنْ نَّضِیْقَ عَلَیْہِ کے ہیں اور قدر بمعنی ضیق (تنگی) بکثرت مستعمل ہے۔ جمہور کا یہی قول ہے اور ابن عباس ‘ ضحاک ‘ قتادہ ‘ حسن (رض) سے یہی منقول ہے اور ابن کثیر اور ابن جریر ; کا یہی مختار قول ہے۔
اور بعض مفسرین مُغَاضِبًا کی پہلی تفسیر کے ساتھ اتفاق رکھتے ہوئے { لَنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ } میں ” قدر “ بمعنی ” تقدیر وقدرت “ لیتے ہیں اور یہ معنی کرتے ہیں ” یونس (علیہ السلام) نے سمجھا کہ ہم اس کو نہ پکڑ سکیں گے “ یہ عطیہ عوفی کا قول ہے۔ مگر اس تفسیر پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے .
کہ ایسا عقیدہ تو کفر ہے ‘ لہٰذا یہ بات جبکہ ایک مسلمان بھی نہیں سمجھ سکتا تو نبی کیسے ایسا گمان کرسکتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب مفسرین یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا معاملہ انبیا ومرسلین کے ساتھ عوام و خواص سے بالکل جدا ہے اور جو بات خواص اور صالحین کے حق میں معمولی اور قابل نظر انداز سمجھی جاتی ہے ‘ وہ انبیا (علیہم السلام) کے حق میں سخت گرفت کا باعث ہوجاتی ہے اور اسی بنا پر ان سے اگر معمولی سی لغزش بھی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے سخت سے سخت تعبیر اور اس کو بہت بڑا جرم ظاہر کرتا ہے تاکہ وہ یہ محسوس کریں کہ ان کی شان اس قدر رفیع اور خدا کے یہاں اس درجہ بلند ہے کہ معمولی سے معمولی لغزش بھی ان کی شان کے نامناسب ہے۔ مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ ان کے اس الزامی واقعہ میں ان کے متعلق ایسی بات بھی کہہ دیتا ہے جس سے یہ واضح ہوجائے کہ اگرچہ خدا کے نزدیک ان کا یہ معاملہ حددرجہ قابل گرفت و مواخذہ ہے ‘ مگر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی بارگاہ میں ان کی مقبولیت و برگزید گی میں مطلق فرق نہیں آیا اور چونکہ وہ فوراً ہی خطا پر متنبہ کر دیے جاتے اور وہ اظہار ندامت کے ساتھ عذر خواہی کر کے شرف قبولیت حاصل کرلیتے ہیں ‘ اس لیے ان کا تقرب الی اللہ اسی طرح قائم ہے۔ چنانچہ آدم ‘ نوح ‘ داؤد ‘ سلیمان اور دیگر انبیا (علیہم السلام) کے واقعات مذکورہ قرآن اس کے شاہد ہیں۔
یہاں بھی یہی صورت ہے کہ یونس (علیہ السلام) نے حقیقتاً یہ گمان نہیں کیا تھا اور نہ کرسکتے تھے لیکن چونکہ وہ نبی تھے اور وحی الٰہی کے مخاطب رہتے تھے ‘ اس لیے ان کے چلے جانے کی یہ صورت حال ان کی شان کے نامناسب تھی۔ لہٰذا خدائے تعالیٰ نے ان کی اس حالت کو ایسی سخت تعبیر کے ساتھ ظاہر فرمایا ‘ مگر ساتھ ہی ان کے واقعات میں یہ ظاہر کر کے { وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ } اور { فَجَعَلَہٗ مِنَ الصَّالِحِیْنَ } ان کی عظمت و شان اور رفعت مرتبہ کو محفوظ رکھا تاکہ کسی کو مغالطہ نہ ہونے پائے اور انبیا (علیہم السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے اس خاص معاملہ سے کسی کج فہم کو کجروی کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
بعض مفسرین کہتے ہیں کہ ” مُغَاضِبًا “ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے ‘ یعنی جب یونس (علیہ السلام) نے یہ دیکھا کہ عذاب کی مدت پر عذاب نہیں آیا تو اس بات پر خفا ہو کر چلے گئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قوم کے سامنے جھوٹا بنادیا۔ لیکن یہ معنی ہرگز صحیح نہیں اس لیے کہ جب یہ بات سب کے نزدیک تسلیم شدہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) اپنی قوم سے ناراض ہو کر اور عذاب کی پیشین گوئی کر کے نینویٰ سے چلے گئے تھے تو پھر اس صاف معنی کو چھوڑ کر ایک بے سند قصہ اس میں اور اس طرح اضافہ کرنا کہ وہ نینویٰ کی بستی سے نکل کر چھ دن جنگل میں مقیم رہے تاکہ قوم کی ہلاکت کا حال معلوم کریں اور جب شیطان نے پیر ضعیف کی شکل میں آکر عذاب ٹل جانے کی اطلاع دی تو اللہ تعالیٰ سے خفا ہو کر چل دیے اور پھر کشتی کا واقعہ پیش آیا ‘ قطعاً دور از کار اور بے محل ہے۔
حضرت شاہ عبد القادر ؒ نے اس موقع پر موضح القرآن میں جو تحریر فرمایا ہے وہ ان سب تفسیروں سے جدا روش پر مبنی ہے۔ ان کے نزدیک مُغَاضِبًا کا تعلق قوم اور اللہ تعالیٰ دونوں سے ہے اور یونس (علیہ السلام) کی خفگی کا معاملہ تین مرتبہ پیش آیا۔ ایک جب کہ ان کو نینویٰ جانے کا حکم ہوا کہ اہل شہر نے شرک و کفر اور ظلم و ستم میں طوفان برپا کر رکھا ہے اور دوسرا جب کہ وہ قوم میں رہ کر سمجھاتے رہے اور انھوں نے کسی طرح مان کر نہ دیا تو عذاب کی پیشین گوئی کر کے اور خفا ہو کر چلے گئے اور تیسرا جب کہ ان کو یہ اطلاع ملی کہ عذاب نہیں آیا اور مجھ کو جھوٹا سمجھا جائے گا۔
مگر مجھ کو اس آخری حصہ کے متعلق سخت حیرت یہ ہے کہ یونس (علیہ السلام) کو یہ تو معلوم ہو گیا ہے کہ قوم پر عذاب نہیں آیا مگر یہ معلوم نہ ہوا کہ قوم پر اس لیے عذاب نہیں آیا کہ وہ ایمان سے بہرہ یاب ہو چکی ہے اور آپ کے لیے چشم براہ ہے۔ رہا شیطان کے اطلاع دینے کا معاملہ سو اس کے لیے شرعی حجت کی ضرورت ہے جس کا اس جگہ قطعاً ثبوت نہیں ہے۔ لہٰذا یہ آخری قول تو کسی طرح بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔
حضرت شاہ صاحب نے جملہ ((اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ )) کی تفسیر میں بھی عجیب پہلو اختیار فرمایا ہے جو راجح ومرجوح اور صحیح وغیر صحیح سے قطع نظر ان کی ذکاوت طبع پر دلالت کرتا ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں :
” اور جو فرمایا : سمجھا کہ ہم نہ پکڑ سکیں گے یعنی مہربانی کے معاملہ میں اس کو راضی نہ کرسکیں گے وہ ایسا خفا ہوا اور حکومت کے معاملہ میں ہر چیز آسان ہے۔ “
یعنی یونس (علیہ السلام) نے خدا کے ساتھ نازو ادا کا ایسا پہلو اختیار کیا کہ گویا وہ اللہ تعالیٰ سے ایسے خفا ہوئے ہیں کہ اب راضی نہ ہوں گے ‘ مگر ان کو یہ حقیقت فراموش ہو گئی کہ جب وہ آزمائش کے شکنجہ میں کسے جاکر پھر خدائے تعالیٰ کی مہربانیوں میں ڈھانپ لیے جائیں گے تو ساری خفگی اور ناراضی بھول جائیں گے اور توبہ و ندامت کے ساتھ بہت جلد راضی ہوجائیں گے۔ اور پھر شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ جہاں حکومت و طاقت ہوتی ہے ‘ وہاں مشکل آسان ہوجاتی ہے اور ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے۔
1 سورة الصافات میں اہل نینویٰ کے ایمان لے آنے کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے
{ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنَاہُمْ اِلٰی حِیْنٍ } [13]
” پس وہ ایمان لے آئے پھر ہم نے ان کو ایک مدت تک کے لیے فائدہ اٹھانے دیا “
اور سورة یونس میں ہے
{ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ } [14]
” جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان پر سے وہ رسوا کن عذاب ٹال دیا جو دنیا کی زندگی میں پیش آنے والا تھا اور ایک خاص مدت تک فائدہ اٹھانے کی مہلت دے دی۔ “
ان ہر دو قرآنی آیات میں جملہ { مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ } نے مفسرین کے لیے بحث کا دروازہ کھول دیا اور جس قدر بھی احتمالات عقلی ہو سکتے تھے سبھی بیان کر دیے۔ کسی نے کہا اس سے یہ مراد ہے کہ سنت اللہ یہ جاری رہی ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آتا ہے تو پھر ٹلتا نہیں اور اس وقت کا ایمان معتبر نہیں کیونکہ وہ ” ایمان بالغیب “ نہیں ہوتا بلکہ مشاہدہ کا ایمان ہوتا ہے جیسا کہ فرعون نے غرق ہوتے وقت عذاب کے فرشتوں کو دیکھ کر کہا تھا
{ اٰمَنْتُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیْٓ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْٓا اِسْرَآئِیْلَ وَ اَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ } [15]
مگر یونس (علیہ السلام) کی قوم اس قانون سے مستثنیٰ کردی گئی اور عذاب دیکھ کر جب انھوں نے توبہ اور انابت الی اللہ کا مظاہرہ کیا تو ان پر سے عذاب ٹال دیا گیا۔ چنانچہ اس جملہ سے قبل اسی حقیقت کو واضح کیا گیا ہے
{ فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ } [16]
” پھر کیوں ایسا نہ ہوا کہ قوم یونس کی بستی کے سوا اور کوئی بستی نہ نکلی کہ ایمان لے آتی اور اس کا ایمان اس کے لیے نفع بخش ہوتا۔ “
یہ تفسیر جمہور کے نزدیک ساقط الاعتبار ہے ‘ اس لیے کہ زیر بحث آیت میں کسی جملہ سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قوم یونس پر عذاب آچکا تھا اور جب وہ عذاب میں گھر گئے تو عذاب کے مشاہدہ کے بعد خوف نے ان کو ایمان پر آمادہ کر دیا اور پھر سنت اللہ کے خلاف صرف یونس (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا کہ ان کے ایمان بالمشاہدہ کو قبول کرکے ان پر سے عذاب ہٹا لیا گیا بلکہ آیت میں تو صاف یہ کہا گیا ہے جس طرح یونس (علیہ السلام) کی قوم ایمان لے آئی اسی طرح اور بستیوں نے بھی کیوں ایمان قبول نہیں کر لیا تاکہ جس طرح قوم یونس (علیہ السلام) عذاب سے محفوظ رہی اسی طرح وہ سب بھی عذاب سے محفوظ رہتیں۔ اس مقام پر تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراضی کا اظہار فرما رہے ہیں کہ ایمان لاکر دوسری بستی کے لوگوں نے بھی قوم یونس (علیہ السلام) کی طرح کیوں خود کو عذاب سے نہ بچالیا لیکن جمہور کے خلاف تفسیر بالا یہ ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہی ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) کے سوا جس قوم نے بھی عذاب کا مشاہدہ کر کے ایمان قبول کیا ہم نے اس کے ایمان کو ردکر دیا ‘ مگر قوم یونس پر یہ مہربانی کی کہ ان کے ایمان بالمشاہدہ کو منظور کر لیا۔
ع ببیں تفاوت رہ از کجاست تا بکجا !
اور اگر کوئی شخص اس موقع پر یہ سوال کرے کہ اللہ تعالیٰ کو قوم یونس ہی کے ساتھ ایسی کیا خصوصیت تھی اور دوسری قوموں کے ساتھ کیا عداوت جس قسم کا ایمان قوم یونس (علیہ السلام) کا قبول ہوا ‘ اس قسم کا دوسری قوموں کا کیوں نہ ہوا ؟ تو نہ معلوم اس تفسیر کے قائلین اس کا کیا جواب دیں گے ؟
اور بعض مفسرین کہتے ہیں کہ چونکہ قوم یونس (علیہ السلام) نے عذاب کا مشاہدہ کر کے ایمان قبول کیا تھا ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صرف دنیا میں اس کو مقبول قرار دیا اور ان پر سے عذاب ہٹا کر دنیا کی زندگی میں مہلت دے دی مگر آخرت کا عذاب بحالہ ان پر قائم رہا۔
یہ قول بھی پہلے قول کی طرح غلط اور قرآن عزیز کے سیاق وسباق کے قطعاً خلاف ہے ‘ اس لیے کہ سورة الصافات اور سورة یونس میں { مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ } کا یہ مطلب کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ ان کا ایمان صرف دنیوی زندگی تک مفید تھا اور آخرت میں وہ کافر اور مشرک ہی شمار ہوں گے جبکہ سورة یونس میں اللہ تعالیٰ قوم یونس (علیہ السلام) کی منقبت اور گذشتہ اقوام کے ایمان نہ لانے کی مذمت ہی میں اس واقعہ کو بیان کر رہا اور شاہد بنا رہا ہے اور اس جگہ سیاق کلام ہی یہ ہے کہ دوسری اقوام کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے تھا جیسا کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم نے کیا اور جبکہ الصافات میں ان کے ایمان کو کسی بھی قید کے ساتھ مقید نہیں کیا ؟ اس کے علاوہ یہ بات بھی خاص توجہ کے لائق ہے کہ قرآن عزیز جب کبھی اٰمَنُوْا کہتا ہے تو اس سے وہی ایمان مراد لیتا ہے جو دنیا و آخرت دونوں میں اس کے نزدیک مقبول ہے۔ وہ اَسْلَمْنَا کو تو لغوی معنی میں استعمال کرتا ہے جیسا کہ اعراب مدینہ کے واقعہ میں مذکور ہے لیکن اٰمَنُوْا ‘ اٰمَنَّا کو کبھی ” ایمان معتبر “ کے سوا دوسرے معنی میں استعمال نہیں کرتا البتہ اس مقام پر مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ یا تو اس معنی میں ہے جو ہم ترجمہ میں ابن کثیر سے نقل کرچکے ہیں اور یا پھر یہ مراد ہے کہ گذشتہ اقوام کی تاریخ یہ بتارہی ہے کہ جن قوموں نے اپنے نبی اور پیغمبر کی ہدایت کو تسلیم نہیں کیا اور ان کے ساتھ ٹھٹھا کر کے ظلم و طغیان کو اسوہ بنا لیا وہ قومیں ان کے نبی کی بددعا سے ہلاک ہوگئیں اور ان کی بستیاں آنے والی قوموں کے لیے سرمایہ عبرت بنیں۔ اس لیے قرآن عزیز جب عاد ‘ ثمود ‘ قوم صالح ‘ قوم لوط وغیرہ کا ذکر کرتا ہے تو چشم عبرت سے دیکھنے والے آنکھ اٹھا کر ان بستیوں کا انجام دیکھ لیتے اور قرآن کی تصدیق کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں لیکن یونس (علیہ السلام) کی قوم کا معاملہ ایک شبہ پیدا کرتا تھا اور وہ یہ کہ اگر باشندگان نینویٰ نے ایمان قبول کر لیا تھا تو پھر خدا کے ان مقبول بندوں کی نسلیں آج بھی پھلتی پھولتی نظر آنی چاہیے تھیں مگر تاریخ بتاتی ہے کہ وہ قوم اور ان کا تمدن دنیا سے اسی طرح فنا ہو گیا جس طرح عذاب الٰہی سے ہلاک شدہ قوموں کا ‘ حتیٰ کہ نینویٰ جیسا عظیم الشان اور تاریخی شہر جو اشوری تمدن کا مرکز تھا اس طرح دنیا سے مٹ گیا کہ ٢٠٠ ق م تک دنیائے تاریخ میں اس کا صحیح جائے وقوع تک بھی بے نشان اور نامعلوم ہو گیا تھا۔ [17] لہٰذا قرآن عزیز نے اس شبہ کا جواب پہلے ہی دے دیا تاکہ شبہ کرنے والے کی نگاہ فوراً ہی تاریخ کے دوسرے ورق پر پڑجائے وہ یہ کہ یہ درست ہے کہ قوم یونس حضرت یونس (علیہ السلام) کے زمانہ میں مومن ‘ عادل اور پاکباز ہو گئی تھی ‘ لیکن ان کی حیات طیبہ کا یہ دور عرصہ تک قائم نہیں رہا اور عرصہ کے بعد ان میں کفر و شرک اور ظلم و سرکشی کا وہ تمام مواد پھر جمع ہو گیا جس کے لیے یونس (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تھے اور اس زمانہ کے اسرائیلی نبی ناحوم نے اگرچہ ان کو بہت سمجھایا اور ہدایت و رشد کی راہ دکھائی مگر اس مرتبہ گذشتہ قوموں کی طرح انھوں نے بھی سرکشی اور بغاوت کو زندگی کا نصب العین بنائے رکھا۔ تب وحی الٰہی کی روشنی میں ناحوم (علیہ السلام) نے نینویٰ کی تباہی کی خبر دی اور ان کی پیشین گوئی سے ستر برس کے اندر آشوری قوم کا تمدن اور ان کا مرکزی شہر ‘ سب بابلیوں کے ہاتھوں اس طرح فنا ہو گئے کہ نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ پس قرآن عزیز نے ایک جانب قوم یونس (علیہ السلام) کے ایمان لے آنے پر ان کی مدحت کی اور ان کو سراہا تو دوسری جانب یہ بھی اشارہ کر دیا کہ جن افراد نے یہ نیکوکاری اختیار کی ان کو ہم نے بھی سرو سامان زندگی سے نفع اٹھانے کا موقع دیا یعنی عذاب سے بچالیا لیکن قوم یونس کی یہ حالت ہمیشہ نہ رہی اور ایک زمانہ وہ آیا کہ انھوں نے پھر ظلم و ستم اور کفر و شرک کو اپنا لیا اور گذشتہ سرکش قوموں کی طرح سمجھانے کے باوجود نہ سمجھی۔ تب خدائے تعالیٰ نے بھی ان کے ساتھ وہی کیا جو ” سنت اللّٰہ “ کے مطابق ایسی قوموں کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ بہرحال جمہور علما اسلام کی تفسیر کے مطابق صحیح بات یہی ہے کہ قوم یونس (علیہ السلام) پر عذاب نہیں آیا بلکہ بعض ابتدائی آثار نمودار ہوئے تھے جن میں سب سے بڑا اثر حضرت یونس (علیہ السلام) کا عذاب کی بد دعا کر کے بستی کو چھوڑ دینا تھا ‘ جس کو قوم نے فوراً محسوس کیا اور دوسرے آثار و قرائن کو دیکھ کر یقین کر لیا کہ یونس (علیہ السلام) بیشک خدا کے سچے پیغمبر ہیں اور ایمان لے آئے اور { عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا } [18] کا مطلب یہ ہے کہ جب قوموں کی سرکیشی اور ستم کشی پر عذاب آتا ہے تو عذاب آخرت سے قبل ان کو دنیا ہی میں اس ذلت و رسوائی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے اور جب قوم یونس (علیہ السلام) مسلمان ہو گئی اور ایمان لے آئی تو وہ دنیا کی اس ذلت و خواری سے بھی بچ گئے جو ظلم و شرک کی وجہ سے ان کو پیش آنے والی تھی یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دنیا کے عذاب سے تو بچ گئی مگر آخرت کا عذاب بحالہ قائم رہا۔ حافظ ابن حجر اور ابن کثیر ; نے حضرت عبد اللہ بن مسعود ‘ عبد اللہ بن عباس ‘ مجاہد ‘ سعید بن جبیر ؓ سے یہی نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ سلف صالحین یہی تفسیر کرتے تھے۔ چنانچہ جملہ { فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَآ اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ } [19] کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (والغرض انہ لم یوجد قریۃ امنت بکمالھا بنبیھم ممن سلف من القری الا قوم یونس وھم اھل نینویٰ وما کان ایمانھم الا خوفا من وصول العذاب الذین انذرھم بہ رسولھم بعد ما عاینوا اسبابہ وخرج رسولھم من بین اظہرھم فعندھا جاروا الی اللّٰہ واستعانوا بہ۔۔ الخ)) ۔ [20]
اور غرض یہ ہے کہ گذشتہ بستیوں میں سے کوئی بستی ایسی نہ نکلی کہ اس کے باشندے اپنے نبیوں پر اس طرح ایمان کامل لے آتے جس طرح یونس کی قوم یونس (علیہ السلام) پر ایمان لے آئی اور یہ باشندگان نینویٰ تھے اور ان کے ایمان لانے کا واقعہ یہ ہے کہ ان کو اس عذاب کے آجانے کا ڈر پیدا ہو گیا تھا ‘ جس سے ان کے پیغمبر نے ان کو ڈرایا تھا ‘ جب کہ انھوں نے عذاب کے آثار محسوس کیے اور انھوں نے دیکھا کہ ان کا پیغمبر ان کے درمیان سے نکل گیا اس وقت وہ اللہ کی طرف پناہ چاہنے لگے اور انھوں نے خدا کی پناہ ڈھونڈنی شروع کردی۔
اور جملہ { مَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ } کی تفسیر میں کہتے ہیں :
(ای الی وقت اجالھم)) (تفسیر ابن کثیر ‘ سورة یونس)
” یعنی اپنی زندگی میں عذاب سے محفوظ ہو گئے ‘ رہا موت کا معاملہ تو وہ سب کے لیے ہے۔ “
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں :
( (فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ واختلف المفسرون ھل کشف عنھم العذاب الاخروی مع الدنیوی او انما کشف عنھم فی الدنیا فقط ؟ علی قولین والایمان منقذمن العذاب الاخروی وھذا ھوالظاہر الخ))
[21]
اور آیت { فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ } میں مفسرین کے دو قول ہیں : ایک یہ کہ اخروی اور دنیوی دونوں عذاب ٹل گئے تھے اور دوسرا یہ کہ صرف دنیوی ٹل گیا تھا اور اخروی بحالہ قائم رہا اور حقیقت حال یہ ہے کہ ” ایمان “ نہ صرف دنیا کے عذاب سے چھٹکارا دلاتا ہے بلکہ آخرت کے عذاب سے بھی نجات دلانے والا ہے۔ “
اور حضرت شاہ صاحب ؒ نے اس مقام پر بھی اپنے رنگ کی جدا تفسیر کی ہے ‘ مگر اس کا مآل جمہور کی تائید ہی نکلتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں :
” یعنی دنیا میں عذاب دیکھ کر ایمان لانا کسی کو کام نہیں آیا ‘ مگر قوم یونس کو ‘ اس واسطے کہ ان پر (خدا کی جانب سے) حکم عذاب نہ پہنچا تھا ‘ حضرت یونس (علیہ السلام) کی شتابی سے صورت عذاب کی نمودار ہوئی تھی وہ ایمان لائے پھر بچ گئے۔ اسی طرح مکہ کے لوگ فتح مکہ میں کہ ان پر فوج اسلام پہنچی قتل و غارت کو ‘ لیکن ان کا ایمان قبول ہو گیا اور امان ملی۔ “
[22]
حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعہ سے متنبی پنجاب (مرزا غلام احمد قادیانی) نے غلط فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ‘ وہ یہ کہ جب قادیانی نے اپنے بعض مخالفوں کو یہ چیلنج کیا کہ اگر وہ اسی طرح مخالفت کرتے رہے تو خدا کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ فلاں وقت تک ان پر عذاب الٰہی آجائے گا لیکن مخالفوں کی جانب سے اس کا جواب سوائے اس کے اور کچھ نہ ملا کہ ان کی مخالفانہ جدوجہد اور تیز ہو گئی اس کے باوجود ان پر عذاب نہیں آیا تب ناکامی کی ذلت سے بچنے کے لیے قادیانی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ چونکہ مخالف دل میں ڈر گئے ہیں اس لیے ان پر سے عذاب ٹل گیا جس طرح یونس (علیہ السلام) کی قوم پر سے ٹل گیا تھا۔
لیکن قرآن عزیز کی روشن شہادت قادیانی کے اس حیلہ کو مردود قرار دیتی ہے ‘ اس لیے کہ یونس (علیہ السلام) کی قوم نے تو عذاب آنے سے قبل ہی علی الاعلان ایمان قبول کر لیا ‘ یونس (علیہ السلام) کو پیغمبر صادق مان کر ان کی جستجوشروع کردی اور ان کے واپس آنے پر ان کی پیروی کو دین و ایمان بنالیا۔ مگر قادیانی حریفوں نے نہ صرف مخالفت باقی رکھی بلکہ قادیانی مشن کے خلاف جدوجہد کو اور تیز کر دیا۔ لہٰذا قادیانی کا اپنے جھوٹے دعویٰ کے لیے یونس (علیہ السلام) کے واقعہ سے دلیل لانا اور اس کی آڑ لے کر کذب بیانی کو چھپانا بے سود کوشش اور قیاس مع الفارق ہے اور اگر بفرض محال یہ تسلیم کر لیا جائے کہ قادیانی کے مخالف دل میں ڈر گئے تھے تو کیا جو شخص دل میں کسی کی صداقت کا یقین رکھتا ہو مگر اپنے قول و عمل سے اس کا انکار کرتا رہے مومن کہلایا جا سکتا ہے ؟ اگر ایسا ہو سکتا تو جن یہود کے متعلق قرآن نے اعلان کیا { یَعْرِفُوْنَہٗ کَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآئَھُمْ } [23] ” وہ (یہود) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (یعنی ان کو پیغمبر ہونے کو) اسی طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کے اولاد ہونے کا یقین رکھتے ہیں “ وہ مومن کیوں نہ کہلائے ؟
کیا یونس (علیہ السلام) کی صداقت اور مرزا قادیانی کی کذب بیانی کے درمیان یہ نمایاں فرق کافی نہیں ہے کہ یونس (علیہ السلام) جب قوم کی جانب واپس آتے ہیں تو جس قوم کو خدا کا دشمن ‘ رسول کا دشمن اور متمرد و سرکش چھوڑ گئے تھے ‘ اس کو مومن صادق ‘ مطیع و فرمان بردار ‘ اپنی آمد پر ان کو انتہائی مسرور پایا۔ مگر قادیانی نے یہ دیکھا کہ اس کے چیلنج کے بعد مخالف تحریر و تقریر اور عملی زندگی میں پہلے سے زیادہ مخالف ہو گئے ہیں اور مزید برآں یہ کہ ان میں سے بعض آج تک بصد عزت و احترام زندہ ہیں اور خود مرزا قادیانی ایسے مرض میں مبتلا ہو کر جو بعض قوموں کے لیے عذاب کی شکل میں نمودار ہو چکا ہے عرصہ ہوا دنیا کو خیر باد کہہ چکے۔
ع ببیں تفاوت رہ از کجا ست تا بکجا 1
3 سورة الصافات میں ہے
{ وَاَرْسَلْنَاہُ اِلٰی مِأَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ ۔ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنَاہُمْ اِلٰی حِیْنٍ ۔ } [24]
اور اس سے قبل یہ آیت ہے
{ فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَہُوَ مُلِیْمٌ} [25]
چنانچہ آیات کی اس ترتیب کے پیش نظریہ سوال پیدا ہوا کہ یونس (علیہ السلام) کی بعثت مچھلی کے حادثہ سے قبل ہو چکی تھی یا اس کے بعد ہوئی ؟ ابن جریر نے حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ یونس (علیہ السلام) کی بعثت مچھلی کے حادثہ کے بعد ہوئی ہے اور مجاہد کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے قبل نبوت عطا ہو چکی تھی اور وہ نینویٰ میں تبلیغ کے لیے جا چکے تھے اور بغوی کہتے ہیں کہ یونس (علیہ السلام) مچھلی کے حادثہ سے قبل تو نینویٰ کے باشندوں کے لیے مبعوث ہوئے تھے اور مچھلی کے حادثہ کے بعد ایک دوسری امت کی جانب بھیجے گئے اور قرآن عزیز میں ایک لاکھ سے زائد اسی دوسری امت کی تعداد بیان کی گئی ہے ‘ یہ باشندگان نینویٰ کی مردم شماری کا ذکر نہیں ہے۔
بغوی کی یہ رائے بے سند ہے اس لیے کہ قرآن عزیز میں اشارہ تک نہیں پایا جاتا کہ یونس (علیہ السلام) دو جداجدا قوموں کی جانب مبعوث ہوئے تھے۔ رہا ترتیب آیات کا معاملہ تو وہ فصاحت و بلاغت کے اصول کے عین مطابق ہے۔ اس لیے کہ زیر بحث آیات میں اول یونس (علیہ السلام) کی رسالت و بعثت کا ذکر ہے اور پھر قوم سے ناراض ہو کر چلے جانے ‘ کشتی میں بیٹھنے بھنور میں آجانے کی وجہ سے قرعہ اندازی ہونے ‘ قرعہ یونس (علیہ السلام) کے نام پر نکلنے ‘ دریا میں کودنے کے بعد مچھلی کے پیٹ میں رہنے ‘ بعد میں صحیح سلامت مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکل آنے اور خدا کی مہربانیوں کے آغوش میں آکر شاد کام واپس لوٹنے کا تذکرہ ہے اور اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے جس قوم کی جانب ان کو بھیجا گیا تھا وہ چند افراد نہیں تھے بلکہ بہت بڑی تعداد تھی جن کا انجام یہ نکلا کہ وہ ایمان لے آئے اور آنے والے عذاب سے محفوظ ہو کر اپنی زندگی سے بہرہ مند ہوئے۔
لہٰذا آیات میں نہ تقدیم و تاخیر ہے اور نہ اس ترتیب سے یہ لازم آتا ہے کہ بقول بغوی وہ ایک دوسری امت تھی جس کا ذکر ((مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ )) میں کیا گیا ہے۔
اسی طرح مچھلی کے حادثہ سے قبل اور بعد بعثت کا مسئلہ بھی صاف ہے اور اس میں دورائے کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ابن کثیر نے ہر دو اقوال کی تطبیق میں جو کچھ کہا ہے وہی حقیقت ہے۔ یعنی یونس (علیہ السلام) مچھلی کے واقعہ سے قبل اہل نینویٰ کی جانب نبی بنا کر بھیجے گئے اور جب وہ خفا ہو کر چلے آئے تو مچھلی کا حادثہ پیش آیا۔ اس حادثہ سے متنبہ ہو کر جب انھوں نے خدائے تعالیٰ کی طرف اظہار ندامت کے ساتھ رجوع کیا تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے شرف قبولیت عطا ہوا اور ان کو حکم ہوا کہ وہ اپنی قوم کی جانب واپس جائیں کیونکہ وہ ایمان لے آئی ہے اور واپس جا کر اس کی رہنمائی کریں۔
صحیفہ یوناہ (یونس) میں ان اقوال سے الگ یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو اہل نینویٰ کی ہدایت کے لیے مامور کیا ‘ مگر وہ ترسیس کو بھاگ گئے اور اسی سفر میں مچھلی کا واقعہ پیش آیا تب وہ متنبہ ہوئے اور پھر ان کو حکم ہوا کہ نینویٰ جاؤ اور اپنا فرض انجام دو۔ یونس (علیہ السلام) نے وہاں جا کر تبلیغ کی اور قوم کے نہ ماننے پر ان کو چالیس دن مقرر کر کے عذاب الٰہی سے ڈرایا اور خود دور جنگل میں چلے آئے مگر قوم فوراً ایمان لے آئی اور بادشاہ سے لے کر رعایا تک نے ٹاٹ کے کپڑے پہن لیے اور انسانوں اور جانوروں کے بچوں کو ماؤں سے علاحدہ کر دیا اور میدان میں نکل کر توبہ و استغفار اور آہ وزاری کرنے اور یونس کی تلاش میں دوڑنے لگے۔ ادھر یونس (علیہ السلام) کو یہ معلوم ہوا کہ چالیس دن گذر گئے اور عذاب نہیں آیا تو اللہ تعالیٰ سے رنجیدہ ہو کر دور نکل گئے اور خدا کی درگاہ میں عرض کیا میں اسی خیال سے ترسیس بھاگ گیا اور نینویٰ نہیں آیا تھا کہ میں جانتا تھا کہ تو بہت مہربان اور عذاب میں دھیما ہے اور تو رحیم و کریم ہے۔ اب میں جھوٹا بنا اور اب مجھ کو موت دے دے کہ میرا مرنا میرے جینے سے بہتر ہے اور چھپر ڈال کر وہیں رہنا شروع کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سایہ کے لیے رینڈی کا بیل دار درخت اگا دیا ‘ جس کو دیکھ کر یونس (علیہ السلام) بہت خوش ہوئے۔ دوپہر دن کے بعد کیڑے نے اس کی جڑ کو کاٹ دیا اور وہ سوکھ گیا۔ یونس (علیہ السلام) کو بے حد رنج ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یونس تم ایک معمولی رینڈی کے درخت کے خشک ہونے پر اس قدر رنجیدہ ہو اور کیا میں اتنے بڑے شہر پر جس کی مردم شماری ایک لاکھ بیس ہزار ہے شفقت و مہربانی نہ کرتا۔
توراۃ میں یہ صحیفہ ” یوناہ نبی کی کتاب “ کے نام سے موسوم اور چھوٹے چھوٹے چار ابواب پر مشتمل ہے ‘ جس میں یہی واقعہ مذکور ہے۔ اس صحیفہ کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے :
اور خداوند کا کلام یوناہ بن امتی کو پہنچا اور اس نے کہا کہ اٹھ اس بڑے شہر نینوہ کو جا اور اس کی مخالفت میں منادی کر ‘ کیونکہ ان کی شرارت میرے سامنے اوپر آئی۔ “
اور صحیفہ کا مضمون اس عبارت پر آکر ختم ہوتا ہے :
اور خدا نے یوناہ (یونس) کو کہا کیا تو اس رینڈی کے درخت کے سبب شدت سے رنجیدہ ہے ؟ اس نے کہا کہ میں یہاں تک رنجیدہ ہوں کہ مرنا چاہتا ہوں۔ تب خداوند نے فرمایا کہ تجھے اس رینڈی کے درخت پر رحم آیا جس کے لیے تو نے کچھ عزت نہ کی اور نہ تو نے اسے اگایا جو ایک ہی رات میں اگا اور ایک ہی رات میں سوکھ گیا اور کیا مجھے لازم نہ تھا کہ میں اتنے بڑے شہر نینوہ پر جس میں ایک لاکھ بیس ہزار آدمیوں سے زیادہ ہیں جو اپنے دائیں بائیں ہاتھ کے درمیان امتیاز نہیں کرسکتے اور مواشی بھی بہت ہیں شفقت نہ کروں۔ “ [26]
قرآن عزیز اور اس صحیفہ کے واقعات میں بہت کچھ تطابق ہے لیکن تفصیلات میں جس جس جگہ اختلاف ہے ‘ اس میں قرآن عزیز کا قول ہی درست ہے کیونکہ قرآن کی اطلاع علم الیقین (وحی الٰہی) پر مبنی ہے اور صحیفہ محرف مجموعہ کا ایک جزء ہے اور یونس کا صحیفہ ہدایت نہیں ہے بلکہ کسی دوسرے کا مضمون ہے جس میں یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کو معرض تحریر میں لایا گیا ہے۔
یونس (علیہ السلام) نے اہل نینویٰ کو جس عذاب سے ڈرایا تھا اس کی تعیین مدت میں مختلف اقوال ہیں یعنی تین ‘ سات اور چالیس۔ ابن کثیر تین کو ترجیح دیتے ہیں اور شاہ عبد القادر چالیس کو۔ صحیفہ یوناہ میں بھی چالیس دن مذکور ہیں۔
شروع میں کہا جا چکا ہے کہ قرآن عزیز میں یونس (علیہ السلام) کا ذکر جن سورتوں میں مذکور ہے ان میں سے سورة انبیا اور القلم میں نام کی بجائے صفت کے ذریعہ ان کا تعارف کرایا گیا ہے۔ سورة انبیا میں ذوالنون کہا گیا ہے اس لیے کہ قدیم عربی میں نون مچھلی کو کہتے ہیں اور القلم میں صاحب الحوت سے یاد کیا گیا اور حوت بھی مچھلی کو کہتے ہیں کیونکہ ان پر مچھلی کا حادثہ گذرا تھا اس لیے ” مچھلی والا “ ان کا لقب ہو گیا۔
شاہ عبد القادر نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں کہ یونس (علیہ السلام) کی وفات اسی شہر میں ہوئی جس کی جانب وہ مبعوث ہوئے یعنی نینویٰ میں اور وہیں ان کی قبر تھی۔
اور عبد الوہاب نجار کہتے ہیں کہ فلسطین کے علاقہ میں جو مشہور شہر خلیل ہے اس کے قریب ایک بستی حلحول کے نام سے معروف ہے ‘ اس میں ایک قبر ہے جس کو یونس (علیہ السلام) کی قبر بتایا جاتا ہے اور اسی قبر کے قریب دوسری قبر ہے اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ یونس (علیہ السلام) کے والد متی کی قبر ہے۔
ہمارے خیال میں شاہ صاحب کا قول صحیح ہے۔ اس لیے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) کے متعلق جس قدر واقعات بھی بہم پہنچ سکے ہیں وہ سب متفق ہیں کہ یونس (علیہ السلام) دوبارہ نینویٰ واپس تشریف لے گئے اور انھوں نے اپنی قوم کے اندر ہی زندگی گزار دی۔ لہٰذا قرین صواب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا انتقال نینویٰ ہی میں ہوا اور وہیں ان کی قبر ہوگی جو نینویٰ کی تباہی کے بعد نامعلوم ہو گئی اور بعد میں خوش اعتقادی کے نقطہ نظر سے حلحول کی غیر معروف دو قبروں کو یونس (علیہ السلام) اور ان کے والد متی کی قبر بنادیا گیا ‘ آج بھی بعض مشاہیر اولیاء اللہ کے نام سے ایک بزرگ کی متعدد مقامات پر قبریں موجود ہیں اور ایسا تو کثرت سے ہے کہ غیر معروف بزرگوں کے نام سے بہت سی قبروں کو غلط منسوب کر کے اپنے دنیوی اغراض کو پورا کیا جاتا ہے۔
احادیث صحیحہ میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یونس (علیہ السلام) کا ذکر خیر کرتے ہوئے ان کی عظمت و فضیلت کا خصوصی اظہار فرمایا ہے ‘ چنانچہ بخاری میں منقول ہے :
(عن عبد اللّٰہ (بن مسعود) عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال : لا یقولن احدکم انی خیر من یونس بن متی))
[27]
نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہرگز یہ نہ کہے کہ میں (یعنی نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)) بہتر ہوں یونس بن متی سے۔ “
اور حضرت ابوہریرہ (رض) سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک یہودی سامان فروخت کررہا تھا کسی شخص نے کچھ خرید کر جو قیمت دینی چاہی وہ اس کی مرضی کے خلاف تھی وہ کہنے لگا قسم بخدا جس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو افضل بشر بنایا میں اس قیمت پر اپنی چیز کو فروخت نہیں کروں گا۔ ایک انصاری نے یہ سنا تو غصہ میں یہودی کے ایک طمانچہ رسید کر دیا اور کہا تو ایسی بات کہتا ہے درآنحالیکہ ہمارے درمیان نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں۔ یہودی فوراً دربار رسالت میں حاضر ہوا اور فریاد کرنے لگا : ابو القاسم ! جبکہ میں آپ کے عہد اور ذمہ میں ہوں تو اس انصاری نے میرے منہ پر طمانچہ کس لیے مارا ؟ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصاری سے وجہ دریافت فرمائی اور جب انصاری نے واقعہ سنایا تو چہرہ مبارک غصہ سے سرخ ہو گیا اور فرمایا : انبیا (علیہم السلام) کو ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو اس لیے کہ جب اول صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان کے درمیان جو بھی جاندار ہیں وہ سب بے ہوش ہوجائیں گے مگر جن کو خدا مستثنیٰ کر دے۔ اس کے بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا تو سب سے پہلے جو شخص ہوش میں آئے گا وہ میں ہوں گا۔ مگر میں جب غشی سے بیدار ہوں گا تو دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کے سہارے کھڑے ہیں۔ اب میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا ان کی غشی کا معاملہ طور کے واقعہ میں محسوب ہو گیا کہ وہ غشی سے محفوظ رہے یا وہ مجھ سے پہلے ہوش میں آگئے اور میں نہیں کہتا کہ کوئی نبی بھی یونس بن متی سے افضل ہے۔
ان روایات میں خصوصیت کے ساتھ حضرت یونس (علیہ السلام) کا جو ذکر آیا ہے تو اس پر علما کا اتفاق ہے کہ یہ صرف اس لیے تاکہ جو شخص بھی حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعات کا مطالعہ کرے اس کے دل میں ذات اقدس کے متعلق تنقیص کا کوئی پہلو بھی نہ آنے پائے پس ضروری ہوا کہ ان کی عظمت شان کو نمایاں کر کے تنقیص کے اس خدشہ کا سدباب کر دیا جائے۔ [28]
مگر اس مقام پر یہ مسئلہ ضرور حل طلب پیش آجاتا ہے کہ دوسری حدیث میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی فضیلت سے متعلق آپ نے جو تفصیل ارشاد فرمائی اور ((لا تفضلوا بین الانبیاء)) فرما کر انبیا (علیہم السلام) کے درمیان فضیلت کی نفی فرمادی تو اس مسئلہ کی حقیقت کیا ہے ؟
مسئلہ زیربحث کو زیادہ نمایاں کرنے کے لیے یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک جانب قرآن عزیز میں ارشاد ہے :
{ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ } [29]
یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیا و رسل میں باہم افضل و مفضول کی نسبت قائم کی ہے اور باہم یک دگر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ نیز نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ((انا سید ولد آدم ولا فخر)) یعنی بغیر کسی فخر و مباہات کے کہتا ہوں کہ میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں۔ اور دوسری جانب آپ یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ ((لا تفضلوا بین الانبیاء)) اور ((لا یقولن احدکم انی خیر من یونس بن متی)) یعنی نہ انبیا کے درمیان افضل و مفضول کے درجات قائم کرو اور نہ ایک کو دوسرے پر فضیلت دو اور نہ مجھ کو یونس بن متی اور موسیٰ (علیہ السلام) پر فضیلت دو تو ان نصوص قرآنی اور حدیثی کے درمیان کس طرح مطابقت ہو سکتی ہے۔
اس مسئلہ کے حل میں محدثین اور شارحین حدیث سے متعدد اقوال منقول ہیں ‘ مثلاً ان دونوں مضامین کے درمیان تطبیق کی شکل یہ ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا وہ ارشاد گرامی جس میں انبیا (علیہم السلام) کے یا ہم یک دگر فضیلت یا ذات اقدس کو کسی نبی پر فضیلت کی ممانعت مذکور ہے ‘ اس زمانہ کے ارشادات ہیں جبکہ سورة بقرہ کی اس آیت کا نزول نہیں ہوا تھا اور نہ آپ کو فضائل انبیا خصوصاً تمام انبیا (علیہم السلام) پر اپنی فضیلت کا ہنوز علم ہوا تھا۔
لیکن یہ جواب یا مسئلہ کا حل بہت کمزور بلکہ ساقط الاعتبار ہے ‘ اس لیے کہ یہودی کا یہ واقعہ یا یونس (علیہ السلام) کی فضیلت سے متعلق روایات کا سلسلہ اس زمانہ سے تعلق رکھتا ہے جو مدنی زندگی کے آخری سال کہلاتے ہیں اور ان سے قبل انبیا (علیہم السلام) کے مابین فضائل کے بہت سے واقعات خود ذات اقدس سے منقول ہو چکے ہیں۔
دوسرا حل یہ پیش کیا گیا کہ اگرچہ ان روایات میں سے بعض طریقہ ہائے سند میں فضیلت انبیا سے متعلق عام الفاظ منقول ہیں یعنی ((لا تفضلوا بین الانبیاء)) مگر درحقیقت اس ارشاد گرامی کا مقصد صرف ذات اقدس ہے جیسا کہ یہودی کے واقعہ اور یونس (علیہ السلام) کے متعلق روایت سے ظاہر ہوتا ہے اور اگرچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جانتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام اولاد آدم پر فضیلت عطا فرمائی ہے ‘ تاہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تواضع اور انکسار کے طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے۔
مگر یہ جواب بھی قوی نہیں ہے ‘ اس لیے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب مسطورہ بالا جملہ میں مسئلہ کو عام ذکر فرمایا ہے تو بے دلیل اس کو فقط ذات اقدس کے ساتھ مخصوص کردینے کے کوئی معنی نہیں۔
تیسرا جواب یہ دیا گیا ہے کہ جن روایات میں انبیا (علیہم السلام) کے باہم ایک دوسرے پر فضیلت کا انکار کیا گیا ہے ‘ اس سے نفس نبوت کی فضیلت مراد ہے ‘ خصائص وصفات کے لحاظ سے افضل و مفضول ہونے کا انکار نہیں ہے ‘ جیسا کہ خود سورة بقرہ ہی میں مومن کی شان یہ بیان کی گئی ہے :
{ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ } [30]
یعنی ہم کسی بھی نبی اور رسول کے درمیان کوئی فرق جائز نہیں سمجھتے اور یہ نہیں کرتے کہ خدا کے سچے نبیوں میں سے ایک کو مانیں اور دوسرے کا انکار کریں۔
مگر یہ جواب اس وقت دلچسپ ہو سکتا تھا جب کہ آپ کا ارشاد گرامی ایسے واقعہ سے متعلق ہوتا جس میں کسی سچے پیغمبر کے نبی ماننے نہ ماننے پر قضیہ پیش آتا۔ لیکن یہودی کے واقعہ میں تو نفس نبوت کی بحث نہیں تھی بلکہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے افضل و مفضول ہونے کی بحث تھی۔
لہٰذا اس مسئلہ کا بہترین حل یہ ہے کہ بلاشبہ انبیا ورسل ۔ کے درمیان درجات فضائل موجود ہیں اور ان کے مابین افضل و مفضول کی نسبت قائم ہے اور یقیناً نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیا ورسل ۔ سے افضل ہیں پھر مسطورہ بالا روایات میں آپ سے جو انبیا (علیہم السلام) کے درمیان فضیلت دینے کی ممانعت مذکور ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی کو دوسرے نبی پر اس طرح کی فضیلت دینا سخت ممنوع ہے جس سے مفضول نبی کی تنقیص لازم آتی ہو۔ یعنی یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کسی پیغمبر کی محبت کے جوش میں دوسرے انبیا کا مقابلہ کرتے ہوئے ایسی مدحت و منقبت کی جائے جس سے دوسرے پیغمبر کی شان رفیع کی تنقیص کا پہلو نکلتا ہو۔ نیز ایسے موقع پر فضیلت کی بحث کی ممانعت کی گئی ہے جبکہ یہ مسئلہ مجادلہ اور مناظرہ کی شکل اختیار کرلے کیونکہ ایسی صورت میں احتیاط کے باوجود انسان بے قابو ہو کر دوسرے پیغمبر کے متعلق ایسی باتیں کہہ جائے گا جو ان کی توہین یا تنقیص کا باعث ہوتی ہوں اور نتیجہ میں ایمان کی جگہ کفر لازم کرتی ہوں۔ چنانچہ جس واقعہ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارشاد فرمایا تھا وہ اسی قسم کے مجادلہ کا موقع تھا۔ باقی انبیا (علیہم السلام) کے درمیان اللہ تعالیٰ نے بعض خصائص کے اعتبار سے فرق مراتب قائم کیا ہے اور جس کے متعلق خود یہ فرمایا ہے :
{ تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ } [31]
تو یہ امر محبوب ہے نہ کہ ممنوع۔
اس حقیقت کو پیش نظر رکھ کر اس مسئلے سے متعلق حافظ ابن حجر نے جو بحث نقل فرمائی ہے وہ بھی قابل مطالعہ ہے۔ ارشاد فرماتے ہیں :
(قال العلماء فی نھیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عن التفضیل بین الانبیاء انما نھی عن ذلک من یقولہ برأیہ لا من یقولہ بدلیل اومن یقولہ بحیث یودی الی تنقیص المفضول او یودی الی خصومۃ والتنازع اوالمراد لا تفضلوا بجمیع انواع الفضائل بحیث لا یترک للمفضول فضیلۃ فالامام مثلاً اذا قلنا انہ افضل من المؤذن لا یستلزم نقص فضیلۃ المؤذن بالنسبۃ الی الاذان و قیل النھی عن التفضیل انما ھو فی حق النبوۃ نفسھا کقولہ تعالیٰ ” لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ “ ولم ینہ عن تفضیل بعض الذوات علی بعض لقولہ تعالیٰ ” تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ “ وقال الحلیمی الاخبار الواردۃ فی النھی عن التخییر انماھی فی مجادلۃ اھل الکتاب و تفضیل بعض الانبیاء علی بعض بالمخایرۃ لان المخایرۃ اذا وقعت بین اھل دینین لا یومن ان یخرج احدھما الی الازدراء بالاخر فیفضی الی الکفر فاما اذا کان التخییر مستندا الی مقابلۃ الفضائل لتحصیل الرجحان فلا یدخل فی النھی)) [32]
” نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو انبیا (علیہم السلام) کے درمیان فضیلت دینے کی ممانعت فرمائی ہے تو علما اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ ایسی فضیلت ممنوع ہے جو اپنی رائے سے اختراع کی جائے۔ وہ فضیلت منع نہیں ہے جو دلیل شرعی پر قائم ہو یا وہ منع ہے جو اس طرح ادا کی جائے جس نبی پر فضیلت دی جارہی ہے اس کی شان میں نقص پیدا کرتی ہو یا خصومت اور جھگڑے کا باعث بنتی ہو یا ایسی فضیلت دینے کی ممانعت ہے جو ایک نبی کے اندر اس طرح تمام فضائل کو جمع کرتی ہو کہ اس سے یہ لازم آجائے کہ دوسرے نبی کو کوئی فضیلت حاصل ہی نہیں ہے۔ مگر ایسی فضیلت کہ مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ ” امام کو موذن پر فضیلت ہے تو اس سے موذن کی شان کا نقص لازم نہیں آتا۔ “ جائز ہے ایک قول ضعیف یہ بھی ہے کہ اس ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ نفس نبوت میں ایک دوسرے پر فضیلت نہ دو جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے { لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ } [33] لیکن بعض ذوات گرامی کو بعض پر ان کی ذاتی خصوصیات کے لحاظ سے فضیلت دینا ممنوع نہیں ہے۔
جیسا اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ثابت ہے : { تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ } [34]
اور حلیمی کہتے ہیں : جو احادیث انبیا (علیہم السلام) کے درمیان فضیلت دینے کی ممانعت کرتی ہیں وہ ایسے مواقع کے متعلق ہیں جبکہ اہل کتاب سے انبیا کے متعلق مجادلہ اور جھگڑا ہو رہا ہو یا مسلمان اور عیسائی مثلاً اپنے نبی کو دوسرے پر ترجیح دے رہے ہوں ‘ کیونکہ ایسی صورت میں جب دو مذہبوں کے درمیان بحث آجاتی ہے تو یہ مشکل ہوجاتا ہے کہ ایسی بات زبان سے نہ نکلے جو دوسرے مذہب کے نبی کی شان میں توہین کا باعث ہو اور کفر کا سبب بنے (اس لیے کہ مسلمان کے لیے تو واجب ہے کہ مذاہب کے تمام سچے نبیوں کو اپنا نبی سمجھے) لیکن اگر مقصد یہ ہو کہ انبیا (علیہم السلام) کے باہم فضائل کی بحث سے ایک دوسرے کی حقیقی ترجیح کو ثابت کرے تو یہ منع نہیں ہے۔ “
حضرت یونس (علیہ السلام) کے واقعہ کا اگر بہ نظر بصیرت و موعظت مطالعہ کیا جائے تو حسب ذیل حقائق و اضح طور پر سامنے آجاتے ہیں :
قوموں کی رشد و ہدایت کے متعلق یہ ” سنت اللہ “ ہے کہ جب وہ نبی کی دعوت سے منہ موڑ کر انکار و جحود پر اصرار کرنے لگتیں اور ظلم کیشی و ستم شعاری کو اسوہ بنالیتی ہیں اور نبی مایوس ہو کر ان کو عذاب کی اطلاع دے دیتا ہے تو پھر امت کے لیے صرف دو راہیں باقی رہ جاتی ہیں ‘ یا عذاب آنے سے قبل ایمان لے آئے اور عذاب سے محفوظ ہوجائے یا عذاب الٰہی کا شکار ہوجائے اور یہ ناممکن ہے کہ نبی کی اطلاع عذاب کے بعد وہ عذاب سے قبل ایمان بھی نہ لائیں اور عذاب سے محفوظ ہوجائیں۔ قوم نوح ‘ قوم صالح ‘ قوم لوط ‘ قوم عاد ‘ قوم ثمود وغیرہ ان سب امم ماضیہ اور اقوام سالفہ کا عظیم الشان تمدن ‘ بلندو وقیع تہذیب ‘ قہرمانہ طاقت و قوت اور پھر عذاب الٰہی سے ان کا یک بیک فنا ہو کر بے نام و نشان ہوجانے کی تاریخ اس حقیقت کو آشکارا کرتی ہے۔
1 گذشتہ اقوام میں سے قوم یونس (علیہ السلام) کی ایک مثال ایسی ہے جس نے عذاب آنے سے قبل ایمان کو قبول کر لیا اور وہ خدا کی سچی مطیع و فرمان بردار ہو کر عذاب الٰہی سے محفوظ ہو گئی۔ کاش کہ بعد میں آنے والی نسلیں اور قومیں قوم یونس (علیہ السلام) کے قدم پر چل کر اسی طرح عذاب الٰہی سے محفوظ رہ سکتیں مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔
2 انبیا (علیہم السلام) کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ عوام و خواص دونوں سے جدا رہتا ہے اور رہنا بھی چاہیے اس لیے کہ وہ براہ راست خدا کے ساتھ شرف مخاطبت و مکالمت رکھتے ہیں ‘ لہٰذا احکام الٰہی کے امتثال کی وہ ذمہ داری جو ان سے وابستہ ہوتی ہے وہ دوسروں کے ساتھ نہیں ہوتی۔ پس ان کا فرض ہے کہ جو کام بھی انجام دیں وحی الٰہی کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ خصوصاً تبلیغ دین اور پیغام حق سے متعلق تمام معاملات میں وحی الٰہی کے علم الیقین ہی پر ان کا معاملہ معلق رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کسی کام میں عجلت کر گزرتے ہیں یا انتظار وحی کے بغیر کسی قول و عمل پر اقدام کر جاتے ہیں تو خواہ وہ بات کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو ان سے اللہ تعالیٰ بہت سخت مواخذہ کرتا اور ان کی اس صورت حال کے لیے ایسی سخت تعبیر روا رکھتا ہے کہ سننے والے کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ حقیقتاً انھوں نے کوئی عظیم الشان جرم کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی اس کی اعانت بھی ان کے شامل حال رہتی ہے اور وہ فوراً متنبہ ہو کر اعتراف ندامت کے ساتھ عفو تقصیر کے لیے دست بہ دعا ہوجاتے ہیں اور انابت و توبہ کو وسیلہ کاربنالیتے ہیں جو بہت جلد خدائے تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوجاتی اور ان کی عزت و احترام کے ازدیاد کا باعث بن جاتی ہے۔
قرآن عزیز کے اسلوب بیان میں یہ حقیقت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور جو اس حقیقت سے نا آشنا ہوتا ہے ‘ اس کے لیے اس قسم کے مواقع سخت خلجان کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ ایک طرف وہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہستی کو نبی اور رسول کہہ کر اس کی مدحت کررہا ہے اور دوسری جانب یہ نظر آتا ہے کہ گویا وہ بہت ہی بڑے جرم کا مرتکب ہے تو وہ حیران و مضطرب ہو کر یا کجروی میں پڑجاتا ہے یا وسا وس کے تاریک میدان میں گھر جاتا ہے۔ اس لیے ازبس ضروری ہے کہ انبیا (علیہم السلام) کے وقائع و اخبار میں ہمیشہ اس حقیقت کو پیش نظر رکھا جائے تاکہ صراط مستقیم سے پاؤں نہ ڈگمگا جائیں۔
3 اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خدا کے سچے نبی اسلام کے اپنے نبی ہیں ‘ خواہ وہ کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہوں اور ان پر اسی طرح ایمان لانا ضروری ہے جس طرح نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانا۔ لہٰذا اس کا یقین رکھتے ہوئے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیا ورسل کے سردار اور افضل البشر ہیں کسی نبی کے مقابلہ میں آپ کی ایسی مدحت و منقبت سخت ممنوع ہے جس سے کسی نبی کی بھی تنقیص ہوتی ہو جیسا کہ عام طور پر میلاد کی مروجہ مجالس میں اس اہم حقیقت سے نا آشنا میلاد خوانوں کے اشعار میں یہ ممنوع طریقہ شائع ذائع ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.