گول میز کانفرنس (تحریک آزادی ہند)
From Wikipedia, the free encyclopedia
جون 1929ء میں برطانیہ کے عام انتخابات کے نتیجے میں ریمزے میڈونلڈRamazy Mac Donald وہاں کے وزیر اعظم مقرر ہوئے۔ ہندوستان کے بارے میں نئے وزیر اعظم نے اپنے مشیروں کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد سر جان سائمن کی سفارش منظور کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ برطانوی ہند میں آئینی تعطل کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہاں کے لیڈروں کو لندن مدعو کیا جائے تاکہ اگرہو سکے تو آئین کے بارے میں ان کی باہمی رضامندی کو حاصل کیا جائے۔ یاد رہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی نئے وزیر اعظم کو کچھ کرنے کا مشورہ دیا تھا کہ ہندوستان کے آئینی مسئلے کو حل کرنے کے لیے متعلقہ فریقین کے درمیان میں بات چیت کو ازسرنو شروع کیا جانا چاہیے۔
ہندوستان کے اس وقت کے وائسرے لارڈ ارون Lord Irwinنے جب اس فیصلے کا اعلان کیا تو قائد اعظم اور آپ کے ہم خیال لیڈروں نے اس کا خیر مقدم کیا جس کے نتیجے میں کانگریس کی طرف سے اس پر نکتہ چینیاں شروع و گئیں۔ کانگریسی سورماؤں نے اسے ’’لین دین‘‘ کے عمل میں پہلے قدم سے تعبیر کیا، لیکن کافی غور و خوص کے بعد کانگریسی لیڈر شپ نے مشروط طور پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا اور مجوزہ کانفرنس میں شرکت کے لیے مندرجہ ذیل شرائط پیش کیں۔
1۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے
2۔ مجوزہ گول میز کانفرنس میں کانگریس کو مؤثر نمائندگی دی جائے۔
3۔ کانفرنس محض آئین کے بارے میں اصول پر بحث کرنے کی بجائے ایک نو آبادیاتی طرز کے آئین کو مرتب کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
4۔ جتنا جلد ممکن ہو سکے ہندوستان میں ایک نوآبادیاتی طرز کی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
یاد رہے کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان میں آئین کے بارے میں بنیادی اختلاف اس بات پر تھا کہ کانگریسی راہنما ایک ایسے آئین کو وضع کرنا چاہتے تھے جس کی رو سے زیادہ سے زیادہ اختیارات مرکزی حکومت کے پاس آ جاتے۔ لیکن اس کے برعکس مسلم لیگ کے زعماء ایک ایسے آئین کو چاہتے تھے جس کی رو سے زیادہ سے زیادہ اختیارات صوبوں کو مل جاتے۔ دوسرے الفاظ میں کانگریس ایک مضبوط مرکزی حکومت جبکہ مسلم لیگ صوبائی خود مختاری کی خواہش مند تھی۔ جہاں تک کانگریس کی شرائط کا تعلق رہا۔ وائسرئے نے صرف ایک شرط جو سیاسی قیدیوں کی رہائی سے متعلق تھی کو منظور کرنے پر اپنی رضامندی ظاہر کی اور باقی تمام شرائط کو مسترد کر دیا۔ اس پر کانگریس نے ملک بھر میں سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ دوسری طرف آل انڈیا مسلم لیگ نے فروری 1930ء میں گول میز کانفرنس کی تجویز کی منظوری دیتے ہوئے حکومت کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا۔ گول میز کانفرنس کے تین دور ہوئے۔