متناسب نمائندگی
From Wikipedia, the free encyclopedia
متناسب نمائندگی ایک انتخابی نظام ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اس امر پر متفق ہیں کہ متناسب نمائندگی کا نظام زیادہ جمہوری ہے، اس میں قوم کی خواہش اور جماعتوں کی معاشرے میں حمایت زیادہ واضح انداز میں سامنے آتی ہے۔ مثلاً اگر کسی جماعت کا ووٹوں میں حصہ 30 فیصد ہے، تو اس کی پارلیمان میں بھی نشستیں 30 فیصد ہی ہوں گی۔ پارلیمان میں نمائندگی کی شرط اول صرف اور صرف اکثریت ہوتی ہے یعنی 50 فیصد سے زیادہ۔ اگر ایک حلقے میں لوگ اس انداز میں تقسیم ہو جائیں کہ کوئی بھی 50 فیصد ووٹ حاصل نہ کرے تو چوٹی کے دو امیدواروں میں پھر مقابلہ ہوتا ہے، ان میں سے یقینی طور پر کوئی ایک 51 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ یہ نظام اس وقت دنیا کے 80 سے زائد ممالک میں مختلف صورتوں میں رائج ہے۔ ان میں آسٹریا، ہنگری، سوئٹزرلینڈ، شمالی یورپ، بلجیئم، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن، جرمنی، فرانس، ترکی اور سری لنکا بھی شامل ہیں۔ ہر ملک نے اپنے مخصوص حالات کو دیکھتے ہوئے، ضرورت کے مطابق اس نظام میں تبدیلیاں کی ہوئی ہیں۔ مقصد اس نظام کو زیادہ سے زیادہ جمہوری، صاف وشفاف بنانا ہوتا ہے۔ متناسب نمائندگی کے بیش بہا فوائد ہیں۔ مثلاً اس نظام کی بدولت انتخابات روپے پیسے کا کھیل نہیں بنتے۔ سبب یہ ہے کہ مقابلہ حلقہ وار امیدواروں کی بجائے جماعتوں کے درمیان میں ہوتا ہے۔ ہر جماعت انتخابی مہم کے دوران میں اپنا منشور پیش کرتی ہے، قوم جماعتوں کے منشور اور کارکردگی کے مطابق اپنا فیصلہ سناتی ہے۔ جس جماعت کو جتنے زیادہ ووٹ ملتے ہیں، اسی تناسب سے اسے اسمبلیوں میں نشستیں الاٹ کردی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر ایک لاکھ ووٹ کا مطلب ایک نشست ہو تو جو جماعت بیس لاکھ ووٹ لے گی، اسے اسمبلی میں بیس نشستیں مل جائیں گی۔ سیاسی جماعتیں ووٹنگ کے عمل سے پہلے ایک مقررہ تاریخ تک اپنے امیدواروں کی فہرستیں الیکشن کمیشن کو فراہم کر دیتی ہیں، انتخابی نتائج کے بعد الیکشن کمیشن مذکورہ جماعت کی نشستوں کے مطابق فہرست میں بالترتیب ناموں کو پارلیمان کی رکنیت فراہم کر دیتا ہے۔ یاد رہے کہ الیکشن کمیشن ایسے ناموں کی فہرستیں موصول ہونے کے بعد ان تمام افراد کو اپنے آئین میں درج شرائط رکنیت کے مطابق پرکھتا ہے، جو پورا اترتا ہے، رکنیت کا استحقاق اسے ہی ملتا ہے۔ اس نظام انتخاب کا فائدہ یہ بھی ہے کہ پارلیمان تانگہ پارٹیوں سے نجات حاصل کرلیتی ہے کیونکہ ہرجماعت کا ایک خاص تعداد میں ووٹ لیناضروری ہوتاہے۔ یہ خاص تعداد کتنی ہوتی ہے، مختلف ممالک نے اپنے حالات کے مطابق اس کی شرح متعین کررکھی ہے۔ بعض ممالک میں یہ فہرستیں ووٹروں کے سامنے بھی پیش کی جاتی ہیں، وہی فیصلہ کرتے ہیں کہ ان کی پسندیدہ جماعت کے کون سے لوگوں کو پارلیمان میں جانا چاہیے۔ اس نظام کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ جماعتی وفاداریوں کی خرید و فروخت کی لعنت سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔
متناسب نمائندگی میں حلقہ وسیع وعریض ہوتا ہے، اس لیے انتخابی نظام اور پھر اس کے نتیجے میں جنم لینے والاسیاسی نظام بہت سی عصبیتوں سے نجات پالیتاہے۔ جماعتیں ایک مخصوص علاقے یا خطے کی بنیاد پر اپنا پروگرام ترتیب نہیں دے سکتیں بلکہ انھیں پورے ملک اور پوری قوم کو سامنے رکھ کر اپنا پروگرام وضع کرناپڑتاہے۔ پاکستان کے موجودہ انتخابی نظام میں آپ نے اکثردیکھاہوگا کہ بعض حکومتیں اپنی مرضی سے اس اندازمیں حلقہ بندی کرتی ہیں جو ان کے فائدہ میں ہوتی ہیں اور مخالفین کے لیے نقصان دہ۔ تاہم متناسب نمائندگی کا نظام ایسی بدعنوانیوں کو روکتاہے۔ اسی طرح اس میں ضمنی انتخابات وغیرہ کا جھنجٹ بھی ختم ہو جاتاہے، اگرکسی جماعت کا کوئی رکن انتقال کر جاتاہے یا کسی بھی طرح رکن پارلیمان نہیں رہتاتو پارٹی کی فہرست میں سے اگلے نام کو پارلیمان کی رکنیت کا حق دیدیاجاتاہے۔ یوں ضمنی انتخابات پر خرچ ہونے والا پیسہ بچ جاتاہے۔ اس وقت دنیا میں متناسب نمائندگی کی تین اقسام رائج ہیں:
متناسب نمائندگی کے نظام میں ایسا بھی ہوتاہے کہ پورا ملک ہی ایک حلقہ متصور ہوتا ہے اور ہرصوبہ بھی ایک حلقہ بن سکتاہے۔ عام طور پر جن ممالک میں متناسب نمائندگی کا نظام رائج ہے، وہاں صوبے زیادہ بڑے نہیں ہوتے اور ہرصوبہ کو ایک حلقہ تصور کیاجاتاہے۔ اگرکسی صوبے میں دس نشستیں ہیں، وہاں کسی جماعت نے پچاس فیصد ووٹ حاصل کر لیے، تو وہاں اسے پانچ نشستیں مل جائیں گی۔ پاکستان میں متناسب نمائندگی نظام اختیارکرنے کا مطالبہ کرنے والی جماعتوں میں جماعت اسلامی، تحریک استقلال، پاکستان عوامی تحریک شامل ہیں۔ اول الذکر دونوں جماعتیں ستر کی دہائی سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں۔ ان دنوں ملک میں انتخابی اصلاحات کا مطالبہ عام ہو رہاہے، جماعت اسلامی نے ایک بار پھر زوروشور سے اپنا پرانا مطالبہ دوہرانا شروع کر دیاہے۔ دوسری طرف پاکستان عوامی تحریک بھی چندبرسوں سے یکسو ہو چکی ہے کہ موجودہ نظام اسلامی تصورِ نمائندگی کے سراسر خلاف ہے،اس کے ذریعے عوامی اکثریت کی نمائندہ حکومت تشکیل نہیں پاتی، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، دھن، دھونس اور دھاندلی کا آزادانہ استعمال ہوتاہے، نااہل اور مفاد پرست افراد منتخب ہوتے ہیں، اس سے علاقائی اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتاہے،کمزور حکومتیں تشکیل پاتی ہیں اور سیاسی نظام میں عدم استحکام رہتاہے۔ اس نظام میں نمائندوں کا احتساب ممکن نہیں، نتیجتاً عوام اور رائے دہندگان کی عدم دلچسپی ایک سنگین مسئلہ بن جاتی ہے۔ یہ نظام قومی مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوتاہے۔ یقینا اس وقت مغربی دنیا کے کئی ممالک میں تناسبی اکثریت کا نظام رائج ہے تاہم وہ بھی اب متناسب نمائندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بعض ممالک میں متناسب نمائندگی کو مکمل طور پر اختیارکرلیاگیا ہے تاہم بعض ابھی تک اس نظام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مغربی دنیا کے موقرجریدے’دی اکانومسٹ‘ نے1991ء میں اپنے ایک اداریہ میں لکھاتھا: ’’موجودہ فرسٹ پاسٹ دی پوسٹ سسٹم غیر جمہوری ہے، صرف اسی ایک بنیادپر اس کی جگہ کوئی دوسرا نظام لانے کی ضرورت ہے‘‘۔ صرف اکانو مسٹ ہی نہیں، متعدد مغربی ماہرین بھی اپنے معاشروں میں یہی نظام اختیارکرنے پر زوردے رہے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم ابھی سے ہی اس نظام کواختیارکرلیں؟ کیا ضروری ہے کہ جب پورا مغرب اس نظام کو اختیارکرلے، پھر ہم اس کے لیے سوچناشروع کریں؟ آخرہرکام میں دیرکیوں؟